Karachi News

Karachi News your reliable source for breaking news, in-depth analysis, and insightful commentary on current events shaping our world.

We strive to deliver timely and accurate information

اقوام متحدہ کے قریب مواصلاتی نظام کو ’معطل‘ کرنے کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا,میڈلائن ہالپرٹ، بی بی سی نیوز #خبرامریکی سی...
23/09/2025

اقوام متحدہ کے قریب مواصلاتی نظام کو ’معطل‘ کرنے کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا,میڈلائن ہالپرٹ، بی بی سی نیوز
#خبر
امریکی سیکرٹ سروس کا کہنا ہے کہ اس نے ٹیلی کمیونیکیشن ڈیوائسز سے لیس ایک ایسے نیٹ ورک کو ناکام بنا دیا ہے جو موبائل فون نیٹ ورکس کو بند کر سکتا تھا اور یہ منصوبہ ایک ایسے وقت پر بنایا گیا تھا جب نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر 100 سے زائد عالمی رہنما اور وفود مین ہیٹن میں جمع ہو رہے تھے۔

ایجنسی نے کہا کہ اسے 300 سے زیادہ سم سرورز اور ایک لاکھ سم کارڈز ملے ہیں جو نیویارک، نیو جرسی اور کنیکٹیکٹ کے کچھ حصوں پر محیط علاقے میں ٹیلی کام حملوں کے لیے استعمال ہوسکتے تھے۔

سیکرٹ سروس کے انچارج ایجنٹ میٹ میک کول نے کہا کہ ’اس نیٹ ورک میں سیل فون ٹاورز کو غیر فعال کرنے اور لازمی طور پر نیو یارک شہر میں فون نیٹ ورک کو بند کرنے کی طاقت تھی۔‘

یہ آلات جنرل اسمبلی کے اطراف میں 56 کلومیٹر کے فاصلے سے ملےہیں، جہاں دنیا بھر سے عالمی رہنما جمع ہو رہے ہیں۔

ایجنسی نے کہا کہ حکام ان آلات کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں لیکن یہ کہ ’منظم اور اچھی طرح سے مالی اعانت سے چلنے والا‘ منصوبہ تھا جس میں ’ریاستی عناصر شامل ہیں جن کے بارے میں وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلومات ہیں۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ ان آلات سے 12 منٹ کے اندر امریکہ کی پوری آبادی کو برقی پیغامات بھیجے جا سکتے تھے۔ اس سے موبائل فون ٹاورز کو بھی غیر فعال کیا جا سکتا تھا اور ایمرجنسی سروسز کے مواصلاتی نظام کو بھی بند کیا جا سکتا تھا۔

میک کول نے امریکی صحافیوں کو بتایا کہ اس منصوبے میں نامعلوم ریاستی عناصر شامل ہیں جو منظم جرائم پیشہ گروہوں، کارٹلز اور دہشت گرد تنظیموں کو خفیہ پیغامات بھیجتے ہیں۔

یہ آلات پانچ سے زیادہ مقامات پر خالی پڑی پرانی عمارتوں میں ’سم فارمز‘ سے ضبط کیے گئے تھے۔

حکام نے ان مقامات کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔

نامعلوم عہدیداروں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اس منصوبے کے بارے میں معلومات حالیہ عرصے میں امریکی حکومت کے تین عہدیداروں کو گمنام ’ٹیلی فونک دھمکیوں‘ کی تحقیقات کے دوران ہوئی ہیں۔ اخبار کے مطابق ایک اہلکار سیکرٹ سروس میں کام کرتا ہے اور دوسرے دو وائٹ ہاؤس میں کام کرتے ہیں۔

تفتیش کاروں نے سی بی ایس نیوز کو یہ بھی بتایا کہ انھیں 80 گرام کوکین، غیر قانونی آتشیں اسلحہ، کمپیوٹر اور فون ملے ہیں۔

یہ تحقیقات گذشتہ موسم بہار میں امریکی حکومت کے عہدیداروں کو دھمکیوں کے بعد شروع کی گئی تھیں، جس کے نتیجے میں گذشتہ ماہ ان آلات کی دریافت ہوئی تھی۔

کراچی: لانڈھی میں 6 روز سے لاپتا والدین کا اکلوتا بیٹا زیادتی کے بعد قتل، بوری بند لاش برآمد (تصویر دل آزادی کے خدشے کی ...
23/09/2025

