PTI Lovers

PTI  Lovers PTI Supporter
(1)

26/09/2025

*بہت ہی غور طلب تحریر*🪔🪔🪔
*ضرور پڑھیں*💐

■ مسلمانوں نے اپنی نفسیات کی روایت کیوں کھو دی اور ہم اسلام کے "حقیقی انسان" کو کیسے دوبارہ دریافت کر سکتے ہیں؟

مسلمانوں کے پاس دراصل علم النفس (نفس کا علم، یا نفسیات) کی ایک بہت ہی بھرپور روایت تھی۔ ہمارے پاس ابن سینا، امام غزالی اور مولانا رومی جیسے جنات تھے۔ یہ صرف اسکالرز ہی نہیں تھے، وہ اپنے زمانے کے "گوگل، ایپل اور مائیکروسافٹ" کی طرح تھے - پوری علمی صنعت کو خوش اسلوبی سے چلا رہے تھے! لیکن بعد میں ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ اللہ اکبر ہم مسلمانوں میں بعض اوقات یہ بری عادت ہوتی ہے: ایک بار جب ہم کسی چیز کی تعریف کر لیتے ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ کام ہمیشہ کے لیے ہو گیا ہے۔ ہم فائل بند کرتے ہیں، اسے محفوظ کرتے ہیں، اور پھر خوشی سے چائے پیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ زندگی اس طرح کام نہیں کرتی۔ دنیا بدلتی رہتی ہے، لیکن ہم اکثر اصرار کرتے رہتے ہیں، ❝نہیں، نہیں، ہم نے 500 سال پہلے ہی اس کی تعریف کر دی تھی، کیوں دوبارہ وضاحت کریں؟

چنانچہ جب تبدیلی نے دروازے پر دستک دی تو اسے کھولنے کے بجائے ہم نے کانوں میں روئی ڈال کر کہا، تبدیلی؟ معذرت، غلط پتہ!❞ اور نتیجہ کیا نکلا؟ اللہ اکبر ایک نئی ذہنیت سامنے آئی جس نے کہا کہ ❝اصولوں کو بھول جاؤ، جڑوں کو بھول جاؤ، صرف تبدیلی ہی حقیقی ہے!❞ چنانچہ چیزوں کا ایک بامعنی بہاؤ رک گیا، اور سب کچھ ایک واٹس ایپ گروپ کی طرح بکھر گیا جس کا کوئی ایڈمن نہیں تھا - ہر کوئی بے ترتیب چیزیں پوسٹ کرتا ہے، اور کسی کو اصل مقصد کا علم نہیں ہوتا۔

اب اصل بات یہ ہے کہ مذہب بھی متاثر ہوا۔ خوبصورتی، اخلاقیات، اور اندرونی ڈرائیو سے بھرپور ایک زندہ روحانی تعلق ہونے کی بجائے، یہ بہت سے لوگوں کے لیے صرف قانونی احکامات تک محدود ہو گیا — جیسے ٹریفک پولیس افسر آپ کو سگنل دیتا ہے۔ رکو، جاؤ، بائیں، دائیں! بے شک اصول ضروری ہیں لیکن اگر اسلام صرف اصولوں کا ہو جائے تو اخلاق، محبت اور روحانیت کی گہری مٹھاس ختم ہو جاتی ہے۔ پھر اچھا ہونا دل کی فطری خواہش نہیں رہی، ایسا ہو جاتا ہے کہ کریلا (کریلا) ہر روز کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے — صحت مند، ہاں، لیکن آپ اسے جھنجھوڑ کر کرتے ہیں!

یہیں ڈاکٹر محمد امین کی کتاب اسلام اور علم النفس کام کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: اسلام کا انسان کے بارے میں نظریہ ناقابل رسائی نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت میں بہت عملی ہے۔ آپ کو ایک سپر جینئس فلسفی یا راکٹ سائنسدان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو صرف وہی فیصلہ سازی کی طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہے جو آپ پہلے ہی ہر روز استعمال کرتے ہیں — جیسے بریانی اور پلاؤ کے درمیان فیصلہ کرنا۔ (ٹھیک ہے، شاید یہ فلسفہ سے زیادہ مشکل ہے، لیکن پھر بھی!)

ڈاکٹر امین ہمیں یاد دلاتے ہیں: آپ کی شخصیت کو مکمل کرنے کا اصل اصول آسان ہے - وہ بنیں جو آپ مانتے ہیں۔ اگر آپ کسی چیز پر یقین رکھتے ہیں تو اسے زندہ رکھیں! نہ صرف آپ کے سر میں، نہ صرف آپ کے الفاظ میں، بلکہ آپ کے جسم، اعمال اور روح میں۔ وہ کہتا ہے کہ "خود کو ماننے والے" کو عقلی خودی، عملی خودی، اور یہاں تک کہ فطری نفس کو بھی رنگ دینا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں، اپنے ایمان کو صرف وزیٹنگ کارڈ کی طرح اپنی جیب میں نہ رکھیں۔ اسے اپنے پسندیدہ پرفیوم کی طرح پہنیں، تاکہ لوگ آپ کے ایک لفظ کہنے سے پہلے ہی اسے محسوس کر سکیں۔

مولانا رومی نے بہت خوبصورتی سے کہا: ایمان صرف یہ کہنے کا نام نہیں کہ میں مانتا ہوں، بلکہ یہ وہ بننا ہے جو آپ مانتے ہیں۔

جیسے کہ اگر کوئی کہے، ❝میں چائے پر یقین رکھتا ہوں، لیکن کبھی نہیں پیتا، کیا ہم اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں؟ ہرگز نہیں! ایمان کا بھی یہی حال ہے۔ اگر آپ اسلام کے انسان کے وژن پر یقین رکھتے ہیں تو آہستہ آہستہ آپ کو وہ وژن بننا چاہیے۔

لہذا، میرے پیارے قارئین، چیلنج واضح ہے: ہم مسلمانوں کو دین کی وہ تخلیقی، گہری اور زندہ طاقت واپس لانے کی ضرورت ہے جس نے کبھی پوری تہذیبوں کو جنم دیا تھا۔ مکینیکل مذہب نہیں، خشک نفسیات نہیں، بلکہ ایک گرم، خوشبودار، روحانی طور پر زندہ راستہ ہے۔ اور ڈاکٹر امین ہمیں ایک نرمی سے یاد دہانی کر رہے ہیں کہ یہ ممکن ہے — راکٹ سائنس جیسی غیر معمولی طاقتوں سے نہیں، بلکہ بہت ہی سادہ انسانی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے وہ زندگی گزارنے کے لیے جس پر ہم واقعی یقین رکھتے ہیں۔

اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ: یہ راستہ کڑوا کریلا نہیں، حلوے کی طرح میٹھا ہے۔ یہ دل کو نورانی، دماغ کو تیز اور روح کو چمکدار بناتا ہے۔

محمد فرحان جمیل 25.9.25💐💐

26/09/2025

*🚨ڈپریشن/ اینزائٹی سے کیسے نجات حاصل کریں؟*

1) جو چیزیں اخیتار میں نہ ہوں اس کی فکر چھوڑیں۔ یاد رکھیں ڈر موت کو نہیں لیکن زندگی کو ضرور روک سکتا ہے۔

