تاریخ کے جھروکوں سے

تاریخ کے جھروکوں سے Respect is the Foundation of Any Relationship

26/10/2025

آنکھیں حریص نوچ لوں چہرے ادھیڑ دوں
جتنے غلط بُنے گئے لہجے ادھیڑ دوں

پھر ساری ڈوریوں کو میں سلجھاؤں بیٹھ کر
آپس میں جو الجھ گئے فرقے ادھیڑ دوں

منظر دکھا رہی ہے وہ جو دیکھنے نہیں
ایسا نہ ہو میں آنکھ کے خُلیے ادھیڑ دوں

جرّاحِ وقت ٹھیک سے پیوند کر یہ زخم
رسنے لگیں تو یہ نہ ہو سارے ادھیڑ دوں

اتنی بری ہے عالمِ وحشت میں ایک روز
اس الٹی کائنات کے ریشے ادھیڑ دوں

دم گھٹ رہا ہے آج تو پوشاکِ عمر میں
جی چاہتا ہے زیست کے بخیے ادھیڑ دوں

کومل جوئیہ

26/10/2025

رنگ و رس کی ہوس اور بس
مسئلہ دسترس اور بس
سب تماشائے کن ختم شد
کہہ دیا اس نے بس اور بس
اس مصور کا ہر شاہکار
ساٹھ پینسٹ برس اور بس
یوں بنی ہیں رگیں جسم کی
ایک نس ٹس سے مس اور بس
کیا ہے مابین صیاد و صید
ایک چاکِ قفس اور بس

26/10/2025

قدیم یونان میں ایک پہلوان تھا جس کا نام مائیلو تھا اس پہلوان کی پہچان یہ تھی کہ ایک بڑے بیل کو اپنے کندھے پر لے کر چلتا تھا۔ طاقت کا یہ نظارہ ہی اس کے مخالفین کیلئے کافی ہوتا اور وہ ہمت ہار جاتے اور جنگ سے پہلے ہی جنگ ہار جاتے۔ فرض کیا آپ بھی اس گاؤں میں ہوتے اور دیکھتے کہ مائیلو ایک بیل کندھے پر بٹھائے چل رہا ہے تو آپ کیا کرتے؟ آپ بھی ایک بیل کو اٹھانے کی کوشش کرتے اور ناکام ہو جاتے لیکن مائیلو نے کسی کو دیکھ کر بیل نہیں اٹھایا بلکہ اس نے بیل کے بچے کو سارا دن کندھے پر گھمانے سے یہ سفر شروع کیا تھا۔ وہ روزانہ بیل کے بچھڑے کو کندھے پر بٹھا کر گھومنے والے مائیلو کی طاقت بیل کے بچے کی بڑھتی جسامت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ اب یہ دیکھنے والوں کیلئے حیرت کے دور میں داخل ہوگئی۔ مائیلو اب اس جسامت کا بیل لیکر گھوم رہا ہوتا تھا جس کا دوسرا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مایوسی اپنی صلاحیت اپنی طاقت اور اپنا مقام کسی ایسے فرد کے ساتھ تولنے میں ملتی ہے جس کے ماضی کے سفر سے ہم آگاہ نہ ہوں۔ علمی میدان میں پہلوان بننے کے لیے صرف ایک ہی شرط ہے اپنے سفر کا آغاز کر دیجیئے۔ کسی کو ہرانے کے لیے نہیں بلکہ علم کے سمندر سے سیراب ہونے کےلیے، یاد رکھیے جتنا گہرا غوطہ اتنا سُچا موتی۔

