Weekly Shariah and Business

Weekly Shariah and Business Sharia and Business Magazine Official Page

05/11/2025

نئے تاجروں کے لیے
چند گر کی باتیں

بغیرسرمائے کے کاروبار
بہت سے لوگ کاروبار کی آرزو رکھتے ہیں، لیکن سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر کچھ تعلیم ہو تو کوئی ہنر سیکھ کر بہتر روزگار کمایا جا سکتا ہے، کئی ایسے کام ہیں جو چند ماہ میں سیکھے جا سکتے ہیں، جیسے گرافک ڈیزائننگ، کمپوزنگ، پرنٹنگ اور پینٹنگ وغیرہ۔ یہ ایسے کام ہیں جس سے بآسانی روزگار مل جاتا ہے اور سرمایہ جمع ہوجانے پر انویسٹمنٹ کی جا سکتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کاروبار میں جذبہ اور شوق لازمی ہے۔ اس کے بعد تین چیزوں میں سے کسی ایک کی ضرورت ہو گی:
1 سرمایہ
2 تجربہ
3 ہنر
سرمایہ ہو تو بزنس، تجربہ ہو تو کامیاب کاروبار اور ہنر ہو تو بہترین ملازمت آپ کا کیرئیر ہے، اس سے ہی آپ کا مستقبل تعمیر ہو گا۔اگر اتفاق سے یہ تینوں فی الحال نہیں ہیں تو سب سے پہلے ہنر سیکھیے، جس طرف شوق ہو اس کام میں کمال پیدا کیجیے، جو ہنر آ جائے پھر کسی بڑے شہر میں اس کام کو ذریعہئ روزگار بنائیے، اچھی جگہ تجربہ کیجیے اور بعد ازاں سرمایہ آ جائے تو اسی ہنر کو ذاتی کاروبار میں تبدیل کر لیجیے۔
یاد رکھیے! ہنر اور تجربہ گھر بیٹھے نہیں آئے گا، اس کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی، ہزاروں قسم کے شعبے ہیں جنہیں سیکھ کر رزق حلال کمایا جا سکتا ہے۔
آپ کا ایک شکوہ
اکثر لوگ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ محنت تو بہت کی مگر اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے، سارا سرمایہ ڈوب گیا، کچھ فائدہ نہ ہوا، اس ناکامی کی وجہ محنت کی کمی نہیں بلکہ ناتجربہ کاری، کاروباری لوازمات کو پورا نہ کرنا، کاروباری پوائنٹ کا غلط انتخاب، بے موقع سرمایہ کاری اور غیر منافع بخش بزنس پہ اندھا دھند پیسہ لگانا ہے، مثلاً: جیسے بک اسٹال کو فیکٹری ایریا میں کھول لینا، کریانہ کی شاپ لوہا مارکیٹ میں چلانے کی کوشش کرنا، ٹریول ایجنسیز کے درمیان کلاتھ ہاؤس، جیولرز کی مارکیٹ میں سموسوں کی دکان تو یہ کاروبار ہرگز کامیاب نہیں ہوتے، اس پہ چاہے آپ لاکھوں روپے لگا لیں، کیونکہ محنت کا صلہ بروقت اور موقع محل کے مطابق فیصلہ کرنے میں ہے، اگر یہ ٹھیک نہ ہو تو قسمت کو دوش دینا سراسر زیادتی ہو گی۔
کون سا کاروبار کریں
کاروبار بہت سے ہیں، اکثر لوگوں نے فون پہ رابطہ کر کے یہ پوچھا کہ میں کون سا کاروبار کروں؟
دیکھیں! یہ ایک بہت مشکل سوال ہے، جب تک آپ کے ذہنی رجحان، طبعی کیفیات، مالی پوزیشن، گھریلو عوامل، تجربہ / ہنر، تعلیمی صورت حال، خاندانی پس منظر اور موجودہ گزر بسر کا پتا نہیں چل جاتا تب تک یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آپ کون سا کاروبار کریں؟ لیکن یہاں پہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ فیصلہ بہرحال آپ ہی کو کرنا ہو گا کہ کون سا کاروبار آپ کے لیے بہتر ہے اور کون سا نہیں؟ اس لیے اپنے ذہنی رجحان کے مطابق مندرجہ بالا تمام سوالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیجیے گا، جس پہ آپ کو مکمل اطمینان ہو۔
پارٹنر کا انتخاب کیسے کریں؟
سرمایہ لگا کر منافع کا حصول ہر ایک کا خواب ہے، لیکن یاد رکھیے! دنیا میں آپ کو 0.1 فیصد لوگ ایسے ملیں گے جو آپ کے سرمائے کو آپ ہی کی طرح تحفظ دیں گے، یاد رکھیے کامیاب کاروبار وہی ہے جو آپ کی پہنچ میں ہے، اگر آپ کا کوئی دوست یا رشتہ دار بزنس میں دلچسپی رکھتا ہے تو ضروری نہیں کہ آپ اسے پارٹنر بنائیں، اکثر ایسے کاروبار فلاپ ہو جاتے ہیں جس میں دوستوں کی پارٹنرشپ ہو اور کاروباری نقصان کے ساتھ ساتھ تعلق بھی جاتا رہتا ہے، اس لیے زیادہ منافع کے حصول کے لیے افرادی قوت کو ساتھ ملانا بھی پڑ جائے تو پارٹنر کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیجیے گا۔
کامیاب سرمایہ کاری
اگر آپ کے پاس وسیع سرمایہ کاری ہو تو کچھ کام ایسے ہیں جن پہ سرمایہ لگا کر ماہانہ لاکھوں روپے کمائے جا سکتے ہیں اور اس کام کے لیے آپ کو ابتدا میں کچھ ذرائع اور بااختیار لوگ تلاش کرنا پڑتے ہیں، تھوڑی پلاننگ اور پھر کام چل پڑتا ہے، کچھ ملازم اور گھر بیٹھے آرام، آپ کو اس طرح کے کاموں میں زیادہ ذہنی دباؤ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا، آپ باؤنڈ بھی نہیں ہوتے اور آپ کا سرمایہ بڑھتا رہتا ہے۔

