تاریخ کے جھروکوں سے

تاریخ کے جھروکوں سے Respect is the Foundation of Any Relationship

11/07/2025

ایسے وہ جانے لگا مجھ کو دلاسہ دے کر
جیسے بچہ کو کوئی جائے کھلونا دے کر

جو بھی آتا ہے ٹھہرتا ہے چلا جاتا ہے
کوئی رکتا ہی نہیں مجھ کو سہارا دے کر

سارے ہم راز وفادار نہیں ہوتے ہیں
مجھ کو سمجھا ہی دیا دوست نے دھوکا دے کر

میرے بابا نے بہت ناز سے رکھا مجھ کو
ماں نے پالا ہے مجھے منہ کا نوالہ دے کر

کیوں پریشان رہا کرتے تھے والد میرے
آج محسوس ہوا گھر کا کرایہ دے کر

11/07/2025

بے کراں تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا
تیرے میرے درمیاں بس اک خلا رہ جائے گا

عکس بہہ جائیں گے سارے درد کے سیلاب میں
اور کوئی پانیوں میں جھانکتا رہ جائے گا

مجھ کو میرے ہمسفر ایسا سفر درپیش ہے
راستہ کٹ بھی گیا تو فاصلہ رہ جائے گا

لوگ سو جائیں گے خاموشی کی چادر اوڑھ کر
چاند سونے آنگنوں میں جاگتا رہ جائے گا

جوکبھی اس نے پڑھی تھیں مجھ سے ناصر مانگ کر
نام میرا ان کتابوں میں لکھا رہ جائے گا

11/07/2025

جو آنا چاہو ہزار رستے، نہ آنا چاہو تو عذر لاکھوں
طویل رستہ، مزاج برہم، برستی بارش، خراب موسم

غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے
08/07/2025

غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے

08/07/2025

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو تمام اصحاب میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے مانگ کر لیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور صحن حرم میں با جماعت نماز ادا کر نے کی باقاعدہ ابتداء ہو ئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہاں تک فرمایا اگر میرے بعد نبوت ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ درجہ عطاء کیا جا تا۔ قرآن مجید میں سترہ مقامات ایسے ہیں جو حضرت عمر کی رائے کے مطابق نازل ہوئے باقی اصحاب میں یہ اعزاز کسی کو حاصل نہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ نے خطہ ارضی پر 22 لاکھ مربع میل پر حکمرانی فرمائی۔ مٹی، پانی ہوا اور آگ پر مشتمل عناصر اربعہ جو تخلیق انسانی کے جزو ہیں ان پر حکمرانی بھی آپ کی قدر و منزلت اور حقانیت میں شمار ہوتی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک بار مدینہ منورہ میں تشریف فرما تھے کہ زلزلہ کی کیفیت زمین پر طاری ہوئی اور زمین کانپنے لگی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عدل و انصاف میں اپنے اور بیگانے کا فرق مٹا دینے والا درہ مشہور تھا آپ رضی اللہ عنہ نے یہ درہ زمین پر مارا اور فر مایا اے زمین کیوں کانپتی ہے کیا تجھ پر عمر نے انصاف نہیں کیا؟ زلزلہ اسی وقت تھم گیا زمین کا تھم جانا اس بات کی گواہی تھا کہ آپ نے انصاف کا حق ادا فرما دیا ہے۔ مصر میں دریا نیل سال میں ایک بار خشک ہو جاتا تھا چنانچہ مصر کے لوگ ایک خوب صورت لڑکی کو بناؤ سنگھار کر کے اس دریا میں ڈالتے تو پانی حسب معمول جاری ہو جاتا۔ مصر جب فتح ہوا اور اسلام کی روشنی وہاں پہنچی تو حسب روایت دریا خشک ہونے پر لڑکی کی قربانی دی جانے لگی جس پر مصر کے حاکم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس رسم بد سے بذریعہ خط آگاہ فرمایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا انسانی جان دریا سے قیمتی ہے میرا یہ خط دریا میں ڈال دو لوگ حیران تھے کہ نیل ایک دریا ہے انسان نہیں کہ وہ خط کا مطلب جان سکے مگر انہیں یہ پتہ نہ تھا جو رب العالمین کا حکم مانتا ہے پھر ساری کا ئنات اس کا حکم مانتی ہے۔ خط کا مضمون پڑھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایمان ویقین کا ا ندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں حرف بحرف توحید آشکار ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ تعالی کے بندے عمر بن خطاب کی طرف سے نیل کے نام ہے اگر تو اپنے اختیار سے جاری رہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی ضرورت نہیں اور اگر تو اللہ کے حکم سے جاری ہے تو پھر تجھے جاری رہنا چاہیے یہ خط جب دریا میں ڈالا گیا تو نیل میں پانی ایسے چڑھنا شروع ہوا جیسے سیلاب کے دنوں میں پانی تیزی سے چڑھتا ہے اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک جاری ہے۔ تاریخ نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ اس واقعہ کو دیکھ کر غیر مسلموں نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کہ جس مذہب حق کے ماننے والے کی تحریر کا حکم دریا بھی مانے اس مذہب حق کی برکات کا عالم کیا ہو گا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک روز جمعہ کا خطبہ ارشاد فر مارہے تھے کہ اچانک خلاف معمول دو تین مرتبہ فرمایا یا سار ی الجبل ( اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھ) حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بعد میں دوران خطبہ اس جملہ کے کہنے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عراق میں نہاوند کے مقام پر حضرت ساریہ کی قیادت میں جو لشکر مصروف جہاد ہے میں نے دیکھا کہ اس کے سامنے سے کفار کا لشکر آرہا ہے جس کی حضرت ساریہ کو خبر ہے اور پہاڑ کے پیچھے سے جو لشکر آرہا ہے اسکی خبر نہیں چنانچہ میں نے یہ الفاظ بے اختیار کہے اور اس یقین کے ساتھ کہے کہ اللہ تعالی ان تک پہنچا دیں گے۔ کچھ دنوں بعد عراق سے جب حضرت ساریہ کا قاصد آیا تو اس نے اس کی تصدیق کی کہ ہم لوگوں نے جمعہ کے دن فلاں وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آواز سنی اور سنبھل گئے اور پہاڑ پر چڑھ کر دشمن سے مدافعت کی اور اللہ تعالی نے کامیابی عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ لشکر اسلام کے جانباز سپاہیوں کی حفاظت کی خاطر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دشمن کا لشکر کا نقشہ دکھا بھی سکتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز وہاں تک پہنچا بھی سکتے ہیں بس بات ایمان و یقین کی ہے۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک پہاڑ کے غار سے ایک بہت ہی خطرناک آگ نمودار ہوئی۔ جب لوگوں نے دربارِ خلافت میں فریاد کی تو امیرالمومنین نے حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کو اپنی چادر عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا تم میری یہ چادر لے کر آگ کے پاس چلے جاؤ چنانچہ تمیم داری رضی اللہ عنہ اس چادر کو لے کر روانہ ہوگئے اور جیسے ہی آگ کے قریب پہنچے تو وہ آگ بجھنے اور پیچھے ہٹنے لگی یہاں تک کہ وہ غار کے اندر چلی گئی۔ جب چادر لے کر غار کے اندر داخل ہوگئے تو وہ آگ بالکل ہی بجھ گئی اور پھر کبھی بھی ظاہر نہیں ہوئی۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں۔ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز فجر کیلئے مسجد تشریف لے گئے۔ مسجد میں نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیا نماز شروع ہی کی تھی کہ ایک شخص ابو لولو فیروز نے زہر آلود دو دھاری خنجر سے آپ پر حملہ کیا۔ اس نے تین وار کیے اُن میں سے ایک وار آپ کے زیرِ ناف لگا تو آپ گر پڑے اس دوران آپ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو نماز میں اپنا نائب بنایا۔ ابو لولو فیروز پلٹ کر بھاگ نکلا راستے میں جو آیا اُن پر وار کرتا گیا حتیٰ کہ اُس نے تیرہ اشخاص پر ضرب لگائی اُن میں سے چھ شہید ہوگئے۔ جب اُس پر کمبل ڈالا تو اس ملعون نے خود کُشی کر لی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا مجھ پر کس نے حملہ کیا ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے دریافت فرمایا جو لوہار ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی جی ہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ اُسے برباد کرے میں نے تو اس کیلئے بھلائی کا حکم دیا تھا۔ پھر فرمایا اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے آدمی کے ہاتھوں مقدر نہیں کی جو اسلام کا مدعی ہو۔ بعد ازاں زخمی حالت میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اُنکے گھر منتقل کیا گیا۔ یہ اتنا المناک دن تھا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے لوگوں پر اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں۔ پھر نبیذ لائی گئی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہ نبیذ پی لی لیکن ساری نبیذ پیٹ کے زخموں سے باہر نکل آئی، پھر دودھ لایا گیا وہ بھی آپ نے پی لیا لیکن وہ بھی پیٹ کے زخموں کے راستے نکل گیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں کو یقین ہو گیا کہ امیرالمومنین کی شہادت یقینی ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ ابن عمر سے کہا کہ تم اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور اُنہیں کہنا کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے اُن سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب اپنے دو ساتھیوں کیساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اُم المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کیا اور اجازت لیکر حجرہ میں داخل ہو گئے۔ دیکھا کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رو رہی ہیں حضرت عبداللہ ابن عمر نے عرض کی عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتے ہیں اور اپنے دو ساتھیوں کیساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ اُم المؤمنین نےفرمایا میں نے یہ جگہ اپنے لئے خاص کر رکھی تھی مگر آج میں انہیں اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر امیر المؤمنین سے عرض کیا کہ اُم المومنین نے اجازت دے دی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے میرے لئے سب سے اہم معاملہ یہی تھا۔ پھر فرمایا دیکھو ! جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور ایک بار پھر اُن سے مجھے دفن کرنے کی درخواست کرنا اگر اجازت مل جائے تو حجرہ اقدس میں دفن کر دینا اور اگر اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رحلت کے بعد حضرت عبداللہ ابن عمر نے اُم المؤمنین سے دوسری بار اجازت لیکر امیرالمؤمنین کو روضہ اقدس میں ان کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کر دیا۔😢

