
27/11/2024
خانہءِ فرہنگ ایران میں منعقدہ شعری نشست میں پڑھی گئی۔۔۔
سلگتی راکھ کا وعدہ۔۔۔۔۔
(غزہ کے لیے ایک نظم)
ادھر کچھ دن ہوئے جاناں
میں اک دن راکھ کے اک ڈھیر سے جنما
سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ میرے خواب کے اندر کھلا اک در
یا میرے خواب سے باہر کی دنیا میں دھواں پھیلا
بہت سا شور تھا اور خون تھا اور لوگ تھے جو مررہے تھے
بہت سے ہنستے بستے گھر تھے جو بکھر رہے تھے
کون تھے یہ لوگ سارے، میرے جیسے، میری بستی، شہر کے میرے
نہ جانے کون تھے جو مارتے تھے
اور وہ جو مررہے تھے میرے اپنے تھے
تبھی سے سوچ میں کچھ آبلوں نے گھر بنائے ہیں
مرے سینے میں ہر اک سانس جلتی ہے
مری آنکھوں میں جلتے کوئلوں نے منظروں میں آگ بھردی ہے
مجھے اب ایسا لگتا ہے
مرے قدموں تلے مٹی نہیں میری
سلگتی راکھ ہے گویا
مجھے اب ایسا لگتا ہے
مرا گھر کھوگیا ہے اور گلیاں بھولتا ہوں میں
مجھے اب ایسا لگتا ہے
میں کوئی اور ہوں شاید
یہاں کا تو نہیں ہوں میں
یہاں جو گھر تھے، میرے گھر تھے، میرے شہر تھے اپنے
سمندر بھی یہ اپنا تھا
یہ ساحل بھی مرے اپنے
یہ سارے لوگ میرے تھے
نہیں واقف تھے مجھ سے پر
یہ سارے لوگ میرے تھے
جو مجھ سے ناشناس اپنے دکھوں میں الجھے رہتے تھے
یہ سارے میرے اپنے تھے
مری مٹی، پسینے، خون کے رشتے
مگر اب دیکھتا ہوں کہ
زمیں الٹا کے رکھ دی ہے کسی نے ایک ہی پل میں
مرے منظر سبھی جلنے لگے ہیں
مرے رستے عذابوں کے تسلسل میں بھٹکتے ہیں
مجھے لگتا ہے میں اک بے سفر رستے کا حصہ ہوں
کبھی لگتا ہے میں جلتے ہوئے خیموں کی بستی کا
کوئی بھولا ہوا تاریک قصہ ہوں
مرے چہرے پہ کوئی اور چہرہ ہے
مری سانسوں میں کوئی اور زندہ ہے
مری مٹی کہیں گروی پڑی ہے
مری صورت کہیں رکھی ہوئی ہے
مری بستی یہاں بکھری ہوئی ہے
مری ہستی کہیں کھوئی ہوئی ہے
میں خود کو کھوچکا ہوں پر
یقیں اب بھی یہ باقی ہے
سلگتی راکھ کے اس ڈھیر سے
میں پھر سے جنموں گا
نیا چہرہ، نئی امید لے کر
پھر سے آئوں گا
انہی زیتون کے باغوں میں مجھ سے ملنے آنا تم
جہاں پہلی دفعہ تم نے غزہ کہہ کر پکارا تھا
تمہیں اقصی کہوں گا میں
اسی مٹی سے اور سلگی ہوئی اس راکھ سے ہم گھر بنائیں گے
فراتِ عصر سے لبنان تک ہم ننگے پائوں چل کے جائیں گے
عراق و اصفہاں کے نام پر شمعیں جلائیں گے
اسی مٹی سے اور اس راکھ سے اک دن اُگائیں گے
فلسطینی مچھیرے گیت گائیں گے
محبت اب بھی زندہ ہے یہ دنیا کو بتائیں گے
محبت اب بھی زندہ ہے یہ دنیا کو بتائیں گے۔۔۔۔
سید کامی شاہ ، کراچی