BNN kohat

BNN kohat Pakistan zinda bad

اہل تشیع عالم دین علامہ آغا علی شرف الدین موسوی بلتستانی بھی انتقال کرگئےآغا شرف الدین کا تعلق بلتستان کے علاقے چھورکاہ ...
22/06/2025

اہل تشیع عالم دین علامہ آغا علی شرف الدین موسوی بلتستانی بھی انتقال کرگئے
آغا شرف الدین کا تعلق بلتستان کے علاقے چھورکاہ شگر سے تھا،ابتدائی تعلیم آپ نے شگر میں ہی حاصل کی۔
اعلی دینی تعلیم کیلئے آپ ایران چلے گیے آیت اللہ خمینی سمیت نامور اہل تشیع علماء و مجتہدین سے علم حاصل کیا ۔

ایران میں دوران تعلیم ہی اپنے اساتذہ سے اس بات پر علمی مباحثے کرنے لگے کہ قرآن مجید کو نصاب کا لازمی حصہ بنانا چاہیے ۔
حصول علم کے بعد آپ وطن واپس آئے اور دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا ۔
آپ تقلید اور جمود کے خلاف تھے،تحقیق اور جستجو سے آپ کو محبت تھی ،چنانچہ بہت جلد آپ ناپسند کیے جانے لگے ،آپ کو اذیتیں دی گئیں اور بلتستان بدر کر دیا گیا۔
صحابہ کرام،امہات المومنین اور خلفاء راشدین کے بے حد احترام کے قائل تھے ۔
شرک و بدعات ،خرافات اور دین میں پیدا شدہ بعد کی رسومات کے سخت مخالف تھے ۔
سینکڑوں کتابوں کے مصنف تھے ،انہیں ہمیشہ کتابوں کے درمیان دیکھا اور پایا گیا ۔
نڈر ،بیباک اور دین کے معاملے میں کسی کی ملامت خاطر میں نہ لانے والے عظیم مفکر اور عالم دین تھے ۔
اللہ تعالی مرحوم کے درجات بلند فرمائے ۔

22/06/2025
15/06/2025

❤️❤️❤️

14/06/2025

کاش ہم فریق نہ بنتے...!

تحریر: ابو انفال

اگر ایران اور عراق نہ لڑتے…
تو شاید امت مسلمہ کا شیرازہ اتنی شدت سے نہ بکھرتا۔
آٹھ سالہ جنگ نے لاکھوں مسلمانوں کی جان لی، معیشتیں تباہ ہوئیں، قومیں کمزور ہوئیں اور دشمن مضبوط ہوا۔
اسی کمزوری نے امریکا کو شہ دی کہ وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ عراق پر چڑھ دوڑا، اور عالم اسلام کی بعض حکومتیں اس جارحیت میں اس کے "ٹھٹھو" بن گئیں۔
جنہوں نے اپنی سرزمین، فضائی حدود اور غیرت سب کچھ گروی رکھ دیا۔

اگر ہم افغانستان میں خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے…
تو شاید امریکہ اور روس کی باری باری آمد ہمارے دروازے پر نہ ہوتی۔
ہم کسی ایک کا مہرہ بننے کی بجائے اگر ایک غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کرتے، تو شاید لاکھوں لاشوں کی قطار نہ لگتی، نسلیں بے گھر نہ ہوتیں، اور ہمارا کل بہتر ہوتا۔

اگر خلیج کی فرقہ وارانہ جنگوں میں ہم صلح کا جھنڈا اٹھاتے…
تو بحرین، یمن اور سعودی عرب میں خون کا دریا نہ بہتا۔
ایران اگر مزاحمت کی بجائے مصالحت کا سفیر بنتا، تو امت دو دھڑوں میں نہ بٹتی۔