25/10/2025

فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا
فاطمہ بنت اسد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں۔ آپ نے قریش کے معزز ترین خاندان ہاشم میں آنکھ کھولی اور نہایت نازو نعم کے ساتھ بہترین تربیت پائی۔ آپ رضی اللہ عنہ بچپن سے ہی نہایت اعلیٰ اوصاف کی مالک تھیں چنانچہ گوہر شناس عبدالمطلب نے انہیں اپنی بہو بنانے کے لیے منتخب کرلیا اور اپنے فرزند عبدمناف (ابو طالب) سے ان کانکاح کردیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا انتقال ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ رکھا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تمام اولادوں سے بڑھ کر چاہتے تھے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اس بات کی آزادی تھی کہ جس وقت چاہتے ان کے پاس چلے جاتے تھے خواہ وہ سوئے ہوئے ہوں یا آرام کررہے ہوں حالانکہ دوسرے بیٹوں کو ان کی ہیبت کی وجہ سے یہ جرأت نہ ہوتی۔ کعبہ کی دیوار کے سایہ میں ان کے لیے ایک فرش بچھایا جاتا تھا جس پر ادب کی وجہ سے ان کی کوئی اولاد نہیں بیٹھتی تھی مگر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم آکر سیدھے اسی فرش پر بیٹھ جاتے۔ آپ کے چچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہٹانا چاہتے تو عبدالمطلب کہتے میرے بیٹے کو چھوڑ دو خدا کی قسم اس کی شان ہی کچھ اور ہے مجھے امید ہے کہ یہ اپنے بلند مرتبے تک پہنچے گا جس پر اس سے پہلے کوئی عرب نہ پہنچا ہوگا۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ قبیلہ بنی مذلج جو کہ قیافہ شناسی کے لیے مشہور تھا اس کے چند لوگ عبدالمطلب کے پاس آئے اور کہا کہ اس بچے کی خاص حفاظت کرنا کیونکہ ہم نے کوئی قدم ایسا نہیں دیکھا جو مقام ابراہیم پر حضرت ابراہیم علیہ سلام کے نقش قدم سے اس قدر مشابہہ ہو جیسی مشابہت اس بچے کا نشان قدم رکھتا ہے۔ اس موقع پر ابوطالب وہاں موجود تھے عبدالمطلب نے ان سے کہا کہ یہ لوگ جو بات کہہ رہے ہیں اسے غور سے سنو اور اس کی حفاظت کرو۔ شفیق دادا کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ حاصل نہ رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف 8 سال کے تھے کہ عبدالمطلب کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کفالت میں لے لیا ان کا اصل نام عبدمناف تھا لیکن آپ اپنے بڑے بیٹے طالب کی وجہ سے ابوطالب کی کنیت سے اتنے مشہور ہوگئے کہ اصل نام دب کر رہ گیا۔ م ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اپنی اولادوں سے بڑھ کر چاہتے تھے۔ جہاں جاتے ساتھ لے جاتے، کھانے کے وقت کوشش کرتے تھے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آکر شریک ہوں تب دوسرے کھانا شروع کریں۔ شروع میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب چچا کے پاس آتے تو جیسا کہ قاعدہ تھاکہ بچوں کو تھال میں کھانا دے دیا جاتا اور بچے چھین جھپٹ کر کھاتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ چاپ کنارے بیٹھ جاتے۔ ایک دن حضرت فاطمہ بنت اسد بچوں کو دیکھنے آئیں تو دیکھا کہ سارے بچے کھانے میں لگے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنارے بیٹھے ہیں۔ محبت سے پوچھا تو پتا چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اس طرح چھین جھپٹ کر نہیں کھاتے تب سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علیحدہ برتن میں کھانا نکالتیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان سے کھاسکیں۔ حضرت ابو طالب کے ہاں اتنی فراعت نہ تھی لہٰذا سب کا پیٹ بھر نہ پاتا پھر یہ بات محسوس کی گئی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے میں شریک ہوتے اور ساتھ کھاتے تو سب کا پیٹ بھر کر بھی کھانا بچ رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ برکت دیکھ کر ابوطالب نے قاعدہ بنالیا کہ جب سب کھانے کے لیے بیٹھتے تو وہ کہتے ٹھہرو جب تک میرا بیٹا نہ آجائے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آجاتے تو کھانا شروع کیا جاتا۔ ابوطالب کہتے بیٹا تم بڑے مبارک ہو جتنا وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطالب کے ساتھ گزارا حضرت فاطمہ نے ایک ماں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی اور محبت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ ابو طالب نے ایک دن تنگ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور کہا بھتیجے تمہاری قوم نے آکر مجھ سے یہ یہ باتیں کی ہیں تم مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میں اٹھا نہ سکوں لہٰذا تم اپنی قوم سے وہ باتیں کہنی چھوڑ دو جو انہیں ناگوار ہیں۔ ابوطالب کی یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہوا کہ اب چچا کے لیے میری حمایت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا جان اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دیں تو میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ یا تو اللہ مجھے کامیاب فرمادے یا میں اس راہ میں ہلاک ہو جاوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ کر رنجیدہ انداز میں چچا کے پاس سے اٹھ کر جانے لگے کہ ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو انہوں نے کہا اپنا کام جاری رکھو اور جو کچھ چاہو کرو خدا کی قسم میں کسی چیز کی وجہ سے بھی تمہیں دشمنوں کے حوالے نہ کروں گا۔ حضرت ابو طالب کی اس استقامت اور ثابت قدمی میں حضرت فاطمہ قدم بہ قدم آپ کے ساتھ تھیں۔ حضرت فاطمہ بنت اسد کے سارے بچے ناموس رسالت کے محافظ و شیدائی تھے ایک ماں کے لیے سکون قلب کی اس سے بڑھ کر کیا بات ہوگی۔ اور جس خاتون کو سید المرسلین کی قمیض کا کفن اور آخری آرام گاہ کو جسم مبارک کا لمس نصیب ہوا ہو ان کے مراتب کے کیا ہی کہنے ہیں۔ جب دارِ دنیا سے آپ نے رحلت فرمائی تو حضرت علی روتے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو پوچھا کہ کیا بات ہے؟ عرض کیا ابھی ابھی میری والدہ انتقال کر گیئں ہیں۔ آنحضرت نے آبدیدہ ہو کر فرمایا خدا کی قسم وہ میری بھی ماں تھیں اور پھر اپنی پیراہن اتار کر دی اور فرمایا یہ پیراہن انہیں کفن کے طور پر پہنائی جائے اور جب قبر کھودی جا چکی تو انہیں دفنانے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود قبر میں اترے اسے کناروں سے کھود کر کشادہ کیا اور کچھ دیر کے لئے لحد میں لیٹ گئے اور دائیں بائیں کروٹ لینے کے بعد باہر آئے اور روتے ہوئے فرمایا اے مادر گرامی ! اللہ آپ کو جزائے خیر دے آپ بہترین ماں تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امتیازی برتاؤ کو دیکھ کر کچھ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور کے لئے یہ چیزیں آپ سے دیکھنے میں نہیں آئیں تو فرمایا میرے چچا ابو طالب کے بعد اس خاتون کے سب سے زیادہ مجھ پر احسانات ہیں۔

