Tanveer Bhatti

Tanveer Bhatti M.A Education &MLIS

12/07/2025
اسد اللہ غالب 1946ء میں قصور کے  ایک چھوٹے سے گاؤں فتوحی والا میں آنکھ کھولی۔ اردو صحافت کی دنیا میں ان کا نام ایک ایسی ...
04/04/2025

اسد اللہ غالب 1946ء میں قصور کے ایک چھوٹے سے گاؤں فتوحی والا میں آنکھ کھولی۔ اردو صحافت کی دنیا میں ان کا نام ایک ایسی روشن ستارے کی مانند ہے جس نے نہ صرف اپنے عہد کو منور کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اصولوں اور حق گوئی کی ایک زندہ روایت قائم کی۔ انہوں نے صحافت کے شعبے میں چھیاسٹھ سال تک ایک ایسی جدوجہد کی جو نہ صرف بے لوث تھی بلکہ ہمیشہ قومی مفادات، سچائی، اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کی گئی۔ ان کا صحافتی سفر اردو ڈائجسٹ کے نائب مدیر کے طور پر شروع ہوا، جہاں انہوں نے ادب، ثقافت، اور سماجی مسائل کو اجاگر کرنے والی تحریروں کے ذریعے اپنی منفرد شناخت بنائی۔ بعد ازاں نوائے وقت گروپ سے وابستگی نے ان کے کیریئر کو ایک نئی جہت دی، جہاں وہ میگزین ایڈیٹر سے لے کر ڈپٹی ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچے اور ادارتی صفحات کو قومی مباحثوں کا مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مجید نظامی جیسے عہد ساز صحافی کے ساتھ ان کا تعلق محض پیشہ ورانہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسا فکری رشتہ تھا جس میں دونوں نے مل کر پاکستانی صحافت کو مضبوط اقدار اور بے خوف رائے کی بنیاد فراہم کی۔ اسد اللہ غالب کے اداریے کسی بھی سیاسی یا سماجی دباؤ کے بغیر حقائق کی عکاسی کرتے تھے۔ ان کی تحریریں نہ صرف اخبار کے صفحات تک محدود رہیں، بلکہ عوامی شعور کو جھنجوڑنے اور قومی یکجہتی کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنیں۔ 1971ء کی جنگ کے دوران ان کا کردار خاص طور پر قابل ذکر ہے، جب انہوں نے مغربی محاذ پر بطور "ایمبیڈڈ صحافی" خدمات انجام دیتے ہوئے جنگ کی ہولناکیوں، فوجیوں کی قربانیوں، اور عوامی جذبات کو براہِ راست قارئین تک پہنچایا۔ ان کی انسانی درد مندی اور پیشہ ورانہ دیانتداری نے ان کی رپورٹنگ کو صرف خبروں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک دستاویزی ورثہ بنا دیا۔ بعد میں انہوں نے اسی تجربے پر مبنی چار کتابیں تحریر کیں، جن میں "آگ اور خون کی سرزمین" اور "محاذِ جنگ کے خطوط" جیسی تصانیف شامل ہیں، جو نہ صرف تاریخی ریکارڈ ہیں بلکہ جنگی صحافت کے ادبی شاہکار بھی ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں (1998ء) کے موقع پر جب پوری قوم ایک نازک تاریخی موڑ سے گزر رہی تھی، اسد اللہ غالب نے اپنے قلم کے ذریعے قومی خودمختاری کے جذبے کو تقویت بخشی۔ ان کے اداریوں اور کالمز نے نہ صرف عوامی حمایت کو اکٹھا کیا بلکہ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود قومی موقف کو واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ان کی تحریریں فوج اور عوام کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی تھیں، جو ہر محاذ پر ہونے والی قربانیوں کو اجاگر کرتیں اور قومی یکجہتی کی روح کو تازہ کرتی تھیں۔
ان کی صحافت کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ "قلم کو کبھی تلوار سے کم نہیں سمجھنا چاہیے"۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں آج بھی نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں، جو ان کے بے مثال ادبی اسلوب، گہری تحقیق، اور قومی محبت سے عبارت ہیں۔ اسد اللہ غالب نے نہ صرف صحافت بلکہ پاکستان کی اجتماعی سوچ کو تشکیل دینے میں ایک ایسا کردار ادا کیا جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

