Karachi Kay Loog

Karachi Kay Loog Karachi k loog or karachi city kay masael or un kay soloution..

بوٹا سنگھ اور زینب کی کہانیتقسیم کے بعد جو دردناک داستانیں سننے میں آئیں ان میں بوٹا سنگھ کی روداد بھی ناقابل فراموش ہے۔...
20/06/2024

بوٹا سنگھ اور زینب کی کہانی

تقسیم کے بعد جو دردناک داستانیں سننے میں آئیں ان میں بوٹا سنگھ کی روداد بھی ناقابل فراموش ہے۔ جالندھر کے ایک کسان بوٹا سنگھ نے زینب کو بلوائیوں سے پندرہ سو روپے میں خرید کر اس کی جان بچائی تھی۔ اس کے بعد اس نے سکھوں کے رسم و رواج کے مطابق باقاعدہ اس سے شادی کر کے اپنی بیاہتا بیوی بنا کر رکھ لیا تھا۔ شادی کے گیارہ مہینے کے بعد زینب ایک لڑکی کی ماں بنی۔ بوٹا سنگھ نے اس کا نام 'تنویر' رکھا۔
چند سالوں کے بعد بوٹا سنگھ کے رشتہ داروں نے ان افسروں کو اطلاع دے دی جو فسادات کے زمانے میں اغوا کی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کی تلاش میں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ بوٹا سنگھ کے شادی کرنے سے اس کے رشتہ دار اس کی جائیداد کے وارث بننے سے محروم ہو گئے تھے۔ زینب کو بوٹا سنگھ سے چھین لیا گیا اور پاکستان میں اس کے رشتہ داروں کی تلاش شروع ہوئی۔ عارضی طور پر زینب کو ایک کیمپ میں رکھا گیا۔ بوٹا سنگھ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی۔ وہ فوراً دہلی چلا گیا۔ اس کے بعد اس نے وہ کام کیا جو کسی سکھ کے لیے انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔ اس نے اپنے لمبے بال کٹوا دئیے۔ جامع مسجد جا کر اسلام قبول کر لیا۔ اس کا نیا نام جمیل احمد رکھا گیا۔ اس تبدیلی کے بعد بوٹا سنگھ پاکستان ہائی کمیشن پہنچا اور اپنی بیوی کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگا لیکن اس کا یہ مطالبہ نا منظور کر دیا گیا کیونکہ دونوں ملک معاہدے کی اس شرط کی سختی سے پابندی کر رہے تھے کہ اغوا شدہ عورت خواہ کسی مذہب کے آدمی کے پاس سے برآمد ہو اور وہاں وہ خواہ کسی حیثیت سے رہ رہی ہو اسے فوراً کیمپ پہنچا دیا جائے. جب اس عورت کے خاندان کا پتا چل جائے تو اسے واپس بھیج دیا جائے۔ چھ مہینے تک بوٹا سنگھ روز اپنی بیوی سے ملنے کیمپ جاتا تھا۔ آخر وہ دن آہی گیا جب زینب کے رشتہ داروں کا پاکستان میں پتہ چل گیا۔ رخصت ہوتے وقت بوٹا سنگھ اور زینب ایک دوسرے سے رو رو کر ملے۔ زینب نے قسم کھائی کہ وہ اپنے شوہر اور بچی کے ساتھ رہنے کے لیے بہت جلد واپس آئے گی۔ بوٹا سنگھ نے ایک مسلمان کی حیثیت سے پاکستان ہجرت کرنے کی اجازت مانگی۔ اس کی درخواست نامنظور کر دی گئی۔ اس نے ویزا مانگا جو اسے نہیں ملا۔ ہار کر بوٹا سنگھ نے اپنی بچی کو ساتھ لیا جس کا نیا نام 'سلطانہ' رکھا گیا تھا اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو گیا۔ سلطانہ کو لاہور میں چھوڑ کر وہ اس گاؤں کو روانہ ہوا جہاں زینب کے خاندان نے سکونت اختیار کی تھی۔ وہاں پہنچ کر بوٹا سنگھ کے دل کو انتہائی شدید صدمہ پہنچا۔ ہندوستان سے ٹرک میں بیٹھ کر زینب پاکستان کے اس گاؤں میں پہنچی ہی تھی کہ چند گھنٹوں کے اندر اس کی شادی ایک دور کے رشتہ دار سے کر دی گئی۔ بیچارہ بوٹا سنگھ روتا پیٹتا رہ گیا: "میری بیوی مجھے واپس کر دو، میں اس کے بغیر زندہ نہیں روسکتا۔“
زینب کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے مل کر بوٹا سنگھ کو بری طرح مارا پیٹا اور پولیس کے حوالے کر دیا کہ یہ بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے پاکستان میں داخل ہوا ہے۔ عدالت میں بوٹا سنگھ نے گڑ گڑا کر کہا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کی بیوی اسے واپس کر دی جائے۔ اگر اسے ایک بار بیوی سے ملنے کا موقع دیا جائے تو وہ یہ خود پوچھ کر تسلی کرلے گا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ رہنے کے لیے ہندوستان واپس جائے گی یا وہ اپنی مرضی سے پاکستان میں رہنا چاہتی ہے۔ اس کی رقت آمیز التجا سے متاثر ہو کر عدالت نے اس کی درخواست منظور کر لی. اور ایک ہفتہ بعد زینب کو عدالت میں حاضر کرنے کا حکم دے دیا۔ اخباروں کے ذریعہ اس معاملے کی خبر پھیل چکی تھی اور جب تاریخ معینہ پر زینب عدالت میں لائی گئی تو وہ بری طرح سہمی ہوئی تھی۔ اسے اپنے بہت سے رشتہ داروں کے ہجوم کے بیچ عدالت کے سامنے حاضر ہونا پڑا۔ جج نے بوٹا سنگھ کی طرف اشارہ کیا " کیا تم اسے جانتی ہو؟" زینب نے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا: "ہاں۔ یہ بوٹا سنگھ ہے۔ میرا پہلا شوہر۔"
زینب نے اپنی لڑکی کو بھی پہچان لیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ " کیا تم ان لوگوں کے ساتھ ہندوستان واپس جانا چاہتی ہو؟"
زینب کا جواب سننے کے لیے عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ ایک طرف بوٹا سنگھ اور اس کی بچی کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ دوسری طرف اس کا موجودہ شوہر اور اس کے تمام رشتہ دار اس کی طرف آنکھیں لگائے ہوئے تھے۔ زینب نے سر ہلایا اور دھیرے سے کہا "نہیں."
اس کے رشتہ داروں نے زینب کو سمجھا دیا تھا کہ بوٹا سنگھ سکھ ہے اور سکھ ہی رہے گا۔ اس نے اگر اسلام کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو اس کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ زینب کی زبان سے انکار سن کر بوٹا سنگھ کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔ وہ جس امید کی کرن کی تلاش میں اپنا ملک اور مذہب چھوڑ کر یہاں تک چلا آیا تھا وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ وہ بری طرح لڑکھڑایا کہ اسے عدالت کے جنگلے کا سہارا لینا پڑا۔ جب اس نے اپنے آپ کو سنبھالاتو بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر زینب کی طرف بڑھا۔
"ٹھیک ہے. لیکن میں تم سے تمہاری بیٹی نہیں چھین سکتا۔ میں اسے تمہارے سپرد کیے جاتا ہوں ۔"
اس نے اپنی جیب سے سارے نوٹ نکال کر اپنی بیٹی کی جیب میں ڈال دیے۔ اس نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا:
"میری زندگی میں اب کیا رہ گیا ہے۔"
جج صاحب نے زینب سے پھر پوچھا کہ "کیا وہ اپنی بیٹی کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتی ہے؟" عدالت میں موجود زینب کے رشتہ داروں نے غصہ میں سر ہلا دیا۔ وہ اپنے خاندان میں سکھ کا خون نہیں ملانا چاہتے۔
زینب سہم گئی۔ اس نے اچٹتی ہوئی نگاہ اپنی بچی پر ڈالی۔ بچی کو ساتھ رکھنے کا مطلب یہ ہوتا کہ بے چاری ساری زندگی طعنے سنتی رہے۔ اسے اتنا ستایا جائے گا جس کا کوئی حساب نہ ہو گا۔ زینب کا سارا وجود سسکیوں میں ڈوبا جا رہا تھا۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: "نہیں۔"
اب بوٹا سنگھ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار بہہ نکلی۔ چند لمحوں تک وہ اپنی بیوی کو دیکھتا رہا. اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں. بوٹا سنگھ اس چہرے کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتا تھا.
اس نے بڑے پیار سے اپنی بچی کو گود میں اٹھا لیا اور بغیر کچھ کہے اور بغیر کسی کی طرف دیکھے، وہ عدالت سے نکل گیا۔ بوٹا سنگھ کا دل ہمیشہ کے لیے ٹوٹ چکا تھا۔ وہ رات اس نے داتا گنج بخش کی درگاہ میں رونے اور دعائیں مانگنے میں گزار دی۔ اس کے قریب ایک کھمبے کے پاس اس کی بچی پڑی سوتی رہی. صبح ہوئی تو بوٹا سنگھ بچی کو بازار لے گیا. پچھلے دن دوپہر کو اس نے جو روپے بچی کی جیب میں بھر دیے تھے، ان سے اس نے بچی کے لیے نئے کپڑے اور جوتے خرید کر اسے پہنا دیے.
اس کے بعد ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے باپ بیٹی قریب کے ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑے. پلیٹ فارم کی طرف بڑھتی ہوئی گاڑی کی سیٹی دور سے سنائی دی. بوٹا سنگھ نے بے حد پیار سے بیٹی کو اٹھایا اور چوم لیا. اسے گود میں بھر کر بوٹا سنگھ پلیٹ فارم کے کنارے کھڑا ہو گیا. بھاپ کے بادل اڑاتا ہوا انجمن جھپٹا چلا آ رہا تھا. بچی نے محسوس کیا کہ بوٹا سنگھ کی گرفت اس پر بہت زیادہ مضبوط ہو گئی ہے. بوٹا سنگھ نے بچی کے ساتھ اچانک انجن کے سامنے چھلانگ لگا دی لیکن بچی سامنے کی طرف گر گئی. اس نے انجن کی سیٹی اوراس کا بھیانک شور سنا، جس میں اس کی اپنی چیخیں بھی شامل تھیں. اگلے ہی لمحہ وہ انجن کے نیچے پڑی تھی. بوٹا سنگھ فوراً مر گیا لیکن قدرت نے معجزہ دکھایا، اس کی بچی کے بدن پر ایک خراش تک نہیں آئی. اس کی خون سے لت پت لاش سے پولیس کو وہ الوداعی خط ملا جو اس نے اپنی بیوی کے نام لکھا تھا جس نے اسے ٹھکرا دیا تھا.

