Javed Views

Javed Views Aspiring to Inspire before I Expire

08/08/2024

معزز والدین اسلام علیکم!
کل یعنی 9 اگست بروز جمعہ المبارک نہم کے بچوں کا رزلٹ ہے ۔ اللّه کرے کہ سب بچوں کا رزلٹ ان کی محنت اور توقع سے بڑھ کر آۓ۔

والدین سے گزارش ہے کہ نمبرز اور گریڈز کے چکروں میں پڑ کر اپنی اولاد کو ذہنی دباؤ کا شکار نہ کیجئے گا۔
کم مارکس آنے کی صورت میں انھیں طعنہ نا دیجئے گا اور کسی دوسرے سے ان کا موازنہ نا کریں۔
ہر ایک کی اپنی اپنی صلاحیتیں ہوتی ہیں جس کا اندازہ مارکس اور نمبروں سے ممکن ہی نہیں۔ آپ کے دیےگئے طعنوں سے بچے کی شخصیت مسخ ہوکر رہ جائے گی۔

مارکس کم ہیں یا زیادہ کوئی مضائقہ نہیں بس انھیں مبارکباد دیجئے۔۔۔۔حوصلہ افزائی کیجئے۔۔۔۔ انکا کندھا تھپتھپائے اور آگے کی زندگی کا پلان بنائیں۔۔۔
انھیں یقین دلائیے کہ آپ میرا اور قوم کا اثاثہ ہیں ۔۔۔ہم ہمیشہ کی طرح تمہارے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔۔

ان شاء اللہ کل کو یہی بچہ آپ کا سر فخر سے بلند کرے گا!
خیر اندیش
جاوید گنجیال

08/08/2024

04/08/2024
03/08/2024

تعلیم یافتہ کسے کہتے ہیں ؟

جس طرح دنیا کا سفر کرنے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح بامعنی زندگی گزارانے کے لئے اچھی تعلیم ضروری ہے.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کو کب تعلیم یافتہ کہا جا سکتا ہے ؟

اس کا جواب سقراط نے تقربیاُ دو ہزار سال قبل دیا تھا سب سے پہلے وہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں جوکہ روزانہ رونما ہونے والے حالات و واقعات سے اچھے طریقے سے نبرد آزما ہو سکیں وہ جو صورت حال کا درست اندازہ لگا سکتے ہوں درست فیصلہ کر سکتے ہیں اور درست طرزِ عمل اپنا سکتے ہوں۔

اس کے بعد وہ اشخاص جو دوسرے لوگوں کے ساتھ باوقار انداز میں برتاؤ کرتے ہوں جو ناخوشگوار اور جارحانہ باتوں کو برداشت کرسکتے ہوں.

مزید وہ لوگ جو خوشی مناتے ہوئے اعتدال سے باہر نہ نکلں جو مشکل حالات کا سامنا دلیری سے کرتے ہیں.

سب سے اہم ترین وہ لوگ جو کامیاب ہونے کے باوجود مغرور نہ ہوں اور اپنےقدم زمین پر ہی رکھتے ہوں. ان تمام اوصاف کے حامل لوگ ہی تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں.

02/08/2024

ایک گاؤں میں مولوی صاحب رہتے تھے_مولوی صاحب کا کوئی دوسرا ذریعہ آمدن نہ تھا_گاؤں میں رہتے ہو گزارہ بہت مشکل تھا _اسی گاؤں میں کوئی نیک دل جاگیردار بھی رہتا تھا تو اس نے زمین کا ایک ٹکڑا مولوی صاحب کو ہدیہ کیا کہ ویسے بھی سارا دن آپ فارغ ہوتےہیں تو کھیتی باڑی کریں تاکہ گزارہ اچھا ہو_