05/07/2025

ایسا کوئی محبوب نہ ہو گا نہ کہیں ہے
بیٹھا ہے چٹائی پہ مگر عرش نشیں ہے

مِلتا نہیں کیا کیا دو جہاں کو ترے در سے
اِک لفظ “نہیں“ ہے کہ ترے لب پہ نہیں ہے

تُو چاہے تو ہر شب ہو مثالِ شبِ اسرٰی
تیرے لئے دو چار قدم عرش بریں ہے

رُکتے ہیں وہیں جا کے قدم اہلِ نظر کے
اُس کوچے کے آگے نہ زماں ہے نہ زمیں ہے

ہر اِک کو مُیّسر کہاں اُس در کی غُلامی
اُس در کا تو دربان بھی جبریلِ امیں ہے

دل گریہ کناں اور نظر سُوئےِ مدینہ
اعظم ترا اندازِ طلب کتنا حسیں ہے

اگر ‏آج آپ کے پاس طاقت ہے تو یاد رکھیں کہ وقت سب سے زیادہ طاقتور ہے
04/07/2025

اگر ‏آج آپ کے پاس طاقت ہے تو یاد رکھیں کہ وقت سب سے زیادہ طاقتور ہے

04/07/2025

نسلوں کے روشن مستقبل کا راز
ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ عمر ﻓﺎﺭﻭق رضی اللہ عنہ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﯾﺘﻮﮞ ﮐﻮﺳﻨﺘﮯ اور ﮨﺮ ﺻﻮﺑﮯ ﮐﮯ ﻋﺎﻣﻞ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﺭﻭﺩﺍﺩ ﻣﻨﮕﻮﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺭﺍﮦ ﭼﻠﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﻝ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮتے ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﯽ ﮔﻠﯽ ﮐﻮﭼﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺸﺖ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ کیا ﮐﺮﺗﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺁﭖ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦِ عباﺱ رضی اللہ عنہ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﺌﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﺸﺖ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯿﺎﮞ ﮔﻞ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﺑﺎﺷﻨﺪﮮ ﮔﮩﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﺳﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﭩﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺧﯿﻤﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﭼﺮﺍﻍ ﭨﻤﭩﻤﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﺎﮞ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺩﻭﺩﮪ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺟﻮ ﭘﯿﺴﮯ ملتے ﻭﮦ ﺍﺗﻨﮯ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺧﺮﭼﮧ ﺑﮍﯼ ﺗﻨﮕﯽ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﻼﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺁﺭﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺑﺴﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺑﯿﭩﯽ ﺻﺒﺢ ﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﮮ ﭼﺎﺭ ﭘﯿﺴﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﻮ ﺳُﺪﮬﺮﮮ ﮔﯽ۔ ﺗﻮﺑﮧ ﺗﻮﺑﮧ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ ﺑﯿﭩﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﭨﻮﮐﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯا میں کہا ﺍﻣﺎﮞ ﺟﺐ ﺗﻢ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻣﻼﻭﭦ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺏ ﮨﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﯿﮟ ﻟﮩٰﺬﺍ ﮨﻢ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ ﺳﮑﺘﮯ۔ ﻣﺎﮞ ﺑﻮﻟﯽ ﺁﺧﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺝ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ اور ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﻼﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﭘﺮ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺁﻧﭻ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ بیٹی نے سخت لہجے میں کہا ﺍﻣﺎﮞ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ امیرالمومنین ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻗﻄﻌﯽ ﻧﮧ ملاﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺍﺭﯼ ﻧﯿﮏ ﺑﺨﺖ ﮐﯿﺎ خلیفہﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺟﯿﺴﮯ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﮔﺮ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭽﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﻣﺎﮞ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺣﻼﻝ ﺭﺯﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ﺟﻮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﻓﯽ ﮨﻮ، ماں نے کہا ﭘﮕﻠﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎﻥ ﺧﺒﺮ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﺍﺏ ﺗﻢ ﺳﻮﺟﺎﺅ ﺻﺒﺢ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ملا دوں ﮔﯽ ﺑﯿﭩﯽ نے تڑپ کر جیا ﻧﮧ ﺍﻣﺎﮞ ﻧﮧ اگر ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ہے۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﯿﻤﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﭼﮭﺎ ﮔﺌﯽ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺻﺒﺢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ۔ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﮐﯿﺎ تو ﺩﻭﺩﮪ ﺧﺎﻟﺺ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻣﻼﻭﭦ ﻗﻄﻌﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦِ ﻋﺒﺎﺱ رضی اللہ عنہ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﯿﮏ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﮈﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ؟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦِ ﻋﺒﺎﺱ رضی اللہ عنہ ﻧﮯ ﺭﺍﺋﮯ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﻢ از ﮐﻢ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ امیرالمومنین نے ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦِ ﻋﺒﺎﺱ رضی اللہ عنہ کو ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﯿﮏ ﺧﺼﻠﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮎ ﺳﯿﺮﺕ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭﯼ ﮐﻮ ﺳﮑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﻻ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺗﻮﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﻮﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﺎﯾﺎﻥِ ﺷﺎﻥ ﮨﻮ۔ لہذا ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺩﺭﺑﺎﺭِ ﺧﻼﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮨﻮﺍﺋﯿﺎﮞ ﺍُﮌﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺻﺪﺍﻗﺖ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﺟﮕﻤﮕﺎ ﺍُﭨﮭﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہ نے ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﺗﮯ ہوﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺗﻢ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﯽﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﻨﺎﻟﻮﮞ۔ ﻓﺎﺭﻭﻕِ ﺍﻋﻈﻢ رضی اللہ عنہ ﮐﮯ ﺩﻭ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺻﻢ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺻﻢ ﻗﺪ ﺁﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﯿﻦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﺷﺎﻋﺮ، ﻋﺎﻟﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺮﺕ ﮐﺎ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﺗﮭﮯ۔
خلفائے ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ ﯾﻌﻨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ صدیق، ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ، ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥِ غنی اوﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ رضی اللہ عنہم ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﻣﺠﺴﻢ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺍﺳﯽ ﺻﺎﺣﺐِ ﮐﺮﺩﺍﺭ، ﻧﯿﮏ ﺳﯿﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮧ ﻣﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﺍﺱ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮧ ﻣﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﺳﮯ تھے۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر بنائے گئے تو اس وقت ان کا ذاتی سازوسامان اس قدر وسیع تھا کہ پورے تیس اونٹ لادکر مدینہ منورہ بھیجے گئے لباسِ تنعم وعطریات کے بے حد شوقین تھے نفاست پسندی کا یہ عالم تھا کہ جس کپڑے کو دوسرے لوگ آپ کے جسم پر ایک دفعہ دیکھ لیتے تھے دوبارہ نہیں دیکھتے تھے۔ خوشبو کے لیے مشک اور عنبر استعمال کرتے تھے رجاہ بن حیوة کا بیان ہے کہ ہماری سلطنت میں سب سے زیادہ خوش لباس معطر اور خوش خرام شخص عمر بن عبدالعزیز تھے۔ آپ جس طرف سے گزرتے تھے گلیاں اور بازار خوشبو میں نہاجاتے لیکن جس دن خلیفہ اسلام بنائے گئے آپ نے ساری جاگیریں واپس کردیں اور لباس، عطریات، سازوسامان، اور سواریاں سب بیچ دیے اور قیمت بیت المال میں داخل کردی آپ کے پاس صرف ایک جوڑا رہتاتھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزيز کا واقعہ ہے کہ آخری وقت قريب آ پہنچا تو ايک قريبی عزيز دوست مسلمہ عبدالملک قريب بيٹھے تھے اس کے بعد لڑکوں کو بلايا اور باچشم تر ان کو ديکھ کر فرمايا اے میرے بچو دو باتوں میں سے ایک بات تمہارے باپ کے اختیار میں تھی ایک یہ کہ تم دولت مند ہو جاؤ اور تمہارا باپ دوزخ میں جائے دوسری یہ کہ تمہارا باپ جنت میں داخل ہو میں نے آخری بات پسند کرلی اب میں تمہیں صرف خدا ہی کے حوالے کرتا ہوں۔ پھر فرمایا جب مجھے دفن کرو تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناخن اور موئے مبارک میرے کفن کے اندر رکھ دینا۔ آپ کی اہليہ محترمہ کا بيان ہے کہ آخری وقت ميں نے سنا کہ بار بار اس آيت کي تلاوت فرمارہے تھے تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا وَلاَ فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ اس کے بعد گردن جھکا لی اور وقت کا سب سے بڑا متقی انسان اپنے خالقِ حقيقی سے جا ملا۔