"میری پیاری زینب تم نے بِھیڑ کی آواز سنی لیکن ایسی آواز کبھی سچی نہیں ہوتی۔ اب بھی میری آخری خواہش یہی ہے کہ میں تمہارے ساتھ رہوں۔ مجھے تم اپنے ہی گاؤں کے قبرستان میں دفن کرنا. کبھی کبھی آکر میری قبر پر پھول چڑھا دیا کرنا۔"
بوٹا سنگھ کی المناک موت کی خبر جلد ہی پورے لاہور میں آگ کی طرح پھیل گئی. ہزاروں مسلمان اس کے جنازے کے ساتھ زینب کے گاؤں آئے مگر وہاں اس کے رشتہ داروں نے میت کو دفن نہیں ہونے دیا. انتظامی افسروں نے ہدایت کی کہ جھگڑا فساد کرنے کی بجائے بوٹا سنگھ کو لاہور میں ہی دفن کر دیں۔ اسے لاہور میں میامی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا. لاہور میں اس کی قبر پر لوگوں نے اتنے پھول چڑھائے کہ پھولوں کے پہاڑ بن گئے۔ بوٹا سنگھ کو اتنی زیادہ عزت ملنا زینب کے خاندان والوں کو گوارا نہیں ہوا۔ انہوں نے ایک گروہ لاہور بھیجا جس نے بوٹا سنگھ کی قبر کو نہ صرف توڑا پھوڑا بلکہ اسے ناپاک بھی کر دیا۔ اس وحشیانہ حرکت سے سارے لاہور کے لوگ سناٹے میں آگئے۔ لاہور والوں نے بوٹا سنگھ کو دوبارہ دفن کیا اور اس کی قبر کو ایک بار پھر اے پھولوں کے پہاڑ سے ڈھک دیا۔ اس بار سینکڑوں مسلمان اس کی قبر کی حفاظت کیلئے تعینات ہو گئے۔
بوٹا سنگھ کی بیٹی سلطانہ کو لاہور کے ایک خاندان نے منہ بولی بیٹی بنا کر پالا۔
آخری وقت تک وہ اپنے انجینئر شوہر اور تین بچوں کے ساتھ لیبیا میں رہ رہی تھی۔
(فریڈم ایٹ مڈ نائٹ کا مسودہ جون 1975ء میں پریس میں جا چکا تھا۔ اس لیے اس کے بعد کے واقعات کا اس میں احاطہ نہیں کیا گیا۔)
بحوالہ فریڈم ایٹ مڈ نائٹ از لیری کولنز اینڈ ڈامینیق لیپیری
لاہور کے لوگوں نے بوٹا سنگھ کو "شہیدِ محبت" کا ٹائٹل دیا تھا. ایسی کئی داستانیں مٹی کی دھول میں دفن ہو گئیں جب مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلی گئی تھی. تقسیمِ پنجاب کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے.

