Canopus Publicationsمطبوعات سہیل

  • Home
  • Canopus Publicationsمطبوعات سہیل

Canopus Publicationsمطبوعات سہیل Owned by Sohail Ahmed Siddiqui, this is a freelance setup of publishing books, esp. of literature. It was established in 1998.

17/04/2025
17/04/2025
"سُہیلیَات"احباب گرامی توجہ فرمائیںغزّہ ،فلسطین اور لُبنان میں صہیونی اسرائیل کی مسلِح جارحیت بڑھ گئی ہے ۔ہم نے ماضی قری...
24/03/2025

"سُہیلیَات"
احباب گرامی توجہ فرمائیں
غزّہ ،فلسطین اور لُبنان میں صہیونی اسرائیل کی مسلِح جارحیت بڑھ گئی ہے ۔ہم نے ماضی قریب میں اس المیےکی اہمیت کے پیش نظر احباب کاکلام بطورِ خاص حاصل کرکے یوٹیوب چینل "خوش کُن" پر اپلوڈ کیا اور سوشل میڈیا پر پھیلایاتھا۔ اب اس جہت میں مزید قلمی ولسانی جہادکی ضرورت ودعوت ہے۔ خاکسارکےقلمی ولسانی جہادکےنتیجےمیں حلقہ احباب میں شامل معاصرین کی کہی ہوئی اردومنظومات، ایک عددعربی نظم اور دیگرکےعربی وانگریزی تراجم اس ربط پرملاحظہ کیےجاسکتےہیں:
نذرفلسطین Tribute to Palestine
https://www.youtube.com/playlist?list=PLkItgbKo9REgLExjDb0mBvoDk0jwXHftV
سہیل احمد صدیقی

نذرفلسطین Tribute to Palestine

مطبوعات سہیل یعنی Canopus Publications ہائیکو انٹرنیشنل: دس شمارےہم رِکاب/The Fellow Rider : دوشمارے تین مجموعہ ہائے کلا...
23/03/2025

مطبوعات سہیل یعنی Canopus Publications
ہائیکو انٹرنیشنل: دس شمارے
ہم رِکاب/The Fellow Rider : دوشمارے
تین مجموعہ ہائے کلام (ہائیکو) ودیگر چندکتب

زباں فہمی نمبر 236مچھلی جَل کی رانی ہےتحریر: سہیل احمد صدیقیzabaanfehmi@gmail.com”میٹھے پانی کی زندہ مچھلی“......یہ صدا ...
16/02/2025

