تاریخ کے جھروکوں سے

تاریخ کے جھروکوں سے Respect is the Foundation of Any Relationship

28/09/2025

سوشل میڈیا کے فلٹر شدہ چہروں پر مت جائیں اور اپنا گھر نہ اُجاڑیں، آپ کے نکاح میں جو ہے وہی اس دنیا کا سب سے حسین انسان ہے۔

اگر اباجی نے آپ کو وارثت میں خوداری دی ہے تو سمجھ  لیجیے کہ آپ قیمتی اثاثے کے حامل ہیں۔
28/09/2025

اگر اباجی نے آپ کو وارثت میں خوداری دی ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ قیمتی اثاثے کے حامل ہیں۔

28/09/2025

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

فیض احمد فیض

28/09/2025

دلوں میں نیزے جگر میں خنجر
چھبے ہوئے تھے پر ہم کھڑے تھے
ہماری نظروں کے سامنے تَن
کٹے ہوئے تھے پر ہم کھڑے تھے

یہ حالِ غیرت یہ سوزِ ایماں
یہ کیفِ ہستی کہ فربہ ہو کر
عدو کے ہاتھوں گلے ہمارے
دبے ہوئے تھے پر ہم کھڑے تھے

ہمارے نیزوں ہماری ڈھالوں
پہ تھا بھروسہ جنھیں ازل سے
ہمارے آگے وہ سر بریدہ،
پڑے ہوئے تھے پر ہم کھڑے تھے

جنھیں دلاسہ دہائیوں سے
وفا کا ہم نے دیا ہوا تھا
وہ خواب آزادیوں کا لے کر
مَرے ہوئے تھے پر ہم کھڑے تھے

جو اہلِ باطل تھے ان کے سینوں پہ
سج رہے تھے عرب کے تمغے
جو اہلِ حق تھے،م وہ سولیوں پر
چڑھے ہوئے تھے پر ہم کھڑے تھے

لکھو مورخ یہ المیہ کہ
جہان بھر کے ستم کدوں میں
ہماری بہنوں کے جسم سارے
چِھلے ہوئے تھے پر ہم کھڑے تھے

27/09/2025

‏اتنا تـــو حوصلہ میرے جذبوں کو دےاے خُدا
میــں تلخیِ حـــــــیات کا شــکوه نہ کر سکوں

شـبنم کی طرح گر کے بھی خـــاموش ہی رہوں
اور خُوشـبو کی طرح درد کا چرچا نہ کر سکوں
❣️

26/09/2025

ہم نے ہر دکھ کو محبت کا تسلسل سمجھا
ہم کوئی تم تھے کہ دنیا سے شکایت کرتے

ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اگر اب بھی نا کھلتے تو قیامت کرتے

ہم اگر چپ ہیں تو اس کو غنیمت جانو
ہم اگر صبر نہ کرتے تو قیامت کرتے

ہم کو معلوم ہے دشمن کے سب ٹھکانوں کا
شریک جرم نا ہوتے تو بغاوت کرتے

کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر عشق نا کرتے تو حکومت کرتے