  کا استعمال  #مٹی کے برتن میں کھانا آہستہ آہستہ پکتا ہے اس کے برعکس سِلور، سٹیل، اور پریشر کُکر میں کھانا جلدی جلدی تیا...
25/03/2025

کا استعمال #

مٹی کے برتن میں کھانا آہستہ آہستہ پکتا ہے
اس کے برعکس سِلور، سٹیل، اور پریشر کُکر میں کھانا جلدی جلدی تیار ہوتا ہے لیکن
یہ کھانا پکتا نہیں بلکہ گلتا ھے،
تو سب سے پہلے اپنے برتن بدلیں، جن لوگوں نے برتن بدل لیے، اُن کی زِندگی بدل گئی،

2- #کُوکِنگ آئل
کوکنگ آئل وہ استعمال کریں،
جو کبھی نہ جَمے،
دُنیا کا سب سے بہترین تیل جو جمتا نہیں،
وہ زیتون کا تیل ہے،
لیکن یہ مہنگا ھے، ہمارے جیسے غریب لوگوں کے لیے سرسوں کا تیل ہے،
سرسوں کا تیل جمتا نہیں،
یہ وہ واحد تیل ہے،
جو ساری عُمر نہیں جمتا،
اور اگر جم جائے تو سرسوں نہیں ہے،
ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات
بھی اسی لیے کی جاتی ہے
کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے
سرسوں کے تیل کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ اس کے اندر جس چیز کو بھی ڈال دیں گے،
اس کو جمنے نہیں دیتا،
اس کی زِندہ مِثال اچار ہے
جو اچار سرسوں کے تیل کے اندر رہتا ہے
اس کو جالا نہیں لگتا،
اور اِن شاءالله جب یہ سرسوں کا تیل آپ کے جسم کے اندر جاۓ گا تو آپ کو کبھی بھی فالج،
مِرگی یا دل کا دورہ نہیں ہوگا،
أپ کے گُردے فیل نہیں ہونگے،
پوری زندگی آپ بلڈ پریشر سے محفوظ رہیں گے،
اِن شاء الله
کیونکہ
سرسوں کا تیل نالیوں کو صاف کرتا ہے،
جب نالیاں صاف ہوجاٸیں گی تو دل کو زور نہیں لگانا پڑے گا،
سرسوں کے تیل کے فاٸدے ہی فاٸدے ہیں،
ہمارے دیہاتوں میں جب جانور بیمار ہوتے ہیں تو بزرگ کہتے ہیں کہ ان کو سرسوں کا تیل پلاٸیں،
أج ہم سب کو بھی سرسوں کے تیل کی ضرورت ہے،

3- #نمک (نمک بدلیں)
نمک ہوتا کیا ھے؟
نمک اِنسان کا کِردار بناتا ھے،
ہم کہتے ہیں بندہ بڑا نمک حلال ھے،
یا پھر
بندہ بڑا نمک حرام ھے
نمک انسان کے کردار کی تعمیر کرتا ھے،
ہمیں نمک وہ لینا چاہیٸے جو مٹی سے آیا ہو،
اور وہ نمک أج بھی پوری دنیا میں بہترین پاکستانی کھیوڑا کا گُلابی نمک ھے،
پِنک ہمالین نمک 25 ڈالر کا 90 گرام یعنی 4000 روپے کا نوے گرام اور چالیس ہزار روپے کا 900 گرام بِکتا ھے،
اور ہمارے یہاں دس تا بِیس روپے کلو ھے،
بدقسمتی دیکھیں
ہم گھر میں آیوڈین مِلا نمک لاتے ہیں،
جس نمک نے ہمارا کردار بنانا تھا،
وہ ہم نے کھانا چھوڑ دیا۔
اس لٸے میری أپ سے گذارش ھے کہ ہمیشہ پتھر والا نمک استعمال کریں،

4- مِیٹھا
ہم سب کے دماغ کو چلانے کے لٸے میٹھا چاہیٸے،
اور میٹھا #الله # نے مٹی میں رکھا ہے ،
یعنی #گَنّا اور #گُڑ،
اور ہم نے گُڑ چھوڑ کر چِینی کھانا شروع کر رکھی ہے ،
خدارا گُڑ استعمال کریں گڑ