زباں فہمی نمبر 236
مچھلی جَل کی رانی ہے
تحریر: سہیل احمد صدیقی
[email protected]
”میٹھے پانی کی زندہ مچھلی“......یہ صدا میرے ذہن کے دریچوں میں آج بھی گونجتی اور بچپن کی یاد تازہ کرتی ہے۔بھاری بھرکم آواز اور ہفتے میں کئی بار سُن سُن کر یہ بول یاد ہوگئے۔یہ لکڑی کی بنی ہوئی ٹرالی نُما چیز پر مچھلی بیچنے والے بنگالی کی صدا تھی جو کچھ ہی عرصے کے بعد ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی۔آہ! مچھلی کا وطن، مشرقی پاکستان ہم سے جُدا ہوگیا۔انتباہ: زباں فہمی روزنامہ ایکسپریس،سنڈےمیگزین میں ہراتوارکوشایع ہوتاہےاورفقط ایک شخص ،سہیل احمد صدیقی کی تنہامحنت شاقہ کانتیجہ ہے۔۔۔نقل کرنےکےشوقین افراداورویب سائٹس مکمل حوالہ ضروردیں
ّّّٓآبی یا سمندری (نیز دریائی)مخلوقات میں مچھلی کی اپنی جداگانہ شناخت اور مقام ہے۔یہ بجائے خود ایک مکمل موضوع ِ تحقیق ہے اور شاید ہی دنیا کی کوئی زبان ایسی ہوگی جس میں مچھلی سے متعلق ادب تخلیق نہ کیا گیا ہو۔اردوشاعری میں مچھلی کے موضوع پر کہے گئے اشعار کا انتخاب پیش کرتاہوں:
مچھلی پرغزلیہ اشعار
تکلیف قید زلف مرے دل سے پوچھیے
خالق کہیں پھنسائے نہ مچھلی کو جال میں
(لالہ مادھو رام جوہرؔ)
آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آبِ رواں بنایا
(اسماعیل میرٹھی)
مچھلی نے ڈھیل پائی ہے، لقمے پہ شاد ہے
صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی
(اکبرؔ الہ آبادی)
حیران مت ہو تیرتی مچھلی کو دیکھ کر
پانی میں روشنی کو اُترتے ہوئے بھی دیکھ
(محمد علوی)
حقیقت سرخ مچھلی جانتی ہے
سمندر کیسا بوڑھا دیوتا ہے
(بشیر بدر)
ہے یاد اہل وطن یوں کہ ریگ ساحل پر
گری ہوئی کوئی مچھلی ہو جال سے باہر
(امجد اسلام امجد)
آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی وہی مچھلی وہی جال اچھا ہے
(عدیمؔ ہاشمی)
یم بہ یم روح مچلتی ہوئی مچھلی کی طرح
دم بہ دم وقت کے ہاتھوں سے پھسلتا ہوا مَیں
(شاہد ذکی)
مچھلی پرنظمیہ اشعار
جب چھوٹتی ہے پانی سے
ہاتھ دھوتی ہے زندگانی سے
(الطاف حسین حالیؔ)
منو کی مچھلی نہ کشتی ئ نوح اور یہ فضا
کہ قطرے قطرے میں طوفان بے قرار سا ہے
(کیفیؔ اعظمی)
تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تو
مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تو
(علامہ اقبال)
چرخ نے بالی چرا لی ہے عروس شام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی
(علامہ اقبال)
دیکھ کے دسترخوان پہ مچھلی
پاؤں پٹختے بھاگے جائیں
(احمد حاطب صدیقی)
ہمارے عہد کے ایک مشہور ومستند شاعر جناب رئیس فروغ نے ادبِ اطفال میں بھی خوب اضافہ کیا۔اُن کی یہ نظم اپنی جگہ بہت منفرد ثابت ہوئی:
ایک گیت کئی کھیل
رئیس فروغ
آئے بادل چلی ہوا
جاگے پھول سجیں بیلیں
آج ہماری چھٹی ہے
چھٹی کے دن کیا کھیلیں
ہرا سمندر گوپی چندر
بول میری مچھلی کتنا پانی
اپنے دل میں اتنی ہمت
بیچ سمندر جتنا پانی
کوڑا جمال شاہی
پیچھے دیکھا مار کھائی
ہنستے بستے ہنسی خوشی
کھیلیں بہنیں کھیلیں بھائی
کھیل بھی ہے یہ ورزش بھی
کھیلے کودے جان بنائی
ہم پھولوں بھرے آتے ہیں
آتے ہیں آتے ہیں
تم کس کو لینے آتے ہو
آتے ہیں آتے ہیں
وہ ساتھی جو کھیل میں اول
جو ساتھی تعلیم میں آگے
اس کو ہم لے جائیں گے
اپنا ساتھی بنائیں گے
ہم تو سب ہی آگے ہیں
ہم تو سب ہی اول ہیں
تم پھولوں بھرے جاتے ہو
جاتے ہو جاتے ہو
