25/07/2024
*روحانی بیماریاں*
جاوید گنجیال
سردیوں کی اِک یخ بستہ شام ایک دعوت سراۓ پہ بیٹھے میرا دوست ایک ٹرک ڈرائیور کو مسلسل دیکھے جا رہا تھا، جو ہمہ تن گوش اپنے ٹرک کے سامنے والے شیشے کو اُجلا کرنے میں منہمک تھا_ وہ اپنے کام میں گویا یوں مگن تھا جیسے کوئی بلبل اپنی روح کے سر تال چھیڑے مد بھری آواز کے ساتھ بہار کی رنگینیوں میں اپنے گرد و نواح سے مکمل طور پر بے خبر ہو۔
بقول نسیم دہلوی
خیالِ گل کبھی خاطر سے کم نہ ہو
بلبل بہار یہ ہے کہ اِسی بہار میں نکلے روح
اکثر دیکھا گیا ہے کہ فرشِ معلی پہ برق رفتاری سے دوڑتی اِس مخلوق کے یہ گاڑی بان حضرات اپنی اِس محبوبہ کو دلہن کی طرح بناؤ سنگھار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے_ ان کا مشہورِ عام خاصہ اپنے پسندیدہ گائک کے مد بھرے سروں پر اپنی معشوقہ کی زیب و زینت کو چار چاند لگانا ہوتا ہے اور جوں ہی سروں کے اِس سمندر کی موجوں میں طغیانی آتی ہے تو ان کی ہاتھوں کی اسراع بھی تیز یا مدھم پڑتی معلوم ہوتی ہے تو گویا سروں کا ایک الگ ساگر ان کے من میں رواں دواں ہو جاتا یے_
اسی دوران میرے دوست کی آواز سے میری سوچوں کا محور ٹوٹا اور وہ کہنے لگا جاوید دیکھو یہ شخص کیسے اپنی گاڑی کا سامنے والا شیشہ صاف کر رہا ہے تاکہ اِس کے سامنے والا خوش کن منظر دھندلا نہ ہونے پائے_ اِن الفاظ کو سماعت کرتے ہی میں چوکنا ہو گیا گویا وہ کوئی بہت ہی گہری بات کرنے والا تھا_ اِس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہمارا دل بھی ہو بہو اس شیشے جیسا ہے_ دنیا کی شاہراہوں پر اِس ٹرک کی طرح ہم بھی اِس فانی عالم کی رنگ رلیوں میں کھو کر اِسے گرد آلود کر لیتے ہیں لیکن اگر اِس دھول کو بر وقت صاف کر لیا جائے تو ہمارے سامنے بڑا ہی شاندار نظارہ ہوگا جو ہماری آنکھوں کو ہر دم فرحت بخشے گا وگرنہ یہ میل کچیل تہہ در تہہ جمع ہوتے ہوئے ایک مضبوط ڈھال کی شکل اختیار کر لے گی_
میرے دماغ کی بتی جل چکی تھی اور میرا ہمدم شاید اِس بات سے انجان تھا کہ میں اِس کی باتوں کو پھولوں اور موتیوں کی ایک صبیح لڑی میں پرو رہا تھا اور یہی بات مجھے اِس کے منہ سے ادا ہونے والے ہر اگلے فقرے کو سننے کے لیے متجسس کر رہی تھی کیونکہ ایسی باتوں کا تصور اکثر دماغ کی بجائے دل میں ہوا کرتا ہے_
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے_
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے_
وہ کہنے لگا یہ تہہ جس قدر اُوپری سطح تک محدود ہوگی اُس کو صاف کرنا اتنا ہی آسان ہوگا اور یہ پرت جتنی دبیز ہوتی جائے گی اُسی قدر اِس کی جھاڑ پونچھ دشوار ہو گی اور ایک وقت آۓ گا جب اِس کو کھرچ کر اکھاڑنا پڑے گا کیونکہ یہ تو ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
" بہت سی ظلم کرنے والی بستیوں کو میں نے ڈھیل دی پھر آخر انہیں پکڑ لیا " 22.48
اس کی بات مکمل ہو چکی تھی لیکن میں اب بھی تخیلاتی دنیا میں ایک آزاد پنچھی کی مانند پرواز کر رہا تھا۔
دوستو! بیماریوں کے کئی انواع ہوتے ہیں جیسے موذی امراض جو کہ جان لیوا ہوتے ہیں یا اِن کی اکثریت انتہائی خطر ناک ہوتی ہے مثلاً السر، عارضہ قلب،ٹی بی، گردوں کی خرابی وغیرہ)
دوسری قسم کی بیماریاں نفسیات سے متعلق ہیں جس میں لوگ ذہنی خلل کے امراض سے دوچار ہوتے ہیں مثال کے طور پہ وہم و وسوسہ،خوف،اعتماد کی کمی ڈپریشن اور زہنی و جسمانی تناؤ وغیرہ_
عارضے کی تیسری قسم روحانی بیماریوں کی ہے اور یہ سب سے زیادہ خطرناک قسم کی مرض ہے_ اس میں ایمان و اعتقاد کے سقم، متوازی بغض، حسد، کینہ، ریاکاری، جھوٹ، بخل، بدفعلی و بد نظری وغیرہ شامل حال ہیں_
