04/04/2025
اسد اللہ غالب 1946ء میں قصور کے ایک چھوٹے سے گاؤں فتوحی والا میں آنکھ کھولی۔ اردو صحافت کی دنیا میں ان کا نام ایک ایسی روشن ستارے کی مانند ہے جس نے نہ صرف اپنے عہد کو منور کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اصولوں اور حق گوئی کی ایک زندہ روایت قائم کی۔ انہوں نے صحافت کے شعبے میں چھیاسٹھ سال تک ایک ایسی جدوجہد کی جو نہ صرف بے لوث تھی بلکہ ہمیشہ قومی مفادات، سچائی، اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کی گئی۔ ان کا صحافتی سفر اردو ڈائجسٹ کے نائب مدیر کے طور پر شروع ہوا، جہاں انہوں نے ادب، ثقافت، اور سماجی مسائل کو اجاگر کرنے والی تحریروں کے ذریعے اپنی منفرد شناخت بنائی۔ بعد ازاں نوائے وقت گروپ سے وابستگی نے ان کے کیریئر کو ایک نئی جہت دی، جہاں وہ میگزین ایڈیٹر سے لے کر ڈپٹی ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچے اور ادارتی صفحات کو قومی مباحثوں کا مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مجید نظامی جیسے عہد ساز صحافی کے ساتھ ان کا تعلق محض پیشہ ورانہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسا فکری رشتہ تھا جس میں دونوں نے مل کر پاکستانی صحافت کو مضبوط اقدار اور بے خوف رائے کی بنیاد فراہم کی۔ اسد اللہ غالب کے اداریے کسی بھی سیاسی یا سماجی دباؤ کے بغیر حقائق کی عکاسی کرتے تھے۔ ان کی تحریریں نہ صرف اخبار کے صفحات تک محدود رہیں، بلکہ عوامی شعور کو جھنجوڑنے اور قومی یکجہتی کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنیں۔ 1971ء کی جنگ کے دوران ان کا کردار خاص طور پر قابل ذکر ہے، جب انہوں نے مغربی محاذ پر بطور "ایمبیڈڈ صحافی" خدمات انجام دیتے ہوئے جنگ کی ہولناکیوں، فوجیوں کی قربانیوں، اور عوامی جذبات کو براہِ راست قارئین تک پہنچایا۔ ان کی انسانی درد مندی اور پیشہ ورانہ دیانتداری نے ان کی رپورٹنگ کو صرف خبروں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک دستاویزی ورثہ بنا دیا۔ بعد میں انہوں نے اسی تجربے پر مبنی چار کتابیں تحریر کیں، جن میں "آگ اور خون کی سرزمین" اور "محاذِ جنگ کے خطوط" جیسی تصانیف شامل ہیں، جو نہ صرف تاریخی ریکارڈ ہیں بلکہ جنگی صحافت کے ادبی شاہکار بھی ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں (1998ء) کے موقع پر جب پوری قوم ایک نازک تاریخی موڑ سے گزر رہی تھی، اسد اللہ غالب نے اپنے قلم کے ذریعے قومی خودمختاری کے جذبے کو تقویت بخشی۔ ان کے اداریوں اور کالمز نے نہ صرف عوامی حمایت کو اکٹھا کیا بلکہ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود قومی موقف کو واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ان کی تحریریں فوج اور عوام کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی تھیں، جو ہر محاذ پر ہونے والی قربانیوں کو اجاگر کرتیں اور قومی یکجہتی کی روح کو تازہ کرتی تھیں۔
ان کی صحافت کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ "قلم کو کبھی تلوار سے کم نہیں سمجھنا چاہیے"۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں آج بھی نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں، جو ان کے بے مثال ادبی اسلوب، گہری تحقیق، اور قومی محبت سے عبارت ہیں۔ اسد اللہ غالب نے نہ صرف صحافت بلکہ پاکستان کی اجتماعی سوچ کو تشکیل دینے میں ایک ایسا کردار ادا کیا جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