5- #پانی
انسان کے لیے سب سے ضروری چیز پانی ہے ،
جس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں،
پانی بھی ہمیں مٹی سے نِکلا ہُوا ہی پینا چاہیٸے،
پوری دنیا میں #زمزم کا پانی سب سے بہترین پانی ہے،
اس کے بعد پھر پنچاب کا پانی ہے ،
اہم بات
کبھی بھی گندم کو چھان کر استعمال نہ کریں،
گندم جس حالت میں آتی ہے،
اُسے ویسے ہی استعمال کریں،
یعنی سُوجی، میدہ اور چھان وغیرہ نکالے بغیر
کیونکہ
ہمارے آقا کریم حضرت محمد بغیر چھانے أٹا کھاتے تھے،
تو پھر طے یہ ہوا کہ ہمیں یہ پانچ کام کرنے چاہٸیں،
1- مٹی کے برتن،
2- سرسوں کا تیل،
3- گُڑ،
4- پتھر والا نمک،
اور
5- زمین کے اندر والا پانی،
یاد رہے یہ پانی مٹی کے برتن میں رکھ کر مٹی کے گلاس یا پیالے میں پئیں،
اس کے علاوہ گندم کا ان چھنا آٹا،

اب سوال یہ ہے کہ ہم یہ ساری چیزیں کیوں لیں ؟
یہ ساری چیزیں ہم نے اس لیے لینی ہیں کہ اسی میں ہماری صحت ہے،
ہم پیدا بھی مٹی سے ہوئے ہیں اور واپس دفن بھی اسی مٹی میں ہونا ہے ..

*اِٹ سِٹ*یہ ایک خود رو بوٹی ہے اور جنگلوں خالی زمینوں اور ریگستانوں میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ بوٹی کماد جوار مکئی کی فصلوں می...
22/03/2025

*اِٹ سِٹ*
یہ ایک خود رو بوٹی ہے اور جنگلوں خالی زمینوں اور ریگستانوں میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ بوٹی کماد جوار مکئی کی فصلوں میں بھی خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بوٹی شاخ در شاخ ایک یا دو میٹر لمبائی میں زمین پر ادھر ادھر پھیلی ہوتی ہے
اس کے پتے خرفہ ساگ کے پتوں کی مانند بغیر کٹاؤ کے گول ہوتے ہیں ، اس کی رنگت سبز ہوتی ہے۔ اس کے درمیان میں اور کناروں پر سرخ اور نیلی لکیریں ہوتی ہیں ، عام طور پر یہ تین اقسام کی ہوتی ہے
اول سرخ پھولوں والی ، دوم سفید پھولوں والی ، سوم نیلے پھولوں والی ، پاکستان میں سفید اور سرخ پھولوں والی اٹ سٹ پائی جاتی ہے

*اِٹ سِٹ کے فوائد*
گو کہ اٹ سٹ فصلوں کے لئے نقصان دہ ہے مگر یہ انسانی جسم کے لئے ہت فائدہ مند ہے۔ اس سے بہت کی بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے

*موتیا جالا*
ابتدائی موتیا بند ، نظر کی کمزوری اور آنکھ کا جالا کے امراض میں بوٹی کا رس آنکھوں میں ٹپکانے سے آفاقہ حاصل ہوتا ہے۔

*بلڈ پریشر*
ہائی بلڈ پریشر کی صورت میں اٹ ست کی شاخیں پتوں سمیت کوٹ کر ان کا پانی نکال لیں ، دو سو گرام شربت بزوری میں تین گرام پانی ملائیں پھر آسروں اور دھنیا ہم وزن پیس لیں اور چائے کا چوتھائی چمچ شربت کے ساتھ کھائیں صبح شام دو وقت استعمال کریں

*یرقان اور سوکڑا*
یرقان کے مرض میں اور بچوں کے سوکڑا پن کی بیماری میں سرخ پھولوں والی اٹ سٹ کی جڑوں کے چھوٹےچھوٹے ٹکڑے کر کے ہار کی شکل میں گردن میں ڈال کر لٹکائیں بہت جلد افاقہ ہو گا۔

*چھائیاں*
چہرے کی رنگت نکھارنے اور چھائیاں دور کرنے کے لئے اس کے پتے چہرے پر ملیں چہرے کی رنگت نکھر جائے گی اور چھائیاں دور ہو جائیں گی

