Pakistan news syndicate

Pakistan news syndicate News and Articles

**طورخم بارڈر پر 14اگست سے ( ITTMS) ٹرمینل کے افتتاح کے بعد. ٹرمینل میں کھڑے مال بردار گاڑیوں اور خالی گاڑیوں سے این ایل...
28/07/2025

**طورخم بارڈر پر 14اگست سے ( ITTMS) ٹرمینل کے افتتاح کے بعد. ٹرمینل میں کھڑے مال بردار گاڑیوں اور خالی گاڑیوں سے این ایل سی حکام مزکورہ رقم. روپے وصول کریگی. طورخم بارڈر پر این ایل سے حکام نے پمفلٹ لگا دئے گئے.**

Today Nawa I Jang Published Badshah Khan  ReportTrance Afghan Railway and Bagram AirBais
28/07/2025

Today Nawa I Jang Published Badshah Khan Report
Trance Afghan Railway and Bagram AirBais

Today badshah Khan  column published in daily islamSyria the center of world War   ایک حدیث میں ارشاد ہے :اہل شام میں فس...
27/07/2025

Today badshah Khan column published in daily islam
Syria the center of world War

ایک حدیث میں ارشاد ہے :
اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور میری (اُمت میں سے) کچھ لوگوں کی (حق پر ہونے کی وجہ سے) مدد کی جاتی رہے گی اور انہیں کسی کے ترک تعاون کی کوئی پروا نہ ہوگی، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (مسند احمد ج ١٣)

یہ شام ہے، انبیاء کی سرزمین۔ اگر اس میں خیر باقی نہ رہی تو دنیا میں خیر کی کوئی تمنا باقی نہ رہے گی۔ ہتھیاروں کے عالمی سوداگر ایک بار پھر جنگ کی بھٹی بھڑکانا چاہتے ہیں۔ نئی امریکی حکومت نے مبہم اعلانات کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ شام، افغانستان اور دیگر مسلم خطوں سے متعلق ان کی جنگی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکی افواج کا شام میں داخل ہونے کا منصوبہ زیرِ غور ہے، تاکہ گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کی جا سکیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ شام ہی ایک ایسی بڑی جنگ کا مرکز ہوگا کہ اس کی تباہی کے اثرات سے فارس اور روم بھی جل اٹھیں گے۔ حالیہ دنوں جنگ کے سائے جس طرح شام کی بڑھ رہے ہیں، اس میں ترکی کے ردعمل کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں کہ غزہ جل رہا ہے، قحط سے مسلمان مر رہے ہیں، جبکہ اقوامِ متحدہ، عرب لیگ، او آئی سی، فیشن شوز، کلچرل پروگراموں اور فضول مشغولیات میں مصروف ہیں۔ یہ آگ عرب ممالک کے نوجوانوں کو اپنے حکمرانوں سے مزید دور کرے گی، اور پھر کیا ہوگا؟ یہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ نابینا اور بے حس لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔

مسلم حکمرانوں سمیت دنیا کی خاموشی، انسانیت کے نام پر ایک بدترین دھبا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ شام، جو انبیاء کی سرزمین ہے، آخری معرکے کا میدان بھی ہے، مگر اس سے پہلے یہاں صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ ہر طرف بچوں اور خواتین کی چیخ و پکار ہے، اقوامِ متحدہ کی خاموشی، انسانی حقوق کے اداروں کی بے حسی، اور او آئی سی کا مجرمانہ سکوت جبکہ دوسری طرف غزہ مکمل طور پر جل چکا ہے، تباہی کے آخری دہانے پر ہے۔ امتِ مسلمہ بدستور غفلت میں ہے۔ فلسطین، کشمیر، اور اب شام، ہر طرف تباہی کا منظر نامہ ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے، مگر اسلامی دنیا کے حکمران ابھی بھی حرکت میں آنے کو تیار نہیں۔ مشرقی غوطہ کی تباہی پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی، شامی بچوں کی خون آلود آنکھیں، چیختے جسم، اور امت کی بے حسی، ان سب پر آسمان بھی نوحہ کناں ہے۔

ادھر پاکستان میں دانش فروش طبقہ میرے مسلمان شامی بھائیوں پر ہونے والے مظالم کو ان کا ذاتی مسئلہ قرار دے کر قوم کو گمراہ کر رہا ہے، جبکہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں میرے بھائی کہا ہے۔ یہ ایک عالمی پراکسی وار ہے اور اس کا ایک بڑا ہدف پاکستان بھی ہے۔ یہ بے دین، بے ضمیر طبقہ ایجنڈا سیٹنگ کے تحت اسلامی شعائر کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ شام کی مظلوم قوم پر پہلے بشارالاسد نے بدترین مظالم کیے، اب ایران اور اسرائیل کی بیرونی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ترکی نے اگرچہ پہلی بار واضح ردعمل دیا ہے، مگر یہ ردعمل اسلامی بھائی چارے سے زیادہ اپنے مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔

گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کو تقسیم کیا جائے۔ کرد قبیلے کے علاقے شام، عراق اور ترکی کے درمیان منقسم ہیں اور تینوں نے ان کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ اگر شام میں کرد الگ ہوتے ہیں، تو ترکی کے کرد بھی اٹھ کھڑے ہوں گے، جنہیں شامی کرد اور دیگر خفیہ قوتیں سہارا دیں گی۔ عراقی کرد پہلے ہی نیم خودمختار حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی کرد اکائی تینوں ملکوں کی سرحدوں پر موجود ہے اور ان کے درمیان لکیر کسی بھی وقت مٹ سکتی ہے۔ آزاد کردستان کا خواب تیزی سے حقیقت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ وہ نازک صورت حال ہے جس نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی کو بھی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے، اور آنے والے دنوں میں اس کی شدت مزید بڑھ سکتی ہے مگر چند ممالک اپنے ذاتی مفادات کے تحت آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف مغرب اور اس کا ناجائز بچہ اسرائیل پسِ پردہ ڈوریاں ہلا رہا ہے، مختلف گروہوں سے خفیہ روابط قائم ہیں، اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب ہو سکتا ہے (اللہ کرے ایسا نہ ہو۔) اگر ایسا ہوا تو چند برسوں میں کئی چھوٹے چھوٹے مسلم ممالک وجود میں آئیں گے اور اسرائیل کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہوگا (اب بھی نہیں ہے۔) گریٹر اسرائیل کے فری میسن منصوبے میں خیبر بھی شامل ہے، جو سعودی عرب میں واقع ہے، وہی خیبر، جہاں سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا تھا۔ شام کی تباہی، دنیا کی تباہی کی بنیاد بن چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگ کب اور کس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے۔ طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ بس سوال یہ ہے کہ اس سے کون محفوظ رہے گا؟ شام کی بربادی، انسانیت کی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ اگر کسی کو ادراک ہے، تو وہ ضرور اس آگ کی تپش کو محسوس کر رہا ہے۔ اللہ امت مسلمہ پر رحم فرمائے، آمین۔
https://dailyislam.pk/?p=125413&fbclid=IwQ0xDSwLy5b1leHRuA2FlbQIxMAABHgSd_USbSH-REHcMsIDhxeI4OZfGkysGQIQo0g0ECq5cbZOCIQ0LW4FoK3jk_aem_NLX0pseHyD9k_zRg7HCOrg

شام عالمی جنگ کا مرکز فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ کالم ویب ڈیسک 2025-07-272025-07-27 0 تبصرے 40  مناظر ایک حدیث میں ارشاد ہے : اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور ....

Today Badshah Khan  Column Published in Daily JinnahSyria and Armegdon are center of world Warبادشاہ خان           شام  ...
25/07/2025

Today Badshah Khan Column Published in Daily Jinnah
Syria and Armegdon are center of world War
بادشاہ خان شام آرمیگڈون یا عالمی جنگ کا مرکز

شام کے حوالے سے ایک حدیث نقل کرنا چاہتا ہوں،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا”اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔“ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ”اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔“ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا ”وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [صحیح البخاری/کتاب الفتن) دوسری جگہ فرمایا، جب اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور میری (امت میں سے) کچھ لوگوں کی (حق پر ہونے کی وجہ سے) مدد کی جاتی رہے گی اور انہیں کسی کے ترک تعاون کی کوئی پرواہ نہ ہوگی یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (مسند احمد ج ۳۱)۔
ایک بات تو پکی ہے جنگ کا مرکز شام ہی ہوگا مگر اس کی تباہی کے اثرات سے فارس وروم بھی جل جائیں گئے،ترکی کا ردعمل بھی اسی تناظر میں ہے غزہ جل رہا ہے ، قحط سے مسلمان مررہے ہیں اقوام متحدہ،عرب لیگ،او آئی سی، فیشن شوز کلچر ل پروگرام اور فضول سے کاموں میں مصروف ہیں۔ انجام کیا ہوگا؟ بہت قریب ہے،یہ آگ عرب ممالک کے نوجوانوں کو اپنے حکمرانوں سے مزید دور کرے گی اور پھر کیا ہوگا،نظر والوں سے پوشیدہ نہیں ،نابینا اور بے حس اس کو نہیں سمجھ سکتے۔یہ شام ہے اور اگر اس میں خیر باقی نہ رہی تو دنیا میں خیر کی تمنا عبث ہے، ہتھیاروں کے عالمی بیوپاری ایک بار پھر جنگ کی بھٹی کو بھڑکنا چاہتے ہیں، نئی امریکی حکومت نے کئی مبہم اعلانات کرکے اس بات کو ہوا دی ہے کہ شام،افغانستان سمیت ا ن ممالک کے لئے ان کی جنگی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی،امریکی افواج کا غزہ کے علاوہ شام میں داخل ہونے کا منصوبہ ہے، تاکہ گریٹر اسرائیل کی راہ میں روکاٹیں ختم کی جائیں۔
مسلم حکمرانوں سمیت دنیا کی خاموشی انسانیت کے نام پر بد ترین داغ ہے یہی حال انسانی حقوق کی تنظیموں کا ہے،ملک شام انبیاء کی سرزمین ، آخری جنگ کا مرکز اور اس سے قبل تباہی ہی تباہی ، ہر طرف بچوں اور خواتین کی چیخ وپکار، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں کی بے حسی ، او آئی سی کی خاموشی اور دوسری جانب غزہ جل چکا ہے، تباہی کے آخری دھانے پر ہے، دوسری جانب امت مسلمہ مدہوش ہے،فلسطین، کشمیر، اور اب شام کی تباہ،دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے، امت مسلمہ کے بچوں کا قاتل عام،دیکھ کر بھی اسلامی حکمران حرکت میں آنے کو تیار نہیں،، مشرقی غوطہ کی تباہی پر اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی خاموشی،شامی بچوں کی آنکھوں میں آنسو،جسم خون آلود،،او ہو ،، عالمی دنیا اور امت مسلمہ کی بے حسی پر آسمان بھی نوحہ خواں ہے،
تیسری جانب پاکستان کا دانش فروش طبقہ میرے مسلمان شامی بھائی جیسے میرے نبی ﷺ نے بھائی کہا پر ہونے والے مظالم کو ان کا اپنا مسئلہ قرار دے کر قوم کو گمراہ کرہا ہے،،یہ عالمی پراکسی وار ہے، اور اس کا ایک اہم ہدف پاکستان بھی، ہے، یہ بے دین طبقہ بے ضمیر طبقہ ایجنڈہ سیٹنگ پر کام کرتے ہوئی اسلامی شعائر کے خلاف سرگرم ہے،شام کی عوام دنیا کی وہ مظلوم قوم ہے،جس پر بشارالاسد نے بدترین مظالم کئے تھے اور اب ایران کے بعد اسرائیلی بیرونی جارحیت کا شکار ہے۔
ترکی نے اس صورت حال پر پہلی بار واضح ردعمل دیا ہے، جس کا تعلق اسلامی بھائی چارے سے زیادہ اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔
گریٹر اسرئیل کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کو تقسیم کیا جائے اور کرد قبیلے کے علاقے چونکہ ان تین ممالک شام،عراق،اور ترکی کے پاس ہیں،اور تینوں ممالک نے ان کو نظر انداز کئے رکھا اور زبردستی زیر تسلط رکھا،اس لئے اگر شام میں کرد الگ ہوتے ہیں تو اس کے بعد ترکی کے کرد اٹھے گے اور اس کی مدد کے لئے شامی کردوں کے علاوہ خفیہ مددگار بھی موجود ہونگے جبکہ عراقی کرد ابھی باقی ہیں ان تین ممالک میں تقسیم کرد قبیلہ سرحدات پر ایک ساتھ ہے اور یہ لکیر کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے جس سے آزاد کردستان کاخواب دیکھنے والے کامیاب ہوسکتے ہیں،
یہ وہ صورت حال اور جنگ ہے کہ جس نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی کو بھی اپنے لپیٹ میں لینے کی کوشش شروع کردیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی شدت میں اضافہ نظر آرہا ہے مگر چند ممالک ذاتی مفادات کے لئے اس سے آنکھیں چرارہے ہیں، دوسری جانب مغرب اور اس کا ناجائز بچہ اسرائیل پیچھے سے ڈوریاں ہلانے میں مصروف ہے دونوں فریقوں کے ساتھ مختلف چینلز سے رابطے میں ہے،جس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی پلاننگ میں کامیاب ہوجائے گا(اللہ کرے ایسا نہ ہو)اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو صرف چند برسوں میں کئی چھوٹے چھوٹے مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر نمودار ہونگے اور دوسری طرف پورے خطے میں اسرائیل کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہوگا(ابھی بھی نہیں ہے)اور گریٹر اسرائیل کے فری میسن کے نقشے کی وساطت میں خیبر بھی شامل ہے اور خیبر سعودی عرب میں ہے جہاں سے حضرت عمرؓ نے ان یہودیوں کو نکل باہر کیا تھا
شام کی تباہی دنیا کی تباہی کی بنیاد بن چکی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ جنگ کب اور کس طرح رنگ بدلتی ہے،،، طبل جنگ بج چکا ہے،بس اس سے محفوظ کون رہتا ہے،؟ شام کی تباہی دنیا کی تباہی کا پیش خیمہ بننے جارہی ہے ، اگر کوئی ادارک رکھتا ہے تو وہی اس کے شعلوں کی تپش محسوس کرسکتا ہے، یہ شام ہے انبیاء کی سرزمین اللہ امت مسلمہ پر رحم فرمائے۔

