Pakistan news syndicate

Pakistan news syndicate News and Articles

25/09/2025

🇷🇺🇵🇰پاکستان اور روس جوہری تعاون کو وسعت دینے کے لیے تیار

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) کے چیئرمین انور علی نے ماسکو میں ورلڈ اٹامک ویک فورم میں سپوتنک کو بتایا کہ پاکستان اضافی مینوفیکچرنگ، ڈیٹا پروسیسنگ اور کوانٹم ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں روس کے Rosatom کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

انور علی نے اس بات پر زور دیا کہ جوہری پاور پلانٹس کی توسیع اور جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے بارے میں بات چیت اب عالمی سطح پر ہے، ممالک اس بات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ کس طرح جوہری ٹیکنالوجی پاور پلانٹس کو بہتر بنا سکتی ہے، اور آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

Today Badshah Khan  Column Published in daily IslamPAKISTAN🇵🇰 Saudi Arabia Relationship بادشاہ خان       پاکستان  سعودی ...
20/09/2025

Today Badshah Khan Column Published in daily Islam
PAKISTAN🇵🇰 Saudi Arabia Relationship
بادشاہ خان پاکستان سعودی عرب تعلقات میں اہم سنگ میل
پاک سعودی تعلقات میں اہم سنگ میل سے دنیا بلخصوص ہندوستان اور اسرائیل پریشان ہیں۔ اس دفاعی معاہدے کا تعلقات اگرچہ دونوں ملکوں کے مابین ہے، اس کا اسلامی فوج یاکسی اسلامی کاز کے حوالے سے ہرگز نہیں ہے، لیکن اس کے اثرات آنے والے دنوں میں اسلامی ممالک اور ان سے جڑے مسائل پر براہ راست ہوگا،سعودی عرب جس کا قومی دن اسی ماہ ستمبر کے تیئس ستمبر کو منایا جاتا ہے،اس سے قبل پاک سعودی دفاعی معاہدے نے ایک اچھا پیغام دیا ہے، اللہ کرے کہ اس اتحاد کو غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام کے لئے بھی فعال بنایا جائے، اور ایسا لگتا ہے کہ اب اسرائیل سعودی عرب کے خلاف جارحیت کی غلطی نہیں کرے گا،کیونکہ ایسا کرنے سے اس کا سامنا اس بار سعودی عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان سے ہوگا،اور شائد اس کے گریٹر اسرائیل کا خواب ہمیشہ کے لئے دفن ہوجائے۔
جس خبر سے امریکہ سمیت اسرائیل اور ہندوستان پریشان ہوگیا ہے،وہ پاکستان سعودی عرب کے مابین اسٹرٹیجک میوچل دیفنس اگریمنٹ ہے،ریاض میں بدھ کو ہونیوالے تاریخی معاہدے کے تحت کسی بھی ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔سعودی عرب اورایٹمی طاقت پاکستان کے درمیان ریاض میں جامع دفاعی معاہدہ ہوگیا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے پاک سعودی ''اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے'' (SMDA) معاہدے پر دستخط کیے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی 8دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری ہے، دونوں ممالک میں مشترکہ اسٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں معاہدہ ہوا، معاہدہ دونوں ممالک کی سلامتی کو بڑھانے کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، معاہدہ خطے اور دنیا میں امن کے حصول کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے‘دونوں برادر ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کی گہرائی اور دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا‘ موجودہ اور متوقع خطرات سے نمٹا اور دفاعی تعاون کے مختلف پہلووں کو فروغ دیا جائے گا۔
