امام باوصف ثانی

امام باوصف ثانی Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from امام باوصف ثانی, Digital creator, Karachi.

16/08/2025

میں مقدس اور صاحب کرامت کہلوانے کی بجائے
بہتر سمجھتا ہوں کہ
گناہگار اور گمنام رہوں

16/08/2025

اندھا بانٹے ریوڑیاں۔ 😜 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

16/08/2025

یہاں تعویذ میں قرآن بکتا ہے
منتر بھی خریدا جاتا ہے

نیلام وظیفے ہوتے ہیں
گوہر بھی خریدا جاتا ہے

مٹی بھی خریدی جاتی ہے
پتھر بھی خریدا جاتا ہے

مسجد کا بھی سودا ہوتا ہے
مندر بھی خریدا جاتا ہے

ملاوں کے سجدے بکتے ہیں
پنڈت کے بھجن بک جاتے ہیں

یہ حرص و ہوس کی منڈی ہے
انمول رتن بک جاتے ہیں

16/08/2025

‏نہ میرے خواب بدلے ، نہ کوئ تعبیر بدلی ہے
نہ دن بدلے ہیں میرے،نہ میری تقدیر بدلی ہے.

وہی فرمان شاہی ہے، وہی ہے اذن سلطانی
وہی سکہ ہے رائج اس پہ بس تصویر بدلی ہے.

میری آنکھوں سے پٹی کھولدوکہ آج میں دیکھوں
کہ آزادی ملی ہے , یا فقط زنجیر بدلی ہے

12/08/2025

لال مسجد آپریشن کے وقت برقعہ پہن کر بھاگنے اور غازی کہلانے والے مولوی سے بہتر کون پردے کی اہمیت سمجھ سکتا ہیں۔

12/08/2025

آذادی

11/08/2025

قانُونِ فطرت تو یہی ہے کہ
گدھی
گدھے کو ہی جنم دیتی ہے

ہمارے ہی اجداد،
جو انگریز کا ایک من وزن صرف ایک روپے میں راولپنڈی سے مری تک لے کر جاتے،
ان کے پاؤں میں جوتی تک نہیں ہوتی،
پنڈی سے مری ستر کلومیٹر کا سفر ایک من وزن اٹھا کر دو دن میں مکمل ہوتا.
یہ لوگ انگریز کی خدمت کرتے،
اپنی پیٹھ پر سوار کر کے سیر کراتے اور
انگریز خوش ہو کر اپنا بچا ہوا کھانا انہیں دے دیتا..

ہمارے اجداد نے ہی انگریزوں کی نوکریاں کیں.
تنخواہ لے کر اپنے ہی لوگوں سے لڑتے رہے.
انگریز نے ہندوستان پر سو سال حکومت کی،
اس دوران کبھی بھی انگریزوں کی مجموعی تعداد پچیس ہزار سے زیادہ نہیں رہی.

انگلینڈ میں ایک مائیگریشن رجسٹر ہے۔
جس میں برطانیہ سے ہندوستان جانے والے 15،447 فوجیوں کے نام لکھے ہوئے ہیں.
تین لاکھ ہندوستانی تھے جو انگریزی فوج میں بھرتی ہوئے.
بنگال رجمنٹ،
پنجاب رجمنٹ،
بلوچ رجمنٹ انگریزوں نے بنائی۔
برصغیر کے بُھوکے ننگے،
دو چار روپے ماہانہ وظیفے پر لڑنے مرنے کو تیار تھے.
پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کے خلاف انگریزی فوج میں نوے فیصد ہندوستانی ہی تھے،
غداری کرنے والا بھی میر جعفر ہی تھا.
سلطان حیدر علی اور اس کے بیٹے ٹیپو سلطان کے خلاف چار جنگیں لڑنے والے کون تھے؟
کوئی اور نہیں۔
میرے اور آپ کے اجداد تھے۔۔۔
انگریزوں کے خلاف سندھ حر پگاڑو کے لڑے اور
انگریزوں کا ساتھ مری بلوچ، بگٹی بلوچ نے دیا
بدلے میں سانگھڑ میں ان کو جاگیریں ملیں
سرنگاپٹم سے میسور تک میر جعفر نے کس طرح سلطان سے غداری کی،
انگریز کو کس طرح وفاداری بیچی..
سب کچھ لکھا ہؤا ہے۔
بس آنکھیں کھول کر پڑھنے والا چاہیے ۔
علامہ اقبال نے کہا تھا:-
*جعفر از بنگال و صادق از دکن*
*ننگِ دیں، ننگِ قوم، ننگِ وطن*

