Kitab Culture

Kitab Culture KITAB CULTURE IS A VOICE FOR KITAB CULTURE.....OUR DREAM IS TO MAKE A LITERARY AND BOOK LOVING SOCIETY.... COME AND JOIN US IN THIS NOBEL EFFORT....

خانہءِ فرہنگ ایران میں منعقدہ شعری نشست میں پڑھی گئی۔۔۔سلگتی راکھ کا وعدہ۔۔۔۔۔(غزہ کے لیے ایک نظم)ادھر کچھ دن ہوئے جاناں...
27/11/2024

خانہءِ فرہنگ ایران میں منعقدہ شعری نشست میں پڑھی گئی۔۔۔
سلگتی راکھ کا وعدہ۔۔۔۔۔
(غزہ کے لیے ایک نظم)
ادھر کچھ دن ہوئے جاناں
میں اک دن راکھ کے اک ڈھیر سے جنما
سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ میرے خواب کے اندر کھلا اک در
یا میرے خواب سے باہر کی دنیا میں دھواں پھیلا
بہت سا شور تھا اور خون تھا اور لوگ تھے جو مررہے تھے
بہت سے ہنستے بستے گھر تھے جو بکھر رہے تھے
کون تھے یہ لوگ سارے، میرے جیسے، میری بستی، شہر کے میرے
نہ جانے کون تھے جو مارتے تھے
اور وہ جو مررہے تھے میرے اپنے تھے
تبھی سے سوچ میں کچھ آبلوں نے گھر بنائے ہیں
مرے سینے میں ہر اک سانس جلتی ہے
مری آنکھوں میں جلتے کوئلوں نے منظروں میں آگ بھردی ہے
مجھے اب ایسا لگتا ہے
مرے قدموں تلے مٹی نہیں میری
سلگتی راکھ ہے گویا
مجھے اب ایسا لگتا ہے
مرا گھر کھوگیا ہے اور گلیاں بھولتا ہوں میں
مجھے اب ایسا لگتا ہے
میں کوئی اور ہوں شاید
یہاں کا تو نہیں ہوں میں
یہاں جو گھر تھے، میرے گھر تھے، میرے شہر تھے اپنے
سمندر بھی یہ اپنا تھا
یہ ساحل بھی مرے اپنے
یہ سارے لوگ میرے تھے
نہیں واقف تھے مجھ سے پر
یہ سارے لوگ میرے تھے
جو مجھ سے ناشناس اپنے دکھوں میں الجھے رہتے تھے
یہ سارے میرے اپنے تھے
مری مٹی، پسینے، خون کے رشتے
مگر اب دیکھتا ہوں کہ
زمیں الٹا کے رکھ دی ہے کسی نے ایک ہی پل میں
مرے منظر سبھی جلنے لگے ہیں
مرے رستے عذابوں کے تسلسل میں بھٹکتے ہیں
مجھے لگتا ہے میں اک بے سفر رستے کا حصہ ہوں
کبھی لگتا ہے میں جلتے ہوئے خیموں کی بستی کا
کوئی بھولا ہوا تاریک قصہ ہوں
مرے چہرے پہ کوئی اور چہرہ ہے
مری سانسوں میں کوئی اور زندہ ہے
مری مٹی کہیں گروی پڑی ہے
مری صورت کہیں رکھی ہوئی ہے
مری بستی یہاں بکھری ہوئی ہے
مری ہستی کہیں کھوئی ہوئی ہے
میں خود کو کھوچکا ہوں پر
یقیں اب بھی یہ باقی ہے
سلگتی راکھ کے اس ڈھیر سے
میں پھر سے جنموں گا
نیا چہرہ، نئی امید لے کر
پھر سے آئوں گا
انہی زیتون کے باغوں میں مجھ سے ملنے آنا تم
جہاں پہلی دفعہ تم نے غزہ کہہ کر پکارا تھا
تمہیں اقصی کہوں گا میں
اسی مٹی سے اور سلگی ہوئی اس راکھ سے ہم گھر بنائیں گے
فراتِ عصر سے لبنان تک ہم ننگے پائوں چل کے جائیں گے
عراق و اصفہاں کے نام پر شمعیں جلائیں گے
اسی مٹی سے اور اس راکھ سے اک دن اُگائیں گے
فلسطینی مچھیرے گیت گائیں گے
محبت اب بھی زندہ ہے یہ دنیا کو بتائیں گے
محبت اب بھی زندہ ہے یہ دنیا کو بتائیں گے۔۔۔۔
سید کامی شاہ ، کراچی