23/09/2025

کھوجی کتوں کے نام پر کیا جانے والا فراڈ
پاکستان کے مختلف علاقوں میں ڈاگ سنٹرز انسانیت کی تذلیل میں مصروف ہیں۔ جگہ جگہ آرمی کے تربیت یافتہ کھوجی کتوں کے نام پر ڈاگ سنٹرز بنے ہوئے ہیں جب کسی علاقے میں جرم ہوتا ہے تو لوگ ان کتوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ کم ازکم 40 ہزار دے کر ان کھوجی کتوں اور ان کے مالکان کو جرم والے علاقے میں لے جایا جاتا ہے جہاں جائے وقوعہ سے کچھ کپڑے وغیرہ سونگھائے جاتے ہیں اور پھر یہ کتے مخصوص اشاروں پر چلتے ہوئے علاقے کے ہی کسی گھر میں داخل ہوتے ہیں اور گھر کے صحن یا کسی کمرے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کتے کا محلے کے کسی ایک گھر میں داخل ہونا اور پھر وہیں بیٹھ جانا اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ مجرم اسی گھر میں ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کھوجی کتے سے کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ان سے درخواست کی جاتی ہے کہ کتے کو دوبارہ چھوڑا جائے کتے کو پھر چھوڑا جاتا ہے اور نتیجہ اس بار بھی یہی ہوتا ہے۔کتا علاقے میں گھوم پھر کر پھر اسی گھر میں آبیٹھتا ہے جس گھر میں پہلے آیا تھا۔ اب تو مکمل یقین ہوجاتا ہے کہ مجرم اسی گھر کا کوئی فرد ہے۔ اس گھر سے کسی ایسے نوجوان کو پکڑاجاتا ہے جس کی علاقے میں مشہوری کچھ اچھی نہیں ہوتی اور مدعی اور اہل علاقہ اکثر وہیں اس کی پھینٹی لگانا شروع کردیتے ہیں اور پھر پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کتوں کا یہ فراڈ ہے کیا اور انہیں کس طرح ایک مخصوص گھر میں پہنچا کر بٹھا دیا جاتا ہے اس پر بعد میں بات کرتا ہوں پہلے یہ بتا دوں کہ ان جاسوس کتوں کے نام پر پکڑے گئے ملزم کو عدالت ملزم نہیں مانتی اور ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اکتوبر 2016 میں جاسوس کتوں کے نام پر چل رہے اس کاروبار پر پابندی لگا چکی ہے۔ مطلب یہ کہ یہ ڈاگ سنٹرز والےبذات خود قانون شکن اور مجرم ہیں۔ اب بات کرتے ہیں کہ یہ کتے کس طرح کام کرتے ہیں اور کس طرح مخصوص گھر میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ان ڈاگ سنٹرز کے مالکان رابطہ کرنے پر متاثرہ خاندان سے جرم کی تفصیلات پوچھتے ہیں ساتھ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آپ کو اپنے علاقے میں جن چند لوگوں پر شک ہے ان کے نام اور گھروں کے پتے بتادیں یہ نام اور پتے بتانے پر وہ ان گھروں کی پہلے ہی ریکی کر لیتے ہیں اور ایک گھر کو منتخب کر لیتے ہیں۔ اس گینگ کے لوگ آپس میں طے کرلیتے ہیں کہ کتے کو اسی گھر میں لانا ہے۔ مدعی کو کسی پر شک نہ بھی ہوتو یہ گینگ والے باتوں ہی باتوں میں اہل علاقہ سے کچھ ایسے گھر والوں کی تفصیلات لے لیتے ہیں جن کی محلے میں مشہوری کچھ اچھی نہیں ہوتی اور پھر اپنے کتوں کو انہی میں سے کسی ایک گھر میں لابٹھاتے ہیں۔ کارروائی ڈالنے کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے کہ کتے کو جائے وقوعہ سے مٹی اور کپڑے سونگھائے جانے کی اداکاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ ٹرینر کتے کی لمبی رسی اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور پھر کتا مجرم پکڑنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یہ سُدھائے ہوئے کتے مخصوص لفظ پر دائیں مڑتے ہیں ایک مخصوص لفظ بولا جائے تو بائیں مڑتے ہیں ایک اور مخصوص لفظ بولا جائے تو سیدھا چلتے رہتے ہیں اور مخصوص لفظ بولنے پر فوراً جس جگہ ہوں وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ اپنے کتے کو ایک مخصوص گھر میں پہنچا کر یہ ڈاگ سنٹر مالکان تو اپنا معاوضہ وصول کرتے ہیں اور رفو چکر ہوجاتے ہیں لیکن بعد میں اس ٹریس شدہ گھر کے لوگوں کو اہل علاقہ کے جس تشدد اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اس طرح کے کئی کیسز میں طویل دشمنیاں بھی شروع ہوئی اور قتل بھی ہوئے۔ قانون کے بارے میں تو آپ نے جان لیا کہ وہ کہتا ہے کہ ان کتوں کی شہادت کی کوئی حیثیت نہیں ہے جبکہ سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ کھوجی کتے کی نشاندہی پر کسی کو مجرم سمجھ کر گرفتار کرنا غیر قانونی ہے۔ کھوجی کتے کی گواہی کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں۔ سائنس کہتی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی کتا چاہے وہ کسی بھی نسل سے ہو وہ ایک وقت میں صرف اور صرف ایک خوشبو یا بدبو سونگھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس صلاحیت سے لیس کرنے کیلئے بھی اس کتے کی بچپن سے ہی مخصوص اور بڑے مشکل مراحل سے گزار کر تربیت کی جاتی ہے کسی بھی کتے کو ایک صلاحیت کے علاوہ کسی دوسری صلاحیت کیلئے تربیت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاسوس کتے جن مقاصد کیلئے زیادہ استعمال کئے جاتے بھی ہیں وہ منشیات بارود یا لاش کی خوشبو یا بدبو سونگھ کر پتہ چلانا ہوتا۔جس کتے کو منشیات یا بارود کی بو سونگھنے کی ٹریننگ حاصل ہوتی ہے وہ لاش کی بو نہیں سونگھ سکتا مطلب یہ کہ ایک کتے کے پاس ایک ہی مہارت ہوتی ہے۔ کتوں کے ذریعے چوروں اور ڈاکوؤں وغیرہ کو پکڑنا فلمی کہانیوں میں تو ہوسکتا ہے ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ آپ کے علاقے میں بھی اس طرح کے کوئی کھوجی کتے والے آئیں تو انہیں بے نقاب کریں اور کسی خاندان پر ظلم ہونے سے بچائیں۔