یہ کہانی لیری کولنز اور ڈامینیق لیپیری کے علاوہ کچھ دیگر مصنفین نے بھی بیان کی تھی. میرے بچپن کے دوران اخبارات کے میگزین میں بھی شائع ہوئی تھی. اس دردناک کے کہانی کے ماخذ اس لیے دے دیے ہیں تاکہ سند رہے. گزشتہ برس اگست میں میں نے اپنی سابقہ فیسبک آئی ڈی سے یہ پوسٹ شئیر کی تھی جو کافی مرتبہ آگے بھی شئیر ہوئی تھی. اب اسے دوبارہ شئیر کر رہا ہوں.
یاد رہے بوٹا سنگھ کی ہی زندگی پر بالی وڈ نے تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ غدر فلم بنائی تھی

(مزمل حسین گوندل)

سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھیوہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی" برگد کے درخت کے نیچ...
14/05/2024

سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی
وہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی" برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک منچلے نے استہزائیہ کہا.
"اللہ بخشے اسے، بہت اچھی عورت تھی" بنا ناراض ہوئے
، بغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیا.
ایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا "لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی. بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے.
"کہتے تو ٹھیک ہی ہیں، وہ واقعی بہت خطرناک تھی اور حقیقتاً میں نے ڈر کے مارے اسے طلاق دی تھی".
"یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے، عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے؟ "نوجوان جوشیلے انداز میں بولا...
"میں عورت سے نہیں ڈرتا تھا، میں تو 'اس' سے ڈرتا تھا جس تک اس کی رسائی تھی" پرسکون جواب...
جوانوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا.
ایسی عورتوں کو تو جہنم میں ہونا چاہیئے...لا حول ولا قوہ.. کہاں آپ جیسا شریف النفس آدمی کہاں وہ عورت؟اچھا کیا چھوڑ دیا" نوجوان کے لہجے میں غصہ تھا. بوڑھے کی متجسس زندگی کا پٹارا کھل کر سامنے آگیا تھا. تجسس ختم ہوا، اب سب باری باری منتشر ہونے لگے. جانے والوں نے عنوان پڑھ لیا تھا،کہانی خود بنانی تھی, جو رہ گئے تھے وہ وہی تھے جو اصل کہانی جاننا چاہتے تھے-
"میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا کہ اسے جہنم میں ہی ہونا چاہیئے تھا، تب ہی میں نے اسے جہنم جیسی زندگی دی تھی" بوڑھی آنکھوں میں اضطراب اترا.
یہ تب کی بات ہے جب میں سرکار کے ہاں ایک روپیہ ماہوار پر ملازم ہوا، میری ماں چاہتی تھی کہ میری شادی ہوجائے. رشتہ ڈھونڈا گیا، ایک مونگ پھلی فروش کی بیٹی میری ماں کو پسند آئی, سلیقہ مند، خوبصورت اور ایک دم خاموش طبع. مجھے اس رشتے پر اعتراض تھا کہ وہ ایک مونگ پھلی بیچنے والی کی بیٹی تھی. مزدور کی اولاد کو پیٹ کی فکررہتی ہے، تربیت کی نہیں، تربیت بڑے گھرانوں میں کی جاتی ہے جہاں افلاس آنکھوں کے روشنی چھیننے سے قاصر ہوتا ہے. وہ کیا تربیت دے گی میری اولاد کو؟ لیکن وہ لڑکی میری ماں کو ایسی پسند تھی کہ اماں اس کے علاوہ کسی کا نام نہیں سننا چاہتی تھیں.
پھر وہ بیاہ کر میرے گھر آگئی، رخصتی کے وقت اس کے باپ نے مجھے کہا "میری بیٹی سیدھی سادھی ہے، اسے دنیاداری کا کوئی خاص پتا نہیں،اگر کہیں کوئی چوک ہوجائے تو معاف کردینا،یوں ہے بڑے دل والی،اپنے *سائیں* کو خوش رکھے گی", وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی میری ماں نے بتایا تھا. سلیقہ مند، سگھڑ اور تابعدار."
"باہر دوستوں کے ساتھ میری صحبت کوئی اچھی نہیں تھی، ملازمت کے اوقات میں کھانا گھر سے باہر کھاتا، دوستوں میں بیٹھتا ،رات گئے تک محفل چلتی پھر گھر جاتا. وہ کیا کھاتی کیا پیتی کس حال میں رہتی تھی مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی. انہی دنوں میری ماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئی تھی.
ایک روز میں جوئے میں بھاری رقم ہار کر جب تھکا ہارا گھر آیا تو کہنے لگی "آپ تو کھانا باہر کھالیتے ہیں، مجھے بھوک لگتی ہے، ہوسکے توایک ہی بار مہینے کا راشن ڈلوا دیا کیجیئے، روز روز بازار سےخریداری کی صعوبت نہیں اٹھانی پڑے گی"- کیا؟ اس پھونگ پھلی بیچنے والے کی بیٹی کی اتنی اوقات کہ مجھ سے مطالبہ کرسکے- مجھے طیش آیا.
"ہو ناں تم کسی بہت بڑے باپ کی بیٹی کہ تمہیں پورے مہینے کا راشن اور خرچ چاہیئے, اپنی اوقات دیکھی ہے؟ "غصے میں آکر اس پر ہاتھ اٹھایا اور مغلظات بھی بکے. میں یہ نہیں سوچ سکا کہ آخر اسے زندہ رہنے کے لئے روٹی تو ہر حال میں چاہیئے تھی!
وہ جسمانی اعتبار سے کافی کمزور تھی، مار برداشت نہیں کرسکتی تھی, پشیمانی تھی یا کیا وہ دودن تک بستر پر پڑی رہی. مجھے اسکی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی.
پھر اس نے گھر میں ہی سینا پرونا شروع کردیا، ہاتھ کا ہنر اس کے کام آیا، یوں اسکی روٹی کا انتظام ہوگیا اور میں یہ سوچ کر پہلے سے بھی بےپرواہ ہوگیا.
ایک روز ایک ہمسائے نے مجھے روک کر کہا "دن میں جب آپ گھر نہیں ہوتے تو آپ کے گھر سے باتوں کی آوازیں آتی ہیں", میرے سوا میری غیر موجودگی میں کون آتا تھا جس سے وہ اتنی آواز میں باتیں کرتی تھی؟ غصہ حد سے سوا تھا، بس نہ چلتا تھا کہ اسے جان سے مار دوں، لیکن میں بس ایک موقع کی طاق میں تھا.
ایک رات پچھلے پہر کسی کے بولنے کی آواز پر میری آنکھ کھلی، چاندی رات میں صحن میں پڑی ہر شے بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی تھی، میں اٹھ کر دروازے تک آیا.اب آواز زیادہ واضح تھی.وہ کہ رہی تھی:
"سائیں! صبح ایک روٹی کے لئے آٹا گھر میں موجود ہے، وہ ایک روٹی کھا کر چلا جائے گا، یہ سوچے بنا کہ میں سارا دن بھوکی رہوں گی, میری روٹی جب تک تیرے ذمے تھی تو عزت سے ملتی تھی، جب تو نے اپنے نائب کے ہاتھ دی تو روٹی کیساتھ بےعزتی اور اذیت بھی ملنے لگی، مجھے اب روٹی تو ہی دے...تیرا بنایا نائب تو خائن نکلا" وہ میری شکایت کررہی تھی؟ لیکن کس سے؟ کون تھا جو اسے روٹی دیتا تھا مجھ سے بھی پہلے؟؟؟
میں نے باہر آکر دیکھا وہ صحن کے بیچ چارپائی پر بیٹھی خود سے باتیں کررہی تھی. وہاں کوئی بھی نہ تھا. میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی, وہ خدا سے میری شکایت کررہی تھی, وہ اس لمحے مجھے کوئی اور ہی مخلوق لگی. وہ بہت کم بولتی تھی لیکن وہ کس کے ساتھ اتنا بولتی تھی, آج مجھے سمجھ آیا تھا. وہ تو بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی. کیسی عورت تھی جو افلاس کے ہوتے بھی خدا شناس تھی, میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا.
دن چڑھتے ہی میں نے سامان باندھا اور اسے اسکے گھر چھوڑ آیا، سسر نے طلاق کی وجہ پوچھی تو میں ڈرتے ہوئے کہنے لگا.
" یہ بڑی خطرناک عورت ہے، بڑے دربار میں میری شکایتیں لگاتی ہے.مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ کو کسی دن تاو آگیا تو میرا حشر نہ کردے" - حقیقت یہ تھی کہ میں اس کیساتھ انصاف نہیں کرسکا تھا.
اس کا باپ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا. میرے پلٹنے پر کہنے لگا "میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ اسے دنیاداری نہیں آتی، وہ تو بس 'سائیں' کو خوش رکھنا جانتی ہے" , اس کی مراد خدا سے تھی اور میں خود کو سمجھا تھا.
جب میں واپس گھر آیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ رات اس نے یہی تو مانگا تھا." تو خود مجھے روٹی دے، تیرا نائب تو خائن نکلا", اور آج نان نفقے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا.
میں بے تحاشہ رویا، اس کا سائیں بہت بڑا تھا، اس کی رسائی جس تک تھی وہ تو دوجہانوں کا رب تھا. وہ جس کی ایک روٹی مجھ پر بھاری تھی وہ اس کے لئے کیا نہیں کرسکتا تھا. میں واقعی ڈر گیا تھا. میں آج بھی ڈرتا ہوں کہیں میرے حق میں اس نے کوئی بددعا نہ کردی ہو.
ٹھیک کہتے ہیں لوگ!!کہاں میں کہاں وہ؟؟ "بوڑھی آنکھوں میں نمی اتری تھی.
"میں کور چشم اسے پہچان نہ سکا، میں نہیں ڈرتا تھا، حالانکہ ڈرنا چاہیئے تھا ،اس کے سائیں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا کہ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔“
منقول
غلطیوں کو نظر انداز فرما دیجئے گا🙏🏻