کراچی: لانڈھی میں 6 روز سے لاپتا والدین کا اکلوتا بیٹا زیادتی کے بعد قتل، بوری بند لاش برآمد (تصویر دل آزادی کے خدشے کی وجہ سے جاری نہیں کی گئی)
#خبر
کراچی .کے علاقے لانڈھی میں 6 روز سے لاپتا 7 سالہ بچے کی لاش کچرا کنڈی سے مل گئی، سعد والدین کی اکلوتی اولاد تھی، اہل خانہ بچےکی جدائی پر غم سے نڈھال ہیں، پولیس سرجن کے مطابق پوسٹ مارٹم میں زیادتی کے شواہد ملے ہیں۔
لانڈھی کا رہائشی 7 سالہ سعد علی 18 ستمبر کو گھر سے چیز لینے کے لیے نکلا تھا اور اس کے بعد واپس نہیں آیا، اہل خانہ نے بچے کو بہت تلاش کیا، اور گمشدگی کا مقدمہ بھی درج کرایا۔
پیر کی رات لانڈھی نمبر 6 لعل مزار کے علاقے میں گھر کے قریب واقع کچرا کنڈی سے بچی کی لاش ملی تھی، سعد والدین کی اکلوتی اولاد تھا، واقعہ پر اہلخانہ غم سے نڈھال ہیں۔
اہل محلہ نے بتایا کہ سعد 20 روپے لے کر چیز لینے نکلا تھا، اس کے بعد واپس نہیں آیا۔
پولیس کے مطابق بچے کی لاش 5 سے 6 دن پرانی ہے، موت کی وجوہات جاننے کے لیے تمام پہلوؤں سے تحقیقات شروع کردی گئیں۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ طارق7 سالہ سعد علی کا پوسٹ مارٹم مکمل کرلیا گیا ہے، بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے شواہد ملے ہیں۔
پولیس سرجن کے مطابق بچے کی موت سر پر وزنی چیز سے چوٹ لگنے کے باعث ہوئی، بچے کے مختلف اعضا کے سیمپل لے کے کیمیائی تجزیے کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔
پولیس نے پوسٹمارٹم کے بعد لاش کو لواحقین کے حوالے کردیا ہے، لواحقین کے مطابق 7 سالہ سعد علی کی تدفین بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی۔
واضح رہے کہ کراچی میں رواں ماہ قیوم آباد کے علاقے میں 100 سے زائد بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے شربت فروش کو گرفتار کیا گیا، ملزم نے عدالت میں اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک ایک بچی کو کئی کئی مرتبہ زیادتی کا نشانہ بناچکا ہے

ایک ہفتے قبل نالے میں کودنے والی ڈاکٹر مشعال کا کوئی سراغ نہ مل سکا، شوہر گرفتار #خبروالد کی مدعیت میں پولیس نے مقدمہ در...
22/09/2025