اگر شام میں ہم نے حق اور باطل کی نہیں، امن اور بقا کی جنگ لڑی ہوتی…
تو آج حلب کھنڈر نہ ہوتا، دمشق اجڑ نہ چکا ہوتا، اور شام کی نسلیں دربدر نہ ہوتیں۔
یمن میں اگر میزائلوں کی گھن گرج کی بجائے سفارتی تدبر سے کام لیا جاتا،
تو شاید آج دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران عرب سرزمین پر نہ ہوتا۔

افسوس! ہم فریق بنے، ثالث نہ بن سکے۔
ہم نے ملت کا درد محسوس کرنے کی بجائے اپنے اپنے مفادات، مسالک اور سیاسی ترجیحات کو ترجیح دی۔
ہم نے امت کو جوڑنے کی بجائے خود کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔

آج اگر ہم ذلیل و خوار ہیں…
تو اس میں صرف دشمن کی سازشوں کا نہیں، ہمارے اپنے ہاتھوں سے کیے گئے فیصلوں کا بھی دخل ہے۔

کاش… ہم "امتِ واحدہ" کی حقیقی تصویر بن جاتے۔
کاش ہم ایران، ترکی، سعودی عرب، پاکستان، مصر، انڈونیشیا کو "علاقائی طاقتیں" بنانے کے خواب کی بجائے ایک امت بنانے کے مشن پر لگتے۔
کاش ہم نے رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کو یاد رکھا ہوتا:

"المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا"
"مومن، مومن کا بھائی ہے، وہ ایک دوسرے کو مضبوط کرتا ہے جیسے دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کو سہارا دیتی ہیں۔"
(صحیح بخاری)

آج بھی وقت ہے…
فرقہ واریت کے خ*ل سے نکل کر وحدت کے دامن میں پناہ لی جائے۔
مفادات کی جنگ کو ختم کر کے مفاہمت کی راہ اپنائی جائے۔
طاقت کی نہیں، حکمت کی سیاست کی جائے۔
تاکہ آنے والی نسلیں کم از کم امتِ محمدیہ کہلانے پر شرمندہ نہ ہوں۔

13/06/2025

انسپیکٹر عمران الدین ایس ایچ او تھانہ ملز ایریا تعینات
سب انسپیکٹر مسعود خان ایس ایچ او تھانہ جنگل خیل تعینات

ہم اپنے لیے وکیل اور دوسروں کے لیے جج کیوں؟(خود احتسابی اور معاشرتی انصاف کی دعوت)انسانی فطرت کا عجیب تضاد ہے کہ جب بات ...
12/06/2025

ہم اپنے لیے وکیل اور دوسروں کے لیے جج کیوں؟
(خود احتسابی اور معاشرتی انصاف کی دعوت)
انسانی فطرت کا عجیب تضاد ہے کہ جب بات خود پر آتی ہے تو ہم نرمی، رعایت اور ہمدردی چاہتے ہیں، مگر جب کوئی دوسرا غلطی کرے تو ہمارے اندر انصاف کے تقاضے شدت سے جاگ اٹھتے ہیں — بلکہ اکثر "انصاف" کے نام پر ہم ظالمانہ فیصلہ بھی سنا دیتے ہیں۔
اسی طرزِ عمل کو ایک مختصر مگر گہرے مفہوم کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے:
"ہم اکثر اپنے بارے میں وکیل ثابت ہوتے ہیں اور مدمقابل کے لیے جج۔"
یہ جملہ دراصل ایک آئینہ ہے جس میں ہر فرد کو اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اپنے لیے وکیل بننا
جب ہم کسی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں تو فوراً اپنے دفاع میں دلائل تراشتے ہیں:
"مجھے اس وقت حالات نے مجبور کیا تھا۔"
"میری نیت خراب نہ تھی۔"
"غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔"
"اس میں دوسروں کا بھی قصور تھا۔"
یہ سب باتیں ہمارے اندر ایک "وکیل" کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں، جو ہمیں بچانے، ہماری نیت کا دفاع کرنے اور حالات کا پس منظر بیان کرنے میں لگا رہتا ہے۔ اور یہ بالکل فطری بات ہے — انسان خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
مدمقابل کے لیے جج بن جانا
لیکن یہی رویہ جب ہم دوسروں کے بارے میں اختیار کرتے ہیں تو تبدیل ہو جاتا ہے۔
کسی نے وعدہ خلافی کی؟ فوراً بول اٹھے: "یہ تو جھوٹا اور مکار ہے۔"
کسی نے بدتمیزی کی؟ کہہ دیا: "یہ تربیت سے عاری ہے۔"
کسی نے غلطی کی؟ فیصلہ صادر کر دیا: "ایسے لوگ قابلِ بھروسا نہیں۔"
یہاں ہم "وکیل" کا کردار ترک کر کے سیدھے "جج" بن بیٹھتے ہیں — اور وہ بھی بغیر سماعت، بغیر تحقیق اور بغیر نرمی کے۔
قرآن و سنت کا معیار
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ"
"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔"
(سورہ الحجرات: 12)
حضور نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ کسی کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے اس کی نیت، حالات اور مجبوری کو سمجھو۔
آپ ﷺ اکثر صحابہؓ کے عذر کو قبول فرماتے، اور غلطی کرنے والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے۔