facebook:https://www.facebook.com/shariahandbusiness/Email:shariyaandbusiness@gmail.comWebsite:shariahandbiz.comہفت روزہ...
04/11/2025

facebook:
https://www.facebook.com/shariahandbusiness/
Email:
[email protected]
Website:
shariahandbiz.com
ہفت روزہ شریعہ اینڈبزنس
میگزین لگوانے کے لئے رابطہ کریں:
0321-3210355
021-36622597
021-36880385
بیرون ملک لگوانے کے لئے رابطہ کریں:
0321-3210355
0321-2000224
واٹس اپ نمبر:
0321-3210355

04/11/2025

کسان اور زراعت
ملکی معیشت میں کردار اور درپیش چیلنجز:ایک اہم معاشی جائزہ
زراعت اور مملکت پاکستان
مملکت پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے جن عظیم نعمتوں سے نوزا ہے، ان میں سرفہرست زراعت اور زرخیزی ہے۔ یہاں کی زمین زرخیز ہے۔ آب و ہوا کاشتکاری کے عین موافق ہے۔ سال کے چاروں موسم یہاں موجود ہیں۔ اس لیے دنیا میں پاکستان کو ایک زرعی ملک قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں زراعت کی اہمیت کس قدر ہے؟ اس کو ذیل میں ترتیب وار ذکر کیا جاتا ہے:
1 سالانہ جی ڈی پی میں زراعت کا کردار
ملکی ترقی میں زراعت کی اہمیت اور اس کے کردار کا اندازہ جی ڈی پی میں اس کے وافر حصے کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ آج بھی 21 فیصد ہے جو دیگر تمام سیکٹرز میں سے سب سے زیادہ ہے۔
2 خوراک کی فراہمی
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی ہر سال دو فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ مجموعی آبادی 18 کروڑ سے اوپر ہے۔ اتنی بڑی آبادی تک بلاواسطہ خوراک کی فراہمی زراعت اور کاشتکاری ہی سے ممکن ہوتی ہے، چنانچہ زراعت کے شعبے میں پاکستان دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت کم چیزیں درآمد کرتا ہے۔ اس کا مجموعی انحصار اپنی پیداوار پرہی ہوتا ہے۔
3 صنعتوں کے لیے خام مال کی فراہمی
پاکستان میں جتنی بھی زرعی صنعتیں ہیں،ان کے لیے خام مال ملک کے اندر ہی تیار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کپاس کی صنعت کے لیے جتنی کپاس کی ضرورت ہوتی ہے وہ ملک کے اندر کاشت کی جاتی ہے۔ اسی طرح شوگر انڈسٹری کے لیے گنے کو باہر سے درآمد نہیں کیا جاتا، بلکہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے گنے کی کھیتوں پر اس کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کو Agro Industry کہا جاتا ہے۔
4 ذریعہ روزگار
پاکستان میں 64 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جن کا تقریباً گزربسر زراعت پر ہی ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا ذریعہ روزگار کھیت اور کھیتی باڑی کے گرد گھومتا ہے۔
5 برآمدات میں زراعت کا حصہ
پاکستان ہر سال مختلف زرعی پیداوار دیگر ممالک کو برآمد کرتا ہے، جن میں کپاس، چینی، گندم، سبزیاں، فروٹ اور معیاری بیج شامل ہیں۔ پاکستانی برآمدات میں زراعت کا حصہ 45 فیصد ہے۔ یعنی برآمدات کی مد میں جو پیسے پاکستان آتے ہیں، ان میں 45 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان میں زراعت کو درپیش چیلنجز