الحمدللہ 💖 ہماری کتاب یہ عہد ہمارا ہے ، طباعت کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے، فلیپ جو الٹے سیدھے ہوگئے تھے اب بالکل سیدھے ہو...
08/11/2024

الحمدللہ 💖
ہماری کتاب یہ عہد ہمارا ہے ، طباعت کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے، فلیپ جو الٹے سیدھے ہوگئے تھے اب بالکل سیدھے ہوگئے ہیں، فلیپ پر شعرائے کرام کے نام رینڈم ہی ہیں تاہم کتاب میں سب کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب سے ہی آئیں گے، اگر کسی دوست کا نام فلیپ پر نہیں آسکا ہے تو کبیدہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں، کتاب میں آپ کا نام اور کلام شامل ہوگا۔
ہمارے عزیز اور قدیم دوست ابنِ آس محمد کو اللہ تعالیٰ زندگی دے کہ یہ کتاب انہی کے معتبر ادارے سے شائع ہورہی ہے۔
امید ہے کہ نومبر کے آخر میں یا دسمبر کے اوائل میں یہ شاندار کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہوگی۔
ایک ایسی کتاب جو حوالہ بن جانے کے قابل ہے اور آنے والے وقتوں میں تاریخی حیثیت اختیار کرے گی۔
مزید تفصیلات، معلومات اور کتاب کی بکنگ کے لیے آس پبلی کیشنز سے رابطہ کریں یا اس نمبر پر واٹس ایپ کریں۔
شکریہ

03002522350

شامدار کامی۔۔۔۔۔دنیا کی تمام از جملہ صورتی، چمپئی، کاسنی اور سنہری شاموں میں، مجھے کامیؔ کی شام سب سے زیادہ پسند ہے۔ تھک...
20/10/2024