22/09/2025

بچپن میں سنتے تھے کہ زیادہ علم حاصل کرنے سے انسان پاگل ہوجاتا ہے میں سوچتا تھا کہ بھلا علم انسان کو کیسے پاگل کر سکتا ہے لیکن اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ واقعی ایسا ہوتا ہے کیونکہ میں نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھا ہے۔ اکثر گھر میں بذریعہ ڈاک کتابیں موصول ہوتی ہیں اور جس وقت پوسٹ مین آتا ہے عین اُسی وقت میرا مالی پودوں کی تراش خراش میں مصروف ہوتا ہے اس لیے کتابیں وہی وصول کرتا ہے۔ میرے صحن میں لیموں کا ایک پودا ہے جو ہر موسم میں پھل دیتا ہے۔ اُس روز میں لیموں توڑ رہا تھا کہ مین گیٹ کی بیل ہوئی مالی پودوں کو پانی دے رہا تھا اُس نے پانی کا نل بند کیا اور گیٹ سے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک بنڈل تھا جس کی پیکنگ بتا رہی تھی کہ اندر کتابیں ہیں۔ میں نے وہیں پیکٹ کھولا اور کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا مالی میرے قریب ہوا اور آہستہ سے بولا صاحب جی زیادہ کتابیں پڑھنے سے علم کی تاپ چڑھ جاتی ہے میں مسکرا دیا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں چاچا علم کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا۔ یہ سنتے ہی مالی نے کندھے پر پڑا اپنا کپڑا اتار کر پسینہ صاف کیا اور غور سے میری طرف دیکھا کر کہا ہمارے گاؤں میں ایک ایسا بندہ موجود ہے۔ میرے کان کھڑے ہوگئے میں نے پوچھا کون ہے وہ؟ جیرے مالی نے دانت نکالے اور کہا ماسٹر غاؤں غاؤں۔ اس نے مزید بتایا کہ میرے گاؤں میں گذشتہ کئی سالوں میں ایک ہی شخص پڑھا لکھا ہے اور وہ بھی پاگل ہوچکا ہے۔ شہر کے کسی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھا پھر واپس گاؤں چلا آیا اور اب ہاتھ میں اینٹ اٹھائے غاؤں غاؤں کرتا پھرتا ہے۔ مالی کا گاؤں دور دراز کے کسی علاقے میں تھا لیکن مجھ پر تجسس کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ میں نے پوچھا کہ چاچا میں تمہارے گاؤں جاکر اُس ماسٹر کو دیکھ سکتا ہوں؟ اس نے کہا جب مرضی دیکھ لیں لیکن ہمارے گاؤں کا راستہ بڑا خراب ہے گاڑی نہیں جائے گی میں جلدی سے پوچھا بس تو جاتی ہوگی؟ اُس نے اثبات میں سرہلایا میں نے اُس کے گاؤں کا ایڈریس لیا م اور ہفتہ کی رات روانہ ہوگیا۔ گاؤں میں داخل ہوتے ہی چاچے جیرے کے بتائے ہوئے بندے کا پوچھا اور وہاں پہنچ گیا۔ یہ بندہ چاچے جیرے کا بہنوئی تھا اور گاؤں میں کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ بڑی محبت سے ملا اور بیٹھک میں خاص طور پر میرے لیے بستر لگوایا۔ رات کے کھانے میں اُس سے گفتگو ہوئی تو میں نے جان بوجھ کر ماسٹر غاؤں غاؤں کا ذکر چھیڑ دیا اس نے کہا وہ تو پاگل ہے اینٹ دے مارے گا۔ میں نے پوچھا کیا وہ کسی کو بھی دیکھتے ہی اینٹ مار دیتاہے؟ اس نے نفی میں سرہلایا اور کہا ویسے تو باتیں کرتے رہیں تو لگتا ہی نہیں کہ پاگل ہے لیکن بحث تھوڑی لمبی ہوجائے تو اچانک اینٹ اٹھا لیتا ہے۔ میں نے سر کھجایا اگر واقعی ایسا تھا تو ماسٹر غاؤں غاؤں سے ملنا بہت ضروری تھا میں جاننا چاہتا تھا کہ علم نے اُسے کیسے پاگل کیا۔
اگلے دن ناشتے کے بعد سارے گاؤں والے اکٹھے ہوگئے۔ اُن کے چہروں پر ایسی خوشی تھی گویا کسی میلے میں جارہے ہوں۔ میں نے مالی کے بہنوئی سے پوچھا کہ یہ لوگ ساتھ کیوں جارہے ہیں؟ اس نے قہقہہ لگا کر کہا بس جی شغل میلے کے شوقین ہیں ویسے بھی یہ لوگ ماسٹر کے دماغ کو زیادہ سمجھتے ہیں یہی ماسٹر سے بات چیت کریں گے آپ نے بس پیچھے رہ کر دیکھنا ہے کہ ماسٹر کیسے پہلے پاگلوں والی باتیں کرتا ہے اور پھر اینٹ اٹھاتا ہے۔ میں نے ایک اہم سوال کیا کہ کیا ماسٹر صاحب کے گھر والے بھی ساتھ رہتے ہیں؟ اس نے کہا نہیں وہ شہر میں ہیں یہاں صرف ماسٹر ہی تماشا لگانے کے لیے یہاں رہ گیا ہے۔ دس منٹ بعد ہم سب ماسٹر غاؤں غاؤں کی رہائش گاہ کے قریب پہنچ گئے۔ اُن کے گھر کے باہر شیشم کا ایک درخت لگا ہوا تھا۔ میں نے دور سے دیکھا کہ گھنی چھاؤں میں ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ عمر رسیدہ شخص کرسی پر بیٹھا عینک لگائے کوئی کتاب پڑھ رہا ہے۔ گاؤں کے سب لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر محتاط انداز میں آگے بڑھنے لگے۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر وہیں روک لیا گاؤں والے ماسٹر کے تھوڑا اور پاس آگئے شائد ماسٹر کو بھی لوگوں کی آمد محسوس ہو گئی تھی۔ اُس نے یکدم کتاب سے نظریں اٹھائیں اور لوگوں کی طرف دیکھا کچھ دیر تک وہ اُنہیں گھورتا رہا پھر اچانک اُس کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی ’’آؤ آؤ کیا پوچھنے آئے ہو؟ مجمع میں سے ایک ہٹا کٹا نوجوان دو قدم آگے بڑھا ماسٹر صاحب وہ پوچھنا تھا کہ چڑیل کو کیسے پکڑا جائے؟ ماسٹر نے کچھ لمحے بات سنی پھر تیوری چڑھائی کہ کون سی چڑیل کیسی چڑیل کوئی چڑیل وڑیل نہیں ہوتی۔ گاؤں والوں کی ہنسی نکل گئی وہی نوجوان پھر بولا لیکن ماسٹر صاحب جو بھی رات کو قبرستان والے راستے میں بوہڑ کے درخت کے نیچے سوتا ہے مرجاتا ہے گاؤں کے تین لوگ مارے جاچکے ہیں۔ ماسٹر نے کتاب بند کی اور بڑے پیار سے بولا دیکھو یہ تو پرائمری کا بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ درخت دن کو آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں اسی وجہ سے رات کو کسی بھی درخت کے نیچے سونے سے آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے اور سونے والے کی موت ہو جاتی ہے اس میں کسی چڑیل کا کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ سنتے ہی ساری فضا قہقہوں سے گونج اٹھی۔ میں نے ماسٹر کی طرف دیکھا جو لوگوں کے قہقہے سن کر دانت پیس رہا تھا۔ گاؤں کا رنگ ریز آگے بڑھا ماسٹر صاحب کالا رنگ کیسے بنتا ہے؟ ماسٹر نے گردن اُس کی طرف گھمائی اور کہا بھئی کالا رنگ کوئی رنگ نہیں ہوتا یوں سمجھ لو جس چیز میں کسی رنگ کی ملاوٹ نہ ہو یعنی بے رنگ ہو وہ کالی ہوتی ہے سب لوگ ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ سوال کرنے والے نے بلند آواز کہا اوئے پاگل ماسٹر میرے بال سفید ہیں میں ہر چوتھے دن خضاب لگاتا ہوں پھر یہ سفید سے کالے کیسے ہو جاتے ہیں؟ قہقہے بلند ہوگئے ماسٹر ایک دم کھڑا ہوگیا سب لوگ چوکنے ہوگئے۔ ایک اور سوال آیا ماسٹر صاح چاند پر کھڑے ہوکر زمین پر پتھر پھینکا جائے تو کتنی دیر بعد نیچے گرتا ہے؟ ماسٹر کے لہجے میں بے بسی امڈ آئی اس نے کہا دیکھو چاند اوپر نہیں بلکہ زمین کے سامنے ہے اس لیے چاندپر کھڑے ہوکر زمین نیچے نہیں اوپر نظر آئے گی۔ سب کی بتیسیاں نکل آئیں یوں لگا جیسے پورے مجمع کو کسی نے مشترکہ گدگدی کی ہو۔ ماسٹر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیچے جھکا اور تیزی سے اینٹ اٹھا لی۔ ایک ہڑبونگ سی مچی اور سب لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ میں نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور ماسٹر صاحب کے قریب پہنچ گیا۔ ماسٹر غضبناک نگاہوں سے مجھے گھورنے لگا گاؤں والے چیخ چیخ کر مجھے پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے تھے۔ میں نے ایک نظرگاؤں والوں پر ڈالی پھر ماسٹر صاحب کے پاس آکر پوری عقیدت سے ان کے اینٹ والے ہاتھ پر بوسہ دیا اور بولا ماسٹر صاحب جہالت کا سمندر دلیل کے پتھر سے پار نہیں ہوتا۔ ماسٹر صاحب کے ہونٹ کپکپائے اینٹ ہاتھوں سے چھوٹی اور آنکھوں میں نمی سی تیر گئی۔