2) انسان خدا نہیں ہے نعوذوبااللہ کہ جو وہ چاہے وہی ہوگا۔ بعض اوقات بہت قابیلیت اور کوشش کے باوجود بھی وہ نہیں ہوتا جو انسان چاہتا ہے۔ یہ انسان کو تسلیم کرنا ہوگا۔

3) ورزش کریں۔ ضروری نہیں آپ جِم جائیں۔ واک بھی ایک ورزش ہے۔ غیر ضروری طور پر بائیک چلانے اور گاڑی چلانے کی بجائے پیدل واک کریں۔

4) مصروفیت بڑھائیں۔ حد سے زیادہ آرام اور ریلیکسیشن ذہنی سکون کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

5) اکیلے رہنا چھوڑیں لوگوں میں گھل ملیں جس کا ایک آسان طریقہ محلے کی مسجد میں پنج وقتہ باجماعت نماز بھی ہے۔

6) نماز اگر خشوع اور وضوع سے پڑھیں تو یہ ایک مڈیٹیشن یعنی مراقبہ ذہنی یکسوئی کا طریقہ بھی ہے۔

7) غمگین گانے سننا چھوڑیں۔ غمگین ڈرامے اور فلمیں دیکھنا بند کردیں۔ غمگین لٹریچر پڑھنا بند کردیں۔ پریکٹیکل لائف میں حقیقی غم ویسے بھی بہت سارے ہیں۔ مصنوعی طور پر اپنے اوپر غم مسلط کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آبیل مجھے مار والی پریکٹیس ہے یہ۔

📍اہم ترین بات❗
اگر آپ فح+ش ویڈیوز اور مشت زنی وغیرہ جیسی عادات میں مبتلا ہیں تو سختی سے اس عادت کا سر کچل دیں۔
یہ زندگی میں شامل ہو تو پھر روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں خوشیاں محسوس ہی نہیں ہوتی۔

اس عادت سے دوسرے کام کرنے کی ساری موٹیویشن ختم ہوجاتی ہے۔
یہ انرجی ، توجہ اور وقت کو چوس لیتی ہے جس کو استعمال میں لاتے ہوئے آپ کوئی دوسرا اہم کام سر انجام دے سکتے ہیں۔

ہر دوسری بار دماغ پہلے کے مقابلے میں نیا اور زیادہ شدید پو+رن دیکھنا پسند کرے گا جس کی تلاش میں گھنٹوں لگے رہنے سے بندے کا بہت وقت ضائع ہوجاتا ہے۔

اس کے علاوہ بعض لوگ اس نئے پن کی اور زیادہ سیٹسفیکشن کے لیے پہلے سے زیادہ شدید مواد تک رسائی کے لیے پو*ن سائٹس کے مہنگے سبسکرپشنز لے کر الگ پیسے اڑانے لگتے ہیں۔
کچھ کو جب توانائی میں کمی یا بیماری محسوس ہوجاتی ہے تو اسی حساب سے خوراک یا ڈاکٹر کی سروس لینے یا دوائیاں کھانے پر الگ پیسے لگانا شروع کردیتے ہیں اور کمانے لائق تو یہ ہوتے نہیں۔

بس گھر سے اٹھاکر اڑاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عادت آپ کو تنہا زندگی گزارنے یعنی لوگوں سے کٹ آف کرنے میں بھی بڑا تھگڑا رول ادا کرتا ہے ،
کیونکہ پو+رن دیکھنے کے لیے آپ کو اکیلا ہونا پڑتا ہے۔

9) آن لائن لائف کو بیلنس رکھیں۔ ہر وقت ڈیجیٹل ڈیوائس یعنی موبائل یا کمپیوٹر میں نہ گھسے رہیں۔
فیزیکل ورلڈ کا بھی مزہ لیا کریں۔ فزیکل ورلڈ کے ایکٹویوٹیز ، فزیکل گیم کھیلنے ،فزیکل محفلوں،یاروں دوستوں ، غمی خوشی میں شرکت کے محفلوں وغیرہ میں حصہ لیں۔ انسان معاشرتی جانور ہے۔ تنہا نہیں رہ سکتا۔

10) جو کام ہوجاتا ہے اس پر حد سے زیادہ اور مستقل طور پر پچھتائیں مت۔ ہاں کام غلط ہو تو توبہ ضرور کریں آئندہ نہ کرنے کی ٹھانیں ،ممکن ازالہ کریں لیکن اس کے باوجود بھی پچھتانا کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔
انسان فرشتہ نہیں ہے کہ پرفیکٹ ہو۔ ہاں بس ہٹ دھرم نہیں ہونا چاہیے۔ غلطی پر توبہ اور آئندہ نہ کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔

11) ڈسپلنڈ رہنا سیکھیں۔ کچھ اصولوں کی پابندی۔ وقت کی پابندی۔ اس میں بھی پنج وقتہ باجماعت نماز بہت رول پلے کرتا ہے۔ باجماعت نہ بھی ہو لیکن کم سے کم وقت پر نماز۔

راجپوت 🍂

26/09/2025

"اپنی اولاد کی پرستش نہ کریں"

کینیڈا کے معروف ماہر نفسیات پروفیسر جارڈن پیٹرسن کا کہنا ہے:
“اپنی اولاد کی پرستش نہ کریں، بلکہ ان کی پرورش ایک ذمہ دار اور متوازن شخصیت کے طور پر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا حد سے زیادہ لاڈ پیار انہیں نرگسیت (Narcissism) کا شکار بنا دے۔”

بچوں کی تربیت میں والدین کی ذمہ داریاں
بچہ جب غلطی کرے تو اسے نظرانداز نہ کریں۔ غلط رویے پر ٹوکنا اور اصلاح کرنا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
صرف محبت اور تعریفیں ہی دینا کافی نہیں، بلکہ حدود اور اصول بھی سکھانا لازمی ہے۔
ایک کامیاب پرورش وہی ہے جہاں بچہ نہ تو خوف کا شکار ہو اور نہ ہی حد سے زیادہ بگڑ جائے۔
کیوں ضروری ہے متوازن تربیت؟

پروفیسر پیٹرسن کے مطابق:
اگر والدین بچے کو صرف مرکزِ کائنات بنا دیں، تو بچہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ہر چیز اس کی خواہش کے مطابق ہونی چاہیے۔
یہ رویہ آگے چل کر خود غرضی، بدتمیزی اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کی عادت پیدا کر دیتا ہے۔
اس کے برعکس، ایک متوازن تربیت بچے کو نہ صرف ذمہ دار انسان بناتی ہے بلکہ وہ معاشرے کا مثبت فرد بھی بنتا ہے۔

عملی نکات والدین کے لیے:
1. بچے کو محبت دیں مگر اصولوں کے ساتھ۔
2. غلطی پر پیار سے سمجھائیں اور ضرورت پڑے تو سختی بھی کریں۔
3. بچے کو دوسروں کی عزت کرنا سکھائیں۔
4. محنت اور صبر کی اہمیت بتائیں، تاکہ وہ حقیقی دنیا میں کامیاب ہو سکے۔