شامدار کامی۔۔۔۔۔
دنیا کی تمام از جملہ صورتی، چمپئی، کاسنی اور سنہری شاموں میں، مجھے کامیؔ کی شام سب سے زیادہ پسند ہے۔ تھکا ہوا سورج دن بھر سنہری کرنیں لُٹا کر جس افق پر غروب ہوتا ہے وہاں کامیؔ اپنے بھرپور نظام اور جلال و جبروت کے ساتھ کمر کا خم نکالے اور سینہ تانے اپنے نیم نقرئی بالوں میں ایک خاص دانشورانہ ادا سے ہاتھ پھیرتا ہوا اس کا استقبال کرتا ہے اور پھر اسے رخصت کر کے خود طلوع ہونے لگتا ہے۔
منظر تبدیل ہونے پر ایک پہر وہ بھی آتا ہے جب کامیؔ اور سورج دوبارہ رو بہ رو ہوتے ہیں اور سورج کامی کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے اسے مشترکہ مقصد کو ایمانداری سے آگے بڑھانے کی یقین دہانی کراتا ہے اور مشرق سے ابھر آتا ہے۔
میں نے کامیؔ کو کبھی آنکھیں ملتے نہیں دیکھا۔ ہاں، اکثر اس کی آنکھوں میں تھکاوٹ اور نیند کو مچلتا ضرور دیکھتا ہوں، جو مجھے دیکھ کر ہاتھ ملنے لگتے ہیں۔
کامیؔ کوئی فاشسٹ نازی نہیں۔ لیکن وہ اپنے تخلیقی سفر میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا قائل ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ وہ اس پر قادر بھی ہے۔ اور اس زنجیر تڑوانے کے عمل میں مجھے اس کا رویہ بالکل نازیوں کا سا معلوم ہوا۔ کامیؔ روایتی شاعروں کے بر خلاف سخت اور بڑے فیصلے کرنے سے معذور نہیں۔ اور جب جب وہ اپنے ارادے میں خود کو متردد پاتا ہے تو وہ اُس بات کو اپنے شعروں میں اور گفتگو میں بار بار دہراتا ہے یہاں تک کہ دوبارہ قائل ہوجاتا ہے۔
یوں تو مجھے کامی کی ہر ہر ادا مربوب ہے، لیکن اس کے اس طریقے پر میں بطور خاص فریفتہ ہوں۔
کامیؔ شاعروں میں نطشے کا ”سپر مین“ ہے۔ بڑے کو بڑا مان لینے میں کامیؔ کو کوئی عار نہیں۔ وہ استادوں کو پڑھتا ہے، ان سے متاثر بھی ہوتا ہے اور انہیں تسلیم بھی کرتا ہے۔ لیکن اس کی برداشت صرف مثبت ہوتی ہے۔ جس طرح نطشے کے مطابق ”سپرمین“ وہ انسان ہے جس میں تمام لوگوں کی اچھی صفات موجود ہیں اور وہ تمام علتوں سے محفوظ و مبرا ہے۔ وہ لوگوں کی اچھائی سے اور زیادہ طاقتور اور بڑا ہوتا جاتا ہے۔ نطشے کے مطابق دنیا پر حکمرانی کا حق سپرمین کو حاصل ہے اور وہ لوگوں کا بادشاہ ہے۔ کامیؔ شاعروں کا بادشاہ ہے۔
شعر پر بات کرنا اور شاعری میں حاشیہ آرائی کرنا، بقول کامیؔ دونمبر کام ہے۔ اور مولوی اسی وجہ سے دو نمبر لوگ ہیں کہ وہ خدا کے کلام میں حاشیہ آرائی کرتے ہیں۔ اصل کام شاعری ہے۔ جس سے زندگی جنم لیتی ہے۔ شاعری وہ جادو ہے جس کا ورد ایک عاشق کے بھڑکتے ہوئے بے ہنگم جذبات پر سکون طاری کر دیتا ہے اور دوسری جانب ایک سوتی ہوئی غلام قوم کے سرد اور منجمد افکار میں انقلاب کی لہر دوڑا دیتا ہے۔ کامیؔ کا ماننا ہے کہ شاعری امید پیدا کرتی ہے۔ اور وہ اپنے ایمان کا پکا ہے۔ اس لیے میں نے ہمیشہ دیکھا کہ قدرت نے اس کے ایمان کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوا کہ اتنے بڑے نظام میں حقیقتیں محض اس لیے طے کی گئیں کہ وہ کامی کے ایمان کا جزو تھیں۔
کامیؔ نے کسی شعر میں کہا ہے کہ ؏
بعد از کن کوئی صدا ہوں میں،،
اور میرا خیال ہے کہ ؏
قبل از کن کوئی صدا ہے وہ،،
یہ میرا دعویٰ نہیں، کیونکہ کامیؔ ہی کہتا ہے کہ دعویٰ جھوٹا ہوتا ہے۔ جو لوگ بات کو جان لیتے ہیں اور جاننے کے بعد اسے سمجھ لیتے ہیں تو پھر وہ اس کے متعلق دعویٰ نہیں کرتے۔ اعلان کرتے ہیں۔
جس صراحت سے کامیؔ اس کائنات اور اس کے نظام کے بارے میں اظہارِ خیال اور رد و کد کرتا ہے انہیں دیکھ کر اور سن کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا جب اس جہان کی تخلیق کی جا رہی تھی، اس وقت کامیؔ خلاء میں ، کسی تخلیق شدہ سیارے کا سہارا لیے معلق ہے اور حیرت کا آئینہ بنے اس تماشائے کن کو دیکھ رہا ہو اور اس بات کا منتظر ہو کہ اس سے بھی اس سلسلے میں کوئی رائے لی جائے گی۔
؎ سب کچھ بنایا اس نے بغیرِ مشاورت
مجھ کو پھر اس نظام کا حصہ بنا دیا،،
انسان جب کسی واقعے سے ہمکنار ہوتا ہے، بے غرض اس سے کہ واقعہ خوشگوار ہے یا تلخ، وہ واقعہ اسے بڑا محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح اگر آپ انگلی کی پور کو عین اپنی آنکھوں کے سامنے لے آئیں تو آپ کے سامنے موجود چٹان اس کے پیچھے چھپ جائے گی۔ اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس واقعے کی Magnification کی درصد میں فرق آنا شرع ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان اس سے اتنا دور نکل جاتا ہے کہ چٹان تک انگلی کی پور جتنی معلوم ہونے لگتی ہے۔
کامیؔ شاہ ان سارے چھوٹے بڑے واقعات کو اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتا ہے۔ جب وہ قریب ہوتے ہیں تو ان سے شعر کشید کرتا ہے اور جب دور نکل جاتے ہیں تو ان سے عبرت لیتا ہے۔
تمام شد۔
سیدی #حجازنقوی کا مضمون جو ابھی تک کہیں شائع نہیں ہوا۔
ہمارا ارادہ ہے کہ اسے اپنی آنے والی کتاب #وجودسےآگے میں شامل کریں گے۔