پنجاب میں رنجیت سنگھ جو انگریزوں کو مشکل وقت دکھا رہا تھا،

مُسلمانوں کو اس کے خلاف جہاد پر لگا دیا. ا.
انگریز دار العلوم دیوبند کے سالانہ دورے کرتا تھا،
اکابرین دیوبند کو وظائف دیتا تھا.
اکابرین بریلوی اور اہلِ حدیث بھی حکومتی وظیفے لیتے رہے ہیں۔۔۔۔

اسلام کی آمد سے اب تک 1500 سالوں میں پوری دنیا میں اتنے
پِیر ، دَستگیر ،
وَلی ،
محدث ، مجدد ،
قطب ،
مُفسر ، مناظر ،
مقرر پیدا نہیں ہوۓ،
جتنے انگریز کے 100 سالہ دور میں برصغیر میں پیدا ہوئے تھے۔۔۔
کوئی اُڑتا رہا ،
کوئی لمحے میں غائب ہو کر مدینہ پہنچ جاتا،
کوئی غوث اعظم کے نام پر لطائف گھڑتا،
کوئی لال شہباز قلندر کو پرواز کرواتا رہا،
کسی نے نبیﷺ کے نور یا بشر پر مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی ،
کسی نے حیات و ممات پر مسلمانوں کو دست و گریباں کروایا
یہ سب انگریز وظائف دے کر اپنی سلطنت کو دوام بخشنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے کرواتے رہے ہیں۔۔۔۔

آپ کا کیا خیال ہے، پاکستان آزاد ہو گیا ہے؟
انگریز کی بنائی رجمنٹ آج بھی حکمران ہے. عوام آج بھی محکوم ہے۔
آج بھی راشن کی قطاروں میں مر رہے ہیں۔
اور اشرافیہ آج بھی انگریزی وفاداری نبھا رہی ہے.
جب کئی سال بعد دنیا کی تاریخ لکھی جائے گی تو ایک قوم
"*المجرمین پاکستان*"
کے بارے میں بھی تاریخ لکھی جائے گی ۔۔۔

مؤرخ لکھے گا۔۔۔
قومِ عاد۔۔۔
قوم ثمود۔۔۔
اور قومِ لُوط کے سارے مجموعی گناہ اس قوم میں پائے جاتے تھے۔۔۔

یہ ایک ایسی قوم تھی جو نام تو اللہ کا لیتی تھی،
مگر مانتی اپنے اپنے اپنے آلہ کاروں کو تھی۔۔۔

ایک ایسی قوم تھی جس کو تعلیم صرف جاہل بنانے کے لئے دی جاتی تھی۔۔

ایک ایسی قوم تھی جس کے مذہبی پیشوأ،
خود تو دنیا کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوتے تھے،
مگر ان کو غربت افلاس کے فائدے بتا کر جنت کے ٹکٹ دیتے تھے۔

ان کے حکمران بادشاہوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔
مگر اس قوم کے نچلے طبقے کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تھی۔۔۔

مؤرخ لکھے گا:-
اس قوم کا انصاف بکتا تھا۔
طاقتور کے لئے علیحدہ قانون،
اور غربأ کے لئے الگ قانون تھا۔

اس قوم کے قاضی اُنہی کی طرح کرپٹ اور انصاف سے عاری تھے۔۔۔

لکھا جائے گا:-
اس قوم کے سیاستدان خود غرض،
نا اہل اور بےحس تھے۔
مگر یہ قوم ایسے سیاستدانوں کو اپنا مسیحا سمجھتی تھی اور
اُن کے لئے ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کو بھی تیار رہتی تھی۔

ایک ایسی قوم تھی جو لمبی لمبی دعائیں اور بددعائیں کرتی تھی۔
مگر اس کا عملی کردار انتہائی ناگفتہ بہہ اور بیہودہ تھا۔۔۔

ایک ایسی قوم تھی جس میں حرام خور عزت دار کہلاتے تھے
اور
محنت کر کے کھانے والے کمی کمین۔۔۔