Today Badshah Khan  Column Published in Daily IslamTrans Afghan Railway project and Bagram AirBaisٹرانس افغان ریلوے پروج...
22/07/2025

Today Badshah Khan Column Published in Daily Islam
Trans Afghan Railway project and Bagram AirBais
ٹرانس افغان ریلوے پروجیکٹ اور بگرام ائیر بیس
خبریں الگ الگ ضرور ہیں، مگر
علاقائی سیاست میں ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ ایک جانب امریکا مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے، تو دوسری جانب جنوبی ایشیا میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور کمزور ہوتی ہوئی موجودی کے حوالے سے فکرمند نظر آتا ہے۔ خطے میں باہمی تعلقات کے فروغ نے امریکا کو جنوبی اور وسطی ایشیا میں مؤثر کردار سے عملاً باہر کر دیا ہے، جس کے ردعمل میں وہ ایک بار پھر افغان ائیربیس بگرام سے متعلق پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اب امریکا کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ بگرام کو افغان حکومت کے حوالے کرنا اس کی بڑی غلطی تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں کئی بار ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے بگرام ائیر بیس پر اس وقت بھی امریکا کنٹرول ہے اور وہ اس اہم اسٹریٹجک مقام سے خطے میں جاری سرگرمیوں بالخصوص چین اور روس کی معاشی پیش قدمی پر نظر رکھ سکتا ہے۔

ادھر کابل میں حال ہی میں سہ ملکی اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں ٹرانس افغان ریلوے منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ اللہ کرے یہ بات کاغذی وعدوں سے آگے بڑھے۔ تین برس گزر چکے، لیکن ابھی تک صرف ایک یادداشت ہی دستخط ہوئی ہے۔ اسی طرح تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ پچھلے پندرہ سال سے زیرِ بحث ہے، مگر تاحال عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ اسی تسلسل میں اہم خبر یہ بھی ہے کہ افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی میزبانی میں پاکستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ سہ فریقی سیاسی مشاورت کا اجلاس کابل میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس ٹرانس افغان ریلوے منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر دستخط سے قبل ہوا۔ اجلاس میں مضبوط باہمی تعلقات، علاقائی استحکام، اقتصادی روابط اور مشترکہ تجارت کے فروغ پر زور دیا گیا۔
شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پائیدار تعاون کے ذریعے خطے کی پوشیدہ صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے عوامی خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ٹرانس افغان منصوبہ نہ صرف علاقائی روابط کو تقویت دے گا، بلکہ تینوں ممالک کے مشترکہ مفادات کا تحفظ بھی کرے گا۔ ان کے بقول مشترکہ مفادات مشترکہ ذمہ داریاں جنم دیتے ہیں اور یہ صرف مخلص، دیرپا اور مشترکہ کاوشوں سے ہی پوری کی جا سکتی ہیں۔

پاکستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے بھی اس موقف کی تائید کرتے ہوئے افغانستان میں مستقل استحکام، اقتصادی ترقی اور علاقائی رابطہ کاری کے منصوبوں کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کو خطے کو جوڑنے والا مرکزی ملک بننا چاہیے۔ اجلاس کے اختتام پر تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے سہ فریقی سیاسی مشاورت کے تسلسل پر زور دیا۔

تاہم ایک قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ افغان حکومت شاید اب اس منصوبے کی اس شق سے پیچھے ہٹ رہی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ریلوے لائن مزار شریف سے کابل، کابل سے خوست اور خوست سے کرم ایجنسی کے مقام خرلاچی کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوگی۔ حالیہ اجلاس کے دوران ایک واٹس ایپ گروپ (جو خود کو امارتِ اسلامیہ کا اردو میڈیا نمائندہ گروپ کہتا ہے) کی جانب سے جو نقشہ جاری کیا گیا، اس میں خرلاچی کی بجائے پشاور کو منصوبے کا داخلی نقطہ دکھایا گیا۔ اس سے دو ممکنہ ابہام پیدا ہوتے ہیں: یا تو مذکورہ گروپ کو مکمل معلومات حاصل نہیں، یا پھر افغان حکومت کے پاس اس منصوبے پر کوئی جامع ورک پیپر موجود نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تین برس بعد بھی صرف فزیبلٹی اسٹڈی کی یادداشت پر دستخط ہو سکے ہیں۔

دوسری جانب بگرام ائیربیس سے متعلق خبروں کا سلسلہ بھی گرم ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار میڈیا پر دعویٰ کیا کہ بگرام ائیربیس میں بیرونی افواج اب بھی موجود ہیں۔ اس کے جواب میں افغان نمائندوں نے واضح کیا کہ اگر امارتِ اسلامیہ افغانستان میں بیرونی افواج کی موجودی کو قبول کرتی، تو پھر گزشتہ بیس برسوں کی قربانیاں اور شہادتیں کس لیے تھیں؟ اگر ہم کسی بھی غیر ملکی افواج کو تسلیم کرتے، تو ہم سویت یونین کے قبضے کو بھی تسلیم کر لیتے اور امریکا و نیٹو افواج کی موجودی کو بھی مان لیتے۔

طالبان حکومت (امارتِ اسلامیہ) کا موقف ہے کہ افغانستان کی ایک انچ زمین پر بھی کسی غیر ملکی فوج کی موجودی قابلِ قبول نہیں۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ دنیا سے تعلقات ضرور چاہئیں، لیکن وہ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی بنیادوں پر ہوں گے، نہ کہ عسکری۔ افغان قیادت نے عالمی برادری کو پیغام دیا کہ افغانستان میں کسی غیر ملکی فوجی کی موجودی نہ صرف ناقابلِ قبول ہے بلکہ یہ افواہیں بے بنیاد اور حقیقت سے یکسر دور ہیں۔
دراصل امریکا دنیا کے ہر خطے میں اپنی عسکری موجودی برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی عالمی بالادستی متاثر نہ ہو۔ بگرام ائیربیس سے متعلق پروپیگنڈا اسی خواہش کا تسلسل ہے، تاہم خطے کی دیگر طاقتیںخصوصاً روس اور چین اس کے سامنے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ روس نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کے امریکا کی خطے میں ممکنہ واپسی کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے۔

روس بخوبی جانتا ہے کہ اگر مستقبل میں بحیرہ اسود ایران اور آذربائیجان کے ذریعے اس کے تجارتی راستے بند ہو جاتے ہیں، تو اسے قازقستان کے راستے افغانستان اور وہاں سے پاکستان تک رسائی کی راہداری کی اشد ضرورت پڑے گی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ حقیقت کا روپ دھارتا ہے یا اگلے چار پانچ سال بھی محض فزیبلٹی رپورٹوں کی نذر ہو جاتے ہیں؟ سوال صرف ایک منصوبے کا نہیں، بلکہ علاقائی رابطہ کاری تجارت اور سب سے بڑھ کر افغان حکومت کے دیرپا استحکام کا ہے۔

جہاں تک فزیبلٹی رپورٹوں کا تعلق ہے تو دنیا میں ہزاروں ایسی رپورٹس موجود ہیں جن پر کبھی کام شروع نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں اس کی سب سے بڑی مثال ریلوے منصوبہ ایم ایل۔ ون ہے، جسے چین نے ایک دہائی گزرنے کے باوجود شروع نہیں کیا اور خاموشی سے منصوبے سے الگ ہو گیا۔

ٹرانس افغان ریلوے پروجیکٹ اور بگرام ائیر بیس فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ کالم ویب ڈیسک 2025-07-222025-07-22 0 تبصرے 32  مناظر خبریں الگ الگ ضرور ہیں، مگر علاقائی سیاست میں ایک دوسرے س....

Today Badshah Khan  Column QABAIAL OPERATION ARE  FATAبادشاہ خان      قبائل  آپریشن یا  سابقہ حیثیت کی بحالی   سابقہ فاٹ...
09/07/2025