زراعت کے شعبے میں کسانوں کو درپیش چیدہ چیدہ مسائل کو پانچ نکات کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے:
٭ پیداوار میں حیران کن حد تک کمی
یہاں کے کسان ہر وقت نوحہ کناں رہتے ہیں کہ ہم ہر مرتبہ اپنی توقعات سے کافی کم فصل پاتے ہیں۔ 1990-91 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق گندم کی فصل کا اندازہ لگایا گیا تھا کہ فی ایکڑ 6425 کلو گرام گندم حاصل ہو گی، جبکہ فی ایکڑ صرف 1814 کلو گرام حاصل ہو سکی۔ گنے کی فصل کا اندازہ فی ایکڑ دو لاکھ 58 ہزار 583 (258583) کلو گرام لگایا گیا تھا، جبکہ صرف 40700 (چالیس ہزار سات سو) کلو گرام گنا حاصل ہو سکا۔
ہر سال فصل کی اس کمی کی وجہ سے کسانوں کی معاشی صورت حال میں بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے اور یوں ان کی امیدوں اور خوابوں پر پانی پھیر دیا گیا۔
٭ اچانک بارشیں اور سیلابی ریلے
پاکستان میں کاشتکاروں کے لیے بروقت اور مطلوبہ مقدار میں پانی کی فراہمی ہمیشہ ایک مسئلہ بنا رہا۔ اکثر علاقوں میں ٹیوب ویلوں اور ندی نالوں کی سہولت میسر نہیں، جس کی وجہ سے یہاں کے کاشتکار بارانی پانی پر گزارہ کرتے ہیں۔ اگر بارش ہوئی تو فصل ملتی ہے ورنہ فصل ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خلاف موقع بارشوں سے زراعت کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔
3 کاشتکاروں کی کمزور معاشی صورت حال
اس ملک کے کسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قرضوں تلے پیدا ہوئے ہیں، قرضوں تلے زندگی گزارتے ہیں اور قرضوں تلے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ اس بات میں شک نہیں کہ ان کی معاشی صورت حال اگر مستحکم ہوجائے تو ملکی زرعی ترقی میں مزید پیش رفت ہو سکے گی۔
4 محدود قابل کاشت زمین
پاکستان میں 79.6 ملین ایکڑ زمین قابل کاشت ہے۔ جس میں سے صرف 30 ملین ایکڑ زمین پر باقاعدہ فصل اگائی جاتی ہے۔ باقی زمین بے کار پڑی رہتی ہے۔ یہ 30 ملین ایکڑ زمین بھی نہایت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہے، جس کی وجہ سے ان پر ایک ہی فصل بڑی مقدار میں کاشت نہیں کی جاتی۔
زراعت کو درپیش درج بالا چند اہم چیلنجز کو حل کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ زراعت کے اس شعبے کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کمربستہ ہو۔ یقیناً زرعی ترقی سے ملک کو وہ تمام معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جو صنعتی ترقی کے نتیجے میں میسر نہیں آ سکتے ہیں۔ کیونکہ ملکی زمینی صورت حال، آب و ہوا اور مختلف فصلوں کے لیے موزوں زمین اور موسموں کی دستیابی اللہ تعالیٰ کے اس ملک کو دیے گئے خصوصی تحفے ہیں جنہیں درست استعمال کر کے ہم ایک خوشحال ملک کے خوشحال باشندے بن سکتے ہیں۔
مولانا نور ولی شاہ
استاد: جامعۃ الرشیدکراچی