to my newest followers! Excited to have you onboard! Muhammad Ali Manzer, Shahid Hussainمعزز احباب!جیسا کہ ہم نے پہلے بھ...
01/10/2024

to my newest followers! Excited to have you onboard! Muhammad Ali Manzer, Shahid Hussain
معزز احباب!
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ ہماری زیرِ تکمیل کتاب یہ عہد ہمارا ہے، میں غزلیات کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی شامل ہوں گی، نظم کے بہترین شاعروں میں جو اس کتاب میں شامل ہیں ان میں افضال احمد سید، احمد فواد، گلزار، جاوید اختر، علی محمد فرشی، ثمینہ راجہ، جاوید فیروز، احمد مبارک، عنبرین صلاح الدین، سید تحسین گیلانی، ڈاکٹر روش ندیم، ارشد معراج، امجد بابر، سیدہ شاکرہ سحر کاظمی، تابش کمال، ماریہ مہوش، ثنا معیز اور دیگر شاعر بھی شامل ہوں گے۔
اسی سلسلے میں کچھ دوستوں کی نظمیں پیشِ خدمت ہیں، امید ہے دوست محظوظ ہوں گے۔

وقت!
وقت کے پاس ایک تھیلا ہے
جس میں لمحوں کی آگ رکھی ہے
جوبھی اتا ہے، جل کے جاتا ہے
راکھ ہونے کا نام ہونا ہے!!!
احمد فواد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مَیں!
مَیں کائنات میں سیّاروں میں، ستاروں میں
دھویں میں، دھول میں اُلجھی ہوئی کرن کی طرح
گرا ہے وقت سے کٹ کر جو لمحہ اُس کی طرح
میں اس زمیں پہ بھٹکتا ہوں کتنی صدیوں سے
وطن ملا تو گلی کے لیے بھٹکتا رہا
گلی میں گھر کا نشاں ڈھونڈتا رہا برسوں
تمہاری روح میں، اب جسم میں بھٹکتا ہوں
لبوں سے چُوم لو، آنکھوں سے تھام لو مجھ کو
تمہی سے جنموں تو شاید مجھے پناہ ملے !!!
گلزار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کا حکم ہے!
ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا چلیں گی جب تو کیا رفتار ہو گی؟
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے!
ہماری ریت کی یہ سب فصیلیں، یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن یہ سب ہی جانتے ہیں
کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں ذرا یہ سرکشی کم کر لیں، اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا اور بکھرنا اور بکھر کر پھر ابھرنا،
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت، بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہو گی، یہ وحشت تو نہیں برداشت ہو گی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا، تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے
اس گلستاں میں بس اب اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا کتنا ہلکا یہ افسر طے کریں گے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے، کبھی ہو ہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنھوں نے باغ یک رنگی بنانا چاہے تھے ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں سو رنگ ظاہر ہو گئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشاں ہیں، وہ کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں، ہتھکڑی میں، قید خانوں میں نہیں رکتیں