Today Badshah Khan Column QABAIAL OPERATION ARE FATA
بادشاہ خان قبائل آپریشن یا سابقہ حیثیت کی بحالی
سابقہ فاٹا کی پرانی حیثیت کی بحالی قبائلی عوام کی روز اول سے خواہش تھی اور ہے، کیونکہ اس وقت بھی انضمام ترقی کے نام پر کیا گیا جس کی ضرورت نہیں تھی، ترقی کے لئے انضمام ضروری نہیں تھا،صرف چند قوانین بدلنے کی ضرورت تھی، نہ کہ آئین کی پہلی شق، امریکی لابی اور اس کے ایجنڈوں کے سازشوں پر جبرا قبائلی عوام کی رائے لئے بغیر اسے خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا، اور سات سال گذرنے کے باوجود قبائل میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی،قبائل کے سینٹ کی سیٹیں ختم ہوگئی، ایم این اے کم ہوگئے، خصوصی فنڈز تو درکنار اپنے فنڈز بھی نہیں ملے، آج پھر ایک مخصوص لابی شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے را ہ ہموار کررہی ہے، آپریشن مسائل کا حل نہیں ہے، قبائل اگر الگ تشخص بحال رکھنا چاہتے ہیں، تو اسلام آباد میں بیٹھے چند امریکی نمک خوار اینکر اور صحافیوں کو کیا تکلیف ہے، وہ تو شائد سالوں سے ان قبائل میں گئے بھی نہیں، قبائلی عوام امن چاہتی ہے، قبائلی عوام عزت چاہتی ہے، اسے چیک پوسٹوں پر تلاشی کے نام پر بے عزتی برداشت نہیں، اور یہ پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح قبائلی عوام کا بھی حق ہے، اور پھر جب بابائے قوم قائد اعظم نے ان کی الگ شناخت کو برقرار رکھا، تہتر کے آئین میں کی پہلی شق میں ان کی شناخت تھی،پھر کس کے اشارے پر ختم کیا گئی؟ قومی دھارے کے نام پر انہیں کس نے ترقی اور امن سے دور کیاَ؟
یہ تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی ختم ہونی چاہی ہے، اوراس کے لئے اگر دیگر آپشن پر غور کیا جائے تو کیا برائی ہے، آپریشن مسائل کا حل کل بھی موثرثابت نہیں ہوئے اور آج بھی نہیں ہونگے، سابقہ فاٹا کی بحالی صرف تحریک طالبان پاکستان کا مطالبہ نہیں، بلکہ قبائلی عوام بھی یہی چاہتی ہے، قبائلی عوام سے جبری انضمام کے وقت بھی مشورہ نہیں لیا گیا تھا،اور آج بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں کررہا۔
قبائلی عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔انضمام نے انہیں قومی دھارے کے بجائے مزید تاریکیوں میں دھکیل دیا۔فاٹا کے قبائل نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان برداشت کیا،کاروبار،تعلیم غرض ہر شعبہ تباہی سے دوچار ہوا،ریاستی اداروں اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ اور فاٹا کمیٹی کے چیرمین سرتاج عزیز نے جھوٹے پروپیگنڈے کرکے قبائل کو انضمام کے فوائدبتانے کی ناکام کوشش کی اور بالاآخر جبری انضمام کے ذریعے فاٹا کو کے پی کے میں ضم کردیا گیا، جبری انضمام اس لئے لکھا کیونکہ آئین پاکستان میں واضح تحریر تھا کہ فاٹا کے قبائل کا مستقبل صدر پاکستان قبائل کے گرینڈ جرگے کے رائے سے تبدیل کرسکتا ہے، قومی اسمبلی بھی اختیار نہیں رکھتی۔جبکہ زمینی حقائق آج بھی قیام پاکستان سے مختلف نہیں ہیں،قبائل آج بھی خود مختاری اور الگ نظام اور الگ پہچان کے ساتھ موجود ہے میں، مگر کیا کیا جائے گلگت بلتستان تو صوبہ بن سکتا ہے فاٹا نہیں؟دنیا بھر میں چھوٹے چھوٹے یونٹ قائم ہیں اور فاٹا کی آبادی ان سے کئی گناہ زیادہ اور مسائل بھی سنگین ہیں،ان مسائل کاحل ان کے اپنے رہنما،طلبہ، دانش واروں اور علماء کے پاس ہے ناکہ تین سو کلومیٹر دور پشاور اور چھ سو کلومیٹر دور اسلام آباد کے حکمرانوں کے پاس۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ سترسال گذرنے کے باوجود چند لوگ فاٹا کی عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینے میں روکاوٹ ڈال رہے ہیں،ریاستیں ادارے اس پر غور کریں، انضمام کرنے سے مسائل حل نہیں ہوئے، جوں کہ توں موجود ہیں۔
قبائلی عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے، خیبرپختون خوا حکومت کے پاس ان کے لئے کوئی اسپیشل رو میپ اور فنڈز نہیں ہیں، بلکہ وہ تو انتظار میں ہیں،کہ وفاق سابقہ فاٹا کے نام پر خصوصی فنڈز ان کو دے تاکہ وہ اپنے مقامی علاقوں میں اس فنڈز میں سے کام کرسکیں،وزیراعلی خیبر پختون خوا نے شائد ایک آدھے قبائلی علاقے کا دورہ ہی تاحال کیا ہے،اور گورنر صاحب تو پشاور سے باہر کم ہی نکلتے ہیں، سوال عوام کو ان کے بنیادی حقوق کو ان کے دہلیز پر فراہم کرنے کا ہے،تخت لاہور کی طرح تخت پشاور سے قبائل بھی مایوس ہوچلے ہیں، وفاق کا کام ہے صوبوں اور عوام کو متحد رکھنا، سابقہ فاٹا کے انضمام میں جلدی کرنے والے شائد اب پچھتا رہے ہوں، کیونکہ جلد بازی میں کئے گئے کئی فیصلوں سے ریاستیں مضبوط نہیں بنتی، اور اپنی ذمہ داریوں کو دوسروں پر ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہوجاتے، اور یہی وفاق نے قبائل کے ساتھ کیا، ستر برس تک وفاق کے ساتھ رہنے کے بعد اچانک کسی کے حکم پر قبائل کو صوبے کے ساتھ نتھی کردیا، ان کی رائے جانے بغیر؟ ایک جمہوری ملک میں تقریبا اسی لاکھ افراد کے مستقبل کا فیصلہ انکی رائے کے بغیر کردیا گیا۔
ڈی سنٹرلائزشن کا عمل پوری دنیا میں جاری ہے اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کئے جارہے ہیں، جنوبی پنجاب سرائیکی بیلٹ، ہزارہ سمیت کئی آوازیں الگ صوبوں کے لئے اٹھ رہی ہیں، ایسے ماحول میں فاٹا کے الگ صوبہ بننے میں کوئی ائینی روکاٹ بھی نہیں بین الاقومی امور پر نظر رکھنے والے چند مبصرین کا کہنا ہے فاٹا کا خیبرپختون خوا میں انضمام امریکی خواہش تھا، اور آج بھی امریکی ایجنٹ قبائل میں آپریشن کروانے کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں،یا آپریشن کروا کر پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش میں مصروف ہیں۔ اس کے پس منظر میں اس خطے میں اس کے طویل مقاصد ہیں، فاٹا میں مضبوط قبائلی کلچر کا خاتمہ، مذہبی اقدار کو کمزور کرناخیبر پختون خوا میں ضم کروانے کے بعد مزید استحصال کرنا،بلوچ نوجوانوں کے اب فاٹا کے جوانوں کو ہدف بنانافنڈز،نوکریوں پر نئی لڑائیاں، قبائل کو پاکستان سے متنفر کرنا، پاکستان میں عدم استحکام کیلئے مستقبل میں قبائلی نوجوانوں کو حقوق نہ ملنے پر پاکستان کے خلاف کھڑا کرنا سمیت کئی اور معاملات ہیں تاکہ مستقبل قریب میں محرومیوں اورنظرانداز کرنے پر پاکستانی قوم میں مزید تفرقہ پیدا کرسکے،جنگیں اور ان کے انداز بدل گئے ہیں،اب صرف فرقہ واریت اور لسانیات پر قوموں کو تقسیم نہیں کیا جارہا،سہولیات،حقوق اورمعاشی مواقع نہ ملنا،معاشی استحصال سمیت نئے حربے استعمال کئے جارہے ہیں، نوجوان نسل کو حقوق کے نام پر دنیا بھر میں ریاستوں سے متنفر کیا جارہاہے،سوال پاکستان کے ساتھ ساتھ قبائلی عوام کے پرامن باعزت مستقبل کا ہے، آپریشنز سے کل بھی مسائل حل نہیں ہوئے آج بھی نہیں ہونگے۔