مولوی صاحب نے گندم کاشت کرلی اور جب فصل ہری بھری ہوگئی تو بڑی خوشی ہوتی تھی دیکھ کر اسلئے دن کا اکثر وقت وہ کھیت میں ہی بیٹھے رہتےاور فصل دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے لیکن اچانک ایک ناگہانی مصیبت نے ان کو آن گھیرا …گاؤں کے ایک آوارہ گدھے نے کھیت کی راہ دیکھ لی … گدھا روزانہ کھیت میں چرنے لگا۔

مولوی صاحب نے پہلے تو چھوٹے موٹے صدقے دیئے لیکن گدھا منع نہیں ہوا۔پھر اس نے مختلف سورتیں پڑھ پڑھ کر پھونکنا شروع کردیا لیکن گدھا پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ایک دن پریشان حال بیٹھے گدھے کو فصل اجاڑتے دیکھ رہے تھے کہ ادھر سے ایک کسان کا گزر ہوا۔ گدھے کو چرتا دیکھ کر کسان نے پوچھا ..
مولوی صاحب ….آپ عجیب آدمی ہیں گدھا فصل تباہ کر رہا ہے اور آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں؟

مولوی صاحب نے عرض کیا کہ جناب ہاتھ پر ہاتھ دھرے کہاں بیٹھا ہوں؟
ابھی تک ایک مرغی اور بکری کے بچے کا صدقہ دے چکا ہوں اور کل سے آدھا قرآن شریف بھی پڑھ کر پھونک چکا ہوں لیکن گدھا ہٹتا نہیں ہے مجھے تو یہ بھی گدھا کافر لگتا ہے، جس پر کوئی شے اثر نہیں کرتی ۔…
کسان کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا وہ سیدھا گدھے کے پاس گیا اور گدھے کو دوچار ڈنڈے کس کر مارے تو گدھا کسی ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔….

کسان نے کھیت سے باہر آکر ڈنڈا مولوی صاحب کے حوالے کرتے ہوئے کہا …..
قبلہ مولوی صاحب قرآن گدھوں کو بھگانے کیلئے نازل نہیں کیا گیا ۔ گدھوں کو بھگانے کیلئے اللہ تعالی نے یہ ڈنڈا بھیجا ہے۔

ہم پاکستانی بھی عجیب ہجوم ہیں۔ہمارے گدھے حکمران کروڑوں نہیں بلکہ اربوں لوٹے چلے جاتے ہیں اور ہم صرف دعاؤں اور صدقات و خیرات کے بل بوتے پہ ان گدھوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔

جب تک یہ ہجوم، ایک قوم بن کر ان لٹیروں سے نجات کیلئے ڈنڈا استعمال نہیں کرے گی

یہ گدھے ملک و قوم کے تمام وسائل یونہی لوٹتے رہینگے۔‎

31/07/2024

بنام__کام
از__جاوید گنجیال

دنیا کے ہر تحقیقی تجربہ کا یہ تجزیہ ہے کہ انسان کا ایک منافع بخش عمل اُس کی ہزار تقریروں اور تحریروں سے بہتر ہے_ بلاشبہ ہر دور میں انسان نے تحریری کام اور پرجوش الفاظ سے اپنے دل و دماغ کو متحرک رکھا ہے لیکن جدید انسانی ترقی دراصل انسانی کاوشوں اور محنت ہی سے ممکن ہو پائی ہے_ ایک سائنسی تحقیق کے مطابق حوصلہ افزائی کے الفاظ کا اثر انسان کے دماغ میں 24 سے 48 گھنٹے تک محفوظ رہ سکتا ہے اگر وہ اِن الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی عملی جستجو کرنے کی سہی نہ کرے_
تحریریں اور تقریریں ہمارے اندر سنہرے خوابوں کو جنم دیتی ہیں لیکن خاطر خواہ منصوبہ بندی کے بغیر خواب صرف خواہشات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔

بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی_
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے_

کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی فرد یا معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اُن مخصوص اعمال کو اپنا معمول بنائیں جن کی آپ دوسروں سے توقع رکھتے ہیں_ لوگ آپ کی طرف سے انجام دیے جانے والوں کاموں کو دیکھ کر خود بخود آپ کی نقل کرنے لگیں گے، اس سے لوگوں میں مثبت تبدیلی آئے گی جو آپ اِن میں چاہتے ہیں۔

درحقیقت انسان کو حرکت کے لیے پیدا کیا گیا ہے_ عمل میں برکت ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے
"اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے (النجم۔ 39)

درج ذیل آیات میں، اللہ تعالیٰ نے اس کوشش کے ثمرات اور کوششوں کی نوعیت کو بہت واضح کر دیا ہے۔ کہ
’’یہ کوشش نظر آئے گی‘‘ (النجم:40)

یعنی عمل کے نتائج کو اُس کوشش کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے جو ہم کرتے ہیں_ جو جتنی کوششیں کرے گا اتنا ہی پھل پاۓ گا_
اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جو قابلِ غور ہے_
اگر عمل نیک نیتی پر مبنی ہو تو عمل کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ اِس میں اللہ کی مرضی شامل ہے_ شاید اِسی لیے بخاری شریف کی پہلی حدیث بھی اِسی پر مبنی ہے

"اعمال کا دارومدار نیت پر ہے_"

کہا جاتا ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے_ عمل جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی زیادہ اجر ملے گا۔ دنیا کا سب سے بڑا انعام حتمی انعام(جنت) کا ایک چھوٹا سا مظہر ہے_
ایک عظیم صوفی شیخ ایمرے کے الفاظ میں حروف مل کر الفاظ بناتے ہیں_ اگر وہ صرف زبان سے کہے جائیں تو وہ محض الفاظ ہیں_ اگر دل سے نکلیں تو شاعری میں بدل جاتے ہیں اور اگر یہ الفاظ عمل بن جائیں تو کردار بن جاتے ہیں_

دنیا کے تمام عظیم لوگوں نے محنت کو اپنا شعار بنایا اور رہتی دنیا تک امر ہو گئے_ یاد رکھیں، دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار ہیں، ہم سب اپنے کردار سے جتنے زیادہ واقف ہوں گے، ہم اُسے اتنا ہی بہتر طریقے سے انجام دیں گے_ دنیا صرف اداکاروں کی تعریف دان ہوا کرتی ہے اور ان کی یاد سے سکون پاتی ہے، نہ کہ جو انہیں سننے اور دیکھنے والے والے ہوتے ہیں_ یہ کھیل جسے ہم زندگی کہتے ہیں اِس کو دیکھنے اور سرہانے سے کئی درجہ بہتر ہے کہ اِسے میدان میں آکر کھیلا جاۓ_

30/07/2024

کچھ لوگوں کا یہ سوال ہوتا ہے کہ مطالعہ تو کرتے ہیں پر کچھ یاد نہیں رہتا ! تو پھر مطالعہ کا فائدہ کیا_؟؟

اس کا جواب
شیخ سلمان العودہ اپنی کتاب "زنزانہ' میں لکھتے ہیں کہ؛
ایک مرتبہ میں نے اپنے شیخ سے شکایت کی کہ میں نے ایک کتاب پڑھی، لیکن مجھے اس میں سے کچھ یاد نہیں رہا!

چنانچہ انھوں نے مجھے ایک کھجور دی، اور فرمایا:
لو_ یہ چباؤ ! پھر مجھ سے پوچھا:
کیا اب تم بڑے ہوگئے ؟ میں نے کہا: نہیں !
فرمایا: لیکن یہ کھجور تمھارے جسم میں گھل مل گئی ، چنانچہ اسکا کچھ حصہ گوشت بنا، کچھ ہڈی، کچھ پیٹھ، کچھ کھال، کچھ بال، کچھ ناخن اور مسام وغیرہ!!