*گردہ و مثانہ*
اگر گردہ اور مثانہ میں گرمی ہو جائے یا پیشاب جل کر یا رک کر آئے تو ایسی حالت میں اٹ سٹ کے پتوں کا چھ گرام پانی نکال کر اس کے ساتھ برنا درخت کے تین گرام پتے ملائیں اور ڈیڑھ لیٹر دودھ کے ساتھ استعمال کریں
چند روز کے استعمال سے پتھری کی ٹکرے ہو کر پیشاب کے رستے خارج ہو جائیں گے۔ اس مرض کے لئے یہ اکسیر نسخہ ہے

*ہاضمہ اور جگر*
ہاضمہ کی درستگی اور جگر درست کرنے کے لئے اٹ سٹ کا ستعمال مفید ہے ، اٹ سٹ کے دو سو پچاس گرام پھول پچاس گرام ٹماٹر کے ساتھ کوٹ کر پانی الگ کر لیں ، اس پانی کو نہار منہ پینے سے ہاضمہ درست ہو جائے گا
بھوک لگنے لگتی ہے ، معدے کا درد اور اپھارہ دور ہو جاتا ہے ، طبیعت کے چڑ چڑے پن اور جگر کے امراض میں 150 گرام تازہ اٹ سٹ کے ساتھ سو گرام تازہ مکو کوٹ کر پانی نکال لیں اس میں حسب منشا شربت بزوری ملا لیں
اور ہر زور صبح شام نصف چٹکی کشتہ قلعی اور نصف چٹکی کشتہ فولاد کے ساتھ استعمال کریں افاقہ ہو گا

*جوڑوں کا درداور ورم*
جوروں کے درد اور ہاتھ پاؤں کے ورم دور کرنے کے لئے اٹ سٹ کی شاخیں پتوں سمیت توڑ کر کوٹ لیں اور ان میں سے پانی نکال کر برابر وزن میں تل کا تیل ملا کر آنچ پر رکھ دیں ۔ جب اس میں سے پانی اڑ جائے
اور صرف تیل باقی رہ جائے تو چولہے سے نیچے اتار لیں ، ٹھنڈا ہونے پر شیشی میں محفوظ کر لیں بوقت ضرورت متاثرہ حصہ پر ملیں بہت جلد شفا ملے گی
اس کے علاوہ اگر جسم پر پھنسی پھوڑا نکل آئے تو اس کے پتے ہاتھوں پر مسل کر پھوڑے پھنسی پر لگائیں آرام آ جائے گا

*گنٹھیا*
گل منڈی ، گوکھرو ، ڈیلہ گھاس ، گلو خشک ، بدھارا ، فلفل دراز ، تربد سفید ، اٹ سٹ کی جڑ ، سونٹھ
تمام چیزوں کو ہم وزن لےکر باریک سفوف بنالیں صبح شام کھانے کے آدھے گھنٹے بعد نیم گرم پانی کے ساتھ تین ماشے دوا استعمال کریں ان شاءاللہ چند روز میں فرق محسوس ہو جائيں گا

*پرہيز*
گوشت ، چاول ، اور بادی اشیاء سے مکمل پرہيز کریں

Advance
17/03/2025

Advance

اس تلوار کی لمبائی چوڑائی دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم سے ہزاروں سال پہلے ہم سے کئی گنا طاقتور ۔قدآور اور سمجھدار...
15/03/2025

اس تلوار کی لمبائی چوڑائی دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم سے ہزاروں سال پہلے ہم سے کئی گنا طاقتور ۔قدآور اور سمجھدار تہذیب یافتہ اقوام دنیا میں آباد تھیں۔

رنگیلا: ایک نابغۂ روزگار فنکار کی داستان9 مارچ 1973، پاکستانی فلمی صنعت کے افق پر ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ فلمساز، ہدایت...
13/03/2025

رنگیلا: ایک نابغۂ روزگار فنکار کی داستان

9 مارچ 1973، پاکستانی فلمی صنعت کے افق پر ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ فلمساز، ہدایتکار، اداکار، موسیقار، اور گلوکار—یہ تمام کردار ایک ہی نام میں سمٹ گئے: رنگیلا۔ ان کی پنجابی فلم دو رنگیلے کراچی کے گوڈین اور حیدرآباد کے کوہِ نور سینما میں نمائش پذیر ہوئی اور باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یہ صرف ایک فلم نہیں تھی، بلکہ اس شخص کی انتھک محنت، بے پناہ صلاحیت، اور ایک الگ پہچان بنانے کی جدوجہد کی داستان تھی، جو افغانستان کے ایک عام سے گھر میں پیدا ہوا اور پشاور آ کر قسمت آزمانے لگا۔