Today Badshah Khan  Column Published in Daily islam MUSLIMS COUNTRIES RULER AND DABUL STANDARDS مسلم حکمرانوں کا دوہرا م...
06/07/2025

Today Badshah Khan Column Published in Daily islam
MUSLIMS COUNTRIES RULER AND DABUL STANDARDS
مسلم حکمرانوں کا دوہرا معیار
گزشتہ دنوں سب سے بڑی خبر کابل سے آئی، جہاں اعلان ہوا کہ روس نے افغان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اس طرح روس پہلا ملک بن گیا ہے جس نے طالبان حکومت کے سفیر کو قبول کیا اور دوطرفہ تعلقات میں وسعت دینے کی بات کی۔ اسی کے ساتھ ماسکو میں افغان سفارت خانے پر امارتِ اسلامی کا سفید پرچم لہرا دیا گیا۔

خبر کے مطابق افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے روسی فیڈریشن کے سفیر جناب دیمتری ژیرنوف نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں روسی سفیر نے روسی حکومت کا باضابطہ فیصلہ پہنچایا، جس کے تحت روس نے امارتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم کر لیا ہے۔ روسی سفیر نے اس فیصلے کو دونوں ملکوں کے تعلقات کی مضبوطی کے لیے ایک تاریخی قدم قرار دیا۔ افغان وزیر خارجہ نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حقیقت پسندانہ اور تعمیری قدم ہے، جو مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو وسعت دے گا اور دوسرے ممالک کے لیے بھی ایک مثال قائم کرے گا۔ یوں روس وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے افغانستان کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔

اگرچہ پاکستان نے بھی ایک ماہ قبل کہا تھا کہ وہ افغانستان میں تعینات اپنے نمائندے کو سفیر کا درجہ دے گا اور پاکستان میں بھی افغان نمائندے کو باضابطہ سفیر کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا، لیکن اب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔روس کی جانب سے افغان حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد اب لوگوں کی نگاہیں پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ جیسے اسلامی ممالک پر لگی ہوئی ہیں ۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ چین بھی اگر طالبان حکومت کو تسلیم کرلیتا ہے تو پاکستان اور دیگر ممالک کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔

دوسری اہم خبر ابراہیم معاہدے سے متعلق ہے، جس کے بارے میں اطلاعات گردش میں ہیں کہ جلد ہی چار بڑے مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود کو امن کا پیامبر ثابت کرنے اور نوبیل انعام حاصل کرنے کی خاطر پہلے مرحلے میں غزہ میں جنگ بندی کروانا چاہتے ہیں اور اگلے مرحلے میں وہ اپنے مشہور زمانہ ”ابراہیمی اکارڈ“ کو آگے بڑھانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔سعودی عرب کی جانب سے دوریاستی حل کی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا جاچکا ہے، سعودیہ کے بعد یقینا پاکستان پر بھی دباو بڑھے گا کیا پاکستان معاہدہ ابراہیمی کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرے گا؟ یا یہ سب کچھ صرف امریکی و اسرائیلی پروپیگنڈا ہے؟