23/10/2025

حضرت سعید بن جبیر جو کے ایک تابی بزرگ تھے ایک دن ممبر پر بیٹھے ہوۓ یہ الفاظ ادا کیے کہ حجاج ایک ظالم شخص ہے۔ ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ہیں تو آپکو دربار میں بلا لیا اور پوچھا کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ہیں تو آپ نے فرمایا ہاں بالکل تو ایک ظالم شخص ہے۔ یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ہوگیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کردیے جب آپ کو قتل کرنے کے لیے دربار سے باہر لے کر جانے لگے تو آپ مسکرا دیے حجاج کو ناگوار گزرا اس نے پوچھا کیوں مسکراتے ہو ؟ آپ نے جواب دیا تیری بے وقوفی پر مسکراتا ہوں ۔ حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے زبح کر دو جب خنجر گلے پر رکھا گیا تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا اے اللہ میرے چہرہ تیری طرف ہے میں تیری رضا پر راضی ہوں یہ حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا۔ جب حجاج نے یہ سنا تو بولا اسکا رخ قبلہ کی طرف سے پھیر دو جب قبلہ سے رخ پھیرا تو آپ نے فرمایا یااللہ رخ جدھر بھی ہو تو ہر جگہ موجود ہے مشرق مغرب ہر طرف تیری حکمرانی ہے میری دعا ہے کہ میرا قتل اسکا آخری ظلم ہو میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا جب آپکی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا اس کے ساتھ ہی آپکو شہید کر دیا گیا اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ہو گیا۔ ایک سمجھدار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ہے جب کوئی خوشی خوشی مسکراتا ہوا اللہ کی رضا پر راضی ہوجاتا ہے۔ حجاج بن یوسف کے نام سے سب واقف ہیں، حجاج کو عبدل ملک نے مکہ مدینہ طائف اور یمن کا نائب مقرر کیا تھا اور اپنے بھائی بشر کی موت کے بعد اسے عراق بھیج دیا جہاں سے وہ کوفہ میں داخل ہوا۔ ان علاقوں میں بیس سال تک حجاج کا عمل دخل رہا اس نے کوفے میں بیٹھ کر زبردست فتوحات حاصل کیں اس کے دور میں مسلمان مجاہدین چین تک پہنچ گئے تھے۔ حجاج بن یوسف نے ہی قران پاک پر اعراب لگوائے الله تعالی نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا حجاج حافظ قران تھا شراب نوشی اور بدکاری سے بچتا تھا۔ وہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا مگر اسکی تمام اچھائیوں پر اسکی ایک برائی نے پردہ ڈال دیا تھا آپ جانتے ہیں وہ برائی کیا تھی ؟ وہ تھی ظلم ! حجاج بہت ظالم تھا اسنے اپنی زندگی میں ایک خوں خوار درندے کا روپ دھار رکھا تھا۔ ایک طرف موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے اور دوسری طرف وہ خود الله کے بندوں اولیاں اور علما کے خوں سے ہولی کھیل رہا تھا۔ حجاج نے ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کو قتل کیا ہے اس کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں اسی اسی ہزار قیدی ایک وقت میں ہوتے جن میں سے تیس ہزار عورتیں تھیں۔ اس نے جو آخری قتل کیا وہ عظیم تابعی اور زاہد و پارسا انسان حضرت سعید بن جبیر رضی الله عنہ کا قتل تھا۔ انہیں قتل کرنے کے بعد حجاج پر وحشت سوار ہو گئی تھی وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا۔ وہ جب بھی سوتا حضرت سعید بن جبیر اس کے خواب میں آ کر اسکا دامن پکڑ کر کہتے کہ اے دشمن خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا ؟ اس کے ساتھ حجاج کو ایسی بیماری لگی کہ جس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی وہ کانپتا تھا، اگ سے بھری انگیٹھیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اس کی کھال جل جاتی تھی مگر اسے احساس نہیں ہوتا تھا۔ حکیموں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہے ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب نسل کے کیڑے چمٹے ھوۓ تھے اور اتنی بدبو تھی جو پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر پھیل گی درباری اٹھ کر بھاگ گئے حکیم بھی بھاگنے لگا تو حجاج بولا تو کدھر جاتا ہے علاج تو کر، حکیم بولا تیری بیماری زمینی نہیں آسمانی ہے اس لیے اللہ سے پناہ مانگ لو۔ حجاج جب مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ الله علیہ کو بلوایا اور دعا کی درخواست کی وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا ان پر ظلم نہ کرنا مگر تو باز نہ آیا۔ حضرت بن جبیر رضی الله عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی وفات ہو گئی تھی۔ حجاج نے جب دیکھا کہ بچنے کا امکان نہیں تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آۓ وہ بولا میں مر جاوں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ہو تو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا کیوں کے لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہیں چھوڑیں گے اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا اور اسکی موت واقع ہوئی۔ اللہ ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ہے لیکن جب ظالم سے حساب لیتا ہے تو فرشتے بھی خشیت الہی سے کانپتے ہیں۔