تب میں نے جانا کہ جو کتاب بھی میں پڑھتا ہوں، وہ تقسیم ہوجاتی ہے۔
چنانچہ اس کا کچھ حصہ میری لغت مضبوط کرتا ہے، کچھ میرا علم بڑھاتا ہے، کچھ میرا اخلاق سنوارتا ہے ، کچھ میرے لکھنے بولنے کے اسلوب کو ترقی دیتا ہے، اگرچہ میں اسکو محسوس نہیں کر پاتا ہوں۔

جو پڑھتا ہے وہ سو زندگیاں جیتا ہے جبکہ جو نہیں پڑھتا وہ محض ایک زندگی جیتا ہے__

29/07/2024

ایک عظیم یونانی فلسفی ہیراکلٹس نے کہا تھا کہ
Nothing is permanent except the change.
دنیا میں کوئی بھی چیز مستقل نہیں سوائے تبدیلی کے۔

دنیا میں موجود ہر چیز تغیر و تبدل کے عمل سے گزرتی ہے اور یہی قانونِ خداوندی ہے۔ سورج صبح اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ سوئی ہوئی دنیا کو جگانے کے بعد ایک خاص مدار میں چکر مکمل کرتے ہوئے غروب ہو جاتا ہے اور خاص اُس ہی لمحے دن کی روشنی کو سیاہ مست رات اپنے چمکتے دمکتے ستاروں کے ہمراہ اُسے اپنی آغوش میں لے لیتی جبکہ سورج کے دوبارہ نمودار ہونے پر تاروں کی روشنی بے روپ و رونق ہو جاتی۔
کیا آپ نے کبھی مشاہدہ کیا ہے کہ ایک چھوٹا سا بیج کچھ ہی سالوں میں ہمارے سامنے ایک تناآوار درخت کی صورت اختیار کر لیتا۔ انسان اللہ تعالیٰ کی پیدا کردا اشرف المخلوق ہےجو کہ ہر گزرتے لمحے اللہ کے اِس قانون کا مجسمہ ہے۔ آپ ایک عرصہ پہلے تک ایک شیرخوار بچے تھے۔بتدریج آپ کی جسامت میں نشوونما ہوتی رہی اور آج آپ اپنے پیروں پر کھڑے کھیلتے کودتے ہیں۔
ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے سے اللہ تعالیٰ کا یہ نظام کبھی رک نہیں سکتا بلکہ ہمیں ان تبدیلیوں کے ساتھ زندگی کے سفر میں پیش قدمی کرنا جاری رکھنا ہوتی اور جو لوگ اس قانون کی عالمگیریت کی حقیقت کو جان جاتے وہ نہ صرف دنیا کو اپنے لیے مسخر کر لیتے بلکہ تاریخ کے اوراق میں بھی ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے۔
کیونکہ دنیا میں موجود کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہے حتیٰ کہ یہ دنیا خود بھی۔ یاد رکھیں نہ آپ کے منفی جذبات مستقل ہیں اور نہ ہی آپ کی زندگی میں موجود پریشانیاں ۔آپ کی مشکلات اور رکاوٹیں بھی عارضی ہیں۔ جس بڑی دنیا کا آپ ایک حصہ ہیں اس کی نہ صرف یہ موجودہ حالت بلکہ اس میں موجود پیچیدگیاں بھی فانی ہیں۔ آپ کی خراب معاشی حالت جو آپ کے اعصابی نظام غیر فعال بنا دیتی جس کی بنا پر بہت سے لوگ زندگی سے راہِ فرار اختیار کر لینے کو اس کا حل سمجھ بیٹھتے ہیں یہ سب بھی محض چند دن کے مہمان ہیں۔ آپ کے خراب گھریلو مسائل اور اس کی وجہ سے ہونے والی نچاکیاں بھی وقتی ہیں۔ مشکل لمحات میں اپنے آپ کو ایک ناکارہ اور غیر اہم خیال کرنا اور ان سوچوں کا آپ کے گمان کا حصہ بننا بھی ایک جذباتی عمل ہے لوگوں کی آپ کے متعلق منفی راۓ بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