04/07/2025

ﭘﮑّﯽ ﻗﺒﺮ
ﺟﺐ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺁﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿ ﮐﮧ ﺁﺝ ﭘﮭﯿﮑﮯ ﮐﯽ ﺍﻣّﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮭﯿﯿﮑﮯ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﻮﮨﻨﺎ ﭘﮑﺎ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﻮﺍﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﮭﻞ ﺩﺍﺭ ﺩﺭﺧﺖ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﻮﺍﮰ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﭘﮭﯿﮑﮯ ﮐﯽ ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﻮ ﮔﺰﺭﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ چکے ہیں خواب اچھا تھا ﺳﻮﭼﺎ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﺁﮰ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺳﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﻠﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﻦ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﮨﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭼﻼ ﺁﯾﺎ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺭﺍﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺗﮭﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﻼ ﮐﺎ ﺳﮑﻮﻥ تھا۔ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﺌﯽ ﭘﮭﯿﮑﮯ ﮐﺪﮬﺮ ﺗﮭﮯ ﯾﺎﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﯾﺐ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﮭﺴﮏ آئی ﮨﻮں اور ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﯿﮑﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ہوں ﭘﮭﯿﮑﮯ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮔﮭﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ہوتی تھیں۔ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ پہلے ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﮐﺎﺭ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺑﮍﯼ ﻇﺎﻟﻢ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺗﮭﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﺍ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ سارے مسافروں کا ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﺑﺮﺍ ﺣﺎﻝ تھا۔ ﻋﺠﯿﺐ ﭼﻤﮑﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﺗﮭﯽ ﭘﻞ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ ﻟﮕﺘﺎ ﻧﺌﯽ ﻧﻮﯾﻠﯽ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻨﺪﻭﺭ ﭼﻤﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺍﯾﺴﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺑﮯّ ﮐﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﺎ ﭼﭩﺎ ﺍُﺟﮍﺍ ﺳﺮ، ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﮔﺮﻣﯽ ﮐﯽ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺍﮐﻠﻮﺗﺎ ﺩﺭﺧﺖ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮨﻢ ﺳﺐ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﯾﮟ ﺍِﮐﻮ ﮨﯽ ﭘُﺘﺮ ﺟﻨﻤﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮑﻮﻥ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﭼﮍﯼ ﮐﮯ ﺑﻮﭦ ﮐﻮ ﺁﮨﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﮔﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺭﮐﮫ ﺩﮮ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺭﻭﺗﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ُﺑﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﻟﮯ اوس ویلے ماب ﺑﮍﺍ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﻭﮈﺍ ﺟﮕﺮﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﯽ ﺍُﺱ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﺎ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﻮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮨﻢ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﺌﯽ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺍُﺩﮬﺮ بس کو ﺍُﮈﯾﮑﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﺪﺭﮮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺲ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺟﻤﻊ کیے ﮨﻮﮰ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﮑﯽ ﮐﺮﻭﺍﺅﮞ ﮔﺎ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ﻗﺒﺮ ﺗﻮ ﻗﺒﺮ ﮨﯽ ﮨﮯ ﻧﺎ ﮐﭽﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﭘﮑﯽ ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﻧﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺭﺏ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﭘﺮ ﺟﯿﻮﻧﺪﮮ ﺟﯽ ﺟﻮ ﮨﯿﮟ ﻧﺎ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺣﻖ ﮨﮯ۔ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﺍُﻥ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑُﻮﭨﮯ ﺧﺮﯾﺪﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﺎﺭ ﺑﯿﻠﯽ ﺑُﻼﮰ ﺍﻭﺭ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ﺳﻮﮨﻨﺎ ﺍﻣﺮﻭﺩ ﮐﺎ ﺩﺭﺧﺖ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﻨﮉ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﮐﺘﻨﮯ ﮨﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﻟﮕﺎﮰ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﺳﺎﺭﮮ ﯾﺎﺭ ﺑﯿﻠﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮈﻭﭨﯽ ﻟﮕﺎﺩﯼ ﮐﮧ ﻻﺭﯼ ﺍﮈﮮ ﭘﺮ ﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﻼﺋﯿﮟ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﺻﺒﺢ ﭼﮭﯿﺪﮮ ﺣﻠﻮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﮈﻭﭨﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮭﺮ ﺟﯽ ﭘَﮭﻤّﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺮﺍ ﻭﺳﯿﻢ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻣَﯿﮟ ﻧِﮑﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻭ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﻼ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﮭﻼ ﮐﺮﮮ صاحب ﺟﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﺳﺎﺭﮮ ﯾﺎﺭ ﺑﯿﻠﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ ﺍﺏ ﮐﻞ ﮐﻢ ﭘﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺷﮩﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺩُﻋﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﺟﺎﺅﮞ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﮰ ﺑﻐﯿﺮ ﺗﻮ ﻧﺌﯿﮟ ﻧﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ۔ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﮑﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﺍ ﺳﮑﺎ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﺭﻭﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺭُﻻﺗﺎ تھا ﺩﻝ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﮔﺮﮨﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﺘﺎ ﺟﺎﺗﺎ تھا ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﮐﺮﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳُﻨﺎ ﮐﺮ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ اور ﻣﯿﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﯽ۔ میں ﺳﻮﮨﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻧﮓ ﺩﮮ ﭘﮭﯿﮑﮯ ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺵ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭘﮭﯿﮑﮯ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﭼُﻦ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﺑﺲ ﮐﺎ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﮐﺎﻧﯿﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﻨﺎ ﮔﯿﺎ ﺯﺣﻤﺖ ﺭﺣﻤﺖ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﺑﺎﺯﯼ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﮔﻠﯽ ﺻﺒﺢ ﮨﯽ ﭘﻮﺭﮮ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺧﺖ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭﭼُﭗ ﭼﭙﯿﺘﮯ ﺑﺨﺸﻮ ﮐﻮ ﭘﮭﯿﮑﮯ ﮐﯽ ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﮑﯽ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﮰ ﺷﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﮐﻞ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﻮ ﺑﮭﮕﻮ ﺭﮨﮯ تھے۔