یہ لہریں روکی جاتی ہیں تو دریا ہو کتنا بھی پر سکوں، بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے!!!
جاوید اختر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہہ خانوں میں بند چراغ !
اندھیرا ہے ۔۔۔۔۔
بہت گہرا اندھیرا ہے۔۔۔۔۔۔
خفا سورج کو اک چٹھی لکھی
ماہ تابوں کو کئی پیغام بھیجے تھے
ستاروں کو صدائیں دیں
سیہ دھرتی یہ اتریں
کون سنتا ہے ۔۔۔۔
سنے بھی کیا ۔۔۔۔۔
یہاں سب آلسی ٹھہرے
جو برسوں سے اندھیروں کے مسافر ہیں
اندھیرا بانٹنے والوں کے سب رطب اللساں ہیں
گریباں سے پکڑ کر پوچھنا تو دور
بولنا بھی بھول بیٹھے ہیں
(بھلا ایسے میں سورج، چاند، تاروں کو ہماری فکر کیوں کر ہو )
یہ روزانہ جو ٹی وی پر مسلسل بھونکتے ہیں
ٹویٹ کرتے ہیں
جو گوگل اور سوشل میڈیا پر ذہن سازی کر رہے ہیں
یہ گنی پگ (Guinea pig ) بنانے میں لگے ہیں
جینز کے سب کوڈ بدلے جا رہے ہیں
سیہ تاریکیوں میں بینا نابینا سبھی تو ایک جیسے ہیں
کشا چاروں طرف مکڑی کے لاکھوں جال پھیلے ہیں
کہ چاروں اور سے حملے ہیں چوہوں، کاکروچوں، سانپ، بچھو، کوڑھ کرلی کے
جو جیون کو گٹر آلود کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں
ہماری سانس گھٹتی ہے
مگر کوئی صدا منصور کی کب گونجتی ہے
خدایا ! باندھ کر مارے گئے ہیں
تغیر اور تبدل کا کوئی رستہ سجھائی دے
دیئے کی لو دکھائی دے
کوئی جھونکا ہوا کا بس ذرا سا
ہمارے حوصلے ٹوٹے ہوئے ہیں
سبھی سہمے ڈرے ہیں
ہمیں معلوم ہے تاریک دریا کو خود ہم نے پار کرنا ہے
گھٹن کو توڑنا ہے
حبس کو مسمار کرنا
روشنی بیدار کرنا ہے
ہمیں آزاد ہونا ہے
مگر کوئی ہماری دم ہلا دے!!!
ارشد معراج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچ گیا میں !!!
دیکھتا ہوں کہ زمیں کالی دھواں تھی
ہر طرف تھیں لہلہاتی کالی فصلیں
جن کے شاخوں کی جگہ بازو تھے نکلے
اور ہر پتے سے آنکھیں گھورتی تھیں
گہری کالی گھورتی سفاک آنکھیں
کچھ پرندے ایک برگد پر تھے بیٹھے
اور وہ اُس پیڑ پر لٹکے ہوئے بے جسم
چہرہ نوچ کھانے میں مگن تھے
اور ہر لمحہ وہاں اس میلوں پھیلے
کالے برگد پر کئی لاکھوں کروڑوں
کالے چہرے جنم لیتے اور نوچے جا رہے تھے
جن کی کالی میلوں تک پھیلی ہوئی شاخوں
سے لپٹی بے زبانیں ۔۔۔!! اُن نُچے چہروں
سے بہتا خون چوسے جا رہی تھیں
ایک جانب تھی سکوتِ ناتواں کی انجمن۔۔ تو
دوسری جانب بَرَہنہ شور کا تھا رقص جاری
کالے پہناووں میں لپٹا کالا رقص
اُن نُچے ادھڑے ہوئے چہروں کی خاطر تھا وہاں ۔۔پر
میں نے سوچا میں کہاں اِس کالی دھرتی آسماں میں پھنس گیا ہوں ۔۔۔
میں کہاں ہوں ؟؟
دیکھتا ہوں !!
میں وہیں ہوں اور جسم و روح کے بِن ایک چہرہ ہوں وہاں
جو اُن گِدھوں سے نُچ رہا ہے
اور
اَلارَم بج رہا تھا ۔۔۔۔!!!!
سید تحسین گیلانی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید جو دوست اس کتاب کا حصہ بننا چاہتے ہیں وہ ہمیں اس نمبر پر اپنا کلام واٹس ایپ کرسکتے ہیں۔
03002522350