آگے بڑھنے سے پہلے یا دآیا کہ گزشتہ ایک دوعشرو ں سے ٹیلیوژن کے توسط سے،بچوں کے لیے لکھی گئی ایک نظم بہت مقبول ہوئی (جو بہرحال کچھ کچھ اصلاح طلب بھی ہے)۔اُس کا متن بھی بطور ِحوالہ پیش ِ خدمت ہے:
”مچھلی جل کی رانی“
مچھلی جل کی رانی ہے
جیون اس کا پانی ہے
ہاتھ لگاؤ تو ڈر جائے گی
پانی سے نکالا تو مر جائے گی
پانی میں ڈالو گے تو تیر جائے گی
اس نظم کے لکھنے والے کا نام معلوم نہ ہوسکا۔اسی اثناء میں کراچی سے تعلق رکھنے والی ہماری ایک خُرد معاصر نیناعادل صاحبہ کی یہ نظم فیس بک کی زینت بنی:
”ساگر جل کا پنچھی“
(۱)
مچھلی جھیل کی رانی ہے اور رانی گھر کی ملکہ
ملک میں رانی کے چلتا ہے راج مگر سلطاں کا
سلطانوں کے سلطاں کے ہیں دستر خوان کے چرچے
دستر خوان کے بھیتر دریا، نہر، سمندر، جھیلیں
اوپر اوپر بھات سجا ہے کوے اڑ اڑ أئیں
بھان متی نے کنبہ جوڑا بھانڈوں بھانگ ملائے۔۔۔
ہسلا، پلا، سول، رہو سب خستہ لال سنہری
روغن مسکہ، مدرا شربت، ٹکیاں چاندی جیسی
تھالی تھالی بٹتا جائے
ساگر جل کا پنچھی
بھوجن کرکے ناچیں گائیں سائل اور درباری
بھیڑ میں اک اک جھوٹا برتن ہاہاکار مچائے
پیٹ بھروں کو چلا کھڑی میں بد ہضمی ہو جائے
(۲)
سندھو اور پدما پر تڑکے مچھوے جال بچھائیں
کیا جانیں یہ بھید شکاری ڈوریں کون ہلائے
اک پھندے میں لگی ٹھکانے جیون بھر کی بدبو
راش کا جھگڑا ختم ہوا تو
رنگ دکھائے چاقو
آٹا، سرکہ، نمک لگا کر
ماس کے ٹکڑے تل کے
جال کی ستھری ڈوری میں اپنی کم بختی بُن کے
ناؤ کا خالی پن دیکھیں گے
مچھوے بھوجن کرکے
(۳)
جنّاتی بیڑے
اور
بجرے موج موج پرڈولیں
کالا کالا دھواں اٹھے اور ساگر آنسو رولیں
گدلا تیل اور گدلا پانی
کھجلائے پھُل بہری
سڑنا پیٹ سے ہوئی شروع جو آدم زاد،وہ مچھلی
مچھلی سے متعلق محاورے اور کہاوتیں
ہندی میں کہاوت ہے: بِن پانی/جل کے مچھلی تڑپَت ہے دن رَین
دِیا جَرت ہے رَین کو جِیا جَلَت ہے دن رَین
یعنی مچھلی بغیر پانی کے، دن رات تڑپتی ہے، چراغ رات کو جلتا ہے، مگر دل تو دن رات جلتا ہے۔ اردومیں بھی 'پانی کے بغیر مچھلی' مشہور محاورہ ہے۔(جیساکہ ابھی اوپر ذکر ہواکہ) بچوں کی مشہور نظم ہے، ''مچھلی جَل کی رانی ہے، جیون اُس کا پانی ہے، ہاتھ لگاؤ ڈرجائے گی، باہر نکالو، مرجائے گی''۔ مگر روسی زبان کا یہ محاورہ مچھلی کے بارے میں، مختلف ہی معلوم ہوا: ''Kak ryba, vytashchennaya iz vody''(Like a fish out of water)۔ اس کے استعمالات میں جابجا کسی کی انفرادیت، اختصاص، نیا پن۔یا۔ نامانوسیت مراد لی جاتی ہے۔(زباں فہمی:”اردو اور دیگر زبانوں کے مشترک محاورات و ضرب الامثال، حصہ آخر“ از سہیل احمد صدیقی، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین مؤرخہ 02اکتوبر 2022ء)انتباہ: زباں فہمی روزنامہ ایکسپریس،سنڈےمیگزین میں ہراتوارکوشایع ہوتاہےاورفقط ایک شخص ،سہیل احمد صدیقی کی تنہامحنت شاقہ کانتیجہ ہے۔۔۔نقل کرنےکےشوقین افراداورویب سائٹس مکمل حوالہ ضروردیں
”مَچھْلی“ پر مشتمل اردو محاورے اور کہاوتیں
مَچھلی کھانا: ایک قسم کی نیاز، عورتیں پکے ہوئے چاولوں کے طباق پر مچھلی کے کباب رکھ کر حضرت سلیمان(علیہ السلام) کی
نیاز دلواتیں اور اسے کھاتی اور تقسیم کرتی ہیں۔
مچھلی تونہیں کہ سڑجائے گی(کہاوت): مراد یہ کہ ایسی بھی کیا جلدی (جلدبازی) کہ گویا کوئی کام فوری نہ کرنے سے بگڑ
جائے گا۔
مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سِکھائے (کہاوت): مراد یہ کہ ہرشخص اپنے خاندانی پیشے یا کام سے بخوبی آشنا اور اُس کا ماہر ہوتا ہے۔