آج میں آپ کو موٹروے سٹے پر ہونے والی واردات کے بارے میں بتاتا ہوں آج سے چار ماہ پہلے مجھے کام کے سلسلے میں  مجھے فیصل آب...
14/04/2024

آج میں آپ کو موٹروے سٹے پر ہونے والی واردات کے بارے میں بتاتا ہوں
آج سے چار ماہ پہلے مجھے کام کے سلسلے میں مجھے فیصل آباد سے پشاور جانا پڑا
اور گاڑی نے کلر کہار پر سٹے کیا
فیصل آباد سے پشاور کا سفر موٹروے پر چھ گھنٹے کا ہے اور اس دوران اکثر میرا دل خراب ہوتا ہے۔
جب گاڑی نے سٹے کیا تو میں نیچے اتر کر شاپ پر گیا اور وہاں سے ایک ہاف لیٹر سیون اپ مانگی جو اس نے مجھے 90 روپے کی بتائی
میں نے بوتل لینے کے بعد اس کو ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا اور اس نے مجھے بقایا پیسے دیے
جب میں نے گنے تو وہ 810 تھے جبکہ میرے بقایہ 910 بنتے تھے
میں نے دوکاندار کو کہا بھائی یہ تو سو روپیہ کم ہے اس نے کہا لاؤ مجھے دکھاؤ
جب میں نے اس کو دیے تو اس نے گن کر مجھ سے معذرت کی اور ساتھ والے لڑکے سے کہا کہ کہ ان کو سو روپے اور دو لڑکے نے دراز سے سو روپے نکال کر اس کو دیا اور اس نے ان پیسوں میں سو روپے ڈال کر مجھے دے دیے
میں نے بھی بغیر گنے والٹ میں ڈال دیئے اور جب پشاور پہنچا تو میں رکشا کرایا اور ماموں کے گھر پہنچ گیا جب میں رکشے والے کو پیسے دینے لگا تو رکشے والے کا ساڑھے پانچ سو بنتا تھا میں۔ نے وائلٹ سے وہ پیسے نکالے تو مجھے حیرت کا جھٹکا لگا کہ وہ نو سو دس روپے کی جگہ پانچ سو دس روپے تھے
مجھے اس وقت اپنے آپ پر بڑا غصہ آیا لیکن غلطی میری تھی کیونکہ میں نے پیسے گنے نہیں تھے

تین دن پہلے میں پشاور سے فیصل آباد چھٹیوں پر اپنے گھر آیا
بس کے ڈرائیور نے کہا کہ جس جگہ پر سحری کا ٹائم ہوگا اس جگہ پر ہم بس روک لیں گے
حافظ آباد سے تقریبا پچاس کلومیٹر پہلے ڈرائیور نے بس ایک ہوٹل پر روکی۔ میں نے وہاں پر سحری کی اور اس کے بعد ایک شاپ پر پانی کی بوتل لینے چلا گیا
بھائی نے مجھے بوتل 70 روپے کی بتائی اتفاق سے اس وقت بھی میرے پاس ہزار کا نوٹ تھا میں نے اس کو ہزار روپے کا نوٹ دیا اور اس نے مجھے بقا یا پیسے دیے جب میں نے گنے تو وہ 730 روپے تھے
میں نے بھائی کو بتایا کہ اس میں تو دو سو روپیہ کم ہے تو اس نے کہا لاؤ میں گنتا ہوں
جب اس نے یہ الفاظ بولے تو مجھے چار ماہ پہلے والا واقعہ یاد آ گیا بارحال میں نے اس کو پیسے دیے اور اس نے گننے کے بعد مجھ سے معذرت کی اور اسی طرح ساتھ لڑکے سے کہا کہ یار دو سو روپیہ تو دو اس نے دو سو روپے اسے دیا اور اس نے ان پیسوں میں دو سو روپیہ ڈال کر مجھے دے دیے جب میں نے پیسے پکڑے تو مجھے کم لگے اور جب میں گنا لگا وہ 930 کی بجائے پانچ سو تیس روپے تھے
اس دکاندار نے جب دیکھا کہ یہ پیسے گن رہا ہے تو اس نے فٹافٹ چار سو روپیہ میرے پاس پڑے ہوئے ٹافی کے پیکٹ پر رکھ دیئے اور کہا کہ یہ اپنے پیسے پورے کر لے