ایک ہفتے قبل نالے میں کودنے والی ڈاکٹر مشعال کا کوئی سراغ نہ مل سکا، شوہر گرفتار
#خبر
والد کی مدعیت میں پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کرلیا، لاش کی تلاش کیلیے ریسکیو آپریشن جاری
گلشن اقبال میٹروول میں مبینہ طور پر شوہر سے جھگڑے کے بعد برساتی نالے میں کود کر لاپتہ ہونے والی ڈاکٹر مشعل کریم کے کیس کا مقدمہ درج کرلیا گیا جبکہ پولیس نے شوہر کو گرفتار کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق مبینہ ٹاؤن کے علاقے گلشن اقبال میٹروول تھرڈ کے قریب برساتی نالے میں گزشتہ اتوار کی شب مبینہ طور پر چھلانگ لگا کر لاپتہ ہونے والی خاتون کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
پولیس نے خاتون کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے شوہر کو گرفتار کرلیا۔
ایدھی کے غوطہ خوروں کی جانب سے تلاش کا عمل جاری ہے لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ ایدھی حکام کے مطابق گزشتہ روز بھی خاتون کی تلاش کا ریسکیو آپریشن صبح سے شروع کیا گیا جو رات کو اندھیرا ہونے تک جاری رہا تاہم اس دوران نالے میں چھلانگ لگا کر لاپتہ خاتون کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
ایدھی حکام کا کہنا ہے کہ خاتون کی تلاش کیلیے اتوار کو صبح سے دوبارہ آپریشن کیا جائے گا۔
ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن چوہدری نواز نے بتایا کہ 26 سالہ مشعل کریم دختر فضل کریم کی تلاش کا عمل جاری ہے ، پولیس کی جانب سے بھی مزدورں سے نالے کا کچرا ہٹوایا جا رہا ہے تاکہ خاتون کی تلاش میں کوئی کامیابی حاصل ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعہ گزشتہ اتوار 14 ستمبر کی شب رات 2 بجے کے قریب پیش آیا تھا جس میں ابتدائی طور پر عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ خاتون نے نالے میں خود چھلانگ لگائی تھی جس کا آبائی تعلق گلگت بلتستان ہے۔
پولیس کو یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ خاتون اپنے شوہر کے رویے سے دلبرداشتہ تھی اور شبہ ہے کہ نالے میں چھلانگ لگانے کی یہی وجہ بنی تاہم ریسکیو حکام کی جانب سے خاتون کی تلاش کا عمل جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نالے میں چھلانگ لگانے والی مشعل جناح اسپتال میں فزیو تھراپسٹ تھی، جس کی چند سال قبل حسنین شاہ نامی شخص سے شادی ہوئی تھی تاہم ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔
چوہدری نواز نے مزید بتایا کہ واقعے کے بعد مشعل کریم کے والد بھی کراچی پہنچ گئے ہیں اور انھوں اپنے داماد حسنین شاہ کے خلاف بیٹی کے قتل بالسبب سمیت دیگر دفعہ کے تحت مقدمہ بھی درج کرایا ہے۔
مدعی مقدمہ فضل کریم نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ وہ قراقرم بینک گلگت میں ملازمت کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹی 26 سالہ مشعل کریم کی 8 سال قبل حسنین شاہ سے نکاح کرایا تھا اور بیٹی جناح اسپتال میں ڈی پی ٹی ہاؤس جاب کر رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ میری بیٹی 6 سال سے اپنے شوہر اور اس کے بھائی ارسلان کے ساتھ رہائش پذیر تھی ، میری بیٹی روزانہ دن میں دو سے تین بار بذریعہ فون ہم سے رابطہ کرتی تھی جبکہ 11 ستمبر سے میرا بیٹی 2 دن تک رابطہ نہیں ہوا، 13 ستمبر کی شام کو بیٹی نے رابطہ کیا تو اس کی آواز سے مجھے شبہ ہوا جس پر ویڈیو کال کے ذریعے بات کی تو دیکھا اس کے ہاتھ میں کینولا لگا ہوا تھا جس پر اُس نے اپنی بیماری کا بتایا۔
والد کے مطابق 15 ستمبر کو مجھے میری سالی کے ذریعے معلوم ہوا کہ بیٹی مشعل کریم نے اسے بتایا کہ حسنین شاہ کا اپنی بینک ملازمہ کے ساتھ چکر چل رہا ہے اور میں نے ان دونوں کو ریسٹورنٹ میں بھی دیکھا ہے اور اس کے موبائل میں بھی رابطوں کا ریکارڈ موجود ہے اس سلسلے میں بیٹی نے حسنین شاہ سے ذزکر کیا جس پر اس نے مار پیٹ کی اور دھمکی دی کہ تمھیں اور ہمارے والد کو نقصان پہنچاؤں گا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ سب جاننے کے بعد میں نے اپنے کزن اعجاز علی کو بیٹی کے پاس بھیجا جو کہ اس وقت کزن شوکت کے گھر روانہ کیا جہاں سے بیٹی کزن شوکت کی بیوی کے ساتھ واپس رات ایک بجے گھر آگئی اور میں نے حسنین شاہ کو بھی فون کر کے گھر آنے کا کہا۔
والد کے مطابق حسنین شاہ نے بیٹی مشعل پر ذہنی ٹارچر کیا اور اس قدر پریشان کیا جس سے وہ ذہنی دباؤ برداشت نہ کرتے ہوئے رات کے وقت گھر سے بھاگ نکلی جبکہ کزن کی بیوی نے اسے روکنے اور پکڑنے کی کوشش کی مگر مشعل کو حسنین شاہ نے اس قدر اذیت اور زہنی ٹارچر کیا تھا کہ وہ بھاگتے ہوئے برساتی نالے میں کود پڑی جبکہ اس وقت گلی کے چوکیدار شہباز نامی شخص اور کزن کی بیوی نے بھی اسے پکڑنے کی کوشش کی۔
مدعی کے مطابق اس واقعے کی مجھے بذریعہ فون اطلاع ملی میں اپنے داماد حسنین شاہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر فون بند ہونے پر رابطہ نہ ہو سکا جبکہ داماد اپنی مرضی سے گھر سے کہیں نکل گیا۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کی اطلاع پر میں گلگت سے کراچی پہنچا اور معلوم ہوا کہ 7 سے 8 گھنٹے تک داماد نے معلومات ہونے پر بھی کوئی رابطہ نہیں کیا اور خود بھی غائب ہوگیا۔
کراچی پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ریسکیو 1122 اور ایدھی کے غوطہ خوروں نے ابتک اپنے طور پر ہرممکن کوشش کی لیکن میری بیٹی تاحال زندہ یا مردہ بازیاب نہ ہو سکی۔
مدعی نے دعویٰ کیا ہے کہ دوران تلاش پولیس کو کسی نامعلوم ذرائع سے بیٹی مشعل کے بارے میں راشد منہاس پارک میں زخمی ہونے کی موجودگی کا معلوم ہونے پر وہاں سے ایک خون آلود ٹائل قبضے میں لیا ہے جبکہ پولیس نے ڈی این اے کے لیے جناح اسپتال میں میرے خون کا نمونہ بھی حاصل کیا ہے۔
مدعی کے مطابق اب میں رپورٹ کرنے آیا ہوں کہ میرا دعویٰ میرے داماد حسنین شاہ پر میری بیٹی مشعل کریم پر دوسری شادی کے چکر میں ذہنی اذیت دیتے ہوئے شدید جھگڑا ، مار پیٹ کرنے اور پریشان کرتے ہوئے بیٹی کو مذکورہ کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرنے کا ہے لہذا قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن چوہدری نواز نے بتایا کہ مدعی مقدمہ کے بیان پر پولیس نے مقدمہ نمبر 520 سال 2025 بجرم دفعہ 322 اور 511 کے تحت مقدمہ درج کر کے لاپتہ ہونے والی خاتون کے شوہر حسنین شاہ کو گرفتار کرلیا اور مزید تفتیش کے لیے انویسٹی گیشن پولیس کے حوالے کر دیا۔

20/09/2025

#خبر

چارلی کرک کا قتل: کیا امریکہ اپنی تاریخ کے خطرناک ترین موڑ سے گزر رہا ہے؟  #خبرکیٹی کےعہدہ، نمائندہ خصوصی برائے امریکا19...
20/09/2025

چارلی کرک کا قتل: کیا امریکہ اپنی تاریخ کے خطرناک ترین موڑ سے گزر رہا ہے؟
#خبر
کیٹی کے
عہدہ، نمائندہ خصوصی برائے امریکا
19 ستمبر 2025
امریکہ کے لیے یہ ایک ظالم ہفتہ رہا، یہ سوچنے والی میں اکیلی نہیں ہوں کہ کیا ملک کو نفرت اور تشدد سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔
امریکی ریاست یوٹا میں ملکی تاریخ کے اندوہناک قتل کے بعد ریاست کے گورنر نے امریکیوں سے سیاسی گرما گرمی کم کرنے کی درخواست کی۔
لیکن چارلی کرک کی موت کے بعد بمشکل ہی کسی نے یہ سوچا ہو کہ کیا یہی وہ راستہ ہے، جسے منتخب کیا جائے گا۔
امریکہ کی حالیہ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب کسی سانحے کے بعد بھی امریکیوں نے متحد نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