23/10/2025

دیکھتا ہوں سب شکلیں سُن رہا ہوں سب باتیں
سب حساب اِن کا میں ایک دن چُکا دوں گا

23/10/2025

امام احمد بن حنبلؒ کے بیٹے کا نام عبداللہ تھا وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس دوران ایک بوڑھی عورت آئی اور اس نے میرے والد صاحب سے ایک مسئلہ پوچھا کہ میں روئی کاتتی ہوں ایک رات چھت کے اوپر بیٹھ کر روئی کات رہی تھی کہ حکومتِ وقت کی پولیس کا داروغہ گلی سے گزرا اس کے ساتھ روشنی کا بڑا انتظام تھا وہ وہاں کسی سے بات کرنے کے لیے رک گیا جب روشنی بہت زیادہ ہوگئی اور مجھے روئی اچھی طرح نظر آنے لگی تو میں نے سوچا کہ میں ذرا جلدی کات لوں۔ چنانچہ میں نے جلدی جلدی روئی کاتی۔ جب وہ داروغہ ابنِ طاہر چلا گیا تو بعد میں مجھے خیال آیا کہ ان کا پیسہ تو مشتبہ قسم کا ہوتا ہے اور میں نے اس کی روشنی سے فائدہ اٹھایا ہے آپ بتائیں کہ یہ روئی میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟ امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا تم اس ساری روئی کو صدقہ کر دو اللہ تمہیں اور رزق عطا فرما دیں گے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا جواب ہوا۔ جواب تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جتنی مقدار اس روشنی میں کاتی اتنا صدقہ کرو لیکن ابا جی نے فرمایا کہ ساری روئی صدقہ کر دو۔ خیر وہ عورت چلی گئی دو چار دن بعد پھر وہی بوڑھی عورت آئی اور کہا جی میں نے امام صاحب سے مسئلہ پوچھنا ہے چنانچہ وہ امام صاحب کے پاس جا کر مسئلہ پوچھنے لگی کہ میں رات کو چراغ کی روشنی میں روئی کاتتی ہوں تو کبھی کبھی چراغ کا تیل ختم ہو جاتا ہے تو چاند کی روشنی میں کاتنے بیٹھ جاتی ہوں۔ چراغ کی روشنی میں روئی صاف نظر آتی ہے اور چاند کی روشنی میں صاف نظر نہیں آتی تو اب بتائیں کہ جب میں گاہک کو روئی بیچوں تو کیا مجھے بتانا پڑے گا کہ یہ چراغ کی روشنی میں کاتی گئی ہے یا چاند کی روشنی میں کاتی گئی ہے امام صاحب نے فرمایا ہاں تمہیں بتانا پڑے گا اس کے بعد وہ دعا دے کر چلی گئی۔ جب وہ چلی گئی تو امام صاحب بھی اس کا تقویٰ دیکھ کر حیران ہوئے اور مجھے فرمایا کہ اس عورت کے پیچھے جاؤ اور دیکھو تو سہی کہ یہ کس گھر کی عورت ہے۔ عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب میں پیچھے گیا تو وہ بشر حافیؒ کے گھر میں داخل ہوئی پتہ چلا کہ یہ بشر حافیؒ کی بہن تھی جس کو اللہ نے اتنی تقویٰ بھری زندگی عطا فرمائی ہوئی تھی۔ اس وقت کی عورتیں بھی حرام اور مشتبہ چیزوں سے کتنا بچتی تھیں۔