مَچھْلی کی طَرح تَڑَپنا: ازحد تڑپنا، بے حد بیقرار ہونا، بے چین ہونا، لوٹا لوٹا پھرنا، کمال بے قرار اور بیکل ہونا، (محصنات)دن اور رات چین نہ تھا مچھلی کی طرح تڑپتے تھے۔
مَچھلی لَگانا:(تیراکی) اونچی جگہ سے پانی میں غوطہ لگانے کا ایک انداز جس میں دونوں ہاتھ جوڑ کر سر کے بل پانی میں کودتے ہیں۔
مَچھْلی لَگنا:بنسی میں مچھلی پھنسنا، مچھلی شکار ہونا۔
مَچھلی مَچھلی کھیلنا:مضطربانہ حرکتیں کرنا۔
مچھلیاں پڑنا(فعل لازم): ڈنڑوں [Pushups]پر تےّاری کے سبب عُضلات اُبھرنے کو کہتے ہیں،نیز کسرت کے باعث رانوں یا بازوؤں کا پھِرجانا (آج کل کی زبان میں چڑھ جانا)
مچھلی کو ویسے تو اُردومیں ماہی بھی کہتے ہیں مگر بعض علاقوں کی مخصوص بولی ٹھولی (Slang)میں ’مچھّی‘ بھی کہاجاتا ہے،جبکہ اس کے لیے مِین،حُوت (عربی الاصل نام)اور جل توری بھی لغت میں شامل ہیں۔بقو ل صاحبِ فرہنگ ِ آصفیہ بعض مقامات پر مچھلی کو چوہا بھی کہتے ہیں۔بڑی مچھلی کو فقط ’مچھ‘ بھی کہاجاتا ہے۔انسان کے عُضلے یا بازو کے گوشت /ڈولے کو اور جانور کی پنڈلی کوبھی مچھلی کہاجاتا ہے۔ہتھیلی کے اندرونی گوشت کے لیے بھی مچھلی کا لفظ مستعمل رہا ہے۔کانوں میں پہنے جانے والاایک طِلائی زیور،اسی جانور کی شکل کا ہونے کے سبب، ’مچھلی‘ کہلاتا ہے۔
مچھلی کی مخصوص بُو کو ’بِساند‘ اور ’مچھراند‘ کہتے ہیں، جبکہ مچھیرے کے لیے،’مچھلہارا‘ بھی بولاجاتا ہے۔اس کے علاوہ اُسے مچھوا، ماہی فروش،ماہی گِیر، دِھنیو اور جھِنیو بھی کہاجاتا ہے۔ایک حیران کُن نام ’مچھ رنگا‘ ہے جو ایک ماہی(مچھلی)خور پرندہ ہے۔اسے ’رام چڑیا‘ بھی کہاجاتا ہے۔انگریزی میں اس کا نام Kingfisherبہت مشہور ہے۔ہرچند کہ اِس کا کوئی تعلق بگلے کے خاندان سے نہیں، مگریہ عادت مشترک ہے کہ بگلے کے خاندان میں بھی ماہی(مچھلی) خوری عام ہے۔
محاورے ہی میں نہیں،مشاہدے سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہتی، مگر پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری اور جامعہ پشاور کی مشترکہ ٹیم نے2013ء میں، نوشہر ہ کے نباتی باغ [Botanical garden]کی سالانہ بھل صفائی میں ایک ایسی منفرد مچھلی دریافت کی ہے جو خشک موسم میں زمین کی خشک تہہ پر چلی جاتی ہیں اور وہاں آکسیجن،گلپھڑوں کے بجائے دیگر کسی ذریعے سے حاصل کرتی ہے۔
ہمارے یہاں کھانے میں پاپلیٹ،سُرمئی،رہو/روہو،ہِیرا،دھوتر،مُشکا،پَلّااور ڈابرا مچھلی بہت پسند کی جاتی ہے۔یہاں ایک ’نامعلوم‘ مضمون نگار کی تحریر سے اقتباس پیش کرتا ہوں:
”پلّامچھلی: یہ ایک ایسی نرالی مچھلی ہے جو رہتی تو سمندروں کے نمکین پانیوں میں ہے مگر بچّے دینے دریائے سندھ کے میٹھے پانی میں آتی ہے کیونکہ اس کے انڈے سمندر کے کھارے پانی میں زندہ نہیں رہتے اس لیے، افزائش نسل اس کی میٹھے پانی میں ہوتی ہے ۔یہ انتہائی نازک اور بڑی باہمت مچھلی ہے۔ نازک ایسی کہ اگر اسے کوئی انسانی ہاتھ چھو بھی لے تو یہ دم توڑ دیتی ہے انسانی ہاتھ تو بہت دور کی بات ہے اگر مچھلیوں کو پکڑنے والا ماہی گیروں کا جالا اس سے ٹکرا کر گزر بھی جائے تو اِس کی نزاکت کو یہ بھی برداشت نہیں، اسی وقت جان دے دیتی ہے۔ ایک پودے کا آپ نے نام سُنا ہو گا چھوئی موئی کا پودا، اس پودے کے بارے میں مشہور ہے ادھر اس کو کسی نے چھوا اور ادھر وہ مُرجھا گیا اور اسی لئے اس کا نام چُھوئی مُوئی پڑ گیا پلّا مچھلی بھی بس سمجھ لیجئے نزاکت کے حساب سے چُھوئی مُوئی ہے اور ہمت کی بات یہ، کہ وہ بچے (انڈے) دینے کے لیے،نیچے سمندر (بحیرہ عرب) سے اُوپر دریا تک پانی کی مخالف سمت میں مُسلسل کئی مہینے بہتے ہوئے اپنا راستہ بناتی ہے اور ڈیڑھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کر کے دریائے سندھ کے میٹھے تازہ پانیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور تب وہاں پہنچ کر انڈے دیتی ہے اور انتہائی مشقت اُٹھا کر اپنی نسل کے لئے آرام اور راحت کا سامان فراہم کرتی ہے اور پھر اَنڈے دے کر اگلے سال تک کے لیے، واپس سمندر کی طرف لوٹ جاتی ہے“۔ہمارے بزرگ معاصر ڈاکٹر احمد سہیل کی تحقیق کے مطابق، یہ مچھلی بہت ڈرپوک بھی ہوتی ہے۔پلا مچھلی کو بنگلہ دیش اور بھارتی صوبے مغربی بنگال میں ’ہِلسا‘ (ilish)کہاجاتا ہے اور اُسے سرکاری و قومی مچھلی کا درجہ حاصل ہے۔بنگلہ دیش اس مچھلی کی عالمی پیداوار میں 97فیصد کا حصے دار ہے۔علاوہ اَزیں اُڑیسہ،تری پورہ اور آسام میں بھی بہت مقبول ہے جبکہ مختلف ممالک میں اسے دیگرناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔انتباہ: زباں فہمی روزنامہ ایکسپریس،سنڈےمیگزین میں ہراتوارکوشایع ہوتاہےاورفقط ایک شخص ،سہیل احمد صدیقی کی تنہامحنت شاقہ کانتیجہ ہے۔۔۔نقل کرنےکےشوقین افراداورویب سائٹس مکمل حوالہ ضروردیں۔۔
دنیا کی انتہائی ذہین مخلوقات میں انسان کے بعد،مکڑی، بن مانس اورڈولفن شامل ہیں۔اب ان میں کم یا زیادہ کی درجہ بندی خاکسارنہیں کرسکتا۔ڈولفن اپنی انسان دوست اور انسان نُما خصوصیات کے سبب بہت پسند کی جاتی ہے، جبکہ دریائے سندھ میں اُس کی ایک نابینا قسم ’انڈس ڈولفن‘ پائی جاتی ہے۔حیدرآباد، سندھ میں میٹھے پانی یا دریاکی مچھلیوں کا کاروبار بھی خوب چلتا ہے۔یہاں ایک انتہائی عجیب بات یہ عرض کروں کہ آنلائن دستیاب ایک تحقیق کے مطابق،امریکا میں پانچ سو کے لگ بھگ ایسی مچھلیوں کی خوراک کا تجزیہ کیا گیا تو وہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مُضرّ ثابت ہوئی۔بہرحال اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس وجہ سے میٹھے پانی کی کوئی بھی مچھلی نہ کھائی جائے، کیونکہ ایسی تحقیق کل کو غلط بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
اس ساری گفتگو سے قطع ِ نظر انتہائی دل چسپ اور ناقابل ِیقین انکشاف یہ ہے کہ ’شاہ ِ ماہیان‘ یعنی مچھلیوں کا بادشاہ کسی لحیم شحیم مچھلی کو نہیں کہاجاتا، بلکہ یہ لقب سالمن (Salmon)کو دیا گیا ہے۔
آخرمیں عرض کرتا چلوں کہ دینی ومذہبی روایات اور حکایات میں مچھلی کا ذکر بہت ملتا ہے۔حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے واقعہ قربانی میں بھی اس کا ذکر ہے، حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں رہنا اور پھر ہزاروں سال بعد ایسا ہی ایک اور واقعہ پیش آنا بھی صداقت ہے۔نبی کریم (ﷺ) کے عہد ِمبارک میں ایک سریہ میں صحابہ کرام نے ایک بہت بڑی مچھلی کا گوشت کھایا تھا۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ مچھلی کے سِوا ء کوئی آبی جانور حلال نہیں۔اس بابت عوام ہی نہیں، علماء بھی مغالطے کا شکار ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آنلائن اشاعت: روزنامہ ایکسپریس، سنڈےمیگزین، اتوار سولہ فروری دوہزارپچیس
https://www.express.com.pk/epaper/index.aspx?Issue=NP_KHI&Page=EXP-SM10&Date=20250216&Pageno=61&View=1
https://www.express.com.pk/epaper/index.aspx?Issue=NP_KHI&Page=EXP-SM11&Date=20250216&Pageno=63&View=1