14 برس قبل ریاست ایریزونا میں جب ایک ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون رکنِ کانگریس کے سر میں گولی ماری گئی اور آٹھ سال قبل جب رپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن کو بیس بال کی پریکٹس کے دوران قتل کر دیا، یہاں تک کہ کووڈ کی عالمی وبا نے بھی امریکیوں کو متحد کرنے کے بجائے اُن میں موجود تقسیم کو مزید بڑھا دیا۔ اس تقسیم کی وجہ سادہ سی ہے لیکن اسے تبدیل کرنا بہت مشکل ہے۔ امریکی سیاست ایسے افراد اور پلیٹ فارمز کو انعامات سے نوازتی ہے جو تناؤ اور کشیدگی کم کرنے کے بجائے اُسے ہوا دیتے ہیں۔
امریکہ بھر میں کسی بھی سیاسی اُمیدوار کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی مہم میں وہی بات کرے جو سیاسی حامی سننا چاہتے ہیں نہ کہ وہ سیاست میں درمیانے راستے کا انتخاب کرے۔
یہ امریکی سیاسی نظام کی وہ ضمنی پیداوار ہے جو ملک کے سیاسی نظام کو مزید تقسیم اور غیر فعال کر رہی ہے۔
میڈیا میں جو افراد سیاست پر اپنی رائے دیتے ہیں، انھیں بھی غصہ دلواتے اور بھڑکاتے ہوئے زیادہ دیکھا جاتا ہے اور اشتہارات سے کمائی ہوتی ہے۔
یہ منافع پر مبنی وہ ڈھانچہ ہے جس کی بنیاد پر یوٹا کے گورنر نے غیر معمولی اپیل کی۔
چارلی کرک کے قتل نے امریکیوں پر زور دیا کہ وہ ’اپنے خاندان کے کسی فرد کو گلے لگائیں، باہر جائیں اور کمیونٹی میں اچھا کام کریں۔‘
واضح تقسیم کے سمندر میں مصالحت کی یہ کوشش بہت ہی خوش آئند ہے۔
یہ دور ساٹھ اور ستر کی دہائی سے کیسے مختلف ہے؟
سیاسی تشدد اور تقسیم امریکی معاشرے کے لیے نئی نہیں۔ 160 سال قبل امریکہ نے اپنے ہی خلاف جو جنگ شروع کی تھی وہ پھر کبھی رکی ہی نہیں۔
1960 کی دہائی میں پانچ سال کے دوران امریکی صدر کا قتل ہوتا ہے پھر صدر کے بھائی اپنی صدراتی مہم کے دوران مارے جاتے ہیں۔
اسی عرصے کے دوران شہری آزادی کے لیے آواز اُٹھائے جانے والے دو سرکردہ رہنماؤں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
1970 کی دہائی میں امریکی صدر پر دو مختلف مقامات پر فائرنگ ہوتی ہے اور 1980 میں رونلڈ ریگن پر فائرنگ ہوتی ہے۔
22 نومبر 1963 کو امریکی صدر جان ایف کینیڈی اپنی اہلیہ جیکی کینیڈی اور ٹیکساس ریاست کے گورنر جان کونالی جونیئر اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ایک کنورٹیبل گاڑی میں ڈیلس کے ڈیلی پلازہ کے سامنے سے گزر رہے تھے جب اچانک گولیاں چلیں
گذشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ پر دو قاتلانہ حملے ہوتے ہیں جن میں وہ بچ گئے تھے۔ ان حملوں پر مقدمے کی سماعت شروع ہوئی ہی تھی کہ چارلی کرک کو قتل کر دیا گیا۔
لیکن 1960 اور ستر کی دہائی کے مقابلے میں یہ دور بہت مختلف ہے اور اسی وجہ سے یوٹا کے گورنر پریشان ہیں۔
اگرچہ انھوں نے احتیاط کا مظاہرے کرتے ہوئے وہ باتیں نہیں کیں جس سے مزید تقسیم پیدا ہو لیکن انھوں نے واضح طور پر سوشل میڈیا کمپنیوں کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا۔
گورنر سپنسر نے اتوار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’میرے خیال میں گذشتہ پانچ سے چھ برس کے دوران ہونے والے ہر قتل اور قتل کرنے کی کوشش میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ امریکی معاشرے کو اس (سوشل میڈیا) نے جو نقصان پہنچایا، اس کے لیے’کینسر‘ ممکنہ طور پر بہت کمزور لفظ ہے۔
گذشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ پر دو قاتلانہ حملے ہوتے ہیں جن میں وہ بچ گئے تھے
چارلی کرک کے قتل پر زیادہ تر سوشل میڈیا کمپنیوں نے باضابطہ بیان جاری نہیں کیا لیکن ایکس کے مالک ایلون مسک نے لکھا کہ ’انتہائی بائیں بازوں کے افراد چارلی کرک کے قتل پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ ایسے جنونی افراد جو قتل پر خوشیاں منا رہے ہیں ان کے ساتھ اتحاد ناممکن ہے۔‘
انھوں نے سوشل میڈیا کے اثرات پر ہونے والی بحث پر لکھا کہ ’اگر ایکس پر ہونے والی کوئی بحث منفی بھی ہو گئی ہے تو یہ پھر بھی اچھا ہے کہ کچھ ڈسکشن تو ہو رہی ہے۔‘
’یہ ایک ناکام شادی کی طرح ہے‘
سوشل میڈیا اور سیاست کے امتزاج سے ہونے والے نقصانات نے سیاسی لحاظ سے پرجوش افراد کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
یوٹا سٹیٹ یونیورسٹی میں چارلی کرک کی تنظیم کی صدر کھیتلین گیرافتھی نے کہا کہ ’یقینی طور پر سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کے لیے مشکل چیز ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ کسی ایسے شخص سے بات چیت بھی نہیں کر سکتے جس کے سیاسی عقائد آپ سے مختلف ہوں اور میں سجھتی ہوں کہ یہ بہت المناک ہے۔‘
یہ بہت افسوسناک ہے۔ اگرچہ کرک خود کو آزادی اظہار کے علمبرادر کے طور پر دیکھتے تھے لیکن اُن کے ناقد اس بات سے متفق نہیں تھے۔
چارلی کرک کی موت نے ملک میں اختلافِ رائے کو مزید پیچھے دکھیل دیا۔
یوٹا سٹیٹ یونیورسٹی میں چارلی کرک کی تنظیم کی صدر کھیتلین گیرافتھی نے کہا کہ ’یقینی طور پر سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کے لیے مشکل چیز ہے‘
کرک کی ہلاکت کے چند دن کے اندر اندر ملک میں مخالف سیاسی کیمپس پہلے ہی ایک دوسرے کے مخالف بیانیے کی آڑ لے رہے ہیں۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی کوشش ہے کہ وہ ایسی چیزیں تلاش کریں کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ کرک کا قاتل انٹرنیٹ اور گروپ چیٹس کے ذریعہ بنیاد پرست بنا۔ بائیں بازوں کے افراد کا کہنا ہے کہ یہ چھان بین کرنی چاہیے کہ آیا مشتبہ شخص کسی سازش کا حصہ تو نہیں۔
یہ جو بگاڑ ہو گیا ہے کہ اس کو ٹھیک کرنا کسی بھی گروہ کی ترجیح نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی کا مطالعہ کرنے والوں کے خیال میں موجودہ تقسیم پر بائیں اور دائیں جانب دیکھنا زیادہ مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سینٹر کی سینیئر فیلو ریچل کلین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو بے قابو کر رہی ہے۔‘
’درجہ حرارت اور تناؤ کو کم کرنے کی خواہش ضرور ہوتی ہے لیکن لوگوں کو زیادہ ہمت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ہمیں زیادہ توجہ اس پر دینی چاہیے کہ ہم ایک معاشرے کے طور پر کیسے نئے باب کی ابتدا کر سکتے کیونکہ یہ ایک ناکام شادی کی مانند، جو صرف انگلی اٹھانے (سوالات کرنے) سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔‘
مصالحت کیسے ہونی چاہیے؟