کامیاب تاجر، سچی داستانانعام اللہ بھکرویBMW کی کہانیایک خواب، جو بالآخرشرمندہئ تعبیر ہوافرینز جوزف پاپ (Franz Josef Popp...
03/11/2025

کامیاب تاجر، سچی داستان
انعام اللہ بھکروی
BMW کی کہانی
ایک خواب، جو بالآخرشرمندہئ تعبیر ہوا
فرینز جوزف پاپ (Franz Josef Popp) ایک جرمن بزنس مین اور BMW کا شریک بانی ہے۔ BMW ایک ملٹی نیشنل لگثرری وہیکلز، موٹرسائیکل اور انجن میوفیکچرنگ کمپنی ہے۔ اگر کسی شخص کے استعمال میں BMW کی گاڑی ہو تو اسے امیر شخص سمجھا جاتا ہے۔ اس کمپنی کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ اس کمپنی کی عمر ایک سو سال ہو چکی ہے، اس کے باوجود یہ آج بھی سرسبز و شاداب ہے اور لوگ اس کے سایے اور پھل سے مستفید ہو رہے ہیں۔
فرینز 14 جنوری 1886 ء کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے ”Vienna“ میں پیدا ہوا۔ یہاں کے حالات کی وجہ سے اس کے والدین ”Brno“ ہجرت کر گئے۔ فرینز نے حالات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ اس نے ایک مقامی گرائمر اسکول سے یونیورسٹی کے لیے کوالیفائی کر لیا۔ اس کے بعد ایک ٹیکنیکل کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔ یہاں پر اس نے الیکٹریکل اور مکینکل انجینئرنگ میں تعلیم حاصل کرنے لگا۔ 1909 ء میں اس نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر لی۔ فرینز اپنی تعلیم مکمل کرتے ہی پروفیشنل فیلڈ میں کود پڑا۔
تعلیم جب پوری ہو گئی تو فرینز اپنے قصبے ”Vienna“ میں واپس آ گیا۔ اب حالات بہتر ہو چکے تھے اور اس کے بچپن کی یادیں بھی یہیں سے وابستہ تھیں۔ یہاں پر فرینز نے ایک الیکٹرک کمپنی کو بطور الیکٹریکل انجینئر جوائن کر لیا۔ اس کمپنی کا نام ”AEG-Union“ تھا۔ فرینز نے اپنی مہارت اور صلاحیت کو لوہا جلد منوا لیا۔ ہر ایک اس سے متاثر ہوا۔ اس نے محنت اور دلجمعی کے ساتھ کام کیا اور مختصر عرصے میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گیا۔ اسے کمپنی نے ”الیکٹرک ٹرینز اینڈ لوکوموٹوز“ کا سربراہ بنا دیا۔ یہاں کام بہت مشکل تھا، اس کے باوجود احسن طریقے سے اسے نبھایا۔ اس کے بعد ایک نیا پروجیکٹ اسے سونپا گیا کہ وہ Miattenwaled ریلوے کے لیے الیکٹرک انجن بنائے۔ فرینز نے اس پروجیکٹ میں بھی کمپنی مینجمنٹ کو مایوس نہ کیا اور ان کی توقعات پر پورا اترا۔
جب پہلی جنگ عظیم چھڑی تو فرینز بحری فوج کا حصہ بن گیا، یہاں پر اس نے بحری انجینئرکے طور پر کا م کرنے لگا۔ اس نے ایک سال کے لیے فوجی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کیں۔ جنگ کے دوران یہ دوبارہ اسی کمپنی میں واپس آ گیا اور ایئرکرافٹ کی کنسٹرکشن پر مامور کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ یہاں پر کام کیا اور پھر ایک دوسری کمپنی Austro- Daimler میں ملازمت کرنے لگا۔ یہ ایک آسٹرین کمپنی تھی، جو آسٹریا کی فوج کے لیے ایئرکرافٹ بناتی تھی۔ فرینز نے اپنی مہارت اور لگن سے ہر ایک کا دل موہ لیا۔ یہ اپنی مہارت اور صلاحیتوں کو مزید جلا بخشنا چاہتا تھا، اس کے لیے اس نے متعدد بار جرمنی کے سفر کیے۔ یہ مینوفیکچرنگ اسکلز سیکھنے اور نئے مواقع کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ اسی مقصد کے لیے فرینز ایک کمپنی ”RappMotorenwerke“ کا وزٹ کیا۔ جب کمپنی کی مینجمنٹ سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے اپنی ضرورت اس کے سامنے رکھی کہ ان کو ایک ایسے چیف انجینئر کی ضرورت ہے، جو ان کی کمپنی کو کامیابی کی شاہراہ پر ڈال دے۔ فرینز نے بھی دلچسپی ظاہر کی کہ وہ ان کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے۔ آخرکار ان کی آپس میں بات طے ہو گئی اور اس نے چیف انجینئر کی جگہ سنبھال لی۔
یہ کمپنی بھی ایئرکرافٹ مینوفیکچرنگ کمپنی تھی۔ فرینز نے دیکھا کہ یہ کمپنی آسٹریا کے لیے 12 سائیلنڈر ایئرکرافٹ بنا سکتی ہے۔ اس نے اس کی ڈویلپمنٹ میں دلچسپی لی اور اس کمپنی کے لیے بہترین انجینئر تلاش کرنے لگا اور کافی تگ و ودو کے بعد اس کے ہاتھ ایک ہیرا”Max Friz“ آ گیا۔ اس ایک ہیرا کی مدد سے فرینز نے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کمپنی نے ایرومیٹر BMW لانچ کیا، جو کامیاب رہا۔ 1917 ء میں فرینز کو جنرل ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور کمپنی کا نام ”Bayerische Motoren Werke“ (BMW) رکھا گیا۔
1919 ء میں BMW نے اپنی پروڈکٹس لائن کا رخ ریلوے انجن وغیرہ بنانے کی طرف پھیر دیا۔ پھر یہ آٹوموبائل اور موٹرسائیکل وغیرہ بنانے لگی۔ 1992 ء میں فرینز کو منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور یہ پھر اس عہدے پر 20 سال تک براجمان رہا۔ اس کی مینجمنٹ کے تحت کمپنی نے بے شمار منزلیں طے کیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی صف میں شامل ہوئی۔
دوسری جنگ عظیم میں فرینز کو نازی پارٹی سے تعلق کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا، لیکن فرینز نے کمپنی کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیا تھا، جہاں سے رکاوٹیں دور ہو چکی تھیں۔ 29 جولائی 1954 ء کو فرینز آنجہانی ہو گیا، لیکن کمپنی کو اَمر بنا گیا۔
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ روزگار اور کام نہیں ملتا اور کمپنی مالکان کہتے ہیں کہ ہمیں کام کے لوگ نہیں ملتے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ کسی بھی کمپنی کو ایسے ملازمین کی اشد ضرورت ہوتی ہے، جو اپنے کام کے ساتھ مخلص ہوں، دیانت داری سے کام کرنے والے ہوں اور اس کام کی باریک بینی اور پیچیدگی سے واقفیت رکھتے ہوں۔ اگر آپ کسی کمپنی میں ملازمت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے مطابق اپنے اندر اہلیت اور جذبہ پیدا کریں۔
یہ ایک سبق ہے، جو ہمیں فرینز کی زندگی سے حاصل ہوتا ہے۔
٭٭٭

