02/11/2024
دعوت محدود نہیں ہوتی اور جو محدود ہو وہ دعوت نہیں ہوتی اللہ رب العزت کی سنت ہے کہ اس نے ہر دور کے سب سے بدترین آدمی کی طرف اس دور کے بہترین فرد کو بھیجا اس کی مثال نمرود اور ابرہیم علیہ السلام بھی ہیں اور فرعون اور موسیٰ علیہ السلام بھی خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے فرعون ابو جہل اور دیگر کو اللہ کی جانب بلانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہے داعی کی مثال ڈاکٹر کی سی ہے ڈاکٹر لوگوں کی جسمانی بیماریوں کا علاج کرتا ہے جبکہ داعی کا ذمہ روحانی بیماریوں کے علاج کا ہوتا ہے جس طرح ڈاکٹر اپنے راؤنڈ میں زیادہ بیمار لوگوں کو زیادہ توجہ دیتا ہے اسی طرح داعی کی زیادہ توجہ بھی زیادہ گمراہ لوگوں کی طرف ہونی چاہے
انبیاء علیہ السلام یقینا سب سے بڑے داعی تھے انبیاء نے اپنی دعوت کو ہرگز چاردیواریوں میں قید نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی مسند سجا کر کسی جگہ بیٹھ گیا تھا کہ حق کے متلاشی آئیں گے اور اس مسند سے فیض حاصل کرتے رہے گے انبیاء کی دعوت گلیوں میں کوچوں میں بازاروں میں اچھوں کے پاس بروں کے پاس جاکر دی جاتی تھی انبیاء علیہم السلام ہر طرح کے لوگوں کے پاس جاتے بھی تھے اور اگر ان میں سے کوئی چل کر اگر ان کے پاس آجاتا تھا تو خندہ پیشانی کے ساتھ اس کا استقبال بھی کرتے تھے کہ خوش اخلاقی
ان کی اعلیٰ ترین شخصیت کا ایک اعلیٰ ترین وصف تھا ۔۔۔۔۔
آج کے داعی جو اپنے خود ساختہ دائرے میں قید رہتے ہیں مخصوص لوگوں کو اپنی ایک جیسی بات سنا سنا کر سن کر بیٹھتے ہیں اور اس کیفیت کا نتیجہ تشدد اور انتہا پسندی کی صورت میں نکلتا ہے یہ اپنی پسند کے لوگوں سے ملتے ہیں ان کے بنائے گئے دائرے کی کیفیت اس جادوگر کے دائرے کی سی ہے جس میں باہر سے کوئی اندر نہیں آسکتا اور اندر سے کوئی باہر جانے کی کوشش کرے گا تو پتھر کا بن جاتا ہے بزعم خود یہ خطیب پاکستان خطیب ایشیا ہوتے ہیں جبکہ جانتا انہیں ان کی گھر کی چوتھی گلی میں بھی کوئی نہیں ہے کہ اپنے اردگرد موجود وہ لوگ جو ان کی دعوت کے مستحق ہوتے ہیں کو یہ گمراہوں کا وہ ٹولہ سمجھتے ہیں جس کا مقدر صرف اور صرف جہنم ہے آخر میں اگر بات منہج کی نہ ہو تو شاید بات مکمل نہ ہو پائے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا ہدف لوگوں کو جہنم سے بچا کر جنت کی طرف لے جانا تھا اور ہمارے داعیان کا منہج زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زندیق اور گمراہ ثابت کرکے جہنم کی جانب پارسل کرنا ہے 🙏🏻🙏🏻