میرے پاس کھڑا ہوا مسافر یہ سب دیکھ رہا تھا
جب میں شاپ سے گیا تو وہی مسافر میرے پاس آیا اور اس نے مجھے کہا کہ یار آج آپ بچ گئے
میں نے کہا کیوں بھائی کیا ہوا تو اس نے کہا یار میرے ساتھ ایسا دو بار ہو چکا ہے یہ ایسے ہی کرتے ہیں
پہلے مسافر کو پیسے کم دیتے ہیں اور پھر واپس لے کر انہیں کے سامنے پیسے ڈال کر آدھے پیسے غائب کر دیتے ہیں اور ان کی ہاتھ کی صفائی ایسی ہے کہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اور یہ دیتے بھی بقایا میں سو سو پچاس پچاس والے نوٹ ہیں تاکہ کسی کو شک نہ ہو
میں نے کہا میرے ساتھ بھی پہلے ایک مرتبہ ہو چکا ہے اسی لئے میں نے اس بات احتیاط برتی
تو اس مسافر نے مجھے بتایا کہ بھائی پچھلی بار جب ہوا تو میں ان کے ساتھ لڑنے لگا لیکن یہ پوری ٹیم کے ساتھ میرے ساتھ بدتمیزی کرنے لگے اور الٹا مجھے ہی انہوں نے چور کہہ دیا
اس لئے ان کے ساتھ بحث کرنا بھی فضول ہے کوشش یہ کریں کہ جب بھی پیسے لے یا دے تو کوئی احتیاط کریں
آپ لوگوں کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جب بھی آپ سفر پر جائے اور جہاں بھی گاڑی سے سٹے کریں موٹر وے پر تو اس بات کا خاص خیال رکھیں۔ یہ تو ایک میں تھا پتا نہیں مجھ جیسے کتنے ہی لوگ ان کا شکار بن جاتے ہیں اور ہزاروں روپے یہ ایسے لوگوں سے لوٹ لیتے ہیں
اور اگر کوئی یہاں پر اونچی پوسٹ والا ممبر ایڈ ہے تو اس سے گزارش ہے ہوسکے تو اس پر کوئی ایکشن لیا جائے تاکہ باقی مسافر بھی محفوظ رہ سکیں
اللہ پاک آپ سب کا حامی و ناصر ہو.......آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کسی کو معلوم ہو کہ کس کی تحریر ہے تو بتا دیں تاکہ ساتھ اس کا نام لکھ دیا جائے۔
آپ میں سے کسی کے ساتھ ایسا ہوا؟

تمام خواتین مائیں ۔ ۔ ۔ اپنے بچوں کو کبھی کسی بھی رشتے دار کے ساتھ اپنے گھر میں یا انکے گھر میں نہ چھوڑ کر جائیں۔ اچھا ا...
11/03/2024

تمام خواتین مائیں ۔ ۔ ۔
اپنے بچوں کو کبھی کسی بھی رشتے دار کے ساتھ اپنے گھر میں یا انکے گھر میں نہ چھوڑ کر جائیں۔

اچھا ایسا کریں، آپ کی زندگی میں جو سب سے بھروسہ مند شخص ہے۔ اس کا سوچیں۔

اب اچھی طرح سمجھ لیں کہ آپ نے اس شخص یا خاتون کے پاس بھی آپ نے اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑنا۔

بارہ تیرہ سال سے بڑا لڑکا ہو، یا لڑکی ۔ ۔ اس کے ساتھ اپنے چھوٹے بچوں کو اکیلے میں نہ چھوڑیں۔

خاص طور پر اگر آپ کے بچوں کا کوئی حد سے زیادہ خیال رکھنے لگے، تو مزید محتاط ہو جائیں۔

مرد و عورت کی قید نہیں ۔ ۔

لیکن لڑکوں اور مردوں سے زیادہ ہوشیار رہیں۔ اور اسکولوں میں پڑھاتی ایسی سنگل لڑکیوں یا عورتوں کے ساتھ بھی تنہائی میں اپنے بچوں، خاص طور پر لڑکوں کو نہ چھوڑیں۔

آپ کی یہ احتیاط آپ کے بچوں کی زندگی میں بہت سی نفسیاتی الجھنوں سے بچنے کی گارنٹی ہوگی۔

جوائنٹ فیملی سسٹم میں اس پر اپنے شوہر کو اعتماد میں لے کر عمل کریں۔ ۔ ۔ یا پھر اپنے شوہر کو اس بارے میں ایجوکیٹ کریں۔ ۔

یاد رکھیے، واقعات ایسے ہیں جو آپ کو انسان سے نفرت پر مجبور کر دیں گے۔ ۔ مگر اعتدال پسند رویہ یہ ہے کہ حادثے کی وجہ سے ہی بچا جائے۔ ۔ ۔ بجائے کے رشتے خراب ہوں ۔ ۔ یا بچوں کی زندگی اجیرن ہو جائے۔ ۔

اس پیغام کو ان تمام ماوں تک پہنچائیں جن کے بچے انکی غیر موجودگی میں کہیں رہتے ہیں۔

شکریہ۔

محمود فیاض Mahmood Fiaz

جگ بیتی Rabia Khurram Durran  میں نے ان گنت ایسی لڑکیاں دیکھیں جوگھر کا بوجھ اٹھانے کے لیے نکلیں ۔ پھر خواب بنے ۔ پہلے ش...
28/11/2023

جگ بیتی Rabia Khurram Durran

میں نے ان گنت ایسی لڑکیاں دیکھیں جوگھر کا بوجھ اٹھانے کے لیے نکلیں ۔ پھر خواب بنے ۔ پہلے شکار ہوئیں پھر شکاری بنیں اور پھر اگر جال میں کوئی پھنس گیا تو کہیں اٹک گئیں ۔ کامیابی نہ ملی تو جہاں اماں باوا نے بھیج دیا وہاں اچھی بیٹی کی طرح جا بسیں ۔
پچھلی زندگی سے ایک پرانی سم کا ہی تو رشتہ تھا سو وہ سم پرانی یاد کی گلک میں ڈال کر نئی سم لی اور زندگی کے نئے دھارے میں بہنے لگیں ۔