03/11/2025

40 مہارتیں سیکھئے:
محترم جناب بشیر جمعہ کے نام سے کون واقف نہیں، پاکستان میں ٹائم مینجمنٹ اور کامیابی کے موضوع پر لکھنے والے اولین مصنفین میں ان کا شمار ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت کامیاب چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ اور آڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان دنوں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے عمر بھر کے تجربات کتابی شکل میں محفوظ کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ”مہارتیں“ سیکھنے پر زور دیا تو ان کی طرف سے ایک نئی کتاب کا تحفہ موصول ہوا جس کا عنوان ہے: ”ترقی اور کامیابی کے لیے صلاحیتیں، قابلیتیں اور مہارتیں“۔ اس کتاب میں انہوں نے 40 مہارتیں ذکر کی ہیں، جنہیں حاصل کرنے والا شخص زندگی میں کامیابی کی منزلیں بہت تیزی اور آسانی سے طے کرسکتا ہے۔ یہ مختصر تحریر ان مہارتوں کی تفصیل کی متحمل نہیں ہوسکتی، لیکن آئیے! آپ کو مختصر طور پر ان مہارتوں کا تعارف کرواتے ہیں، یہ جائزہ آپ خود لیجئے گا کہ آپ میں کتنی مہارتیں پائی جاتی ہیں اور کون کون سی مہارتیں نہیں پائی جاتیں:
سب سے پہلے ذاتی اور تنظیمی مہارتیں آتی ہیں، یہ کل دس ہیں: اپنے آپ کو پہچاننا، خود قانون پر عمل داری، اندرونی جذبہ اور تحریک، ہمدردی، میل جول کی صلاحیتیں، ذاتی منصوبہ بندی، مقاصد کا تعین، ذاتی تنظیم، مسلسل سیکھتے رہنا، ذہنی دباؤ سے نمٹنا۔ اس کے بعد پانچ ابلاغی مہارتیں آتی ہیں، جن پر آپ کو عبور حاصل ہونا چاہیے، ورنہ آپ زندگی میں کامیابی کے زینے نہیں طے کرسکتے: زبانی ابلاغ، غیرلفظی ابلاغ، سننے کی مہارت، تحریری ابلاغ، پریزنٹیشن کی مہارت۔ اس کے بعد تعلقات اور باہمی تعامل کی صلاحیتیں آتی ہیں، یہ کل 5 ہیں: دوسروں کا درد محسوس کرنا، باہمی تعلقات، ثقافت و تہذیب سے متعلق حساسیت رکھنا، نیٹ ورکنگ اور ملنے جلنے کی صلاحیت اور ٹیم ورک۔
چوتھے نمبر پر سوچنے اور فیصلہ سازی کی مہارتوں کا ذکر کیا گیا ہے، یہ کل چار قسم کی مہارتیں ہیں، جن پر آپ کو عبور ہونا چاہیے: تنقیدی سوچ (Critical Thinking)، تخلیقی سوچ، مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت۔ پانچویں نمبر پر زندگی میں کامیابی کے لیے لیڈر شپ اور انتظامی مہارتیں بھی ضروری ہوتی ہیں، یہ بھی پانچ ہیں: لیڈر شپ، چینج مینجمنٹ، ٹیم بلڈنگ، اسٹریٹجک پلاننگ اور کاموں کو تفویض کرنے کی صلاحیت۔ اس کے بعد اخلاقی اقدار کا نمبر آتا ہے، یہ کل چار قسم کی صلاحیتیں ہیں: ورک ایتھکس یا ملازمت کے آداب، ٹائم مینجمنٹ، ایمان داری اور امانت داری، خدمت کا جذبہ۔ اس کے بعد ڈیجیٹل دور کی کچھ تکنیکی صلاحیتوں کا نمبر آتا ہے، یہ کل چار ہیں: ڈیجیٹل لٹریسی، تکینکی فہم، آن لائن ابلاغ اور ڈیجیٹل سیکیورٹی کا شعور۔ ان مہارتوں میں آخری تین صلاحیتوں کا تعلق عمومی سماجی اور معاشرتی رویوں سے ہے، یہ کل تین مہارتیں ہیں: سماجی شعور، رضاکارانہ خدمات اور سوشل میڈیا کی اخلاقیات۔
اب سب سے اہم یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہمارے اندر ان تمام مہارتوں سے متعلق آگاہی پائی جاتی ہے؟ ہم اپنی عملی زندگی میں ان مہارتوں پر عمل پیرا ہیں یا نہیں؟ یہ 40 مہارتیں جن کا تعلق سافٹ اسکلز سے ہے، ان کو سیکھنا ایک دن کا کام نہیں ہے۔ آپ اگر ان کو سیکھنا چاہتے ہیں تو ان کی فہرست بنائیے، ان کے ٹرینر اور استاذ تلاش کیجئے، سیکھنے کے لیے وقت نکالیے اور رفتہ رفتہ ان مہارتوں پر عبور حاصل کیجئے۔ زندگی کا ایک اصول یاد رکھیے: زندگی کی دوڑ میں جیتتا وہی ہے، جو دوسروں سے بہتر، زیادہ اور بھرپور مہارت کا اظہار کرتا ہے۔ آپ اس کے لیے تیار ہیں تو آج سے ہی تیاری کیجئے، ہمت کیجئے، کیونکہ ہمت مرداں، مدد خدا۔