خود احتسابی کی ضرورت
یہ رویہ — خود کو وکیل اور دوسروں کو جج سمجھنا — دراصل خود احتسابی کے فقدان اور غرور نفس کی علامت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ:
جب کسی کی غلطی دیکھیں تو پہلے خود کو اس جگہ رکھ کر سوچیں۔
دوسروں کے لیے بھی وہی رعایت پیش کریں جو ہم اپنے لیے چاہتے ہیں۔
دل کو وسیع کریں، نیتوں پر حملہ کرنے سے گریز کریں۔

دلوں میں رحم اور انصاف کو جگہ دیں:
آئیے ہم اپنے رویے کا جائزہ لیں۔
اگر ہر فرد خود کو دوسروں کا "وکیل" بنانے لگے اور خود کے لیے "جج" بن جائے — تو معاشرہ انصاف، ہمدردی، اور محبت سے بھر جائے گا۔
ورنہ ہم خود کو جواز دے کر بچتے رہیں گے، اور دوسروں کو بے رحم فیصلوں کے نیچے کچلتے رہیں گے۔

سچ کی قیمت اور جھوٹ کا بازارکہا جاتا ہے کہ سچ خود بولتا ہے، مگر اب لگتا ہے سچ کو بولنے کے لیے یا تو اجازت درکار ہے، یا ح...
12/06/2025