32 ملین سے زیادہ آبادی والے ریگستانی ملک جس میں دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر یعنی پورے دنیا کے ۵۲ فیصد تیل کا مالک سعودی عرب کا شمار دنیا کے دس مضبوط معیشتوں میں ہوتا ہے،تیئس ستمبر سعودی عرب کی جدید تاریخ میں اہم دن ہے ۔پاکستانی وزیراعظم نے سعودی قومی دن سے چند روز قبل سعودی عرب کا دورہ کیا،اور بردار ملک سعودی عرب کوہر ممکن ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی، دونوں ممالک نے ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے،،سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے ہمیشہ مثالی تعلقات رہے ہیں،اس دفاعی معاہدے سے مزید بہتر ی آئی گی ۔سعودی عرب پاکستان کا ہمیشہ سے قریبی بردار ملک ہے،پاکستان کا بردار ملک سعودی عرب مذہبی وتاریخی اعتبارسے ہمیشہ سے مشرق وسطی میں ممتاز رہا ہے۔جدید سعودی بادشاہت کی بنیاد 1932 میں شاہ عبدالعزیز نے رکھی،ان کے بعد شاہ سعود،شاہ فیصل،اور شاہ فہد،شاہ عبداللہ نے سعودی عرب اور امت مسلمہ کے لئے تاریخ ساز کام کئے۔حرمین شریفین کی توسیع ہو یا فلسطین،کشمیر کا مسئلہ، پاک بھارت جنگ ہو یا ایٹمی دھما کوں کے بعد پابندیاں،دنیا بھر میں قدرتی آفات ہوں یا جنگوں سے تباہ حال مسلمانوں کی مدد، یا خارجہ پالیسی،روس کے خلاف جہاد ہو یا حرمین شریفین کی خدمت۔ سعودی عرب کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا،دوسری جانب سعودی عرب کے اندر اسوقت جدید ترقیاتی منصوبے جاری ہیں،سعودی عرب کی حکومت نے شاہ سلمان کی قیادت میں چندبرس قبل بڑے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا، اور وژن 2030 اور قومی تبدیلی کے پروگرام 2020 کے تحت جاری منصوبوں پر کام کی رفتار بھی وقت کے ساتھ تیز ہوچکی ہے۔یہ جدید ترقیاتی منصوبے جن شعبوں میں مکمل کیے جارہے ہیں،ان میں انفراسٹرکچر،سیاحت،صحت، تعلیم اور مکانات کے شعبے شامل ہیں۔ سعودی حکومت پہلی بار مربوط علمی،معاشی تفریحی اور دینی منصوبوں پر جامع انداز میں کام کررہی ہے،جس کی ایک مثال شاہ عبداللہ مالیاتی مرکز کا منصوبہ دبئی کے بین الاقوامی مالیاتی مرکز کے طرز پر وضع کیا گیا ہے۔اس کے تحت بنکوں، مالیاتی خدمات مہیا کرنے والی کمپنیوں،مالیاتی آڈیٹرز، وکلاء سعودی مالیاتی مارکیٹ اور کیپٹل مارکیٹ اتھارٹی کو ایک ہی جگہ پر منتقل کردیا جائے گا۔ مدینۃ العلم اکنامک نالج سٹی سعودی عرب کے چھوٹے شہروں کے ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے۔
پاکستان میں تعینات سعودی عرب کے سفیر نواف سعیدالمالکی نے کئی بار اپنے بیانات میں کہا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے وژن 2030میں شرکت کا خواہش مند ہے،اور اس منصوبے کے مقاصد کے حصول کے لئے تمام شعبوں میں بھی باہمی اشتراک کا حامی ہے،پاکستانی عوام کے دل سعودی عرب کی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں،کئی لاکھ پاکستانی اس وقت ذریعہ معاش کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہیں۔اکتوبر ۵۰۰۲ کے زلزلے میں پاکستان کو سب سے زیادہ عطیات سعودی حکومت اور عوام نے دئیے۔اور اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں میں بھی سعودی امداد جاری ہے، لیکن بات اب امداد سے بڑھ کر معاشی تعاون کی جانب بڑھ رہی ہے،پاکستان نے بھی ہر موڑ پر سعودی عرب کا ساتھ دیا،پاکستان و سعودی عرب کی یہ دوستی کئی ممالک کو ایک آنکھ اچھی نہیں لگتی، اور کئی بار سازشیں کی گئی کہ دونوں ممالک میں دوریاں پیدا ہوا مگر دونوں ممالک کے رہنماوں، صحافیوں،و مذہبی قیادت نے بردار ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کیا،جس کی وجہ سے پاکستان و سعودی عرب کے درمیان کئی معاشی ترقی کے کئی معاہدے ہوئے ہیں، مزید کام ہوسکتا ہے،جس پر نہیں ہورہا۔رہی بات غزہ اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی تو اللہ کے فیصلے ہونے کو ہیں، عرب ممالک کونہ چاہتے ہوئے بھی اسرائیل کا سامنا کرنا پڑے گا،عرب عجم کا فلسفہ اب دفن کرنا ہوگا، ورنہ عرب کے لئے تباہی لکھ دی گئی ہے،چاہے وہ جنگ کی صورت میں ہو یا اسلامی اقدار سے دوری کی وجہ سے،پاکستان سمیت ترکی،ایران کے عجمیوں کے ساتھ ساتھ عرب کا مستقبل اسلام سے ہی بلندہوگا،ورنہ گریٹر اسرائیل اور امریکی منصوبے بے نقاب ہوچکے ہیں۔

GLOBAL SUMUD FLOTILLA  Pakistani team
11/09/2025

GLOBAL SUMUD FLOTILLA Pakistani team

03/09/2025
Today Badshah Khan  Report Published in Nawa I Jang LondonRussian US President meeting and Ukrainian Warبادشاہ خان      ...
24/08/2025