سیل بڑھانے کی انمول تجاویزدنیا بھر کی کاروباری سرگرمیاں اس مسئلے کے گرد گھوم رہی ہیں کہ کس طرح سیل کو بڑھا کر زیادہ سے ز...
30/10/2025

سیل بڑھانے کی انمول تجاویز
دنیا بھر کی کاروباری سرگرمیاں اس مسئلے کے گرد گھوم رہی ہیں کہ کس طرح سیل کو بڑھا کر زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کی جائے۔ سیل کو بڑھانے میں زیادہ تر کردار وقت کو منظم طریقے سے استعمال کرنے کا ہے۔ اس کے علاوہ ان خوبیوں کو بھی استعمال کر کے ہم سیل کو چار چاند لگا سکتے ہیں۔
بزنس مین اپنے گاہک کو یقین دلائے کہ اس کی پروڈکٹ گاہک کے لیے کتنی اہم ہے۔ اگر آپ اپنی پروڈکٹ مؤثر طریقے سے متعارف کروانے میں کامیاب ہو گئے تو آپ جلد نئے نئے گاہک بنا لیں گے۔ نئے گاہک بنانے کے بعد آپ ان گاہکوں سے مستقل رشتہ قائم رکھنے کے لیے انہیں مختلف پیشکش کریں۔ کامیاب سیل مین کی نشانی یہ ہے کہ وہ کتنے مختصر وقت میں کتنی سیل کرتا ہے۔
سیل بڑھانے کے لیے چند قیمتی گر قارئین کی نذر ہیں:
معلومات کو بڑھائیں
اپنی پروڈکٹ کے بارے میں معلومات کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہو گا۔ روزانہ کی بنیاد پر اپنی فیلڈ کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ روزانہ اپنا آدھا وقت معلومات اکٹھی کرنے میں لگائیں اور آدھا وقت سیل بڑھانے کی سرگرمیوں میں۔ معلومات بڑھانے میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، مثلاً: اپنی پروڈکٹ کو ہر زاویے سے چیک کرنا، اس کی خصوصیات، اس کی خامیاں، مدّمقابل کو پروڈکٹ اور مستقبل میں ممکنہ درپیش مسائل و خطرات اور معاشی و معاشرتی تبدیلیوں سے بھی باخبر رہنا، وغیرہ۔
اپنی آمدنی کا ہدف مقرر کریں
سیل بڑھانے کے لیے آمدنی کا ہدف مقرر کرنا ایک ایسی ترکیب ہے جو آپ کو مسلسل متحرک رکھتی ہے۔ آپ ایک منصوبہ بندی کریں کہ آپ کتنی آمدنی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ ارادہ کریں کہ اگلے سال آپ اپنی آمدنی کو پچاس فیصد بڑھائیں گے، مثلاً: ایک سال میں آپ 36 لاکھ روپے کماتے ہیں۔ اب آپ اگلے سال کا ہدف 60 لاکھ کا مقرر کریں اور اس کو حاصل کرنے کے لیے پورے اعتماد کے ساتھ جت جائیں۔ اب آپ کے ساتھ اپنی سیل کو بڑھانے کا ایک مسلسل جذبہ لگا رہے گا۔ آپ ہر مہینے کا ہدف مقرر کریں جس کو پورا کر کے آپ سال کی مطلوبہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔ پھر مہینوں کو ہفتوں میں، ہفتوں کو دنوں میں اور دنوں کو گھنٹوں میں تقسیم کریں۔ اب آپ کے سامنے ایک واضح تصویر ہو گی کہ آپ کو ہر دن کتنی سیل کرنی ہو گی، تاکہ سال کی آمدنی کا ہدف پورا ہو سکے۔