03/07/2025

ملے گی جنت پیے گا کوثر
اسی کو محشر میں چین ہوگا
نبی محبت کریں گی اس سے
کہ جس کی دل میں حسین ہوگا

02/07/2025

سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ
زمانۂ جاہلیت میں آپ کا شمار قریش کے بڑے اور دانش مند سرداروں میں ہوتا تھا اسی لیے دوسرے سرداروں کی طرح اسلام اور پیغمبر اسلام کے سخت دشمن تھے۔ قدرت کی کرشمہ سازی دیکھو کہ اسی دشمنِ اسلام کے گھر میں عبد اللہ بن سہیل اور ابو جندل بن سہیل رضی اللہ عنہم جیسے اسلام کے فدائی پیدا ہوئے۔ اشاعتِ اسلام نے انہیں اسلام کا اور زیادہ دشمن بنادیا اور وہ اسلام کی بیخ کنی میں ہر امکانی کوشش کرتے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلتے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا غصہ قابو سے باہر ہو گیا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ ارشاد ہو تو سہیل کے اگلے دو دانت توڑ ڈالوں تاکہ آپ کے خلاف تقریر نہ کرسکے لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا عمر جانے دو ممکن ہے کبھی وہ ہمیں خوش بھی کر دیں۔ صلح حدیبیہ میں قریش کی طرف سے معاہدہ لکھانے کی خدمت انہی کے سپرد تھی۔ یہ بڑا مدبر اور معاملہ فہم تھا معاہدہ کی کتابت کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ لکھنا چاہا تو سہیل نے اعتراض کیا کہ ہمارے دستور کے مطابق باسمک اللھم لکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کہا مان لیا اور معاہدہ کا مضمون شروع ہوا۔ جب محمد رسول اللہ لکھا گیا تو سہیل نے اعتراض کیا کہ اگر ہم محمد کو رسول مانتے تو یہ جھگڑا ہی کیوں ہوتا محمد رسول اللہ کی بجائے محمد بن عبد اللہ لکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گو تم مجھے جھٹلا رہے ہو لیکن میں خدا کا رسول ہوں۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ رسول اللہ مٹا کر میرا نام لکھ دو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عرض کیا میں اپنے ہاتھ سے نہیں مٹا سکتا۔ اس عذر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دستِ مبارک سے مٹا کر محمد بن عبد اللہ لکھ دیا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کا لشکر مکہ میں داخل ہوا تو اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے والوں میں صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابی جہل جیسے لوگ شامل تھے۔ ان کا مقابلہ کرنے والے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے جو زمانہ جاہلیت میں ان کے جگری یار اور ساتھی تھے۔ فتح مکہ کے بعد صنادیدِ قریش کی قوتیں پارہ پارہ ہوگئیں اور ان کے لیے دامنِ رحمت کے علاوہ کوئی جائے پناہ باقی نہ رہی۔ اس وقت وہی سہیل جنہوں نے دو سال پیشتر حدیبیہ میں من مانی اور فاتحانہ شرائط پر صلح کی تھی بے بس اور لاچار ہوکر گھر کے اندر کواڑ بند کرکے چھپ رہا اور اپنے لڑکے ابو جندل رضی اللہ عنہ کے پاس جن پر اسلام کے جرم میں طرح طرح کی سختیاں کی تھیں پیام کہلا بھیجا کہ میری جان بخشی کراؤ۔ ابو جندل رضی اللہ عنہ لاکھ مشق ستم رہ چکے تھے پھر بھی بیٹے تھے اور اسلام نے بھی اس مقدس رشتے کی اہمیت اورزیادہ کردی تھی اس لیے بلا تامل اس حکم کی تعمیل کے لیے سر خم کر دیا اور خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والد کو امان مرحمت فرمائیے ان کی سفارش پر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل کی تمام خطاؤں سے درگزر فرمایا اور ارشاد ہوا کہ وہ خدا کی امان میں مامون ہیں بلاخوف و خطر گھر سے نکلیں اور گرد و پیش کے لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ جو بھی سہیل سے ملے خبردار وہ ان کی طرف نہ لپکے۔ بیٹے نے جاکر باپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنایا یہ شانِ کرم دیکھ کر سہیل کی زبان سے بے اختیار یہ کلمات نکے کہ واللہ وہ بچپن میں بھی نیک تھے اور بڑی عمر میں بھی نیک ہیں۔ اسلام قبول کرنے بعد آپ رضی اللہ عنہ نماز روزہ اور صدقہ و خیرات میں اکثر وقت گزارتے اور اللہ کے خوف اور ڈر سے بے حد روتے تھے۔