Today Badshah Khan Report Published in Nawa I Jang London
Russian US President meeting and Ukrainian War
بادشاہ خان روسی و امریکی صدور کی ملاقات اور یوکرین جنگ
مغربی میڈیا میں جس ملاقات کا شور تھا،وہ ملاقات ہوگئی،کتنی کامیاب رہی؟ اور کون کامیاب رہا؟ بہت جلد سامنے آجائیگا،اس وقت تو روسی میڈیا اور مغربی میڈیا دونوں پر تبصرے جاری ہیں، البتہ ایک بات واضح ہے کہ ایسی اہم ملاقاتیں رائیگاں نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی تفصیلات برسوں تک سامنے نہیں آتی، روسی صدر ولادی میر پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین الاسکا ملاقات بغیر کسی نتیجے کے بظاہر ختم ہوگئی،بیانات،ملاقات اور میڈیا پر ملاقات کا شور غالب رہا، کوئی امن معاہدہ یوکرین کے حوالے سے سامنے نہیں آیا، البتہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کو دس میں سے دس نمبر دیئے، دنیا کو اس ملاقات سے بہت توقعات تھی، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بات طے نہیں ہوسکی یا، چند امور پر خاموشی سے اتفاق ہوگیا ہے، جس کی تشہیر دونوں حکمران نہیں کرنا چاہتے،البتہ ایک بات واضح ہے کہ یوکرین سمیت یورپ کے رہنماوں کو نظر اندازکیا ہے، جس سے نیٹو کا مستقبل ختم ہوسکتا ہے، شائد یورپ اب امریکہ کے بغیر فوجی اور دفاعی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرینگے اور اس سے یورپ کے اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے گا، شائد دونوں عالمی طاقتیں یہی چاہتی ہیں، خیر اس ملاقات کے حوالے امریکہ و روسی میڈیا بہت زیادہ پرامید تھا، لیکن،دونوں صدور کی مشترکہ خطاب کے موقع پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب نہیں دیئے گئے البتہ تجزیئے اور تبصرے جاری ہیں۔
ملاقات کے حوالے سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا لیکن روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ یوکرین مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان ممکنہ زمینی تبادلوں کا فیصلہ مکمل طور پر کییف پر منحصر ہے۔الاسکا میں تقریبا تین گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔‘روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازعے کو ختم کرنے میں ’خلوص دل سے دلچسپی‘ رکھتے ہیں، تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں دیں۔دونوں صدور نے پریس کے سوالات کے جواب نہیں دیے۔مذاکرات کے بعد ایک انٹرویو میں امریکی صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر زور دیا کہ وہ کوئی ’معاہدہ کرلیں‘۔
ایئرپورٹ پر ہونے والی ملاقات میں کافی گرمجوشی دکھائی دی اور دونوں نے دو بار مصافحہ بھی کیا اور پھر دونوں ٹرمپ کی لیمو کار میں سوار ہو کر ملاقات کی جگہ کے لیے روانہ ہو گئے۔دوسری جانب کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ہونے والی ملاقات کو ’انتہائی مثبت‘ قرار دیا ہے روس صدر ولادی میر پوٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اگلی بار ماسکو میں ملاقات کی دعوت دیدی۔
روسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماوں نے مکمل بیانات دیے‘ اس لیے سوالات لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
بی بی سی کے شمالی امریکہ کے نمائندے کے مطابق ’وہ شخص جو خود کو ’امن ساز‘ اور ’ڈیل میکر‘ کے طور پر پیش کرنا پسند کرتا ہے بظاہر لگتا ہے کہ وہ الاسکا کو ان میں سے کوئی چیز حاصل نہیں کر پائیں ہیں۔‘بی بی سی مانیٹرنگ میں روسی زبان کے ایڈیٹر وٹالی شیوچنکو لکھتے ہیں کہ سالوں کی کوششوں کے باوجود روسی صدر کے ذہن کو نہیں بدلا جا سکا۔

