16/08/2024
پیدائش پرچی
" صاحب جی پتر دی پیدائش پرچی کوئی نئیں بنی تے ناں ای اودا شناختی کارڈ بن سکیا۔ ہن اونوں کوئی نوکری وی نئیں دیندا۔ پڑھدا تے کم تھارا لبھدا ، تے جے کجھ تسی مدد کر چھڈو تاں رب ای تہاڈا سارے گا"
بزرگ ماں نے یہ کہ کے ٹھیلا کو مضبوطی سے پکڑا اور چلنے کو تیار نظر آئی۔
میں اور میرے ایڈمن انسپکٹر شہباز انور صاحب رات کو ڈیوٹی پہ نکلے۔ ڈیوٹی شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے کہا سر چائے پینی ہے۔ کہتے اچھی یا گزارے لائق۔ میں نے کہا سر چائے کے ساتھ ناانصافی نہیں کرنی چاہییے۔ کہتے سمجھ گیا۔ جس ڈھابے کی طرف چلے، وہ ڈسکہ کے قریب چھ نمبر اڈا پر موجود ہے۔ ہم وہاں پہنچے اور پٹھان لڑکے کو چائے بنانے کا کہا اور چینی کی جگہ گڑ ڈالنے کی ہدایت کی۔ اُس بزرگ ماں کو ہم دونوں ٹھیلا آہستہ آہستہ دھکیلتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔ وہ بزرگ ماں ٹھیلے کو چند قدم دھکیل کر آگے لے جاتی، تھوڑی دیر سستانے کو بیٹھ جاتی۔ جب سانس درست ہو جاتی دوبارہ چل پڑتی۔ شہباز صاحب کہنے لگے یار رزق کی دین اس ذات کے ذمہ ہے۔ رات کے دو بج رہے ہیں۔ رات گئے اس وقت اتنی بزرگ عورت کا ٹھیلا لے کر چلانا سمجھ سے باہر ہے۔ ہم اسے نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ چائے آئی، جلدی جلدی پی۔ اور گاڑی ڈسکہ سے سیالکوٹ کی ظرف موٹروے کی طرف سروس روڈ پہ ڈال دی۔ تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ وہ بزرگ ماں ٹھیلے کو آہستگی سے چلاتے ہوئے نظر آ گئی۔
اب زرا غور سے دیکھا تو ان کی عمر کوئی ساٹھ سال کے قریب ہو گی۔ چہرے کی جھریاں عمر کا صاف پتہ بتا رہی تھیں ۔ بولنے کا انداز تھکن کی آمیزش کے ساتھ تھا۔ ہمت سے البتہ کسی نوجوان کو بھی پچھاڑ رہی تھیں۔ ہم نے پوچھا ماں جی یہ کیا ماجرا ہے؟ رات کو اس وقت اکیلے اس ٹھیلے پہ کیا بیچ رہی ہیں اور گھر کہاں ہے آپ کا؟ کہتیں پتر ٹھیلے پہ آلو چھولے بیچتی ہوں۔ شام کو دو تین کلو ابال کے بناتی ہوں اور روڈ پہ ساتھ والے چوک پہ بیچ دیتی ہوں۔ میرا کوئی سہارا نہیں ۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ شوہر ہوتا تو شاید بہتر حالات ہوتے ۔ بیٹا چنگ چی رکشہ چلاتا ہے جس سے پانچ چھ سو روپے کی آمدن ہو جاتی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ کہتا ہے۔ مگر مجھ پہ ذمہ داریاں ہیں ۔ میں کسی سے مانگ نہیں سکتی بلکل، اسی لیے محنت کرنے نکل پڑتی ہوں۔ یہ الگ بات کہ مجھے یوں روڈ پہ کھڑے ہو کے آلو چھولے بیچتے دیکھ کے لوگ عزت سے پیش آتے ہیں۔ مجھ سے خریداری کر کے اور کیے بغیر میری مدد کر جاتے ہیں۔ ان کا بھلا ہو۔ سر نے پوچھا ماں جی آپ کا بیٹا کوئی اور کام کیوں نہیں کرتا۔ کہتیں یہی تو مسئلہ ہے۔ اس کی پیدائش پرچی نہیں بنی۔ یہ بات اوپر پنجابی میں بھی مذکور ہے۔ شہباز صاحب کہتے اس کا نام کیا ہے؟ کہتیں حسنین نام ہے۔ ہم نے کہا ماں جی آپ کا نام کیا ہے؟ انہوں نے اپنا نام عذرا بتایا ۔ ہم نے کہا ماں جی آپ اپنے بیٹے کو ہمارے دفتر بھیلو مہار بھیجیں ۔ انشاء اللّٰہ اس کا کام کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اگر شناختی کارڈ بن جاتا ہے تو سیالکوٹ صنعتی شہر جہاں اچھا اور باعزت روزگار کمایا جا سکتا ہے۔
یہ بات چیت جاری تھی کہ تین موٹر سائیکل سوار آئے جن پہ ایک ایک بائیک پہ دو دو لڑکے سوار تھے۔ سب سے پہلی والی بائیک کے نوجوان نے کہا ماں جی چنے کھلاؤ ہمیں۔ ماں جی کہتیں بیٹا ختم ہو گئے ہیں۔ دوسرا لڑکا بولا اچھے بنے ہوں گے جبھی ختم ہو گئے۔ ان کی ان باتوں سے معلوم پڑتا تھا وہ انہیں جانتے تھے۔ پہلے والے نے چپکے سے اپنے پرس میں جتنے پیسے تھے سبھی نکال کے ماں جی ہاتھ میں یوں پکڑائے کہ نظر نہ آ سکیں۔ دوسرے لڑکے نے بھی یوں ہی کیا۔ ساتھ ہی اس نے اپنے پیچھے والے سوار کو بھی پیسے دینے کے لیے کہ دیا۔ یہ سارا منظر ہم دیکھ رہے تھے۔ شہباز صاحب نے بھی اپنا پرس کھول کے کچھ پیسے ماں جی کو پکڑا دیے۔ یہ پیسے لیتے ہوئے وہ رونے لگ گئیں۔ کہتیں مجھے اس قدر رزق بیٹے کی طرف سے مل جائے کہ اس عمر میں باہر نہ نکلوں اور اپنی بیٹیوں کا سر ڈھانپ کے پرورش کر پاؤں تو کبھی بھی باہر نہ نکلوں۔ موٹر سائیکل سوار یہ سن کے چل پڑے۔ شہباز صاحب نے بھی اعادہ کیا کہ اب وہ یہ کام ضرور کریں گے۔ ہم بھی واپسی کو چل دیے
اسے کیا نام دیں۔ میرے اور آپ کے چاروں طرف یہ مناظر بکھرے ہوئے ہیں۔ بزرگ عورتیں اور مرد بڑھاپے کی عمر میں رزق کے لیے خوار ہو رہے ہیں۔ وہ شخص جس نے ریاست کو جوانی دی ہوتی ہے اسے پچھلی عمر میں ریاست کی جانب سے کچھ نہیں ملتا۔ کسی پہ آزمائش آ جاتی ہے۔ کوئی گھر والوں کی بے پرواہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بزرگوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہییے۔ وجہ کچھ بھی ہو بزرگ انسان اس حالت اور مشقت کا مستحق نہیں ہوتا۔ اپنے ارد گرد نظر رکھیے۔ کہیں کوئی مجبور بزرگ نظر آئے تو حتی الوسع مدد کیجیئے ۔ ان کے گھر کے راشن پانی کا بندوبست کر دیجیئے ۔ریاست، پولیٹیکس، گورننس ، معاشی حالت اور عوام میں کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں اس الجھن میں ہم پھنسے رہے تو شاید کچھ نہ کر پائیں۔ جو ایک تنکے کی سکت رکھتا یے وہ اس تنکے جتنی مدد کرے۔ مگر بزرگ شہریوں کی عزت ، حرمت، ضرورت کا خیال رکھنے کی بھرپور کوشش کیجیئے
وزارتِ کیفیاتِ داخلہ ، چوک سیالاں