💡 یاد رکھیں:
بچے کو نکھارنا صرف اس کی خوشی کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کی بھلائی کے لیے بھی ضروری ہے۔ ایک ذمہ دار اور متوازن بچہ کل کو ایک اچھا شہری، والدین، اور لیڈر بن سکتا ہے۔

26/09/2025

**کیوں ذہین لوگ معاشرے میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے؟ شوپن ہاور کا فلسفہ اور جدید سائنس**

کیا کبھی آپ نے یہ محسوس کیا ہے کہ زیادہ سمجھدار ہونا کبھی کبھی سزا کیوں محسوس ہوتا ہے؟ اکثر اوقات حقیقی طور پر ذہین لوگ خود کو اکیلا پاتے ہیں جبکہ معمولی یا اوسط ذہانت کے حامل افراد کی سماجی زندگی زیادہ خوشگوار گزر رہی ہوتی ہے۔ اس سوال کا جواب فلسفی آرتھر شوپن ہاور نے صدیوں پہلے ہی دے دیا تھا جسے آج کی جدید سائنس بھی ثابت کر رہی ہے۔ شوپن ہاور جسے تاریخ کا سب سے کڑوا مگر سچا فلسفی کہا جاتا ہے، نے کہا تھا کہ "ذہانت ایک آئینے کی مانند ہے جو سامنے والے کو اس کا سچ دکھا دیتی ہے، وہ سچ جسے وہ خود بھی دیکھنا نہیں چاہتا"۔

لوگوں کا خیال ہے کہ ذہین افراد اس لیے اکیلے ہوتے ہیں کیونکہ وہ سماجی طور پر اناڑی ہوتے ہیں لیکن شوپن ہاور نے اس بات کو مزید گہرائی سے سمجھا۔ اس نے کہا کہ کسی ذہین انسان کو زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی, اس کی موجودگی ہی کافی ہوتی ہے۔ وہ بس کمرے میں داخل ہوتا ہے اور باقی لوگ خود بخود بے چین ہو جاتے ہیں جیسے کسی نے ان کے اندر کی حقیقت کو کھول دیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی اپنا سچ دیکھنا نہیں چاہتا۔ جب پیسہ ہوتا ہے تو لوگ جھکتے ہیں، خوبصورتی پر لوگ مرتے ہیں، طاقت پر لوگ عزت دیتے ہیں مگر ذہانت سے لوگ جلتے ہیں۔ یہ حسد وہ کسی کو بتاتے نہیں بلکہ خود سے بھی چھپا کر رکھتے ہیں۔

شوپن ہاور نے دیکھا کہ یہ ایک ایسا نمونہ ہے جو بار بار دہرایا جاتا ہے: جتنا کوئی شخص گہرائی میں سوچتا ہے، لوگ اسے لطیف طریقوں سے سائیڈ لائن کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ بدتمیز نہیں ہوتا، نہ ہی انا دکھاتا ہے، پھر بھی اس کی موجودگی سے لوگ خود کو چھوٹا محسوس کرنے لگتے ہیں۔

جدید سائنس کے مطابق آج کی سوشل سائیکالوجی اور برین ریسرچ شوپن ہاور کی باتوں کی تصدیق کر رہی ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ جب کوئی انسان خود کو کسی سے کم ذہین محسوس کرتا ہے تو اس کے دماغ کے وہی حصے فعال ہوتے ہیں جو جسمانی درد کی صورت میں ہوتے ہیں۔ یعنی جب کوئی کہتا ہے کہ "اس نے میری انا کو ٹھیس پہنچائی" تو یہ محض ایک بات نہیں ہوتی بلکہ دماغی سطح پر یہ لفظی طور پر "درد" ہوتا ہے۔ 2021 کی ایک تحقیق نے تو یہ بھی پایا کہ جب ہم کسی بہت ہوشیار شخص کے سامنے ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ اسے "خطرے" کی طرح پروسیس کرتا ہے۔ دماغ میں ایک حصہ جسے *"امیگڈالا (amygdala)" کہتے ہیں، خطرے کا الارم بجاتا ہے۔ جب سامنے کوئی ایسا شخص ہو جو واضح طور پر ہم سے زیادہ ذہین ہو تو امیگڈالا فوراً فعال ہو جاتا ہے، جیسے کوئی حقیقی خطرہ آ گیا ہو۔ اسی لیے لوگ سوچے سمجھے بغیر دفاعی ہو جاتے ہیں۔ اسٹینفورڈ کی ایک اور تحقیق کے مطابق اگر آپ اس ذہین شخص کے ساتھ اکیلے ہیں تو یہ ردعمل ہلکا ہوتا ہے لیکن جیسے ہی کمرے میں مزید لوگ آ جائیں یہ "انا" اور زیادہ جاگ جاتی ہے کیونکہ انسان اکیلے کی بجائے عوامی طور پر اپنا اسٹیٹس بچانا چاہتا ہے۔

شوپن ہاور نے یہ بھی سمجھا کہ یہ محض خودکار ردعمل نہیں ہیں۔ انسان اسے شعوری طور پر بھی محسوس کرتا ہے اور یہیں سے ایک بڑا کڑوا سچ سامنے آتا ہے: لوگ کسی ذہین شخص سے یوں ہی حسد نہیں کرتے؛ ذہانت خود ایک جذباتی محرک (emotional trigger) بن جاتی ہے۔ یہ انسان کے اندر کچھ ایسا چھیڑ دیتی ہے جسے وہ خود سے بھی چھپا کر رکھتے ہیں۔ جب کوئی ذہین شخص کسی گفتگو میں شامل ہوتا ہے تو باقی سب لوگ خود بخود اپنا موازنہ کرنے لگتے ہیں، چاہے وہ ایسا کرنا چاہیں یا نہ چاہیں۔ اکثر تو بس اس کی خاموش موجودگی ہی لوگوں کو یہ محسوس کراتی ہے جیسے وہ انہیں جج کر رہا ہو۔ سب سے ستم ظریفی یہ ہے کہ جتنا کوئی شخص سچ میں سمجھدار ہوتا ہے وہ اتنا ہی کم دوسروں کو جج کرتا ہے۔

شوپن ہاور نے یہ بھی دیکھا کہ ذہانت مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مسترد ہونے کا سبب بنتی ہے مگر دونوں کے لیے یہ ردعمل مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ ذہین مردوں کو یا تو مقابلہ ملتا ہے یا انہیں آہستہ آہستہ گروپ سے نکال دیا جاتا ہے لیکن ذہین عورتوں کے لیے ردعمل ایک اور سطح کی کشیدگی بن جاتا ہے جسے شوپن ہاور نے "ڈبل بائنڈ double bind" کہا۔ انہیں صرف سمجھدار ہونے کی نہیں بلکہ اس "ناقابل دید سماجی قید" کو توڑنے کی بھی سزا ملتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ "ایک عورت کو ایسا ہونا چاہیے۔ معاشرہ انہیں ایک انتخاب دیتا ہے: یا تو "پسندیدہ" بنو یا "قابل احترام"۔ عورتوں کی خوبصورتی کو کھلے عام سراہا جاتا ہے مگر ان کی ذہانت کو نہیں۔ شوپن ہاور نے ایک دردناک سچ کہا تھا کہ اگر کوئی عورت خوبصورت بھی ہے اور ذہین بھی، تو یہ دونوں خصوصیات مل کر اسے اور زیادہ اکیلا بنا دیتی ہیں کیونکہ خوبصورتی لوگوں کو اوپر سے متوجہ کرتی ہے لیکن ذہانت وہیں سے لوگوں کو دور بھی کر دیتی ہے۔