اس ملاقات کے بعدیوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کی۔ رہنماؤں نے پہلے دو طرفہ فارمیٹ میں تقریباً ایک گھنٹے تک بات چیت کی جس کے بعد ایک بات چیت ہوئی جس میں یورپی رہنما بھی شامل ہوئے۔
گفتگو کے شرکاء میں شامل تھے: امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، امریکہ کے خصوصی صدارتی ایلچی اسٹیو وٹ کوف، فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون، فن لینڈ کے صدر الیگزینڈر اسٹب، جرمنی کے وفاقی چانسلر فریڈرک مرز، برطانیہ کے وزیر اعظم کیر سٹارمر، اٹالوی کے صدر میلونی کے صدر، پولینڈ کے صدر، کرورو کے صدر۔ یورپی کمیشن Ursula von der Leyen، یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا، اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے شامل ہوئے۔
یوکرین کے صدرولادی میرزیلنسکی نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین حقیقی امن کے لیے ممکنہ حد تک نتیجہ خیز کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ امریکی صدر نے الاسکا میں روسی رہنما کے ساتھ اپنی ملاقات اور ان کی بات چیت کے اہم نکات کے بارے میں بتایا۔ کہ امریکہ کی طاقت صورتحال کی ترقی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یوکرین صدر ولادی میر زیلنسکی نے زور دے کر کہا کہ وہ یوکرین، امریکہ اور روس کے درمیان سہ فریقی اجلاس کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں، کیونکہ انتہائی اہم اور حساس معاملات پر صرف رہنماؤں کی سطح پر ہی بات کی جا سکتی ہے، اور ایسا فارمیٹ اس کے لیے موزوں ہے۔یوکرین اور امریکہ کے صدور نے پیر 18 اگست کو واشنگٹن میں اپنی ملاقات کے دوران تمام تفصیلات پر مزید تفصیل سے بات کرنے پر اتفاق کیا۔ ولادیمیر زیلنسکی نے دعوت پر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔
یوکرین کے لیے ایک قابل اعتماد سیکورٹی ڈھانچہ کو یقینی بنانے کے لیے یورپی شراکت دار، امریکہ کے ساتھ مل کر، ہر مرحلے میں شامل ہوں۔ ولادی میر زیلنسکی نے ان ضمانتوں میں شرکت کے حوالے سے امریکی جانب سے مثبت اشاروں کا خیر مقدم کیا، جن پر بات چیت کے دوران بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کا احوال کیا سامنے آتا ہے۔بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نوبل انعام کے لئے یورپی یونین اور یوکرین پر دباو ڈالنے کی کوشش کریگا، اصل فریق یوکرین اور اس کی عوام یوکرین کے حصے بخرے کرنے پر راضی ہوتے ہیں، یا انکار کرتے ہیں، جبکہ یورپی یونین کا بھی بڑا امتحان ہے،ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شائد یورپی یونین امریکی دباوسے نکلنے کے لئے نئے فیصلے کرسکتی ہے۔
کیونکہ انہیں نوبل انعام سے زیادہ اپنی مفادات کی فکر ہے۔
Russia 🇷🇺

Today Badshah Khan  Column Published in Daily Islam Alaska  Meeting and Ukrainian Warبادشاہ خان        روسی  و امریکی صد...
20/08/2025

Today Badshah Khan Column Published in Daily Islam
Alaska Meeting and Ukrainian War
بادشاہ خان روسی و امریکی صدور کی ملاقات اور یوکرین جنگ
مغربی میڈیا میں جس ملاقات کا شور تھا،وہ ملاقات ہوگئی،کتنی کامیاب رہی؟ اور کون کامیاب رہا؟ بہت جلد سامنے آجائیگا،اس وقت تو روسی میڈیا اور مغربی میڈیا دونوں پر تبصرے جاری ہیں، البتہ ایک بات واضح ہے کہ ایسی اہم ملاقاتیں رائیگاں نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی تفصیلات برسوں تک سامنے نہیں آتی، روسی صدر ولادی میر پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین الاسکا ملاقات بغیر کسی نتیجے کے بظاہر ختم ہوگئی،بیانات،ملاقات اور میڈیا پر ملاقات کا شور غالب رہا، کوئی امن معاہدہ یوکرین کے حوالے سے سامنے نہیں آیا، البتہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کو دس میں سے دس نمبر دیئے، دنیا کو اس ملاقات سے بہت توقعات تھی، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بات طے نہیں ہوسکی یا، چند امور پر خاموشی سے اتفاق ہوگیا ہے، جس کی تشہیر دونوں حکمران نہیں کرنا چاہتے،البتہ ایک بات واضح ہے کہ یوکرین سمیت یورپ کے رہنماوں کو نظر اندازکیا ہے، جس سے نیٹو کا مستقبل ختم ہوسکتا ہے، شائد یورپ اب امریکہ کے بغیر فوجی اور دفاعی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرینگے اور اس سے یورپ کے اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے گا، شائد دونوں عالمی طاقتیں یہی چاہتی ہیں، خیر اس ملاقات کے حوالے امریکہ و روسی میڈیا بہت زیادہ پرامید تھا، لیکن،دونوں صدور کی مشترکہ خطاب کے موقع پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب نہیں دیئے گئے البتہ تجزیئے اور تبصرے جاری ہیں۔
ملاقات کے حوالے سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا لیکن روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ یوکرین مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان ممکنہ زمینی تبادلوں کا فیصلہ مکمل طور پر کییف پر منحصر ہے۔الاسکا میں تقریبا تین گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔‘روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازعے کو ختم کرنے میں ’خلوص دل سے دلچسپی‘ رکھتے ہیں، تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں دیں۔دونوں صدور نے پریس کے سوالات کے جواب نہیں دیے۔مذاکرات کے بعد ایک انٹرویو میں امریکی صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر زور دیا کہ وہ کوئی ’معاہدہ کرلیں‘۔
ایئرپورٹ پر ہونے والی ملاقات میں کافی گرمجوشی دکھائی دی اور دونوں نے دو بار مصافحہ بھی کیا اور پھر دونوں ٹرمپ کی لیمو کار میں سوار ہو کر ملاقات کی جگہ کے لیے روانہ ہو گئے۔دوسری جانب کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ہونے والی ملاقات کو ’انتہائی مثبت‘ قرار دیا ہے روس صدر ولادی میر پوٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اگلی بار ماسکو میں ملاقات کی دعوت دیدی۔
روسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماوں نے مکمل بیانات دیے‘ اس لیے سوالات لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
بی بی سی کے شمالی امریکہ کے نمائندے کے مطابق ’وہ شخص جو خود کو ’امن ساز‘ اور ’ڈیل میکر‘ کے طور پر پیش کرنا پسند کرتا ہے بظاہر لگتا ہے کہ وہ الاسکا کو ان میں سے کوئی چیز حاصل نہیں کر پائیں ہیں۔‘بی بی سی مانیٹرنگ میں روسی زبان کے ایڈیٹر وٹالی شیوچنکو لکھتے ہیں کہ سالوں کی کوششوں کے باوجود روسی صدر کے ذہن کو نہیں بدلا جا سکا۔