کیا امریکہ معاشرے کی تقسیم کو ہوا دینے والے الگورتھم کی گرفت کو توڑ سکتا ہے تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کے لیے ایک ایسے مضبوط طاقتور رہنما کی ضرورت ہے جو مفاہمت کے لیے پرعزم ہو۔
سیاسی اُمور کے مصنف ڈیوڈ ڈرکر کا کہنا ہے کہ ’میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم اس سے کیسے باہر نکل سکتے ہیں لیکن اگر دونوں جماعتیں اور جماعتوں سے مراد صرف سیاسی شخصیات نہیں، الزام تراشیاں روک دیں اور اسے بند کرنے پر متفق ہوں۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’عموماً صدر ہی اس قسم کی سہولت کاری فراہم کر سکتا ہے لیکن مجھے نہیں پتہ کہ ہم اُس مرحلے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔‘
ٹرمپ اس قسم کے صدر نہیں۔ وہ اکثر سیاسی طور پر اُس وقت سب سے زیادہ مضبوط دکھائی دیتے ہیں جب وہ اپنے کسی مخالف سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔
میں یہ سمجھتی ہوں کہ ٹرمپ کو یقین ہے کہ بائیں بازو کے لوگ ان کی ’میگا تحریک‘ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور چارلی کرک کی موت کے بعد یوٹا کے گورنر کے مقابلے میں ٹرمپ نے مختلف لہجہ اختیار کیا۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ وہ اس معاملے کو کیسے ٹھیک کریں گے تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ ’آپ کو کچھ بتانے پر میں مشکل میں آ جاؤں گا لیکن لاپرواہی نہیں کر سکتا۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ ’دائیں جانب کے بنیاد پرست اکثر اس لیے بنیاد پرست ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جرم نہیں دیکھنا چاہتے، بائیں طرف کے بنیاد پرست ہی مسئلہ ہیں۔‘
چارلی کرک کے قتل کے بعد اوول آفس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’بائیں بازو کے بنیاد پرست افراد کے سیاسی تشدد نے کئی معصوم لوگوں کو نقصان پہنچایا اور کئی جانیں لی ہیں۔‘
صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ کہنا کہ یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر بنیاد پرست بائیں بازو کا کام تھا، وائٹ ہاؤس کے دیگر عہدیداروں نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی۔
صدر ٹرمپ کے ڈپٹی چیف آف سٹاف سٹیفین ملر نے کہا کہ ’میں خدا کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ ہم ایسے نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور تباہ کرنے کے لیے اپنے پاس موجود تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم یہ کریں گے اور ہم یہ چارلی کے نام پر کریں گے۔‘
دوسری جانب سیاسی وجوہات کی بنا پر ہونے والے قتل اور تشدد پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق امریکہ میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ایسے کیسز میں زیادہ تر دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام سامنے آئے ہیں لیکن کوئی حتمی رائے قائم کرنے کے لیے مزید کیسز کا مشاہدہ کرنا ضروری ہے۔
’لوگ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا‘
میں نے کچھ لوگوں سے امریکی تاریخ کے تاریک دور کے بارے میں بات کی۔
رپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے رکنِ کانگریس جو سکاربور نے مجھے بتایا کہ ’امریکہ میں کچھ ادوار سیاسی طور پر زیادہ تاریک یا پرتشدد رہے ہیں (1960 کی دہائی اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں) جس میں ویتنام اور واٹر گیٹ سکینڈل سامنے آیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لیکن ملک آگے بڑھا، اپنی پر تشدد تقسیم سے آگے بڑھتے ہوئے 200 سالہ جشن منایا، دوبارہ ایسا ہی ہو گا۔‘
اس کے علاوہ میں نے اُن افراد سے بھی بات کی جو پرُ امید ہیں، ان میں جارجیا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹس پارٹی کے سینیٹر رافیل وارنوک بھی شامل ہیں۔ وہ امریکہ کے سینیئر ترین سیاہ فام عہدیداروں میں سے ایک ہیں۔
انھوں نے سیاسی تشدد کو بدترین ’جمہوریت مخالف‘ اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی لیکن مجھے نسل پرستی جیسے مسائل پر امریکی پیشرفت یاد دلائی۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’کسی بھی خاندان کی کہانی ہمیشہ ان کہانیوں سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے جو ہم خاندان کے دوبارہ متحد ہونے پر خود کو سناتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فوجی کی وردی پہنے ہوئے بھی میرے والد کو بس میں اپنی سیٹ نوجوان کے لیے چھوڑنی پڑی تھی لیکن اب میں سینیٹ کی نشست پر بیٹھا ہوں۔‘
وہ پر اُمید ضرور ہیں لیکن مجھے اس جانب کوئی واضح راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔
ایسے موقع پر جب امریکہ اپنے قیام کی 250ویں سالگرہ منانے کی تیاری کر رہا ہے، میں نے رواں سال کے ابتدا میں مشہور تاریخ دان اور فلم ساز کین برنس کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بہت سوچا۔
کین برنس کہتے ہیں کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘
برنس نے مصنف مارک ٹوین سے منسوب ایک اقتباس کا حوالہ دیا کہ ’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نہیں لیکن یہ اکثر شاعری کرتی ہے۔‘
دوسرے لفظوں میں، اگر حال ماضی کی طرح لگتا بھی ہے تو چیزیں کبھی بھی ایک ہی طرح سے نہیں ہوتی ہیں۔
تناؤ کے اس لمحے میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ امریکی تاریخ کے دیگر اختلافی ادور سے مطابقت رکھتا ہے لیکن یہ ان کو دہرا نہیں رہا۔
یہ درست ہے کہ امریکی تاریخ غصے اور تنازعات سے بھری ہوئی ہے لیکن میں اس بات پر متفق نہیں ہوں کہ اس ملک کا سماجی اور سیاسی نظام ہمیشہ جذبات کو بھڑکانے والی کمپنیوں اور افراد کو نوازنے میں اتنا ہی متحرک رہا۔
اس دوران امریکہ مزید کمزور ہو گا عظیم نہیں۔۔۔
سابق وزیر دفاع باب گیٹس نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کو تین بڑے خطرات لاحق ہیں: چین کا عروج، روس کا زوال اور تیسرا خطرہ ملک کی اپنی اندرونی تقسیم ہے۔
امریکہ کے مخالفین یقیناً جانتے ہیں کہ یہ تقسیم اس سپر پاور کو کتنا نقصان پہنچا رہی ہے اور وہ امریکیوں کو مزید تقیسم کا شکار کرنے کے لیے آن لائن سخت محنت کر رہے ہیں اور امریکی ان کے لیے اسے مزید آسان بنا رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا بگرام فوجی اڈے کا کنٹرول واپس لینے کا اعلان: ’لالچ پر مبنی مقاصد رکھنے والوں کو افغانستان کی تاریخ پڑھنی چ...
20/09/2025