اب آپ کام کے دنوں میں صرف وہ کام کریں گے جو آپ کی آمدنی کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ آپ ہرگز وہ کام نہیں کریں گے جس کی وجہ سے آپ کے روزانہ کا ہدف پورا نہ ہو۔ اس ترکیب سے آپ یقیناً اپنا ہدف حاصل کر لیں گے۔
زیادہ سے زیادہ گاہکوں سے ملیں
اپنی سیل پڑھانے کے لیے آپ کو پہلے سے زیادہ لوگوں سے ملاقاتیں کرنی ہوں گی۔ اگر آپ ماہانہ 150 لوگوں کو اپنی پروڈکٹ کا تعارف کرواتے تھے تو اب آپ کو ماہانہ 250 لوگوں سے ملاقاتیں کرنی چاہییں۔ ضروری نہیں کہ جس سے بھی آپ ملاقات کریں وہ ضرور آپ کی پروڈکٹ خریدے گا۔ ہو سکتا ہے کہ دس گاہکوں میں صرف ایک گاہک آپ کی پروڈکٹ خریدنے پر راضی ہو۔ اس سے دل شکستہ ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ بھرپور عزم کے ساتھ لگے رہیں۔
سیل کے لیے منصوبہ بندی کریں
آمدنی کا ہدف مقرر کر لینا کافی نہیں۔ ابھی تو آپ کا آدھا کام بھی نہیں ہوا۔ ہدف مقرر کرنا پہلا کام ہے، اس کے بعد ہدف حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا دوسرا کام ہے۔ ہدف کے مطابق سالانہ، ماہانہ اور ہفتہ کی بنیاد پر منصوبہ بندی کریں، بلکہ روزانہ رات کو ہی آنے والے دن کی منصوبہ بندی کریں کہ کس کس سے ملاقات کرنی ہے۔ آپ کے دس پندرہ منٹ منصوبہ بندی میں صرف کیے ہوئے آنے والے اہم ترین گھنٹوں کی کارکردگی کو تین گنا بڑھا دیں گے۔ روز کی منصوبہ بندی لکھی ہوئی حالت میں اپنے ساتھ رکھیں اور کام کے گھنٹوں کے درمیان وقفے وقفے سے اپنا تجزیہ کرتے رہیں کہ کیا میں اپنی منصوبہ بندی پر چل رہا ہوں۔
نا مکمل تیاری
گاہک کو مکمل طور پر مطمئن کرنا سیل بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔ آپ کو گاہک کے سوالات، اعتراضات اور تحفظات سے مکمل آگاہ ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ہو گا جب آپ اپنی پروڈکٹ سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ آپ کی معلومات میں کمی سے گاہک مطمئن نہیں ہو گا اور آپ کی سیل پر منفی اثر پڑے گا۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ روزانہ کام شروع کرنے سے پہلے آدھا یا ایک گھنٹہ اپنی فیلڈ سے متعلق معلومات پڑھنے میں صرف کریں۔ اس طرح کچھ ہی عرصہ میں آپ اپنے میدان میں یکتا ہو جائیں گے۔
سعدالرحمان
ایم بی اے: KIMS

Address

Phase 1, Sector 4
Karachi
74600

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00

Telephone

+923204000797

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Weekly Shariah and Business posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Weekly Shariah and Business:

Share