امام باوصف ثانی

11/08/2025

پاکستانیوں کی مثال بھیڑ بکریوں جیسی ہے جس طرف ایک ہو گئ سب اسی کے پیچھے ہو لیں ،اب میٹا نے اپنی پالیسی تھوڑی سی اپگریڈ کی ہے کہ وہ کسی کی پکچرز یا کنٹینٹ یوز کر سکتا ہے تو پاکستانیوں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی دھڑا دھڑ اپنی اپنی وال پہ پوسٹ لگانی شروع کر دی کہ میں میٹا کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ میری تصویر یا پرسنل چیزیں شیئر کرے-
اب اِن کو کون سمجھائے کہ آپ کیا جاب کرتے ہیں کیا کھاتے ہیں کہاں سوتے ہیں کس گھر میں رہتے ہیں آنے جانے کے لئے کون سا راستہ یوز کرتے ہیں آپ کا واشروم اور کچن کہاں ہے یہ تک میٹا کو مکمل علم ہے۔
آپ کا سڑا بوتھا شئیر کر کے میٹا کو کیا ملے گا؟
میٹا اگر کسی کا پرسنل کچھ شئیر بھی کرتا ہے تو وہ اسے اپنے مقصد فائدے یا یوزر کے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے اور آگے بھی تھوڑا مزید گہرائی سے کرے گا-
آپ دکان سے جا کر پیپمر لیں اور واپس آ کر فیس بک اوپن کریں آپ کو ہر طرف پیپمر ہی پیمپر اور ان کے ریٹ دکھائی دیں گے،
آپ فیس بک مکمل آف کر کے بازار جائیں اور پھر کسئ دکان سے اپنی خالی کھوپڑی پہ رکھنے کے لیے سوتی ٹوپی خریدیں ، گھر آ کر فب اوپن کریں آپ کو ہر طرف ٹوپیاں ہی ٹوپیاں دکھائی دیں گی۔
دماغ سے سوچئیے دماغ سے سوچنے کے پیسے نہیں لگتے۔
سائیں حضرت باوصف ثانی کے قلم سے

27/07/2025

انسان کو بااختیار مخلوق بنایا گیا ہے

۔وَ لَوْشَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰکِنْ یُّضِلُّ مِنْ یَّشَآئُ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ط وَ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ہ٩٣
اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک جیسی (جمادات، حیوانات اور نباتات کی مانند) ایک امّت واحدہ بنا دیتا (لیکن اس نے انسان کے اختیار و ارادے کے پیش نظر ایسا نہیں کیا)۔ لہٰذا، اب تم چاہو تو غلط راستہ اختیار کرلو، اور چاہو تو صحیح راستہ اختیار کر لو، یہ تمہارا اپنا اختیار ہے۔ (یہ اختیار و ارادہ اس لئے دیا گیا ہے کہ) جس قسم کے راستے کے مطابق تم عمل کرو تم سے اس کے بارے میں پوچھ گچھ ہو، کیونکہ تم اپنے ہر عمل کے خود ذمّہ دار ہو۔

تشریح!
انسان کو اختیار و ارادہ عطا کیا جانا کائنات میں پہلا عظیم انقلاب تھا۔ کائنات جب سے بننا شروع ہوئی ہے، خدا کی طرف سے ایک ایک شے کے لئے راہ نمائی کا طریق یہ رہا کہ خدا، متعلقہ شے کے اندر راہ نمائی کو ودیعت In-built کر دیا کرتا تھا، جس کے مطابق وہ شے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے ۔ جمادات، حیوانات اور بناتات سب کی سب مخلوقات، راہ نمائی کو ان کے اندر ودیعت کر دینے کی وجہ سے، مجبور محض ہیں۔ ان کے اندر ایسی صلاحیّت نہیں کہ ودیعت کردہ راہ نمائی کے خلاف کچھ اور کر سکیں، کیونکہ ان میں اختیار و ارادہ نہیں ہے۔ خدا کے لئے کیا مشکل تھا کہ اپنے قانونِ کائنات کے تحت سب انسانوں کو حیوانات کی انواع کی طرح ایک نوع بنا دیتا اور جس طرح مختلف انواع کو ان کی راہ نمائی ان کے اندر ودیعت کر دی ہے، انسان کو بھی ودیعت کر دیتا۔ ایسا کرنا اس کی مشیّت میں نہ تھا۔ انسان کو اختیار و ارادے کی حامل مخلوق بنانا مقصود تھا۔ اس کے لئے خدا نے انسان کو ''ذات'' عطا کی اور ذات کو اختیار و ارادہ اور عقل و فکر اور شعور بھی عطا کیا، تاکہ یہ اپنی مرضی سے جو چاہے عمل کرے۔ اب انسان کے پاس صحیح اور غلط میں امتیاز کر لینے کا کوئی ذریعہ نہ تھا، اس لئے خدا نے انسان کے لئے راہ نمائی کا ایک دوسرا اور منفرد طریقہ اختیار کیا، اور وہ ہے ''راہ نمائی بذریعہ انبیائ''۔اس سے پہلے ایسا کائنات میں کبھی نہیں ہوا تھا، کیونکہ مخلوق میں کسی کو اختیار و ارادہ عطا ہی نہیں کیا گیا تھا اور ساری مخلوق کو راہ نمائی ودیعت کی جاتی رہی تھی۔ انسان کو اختیار و ارادہ دیئے جانے کے بعد اس کی راہ نمائی کا طریق بھی لازماً دیگر مخلوقات سے الگ اور منفرد ہونا چاہئے تھا۔ اس لئے خدا نے اپنے منتخب انبیاء پر اپنی وحی نازل کی ۔
آگے خدا کہتا ہے ''جو تم کر رہے ہو، اس کے بارے میں ضرور تم سے پرسش ہونی ہے''۔ صحیح اور غلط خدا نے وحی کے ذریعے بتا دیا ہے، اب جو راستہ اختیار کرنا چاہے، انسان کو اختیار ہے۔ اسی اختیار کی وجہ سے تو انسان سے پرسش ہونی ہے۔ خدا نے قرآن اسی لئے تو نازل کیا ہے کہ خدا جیسا انسان کو بنانا چاہتا ہے ہم قرآن کے اتّباع میں ویسے بن جائیں۔ بھلا خدا کسی کو گمراہ کیوں کرے گا؟ انسان کو اختیار و ارادہ کا دیا جانا اور اس کی راہ نمائی کے لئے دیگر اشیاء سے مختلف طریق اپنانا، کائنات میں عظیم انقلاب تھا۔