ڈونلڈ ٹرمپ کا بگرام فوجی اڈے کا کنٹرول واپس لینے کا اعلان: ’لالچ پر مبنی مقاصد رکھنے والوں کو افغانستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے،‘ طالبان کا جواب
#خبر
19 ستمبر 2025
افغانستان میں طالبان کی حکومت نے امریکہ کی جانب سے بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے عزائم رکھنے والوں کو ’افغانستان کی تاریخ دیکھنی چاہیے۔‘
جمعے کو طالبان حکومت کے قطر میں سفیر سہیل شاہین کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بھی ’اگر وہ ہم سے اچھے تعلقات، افغانستان میں سرمایہ کاری، تجارت اور سفارتی تعلقات چاہتے ہیں تو ہم ان کو خوش آمدید کہیں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’لیکن اگر وہ لالچ پر مبنی مقاصد رکھتے ہیں تو انھیں برطانوی دور میں (افغانستان پر کیے جانے والے) حملے سے لے کر حالیہ امریکی حملے تک افغانستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے۔‘
’وہ اس سے بہت کچھ سیکھیں گے۔‘
اس سے قبل افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار ذاکر جلالی نے ’ایکس‘ پر پوسٹ کیے گئے اپنے بیان میں کہا کہا تھا کہ دوحہ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کے دوران اس نوعیت کے کسی امکان کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا۔
ذاکر جلالی نے مزید کہا کہ ’امریکہ کے افغانستان کے کسی بھی حصے میں فوجی موجودگی برقرار رکھے بغیر‘ افغانستان اور امریکہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی اقتصادی اور سیاسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے یہ بیان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حالیہ بیان کے ردعمل میں آیا ہے جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں موجود بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ کو چین کے نزدیک واقع اس فوجی اڈے کی ضرورت ہے۔

