23/04/2025
اے مرشد صحافت !
جو گڑ سے مر جائے اسے زہر نہیں دیا جاتا
عالی مرتبت مشتاق بٹ صاحب
آپ سے تعلق آج کا نہیں برسوں کی شناسائی یے
مرحوم میاں خالد اور عرفان احمد صفی کی وساطت سے آپ کا تعارف ہوا اور پھر یہ تعلق عقیدت میں ڈھل گیا
آئینہ انقلاب کے دفاتر میں زندگی کے خوبصورت پل آپ کی رفاقت میں گذرے
13 اپریل کو خاکسار نے ایک پوسٹ عام تناظر میں کی جس پہ آپ کا کمنٹ بھی ہلکے پھلکے انداز میں وارد ہوا
کچھ دیر بعد ایک اور پوسٹ مجھ سے سرزد ہوئی جس پہ آنا فانا طوفان کھڑا ہو گیا
چاروں جانب سے لفظی گولہ باری شروع ہوئی مگر میرے لیے باعث حیرت یہ امر تھا کہ آپ ان مہربانوں کو کمک بہم پہنچاتے اور ہلہ شیری دینے میں لگے تھے
پھر آپ کی فرد جرم بھی جاری ہوئی
"بات حق تھی بات سچ تھی تو ہٹائی کیوں گئی "
اپنی غلطی پہ ڈٹ جانا تاویلیں دینا ستم ظریفی ہے "
میری سرکار !
جس پوسٹ پہ میرے خلاف یہ محاذ گرم کیا گیا اس میں نہ تو کسی کا نام تھا نہ لالہ موسی کی صحافت کا ذکر
چلیں ایک لمحے کو مان لیا جائے میری پوسٹ کسی پہ تنقید تھی
اس کا جواب دلیل سے بھی دیا جا سکتا تھا
مجھ پہ جوابی تنقید کی جا سکتی تھی
لیکن کیا یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آخر ایسا کون سا جرم سرزد ہوا کہ گالیاں ، طعنے ذاتیات پر اتر کر بازاری زبان کا استعمال کرنا پڑا
ضلع بھر کے صحافیوں اور غیر صحافیوں کو جگا جگا کر اکسا کسا کر میرے خلاف پوسٹس اور کمنٹس کروائے گئے
لالہ موسی کے تمام صحافی میرے لئے باعث احترام ہیں
کچھ چہرے نئے ہیں جن سے کوئی تعارف نہیں نہ ان سے کوئی گلہ
لیکن حیرت تو ان مہربانوں پہ ہے جن کے ساتھ آپ کے دفتر اور لائبریری میں بہت اچھا وقت گذرا
یاسین بٹ صاحب میرے بڑے بھائی جیسے ہیں
جمیل طاہر کے ساتھ احترام کا رشتہ ہے
شفاقت مرزا لاڈلا ویر ہے
راجہ شہزاد سے اس لئے پیار ہے کہ اس نے صحافت میں سکوت توڑتے ہوئے چند نئی روایات کو جنم دیا
لیکن ایک دم سے انہیں کیا ہوا ؟
نہ کسی تعلق کا پاس
نہ ایک ساتھ بیٹھ کر کھائے پئے نوالوں کی حیا
دشنام گالیاں
گھٹیا درجے کی مہم
محترم المقام بٹ صاحب !
پوسٹیں اس لئے ہٹائی گئیں کہ یہ دلازاری کا باعث بنیں
آپ نے انہیں لالہ موسی کی صحافت پہ حملہ قرار دیا
اپنی غلطی کی کوئی تاویل پیش نہیں کی
جب دانستہ کچھ غلط کیا ہی نہیں تو اس پہ اڑنا کیسا
تاویلیں کیسی؟
آپ نے تذکرہ کیا عثمان قادری صاحب کا
یہی فرق ہے مجھ میں اور آپ کے دوستوں میں
میرے خلاف بھرپور مذموم مہم باقاعدہ طور پر فرمائشیں کر کے چلوائی گئی
جبکہ میں نے کسی دوست کو دفاع کے لئے مجبور نہیں کیا
عثمان قادری سمیت کسی دوست نے اس عاجز کے حق میں آواز اٹھائی ہے تو اس کا اجر رب کے پاس ہے
بلکہ میں نے تو قادری صاحب سے التماس کی کہ ازراہ کرم درگذر کریں
بہت ہی پیارے بٹ صاحب !
مرحوم میاں خالد نے میرا ہاتھ آپ کو تھمایا تھا
عرفان احمد صفی کا کہا میرے لئے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔
ان دو بھائیوں کی نسبت سے آپ کو صحافت میں
اپنا پیر و مرشد مانتا ہوں
آپ نے مجھے گھٹنوں پہ لانے کی خاطر دوستوں کو صفی صاحب جیسے طبیب حاذق سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا
قبلہ اتنے تردد کی کیا ضرورت تھی
میں تو آپ کی ایک فون کال کی مار تھا
اگر آپ کو اور آپ کے شہر کے صحافیوں کو مسئلہ درپیش تھا تو آپ حکم کرتے
اور پھر جو گڑ سے مر جائے
اسے زہر نہیں دیا جاتا
آپ اشارہ کرتے میں آئینہ انقلاب کے دفتر حاضر ہو جاتا
میرے قبیلے میں دل توڑنا اور آدمیت کی نفی کرنا گناہ کا درجہ رکھتا ہے۔
تو اے میرے پیرو مرشد !
اگر میرے کسی لفظ سے آپ کی
آپ کے شہر کے کسی صحافی کی
دانستہ نادانستہ دلازاری ہوئی ہے تو
میں اس پہ معذرت کا طلبگار ہوں
رہی بات میری ذات پہ جو طعنہ زنی سنگ باری
گالی گلوچ کیا گیا اس کا معاملہ میں منصف اکبر کی عدالت میں پیش کرتا ہوں
اور یہ ساری مہم اب تاریخ کا حصہ ہے
خاندان ، تعلیم ، تربیت اور طرز صحافت کا فرق نمایاں ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
عامر عثمان عادل
23 اپریل 2025