ابتدائی زندگی: ایک خواب کی تلاش

رنگیلا کا اصل نام محمد سعید خان تھا۔ وہ ایک عام شکل و صورت کا آدمی تھا، لیکن اس کے اندر ایسا ذہن بسا تھا جو فلمی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والا تھا۔ پشاور آنے کے بعد فلموں کا ایسا دیوانہ ہوا کہ سنیما کے بورڈ بنانے لگا۔ لیکن قسمت کے فیصلے کچھ اور تھے۔ انور کمال پاشا نے 1958 کی فلم چن ماہی میں پہلی بار اس کی جھلک دکھائی، مگر اصل موقع گلبدن میں ملا، جہاں اس کے مکالمے، حرکات اور باڈی لینگویج نے سب کو حیران کر دیا۔

رنگیلا نے مزاحیہ اداکاری میں اپنی شناخت بنا لی، مگر وہ ایک ایسا شخص تھا جو صرف کامیڈی کا سہارا نہیں لینا چاہتا تھا۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا، کچھ ایسا جو پاکستان کی فلمی صنعت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے۔

عروج کی داستان: دیا اور طوفان سے دو رنگیلے تک

1968 میں، جب لوگ رنگیلا کو ایک مضحکہ خیز شکل والا اداکار سمجھتے تھے، اس نے سب کو غلط ثابت کر دیا۔ دیا اور طوفان نامی فلم میں وہ فلمساز، ہدایتکار، مصنف، نغمہ نگار، گلوکار اور اداکار سب کچھ تھا۔ یہ فلم نہ صرف سپر ہٹ ہوئی بلکہ ایک نئی روایت قائم کر گئی کہ کوئی عام شکل و صورت والا شخص بھی سپر اسٹار بن سکتا ہے—اگر اس کے پاس قابلیت ہو۔

رنگیلا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس کی فلموں میں کردار حقیقت کے قریب ہوتے تھے۔ اس کا مکالمہ "میرا بیٹا سب سے خوبصورت ہے، کیونکہ ماں کے لیے کوکھ کا کوئلہ بھی خوبصورت ہوتا ہے" نہ صرف ایک فلمی مکالمہ تھا بلکہ ایک جذباتی حقیقت تھی، جو لوگوں کے دلوں میں بس گئی۔

1973 میں، دو رنگیلے کے ساتھ رنگیلا نے پھر وہی کر دکھایا۔ اس بار وہ صرف کامیڈی تک محدود نہیں تھا بلکہ ایک ڈبل رول میں ایک عام دیہاتی اور ایک سپر اسٹار کی کہانی لے کر آیا۔ شیرو، جو ایک معصوم گلوکار تھا، اور رنگیلا، جو فلمی دنیا کا مغرور بادشاہ تھا۔ فلم کی کہانی نے لوگوں کے دل جیت لیے، اور گانے—"سن میرے ککو او، سن میرے پپو، تساں میری قدر پہچانی اے"—ہر زبان پر تھے۔

فلمی دنیا کی حقیقتیں اور رنگیلا کا جرأت مندانہ انداز

دو رنگیلے دراصل پاکستانی فلمی صنعت کی ایک تلخ حقیقت کی عکاسی تھی۔ رنگیلا نے فلمی دنیا کے عروج و زوال، اداکاروں کی غرور پرستی، اور سسٹم کی خامیوں کو بے نقاب کیا۔ یہ فلم ایک آئینہ تھی، جس میں ہر وہ شخص دیکھ سکتا تھا جو فلمی دنیا کے پردے کے پیچھے چھپے سچ کو جاننا چاہتا تھا۔

رنگیلا نے اپنی فلم میں 20 کے قریب مہمان اداکاروں کو جگہ دی، جو اس وقت کسی بھی فلم میں ایک نیا تجربہ تھا۔ فلم کے نغمات، مکالمے، کہانی، اور کردار ہر لحاظ سے شاندار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فلم نے پنجاب میں 77 ہفتے چل کر پلاٹینم جوبلی اور سندھ میں 27 ہفتے چل کر سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔

رنگیلا: ایک ناقابل فراموش فنکار

رنگیلا صرف ایک اداکار نہیں تھا، وہ ایک تحریک تھا۔ اس نے رنگیلا، دو رنگیلے، رنگیلا اور منور ظریف، ساجن رنگ رنگیلا، رنگیلے جاسوس، رنگیلا عاشق جیسی بے شمار فلمیں دیں۔ وہ دنیا کا واحد اداکار تھا جس کے نام پر سب سے زیادہ فلمیں بنائی گئیں۔

اس نے کئی شعبوں میں اپنی صلاحیتیں دکھائیں، چاہے وہ موسیقی ہو، ہدایتکاری ہو، یا گلوکاری۔ دو رنگیلے میں اس نے اپنے نام کو موسیقار کے طور پر شامل کرایا، حالانکہ اصل دھنیں کمال احمد نے ترتیب دی تھیں۔

آخری سفر: ایک عظیم انسان کی یادیں

رنگیلا کی کہانی ایک ایسے انسان کی ہے جس نے اپنی ہنسی اور مزاح میں غموں کو چھپایا۔ جو فلمی دنیا میں آ کر خود کو منوانے کے لیے دن رات محنت کرتا رہا۔ اس کی کامیابیاں، اس کی ناکامیاں، اس کی جدوجہد، سب کچھ ایک سبق ہے کہ اگر جذبہ اور لگن ہو تو کچھ بھی ممکن ہے۔

آج بھی جب کوئی پاکستانی فلمی صنعت کی بات کرتا ہے تو رنگیلا کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھا، جو کبھی مٹی میں دبا نہیں سکتی۔ اس کی فلمیں، اس کے مکالمے، اور اس کا انداز ہمیشہ زندہ رہے گا، کیونکہ وہ رنگیلا تھا—پاکستانی سینما کا سب سے منفرد، سب سے نایاب، اور سب سے عظیم فنکار۔
منقول۔۔

"پاکستان کا وہ وزیراعظم جودودھ فروش تھااوردودھ فروش سے وزیر اعظم بنا ؟" رُلا دینے والی داستان۔ 20ستمبر1916ء کو لاہور کے ...
16/02/2025

"پاکستان کا وہ وزیراعظم جودودھ فروش تھااوردودھ فروش سے وزیر اعظم بنا ؟" رُلا دینے والی داستان۔

20ستمبر1916ء کو لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک بچہ پیدا ہوا‘ چاربہن بھائیوں میں یہ سب سے چھوٹاتھا‘ پوراگاؤں ان پڑھ مگر اسے پڑھنے کا جنون تھا‘اس کے گاؤں میں کوئی سکول نہ تھالہٰذا یہ ڈیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے کےلئےجاتا۔

گھر سے سکول تک کا سفر پیدل طے کرتا۔چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ 8میل دور دوسرے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا۔اس نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔مزید تعلیم حاصل کرنے لاہورآیا اوریہاں اس نے سنٹرل ماڈل سکول میں(جوکہ اس وقت کا نمبر 1سکول تھا) داخلہ لے لیا‘اس کا گاؤں شہر سے13کلومیٹر دور تھا‘ غریب ہونے کی وجہ اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل تھی مگر اس نے مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے بلکہ ان حالات کے مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔اس نے تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ لے کرشہر میں بیچے گا اور حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنی تعلیم جاری رکھے گا چنانچہ وہ صبح منہ اندھیرے اذان سے پہلے اٹھتامختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا‘ڈرم کو ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتا‘ شہر میں وہ نواب مظفر قزلباش کی حویلی اور کچھ دکانداروں کو دودھ فروخت کرتا اس کام سے فارغ ہوکرمسجد میں جا کر کپڑے بدلتا اور بھاگم بھاگ سکول پہنچتا۔ کالج کے زمانہ تک وہ اسی طرح دودھ بیچتا اور اپنی تعلیم حاصل کرتا رہا‘ اس نے غربت کے باوجود کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا۔بچپن میں اس کے پاس سکول کے جوتے نہ تھے‘ سکول کے لئے بوٹ بہت ضروری تھے‘ جیسے تیسے کر کے اس نے کچھ پیسے جمع کر کے اپنے لیے جوتے خریدے‘ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ گاؤں میں بھی جوتے پہنتا تو وہ جلدی گھِس جاتے چنانچہ وہ گاؤں سے والد کی دیسی جوتی پہن کر آتا اور شہر میں جہاں دودھ کا برتن رکھتا وہاں اپنے بوٹ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتااور اپنے سکول کے جوتے پہن کے سکول چلا جاتا۔