یہ سوالات اس وقت اور بھی اہم ہو جاتے ہیں جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں ایک مخصوص لابی معاہدہ ابراہیمی کےلئے ذہن سازی کا کام تیز کر چکی ہے۔ ان افراد میں ایک نمایاں نام خواجہ آصف کا ہے، جو ایران کے لیے نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں، بھارت کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے کے خواہاں ہیں، لیکن جب بات افغانستان کی آتی ہے تو ان کے لہجے میں تلخی نمایاں ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ یہ سب کس کے اشارے پر کر رہے ہیں؟اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلم عوام اس صورتحال پر کیا ردِعمل دیتے ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کی علامت حماس اور اہلِ غزہ اس وقت تنہا دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی ضمیر خاموش ہے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور عرب لیگ رسمی بیانات سے آگے نہیں بڑھ رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ سب چاہتے ہیں کہ غزہ میں قتل عام جلد مکمل ہو تاکہ وہ بین الاقوامی دباو سے نجات پا سکیں لیکن غزہ والے لوہے کے چنے ثابت ہورہے ہیں،انہوں نے اپنی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔کاش کے انہیں مسلم حکمرانوں کی جانب سے بھی کچھ تعاون مل جائے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مسلم حکمران تو بس اپنی کرسیوں کے بارے میں ہی فکر مند ہیں۔ امت کی امنگوں، مظلوموں کی فریادوں اور غزہ کے بھوکے، نڈھال بچوں کی آہوں کا وزن ان کے ضمیر پربوجھ نہیں ڈالتا۔ کیا ریاض سے لے کر اسلام آباد تک موت، خوف، بے حسی اور بے غیرتی کا سناٹا چھایا ہوا ہے؟ شرمناک بات تو یہ ہے کہ نہ صرف یہ حکمران خود کچھ کر رہے ہیں، بلکہ اپنے عوام کو بھی احتجاج کی اجازت نہیں دے رہے۔ کیا اس طرزِ عمل سے اسرائیل کو مزید شہ نہیں ملے گی؟ کیا یہ عمل اسرائیل کے مظالم کی خاموش حمایت نہیں؟ امریکا اور برطانیہ کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور بھارت بھی اسرائیلی موقف کی تائید کر چکا ہے۔ پاکستان پر بھی گزشتہ چھ ماہ سے امریکی دباو¿ ہے کہ وہ ایران کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرے اور اسرائیل کی مخالفت ترک کر کے خاموشی سے اسے تسلیم کر لے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان اور مسلم دنیا فیصلہ کرے۔ اگر وہ غیرجانبدار رہتے ہیں تو یاد رکھیں، کل اگر پاکستان پر حملہ ہوتا ہے تو دنیا بھی غیرجانبدار رہ سکتی ہے۔ اسرائیل پہلے بھی بھارت کی مدد کر چکا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ قرار دے چکا ہے۔ اب فیصلے کا وقت ہے۔ اتحاد اور خودداری کی راہ اپنانے کا وقت ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی دھمکیوں سے نکلنے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کا وقت ہے۔ اگر اب بھی ہم نے کچھ نہ کیا تو دشمن باز نہیں آئیں گے۔ وہ ہمیں باری باری نشانہ بنائیں گے۔
یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آئندہ کون کون سے ممالک افغانستان کو تسلیم کرتے ہیں اور کون سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی دوڑ میں آگے نکل کر بے نقاب ہوتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا اور آج بھی وہ ناجائز ریاست ہے۔ آج بھی اس کے مظالم جاری ہیں۔ اس کو تسلیم کرنا قائد کی روح کو اذیت دینے کے متراد ف ہوگا۔ سوال صرف غزہ یا کابل کا نہیں، سوال پوری امتِ مسلمہ کا ہے!

Link below

مسلم حکمرانوں کا دوہرا معیار فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ تازہ ترین, کالم ویب ڈیسک 2025-07-062025-07-06 0 تبصرے 82  مناظر گزشتہ دنوں سب سے بڑی خبر کابل سے آئی، جہاں اعلان ہوا کہ روس نے ا....

Today Badshah Khan  Column Published in Daily Jinnah PAK INDIA SATUATION AND GLOBAL SCENARIO بادشاہ خان    پاک بھارت صور...
02/07/2025