21/10/2025

فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا بڑے مضبوط ایمان اور بلند حوصلہ کی مالک تھیں۔ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو سب سے پہلے حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ کے بھائی عمر بن خطاب نہایت طاقتور اور اسلام کے سخت ترین مخالفوں میں سے تھے اس لئے یہ اپنے اسلام کو بھائی سے حتی الامکان مخفی رکھتی تھیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی خباب بن الارت رضی اللہ عنہ انہیں قرآن کریم پڑھاتے اور تعلیم قرآن کا یہ فریضہ وہ آپ کے گھر جا کر انجام دیتے تھے۔ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کے شوہر سعید بن زید رضی اللہ عنہ بھی اسلام قبول کرچکے تھے وہ بھی خباب بن الارت رضی اللہ عنہ سے قرآن پڑھتے تھے۔ ایک دن عمر بن خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی غرض سے تلوار لے کر گھر سے نکلے، راستے میں خاندان بنو زہرہ کا ایک شخص ملا اس نے عمر بن خطاب کے خطرناک تیور کو دیکھ کر پوچھا عمر کہاں کا ارادہ ہے؟ عمر بن خطاب نے کہا محمد کو قتل کرنے جا رہا ہوں (نعوذ باللہ) اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو تیرا بہنوئی اور تیری بہن بھی اپنے آباو اجداد کا مذہب ترک کر کے دین محمد کے پیرو ہوگئے ہیں۔ یہ بات سن کر عمر بن خطاب کا چہرہ مارے غصے کے سرخ ہوگیا اور بے تابی کی حالت میں برہنہ تلوار ہاتھ میں لئے سیدھے بہن اور بہنوئی کے مکان پر پہنچے اس وقت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ جب خباب نے عمر کے پاؤں کی آہٹ سنی تو وہ خوف زدہ ہو کر اپنی جگہ سے اٹھے اور بھاگ کر مکان کے ایک کونے میں جا چھپے۔ اتنے میں عمر نے مکان کا دروازہ کھولا دہلیز پر قدم رکھتے ہی پوچھا میں یہ بھنبھناہٹ سی کیا سن رہا تھا؟ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا نے قرآن کے اوراق چھپاتے ہوئے کہا کچھ بھی نہیں۔ عمر نے پورے زور سے گرج کر کہا مجھے معلوم ہو ا ہے کہ تم دین محمد کے متبع ہو گئے ہو اور ساتھ ہی اپنے بہنوئی سعید کے منہ پر زور دار تھپڑ مارا۔ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کو عمر کی گرفت سے بچانے کے لئے آگے بڑھیں تو عمر فاروق نے دھکا دے کر انہیں پیچھے ہٹادیا۔ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا نے عمر سے کہا اب قوت صبر جواب دے گئی ہے اب تمہاری سختیاں اور ستم رانیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ماضی کا دور بیت چکا ہے زمانہ جاہلیت کی بساط الٹ گئی ہے اور ہم معبودان باطل کو ترک کر چکے ہیں۔ آفتاب اسلام کے طلوع ہوتے ہی روشنی کی ایک عالم گیر لہر دوڑ گئی ہے جس نے جہالت کی تاریکیوں کو ختم کرکے لوگوں کے قلب و نظر کے تمام گوشوں ک منورکر دیا۔ جیسے جیسے اسلام کی پاکیزہ تعلیم پھیلتی اور اپنا دامن وسیع کرتی جائے گی روشنی کے خطوط ابھرتے اور تیز ہوتے جائیں گے۔ ہم نے اسلام کو اپنے دلوں کی تہوں میں اتارلیا ہے لہذا اس راہ کی کوئی بھی سختی ہماری لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ تمہاری ایذا رسانیاں ہمیں اس صراط مستقیم سے ہٹنے اور ہار ماننے پرمجبور نہیں کر سکتیں۔ ہم نرمی کا جواب نرمی سے اور سختی کا جواب سختی سے دیں گے۔ ہم جان دے سکتے ہیں لیکن اپنے دین کو جو ہر لحاظ سے سچا ہے ترک نہیں کر سکتے۔ تمہاری یہ تلوار گردن کو تو جسم سے جدا کر سکتی ہے مگر ہمارے عزائم پر اثرا نداز نہیں ہو سکتی۔ سن لو خدا کے سوا کوئی عباد ت کےلائق نہیں تمہارے یہ پتھر کے بت جھوٹ اور باطل ہیں۔ تمہاری راہ جہنم کی ہے اور ہماری منزل مقصود جنت ہے البتہ جو اسلام قبول کر لے گا وہ فلاح پائے گا۔ عمر فاروق کے بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تائید کی اور دونوں تن کے عمر کے سامنے کھڑے ہو گئے اور بہ یک زبان بول اٹھے ہم اسلام قبول کر چکے ہیں تم جو کرنا چاہتے ہو کر گزرو۔