اس سب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے قدرت نے آپ کو ایک موقع دیا ہے جسے آج کہتے ہیں۔اس لیے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ایک سست رفتار انسان ہیں اور ہمیشہ منفی سوچوں کے منجھدار میں رہتے تو آج ہی سے انہیں تبدیل کرنے کا مصمم ارادہ کر لیں۔اگر آپ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ کی ذات کسی کے لیے سود مند نہیں تو آج ہی فیصلہ کریں اور خیر بنٹیں۔ بلاوجہ کسی سے موازنہ کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ آپ کا مقابلہ خود سے ہے نہ کے کسی دوسرے سے اس لیے اپنا آج اپنے گزرے ہوئے کل سے بہتر کر لیں۔شیشے میں خود کو غور سے دیکھیں اپنی شخصیت کا ایک تنقیدی جائزہ لیں اپنے پہناوے پہ غور کریں کیا آپ کا لباس آپ کے کام اور نام سے مناسبت رکھتا ہے اگر نہیں تو Dress to Impressکے فارمولے پر عمل کریں۔ اگر آپ حد سے زیادہ شرمیلے یا لوگوں کے سامنے بات کرنے سے ڈرتے ہیں تو خوف کے اس بت کو آج ہی گرا دیں یقین جانیں اسے سے آپ ہر روز زندگی کے ایک نئے احساس سے لطف اندوز ہوں گے۔

28/07/2024

25/07/2024

*روحانی بیماریاں*
جاوید گنجیال
سردیوں کی اِک یخ بستہ شام ایک دعوت سراۓ پہ بیٹھے میرا دوست ایک ٹرک ڈرائیور کو مسلسل دیکھے جا رہا تھا، جو ہمہ تن گوش اپنے ٹرک کے سامنے والے شیشے کو اُجلا کرنے میں منہمک تھا_ وہ اپنے کام میں گویا یوں مگن تھا جیسے کوئی بلبل اپنی روح کے سر تال چھیڑے مد بھری آواز کے ساتھ بہار کی رنگینیوں میں اپنے گرد و نواح سے مکمل طور پر بے خبر ہو۔

بقول نسیم دہلوی

خیالِ گل کبھی خاطر سے کم نہ ہو
بلبل بہار یہ ہے کہ اِسی بہار میں نکلے روح

اکثر دیکھا گیا ہے کہ فرشِ معلی پہ برق رفتاری سے دوڑتی اِس مخلوق کے یہ گاڑی بان حضرات اپنی اِس محبوبہ کو دلہن کی طرح بناؤ سنگھار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے_ ان کا مشہورِ عام خاصہ اپنے پسندیدہ گائک کے مد بھرے سروں پر اپنی معشوقہ کی زیب و زینت کو چار چاند لگانا ہوتا ہے اور جوں ہی سروں کے اِس سمندر کی موجوں میں طغیانی آتی ہے تو ان کی ہاتھوں کی اسراع بھی تیز یا مدھم پڑتی معلوم ہوتی ہے تو گویا سروں کا ایک الگ ساگر ان کے من میں رواں دواں ہو جاتا یے_

اسی دوران میرے دوست کی آواز سے میری سوچوں کا محور ٹوٹا اور وہ کہنے لگا جاوید دیکھو یہ شخص کیسے اپنی گاڑی کا سامنے والا شیشہ صاف کر رہا ہے تاکہ اِس کے سامنے والا خوش کن منظر دھندلا نہ ہونے پائے_ اِن الفاظ کو سماعت کرتے ہی میں چوکنا ہو گیا گویا وہ کوئی بہت ہی گہری بات کرنے والا تھا_ اِس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہمارا دل بھی ہو بہو اس شیشے جیسا ہے_ دنیا کی شاہراہوں پر اِس ٹرک کی طرح ہم بھی اِس فانی عالم کی رنگ رلیوں میں کھو کر اِسے گرد آلود کر لیتے ہیں لیکن اگر اِس دھول کو بر وقت صاف کر لیا جائے تو ہمارے سامنے بڑا ہی شاندار نظارہ ہوگا جو ہماری آنکھوں کو ہر دم فرحت بخشے گا وگرنہ یہ میل کچیل تہہ در تہہ جمع ہوتے ہوئے ایک مضبوط ڈھال کی شکل اختیار کر لے گی_