یہ بات جمعرات کو برطانیہ کے اپنے دو روزہ دورے کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم کے ہمرار مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کی تھی۔
بین الاقوامی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ سے وابستہ صحافی نے پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ سے روس اور یوکرین کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات کی بابت سوال پوچھا تھا۔
اس سوال کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بلواسطہ طور پر سابق بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’روس کی نظر میں اگر امریکی قیادت کی کوئی اہمیت ہوتی تو وہ ایسا (یوکرین پر حملہ) کبھی نہ کرتا۔‘
ٹرمپ نے سابق امریکی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا ’بغیر کسی وجہ کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بہت شرمناک تھا اور ہم افغانستان سے طاقتور اور قابلِ عزت طریقے سے بھی نکل سکتے تھے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم بگرام ایئر بیس، جو دنیا کے بڑے فوجی اڈوں میں ایک ہے، کو واپس لینے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ آپ کے لیے ایک چھوٹی سی بریکنگ نیوز ہو سکتی ہے۔ ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ انھیں (افغانستان) بھی ہماری ضرورت ہے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’اس فوجی اڈے کو واپس لینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ (بگرام) چین کے جوہری ہتھیار بنانے کے مقام سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔‘
یاد رہے کہ افغانستان میں موجود بگرام فوجی اڈے کا شمار امریکہ کے دنیا بھر میں قائم بڑے فوجی اڈوں میں ہوتا تھا۔ سنہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے وقت امریکہ نے یہ اڈا خالی کر دیا تھا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ جب ٹرمپ نے بگرام اییر بیس کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے اسے دوبارہ حاصل کرنا کی بات کی ہے۔ اس سے قبل صدارت سنھبالنے کے اپنی کابینہ کے ساتھ پہلی میٹنگ کے پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے بگرام کا اڈہ خالی کرنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں بگرام فوجی اڈہ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔
ماضی میں تقریباً ہر بار جب انھوں نے کابل کے شمال میں واقع صوبہ پروان میں بگرام کے فوجی اڈے کا ذکر کیا تو اس کے فوراً بعد ہی چین کا ذکر بھی کیا اور دعویٰ کیا کہ ’چین نے بگرام پر قبضہ کر لیا ہے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے آخری بار رواں ماہ (سات جولائی) کابینہ کے اجلاس میں کہا تھا کہ ’اگر میں ہوتا تو بگرام کا بڑا فوجی اڈہ اپنے پاس ہی رکھتا، جو کہ اب چین کے کنٹرول میں ہے۔ (بگرام) دنیا کے سب سے طاقتور رن ویز میں سے ایک ہے، جو کہ کنکریٹ اور سٹیل سے بنا ہوا ہے۔ بگرام ایک بہت بڑا بیس تھا۔ یہ سینکڑوں کلومیٹر طویل مضبوط دیواروں سے گھرا ہوا تھا، اس کے ارد گرد کا علاقہ محفوظ تھا، اور کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔'
ٹرمپ نے بگرام ایئربیس لینے کی بات برطانوی وزیراعظم کے ساتھ کی گئی مشترکہ پریس کانفرنس میں کی تھی
بگرام اڈے کی حالیہ سیٹلائٹ تصاویر کیا ظاہر کرتی ہیں؟
بی بی سی نے جولائی 2025 میں سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے بگرام اڈے کا تفصیلی جائزہ لیا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ اڈہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اب کس صورتحال میں ہے۔
امریکی انخلا سے پہلے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کی سیٹلائٹ تصاویر میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے مختلف اوقات میں لی گئی بہت سی سٹیلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا تھا۔
مثال کے طور پر 24 ستمبر 2020 کو پلینٹ لیبز کمپنی کی طرف سے لی گئی ایک سیٹلائٹ تصویر میں اس اڈے پر کم از کم 35 مختلف طیارے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم طالبان کے اقتدار میں آنے کے تقریباً ایک سال بعد پورے بیس میں ایک بھی طیارہ نظر نہیں آیا۔
دیگر سیٹلائٹ تصاویر میں دو بڑی تبدیلیاں نظر آئی تھیں۔
ایک تو یہ کہ بیس کے کئی مقامات سے سینکڑوں کنٹینرز کو کہیں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کنٹینرز لاجسٹک سٹوریج کے لیے استعمال کیے گئے ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ کنٹینرز کو بگرام ایئر بیس سے یا بیس کے اندر دیگر علاقوں میں منتقل کیا گیا تھا۔
