22/11/2024
“چلو باہر چلو دیکھو مسافر آ رہے ہونگے”
سفر لمبا نہیں
دو تین چیزیں رکھ کے نکلے ہیں
وہی چیزیں جو اس چھوٹے سفر میں کام آجائیں
جوانوں نے رکھا ہے ساتھ میں بس ایک ہی جوڑا
انھیں معلوم ہے بس یہ ہی ان کے کام آئے گا
مگر ماں نے تو سامانِ سفر میں کچھ نہیں رکھا
بس اپنے لاڈلے کی دودھ کی بوتل ہی رکھی ہے
ضروری ہے
ارے بے حد ضروری ہے
ابھی شش ماہ کا ہے اسکو بے حد بھوک لگتی ہے
بھلا کپڑوں کا کیا کرنا
میں ماں ہوں
اس کو اپنے ہی ڈوپٹے میں لپیٹوں گی
ادھر دوجی طرف کچھ لوگ ان کی راہ تکتے ہیں
وہ آپس میں یہ لہتے ہیں
“چلو باہر چلو دیکھو مسافر آرہے ہونگے”
مگر ان کو خبر کیا ہے
وہی جو قافلہ ان کی طرف آنے کو نکلا تھا
اجل نے اس کو لوٹا ہے
جوانوں نے جو اک جوڑا رکھا تھا ناں
وہی ان کا کفن ہوگا
کسی ماں کے ڈوپٹے میں ہی شش ماہِ کی میت ہے
قیامت ہے
یہ سب اب بھی مسافر ہیں
مگر منزل بدل دی ہے
اب ان کی میزبانی کا شرف رضوان اور فطرس نے پایا ہے
فرشتے دونوں
دہراتے ہوئے جنت کے دروازے پہ جاتے ہیں
“چلو باہر چلو دیکھو مسافر آ رہے ہونگے”
ارسلانؔ اعظمی 🍁