Today Badshah Khan Column Published in Daily Jinnah
PAK INDIA SATUATION AND GLOBAL SCENARIO
بادشاہ خان پاک بھارت صورتحال اور عالمی منظر نامہ
پاکستان پر دباو بڑھانے کے لئے کئی حربے استعمال کئے جارہے ہیں، معاہدہ ابراہیمی کو مزید فعال کرنے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے کئی ممالک پر دباو ہے،کسی کی تعریف کی جارہی ہے،اور کسی پر حملے کئے جارہے ہیں، غزہ میں مسلسل قتل عام جاری ہے، اور شمالی غزہ سے عوام کو جبرا نکلنے کا عمل شروع کردیاگیا ہے،مقصد ایک ہی ہے کہ اسرائیل کو خطے میں بالادستی دلوائی جائے،اور کوئی اس کے سامنے سر نہ اٹھا سکے رہی بات غزہ اور فسلطینیوں کی تو انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے منصوبے مسلم ممالک کے سامنے پیش ہوچکے ہیں، ایسے ماحول میں کئی افراد اور لابیز کہہ رہے ہیں،کہ اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے تو چین اور روس خاموش کیوں ہیں؟ سوال یہ ہے کہ جن ممالک کے یہ مسائل ہیں وہ کیوں دباوٗ میں آرہے ہیں،غزہ اور مظلوم فسلطینیوں کے لئے احتجاج مسلم ممالک میں کیوں نہیں ہونے دیئے جارہے، کشمیر سے زیادہ توجہ افغانستان پر کیوں کی جارہی ہے،البتہ مغرب میں احتجاج جارہی ہے۔کئی سوال ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ خوف اور ڈر کے ماحول کو پروان چڑھا کر کئی اہم فیصلے ہوسکتے ہیں،اب ان پر عمل درآمد ہوتا ہے یا پھر نئی جنگوں کا سلسلہ جاری ہوتا ہے،کہنا قبل ازوقت ہے،اس وقت تو ہندوستان،ایران،پاکستان، روس، یوکرین میں ہتھیاروں کی خریداری اور تیاری پر زور ہے۔
عالمی منظر نامے میں پاکستانی اہمیت بڑھنے کی وجہ سے اسرائیل اور ہندوستان پریشان ہوچکے ہیں، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، شنگھائی تعاون تنظیم میں ناکامی نے ہندوستان اور اسرائیل کو مشتعل کردیا ہے، چند روز میں برکس کا سالانہ اجلاس برازیل میں ہونے جارہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ بہت جلد ہندوستان شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ ساتھ برکس سے بھی نکل جائے گا، جس کی بنیادی وجہ خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے مفادات کا ہم آہنگ نہ ہونا ہے، ہندوستان اور اسرائیل دونوں اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے امریکی چھتری کے تلے ایک ہوچکے ہیں۔دونوں کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا ہوا ہے،پاکستان اور ایران پر دوبارہ حملے ہونے کا پروپیگنڈہ زوروں پر ہے۔
ہندوتوا کے پیروکار ایک جانب ہندوستان کے اندر مسلمانوں سمیت اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن کرررہے ہیں، آر ایس ایس نے باقاعدہ آئین میں سے سیکولر اور سوشلسٹ کا لفظ ختم کرنے کا مطالبہ کردیا ہے، سخت گیر ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس نے بھارتی آئین کے دیباچے میں شامل 'سوشلسٹ' اور 'سیکولر' الفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ ان الفاظ کو ایمرجنسی کے دوران کانگریس حکومت نے آئین میں شامل کر دیا تھا۔
بھارت کی حکمراں ہندو قوم پرست جماعت کی بنیاد سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے، جب اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ آیا 'سوشلسٹ‘ اور 'سیکولر‘ جیسے الفاظ کو آئین کے دیباچے سے نکالنے کی ضرورت ہے یا انہیں اب بھی برقرار رکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ستر کی دہائی میں ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران اس وقت کی کانگریس کی حکومت نے ان الفاظ کو آئین کے دیباچے میں شامل کر دیا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر ایمرجنسی نافذ کرنے کے لیے کانگریس کو ملک سے معافی مانگنے کو بھی کہا۔دنیا کو یہ کیوں نظر نہیں آرہا کہ ہندوستان اپنے اقلیتوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟تو دوسری جانب ہندوستانی میڈیا پاکستان پر دوبارہ حملے کرنے کے لئے شرانگیزی کو ہوا دے رہا ہے، مسلسل یہ کہا جارہا ہے کہ آپریشن سندور کو فعال کیا جائے،اور پاکستان میں دوبارہ حملے کئے جائیں، مسجد سبحان اللہ پر دوبارہ حملے کئے جائیں، عبادت گاہوں کو ٹارگٹ کرنے پر زور دیا جارہا ہے، سوال یہ ہے کہ مئی میں پاکستان پر حملہ اور جون میں ایران پر حملے،اب جولائی اور آگست میں ان کے اہداف کیا ہیں، پاکستان مکمل تیاری میں ہے،لیکن کہیں جنگ کا ڈر دیکھا کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دباوٗ تو نہیں ڈالا جارہا؟ پاکستان وہ واحد ملک ہے کہ جس کے پاسپورٹ پر تحریر ہے کہ اس اسرائیل کے سوا آپ اس پاسپورٹ پر ہر ملک کا سفر کرسکتے ہیں، اور شائد یہی وہ جملہ ہے جس نے اسرائیل کو بے چین کیا ہوا ہے کہ پاکستان اسے لازمی تسلیم کرے، شائد یہی وجہ ہے کہ وہ ہندوستان کواکسا رہا ہے کہ پاکستان پر دوبارہ حملے کرو، میں ساتھ دونگا،
تیسری جانب روس یوکرین جنگ ختم ہونے کے بجائے تیز ہوچکی ہے، روس نے کئی علاقوں پر حملے کئے ہیں، ان حملوں کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یورپی یونین میں دارڑ پڑچکی ہے، یورپ کے کئی ممالک چاہتے ہیں، کہ نیٹو کے بجائے ان کا مقامی دفاعی اتحاد بنے،اور ان کا انحصار امریکہ پر کم ہو، جنگوں کا زمانہ ہے، ہر ایک کو اپنے مفادات کی پڑی ہے، پاکستان میں ہندوستانی اسپانسرڈ دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے، جسکے خلاف پاکستانی آپریشن بھی جاری ہے، لیکن پاکستان میں افغان مخالف طبقہ ایک بار پھر متحرک ہورہا ہے، کہ افغان سرزمین استعمال ہورہی ہے، وغیرہ وغیرہ، سوال یہ ہے کہ کیا افغان حکومت کے پاس وہ صلاحیت ہے کہ ان کو روک سکے؟ یا ان کی ہلا شیری حاصل ہے؟ لیکن یہ بلکل واضح ہے کہ ہندوستان ان مالی اور عسکری فنڈنگ جاری ہے، ایک سوال اور اٹھایا جاتا ہے کہ امریکہ نے دس بلین ڈالر کے ہتھیار افغانستان میں چھوڑے ہیں اور وہ اب دہشت گرد استعمال کررہے ہیں، کہیں ان ہتھیاروں میں سے افغان طالبان کی حکومت میں آنے سے پہلے جان بوجھ کر دوسرں کو سپلائی تو نہیں کئے گئے؟

26/06/2025
https://dailyislam.pk/?p=122004
18/06/2025

https://dailyislam.pk/?p=122004

ایران اسرائیل جنگ کے اثرات فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ کالم ویب ڈیسک 2025-06-182025-06-18 0 تبصرے 25  مناظر اسرائیل کی مسلسل جارحیت کے جواب میں ایران کے حملے جاری ہیں۔ دونوں جانب سے نہ...

Address

Karachi
75010

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pakistan news syndicate posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pakistan news syndicate:

Share