جسمانی بیماریوں کا تعلق آپ کے اعضاء بدن سے متعلق ہے جبکہ دوسری دو اقسام کا آپس میں بہت گہرا ربط ہے_ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ روحانی بیماریاں ہی نفسیاتی امراض کا موجب ہیں کیونکہ روح کو جب ہمیں خوشی و مسرت کے لمحات میسر نہیں آتے تو اِس کا براہ راست اثر ہمارے دماغ پر ہوتا ہے جو ذہنی بگاڑ کے ارتقاء کی وجہ بنتا ہے۔
خردمندوں کا ماننا ہے کہ جو چیز انسان کے اندر ہوتی ہے وہی شہ اِس کی شخصیت ظاہراً اپنا لیتی ہے_ ہم اپنے ظاہری جسم کو ڈھانپنے کے لیے لباسِ خاص کا سہارا لیتے ہیں جبکہ ہماری روحانی قوت ہی ہماری حقیقی شخصیت اور کردار کی پوشاک ہوتی ہے جس کو قرآن میں لباس التقوی کہا گیا ہے_
اے آدم ( علیہ السلام ) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوےٰ کا لباس اس سے بڑھ کر ہے یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں ۔7.26
روح کا ذکر قرآن پاک میں 24 مقامات پر آیا ہے لیکن ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر انسان کو مخاطب کر کے فرمایا ہے
"اے اطمینان والی روح" 89.27
مفسرینِ قرآن اِس بارے لکھتے ہیں کہ "نفس المطمئنہ" سے مراد وہ روح ہے جو اللہ کے ذکر و اطاعت سے سکون قلب پاۓ اور اِس کے ترک کرنے سے اُس کو بے چینی محسوس ہو یہ وہی روحانی قوت ہے جس نے مجاہدات اور ریاضت کے ذریعے اپنی بری عادات اور اخلاق رذائل کو دور کر چکی ہو۔
کیونکہ بعض اوقات جب زندگی کے اِس کٹھن سفر میں ہم لوگ اپنے ہم پلہ لوگوں کو دنیاوی لذتوں سے مستفید ہوتے دیکھتے ہیں تو لایعنی حسرتوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو بعد ازاں ہمیں شرور کا راہی بنا دیتی ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ وہ تمام روحانی بیماریاں ہیں جن کا ذکر پیچھے کیا گیا ہے۔
انسان اپنے ہاتھ، کان، ٹانگ، بازو، اور بصارت سے محرومی وغیرہ کے باوجود ایک خوش وخرم زندگی گزار سکتا ہے جس کی بہت سی مثالیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں لیکن اگر دل مردہ یا ناکارہ ہو جائے تو انسان کا پورا جسم ایک زندہ لاش کی مانند ہو جاتا ہے وہ اپنی زندگی کی رعنائیوں سے محروم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اِس کی ہر سانس اُس کو ایک بھاری بھرکم پتھر کی طرح بوجھ محسوس ہوتی ہے_
دل کی ایک خاصیت ہے کہ جو چیز اس میں بیٹھ جاتی ہے وہ یا تو اُس کی زندہ دلی کی وجہ بنتی ہے یا پھر اِس سے جینے کی امنگ چھین لیتی ہے_ جب لوگ دل کو خیر سے بھر لیتے ہیں تو وہ نہ صرف انہیں زندہ رکھتا ہے بلکہ انہیں مزید تقویت بھی عطا کرتا ہے_
بلاشبہ جو روح اللہ تعالیٰ کی حقیقی اطاعت و فرمانبرداری میں پروان چڑھتی ہے وہ قرب الٰہی کی وجہ سے اپنے آپ کو روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔جس کا نتیجہ سکونِ قلب کی صورت میں نمودار ہوتا ہے جو کہ موجودہ اور اُخروی دنیا کی اصل جمع پونجی ہے_
قلبِ سلیم کی خواہش رکھنے والوں کے لیے مثبت سوچ کی آبیاری اور منفی طرز عمل کو ترک کر دینے کی ضرورت ہے_روحانی پاکیزگی کے حصول کے لیے پہلی شرط ہر جگہ پیار،امن،محبت اور رواداری کے جذبات کی ترویج ہے۔اچھی باتوں کو قبول کر کے شر میں بھی خیر کی تلاش جاری رکھنا ہے۔کم بولنا اور زیادہ سننے کی عادت کو پختہ کرنا, غصے کو پینا،غلطی کو معاف کرنا اور چہرہ پہ مسکراہٹ سجانے کو سیکھنا ہے۔ سب سے اہم بات ادب کرنے والا بننا ہے کیونکہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں__
ان شاءاللہ جلد آپ کو اللہ رب العزت کی ذات قلبِ صافی(پر خلوص دل) عنایت فرما دیں گے۔
از_ جاوید گنجیال