آپ نےلڑکیوں کا ظاہر دیکھا ہے ۔ زیادہ نہیں چار پانچ ایسی ہی لڑکیوں سے جنہیں آپ بہت اچھا سمجھتے ہیں ان سے خاتون کی آئی ڈی سے دوستی کر کے ان کے دل کا حال جان لیجیے ۔ میری تحریر آپ کو معاشرے کا آئینہ دکھے گی ۔
بہرحال اچھے لوگ بھی اسی دنیا میں موجود ہیں ۔ سنبھلی ہوئی خواتین اور خاندانی شرافت کا نمونہ بھی اسی دنیا میں نظر آتا ہے۔ بس جسے جیسا دیکھنے کو مل جائے ۔

میں نے گورنمنٹ ،پرائیویٹ اسپتال میں اور اپنے مریضوں میں بہت سے چھوٹے موٹے پرائیویٹ اداروں کی ورکرز دیکھیں ان سب کی کہانی سنی ۔ سب خوابوں کے تعاقب میں اپنی جوانی کے بل بوتے پر بڈھے مالدار کی دوسری بیوی بننا چاہتی تھیں ۔

ایک لڑکی کو سیاست کا شوق ہے وہ کسی سیاست دان کی دوسری بیوی بننا چاہتی ہے ۔ اپنے حسن پر نازاں لڑکی اب 40 ،45 کے آس پاس کی ہو چکی لیکن ہنوز ان میرڈ ہے وہ اپنے مریض چیک کروانے کے بہانے ڈاکٹرز اور سہیلیوں سے ملنے کے بہانے سہیلیوں کے شوہر چیک کرتی ہے ۔

ایک ادارے کی ریسپشنسٹ نے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ میرے والدین بس مجھ سے روپوں کا مطالبہ کرتے ہیں کہاں سے لاتی ہوں کیسے لاتی ہوں یہ کوئی نہیں پوچھتا ۔ ایک روز زخمی حالت میں میرے پاس لائی گئی آنکھ اور پیشانی پر ٹانکے لگائے ۔ پتا چلا نشئی بھائی نے مطلوبہ رقم مہیا نہ کر پانے پر تشدد کیا تھا۔ اپنے والدین اور بہن بھائی کی محبت میں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ بھی شکاری بن چکی ۔ مظلوم سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہوتا ۔

ایک لڑکی کے منہ کو خون لگ گیا تھا بس اسے ہر عورت کے شوہر کو جھکانے کا شوق پڑ گیا تھا اس کا گھر خراب کر اگلے کے گھر ۔ اس نے تو بھائیوں کو بھائیوں سے لڑا دیا ۔
معصوم صورت آتی ہیں شیطان فطرت لوٹتی ہیں ۔

ایک ہزار تنخواہ پانے والی میک اپ پر دو ہزار خرچ کرتی ہے ۔ یہ دوسرا ہزار کہاں سے آتا ہے اور ہزاروں کے سیل فون اور نت نئے ملبوسات و سامان آرائش یہ سب خرچ کہاں سے پورے ہونے لگتے ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے ۔ ان کے خرچ ان کی آفیشل آمدن سے کہیں بڑھ جاتے ہیں اس پر بھی کوئی جے آئی ٹی بننی چاہیے۔

گھر بیٹھی خاندانی عورتیں جو رسوم و رواج کے پنجروں کی قید میں ہیں نہایت غیر محفوظ ہیں ۔ کبھی بھی ان کے تخت الٹ سکتے ہیں۔ کبھی بھی جلاوطن کی جا سکتی ہیں ایک بےوقوف سادہ مرد کی نسبت ایک ماہر شکاری کھلاڑی مرد کی بیوی زیادہ محفوظ ہےکھلاڑی کھیل کر گھر لوٹ آتا ہے ۔ اناڑی نیا گھر بنا لیتا ہے اور پرانا گھونسلہ توڑ دیتا ہے۔

// ثنا اللہ خان احسن صاحب فرماتے ہیں۔۔
عرصے سے میں اس ٹاپک پر لکھنا چاہ رہا تھا کہ جب سے پریکٹیکل لائف میں آیا ہوں برسوں سے ایسے بے شمار ڈراموں کا عینی شاہد ہوں۔ اکثر تو کچی کھلاڑی لڑکیاں سال دو سال سے زیادہ نہیں چل پاتیں اور سب کچھ ہار کے کہ جس کو وہ تجربے کا نام دیتی ہیں ، کسی اور شکار کی تلاش میں نکل جاتی ہیں۔ دفاتر میں نئی لڑکیاں آتی رہتی ہیں اور ایک نہ ایک دن باس بھی شکار ہو ہی جاتا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں ایسی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیاں ہیں جو پسماندہ علاقوں سے دفاتر کا رخ کرتی ہیں۔ ٹی وی ڈرامے دیکھ کر وہ بھی یہی سمجھتی ہیں کہ کسی کمپنی کے مالک کی نگاہ التفات ان پر پڑے گی اور وہ بھی ڈیفنس، کلفٹن یا گلشن کے کسی گھر میں آسائش سے زندگی گزاریں گی۔ جرنلزم میں ماسٹرز لڑکے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں جبکہ خواتین فریش جرنلسٹ دھڑا دھڑ نیوز چینلز جوائن کر رہی ہیں۔ جوائننگ کے ایک سال کے اندر امریکہ یا کسی دوسرے ملک کی یاترا بھی کروادی جاتی ہے۔۔۔۔۔ اس ٹاپک پر میں نے اس لئے نہیں لکھا کہ مبادا مجھ پر صنف نازک کا مخالف تنگ نظر مرد ہونے کا لیبل لگادیا جائے ورنہ اس موضوع پر میرے پاس بہت سی آنکھوں دیکھی کہانیاں اپنے انجام کو پہنچ چکی ہیں اور بہت سی ابھی جاری ہیں۔ رابعہ خرم صاحبہ ایک سنجیدہ اور پختہ کار لکھاری ہیں جو حساس موضوعات پر انتہائ سچائ اور ایمانداری سے لکھتی ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ایک خاتون ہونے کے باوجود انہوں نے انتہائ غیر جانبداری سے کام لیا ہے اور صرف حقیقت بیان کی ہے۔//

شکاری عورت ہو یا مرد، سب شیطان کی ڈوروں پر ناچتی کٹھ پتلیاں ہیں ۔ یہ کٹھ پتلیاں ٹک ٹاک کا سہارا لے کر ہر گھر اور ہر خوابگاہ تک پہنچ چکی ہیں ۔ جانے ان کی منزل کہاں ہے اور کون ہے ؟

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

بلال پاشا ۔۔آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ بنوں(اسسٹنٹ کمشنر)😓 سی ایس ایس سے موت تک کا سفر 😓بلال پاشا جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ عل...
27/11/2023

بلال پاشا ۔۔آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ بنوں(اسسٹنٹ کمشنر)

😓 سی ایس ایس سے موت تک کا سفر 😓
بلال پاشا جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقہ میں پیدا ہوا۔ والد دیہاڑی دار مزدور تھے۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں ہی قائم مکتب سے پرائمری پاس کی۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا عالم سب پر عیاں ہے لہذا بلال پاشا نے بھی چھٹی جماعت سے اے بی سی پڑھنا شروع کی۔ انٹر میڈیٹ ایمرسن کالج ملتان اور بیچلر زرعی یو یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسجد سے پانچ جماعتیں کرنے والا بچہ کل کو مقابلے کا امتحان پاس کرکے سی ایس پی بن جائے گا۔