غزوہ حنین میں مجاہدین کی صف میں شامل ہوکر کفار کے ساتھ لڑے اور غازی بن کر لوٹے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے سو اونٹ سہیل بن عمرو عطاء فرمائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب ارتداد کا فتنہ اٹھا تو بہت سے مؤلفۃ القلوب ڈگمگا گئے لیکن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ کے ایمان میں ذرہ برابر بھی تذبذب نہ پیدا ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قبائل مکہ کو اسلام پر قائم رکھنے کی بڑی کوشش کی چنانچہ جب انہوں نے قبائل مکہ میں اسلام سے برگشتگی کے آثار دیکھے تو تمام قبیلہ والوں کو جمع کرکے تقریر کی کہ برادران اسلام اگر تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتے تھے تو وہ دوسرے عالم کو سدھار گئے ہیں اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی پرستش کرتے تھے تو وہ حی و قیوم اور موت کی گرفت سے بالا ہے۔ برادرانِ قریش تم سب سے اخیر میں اسلام لائے ہو اس لیے سب سے پہلے اس کو چھوڑنے والے نہ بنو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اسلام کو کوئی صدمہ نہیں پہنچ سکتا بلکہ وہ اور زیادہ قوی ہوگا۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اسلام آفتاب و ماہتاب کی طرح ساری دنیا میں پھیلے گا اور سارے عالم کو منور کرے گا۔ یاد رکھو جس شخص نے دائرہ اسلام سے باہر قدم رکھنے کا ارادہ کیا اس کی گردن اڑا دوں گا۔ سہیل کی اس مؤثر دلپزیر اور پرجوش تقریر نے ان کے دلوں کو پھر اسلام پر راسخ کر دیا اور مرکزِ اسلام فتنۂ ارتداد کی وبا سے بچ گیا۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشنگوئی کی تصدیق ہو گئی کہ ممکن ہے سہیل سے کبھی پسندیدہ فعل کا ظہور ہو۔ فتنۂ ارتداد کے فرو کرنے میں ان کے گھر بھر نے بلیغ کوشش کی چنانچہ یمامہ کی مشہور جنگ میں سہیل رضی اللہ عنہ کے بڑے صاحبزادے عبد اللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب حج کے لیے تشریف لے گئے تو سہیل کے پاس تغریت کے لیے ان کے گھر گئے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شہید اپنے ستر اہل خاندان کی شفاعت کرے گا مجھے امید ہے کہ میری سب سے پہلے شفاعت کی جائے گی۔ سعد بن فضالہ جو شام کے جہاد میں سہیل کے ساتھ تھے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سہیل نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ خدا کی راہ میں ایک گھڑی صرف کرنا گھر کے تمام عمر کے اعمال سے بہتر ہے اس لیے اب میں شام کا جہاد چھوڑ کر گھر نہ جاؤں گا اور یہیں جان دوں گا اس عہد پر اس سختی سے قائم رہے کہ طاعون عمواس میں بھی پیچھے نہ ہٹے اور 18ھ میں اسی وبا میں شام کے غربت کدہ میں جان دی۔

02/07/2025

اپنے غلط اقدام پر جتنی اچھی دلیلیں ہم خود کو دیتے ہیں وہ مہنگے سے مہنگا وکیل بھی نہ دے سکے

Address

Kasur

Telephone

+923004563446

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when تاریخ کے جھروکوں سے posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to تاریخ کے جھروکوں سے:

Share