جدید تحقیق بھی یہی دکھا رہی ہے: ذہین عورتیں اکثر اپنی صلاحیتوں کو چھپا لیتی ہیں، خاص کر سماجی محفلوں میں، کیونکہ ان پر ایسا دباؤ ہوتا ہے جو مردوں پر اتنا نہیں ہوتا۔ ماہرین نفسیات اسے "کمپیٹنس لائیکیبلٹی ٹریڈ آف" (Competence-Likability Trade-off) کہتے ہیں، یعنی جتنی کوئی عورت زیادہ اسمارٹ یا قابل نظر آئے گی اتنی ہی کم پسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔

شوپن ہاور نے واضح کیا کہ اوسطیت لوگوں کو کیوں آرام دیتی ہے۔ یہ ایک گرم کمبل کی طرح ہے جو یہ احساس دلاتا ہے، "فکر مت کرو، جیسے ہو ویسے ہی ٹھیک ہو"۔ اوسط سوچ رکھنے والے لوگ کبھی کسی کی انا کو ٹھیس نہیں پہنچاتے اور نہ ہی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ "شاید تمہیں بھی تھوڑا اور بڑھنا چاہیے" بلکہ وہ آپ کو اس بات کی تصدیق دیتے ہیں کہ آپ کی سوچ بھی کافی ہے۔

جب آپ کسی عام گروپ کی گفتگو سنتے ہیں تو موضوعات کیا ہوتے ہیں؟ سادہ باتیں، ہنسی مذاق، کچھ بھی ایسا نہیں جو تھوڑی سوچ مانگے کیونکہ سطحی گفتگو ہی آرام دہ ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی کوئی شخص گہری یا پیچیدہ بات کرتا ہے کمرے میں خاموشی چھا جاتی ہے اور ماحول بھاری ہو جاتا ہے۔ شوپن ہاور نے یہ پیٹرن ہر شعبے میں دیکھا تھا: اوسط درجے کا فنکار گیلری میں نظر آتا ہے لیکن باکمال فنکار باہر کھڑا رہتا ہے۔ عام مصنف ٹاپ سیلر بن جاتا ہے لیکن گہرا مفکر ان پڑھ رہتا ہے۔ ایسا اس لیے نہیں کہ لوگ فرق سمجھ نہیں پاتے، بلکہ اس لیے کہ اوسطیت کبھی کسی کی حقیقت کو چیلنج نہیں کرتی، جب کہ ذہانت کرتی ہے۔ ذہانت وہ آئینہ ہے جو یاد دلاتا ہے کہ "تم بھی تھوڑا اور سوچ سکتے تھے، مگر تمہیں آسان راستہ چاہیے تھا۔ اور اسی غیر آرام دہ حقیقت سے لوگ بچتے ہیں۔

آج کی دنیا میں بھی شوپن ہاور کے تمام پیٹرن نئے ناموں کے ساتھ دہرائے جا رہے ہیں۔ ورک پلیس میں "کلچر فٹ" اور "ایموشنل انٹیلیجنس" جیسے نام استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن "ناٹ اے کلچر فٹ" کا اصل مطلب اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص دوسروں کو ذہنی طور پر بے چین کر دیتا ہے۔ سماجی میڈیا پر بھی گہری باتیں اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہیں اور سادہ، ہاں میں ہاں ملانے والی چیزیں وائرل ہو جاتی ہیں، کیونکہ گہرائی سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور سوچنے سے بے چینی پیدا ہوتی ہے۔

اس پورے پیٹرن میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ معاشرے کو ذہانت چاہیے بھی اور اسی سے سب سے زیادہ ڈر بھی لگتا ہے۔ شوپن ہاور نے اسے "حتمی سماجی تضاد" کہا تھا۔ ہر معاشرہ اپنے نابغہ روزگار افراد کو ان کے مرنے کے بعد سراہتا ہے۔ نیوٹن، آئن سٹائن، کیوری کو آج عزت کی بلندیوں پر رکھا جاتا ہے، لیکن جب وہ زندہ تھے تو نیوٹن اکیلے رہتے تھے، آئن سٹائن کو اس کے اساتذہ نے "بے وقوف" کہا تھا، اور کیوری کو پوری سائنسی دنیا نے مسترد کر دیا تھا۔ یہ تضاد ہر جگہ نظر آتا ہے: کمپنیاں کہتی ہیں کہ انہیں جدت چاہیے، لیکن جیسے ہی کوئی نظام کو چیلنج کرتا ہے، اسے سائیڈ کر دیا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ذہانت کو کیسے نیویگیٹ کریں؟ لیکن اس پیٹرن کو سمجھنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو ہمیشہ اکیلا محسوس کرنا پڑے گا۔ شوپن ہاور صرف مسئلہ نہیں بتا رہا تھا وہ آپ کو ایک طریقہ بھی دکھا رہا تھا:
1. سمجھیں کہ آپ غلط نہیں ہیں: اگر آپ ذہین ہیں، تو آپ کوئی غلطی نہیں کر رہے۔ لوگوں کا ردعمل آپ سے نہیں ہوتا، یہ بس ایک قدرتی سماجی پیٹرن ہے۔ یہ بات سمجھنے سے ہی بہت سا ذہنی بوجھ اتر جاتا ہے۔
2. ہر کمرے کو پڑھنا سیکھیں: ہر جگہ گہری باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اپنی سب سے پیچیدہ سوچ انہیں دیں جو اسے سچ میں سمجھ اور سراہ سکیں۔
3. اپنا قبیلہ تلاش کریں: شوپن ہاور نے خود دیکھا تھا کہ حقیقی ذہین لوگ بڑے گروپس میں نہیں رہتے، وہ چھوٹے مگر گہرے تعلقات والے حلقوں میں پروان چڑھتے ہیں۔ آج کے انٹرنیٹ والے دور میں ایسے دماغ ڈھونڈنا پہلے سے کہیں آسان ہو گیا ہے۔ آپ کو پوری دنیا سے توثیق نہیں چاہیے، بس کچھ لوگ چاہیں جو آپ کو سمجھ سکیں، اتنا کافی ہے۔

تاریخ کے کچھ سب سے کامیاب ذہنوں نے بھی یہی کیا۔ رچرڈ فائن مین جیسے ذہین ماہرِ طبیعیات نے پیچیدہ چیزوں کو اتنے سادہ اور قابلِ فہم انداز میں سمجھایا کہ سننے والا متجسس ہو جائے، الجھے نہیں۔ ایڈا لولیس نے "سوشل لیبارٹریز" بنائیں جہاں سوچنے والے لوگ کھل کر بات کر سکیں اور دوسروں کو بھی خوش آمدید محسوس کرائیں۔ بینجمن فرینکلن، ایک عظیم مفکر ہونے کے باوجود، ہمیشہ خود کو ایک سیکھنے والے کے طور پر پیش کرتے تھے اور اپنی باتوں کو نصیحت یا سوال کی طرح رکھتے تھے تاکہ سننے والے کو برابری کا حصہ محسوس ہو نہ کہ کوئی برتری۔