25/07/2025

برین واشنگ کے لیے ایک کچے ذہن کی ضرورت ہے۔ کچا ذہن شعوری ارتقاء جسے انگریزی میں کوگنیٹو ڈویلپمنٹ کہا جاتا ہے، کے لیے ایک خام مال کی صورت کام کرتا ہے۔ یہ ذہن پانچ سے بارہ تیرہ سال کی عمر تک کسی بھی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مدارس کا زور کبھی بھی اختصاصی مذہبی تعلیم کے لیے جامعات کا قیام نہیں رہا۔ جامعات کا کردار اس منصوبے میں ہمیشہ ثانوی تھا۔ مدارس کو مفکرین نہیں، برین واشڈ زومبی بنانے میں دلچسپی ہے اور اس کے لیے انہیں کم عمر بچے درکار ہیں ۔

آج دنیا بھر میں اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ کم ازکم ابتدائی دس سے بارہ برس کی تعلیم ریاضی، زبان، آفاقی اخلاقیات، شہری ذمہ داریوں اور سائنس کی ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ہر طالب علم کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رجحان کے مطابق اختصاصی شعبے میں قدم رکھے جو طب، مہندسی، کمپیوٹر یا پھر مذہب کا ہو سکتا ہے۔ لیکن مذہب کی تعلیم ایسے وقت بھی تاریخی حوالے سے یا تقابل مذاہب کے فلسفے کے مطالعے پر مبنی ہو تو ہی اسے علمی ارتقا میں گننا ممکن ہوگا۔

یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ مذہبی متن آفاقی اخلاقیات کا داعی نہیں ہوتا بلکہ عقیدے کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کا قائل ہے اور اقدار کا پرچار بھی بہ لحاظ کرتا ہے۔

مذہب بہ طور عقیدہ اصولی طور پر ایک اختیاری سوچ ہے جس کے انتخاب یا استرداد کا حق ایک بالغ ذہن کو ہی کرنا چاہیے۔ تاہم اس اصول کو ماننے کی صورت نہ صرف مذہبی مدارس کے وجود کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی بلکہ عصری اداروں میں بھی ابتدائی بارہ سالہ تعلیم میں ٹھیٹھ مذہبی نصاب کی مکمل منسوخی کرنی پڑتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بات بہت سے حلقوں کے لیے نیو کلئیر ب م سے کم نہیں۔

25/07/2025

اگر تم جاہلوں کے بیچ ایک شعوری سوچ رکھتے ہو تو تم عنقریب پاگل ہو جاؤگے یا کہلائے جاؤگے ۔🥀

یہ تصویر دیکھ کے شدید افسوس ہوا شیخ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان والوں کا محسن, ان کو آزادی دلوانے والا ،ان کے حقوق کی ج-ن...
07/08/2024

یہ تصویر دیکھ کے شدید افسوس ہوا شیخ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان والوں کا محسن, ان کو آزادی دلوانے والا ،ان کے حقوق کی ج-ن-گ لڑنے والا اس سلوک کا حق دار نہیں تھا ,عوام کو حسینہ واجد سے اختلاف ہو سکتا تھا وہ بھی اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھ بیٹھی تھی یا شاید یہ بھی فوج کے کنٹرول میں ملک دینے کے لیے ایک سکرپٹ تیار کی گئی اور عوام پھر بے وقوف بن گئی آخر بے وقوفی اور اپنے محسنوں کی ناقدری کی روش تو ایک ہی ہے مشرقی یا مغربی سے کچھ فرق نہیں پڑتا ،یہ جذبات میں بہہ جانے والی قوم شاید اس فیصلے پہ پچھتاے گی ، حسینہ واجد ڈکیٹیٹر ہو سکتی ہے لیکن شیخ مجیب الرحمان بنگالیوں کے محسن تھے!

Address

Karachi

Telephone

+923332390770

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when امام باوصف ثانی posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share