میرے دماغ کی بتی جل چکی تھی اور میرا ہمدم شاید اِس بات سے انجان تھا کہ میں اِس کی باتوں کو پھولوں اور موتیوں کی ایک صبیح لڑی میں پرو رہا تھا اور یہی بات مجھے اِس کے منہ سے ادا ہونے والے ہر اگلے فقرے کو سننے کے لیے متجسس کر رہی تھی کیونکہ ایسی باتوں کا تصور اکثر دماغ کی بجائے دل میں ہوا کرتا ہے_

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے_
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے_

وہ کہنے لگا یہ تہہ جس قدر اُوپری سطح تک محدود ہوگی اُس کو صاف کرنا اتنا ہی آسان ہوگا اور یہ پرت جتنی دبیز ہوتی جائے گی اُسی قدر اِس کی جھاڑ پونچھ دشوار ہو گی اور ایک وقت آۓ گا جب اِس کو کھرچ کر اکھاڑنا پڑے گا کیونکہ یہ تو ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

" بہت سی ظلم کرنے والی بستیوں کو میں نے ڈھیل دی پھر آخر انہیں پکڑ لیا " 22.48

اس کی بات مکمل ہو چکی تھی لیکن میں اب بھی تخیلاتی دنیا میں ایک آزاد پنچھی کی مانند پرواز کر رہا تھا۔

دوستو! بیماریوں کے کئی انواع ہوتے ہیں جیسے موذی امراض جو کہ جان لیوا ہوتے ہیں یا اِن کی اکثریت انتہائی خطر ناک ہوتی ہے مثلاً السر، عارضہ قلب،ٹی بی، گردوں کی خرابی وغیرہ)
دوسری قسم کی بیماریاں نفسیات سے متعلق ہیں جس میں لوگ ذہنی خلل کے امراض سے دوچار ہوتے ہیں مثال کے طور پہ وہم و وسوسہ،خوف،اعتماد کی کمی ڈپریشن اور زہنی و جسمانی تناؤ وغیرہ_
عارضے کی تیسری قسم روحانی بیماریوں کی ہے اور یہ سب سے زیادہ خطرناک قسم کی مرض ہے_ اس میں ایمان و اعتقاد کے سقم، متوازی بغض، حسد، کینہ، ریاکاری، جھوٹ، بخل، بدفعلی و بد نظری وغیرہ شامل حال ہیں_

جسمانی بیماریوں کا تعلق آپ کے اعضاء بدن سے متعلق ہے جبکہ دوسری دو اقسام کا آپس میں بہت گہرا ربط ہے_ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ روحانی بیماریاں ہی نفسیاتی امراض کا موجب ہیں کیونکہ روح کو جب ہمیں خوشی و مسرت کے لمحات میسر نہیں آتے تو اِس کا براہ راست اثر ہمارے دماغ پر ہوتا ہے جو ذہنی بگاڑ کے ارتقاء کی وجہ بنتا ہے۔

خردمندوں کا ماننا ہے کہ جو چیز انسان کے اندر ہوتی ہے وہی شہ اِس کی شخصیت ظاہراً اپنا لیتی ہے_ ہم اپنے ظاہری جسم کو ڈھانپنے کے لیے لباسِ خاص کا سہارا لیتے ہیں جبکہ ہماری روحانی قوت ہی ہماری حقیقی شخصیت اور کردار کی پوشاک ہوتی ہے جس کو قرآن میں لباس التقوی کہا گیا ہے_