آخر میں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ذہین ہونے کا مطلب اکیلا ہونا نہیں۔ شوپن ہاور نے یہ باتیں آپ کو ڈرانے کے لیے نہیں کہی تھیں بلکہ حقیقت بتائی تھی تاکہ آپ اسے سمجھ کر *سمارٹ طریقے سے زندگی گزار سکیں۔ اپنی ذہانت کو چھپانا بھی نہیں اور نہ ہی اوسط بننے کی اداکاری کرنی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ ان سماجی پیٹرنز کو سمجھیں اور ان سے لڑنے کے بجائے ان میں اپنے طریقے سے نیویگیٹ کریں۔

معاشرہ بھلے ہی ذہین دماغوں سے ڈرتا ہو لیکن انہیں سب سے زیادہ ضرورت بھی انہی کی ہوتی ہے۔ ہر بڑی تبدیلی ہمیشہ کسی ایسے شخص سے آئی ہے جس نے گہرائی میں سوچا، واضح دیکھا اور سچ میں ذہین بننے کی ہمت رکھی۔ لہٰذا اگلی بار جب آپ محسوس کریں کہ لوگ آپ کی سوچ سے بے چین ہیں تو بس شوپن ہاور کی بات یاد رکھیں:
آپ کچھ غلط نہیں کر رہے، آپ بس ایک آئینہ پکڑے کھڑے ہیں اور اس آئینے میں لوگ کیا دیکھتے ہیں یا کیسے ردعمل دیتے ہیں، وہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔

26/09/2025

« اپنے ذہن کی قوت سے پہاڑ بھی ہلا سکتے ہیں »

°°° `انسان میں چار چیزوں کی قوی تاثیر ہے` °°°°

*قدیم ہند میں ایک شہر تھا جو بھی اس پر حملہ کرتا بیمار ہوجاتا تھا*
`بت شکن سلطان اعظم محمود غزنوی رحمہ اللہ نے جب اس شہر پر چڑھائی کرنا چاہی تو سپاہی بیمار ہو گئے`
سلطان محمود غزنوی نے وہاں کے لوگوں سے اس کا سبب پوچھا تو بتایا گیا
*اس شہر میں ایک جماعت ہے جب کوئی حملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ جماعت اپنی قوتِ ارادی کو استعمال کرتی ہے اور حملہ آوروں پر اپنی فکر مرتکز کر کے اسے بیمار کر دیتی ہے*
❗عجائب المخلوقات للقزوینی ❗

یعنی صرف ذہن کی قوت سے دشمن کو بیمار کر دیتی ہے
علامہ قزوینی نے ایک اور واقعہ لکھا ہے
ہند میں ایک قوم ہے `جب ان کو کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو وہ تنہائی میں چلے جاتے ہیں اور ذہن کو اپنی مرضی کے کام پر مرتکز کر دیتے ہیں تو وہ کام ان کی مرضی مطابق ہی واقع ہوتا ہے`
❗عجائب المخلوقات للقزوینی ❗
*انسانی ذہن میں اتنی قوت ہے کہ اس کا استعمال کیا جائے تو پہاڑ کو بھی ہلا دیتا ہے*
قوتِ ارادی اور یکسوئی (جسے ہم ارتکاز بھی کہ سکتے ہیں) کاموں پر پلٹ دینے کی قوت رکھتی ہے
نظرِ بد کیا ہے یہی تو ہے کہ نظر لگانے والا کسی شے کی ہلاکت کی چاہت کرتا ہے وہ شے برباد ہو جاتی ہے
`نظر کی دو قسمیں ہیں`

*نظرِ بد*
جو برباد کر دیتی ہے اسی کے متعلق حدیث شریف میں آیا ہے
حدیث شریف میں ہے
العين تدخل الرجل القبر وتدخل الجمل القدر
نظرِ بد آدمی کو قبر میں اور اونٹ کو ہنڈیا میں اتار دیتی ہے
❗حلیہ الاولیاء ❗
`یعنی آنکھ میں اتنی طاقت ہے چنگے بھلے انسان کو بیمار کر کے موت سے ملا دیتی ہے اور موٹے تازے اونٹ کو بیمار کر کے ذبح تک لے جاتی ہے`

دوسری قسم *نظرِ حَسن* ہے جو اولیاء کاملین کو حاصل ہوتی ہے
جس کے ایک تیر سے بندہ راہِ حق کا شہید ہو جاتا ہے
جس کے ایک اشارے سے غیر مسلم ایمان کی دولت سے مشرف ہو جاتا ہے اور گناہ گار گناہوں سے باز آجاتا ہے
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
شیخ ابو مدین المغربی کا فرمان ہے
وللہ رجال اذا نظروا اغنوا
`الله کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جب وہ نظر ڈالتے ہیں تو غنی کر دیتے ہیں`
یہ تو نظر کی بحث تھی
اب ہم واپس ذکر کرتے ہیں قوتِ ارادی کا کہ کیسے ارتکاز سے پہاڑ ہل جاتا ہے
کیسے ارادے کی قوت سے لشکر بیمار ہو جاتا ہے
یاد رکھیں الله رب العزت نے `انسان کی چار چیزوں میں بڑی تاثیر رکھی ہے`

*آنکھ, آواز , لمس اور ذہن*

آنکھ کا ذکر اوپر گزرا کہ نظر بد بھی ہوتی ہے اور حسن بھی ہوتی ہے اس کی تاثیر مُسَلَّمات میں سے ہے
*دوسری شے آواز ہے*
اچھی بری آواز کی تاثیر انسان کی عقل و روح پر پڑتی ہے یہ ہر دین ہر قوم ہر ملک و دور کے لوگوں کے ہاں مُسَلَّم بات ہے
انسان تو انسان آواز کا اثر حیوانوں پر بھی ہوتا ہے حتی کہ پودوں پہاڑوں پر بھی ہوتا ہے
اھلِ عرب *حُدی خوانی* کرتے تھے یعنی سفر میں سریلے گیت گاتے تھے تاکہ اونٹوں کے چلنے کی رفتار تیز کریں `اس کی تاثیر سے اونٹ کئی کئی گھنٹے مسلسل دوڑے جاتے تھے حتی کہ کھانے پینے کی خواہش ترک کر دیتے تھے اور بعض اوقات بھاگ بھاگ کر مر جاتے تھے`
اچھی آواز دل کو سرور بخشتی اور بری آواز دل سے سرور چھین لیتی ہے
*تیسری شے لمس ہے یعنی چھونا ہے*
چھونے کی تاثیر کا تجربہ ہر ایک کو زندگی میں ہوتا ہے
بچپن میں بیماری کی صورت میں ماں کا چھونا اور شفقت سے ماتھے پر ہاتھ رکھنا گویا خزاں بہار سے بدل جاتی تھی
`محبوب شخص کا چھونا ایسی تاثیر رکھتا ہے کہ صدیوں کا بیمار فوری ٹھیک ہو جاتا ہے`
اور ناپسندیدہ شخص کا چھونا عقل و روح کو مضطرب کر دیتا ہے
بلکہ *امام تیفاشی* نے
حواسِ خمسہ یعنی پانچ حواس
([1] قوتِ ذائقہ یعنی ذائقہ کی قوت
[2] قوتِ لامسہ چھونے کی قوت
[3] قوتِ شامہ سونگھنے کی قوت
[4] قوتِ سامعہ سننے کی قوت
[5] قوتِ باصرہ دیکھنے کی قوت
کے بارے ایک کتاب لکھی جس کا نام سرور النفس بمدارک الحواس الخمس ہے
اس میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ حواسِ خمسہ کی تاثیر کیا ہے اور ان سے علاج کیسے ممکن ہے