عمر کو یہ توقع نہ تھی کہ بہن اور بہنوئی اتنی جرات سے اس کا مقابلہ کرلیں گے اور اسکے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کر دیں گے۔ اطاعت شعار بہن نےجو رویہ اختیار کیا تھا اور عمر کو جس لہجے سے مخاطب کیا تھا وہ عمر کے لئے حیران کن تھا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ صاف گوئی واقعی کسی غیبی سچائی کی آئینہ دار ہے۔ عمر نے ندامت اور افسوس کے انداز میں کہا جو کلام تم ابھی پڑھ رہے تھے اور جس کے بارے میں تمہیں کہتے ہوکہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرا تارا گیا ہے وہ مجھے دکھلاؤ۔ بہن نے جواب دیا ہمیں ڈر ہے کہ تم اس کلام پاک کی بے حرمتی کرو گے عمر نے کہا میں اپنے معبود کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کی بے حرمتی نہیں کروں گا تم بالکل فکر نہ کرو میں اسے پڑھ کر ابھی واپس کردوں گا۔ بہن نے کہا تم ناپاک ہو اور اس مقدس صحیفے کو پاک و طاہر لوگوں کے سوا اور کسی کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ عمر فوراً اٹھے ہاتھ دھوئے اور غسل کیا بہن نے قرآن پاک کے وہ اوراق انہیں دیے جو ان کی آمد کے وقت پڑھ رہی تھیں۔ وہ سورۃ طہ کی آیات تھیں عمر نے سورہ طہ کی چند آیات پڑھیں اور پکار اٹھے یہ کلام کس درجہ حسن و خوبی سے مزین اور عزت و اکرام سے مالا مال ہے۔ خباب بن الارت رضی اللہ عنہ جو اب تک عمر کے ڈرسے مکان کے کونے میں چھپے بیٹھے تھے باہر نکلے اور عمر سے مخاطب ہو کر بولے عمر بخدا اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کرلی ہے اور تمہیں ایک بہت بڑے داعی اسلام کے طور پر چن لیا گیاہے۔ میں نے آج ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اللہ سے دعا مانگ رہے تھے کہ اے اللہ ابوجہل یا عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔ چنانچہ اللہ نے اپنےحبیب کی یہ دعا قبول فرمالی ہے۔ عمر اسی طرح برہنہ تلوار ہاتھ میں پکڑے بہن کے گھر سے نکلے اور خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کی نشان دہی کے مطابق اس مکان کے دروازے پر جا دستک دی جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تشریف فرما تھے۔ ایک صحابی نے آہٹ پاکر جھانک کر دیکھا تو گھبرائے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا عمر ہاتھ میں تلوار پکڑے دروازے پر کھڑے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر کا راستہ نہ روکو اسےا ندر آنے دو۔ عمر کے دروازے میں قدم رکھتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شانوں پر ہاتھ رکھا اور زورسے جھجھوڑتے ہوئے پوچھا کہو عمر کیسے آنا ہوا ؟ اے اللہ کے سچے نبی اسلام قبول کرنے اور آپ کی رسالت اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے حاضر ہوا ہوں عمر نے سر جھکا کر کانپتے ہونٹوں اور لرزتی زبان سے جواب دیا اور ساتھ ہی بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔ عمر کا کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کرنا تھا کہ فضا پر زورہ نعرہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ عرب کا یہ شہ زور نامی گرامی بہادر ایک عورت کی جرات ایمانی سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوا۔ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کی وفات اپنے اسی بھائی حضرت عمرفاروق رضی اللہ کے زمانہ خلافت میں ہوئی۔