بیس میں کم از کم دو مقامات پر موجود تقریباً 40 کنٹینرز کو وہاں سے منتقل کیا گیا تھا۔
اڈے کے ایک اور مقام پر سو سے زیادہ مختلف گاڑیاں کھڑی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ گاڑیاں طالبان کے قبضے کے بعد اڈے کے مختلف حصوں سے اکٹھی کر کے ایک جگہ کھڑی کی گئی تھیں۔
بگرام کے فوجی اڈے کے علاقے سے پچھلے تین سالوں میں مختلف اوقات میں لی گئی سیٹیلائٹ تصاویر میں بہت ہی کم مواقع پر کوئی گاڑی بیس کی اندرونی سڑکوں پر بظاہر حرکت میں نظر آتی ہے۔
ان تصاویر کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بگرام فوجی اڈے میں کوئی بڑی سٹرکچرل تبدیلیاں نہیں ہوئی ہیں۔
ہم نے سیٹیلائٹ سے لی گئی کچھ تصاویر سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کی جینیفر جونز کو نظرثانی کے لیے پیش کیں۔
اُن کے مطابق فروری 2025 کی ایک تصویر کے علاوہ، جس میں رن وے پر ایک ہیلی کاپٹر دکھایا گیا ہے، بقیہ تصاویر جو 2021 کے وسط سے اپریل 2025 کے درمیان لی گئی ہیں، ان سیٹلائٹ تصاویر میں واضح طور پر کوئی طیارہ نہیں دکھایا گیا ہے۔
جینیفر جون کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ گذشتہ چار سالوں میں اس بیس پر کوئی دوسرا طیارہ نہ آیا ہو۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ امکان بھی ہے کہ ہوائی جہاز کی نقل و حرکت اس وقت کے دوران نہ ہوئی ہو جب یہ سیٹیلائٹ کی تصاویر لی گئی تھیں (یعنی مقامی وقت کے مطابق صبح 11 بجے سے دوپہر 2 بجے کے درمیان) یا ہو سکتا ہے کہ ہوائی جہاز کو محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہو۔‘
جون نے مزید کہا کہ 2025 کے اوائل میں لی گئی کچھ تصاویر میں ہوائی اڈے کے کچھ حصوں میں زمین پر کچھ سیاہ نشانات دکھائی دے رہے تھے، جو کہ تیل کے ذخائر ہو سکتے ہیں۔
جینیفر جون کے مطابق، ایئر بیس کی صورتحال کا سب سے اہم پہلو اس کے رن وے کی حالت ہے۔ حفاظتی وجوہات کی بنا پر ہر فعال رن وے کو ملبے سے پاک رکھا جاتا ہے۔
اپریل 2025 کی حالیہ تصاویر دونوں رن ویز کو اچھی حالت میں دکھاتی ہیں۔ تاہم سنہ 2025 میں سٹیلائٹ تصاویر میں کوئی طیارہ نہیں دیکھا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ بظاہر بگرام ایئر بیس بالکل اُسی حالت میں ہے جس طرح امریکی افواج وہاں سے نکلی تھیں۔
بگرام اڈہ اہم کیوں ہے؟
گذشتہ دو دہائیوں میں تین امریکی صدور بگرام اڈے کا دورہ کر چکے ہیں، جو بائیڈن نے 2011 میں اس اڈے کا دورہ کیا تھا تاہم اُس وقت وہ امریکہ کے نائب صدر تھے
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع صوبہ پروان میں بگرام اڈے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں تین امریکی صدور اس اڈے کا دورہ کر چکے ہیں جن میں جارج ڈبلیو بش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔
جو بائیڈن نے سنہ 2011 میں بگرام ایئربیس کا دورہ کیا تھا، تاہم اُس وقت وہ امریکہ کے نائب صدر تھے۔
سوویت یونین نے یہ فوجی اڈہ 1950 کی دہائی میں صوبہ پروان میں قائم کیا تھا۔ بگرام 1980 کی دہائی میں افغانستان پر قبضے کے دوران سوویت افواج کا انتہائی اہم اڈہ سمجھا جاتا تھا۔
11 ستمبر کے حملوں اور امریکہ کی طرف سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کرنے کے بعد، امریکی افواج دسمبر 2001 میں اس اڈے میں داخل ہوئیں اور یہاں قابض ہو گئیں۔
تقریباً دو دہائیوں تک یہ اڈہ القاعدہ اور طالبان کے خلاف لڑائی کا مرکز رہا۔ یہ 77 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جبکہ اس میں موجود بیرکس اور رہائش گاہیں ایک وقت میں 10 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو پناہ دے سکتی ہیں۔
بگرام کے دو رن ویز میں سے ایک ڈھائی کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ’اس اڈے میں سب سے مضبوط اور سب سے بڑا کنکریٹ رن وے ہے۔‘ ٹرمپ کے مطابق اس رن وے کی موٹائی تقریباً دو میٹر ہے۔

20/09/2025

آرام باغ پر ایک بزرگ مختلف جڑی بوٹیاں فروخت کرتے ہیں۔ جس جگہ وہ بیٹھے ہیں کسی زمانے میں اس دکان پر حکیم سعید بیٹھا کرتے تھے
#خبر

19/09/2025

GulshaneHadeed
#خبر

18/09/2025

کراچی شاہراہ بھٹو کے بعد پیش خدمت ہے ملیر ڈیم ، #خبر

18/09/2025

کراچی شاہراہ بھٹو کے بعد پیش خدمت ہے ملیر ڈیم
#خبر

Address

Karachi
75850

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Karachi News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share