*چوتھی شے جو ہم نے ذکر کی وہ ذہن ہے جسے قوتِ ارادی کہتے ہیں*
اس کی تاثیر بھی بہت ہے
`جن کی قوتِ ارادی مضبوط ہوتی ہے ان پر جن جنات جادو و طلسمات کا اثر نہایت کم ہوتا ہے`
کیونکہ الله رب العالمین نے ہر شے انسان کے لیئے مُسَخَّر (یعنی قابو میں دے دی)کر دی ہے تو جن جنات اور جادو بھی جو کہ اصل میں شریر جنات کی قوت ہے انسان کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں صرف اس کی قوتِ ارادی و حوصلہ مضبوط ہو
ذہن کی قوت سے عملیات کا توڑ کر سکتا ہے
`ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی بھی ذہنی قوت ہے تو جس کی بدولت صرف ذہن کی قوت سے سامنے والے کو غلام بنا لیا جاتا ہے`
اور سامنے والا اس کی آنکھوں کے اشاروں پر بلا اختیار کام کرتا جاتا ہے
اگر آپ ذہنی قوت بڑھا لیں تو اپنی مرضی کے مطابق کام کروا سکتے ہیں
جیساکہ سلطان محمود غزنوی کے واقعہ سے معلوم ہوا ہے
*اب اہم ترین سوال کہ ہم قوتِ ارادی کیسے بڑھائیں*
اس کا جواب لے لیں
نماز کی کثرت نوافل کی کثرت خاص طور پر رات کے نوافل کی کثرت قوتِ ارتکاز بڑھاتی ہے
قوتِ ارادی مضبوط کرتی ہے
`دنیاوی خیالات سے پاک ہو کر نماز پڑھیں کثرت سے پڑھیں ذہن کی خفیہ
طاقتیں بیدار ہو جائیں گی`
coحکایت
کسی محلے میں ایک امیر آدمی نے نیا مکان بنایا اور وہاں آکر رہنے لگا یہ امیر آدمی کبھی کسی کی مدد نہیں کرتا تھا...
اسی محلے میں کچھ دکاندار ایسے تھے جو خود امیر نہیں تھے لیکن لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے
ایک قصائی تھا جو اکثر غریبوں کو مفت اور بہت عمدہ گوشت دے دیا کرتا تھاایک راشن والا تھا جو,ہر مہینہ کچھ گھرانوں کو ان کے گھر تک مفت راشن پہنچا دیتا تھا.
ایک دودھ والا تھا جو بچوں والے گھروں میں مفت دودھ پہنچاتا
لوگ مالدار شخص کو خوب برا کہتے کہ دیکھو اتنا مال ہونے کے باوجود کسی کی مدد نہیں کرتا ہے اور یہ دکاندار بے چارے خود سارا دن محنت کرتے ہیں لیکن غریبوں کا خیال بھی رکھتے ہیں.
کچھ عرصہ اسی طرح گذر گیااور سب نے مالدار آدمی سے ناطہ توڑ لیا اور جب اس مالدار کا انتقال ہوا تو محلہ سے کوئی بھی اس کے جنازے میں شریک نہ ہوا.
مالدار کی موت کے اگلے روز ایک ًغریب نے گوشت والے سے مفت گوشت مانگا تو اس نے دینے سے صاف انکار کردیا....
دودھ والے نے مفت دودھ سے صاف انکار کردیا.
راشن والے نے مفت راشن دینے سے صاف انکار کردیا..
پتہ ہے کیوں؟؟؟؟؟؟
ان سب کا ایک ہی جواب تھا.. اب تمہیں یہاں سے کچھ بھی مفت نہیں مل سکتا کیونکہ وہ جو تمہارے پیسے ادا کیا کرتا تھا کل دنیا سے چلا گیا ہے
نتیجہ
دلوں کے راز اللہ جانتا ہے ۔ کبھی کسی کے بارے میں خود سے فیصلہ نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کس کا باطن کتنا پاکیزہ ہے ۔۔۔

26/09/2025

ان کا نام حبیب بن مالک تھا، اور وہ یمن کے بہت بڑے سردار تھے، ابوجہل نے پیغام بھیجا کہ حبیب محمدﷺ نے فلاں تاریخ کو چاند کے ): دو ٹکڑے کرنے ہیں تم یہاں آ جاؤ، اور چاند کو دیکھنا کہ، وہ دو ٹوٹے ہوتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ حبیب بن مالک نے رخت سفر باندھا اور کوہ ابو قیس پر پہنچ گیے، جہاں کفار نے مطالبہ کر دیا تھا کہ آسمانی معجزہ یہاں دکھاؤ یا چاند کو دو ٹکڑے کرو ...!
میرے *: آقا حضرت محمّد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور چاند دو ٹکڑے کر دیا، اور واپس تشریف لے گئے- خصایص الکبری میں موجود ہے اتنی دیر تک چاند دو ٹکڑے رہا ...!که باطل شرمنده هو گیا
حیبیب بن مالک یہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لے آئے اور بولے :
" یہ سب ٹھیک ہے لیکن بتائیں میرے دل کو کیا دکھ ہے ...؟"
آپ نے فرمایا :
" تیری ایک ہی بیٹی ہے، جسکا نام سطیحہ ہے، وہ اندھی لولی لنگڑی بہری اور گونگی ہے- تجھے اسکا دکھ اندر سے کھائے جا رہا ہے- جاؤ اللہ تعالی نے اس کو شفا دے دی ہے ... ! "
حبیب یہ سنتے ہی دوڑ کر اپنے گھر آئے تو انکی بیٹی سطیحہ نے کلمہ پڑھتے دروازہ کھولا ، حبیب نے پوچھا کہ :
" سطیحہ تجھے یہ کلمہ کس نے سکھایا ...؟ "
تو اس نے حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سارا حلیہ بتایا اور بولی :
" اے ابا وہ آئے، مجھے زیارت بخشی اور دعا فرمائی، اور مجھے کلمہ طیبہ بھی پڑھا گئے ...! "
حبیب واپس گئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے، اور نہ صرف مسلمان ہوئے، بلکہ اسلام کی خدمت میں بھی پیش پیش رہے ...!
(بحوالہ خصایص الکبری ، بحوالہ شرح قصیدہ ،بحوالہ معجزات مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 💕