21/10/2025

سفرِ طائف ایک ناقابلِ فراموش باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ اسلام کی پاداش میں مشکلات، مصائب، آزمائشوں اور اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ مکہ میں جان لیوا مظالم، جان نثاروں کی مظلومانہ بے بسی، شعب ابی طالب کا محاصرہ اور سوشل بائیکاٹ، ظلم و ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر غلاظت انڈیلی گئی انہی دشمنان اسلام کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر اونٹوں کے اوجھ ڈالے گئے، گرد و غبار سے جسم اور لباس مبارک آلودہ کرنے کی ناپاک جسارت بھی کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں یہ صورت حال دیکھ کر دل گیر ہوئیں اور ان کی زبان مبارک سے بد دعائیہ جملے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بیٹی دل گیر نہ ہو تیرے باپ کا اللہ خود محافظ ہے۔ گویا ظلم، ستم، اذیت، تکلیف، ذہنی کوفت اور جسمانی تشدد جیسا وحشیانہ اور غیر انسانی برتاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتا گیا لیکن ان سب کچھ کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر و تحمل، عفو و درگزر، ضبط و برداشت اور استقلال میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی اور تاریخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم و کرم، عزیمت، ثابت قدمی اور فراخی اور حوصلے کی داستانیں سنا رہی ہے۔ جب مکہ کے وحشی ظلم و ستم سے باز نہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا۔ طائف مکہ سے تقریباً چالیس میل کے فاصلے پر خوبصورت وادی، زرخیز باغات اور پہاڑوں سے مزین علاقہ ہے۔ قبیلہ ثقیف یہاں آباد تھا یہ عرب کا طاقت ور قبیلہ تھا قریش کی اس قبیلہ سے رشتے داریاں بھی تھیں۔ یہاں تین بھائی عبد، مسعود اور حبیب اس قبیلے کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معززین علاقہ کے مکانوں پر تشریف لے گئے اور انہیں دعوت اسلام قبول کرنے کو کہا لیکن سب نے بے رخی کا مظاہرہ کیا۔ بدبختوں کی بدنصیبی تو دیکھیے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بل کہ نہایت گستاخانہ رویہ اپناتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا۔ ایک نے طنز کا نشتر چبھوتے ہوئے کہا اگر خدا تعالیٰ نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے تو وہ خانہ کعبہ کی عزت پامال کر رہا ہے۔ دوسرے نے کہا اللہ کو تیرے علاوہ اور کوئی نہیں ملا جسے وہ رسول بنا کر بھیجتا۔ تیسرے نے آوازہ کستے ہوئے کہا اللہ کی قسم ! میں تیرے ساتھ بات نہیں کرتا اگر تو واقعی اللہ کا رسول ہے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے تو رسول کی شان یہ نہیں کہ اس سے بحث کی جائے اور اگر تو خدا پر جھوٹ بول رہا ہے تو میری شان یہ نہیں کہ تجھ جیسے جھوٹے سے بات کروں۔ اس کے بعد انہوں نے طائف کے اوباشوں اور آوارہ لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا۔ کوئی تالی بجاتا، کوئی سیٹی بجاتا، کوئی جملے کستا، کوئی ہلڑ بازی کرتا، شور، ہڑبونگ اور اودھم مچاتے ہوئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طائف کی گلیوں میں لے آئے۔ یہاں دونوں طرف لوگ صف بنائے پتھر ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر وہاں سے ہوا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارنا شروع کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک سے لے کر پاؤں مبارک تک لہولہان ہوگئے اور پنڈلیوں اور گھٹنوں پر گہرے زخم آئے۔ بدن مبارک سے خون مبارک بہتا ہوا قدموں تک پہنچا، قدموں سے رستا ہوا نعلین مبارک تک پہنچ گیا، نعلین اور قدمین آپس میں خون کی وجہ سے چمٹ گئے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لیے کبھی آگے آتے، کبھی دائیں، کبھی بائیں اور کبھی پیچھے آپ رضی اللہ عنہ کا بھی سر لہولہان ہوگیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش کر گر پڑے تو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا قریب ہی کچھ پانی تھا وہاں لے گئے تاکہ خون کے دھبے دھوئیں۔ طبیعت کچھ سنبھلی تو قریب میں ایک باغ تھا اور انگور کی سایہ دار بیل کے نیچے تھوڑی دیر لیٹ گئے اور معبود برحق کی بارگاہ میں عابد حق پرست بن کر مناجات و دعا میں مشغول ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوز و گداز، تڑپ اور درد اور زخموں کی ٹیس نے نالہ و فریاد میں وہ تاثیر پیدا کی جس سے عرش بریں تک کانپ اٹھا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی اے اللہ میں تجھ ہی سے اپنی بے بسی کا شکوہ کرتا ہوں، یہ مجھے رسوا کرنا چاہتے ہیں اس کا شکوہ بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں اے سارے مہربانوں سے زیادہ مہربان اے میرے پروردگار آپ مجھے کن کے حوالے کر رہے ہیں جو مجھ سے دور ہیں جو مجھ سے منہ چڑھا کر بات کرتے ہیں، اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں اور اگر مجھ پر تیرا عتاب نہیں تو مجھے کسی بھی بات کی پروا نہیں، اے اللہ تیرا تیری عافیت کا دامن بہت وسیع ہے اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ مجھ پر تیرا غضب پڑے یا عتاب نازل ہو، تجھ ہی کو منانا ہے اور اس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہوجائے۔ جبرائیل امین جلوہ افروز ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے جو کچھ فرمایا اللہ تعالیٰ نے سن لیا انہوں نے جیسا سلوک کیا سب کا سب دیکھ لیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ میرے ساتھ پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ موجود ہے آپ حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے۔ ملک الجبال نے عرض کی مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو چاہیں حکم کریں میں تعمیل کروں گا آپ حکم دیں تو مکہ کی دونوں طرف کے پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو پیس ڈالوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آزمائش کے دوراہے پر کھڑے تھے ایک آزمائش اہل طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، دوسری آزمائش کہ جبرائیل امین اور ملک الجبال ان کو پیس ڈالنے کی فرمائش کے منتظر کھڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتوں کو جواب دیا اگر یہ بد نصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا میں ان کی آنے والی نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں، مجھے اللہ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسا ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی توحید کے قائل اور شرک سے بے زار ہوں گے۔ قریب ہی مکہ کے مشہور سردار عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ کا باغ تھا اس وقت یہ دونوں بھائی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اپنے ایک غلام کو انگوروں کے خوشے دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس غلام کا نام عداس تھا اور مذہباً نصرانی تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انگور پیش کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو زبان مبارک پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جاری ہوگیا۔ عداس کہنے لگا یہاں کے لوگ تو الرحمٰن الرحیم نہیں کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہاں کے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ نینوا سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی نینوا جو میرے بھائی حضرت یونس علیہ السلام کا وطن تھا۔ وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگا کہ آپ یونس علیہ السلام کو کیسے جانتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا میرے اور ان کے درمیان نبوت کا رشتہ ہے وہ بھی اللہ کے نبی تھے اور میں بھی اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہوں۔ عداس یہ سن کر اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ عداس کے قبول اسلام نے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں پر مرہم کا کام کیا۔ طائف سے واپسی پر جنات کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا۔ سفر طائف سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ کے لیے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات بھی آئیں تو ثابت قدمی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرنے چاہییں، تبلیغ کی محنت کا نتیجہ اگر وقتی طور نظر نہ بھی آئے تو بھی اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ محنت کا ثمرکچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرماتے ہیں۔

