
26/04/2024
دوستو
بلوچستان کے اکثر علاقوں میں پایا جانے والا یہ پودا نما درخت جس کے پتے کھجور سے ملتے جلتے ہیں قدرت کا انمول اور بیش بہا تحفہ ہے اسے اردو میں "مزری" اور سرائیکی میں "پیس" جبکہ بلوچی زبان میں "پِیش" کہا جاتا ہے اس پہ لگنے والا خوشنما اور خوش ذائقہ گول مٹیالے رنگ کے پھل کو بلوچی زبان میں "کونر" کہتے ہیں اس کے پتوں سے چٹائیاں رسیاں تیار کی جاتی ہیں اور کئ دہائیاں قبل تو بلوچستان کے باسی جوتے بھی اس سے تیار کر لیا کرتے تھے جنھیں "سواس" کہا جاتا تھا
اس کے علاوہ اس درخت میں انسان کے کھانے کے قابل اس کی نرم شاخ بھی ہوتی ہے جسے "کیلڑ" کہا جاتا ہے کیلڑ کو انگاروں پہ سجی کی طرح بھون کر کھایا جاتا ہے جلنے سے اس کی رنگت کالی ہو جاتی ہے اور ذائقہ انتہائی خوش کن ؛
معروف بلوچ شاعر توکلی مست نے کیلڑ کو اپنے اشعار میں استعارہ کے طور پر استعمال کیا
"مں پہ تھئ رندا سُتّکؤ سیاہیں کیلڑاں"
ترجمہ =(اے میری سمو) میں تیرے ہجر کی آگ میں جل کر "کیلڑ" کی مانند سیاہ ہو گیا ہوں
لیکن افسوس کہ دیگر قدرتی تحائف کی طرح "مزری" بھی اب معدومیت کی طرف گامزن ہے اور انسان کو بے شمار فوائد فراہم کرنے والا یہ ماحول دوست درخت انسانی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں رہا
اس درخت کو دھڑا دھڑ کاٹ کر اس کی نسلی صفائی کی جارہی ہے