بلال پاشا نے کیریئر کا آغاز ایک پرائیویٹ نوکری سے کیا۔ لیکن والد کی خواہش پر گورنمنٹ سروس میں آیا اور پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوگیا۔ بعد ازاں مختلف سرکاری اداروں میں سولہویں اور سترہویں سکیل کی ملازمت کرتے ہوئے 2018 ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوا۔

بلال پاشا نے اپنے بیک گرائونڈ کو چھپانے کی بجائے اپنے سفید داڑھی والے مزدور باپ کے ساتھ کھڑے ہوکر انٹرویو دیا اور پاکستان کے ان نوجوانوں میں امید کی شمع جلائی جو سی ایس ایس پاس کرنے کو صرف ایلیٹ کلاس سے منسوب کرتے تھے۔ سلسلہ چل نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں نوجوان سی ایس ایس کے خواب آنکھوں میں سجائے اس سفر پر گامزن ہونے لگے۔

لیکن عرفان خان نے کیا زبردست جملہ بولا تھا کہ "جب ہم جیسوں کےدن آتے ہیں موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے"۔ بلال پاشا کی زندگی کی شروعات ہوئی تھی اور موت نے آن دبوچ لیا۔ بلال کی موت کی وجہ بس ایک ہی تھی۔۔ سول سروس میں ملنے والا ڈپریشن۔ وہ جس سے بھی بات کرتا یہی کہتا کہ وہ یا تو نوکری چھوڑ دے گا یا خودکشی کرلے گا۔

بلال کی موت سے دو باتیں عیاں ہیں، ایک، ڈپریشن جان لیوا بیماری ہے۔ یہ ارب پتی باپ طارق جمیل کے ارب پتی بیٹے کو بھی دبوچ لیتی ہے اور یہ ایک مزدور باپ کے افسر بیٹے بلال پاشا کو بھی نہیں چھوڑتی۔ دوسرا۔۔ ہمیں اپنے خوابوں کے پیچھے اتنا بھی نہیں بھاگنا چاہیے کہ وہ ہمارے لئے Pyrrhic Victory ثابت ہو ( فرانس کا نپولین بوناپارٹ روس کو شکست دینے کے لئے اپنی چھ لاکھ فوجوں کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ وہ جنگ تو جیت گیا لیکن سرد موسم کی وجہ سے صرف دس ہزار فوجیوں کو بچا کر واپس آیا اور تب تک پیرس کا بھی محاصرہ ہوچکا تھا) ۔ بلال سترہویں سکیل کی عام نوکری پہ رہتا تو شاید کبھی اس Pyrrhic Victory کا شکار نہ ہوتا۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے " جس کی طلب میں تڑپ رہے ہو، وہ مل بھی بھی گیا تو کیا کرو گے"۔ یا پھر چارلس بکوسکی سے نے کہا تھا " ڈھونڈو اسے جس سے تم محبت کرتے ہو تاکہ وہ تمہیں مارسکے"۔ بلال کو بھی سی ایس ایس کرنے نے مار دیا۔ لہذا سی ایس ایس ایسی چیز نہیں ہے جس کی خاطر جان سے بھی ہاتھ دھویا جائے۔ ہر سال 17 فیصد بیوروکریٹ اپنی نیلی بتی اور سبز نمبر پلیٹ کو اللہ حافظ کہتے ہوئے استعفے دے دیتے ہیں۔ بلال بھی یہی کہتا تھا " یہ لوگ بتی اور سبز نمبر پلیٹ دیکھتے ہیں لیکن میرے اندر نہیں دیکھتے"۔ اب قیامت گزر چکی ہے۔

آج کی رات بلال کے باریش والد کے لئے بہت بھاری ہے۔ آج وہ اپنے ناتواں ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کے سونے جیسے جسم کو سپرد خاک کرے گا۔ آج کی رات بہت طویل ہے۔۔ بہت کٹھن۔۔ ہر طرف چیخ و پکار ہوگی۔۔ بلال کی میت کو روکا جائے گا۔۔ لیکن جانے والے کو کوئی روک پایا ہے؟ آج رات تو ہوگی لیکن اس کی سحر نہیں ہوگی۔ جب صبح کا سورج طلوع ہوگا تو اس کا باریش باپ گلیوں گلیوں صدائیں لگاتا ہوا اسی مسجد کے صحن میں جا پہنچے گا جہاں سے بلال نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ لیکن۔۔۔ اب کی بار وہ میسر نہیں ہوگا۔ اب کی بار مسجد کے درودیوار سے بس آہ و بکا سنائی دے گی۔۔ وحشت نظر آئے گی۔۔ لیکن بلال کہیں نظر نہیں آئے گا۔۔۔ وہ اس نیلی بتی۔۔۔ سبز نمبر پلیٹ ۔۔۔ اور اس سماج کے خودساختہ معیار سے بہت دور جاچکا ہوگا۔ اب کی بار وہ لوٹ کے نہیں آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔اللہ حافظ بلال۔۔۔۔۔
(خیال پارے ❤
محمــــد طـــاھــⷶــⷨـــر
27 نومبر 2023ء)

ڈاکٹر کی ڈائری خودکشی جرم بھی ہے صبر کی توہین بھی ہے~مگر کس کیلئے؟ ڈسکہ سے عبدالستار بھائی ہمارے میڈیکل کالج میں کلاس فی...
06/11/2023

ڈاکٹر کی ڈائری

خودکشی جرم بھی ہے صبر کی توہین بھی ہے~
مگر کس کیلئے؟

ڈسکہ سے عبدالستار بھائی ہمارے میڈیکل کالج میں کلاس فیلو تھے انتہائی نیک شریف،ہر وقت مسکراتا چہرہ اور ملنسار اتنا کہ آپ اس بات سے اندازہ لگایئں جب ساری کلاس اپنے ہی کلاس فیلو دوست کو عزت و احترام کیساتھ “ستار صاحب” کہہ کر مخاطب کرے۔۔۔
پھر ایک دن یوں ہوا کہ “ستار صاحب” نے خود کشی کر لی،جی بلکل ٹھیک سنا آپ نے خودکشی ۔۔۔
اور کوئی نوٹ تک نہ چھوڑا۔۔۔کہ وجہ کیا بنی

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن ہمارا گائنی کا فائینل ایئر کا پیپر تھا،ستار صاحب کا روم ہمارے فلور پہ ہی تھا چند رومز چھوڑ کر آگے،اس دن ستار صاحب نے اپنے گروپ کے دوستوں کو فجر کے وقت خود اٹھایا اور سب کیساتھ بیٹھ کر میس میں بڑے سکون کیساتھ ناشتہ کیا پھر دوستوں کو کہا کہ آپ چلیں ایگزیمینیشن ہال پیپر دینے میں بھی آتا ہوں۔۔۔