18/10/2025

نہ پوچھ عشقِ جلالی کا طمطراق کہ ہم
جس انجمن میں رہے مرکزِ نگاہ رہے

18/10/2025

یہ مسئلے تو اکیلے سے حل نہیں ہونے
پکار لے مجھے بیشک پکار مطلب سے

17/10/2025

منگنی / ٹنگنی
منگنی ٹرین کی اس سیٹ کی طرح ہوتی ہے جس پر آپ اپنا رومال رکھ کر کسی اچھی سیٹ کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اچھے رشتے کی تلاش سے پہلے منگنی کروانا ضروری ہے جیسے ہی اچھا رشتہ ملتا ہے منگنی ٹوٹ جاتی ہے اور نکاح ہو جاتا ہے۔ منگنی کی ایکسپائری ڈیٹ چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہوتی منگنی سے پہلے جس رشتے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں منگنی ٹوٹتے ہی اس کے برعکس بیان بازی شروع ہو جاتی ہے لڑکی والوں پر اچانک ہی کھلتا ہے کہ لڑکا آوارہ ہے شرابی ہے لالچی ہے اسکی تو دو منگنیاں پہلے بھی ٹوٹ چکی ہیں جبکہ لڑکے والے بھی عجیب عجیب الزامات لگاتے ہیں کہ لڑکی پر تو کسی جن کا سایہ ہے اسے تو دورے پڑتے ہیں اور اس کا پہلے ہی کسی کے ساتھ چکر ہے اور لڑکی نہاتی بہت ہے وغیرہ وغیرہ۔ منگنی کو پنجابی میں ٹنگنی بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں دونوں طرف کے لوگ انتظار کی سولی پر ٹنگے رہتے ہیں۔ منگنی کے ابتدائی دن بہت خوبصورت ہوتے ہیں لیکن جوں جوں منگنی آگے بڑھتی ہے اور دونوں خاندان ایک دوسرے کے گھر آنا جانا شروع کرتے ہیں تو پول کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ خواتین ایک دوسرے کو اچانک ہی میلی آنکھ سے دیکھنا شروع ہو جاتی ہیں اور شکوے شکایات بھی بہت عجیب عجیب ہوتے ہیں مثلاً لڑکے کی بڑی بہن کو اعتراض ہوتا ہے کہ لڑکی والوں نے منگنی پر اس کے خاوند کو سوٹ کیوں نہیں دیا۔ چھوٹی بہن کو شک ہوتا ہے کہ اسکی ہونے والی بھابھی نے بی اے نہیں کیا ہوا ۔ لڑکے کی ماں کو یہی غم کھائے جاتا ہے کہ ہم جب بھی لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں تو دو کلو مٹھائی کا ڈبہ لے کر جاتے ہیں اور لڑکی والے جب بھی ہماری طرف آتے ہیں تو ایک درجن کیلے اٹھا کے لے آتے ہیں۔ لڑکے کی خالہ اس بات پر ہی غصے سے بھری ہوتی ہے کہ میری فہمیدہ میں کیا کمی تھی اس لڑکی سے تو اچھی ہی تھی۔ چاچی کا موڈ اس بات پر خراب ہوتا ہے کہ منگنی کی تقریب میں میری تصویریں سب سے کم کیوں بنائی ہیں۔ لڑکی والے بھی رفتہ رفتہ لڑکے والوں سے عاجز آنا شروع ہو جاتے ہیں لڑکی کی ماں کو اعتراض ہوتا ہے کہ لڑکا ساری تنخواہ تو ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے شادی کے بعد ہماری بیٹی کو کیا دے گا لڑکی کی پھوپھی اس بات پر ناراض ہوتی ہے کہ اسے منگنی پر بوتل ہی نہیں ملی اور تائی کہتی ہے مجھے تو لڑکے نے سلام نہیں کیا۔ اس سارے معاملے میں مرد حضرات لاتعلق رہتے ہیں وہ جب بھی ملتے ہیں صرف اسی مو ضوع پر بات کرتے ہیں کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔ منگنی ہونے کے بعد لڑکا لڑکی اچانک ہی بہت سارے منصوبے بنانے لگ جاتے ہیں جن میں سر فہرست ہنی مون کا مقام بچوں کی تعداد اپنا الگ گھر اور زندگی بھر ساتھ نہ چھوڑنے کی قسمیں ہوتی ہیں۔ اگلے دن ہی موبائل پر گھنٹہ پیکج ایکٹو ہو جاتا ہے ایک دوسرے کے نک نیم رکھے جاتے ہیں رات دیر تک سنہرے مستقبل کے خاکے بنے جاتے ہیں ڈیڑھ دو مہینے بعد ہی کفیت تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ لڑکی کی ماں لڑکے کو فون کرکے کہتی ہے کہ بیٹا یہ بات کہنی تو نہیں چاہیے لیکن جو سوٹ تم لوگوں نے منگنی پر دیے تھے ان کے تو رنگ ہی خراب ہو گئے ہیں ہم شرم کے مارے کسی کو دکھا بھی نہیں سکتے اور جو انگوٹھی تم لوگوں نے سونیا کو پہنائی ہے اسکا ہم نے وزن کروایا تو وہ صرف 6 ماشے کی نکلی ہے جبکہ تمہاری امی کہہ رہی تھی کہ وہ پورے آدھے تولے کی ہے۔ لڑکا بےچارہ ہوں ہاں کرتا رہتا ہے اور گھر جاتے ہی ماں پر برس پڑتا ہے کہ اتنے اچھے لوگوں سے آپ یہ ایسا سلوک کیا ماں یہ سن کر کھٹک جاتی ہے اور اگلے دن ہی اپنی تمام بیٹیوں کو اکھٹا کر مشورہ کرتی ہے کہ منگنی توڑنے سے پہلے لڑکی والوں میں کیا کیڑے نکالے جائیں۔ پھر کچھ دن بعد لڑکے کی ماں لڑکی کو فون کرتی ہے کہ سونیا بیٹی اگر تمہاری اماں کو کوئی شکایت تھی تو مجھے کہتی اجمل کو فون کیوں کیا کہنا تو نہیں چاہیے لیکن تم لوگوں نے اجمل کے ابا کو جو راڈو گھڑی دی وہ ہم نے چیک کروائی تو ڈیڑھ سو روپے والی نکلی اور جو گرم چادر مجھے دی وہ بھی انتہائی گھٹیا ہے اس سے گرم تو میرا دوپٹہ ہے ۔ لڑکی گھبرا کر فون اپنی امی کو پکڑا دیتی ہے اور پھر دونوں طرف سے جنگ پلاسی شروع ہو جاتی ہے اور دونوں کی مائیں ایک دوسرے کا تیا پانچہ کرکے رکھ دیتی ہیں۔ شام کو ہی دونوں طرف اعلان ہو جاتا ہے کہ یہ منگنی نہیں چل سکتی اور منگنی توڑنے یا رکھنے کا اختیار صرف اور صرف لڑکے لڑکی کی گھر والوں کو ہوتا ہے اس میں لڑکے لڑکی کی مرضی نہیں چلتی۔ وہ لاکھ زور لگائے لیکن گھر والے انہیں بے شرم کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں اور دونوں طرف سے انگوٹھیاں واپس ہو جاتی ہیں اور اگلے دن ہی نئے رشتے کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔

Address

Kasur

Telephone

+923004563446

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when تاریخ کے جھروکوں سے posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to تاریخ کے جھروکوں سے:

Share