سچ کی قیمت اور جھوٹ کا بازار

کہا جاتا ہے کہ سچ خود بولتا ہے، مگر اب لگتا ہے سچ کو بولنے کے لیے یا تو اجازت درکار ہے، یا حفاظتی پہرہ۔
یہ وہ زمانہ ہے جہاں خبر کو خبر بنانے والے خود ہی منصف، مدعی اور تماشا گر بن بیٹھے ہیں۔
اب جو دکھایا جاتا ہے وہی "سچ" ہے، اور جو حقیقت میں ہوتا ہے وہ کسی فائل میں دبا رہتا ہے، یا کسی بے بس کی آنکھوں میں نمی بن کر رہ جاتا ہے۔
افواہوں کا بازار گرم ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ خریدار بھی موجود ہیں، اور بیچنے والے بھی ہر سمت پھیلے ہوئے۔
سوشل میڈیا پر ایک بے بنیاد خبر سینکڑوں بار شیئر ہوتی ہے، اور عوام کی رائے حقیقت نہیں، ہیش ٹیگ طے کرتے ہیں۔
کبھی خبر دبائی جاتی ہے، کبھی بدلی جاتی ہے، اور اکثر ایسی سنواری جاتی ہے کہ جھوٹ بھی اتنا خوش لباس بن جائے کہ سچ شرما جائے۔
طاقتور کے لیے جرم بھی "بیانیہ" بن جاتا ہے، اور کمزور کے لیے بیانیہ بھی جرم۔
عدالت خاموش، صحافت محتاط، اور عوام حیران و پریشان—یہ ہمارے عہد کی وہ تلخ تصویر ہے جس پر سب نظریں جھکائے ہوئے ہیں۔
ایسا نہیں کہ سچ مر گیا ہے، مگر سچ بولنے والوں کی فہرست مختصر ہوتی جا رہی ہے۔
ایسا نہیں کہ شعور ختم ہو گیا ہے، مگر سوال کرنے والوں کی آواز دھیرے دھیرے گم ہو رہی ہے۔
کیا یہ وہی معاشرہ ہے جو "حق بات کہنے" پر فخر کرتا تھا؟
یا ہم نے اب اپنی آواز بیچ دی ہے اور سچائی کرائے پر دے دی ہے؟
اب تو یوں لگتا ہے کہ: "سچ کی قیمت لگتی ہے، اور جھوٹ نیلام ہوتا ہے، ضمیر اگر زندہ ہو، تو یہ بازار تنگ پڑ جاتا ہے"
کبھی کہا جاتا تھا کہ "سچ کڑوا ہوتا ہے"، لیکن آج سچ اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ اسے خریدنے کی سکت صرف طاقتوروں کو رہ گئی ہے۔ جبکہ جھوٹ... سستا، مقبول، اور ہر جگہ آسانی سے دستیاب۔
یہ وہ عہد ہے جس میں سوال کرنا جرم اور جواب دینا مصلحت بن چکا ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا، اور طاقت کے گٹھ جوڑ نے حقیقت کو اتنا مسخ کر دیا ہے کہ خبر، افواہ اور پراپیگنڈا میں فرق کرنا عام انسان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
"خبر چھپائی جاتی ہے، افواہ اُڑائی جاتی ہے" —
یہ محض ایک مصرع نہیں، بلکہ ہمارے عہد کا نوحہ ہے۔
جب سچائی صرف اس وقت نشر ہو، جب وہ کسی ایجنڈے کے مطابق ہو — تو یہ آزادی نہیں، ایک نیا جبر ہے۔
اب صحافت کا معیار صرف یہ رہ گیا ہے کہ "کون سا سچ فائدہ دے سکتا ہے" اور "کون سی خاموشی مفید ثابت ہو سکتی ہے"۔
ایسا لگتا ہے کہ اب صرف وہی بات قابلِ اشاعت ہے جو مقتدر حلقوں کے مفاد میں ہو۔
میڈیا ہاؤسز، جن کا فریضہ تھا کہ سچائی کی روشنی کو عام کریں، وہ اب اتنے "سنجیدہ" ہو چکے ہیں کہ سچ بولنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں۔
طاقتور کی بات "بیانیہ" کہلاتی ہے، اور کمزور کی چیخ بھی "غداری"۔
سوشل میڈیا پر روز نت نئے ہیش ٹیگ جنم لیتے ہیں، مگر ان میں سے اکثر سچ کے نہیں، خواہشات کے ترجمان ہوتے ہیں۔
عدالت خاموش ہے، صحافت بے بس، اور عوام بے حس ہو چکی ہے۔
یہاں سوال کرنے والا فتنہ گر، اختلاف کرنے والا باغی، اور حقیقت بیان کرنے والا ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔
ایسا دور شاید تاریخ میں کئی بار آیا ہو، لیکن ہر بار اس نے اپنے پیچھے ایک زخم خوردہ سچ چھوڑا ہے۔
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا" (الاسراء: 81)
(اور کہہ دو: حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، یقیناً باطل مٹنے والا ہے)
دورِ جدید میں جہاں ٹیکنالوجی، میڈیا اور فوری رسائی کی سہولت نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں (Global village) بنا دیا ہے، وہاں "سچ" سب سے بڑی قربانی بن چکا ہے۔
اب سچ بولنے سے پہلے اجازت درکار ہوتی ہے، اور جھوٹ بولنے کے لیے بس ایک کلک کافی ہے۔ ہم اس عہد میں زندہ ہیں جہاں "سچ چھپایا جاتا ہے، اور افواہ اڑائی جاتی ہے"۔
ذرائع ابلاغ جنہیں جمہوریت کا ستون کہا جاتا تھا، اب یا تو خاموش ہیں، یا بک چکے ہیں، یا پھر "خاص مقاصد" کے تابع ہو چکے ہیں۔
خبر اب معلومات دینے کا ذریعہ نہیں رہی، بلکہ رائے قائم کرنے کا ہتھیار بن چکی ہے۔
سچ کو "ایڈٹ" کر کے پیش کیا جاتا ہے، اور جھوٹ کو "ڈرامائی انداز" میں سنوارا جاتا ہے تاکہ وہ دل کو لگے۔
سوشل میڈیا نے جہاں عام انسان کو آواز دی، وہیں سچ اور جھوٹ کی تمیز دھندلا دی۔
جھوٹ، اگر پسندیدہ ہو، تو ہزار بار شیئر ہوتا ہے۔
سچ، اگر کڑوا ہو، تو دب جاتا ہے یا "غدار" قرار دے دیا جاتا ہے۔
آج سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ: تم سوال کیوں کرتے ہو؟