26/09/2025

امریکہ افغانستان کا بگرام ایئر بیس فوری مانگ رہا ہے نہ ملنے پر خطرناک دھمکیاں لگا رہا ہے جبکہ طالبان حکومت نے بگرام ایئر بیس دینے سے انکار کر دیا۔
امریکہ نے اسرائیل ایران جنگ کے دوران اسرائیل کی مدد کیلئے اپنے طیارے بھیج کر ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا۔
دوسری طرف امریکی ایٹمی آبدوزیں عرب ممالک کے درمیان سمندر میں کھڑی کی ہوئی ہیں تاکہ کوئی عرب مسلمان فلسطین کی مدد نہ کر سکے
اس سے پہلے امریکی اور اسرائیلی رجیم چینج کے منصوبے کے تحت لیبیا کے معمر قذافی اور عراقی صدر صدام حسین کی شہادت دنیا کو براہ راست دیکھائی گئی تاکہ باقی عرب حکمران خوف ڈر سے اسرائیل کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں
پاکستان⁦🇸🇦⁩⁦🇵🇰⁩ سعودی عرب اتحاد سے دجالی فسادی لابی خوف سے لرز گئے کیونکہ سعودی عرب بھی ایٹمی قوت بن گیا پاکستان کے ایٹم بم سعودی عرب اور پاکستان دونوں کے دفاع کیلئے ۔
امریکہ اب اسرائیل کی مدد کیلئے عالمی اسلامی واحد ایٹمی قوت پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کیلئے بگرام ایئر بیس لینا چاہتا ہے چین کا نام استعمال کر کے دنیا کو چکر دے رہا ہے
پاکستان⁦🇵🇰⁩ کے محافظ اور پاکستانی عوام پہلے بھی تیار تھے اور اب بھی تیار ہیں
مگر پہلے دنیا نے بھارت کے پاکستان⁦🇵🇰⁩ پر حملے کے جواب میں دیکھا کہ فرانس کے رافیل اور روس کی میزائل ٹیکنالوجی اور اسرائیلی ڈرون ان سب کا تیاپانچہ پاکستان نے کیا جو دنیا نے دیکھا۔
بحکمِ من اللّٰہ اب دنیا دیکھے گی اگر امریکہ نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی تو سب سے پہلے امریکی بدماشی کا اڈا تباہ گا اسرائیل جو پاکستا⁩ن کی رینج سے صرف 550 کلومیٹر کیونکہ پاکستان اب سعودی عرب میں بیٹھ کر اسرائیل کی ٹھکائی کرئے گا انشاء اللّٰہ پھر امریکہ کے ساتھ کیا ہو گا اور کیا⁦ سے کیا ہونے والا ہے یہ دنیا دیکھے گی اور دنیا بھی ششدر رہ جائے گی
دنیا کے سامنے پاکستان⁦🇵🇰⁩ پہلا ملک ہو گا جو امریکہ کا جدید ترین ٹیکنالوجی والا یہ طیارہ پھڑکائے گا انشاء اللّٰہ
باقی امریکہ اور دنیا کے اندر کو ایسا ملک نہیں جو پاکستان کی ایٹمی تنصیبات تک پہنچ سکے الحمدللہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات محفوظ سے محفوظ ترین ہیں الحمدللہ ۔۔۔
اور اگر کسی نے پاکستان پر ایٹمی حملہ کرنے کا سوچا اور ہمیں خطرہ محسوس ہوا تو ہم

آدھی دنیا ساتھ لے کر ڈوبیں گے

پاک افواج زندہ باد
آئی ایس آئی زندہ باد

26/09/2025

حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانے میں انسان بہت بد عمل ہو گئے تھے فرشتوں نے بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ مولا انسان بہت بدکار ہے یہ خلافت کے لائق نہیں انہیں معزول کر دیا جائے یا کم از کم خلیفہ یہ رہیں اور وزیر ہم تاکہ ہم ان کے بگڑے کام سنبھال لیں گے
رب تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ اس کو غصہ اور شہوت دی گئی ہےاور یہ چیزیں اگر تمہیں ملیں تو تم بھی گناہ کرنے لگو فرشتوں نے کہا کہ مولا کریم نہیں ہم تو گناہ کے قریب بھی نہیں جائیں گے
رب تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ اپنی جماعت میں سے اعلیٰ ترین پرہیزگار فرشتے چن لوان کو غصہ اور شہوت دے دیتے ہیں تو امتحان ہو جاوے گا
پس ہاروت اور ماروت فرشتوں کا انتخاب ہوا جو بہت پرہیز گار تھے
رب تعالیٰ نے ان کو غصہ اور شہوت دے کر بابل کے شہر میں اتارا اور فرمایا قاضی کے فرائض انجام دو اور روزانہ اسم اعظم کے ذریعے آسمان پر آجایا کرو
یہ لوگ ایک مہینے تک یوں ہی آتے جاتے رہے
اس عرصے میں ان کے عدل وانصاف کا چرچا عام ہو گیا
لوگ ان کے پاس اپنے مقدمے لے کر آنے لگے
کہ فارس کی ایک حسین جمیل عورت ان کے پاس اپنے خاوند کے خلاف اپنا مقدمہ لے کر آئی جس کا نام زہرہ تھا یہ دونوں اس سے برائی کی خواہش کرنے لگے
اس نے کہا میرا دین اور ہے تمہارا دین اور یہ اختلاف ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے اور
میرا خاوند بہت غصہ والا ہے اگر اسے پتہ چلا تو وہ مجھے قتل کر دے گا لہذا پہلے میرے بت کو سجدہ کرو میرے شوہر کو قتل کر و پھر میں تمہاری تم میرے

انہوں نے انکار کر دیا وہ چلی گئی مگر ان کے دل میں اس کے عشق کی آگ بھڑک اٹھی
آخر ایک دن انہوں نے اس کو پیغام بھیجا اس نے انہیں گھربلا بھیجا وہ سر کے بل پہنچے
زہرہ نے ان کے سامنے شرط رکھی یا تو میرے شوہر کو قتل کرو یا میرے بت کو سجدہ کرو یا اسم اعظم مجھے بتاؤ یا شراب پی لو
انہوں نے سوچا اسم اعظم تو اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ہے اس کا راز افشا کرنا تو ظلم ہو گا قتل حقوق العباد کا معاملہ ہے بت کو سجدہ بھی نہیں کر سکتے شراب پی لیتے ہیں اور انہوں نے شراب پی لی
زہرہ نے ان سے باقی سب کام کرا لیے
زہرہ خود تو اسم اعظم کا ورد کرکے آسمان پر پہنچ گئی اللہ تعالیٰ نے اس کو زہرہ ستارہ سے متصل کیا اس کی شکل زہرہ ستارے جیسی ہو گئی
ان دونوں کا نشہ اترا تو وہ نادم تھے اور اسم اعظم بھول چکے تھے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا انسان میری تجلی سے دور رہتا ہے یہ دونوں روزانہ میرا دیدار کرتے تھے پھر بھی غصہ اور شہوت سے مغلوب ہو گئے اگر انسان گناہ کرے تو کیا تعجب ہے
فرشتوں نے اپنی خطا کا اقرار کیا انسان پر لعن طعن کرنا بند کردی اور ان کی مغفرت کی دعا کرنے لگے

ہاروت اور ماروت حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے اور شفاعت کے طالب ہوئے
حضرت ادریس علیہ السلام نے ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی بہت روز کے بعد حکم الہی ہوا کہ انہیں اختیار دیں کہ یہ دنیا کا عذاب قبول کریں گے یا آخرت کا
ادریس علیہ السلام نے انہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا انہوں نے کہا کہ آخرت کا عذاب تو لا فانی ہےاور دنیا کا عذاب قبول کر لیا