والد سارا دن اور بیٹا ساری رات ننگے پاؤں پھرتا‘ 1935ء میں اس نے میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا‘ اب وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے گاؤں سے ریڑھی میں دودھ لاتا اور شہر میں فروخت کر دیتا ‘اس کام میں کبھی اس نے عار محسوس نہ کیا‘ فرسٹ ائیر میں اس کے پاس کوٹ نہ تھااور کلاس میں کوٹ پہننا لازمی تھا چنانچہ اسے کلا س سے نکال کر غیر حاضری لگا دی جاتی‘ اس معاملے کا علم اساتذہ کو ہوا تو انہوں نے اس ذہین طالبعلم کی مدد کی‘ نوجوان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا‘ 1939ء میں اس نے بی اے آنر کیا‘ یہ اپنے علاقہ میں واحد گریجویٹ تھا‘

یہ نوجوان اس دوران جان چکا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی کام آسانی سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا‘ کامیابیوں اور بہتریں کامیابیوں کے لیے ان تھک محنت اور تگ و دو لازمی عنصر ہے۔ معاشی دباؤ کے تحت بی اے کے بعد اس نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری کر لی چونکہ اس کا مقصد اور گول لاء یعنی قانون پڑھنا تھا لہٰذا کچھ عرصہ بعد کلرکی چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگا اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیا۔1950ء سے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی‘ اس پر خدمت خلق اور آگے بڑھنے کا بھوت سوار تھا‘ اس نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے‘اس جذبہ کے تحت 1965ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا‘

پیپلزپارٹی کے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گیا۔ 1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوا اور نواب مظفر قزلباش کے بھائی کو جن کے گھر یہ دودھ بیچتا کرتا تھا‘ شکست دی۔1971ء میں دوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک اور پسماندہ علاقہ جات بنا‘ 1972ء کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا‘ وزارت اعلیٰ کے دوران اکثر رکشے میں سفر کرتا‘اپنے گورنر مصطفی کھر کے ساتھ نبھانہ ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثال قائم کی‘ 1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی‘ 1973ء میں وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سونپا گیا۔ 1976ء میں وفاقی وزیر بلدیات و دیہی مقرر گیا‘ دو دفعہ سپیکر قومی اسمبلی بنا اور 4 سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر رہا۔

ایک مفلس و قلاش ان پڑھ کسان کا بیٹا جس نے کامیابی کا ایک لمبا اور کٹھن سفر اپنے دودھ بیچنے سے شروع کیا اور آخر کار پاکستان کا وزیراعظم بنا‘یہ پاکستان کا منفرد وزیراعظم تھا جو ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں کرائے کیمکان میں رہا‘ جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا‘ جس کا جنازہ اسی کرائے کے گھر سے اٹھا‘ جو لوٹ کھسوٹ سے دور رہا‘ جس کی بیوی اس کے وزارت عظمیٰ کے دوران رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھاتی پھرتی ۔ میرے عزیزہم وطنو! ملک معراج خالد تاریخ کی ایک عہد ساز شخصیت تھے‘ آپ 23 جون 2003 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ وفات سے قبل پاکستان کے اس عظیم شخص کے پاس نا تو کوئی بینک بیلنس تھا نا کوئی ذاتی جائداد بلکہ بیماری کا علاج تک سرکاری ہسپتال میں ہوتا رہا۔یہ تھے پاکستان کے وہ درویش صفت وزیرِاعظم جنہوں نے کٹھن حالات کا مُقابلہ کرکے ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا اور اتنا اعلیٰ منصب ملنے کے باوجود کرپشن اور لوٹ مار سے اپنا دامن بچائے رکھا۔۔ کریم اللّہ ملک معراج خالد مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور وطنِ عزیز کو ایسے ہی مُخلص حکمران عطاء فرمائے۔۔آمین

Address

Kasur

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tanveer Bhatti posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share