10/02/2025

ُخوش کن ہے پت جھڑ
مصنف : سہیل احمد صدیقی
تبصرہ نگار : مبشرہ علوی

"خوش کُن ہے پت جھڑ" سہیل احمد صدیقی کی ہاٸیکو منظومات کا مجموعہ ہے ۔ماضی میں ان کے کثیر لسانی ادبی جریدے "ہائیکو انٹرنیشنل"نے جنوبی ایشیا سےلےکر تمام دنیا میں اس صنف کے فروغ کی عظیم خدمات انجام دیں ۔ وہ خود بھی اس صنف کے اچھے شاعر ہیں۔ہاٸیکو بھی اردو کی ایک مقبول صنف رہی ہے۔ یہ بات آج کے نوجوان کے علم میں نہیں ۔ یہ سہیل احمد صدیقی جیسے دیوانوں کا کام ہے جو نامقبول اصناف پر طبع آزماٸی کرکے اسے آنے والوں کے لیے زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہیں اس محنت شاقہ کی عوامی پذیراٸی تو کہاں ملتی ہاں گنتی کے چند قدردانوں کے کوٸی سہیل کی اس عرق ریزی اور دماغ سوزی کا متاثر نہیں ۔

ہاٸیکو اردو ادب کی ایسی صنف ہے جو تین مصرعوں میں اپنا پورا مدعا بیان کرنے کی طاقت رکھتی ہے ۔ اب جب لوگ اسمارٹ گیجٹس اور اسمارٹ ٹولز کے استعمال سے زیادہ محظوظ ہورہے ہیں اس زمانے میں ہاٸیکو کی ناقدری سمجھ سے باہر ہے ۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ دانش گاہوں میں ہاٸیکو کو تعلیمی نصاب میں شامل کرکے اس غزل سے چھوٹی اور وقت بچانے والی صنف کو متعارف کروایا جاٸے اور پبلشرز اس پر سیمینارز اور ورکشاپ کرکے نٸی نسل میں اس صنف کو متعارف کروانے میں صدیقی صاحب کے دستگیر اور معاون بنیں جو تن تنہا ہاٸیکو کو پال پوس رہے ہیں اور جن کے دم سے اس کا نام عالمی سطح پر بھی پاکستان کی نیک نامی کا سبب بن رہا ہے ۔

ہاٸیکو کہنا کوٸی آسان بات نہیں بلکہ یہ ایک تکنیک ہے جو لفظوں کے درست استعمال سے ہی متاثر کن ہوتی ہے ورنہ تین مصرعے تو نوآموز ، نو سکھیے ، شہرت کے متلاشی بھی جوڑ کر ہاٸیکو کہنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں لیکن صاحب اصل میں وہ بے روح تین مصرعے ہاٸیکو کا مرثیہ تو ہوسکتے ہیں ہاٸیکو نہیں ۔