اس ملاقات کے بعدیوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کی۔ رہنماؤں نے پہلے دو طرفہ فارمیٹ میں تقریباً ایک گھنٹے تک بات چیت کی جس کے بعد ایک بات چیت ہوئی جس میں یورپی رہنما بھی شامل ہوئے۔
گفتگو کے شرکاء میں شامل تھے: امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، امریکہ کے خصوصی صدارتی ایلچی اسٹیو وٹ کوف، فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون، فن لینڈ کے صدر الیگزینڈر اسٹب، جرمنی کے وفاقی چانسلر فریڈرک مرز، برطانیہ کے وزیر اعظم کیر سٹارمر، اٹالوی کے صدر میلونی کے صدر، پولینڈ کے صدر، کرورو کے صدر۔ یورپی کمیشن Ursula von der Leyen، یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا، اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے شامل ہوئے۔
یوکرین کے صدرولادی میرزیلنسکی نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین حقیقی امن کے لیے ممکنہ حد تک نتیجہ خیز کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ امریکی صدر نے الاسکا میں روسی رہنما کے ساتھ اپنی ملاقات اور ان کی بات چیت کے اہم نکات کے بارے میں بتایا۔ کہ امریکہ کی طاقت صورتحال کی ترقی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یوکرین صدر ولادی میر زیلنسکی نے زور دے کر کہا کہ وہ یوکرین، امریکہ اور روس کے درمیان سہ فریقی اجلاس کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں، کیونکہ انتہائی اہم اور حساس معاملات پر صرف رہنماؤں کی سطح پر ہی بات کی جا سکتی ہے، اور ایسا فارمیٹ اس کے لیے موزوں ہے۔یوکرین اور امریکہ کے صدور نے پیر 18 اگست کو واشنگٹن میں اپنی ملاقات کے دوران تمام تفصیلات پر مزید تفصیل سے بات کرنے پر اتفاق کیا۔ ولادیمیر زیلنسکی نے دعوت پر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔
یوکرین کے لیے ایک قابل اعتماد سیکورٹی ڈھانچہ کو یقینی بنانے کے لیے یورپی شراکت دار، امریکہ کے ساتھ مل کر، ہر مرحلے میں شامل ہوں۔ ولادی میر زیلنسکی نے ان ضمانتوں میں شرکت کے حوالے سے امریکی جانب سے مثبت اشاروں کا خیر مقدم کیا، جن پر بات چیت کے دوران بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کا احوال کیا سامنے آتا ہے۔بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نوبل انعام کے لئے یورپی یونین اور یوکرین پر دباو ڈالنے کی کوشش کریگا، اصل فریق یوکرین اور اس کی عوام یوکرین کے حصے بخرے کرنے پر راضی ہوتے ہیں، یا انکار کرتے ہیں، جبکہ یورپی یونین کا بھی بڑا امتحان ہے،ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شائد یورپی یونین امریکی دباوسے نکلنے کے لئے نئے فیصلے کرسکتی ہے۔
کیونکہ انہیں نوبل انعام سے زیادہ اپنی مفادات کی فکر ہے۔
Embassy of Russia in Pakistan
Links below
https://www.dailyislam.pk/epaper/daily/2025/august/20-08-2025/page4.html

Today Badshah Khan  Column published in Daily JinnahCivil bureaucracy and System changeبادشاہ خان          سول بیوروکریس...
09/08/2025

Today Badshah Khan Column published in Daily Jinnah
Civil bureaucracy and System change
بادشاہ خان سول بیوروکریسی یا نظام کی تبدیلی

