
26/06/2025
بارہ سال ہو گئے، اور خیبر پختونخوا کی بدحالی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
پہلے پرویز خٹک کو پشتونوں کا وزیر اعلیٰ بنایا — ایک ایسا شخص جو ہر سطح پر مفاہمت کے نام پر پختونوں کے حقوق کا سودا کرتا رہا۔
پھر سوات سے محمود خان آ گیا — مکمل بےاختیار، نااہل اور کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ، جس کے دور میں پورا صوبہ بدانتظامی، بدعنوانی اور اقرباپروری کا گڑھ بن گیا۔
اور اب خیر سے "گندہ پور ماموں" جیسے کردار کو لا کر خیبر پختونخوا کا مزید تماشہ بنا دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر پشتونوں نے عمران خان کا ایسا کون سا قصور کیا تھا؟
کیا پشتونوں کی وفاداری، قربانیاں اور ووٹ کا یہی صلہ تھا کہ انہیں ہر بار تجربہ گاہ سمجھا گیا؟
بارہ سال میں نہ صحت کا نظام بہتر ہوا، نہ تعلیم کو ٹھیک کیا گیا، نہ پولیس کی اصلاح کی گئی، نہ اداروں کو خودمختار بنایا گیا۔
بلکہ الٹا پورا صوبہ 2500 ارب روپے کا مقروض کر دیا گیا — اور یہ رقم گئی کہاں؟ کوئی حساب نہیں۔
یہ نااہلی نہیں، بلکہ ایک مجرمانہ غفلت ہے۔
یہ پالیسی فیلئر نہیں، پشتونوں کے ساتھ ایک منظم استحصال ہے۔
جب اسلام آباد میں تخت گرنے لگتا ہے، تو پشاور کو ڈھال بنا لیا جاتا ہے۔
جب بجٹ آتا ہے، تو قربانی کا بکرا خیبر پختونخوا بنتا ہے۔
جب گرفتاریوں کا وقت آتا ہے، تو سب سے پہلے پشتون نوجوانوں کو رگڑا جاتا ہے۔