بہت سے لوگ تھے اطراف میرےمگر یہ آنکھ تم کو دیکھتی تھی،،   #وجودسےآگے
29/09/2024

بہت سے لوگ تھے اطراف میرے
مگر یہ آنکھ تم کو دیکھتی تھی،،

#وجودسےآگے

اس کتاب  #کافـکہانی کا پاکستانی ایڈیشن بھی آیا چاہتا ہے
26/09/2024

اس کتاب #کافـکہانی کا پاکستانی ایڈیشن بھی آیا چاہتا ہے

احباب۔ ہماری کتاب یہ عہد ہمارا ہے، میں شامل شعرا کرام کے منتخب کلام کے سلسلے کی اس دوسری کڑی میں عصرِ حاضر کے ان باکمال ...
26/09/2024

احباب۔ ہماری کتاب یہ عہد ہمارا ہے، میں شامل شعرا کرام کے منتخب کلام کے سلسلے کی اس دوسری کڑی میں عصرِ حاضر کے ان باکمال شعرا و شاعرات کا کلام پیش ہے جو ہماری کتاب میں شامل ہیں، امید ہے آپ اس خوبصورت،پُرجمال اور فکرانگیز شاعری سے حظ اٹھائیں گے۔
اجمل سراج ہم اُسے بھولے ہوئے تو ہیں
کیا جانے کیا کریں گے اگر یاد آگیا،،
اجمل سراج۔
تُو جسے دشت سمجھتا ہے یہ اب دشت نہیں
میں نے اس دشت میں اک شہر بسایا ہوا ہے،،
اوصاف شیخ۔
اندھیرے دور کرے نور سے اجالے مجھے
کوئی تو ہو جو ترے بعد بھی سنبھالے مجھے،،
آزاد حسین آزاد۔
مِری دعائیں مجھے سانپ بن کے ڈستی ہیں
نہ جانے کون سی لکنت ہے میرے لہجے میں،،
امجد بابر۔
بلا سے ٹوٹ ہی جائے مرا قلم لیکن
کہانی اپنی میں تحریر کر کے چھوڑوں گا،،
اعجاز دانش۔
جن کو چلنا تھا چلے، مجبور پیچھے رہ گئے
وقت اتنا تیز تھا معذور پیچھے رہ گئے،،
تابش کمال۔
یوسف ہوں مگر میرا کوئی دام نہیں ہے
اور اس پہ زلیخا کا بھی الزام نہیں ہے،،
باسط پتافی۔
خود کو سمجھا رہے ہیں برسوں سے
راہ الفت میں سر جھکاتے ہیں,,
حرا شبیر۔
اسے لوٹا لٹیروں نےوڈیروں نے وزیروں نے
مری دھرتی کا مفلس اور گدا ہونا تو بنتا تھا،،
ثاقب سیال۔
یہ عمارت یوں ہی تعمیر نہیں ہو سکتی
یعنی اس غم کا بھی معمار کوٸی تو ہو گا،،
دانیال اسماعیل۔
دل وہ آرام طلب تھا کہ خدا جانتا ہے
پر جو ترکیب نکالی ہے سفر کی میں نے،،
راشد علی مرکھیانی۔
ایسا بھی کیا قصور کوئی ہم سے ہوگیا
ملتا تو ہے وہ م سے مگر بے رُخی کے ساتھ،،
روبینہ ممتاز روبی۔
برائے پاسِ ادب خاک بیٹھ سکتی ہے
تو بیٹھی کیوں نہیں جب خاک بیٹھ سکتی ہے،،
سید طاہر۔
کیا خبر، کون سے صفحے کا لکھا لے ڈوبے
اس لیے دفتر افلاک سے ڈر لگتا ہے،،
شمسہ نجم۔
ستارہ وار سنہرا غبار تھا کوئی
اور اُس پہ خواب کے رستے سے کوئی جاتا ہُوا,,
طاہر شیرازی۔
ہجوم غم میری تنہائیوں کو ڈستا ہے
گئے وہ دن کہ سماں دل کا خوشگوار بھی تھا،،
عظمی رحمان۔
آپ نے بھی تو بلایا ہے مگر دیکھتا ہوں
شامِ افسونِ ملاقات کہاں کھینچتی ہے،،
مجید اختر۔
یہ آگہی ہے جو کرتی ہے مجھ کو ذات میں گم
پھر اِس کے بعد میں ہوتا ہوں شش جہات میں گم،،
مقسط ندیم۔
ہیں دشت کے سینے پہ نشاں اور طرح کے
اب تشنگی کہتی ہے کہ دریا مجھے دیکھے،،
محمد علی حسین۔
سواری صرف ایک اُتری ہے اور میں
بھری گاڑی میں تنہا رہ گیا ہوں،،
مہرفام۔
دیکھنا چاہیے تھا مُڑ مُڑ کر
ہاں اُصولاً تو اُس کو جاتے ہوئے،،
مہرو ندا احمد۔
جب سنانے انہیں سب فغاں آگئے
ہم سنائے بِنا داستاں آگئے،،
مسلم علوی۔
سکوتِ شب جو ٹُوٹا تو روانی میں چلے آئے
بہت چُپ چاپ تم میری کہانی میں چلے آئے،،
ہدایت سائر۔
اردو شاعری کے اس منفرد مجموعہِ کلام میں ہمارے بہت سے نظم گو دوست بھی شامل ہیں، ہم اپنی کسی اگلی پوسٹ میں منتخب شاعروں کی کچھ نظمیں بھی پیش کریں گے۔
اگر اپ بھی اس کاروان میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اس نمبر پر واٹس ایپ کریں یا اپنا کلام فیس بک پر ہمیں انباکس کریں۔
سید کامی شاہ۔
03002522350

Address

Karachi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kitab Culture posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category