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کو زنجیریں سے باندھ کر بابل کے کنویں میں الٹا لٹکا دیں اس کنویں میں آگ دہک رہی ہے اور یہ دونوں الٹا لٹکے ہوئے ہیں فرشتے باری باری ہر وقت ان کو کوڑے مارتے ہیں سخت پیاس سے ان کی زبانیں لٹکی ہوئی ہیں
اور وہ قیامت تک اس شدید عذاب میں مبتلا رہیں گے

ایک امریکی جس نے عراقی صدر صدام حسینؒ کی پھانسی دیکھیترجمہ : ابو مصعب اﻻثري ایک امریکی جس نے صدر صدام حسینؒ کی پھانسی کے...
21/09/2025

ایک امریکی جس نے عراقی صدر صدام حسینؒ کی پھانسی دیکھی

ترجمہ : ابو مصعب اﻻثري

ایک امریکی جس نے صدر صدام حسینؒ کی پھانسی کے عمل میں شرکت کی، کہتا ہے کہ وہ آج تک اس واقعہ پر غور و فکر میں ہے اور اکثر یہ پوچھتا ہے کہ اسلام موت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔

اس نے کہا: صدام ایسا شخص ہے جو احترام کے لائق ہے۔

رات دو بجے (گرینچ کے مطابق) صدام حسین کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولا گیا۔
پھانسی کی نگرانی کرنے والے گروہ کا سربراہ اندر آیا اور امریکی پہریداروں کو ہٹنے کا حکم دیا، پھر صدام کو بتایا گیا کہ ایک گھنٹے بعد اسے پھانسی دی جائے گی۔

یہ شخص ذرا بھی گھبرایا نہیں تھا۔ اس نے مرغی کے گوشت کے ساتھ چاول منگوائے جو اس نے آدھی رات کو طلب کیے تھے، پھر شہد ملا گرم پانی کے کئی پیالے پئے، یہ وہ مشروب تھا جس کا وہ بچپن سے عادی تھا۔

کھانے کے بعد اسے بیت الخلا جانے کی پیشکش کی گئی مگر اس نے انکار کردیا۔

رات ڈھائی بجے صدام حسین نے وضو کیا، ہاتھ، منہ اور پاؤں دھوئے، اور اپنے لوہے کے بستر کے کنارے بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے، یہ قرآن انہیں ان کی اہلیہ نے بطور تحفہ دیا تھا۔ اس دوران پھانسی دینے والی ٹیم پھانسی کے پھندے اور تختے کا جائزہ لے رہی تھی۔

پونے تین بجے مردہ خانہ کے دو افراد تابوت لے کر آئے اور اسے پھانسی کے تختے کے پاس رکھ دیا۔

دو بج کر پچاس منٹ پر صدام کو کمرۂ پھانسی میں لایا گیا۔ وہاں موجود گواہان میں جج، علما، حکومتی نمائندے اور ایک ڈاکٹر شامل تھے۔

تین بج کر ایک منٹ پر پھانسی کا عمل شروع ہوا جسے دنیا نے کمرے کے کونے میں نصب ویڈیو کیمرے کے ذریعے دیکھا۔ اس سے قبل ایک سرکاری اہلکار نے پھانسی کا حکم پڑھ کر سنایا۔

صدام حسین تختے پر بلا خوف کھڑے رہے جبکہ جلاد خوفزدہ تھے، کچھ کانپ رہے تھے اور بعض نے اپنے چہرے نقاب سے چھپا رکھے تھے جیسے مافیا یا سرخ بریگیڈ کے افراد ہوں۔ وہ لرزاں اور سہمے ہوئے تھے۔

امریکی فوجی کہتا ہے:
"میرا جی چاہا کہ میں بھاگ جاؤں جب میں نے صدام کو مسکراتے دیکھا، جبکہ وہ آخری الفاظ میں مسلمانوں کا شعار پڑھ رہے تھے: لا إله إلا الله محمد رسول الله۔

میں نے سوچا کہ شاید کمرہ بارودی مواد سے بھرا ہوا ہے اور ہم کسی جال میں پھنس گئے ہیں۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں لگتا کہ کوئی شخص اپنی پھانسی سے چند لمحے پہلے مسکرا دے۔

اگر عراقی یہ منظر ریکارڈ نہ کرتے تو میرے امریکی ساتھی سمجھتے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں، کیونکہ یہ ناقابلِ یقین تھا۔

لیکن راز یہ ہے کہ اس نے کلمہ پڑھا اور مسکرایا۔
میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ واقعی مسکرایا، جیسے اس نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہو جو اچانک اس کے سامنے ظاہر ہوگئی ہو۔ پھر اس نے مضبوط لہجے میں کلمہ دوبارہ کہا جیسے کوئی غیبی طاقت اسے کہلا رہی ہو۔"

💢 صدام حسین کے بارے میں چند حقائق

1- وہ پہلا حکمران تھا جس نے اسرائیل کے شہر تل ابیب پر میزائل برسائے۔

2- اس نے یہودیوں کو خوف زدہ کر دیا کہ وہ بلیوں کی طرح بنکروں میں چھپ گئے۔

3- وہ جنگوں میں بھی عرب قومیت کے نعرے لگاتا تھا۔

4- اس نے جج سے کہا: "یاد ہے جب میں نے تمہیں معاف کیا تھا حالانکہ تمہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی!" جج گھبرا گیا اور استعفیٰ دے دیا، پھر رؤوف کو لایا گیا۔

5- اس نے کہا: "اے علوج! ہم نے موت کو اسکولوں میں پڑھا ہے، کیا اب بڑھاپے میں اس سے ڈریں گے؟"

6- اس نے شام و لبنان کو کہا: "مجھے ایک ہفتہ اپنی سرحدیں دے دو، میں فلسطین آزاد کرا دوں گا۔"

❣️ آخری لمحے

پھانسی سے قبل امریکی افسر نے صدام سے پوچھا:
"تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟"

صدام نے کہا:
"میری وہ کوٹ لا دو جو میں پہنتا تھا۔"

افسر نے کہا: "یہی چاہتے ہو؟ مگر کیوں؟"

صدام نے جواب دیا:
"عراق میں صبح کے وقت سردی ہوتی ہے، میں نہیں چاہتا کہ میرا جسم کانپے اور میری قوم یہ سمجھے کہ ان کا قائد موت سے خوفزدہ ہے۔"

پھانسی سے قبل اس کے لبوں پر آخری کلمات کلمہ شہادت تھے۔

اور اس نے عرب حکمرانوں سے کہا تھا:

"مجھے امریکہ پھانسی دے گا، مگر تمہیں تمہاری اپنی قوم پھانسی دے گی۔"

یہ کوئی معمولی جملہ نہ تھا بلکہ آج ایک حقیقت ہے۔

سلام ہے اس بہادر مسلمان کو 🫡

🌹 اللہ اس بہادر پر رحم فرمائے۔ 🌹

📌 اگر آپ نے یہ پڑھ لیا ہے تو حضور ﷺ پر درود بھیجیں

Address

Kasur

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when PTI Lovers posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share