ہاٸیکو کو صدیقی صاحب اور اُن کے بعض بزرگ معاصرین (بشمول اقبال حیدر،وضاحت نسیم و شہاب الدین شہاب) نیز چند گنتی کے شعراء نے سلیقہ سے برتنے کا حق ادا کیا ہے اور یہی وہ اصحاب ہیں جن پر ہاٸیکو بجا طور پر فخر کرتی ہے ۔ ہاٸیکو میں غزل کی طرح ہر موضوع سما سکتا ہے اور یہ چاند تاروں اور زمینی مساٸل کا بہت متاثر کن طریقہ سے احاطہ کرسکتی ہے ۔

یہاں یہ ہاٸیکو براٸے انکشاف ملاحظہ کیجیے کہ سہیل ایک ستارہ کا نام ہے جو سورج سے پچپن ہزار گنا بڑا اور کہیں زیادہ روشن ہے اس انکشاف پر صدیقی صاحب کی یہ طبع آزماٸی ملاحظہ کیجیے

سورج بھی کمتر
وہ جو سہیل یمنی ہے
تاروں سے بر تر

روشن جگ سارا
تاروں سے بھی برترہے
پت جھڑ کا تارا

"خوش کُن ہے پت جھڑ" کتاب کا یہ عنوان اپنے آپ میں ایک شاعرانہ جمال رکھتا ہے ۔ اس پر رٸیس امروہی کی نظم کے مصرعے بھی پڑھ لیں

بہار اہل چمن کی ۔۔۔ نگاہ میں نہ جچے
خزاں جو فاش کرے برگِ خشک کے اصرار

پت جھڑ کا موسم اپنے آپ میں جو اُداسی اور خود فراموشی کا احساس رکھتا ہے جب گرتے پتوں کا نوحہ درخت بزبان خاموشی پڑھتے ہیں فضا میں ایک الہامی سا پیغام خود بخود سرایت کرجاتا ہے ۔

اللہ باقی من کُلِّ فانی

اپنے اصل کی طرف لوٹنے کی خوشی اور اچھی امید پت جھڑ کی رُت کو خوش کُن بنادیتی ہے جو ہر صاحب احساس کی طبیعت کو گداز کردیتی ہے اور جس سے متاثر ہوکر صدیقی صاحب نے اپنی ایک کتاب کو اس الہامی احساس کے حوالے کردیا جس نے انہیں خار کی خوبصورتی سے آشنا کیا جو عام ناظر کی آنکھ سے پوشیدہ ہی رہتی ہے ۔

خوش کن ہے پت جھڑ
برگ سرخ یہ کہتا ہے
اک بوسہ مجھ پر

یہ انداز و آہنگ ایک آرٹسٹک امتزاج ہے فارسی اور جاپانی طرز کا اور اسے برتنا صدیقی صاحب ہی کا کمال ہوسکتا ہے جو ہر کس و ناکس کی سمجھ میں بھی نہیں آسکتا ۔

ذرا اُن کی منتخب ہاٸیکو کے یہ نمونے پڑھیے جو آپ کو وادی احساس کے حسیں مناظر لگیں گے ۔

گہرا ہے بادل
تو جو رُوٹھا ہے جاناں
پھیلا ہے کاجل

گوہر کو ڈھونڈیں
ننھا ساگر بن جاٸیں
بارش کی بُوندیں

کیسے چھُولوں میں
جاناں تیرا جلوہ ہے
کاسنی پھولوں میں

ظالم یہ مت بھُول!
قبریں کیاری بنتی ہیں
کھِلتے ہیں جب پھول

دل بھی کیسا ہے
خواہش کے دریا پی کر
بالکل پیاسا ہے

سیاچن کہتا ہے
میرے پھولوں کی خاطر
جھگڑا رہتا ہے

یہ پوری کتاب ایک مجسم احساس ہے جو صاحب کتاب کی حساس طبیعت کی ترجمان ہے ۔ اس کتاب کو پڑھنا کسی کی الہامی سوچ کو پڑھنے جیسا ہے :

دل کش اور غم ناک
دل کا قصہ کہتے ہیں
نین اس کے غم ناک
https://www.facebook.com/mubashara.alvi.96

01/01/2025
02/10/2023

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Canopus Publicationsمطبوعات سہیل posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Canopus Publicationsمطبوعات سہیل:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share