پاکستان میں ایک بار پھر بحث چل پڑی ہے کہ اس نظام نے ملک کو کیا دیا، نام نہاد جمہوری نظام جس میں بنیادی سہولیات سے لیکر امن اور انصاف تک ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے، یہ نظام ڈیلور کرنے میں ناکام کیوں رہا ہے؟ کیا سول بیور کریسی اس کی راہ میں بڑی روکاٹ رہی ہے؟ یا سیاست دان یا ریاستی ادارے، کئی سوال ہیں،البتہ ایک بات واضح ہے کہ کہ سول سرونٹ یعنی نوکر شاہی کا وہ نظام جو انگریز نے ترتیب دیا تھا،ان کی حکمرانی پانچ سال نہیں بلکہ تیس سال تک مسلسل رہتی ہے اور اس کے بعد بھی یہ پس پشت حکمران ہی رہتے ہیں، رہی بات سیاستدانوں کی تو یہ چند روپوں اور پروجیکسٹس پر دستخط کروانے کے بعد اس نوکری شاہی کی خاموش مددگار ہوتی ہے، پچھتر برس گذرنے کے باوجود اس نوکر شاہی کا نام صرف تبدیل ہوکر رہ گیا ہے، یہ سول بیوروکریٹس ہی ہیں جو کہ اسمبلیوں سے لیکر عدالتوں کے احکامات میں روکاٹیں ڈالتے ہیں، اور کاغذی کاروائیاں کر کرکے وقت کو ضائع کرتے ہیں۔البتہ جہاں ان کا مفاد اور حصہ ہو وہاں کاغذوں کو پر لگ جاتے ہیں، پولیس سے لیکر کسٹم تک ایف آئی اے سے لیکر منجمنٹ تک ہر جگہ سول بیوروکریسی کے کرپشن کی ہزار داستانیں ہیں، لیکن کوئی ان کے خلاف ایکشن لینے کو تیار نہیں، صحافی بھی گھوم پھیر کر سیاست دانوں اور مذہبی رہنماوں اور چند تاجروں کے خلاف لکھ کر خوش ہوجاتے ہیں، یا انہیں بلیک میل کرتے ہیں، لیکن بات اگر کسٹم آفیسرز کی ہو تو وہاں یہ چپ ہوجاتے ہیں، شائد ان کے مفادات جڑے ہوئے ہیں،اسی طرح کرائم رپورٹرز ڈی آئی جی کے ساتھ تصویر میں آنے کے لئے بیتاب نظر آتے ہیں، یہی وہ وجوہات کہ اس نظام سے بھروسہ ختم ہوگیا ہے، پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر بنا تھا،اس میں اسلامی نظام نفاذ نہیں ہوسکا، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے باوجود سودی نظام کو ختم کرنے میں یہی سول بیوروکریسی روکاٹ ہے، رہی بات ان کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تو،وزارت خارجہ کے افسران و ملازمین سے لیکر ہر شعبے طبقے کے صرف پرتگال میں نہیں دنیا بھر کے ملکوں کے شہری ہیں،سوائے چند ایک کو چھوڑ کر ہر افسر ہر نوکر اس چکر میں ہے کہ کسی طرح وہ یورپ و دیگر ممالک میں اپنے خاندان کو سیٹ کرواسکے، یہی وہ وجوہات جس کی وجہ سے پاکستان نوجوان طبقہ اس نظام سے مایوس ہے، وہ حقیقی تبدیلی چاہتا ہے، وہ اس گلے سڑے نظام کا خاتمہ چاہتا ہے، اور جن کو یہ احساس ہورہا ہے کہ تبدیلی نہیں آسکتی وہ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، اس سال صرف چھ ماہ میں تین لاکھ سے زیادہ افراد ملک سے جاچکے ہیں، اور مزید ملک چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یہ سول بیوروکریسی ہی ہے جس نے سابقہ فاٹا اور اور بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کے بجائے ملک، سرداروں کو مضبوط کیا، یہ سول بیوروکریسی ہے کہ جو صرف کاغذی کاروائیوں پر کھیلتی ہے، یہ سول بیوروکریسی ہی ہے کہ کونسلر سے لیکر ضلعی چئیرمین تک، صوبائی اسمبلی کے ممبر سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کو چند ذاتی فوائد دیکر عوام کو حقیقی فوائد سے محروم رکھتی ہے، ان کو پیٹرول،ڈیزل سے لیکر بجلی گیس تک میں رعایت ہے اور عوام کو لوڈشیڈنگ مہنگی بجلی گیس بے روزگاری کا سامنا ہے، ان کے خاندان کے افراد کو سرکاری نوکری گھر بیٹھے مل جاتی ہے، اور عوام کی کیثر تعداد کے نوجوان بے روزگار رہتے ہیں،کیا مزید یہ نظام اور اس سے مستفیذ ہونے والے طبقے کی حکمرانی کے خاتمے وقت نہیں آیا؟ سوا ل ہے،کیا پاکستان میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا اب بھی ایک جماعت کی مخالفت میں تبدیلی یا نظام کی تبدیلی سے انکار جائز ہے؟
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وطن عزیز کی آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں پراپرٹی لے چکی ہے اور شہریت لینی کی تیاری کر رہی ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا یہ نامی گرامی بیوروکریٹس ہیں، مگر مچھ اربوں روپے کھا کے آرام سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ بزدار کا ایک قریب ترین بیوروکریٹ بیٹیوں کی شادی پر صرف چار ارب سلامی وصول کر چکا’اب آرام سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہے۔وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ سیاستدان تو ان کا بچا کھچا کھاتے ہیں، ان کے پاس پلاٹ ہے نہ غیر ملکی شہریت کیونکہ الیکشن لڑنا ہوتا ہے۔
خواجہ صاحب باتوں سے کچھ نہیں ہوتا آپ خود پچھلے چالیس برسوں سے اسی نظام کا حصہ ہیں، آپ نے ہی چالیس برسوں میں اس نظام کو مضبوط کیا ہے، آپ کی جماعت ہی اس ملک میں اسلامی نظام کی راہ میں بڑی روکاٹ رہی ہے، آپ کی جماعت ان کے اشاروں پر نانچتی رہی ہے، چودہ آگست ایک بار پھر آنے کو ہے، لیکن پاکستان آج بھی کالے انگریز کے اشاروں پر چل رہاہے، اسرئیل کو تسلیم کرنے کے لئے ذہین سازی کی جاری ہے، کشمیر کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، خواجہ صاحب آپ کو ہندوستان میں ستارے اور مسلم پڑوسی ملک افغانستان میں کانٹے نظر آتے ہیں، اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے صرف بیانات سے کام نہیں چلے گا،۔
حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب نوجوان سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے چکر سے نکل کر باہر آئیں گئے،ورنہ یہ سیاسی مداری اپنے مفادات کے لئے ملک میں نظام تبدیل نہیں کرینگے،رہی بات کونسا نظام لانا ہوگا، اسلام اور اسلامی نظام ہی وہ راہ ہے کہ جس پر عمل کرکے ان بحرانوں سے نکلا جاسکتا ہے، ورنہ بلوچستان، اور قبائل کی صورت حال سب کے سامنے ہے، سول بیوروکریسی اور اس کی پشت پر موجود قوتوں کا سدباب تب ہی ممکن ہے کہ جب کرپشن کی تحقیقات کا آغاز ان سے کیا جائے، لیکن کون کرے گا،کیونکہ اسٹبلشمنٹ کا نظام اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔

**طورخم بارڈر پر 14اگست سے ( ITTMS) ٹرمینل کے افتتاح کے بعد. ٹرمینل میں کھڑے مال بردار گاڑیوں اور خالی گاڑیوں سے این ایل...
28/07/2025

**طورخم بارڈر پر 14اگست سے ( ITTMS) ٹرمینل کے افتتاح کے بعد. ٹرمینل میں کھڑے مال بردار گاڑیوں اور خالی گاڑیوں سے این ایل سی حکام مزکورہ رقم. روپے وصول کریگی. طورخم بارڈر پر این ایل سے حکام نے پمفلٹ لگا دئے گئے.**

Today Nawa I Jang Published Badshah Khan  ReportTrance Afghan Railway and Bagram AirBais
28/07/2025

Today Nawa I Jang Published Badshah Khan Report
Trance Afghan Railway and Bagram AirBais

Today badshah Khan  column published in daily islamSyria the center of world War   ایک حدیث میں ارشاد ہے :اہل شام میں فس...
27/07/2025

Today badshah Khan column published in daily islam
Syria the center of world War

ایک حدیث میں ارشاد ہے :
اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور میری (اُمت میں سے) کچھ لوگوں کی (حق پر ہونے کی وجہ سے) مدد کی جاتی رہے گی اور انہیں کسی کے ترک تعاون کی کوئی پروا نہ ہوگی، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (مسند احمد ج ١٣)

یہ شام ہے، انبیاء کی سرزمین۔ اگر اس میں خیر باقی نہ رہی تو دنیا میں خیر کی کوئی تمنا باقی نہ رہے گی۔ ہتھیاروں کے عالمی سوداگر ایک بار پھر جنگ کی بھٹی بھڑکانا چاہتے ہیں۔ نئی امریکی حکومت نے مبہم اعلانات کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ شام، افغانستان اور دیگر مسلم خطوں سے متعلق ان کی جنگی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکی افواج کا شام میں داخل ہونے کا منصوبہ زیرِ غور ہے، تاکہ گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کی جا سکیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ شام ہی ایک ایسی بڑی جنگ کا مرکز ہوگا کہ اس کی تباہی کے اثرات سے فارس اور روم بھی جل اٹھیں گے۔ حالیہ دنوں جنگ کے سائے جس طرح شام کی بڑھ رہے ہیں، اس میں ترکی کے ردعمل کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں کہ غزہ جل رہا ہے، قحط سے مسلمان مر رہے ہیں، جبکہ اقوامِ متحدہ، عرب لیگ، او آئی سی، فیشن شوز، کلچرل پروگراموں اور فضول مشغولیات میں مصروف ہیں۔ یہ آگ عرب ممالک کے نوجوانوں کو اپنے حکمرانوں سے مزید دور کرے گی، اور پھر کیا ہوگا؟ یہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ نابینا اور بے حس لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔

مسلم حکمرانوں سمیت دنیا کی خاموشی، انسانیت کے نام پر ایک بدترین دھبا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ شام، جو انبیاء کی سرزمین ہے، آخری معرکے کا میدان بھی ہے، مگر اس سے پہلے یہاں صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ ہر طرف بچوں اور خواتین کی چیخ و پکار ہے، اقوامِ متحدہ کی خاموشی، انسانی حقوق کے اداروں کی بے حسی، اور او آئی سی کا مجرمانہ سکوت جبکہ دوسری طرف غزہ مکمل طور پر جل چکا ہے، تباہی کے آخری دہانے پر ہے۔ امتِ مسلمہ بدستور غفلت میں ہے۔ فلسطین، کشمیر، اور اب شام، ہر طرف تباہی کا منظر نامہ ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے، مگر اسلامی دنیا کے حکمران ابھی بھی حرکت میں آنے کو تیار نہیں۔ مشرقی غوطہ کی تباہی پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی، شامی بچوں کی خون آلود آنکھیں، چیختے جسم، اور امت کی بے حسی، ان سب پر آسمان بھی نوحہ کناں ہے۔

ادھر پاکستان میں دانش فروش طبقہ میرے مسلمان شامی بھائیوں پر ہونے والے مظالم کو ان کا ذاتی مسئلہ قرار دے کر قوم کو گمراہ کر رہا ہے، جبکہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں میرے بھائی کہا ہے۔ یہ ایک عالمی پراکسی وار ہے اور اس کا ایک بڑا ہدف پاکستان بھی ہے۔ یہ بے دین، بے ضمیر طبقہ ایجنڈا سیٹنگ کے تحت اسلامی شعائر کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ شام کی مظلوم قوم پر پہلے بشارالاسد نے بدترین مظالم کیے، اب ایران اور اسرائیل کی بیرونی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ترکی نے اگرچہ پہلی بار واضح ردعمل دیا ہے، مگر یہ ردعمل اسلامی بھائی چارے سے زیادہ اپنے مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔

گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کو تقسیم کیا جائے۔ کرد قبیلے کے علاقے شام، عراق اور ترکی کے درمیان منقسم ہیں اور تینوں نے ان کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ اگر شام میں کرد الگ ہوتے ہیں، تو ترکی کے کرد بھی اٹھ کھڑے ہوں گے، جنہیں شامی کرد اور دیگر خفیہ قوتیں سہارا دیں گی۔ عراقی کرد پہلے ہی نیم خودمختار حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی کرد اکائی تینوں ملکوں کی سرحدوں پر موجود ہے اور ان کے درمیان لکیر کسی بھی وقت مٹ سکتی ہے۔ آزاد کردستان کا خواب تیزی سے حقیقت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ وہ نازک صورت حال ہے جس نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی کو بھی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے، اور آنے والے دنوں میں اس کی شدت مزید بڑھ سکتی ہے مگر چند ممالک اپنے ذاتی مفادات کے تحت آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف مغرب اور اس کا ناجائز بچہ اسرائیل پسِ پردہ ڈوریاں ہلا رہا ہے، مختلف گروہوں سے خفیہ روابط قائم ہیں، اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب ہو سکتا ہے (اللہ کرے ایسا نہ ہو۔) اگر ایسا ہوا تو چند برسوں میں کئی چھوٹے چھوٹے مسلم ممالک وجود میں آئیں گے اور اسرائیل کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہوگا (اب بھی نہیں ہے۔) گریٹر اسرائیل کے فری میسن منصوبے میں خیبر بھی شامل ہے، جو سعودی عرب میں واقع ہے، وہی خیبر، جہاں سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا تھا۔ شام کی تباہی، دنیا کی تباہی کی بنیاد بن چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگ کب اور کس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے۔ طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ بس سوال یہ ہے کہ اس سے کون محفوظ رہے گا؟ شام کی بربادی، انسانیت کی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ اگر کسی کو ادراک ہے، تو وہ ضرور اس آگ کی تپش کو محسوس کر رہا ہے۔ اللہ امت مسلمہ پر رحم فرمائے، آمین۔
https://dailyislam.pk/?p=125413&fbclid=IwQ0xDSwLy5b1leHRuA2FlbQIxMAABHgSd_USbSH-REHcMsIDhxeI4OZfGkysGQIQo0g0ECq5cbZOCIQ0LW4FoK3jk_aem_NLX0pseHyD9k_zRg7HCOrg

شام عالمی جنگ کا مرکز فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ کالم ویب ڈیسک 2025-07-272025-07-27 0 تبصرے 40  مناظر ایک حدیث میں ارشاد ہے : اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور ....

Address

Karachi
75010

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pakistan news syndicate posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pakistan news syndicate:

Share