ہم سب پیپر دے کر واپس آئے بہت ہی ٹف پیپر تھا اور سبھی کا بہت برا ہوا (میری تو زندگی کی پہلی اور آخری سپلی بھی اسی پیپر میں آئی،ہمارا خیال تھا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا تھا ایک پس منظر میں )
خیر ہوسٹل واپس آ کر بڑی دیر تک منحوس پیپر کا غم غلط کرتے رہے (شُکر ہے کہ سبھی کا خراب ہوا)

جب شام تک ستار صاحب کا کچھ اتا پتا نہ چلا تو ستار صاحب کے قریبی دوستوں نعیم میاں چنوں (میاں چنوں سے تھا اور تھا بھی چنوں منوں سا تو نام ہی نعیم میاں چنوں پڑ گیا) اور زاہد حبیب نے ستار صاحب کے روم کا قصد کیا،لائٹ آف تھی اور دروازہ انٹرنل لاک سے بند تھا،دروازہ کھٹکھٹایا تو کوئی جواب نہ آیا،سب سمجھے کہ ستار صاحب پیپر دے کر سو گئے ہوں گے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ پیپر کے بعد چہ مگوئیوں میں کسی نے ستار صاحب کو نہ دیکھا ۔۔۔

نعیم اور زاہد ایک مرتبہ پھر گئے،زاہد کے پاس شاید چابی تھی انٹرنل لاک کی،چابی گھمائی تو پتا چلا کہ اندر سے لاک کِلک ہے،اس کا مطلب تھا کہ ستار صاحب کو روم میں ہی ہونا چاہیے تھا،نعیم کو تشویش ہوئی تو اس نے شاید زاہد کے سہارے اوپر اگزاسٹ فین ہول سے اندر جھانکنے کی کوشش کی تو اس پہ بھی کپڑا ڈال کر کور کیا گیا تھا،نعیم نے کپڑا ہٹایا تو اسے اندھیرے میں کمرے کے وسط میں کپڑا سا لٹکتا نظر آیا
ٹارچ منگوائی گئی اور جب نعیم نے ٹارچ ماری تو اندر ستار صاحب کی لاش پنکھے سے جھول رہی تھی۔۔

نعیم تو ایک جھٹکے سے پیچھے کوریڈور میں گرا اور چیخنے لگا
سب گھبرا گئے کہ ہوا کیا،بڑی دیر تک نعیم کے حواس بحال نہ ہو سکے(میں تو اکثر سوچتا ہوں نعیم کی ہمت ہے کہ وہ یہ جھٹکا برداشت کر گیا)
دروازہ توڑا گیا اور سارے کالج کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو خدا کی قسم کے آج پچیس سال بعد بھی یہ سب لکھتے ہوئے میری نظروں میں اس رات کا منظر آ گیا ہے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔۔۔

میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر خودکشی کا رحجان رکھنے والوں کی لسٹ بنائی جاتی تو ستار صاحب کا اس لسٹ میں نام تک نہ ہوتا،اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی ہمیں یقین نہیں آتا کہ ستار صاحب ایسا کر سکتے تھے؟اور مجھے کہنے دیں کہ انہیں کسی بھی قسم کے ذہنی مرض کا شائبہ تک نہ تھا حتی کہ آخری دن بھی وہ بہت کول اینڈ کام تھے اور ایک نماز نہ چھوڑی تھی

بہرحال ستار صاحب نے نہ تو اپنی زندگی میں کسی کیساتھ اپنے دل کا حال کھولا اور نہ ہی مرنے کے بعد کسی سے کوئی گلہ شکوہ کر کے گئے حالانکہ ہمیں بعد میں انکے ہوم ٹاؤن سے خبریں ملیں کہ وجہ اے خودکشی ان کا گھریلو نوعیت کا سٹریس تھا جبکہ ہم گائنی کے اس پیپر کو وجہ سمجھتے رہے جس کی دھمکی پروفیسر صاحب نے پہلے سے دے رکھی تھی۔۔۔

ستار صاحب کے والد صاحب جب باڈی وصول کرنے آئے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے کہ میں تو ایک مستری پیشہ محنت کش تھا جو اپنے ہونہار صوم و صلات کے پابند ڈاکٹر بیٹے سے بڑی اُمید لگائے بیٹھا تھا اور یہ کیا ہو گیا،میرے بیٹے تم نے ایسا کیوں کیا؟میرے بیٹے کسی سے ذکر تو کیا ہوتا کہ چائے کی پیالی میں کیا طوفان چل رہا تھا۔۔

کوئی مجھے بتائے اس بوڑھے باپ کا کیا قصور ؟
یقینا خودکشی حرام ہے اور اسکی حتی المقدور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے جو کہ دین فطرت نے کی بھی ہے
کیونکہ ہمارا جسم ہماری ملکیت نہیں ہے یہ سواری آزمائش کی غرض سے امانتاً ہماری اصل شخصیت نفس یعنی سوار کو دی گئی ہے،ہم جان بوجھ کر شعوری طور پہ اسے کسی قسم کا نقصان تک نہیں پہنچا سکتے کُجا کہ اسے ختم ہی کر دیں،میرے استادِ محترم پرویز ہاشمی صاحب کا اس ضمن میں استنباط ہے کہ جب کوئی انسان ہوش و حواس میں اپنی جان لینے کا قصد کرتا ہے تو اللہ بھی اسکی تقدیر بدل دیتا ہے اور فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اب اسے ایسا کرنے دو ۔۔۔

لیکن کون کتنا مجبور ہو جاتا ہے اور دل و دماغ میں کیا کیمیکل ریئکشن چل پڑتا ہے کون اس اندوہناک جرم کا ذہنی و جسمانی لحاظ سے کتنا مکلف ہے اسکا پورا علم اس علیم وحکیم کے پاس ہوتا ہے وہ قیامت کے روز انصاف پہ مبنی فیصلہ کر دے گا،ہم کون ہوتے ہیں تبصرے کرنے والے،ہاں بسااوقات روشن چراغ تلے بھی اندھیرا ہو سکتا اور یاد رکھیں وہ ☝️انسان کی اصل شخصیت کی فری وِل کیساتھ انٹفیئر بلکل نہیں کرتا ورنہ پیغمبر علیہ سلام کے بیوی/بیٹا اپنے آپ کو سب سے بڑی ہلاکت (پیغمبر کی دعوت کا انکار) میں کبھی نہ ڈالتے ۔۔۔

اب تو گھبرا کر یہ کہتے ہیں کہ مر جایئں گے
مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ
اللہ کسی متنفّس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمّہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا (338) ۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے ، اس کا و بال اسی پر ہے (339) ۔

ڈاکٹر اسد امتیاز ابو فاطمہ

Address

Karachi
75050

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Karachi Kay Loog posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share