اے آدم ( علیہ السلام ) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوےٰ کا لباس اس سے بڑھ کر ہے یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں ۔7.26

روح کا ذکر قرآن پاک میں 24 مقامات پر آیا ہے لیکن ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر انسان کو مخاطب کر کے فرمایا ہے

"اے اطمینان والی روح" 89.27

مفسرینِ قرآن اِس بارے لکھتے ہیں کہ "نفس المطمئنہ" سے مراد وہ روح ہے جو اللہ کے ذکر و اطاعت سے سکون قلب پاۓ اور اِس کے ترک کرنے سے اُس کو بے چینی محسوس ہو یہ وہی روحانی قوت ہے جس نے مجاہدات اور ریاضت کے ذریعے اپنی بری عادات اور اخلاق رذائل کو دور کر چکی ہو۔
کیونکہ بعض اوقات جب زندگی کے اِس کٹھن سفر میں ہم لوگ اپنے ہم پلہ لوگوں کو دنیاوی لذتوں سے مستفید ہوتے دیکھتے ہیں تو لایعنی حسرتوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو بعد ازاں ہمیں شرور کا راہی بنا دیتی ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ وہ تمام روحانی بیماریاں ہیں جن کا ذکر پیچھے کیا گیا ہے۔

انسان اپنے ہاتھ، کان، ٹانگ، بازو، اور بصارت سے محرومی وغیرہ کے باوجود ایک خوش وخرم زندگی گزار سکتا ہے جس کی بہت سی مثالیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں لیکن اگر دل مردہ یا ناکارہ ہو جائے تو انسان کا پورا جسم ایک زندہ لاش کی مانند ہو جاتا ہے وہ اپنی زندگی کی رعنائیوں سے محروم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اِس کی ہر سانس اُس کو ایک بھاری بھرکم پتھر کی طرح بوجھ محسوس ہوتی ہے_

دل کی ایک خاصیت ہے کہ جو چیز اس میں بیٹھ جاتی ہے وہ یا تو اُس کی زندہ دلی کی وجہ بنتی ہے یا پھر اِس سے جینے کی امنگ چھین لیتی ہے_ جب لوگ دل کو خیر سے بھر لیتے ہیں تو وہ نہ صرف انہیں زندہ رکھتا ہے بلکہ انہیں مزید تقویت بھی عطا کرتا ہے_

بلاشبہ جو روح اللہ تعالیٰ کی حقیقی اطاعت و فرمانبرداری میں پروان چڑھتی ہے وہ قرب الٰہی کی وجہ سے اپنے آپ کو روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔جس کا نتیجہ سکونِ قلب کی صورت میں نمودار ہوتا ہے جو کہ موجودہ اور اُخروی دنیا کی اصل جمع پونجی ہے_

قلبِ سلیم کی خواہش رکھنے والوں کے لیے مثبت سوچ کی آبیاری اور منفی طرز عمل کو ترک کر دینے کی ضرورت ہے_روحانی پاکیزگی کے حصول کے لیے پہلی شرط ہر جگہ پیار،امن،محبت اور رواداری کے جذبات کی ترویج ہے۔اچھی باتوں کو قبول کر کے شر میں بھی خیر کی تلاش جاری رکھنا ہے۔کم بولنا اور زیادہ سننے کی عادت کو پختہ کرنا, غصے کو پینا،غلطی کو معاف کرنا اور چہرہ پہ مسکراہٹ سجانے کو سیکھنا ہے۔ سب سے اہم بات ادب کرنے والا بننا ہے کیونکہ

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں__

ان شاءاللہ جلد آپ کو اللہ رب العزت کی ذات قلبِ صافی(پر خلوص دل) عنایت فرما دیں گے۔

از_ جاوید گنجیال

Address

Khushab

Telephone

+923131751244

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Javed Views posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share