قرآن کہتا ہے:
"وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ" (البقرہ: 42(
)اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ، اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ(

افسوس! اب نہ صرف حق چھپایا جا رہا ہے بلکہ اسے باطل کے پردوں میں لپیٹ کر ایسا پیش کیا جا رہا ہے کہ لوگ اسے پہچان بھی نہیں پاتے۔
آزادیٔ اظہار کے نام پر صرف وہی بول سکتا ہے جو "مطابقِ حکمت" بات کرے۔
جو حقائق کے ساتھ کھڑا ہو، وہ اکیلا رہ جاتا ہے۔
ادب، صحافت، اور مذہب — تینوں میدانوں میں جب مصلحت سچائی پر غالب آ جائے تو سچ کی عمر مختصر ہو جاتی ہے۔
اگر ہم سچ کو چھپاتے رہے، تو سچ ہم سے چھن جائے گا۔
اگر ہم جھوٹ کو سہارا دیتے رہے، تو کل وہی جھوٹ ہمارا مقدر بن جائے گا۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم سوال کریں، سنیں، سمجھیں، اور سچ کے ساتھ کھڑے ہوں — چاہے وہ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔
یہ کالم کسی ایک حکومت، ادارے یا شخصیت کے خلاف نہیں، بلکہ اس پورے نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے جس میں سچ بولنے والا تنہا رہ جاتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا ہماری ترجیحات اتنی بدل گئی ہیں کہ ہمیں اب سچ کا سامنا بھی گوارا نہیں؟
یا ہم نے شعوری طور پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں؟
آخر میں بس اتنا کہنے کو جی چاہتا ہے:
"سچ کی قیمت لگتی ہے، اور جھوٹ نیلام ہوتا ہے، ضمیر اگر زندہ ہو، تو یہ بازار تنگ پڑ جاتا ہے"

یہ  میڈیکل ڈاکو مینٹ  کسی سے سوزکی میں گرے ہیں کسی کا ہو اس نمبر پر رابطہ کریں۔03329233102
11/06/2025

یہ میڈیکل ڈاکو مینٹ کسی سے سوزکی میں گرے ہیں کسی کا ہو اس نمبر پر رابطہ کریں۔03329233102

Address

Kohat

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when BNN kohat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to BNN kohat:

Share