22/09/2025

قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی باہم ملاقات اپنی نوعیت اور تاثر کے اعتبار سے ایک منفرد واقعہ ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام صاحب شریعت پیغمبر تھے ایک موقع پر انہیں باطنی احوال جاننے کا شوق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ملاقات ایک ایسی ہستی سے کرائی جس کے سپرد باطنی معاملات تھے۔ قرآن مجید میں اس ہستی کا نام مذکور نہیں ہے البتہ تفاسیر میں اس کا نام خضر علیہ سلام بتایا گیا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام سے کہا آپ میرے ساتھ چلتے ہوئے جو معاملات دیکھیں گے اس پر خاموش نہیں رہ سکیں گے اور سوال کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے خاموش رہنے کا وعدہ کیا لیکن جب انہوں نے پے در پے تین عجیب و غریب واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تو ہر بار مُہر سکوت توڑنے پر مجبور ہوگئے۔ پہلا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام نے مل کر ایک کشتی میں سفر کیا دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچنے کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے اس اچھی بھلی کشتی کا ایک کونا توڑ کر اسے ناقص کر دیا۔ دوسرا واقعہ یہ تھا کہ ایک مقام پر کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ خضر علیہ السلام نے آگے بڑھ کر ایک بچے کو پکڑا اور اسے موت کی نیند سلا دیا۔ ظاہر ہے یہ شرعی طور پر گناہ کبیرہ کا ارتکاب تھا۔ تیسرا واقعہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام نے ایک بستی کے مکینوں سے کھانا طلب کیا تو کسی نے بھی ان کے سوال کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ اچانک ایک شکستہ دیوار دکھائی دی جو معمولی سے دھکے سے گر سکتی تھی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہا آئیے ہم یہ دیوارتعمیر کر دیں چنانچہ دونوں اصحاب نے وہ دیوار از سر نو کھڑی کر دی۔ حضرت موسی علیہ السلام کے لئے یہ تیسرا واقعہ بھی بہت انوکھا تھا ضبط نہ کر سکے اور اس کا مفہوم پوچھنے پر مجبور ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہا اب آپ مزید میرے ساتھ نہیں چل سکیں گے البتہ جدا ہونے سے پہلے مَیں ان واقعات کا پس منظر واضح کر دیتا ہوں۔ وہ کشتی جن لوگوں کی تھی وہ اس کے ذریعے مسافروں کو دریا کے آر پار لے جا کر مزدوری حاصل کرتے تھے یہ ان کی کمائی کا واحد ذریعہ تھی۔ کشتی بہت اچھی حالت میں تھی جبکہ دریا کے پار ایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی وہ ان غریب لوگوں سے یہ کشتی چھین لیتا۔ مَیں نے اسے ناقص کر دیا تاکہ وہ اسے ناکارہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دے۔ جس بچے کو ٹھکانے لگا دیا اس کا پس منظر یہ ہے کہ وہ بچہ بڑا ہو کر اپنے نیک والدین کی رسوائی کا باعث بنتا اب اللہ ان کو اس کا نعم البدل عطا کریں گے جو ان کے لئے باعثِ رحمت و برکت بنے گا اور جو دیوار گرا چاہتی تھی اس کے نیچے دراصل کچھ یتیموں کا خزانہ دبا ہوا تھا۔ دیوار گر جاتی تو لوگ وہ خزانہ لوٹ لیتے۔ اب دیوار کی تعمیر نو سے وہ خزانہ اس وقت تک محفوظ رہے گا جب تک اس کے وارث بچے بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچ جاتے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے سفرکے اس قصّے میں اہلِ ایمان کے لیے کئی سبق پنہاں ہیں۔ اللہ رب العزت کا کارخانۂ مشیت جن مصلحتوں اور حکمتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ بنی نوع انسان کی نظروں سے اوجھل ہیں اس لیے انسان ہر بات پر حیران و پریشان ہو جاتا ہے اور بعض اوقات تو ناشکری و شکایات کے الفاظ ادا کر ڈالتا ہے۔ بظاہر جس چیز میں اُسے برائی نظر آتی ہے اُسے وہ اپنے لیے غلط سمجھتا ہے لیکن اگر اُس کی حقیقت عیاں کردی جائے تو اسے احساس ہوگا کہ میرے رب نے جو میری بہتری کے لیے مناسب سمجھا وہ کیا۔ اس لیے اللہ تعالٰی کے فیصلوں پر تنقید، ناشکری اور بے صبری اہلِ ایمان کا شیوہ نہیں ہے۔ بعض اوقات جو کچھ ہمیں جیسا نظر آتا ہے ویسا ہوتا نہیں اسی لیے حکم ہے کہ ہر حال میں اللہ کا شُکر ادا کیا جائے۔ ایک اور اہم سبق استاد و شاگرد کی وہ تعظیم ہے جس نے ایک جلیل القدر نبی کو پابند کردیا کہ وہ اپنے استاد کی نہ صرف عزّت و تکریم کرے بلکہ اُن کا اتباع بھی کرے۔ اللہ کے دو عظیم بندوں کا یہ سفر امّتِ مسلمہ کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ شاگرد اپنے استاد سے افضل و اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو استاد کا مقام و مرتبہ بہرحال اُس سے بلند ہے۔

22/09/2025

درختِ جاں پر عذاب رُت تھی
نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جِتنے پنچھی
اِدھر کو آئے ملُول آئے

وہ ساری خُوشیاں جواُس نے چاہیں
اُٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں
ہمارے حصّے میں عُذر آئے
جواز آئے اُصول آئے

بنام فصلِ بہار آذر
وہ زرد پتّے ہی معتبر تھے
جو ہنس کے رِزقِ خزاں ہوئے ہیں
جو سبز شاخوں پہ جھول آئے

اعزاز احمد آذر

حریص آنکھیں حیا کی دیوی کو نوچتی ہیںکسی کی بیٹی اگر جواں ہے عذابِ جاں ہے
21/09/2025

حریص آنکھیں حیا کی دیوی کو نوچتی ہیں
کسی کی بیٹی اگر جواں ہے عذابِ جاں ہے

20/09/2025

مرد کی حیا دار آنکھیں اور عورت کا پردہ دار جسم ہی ایک پاکیزہ معاشرے اور حقیقی فلاحی ریاست کا ضامن ہے۔

Address

Kasur

Telephone

+923004563446

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when تاریخ کے جھروکوں سے posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to تاریخ کے جھروکوں سے:

Share