M. Babar Yaqoob

M. Babar Yaqoob تمام کی گفتگو یکتائی کی انفرادیت سے نمو پاتی ہے

بادِ صبا خموش ہو گلزار چپ رہیںوہ بات کر رہا ہے، خبردار چپ رہیں
15/03/2025

بادِ صبا خموش ہو گلزار چپ رہیں
وہ بات کر رہا ہے، خبردار چپ رہیں

03/09/2024

گزرا ہے کوئی عہد قرینے سے ہمارا
یہ زخم کُھلا وقت کے سینے سے ہمارا
ہم شام کی دہلیز پہ بیٹھے ہیں ابھی تک
اک قافلہ نکلا تھا مدینے سے ہمارا
دلاور علی آزر

16/08/2024

پیدائش پرچی

" صاحب جی پتر دی پیدائش پرچی کوئی نئیں بنی تے ناں ای اودا شناختی کارڈ بن سکیا۔ ہن اونوں کوئی نوکری وی نئیں دیندا۔ پڑھدا تے کم تھارا لبھدا ، تے جے کجھ تسی مدد کر چھڈو تاں رب ای تہاڈا سارے گا"

بزرگ ماں نے یہ کہ کے ٹھیلا کو مضبوطی سے پکڑا اور چلنے کو تیار نظر آئی۔

میں اور میرے ایڈمن انسپکٹر شہباز انور صاحب رات کو ڈیوٹی پہ نکلے۔ ڈیوٹی شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے کہا سر چائے پینی ہے۔ کہتے اچھی یا گزارے لائق۔ میں نے کہا سر چائے کے ساتھ ناانصافی نہیں کرنی چاہییے۔ کہتے سمجھ گیا۔ جس ڈھابے کی طرف چلے، وہ ڈسکہ کے قریب چھ نمبر اڈا پر موجود ہے۔ ہم وہاں پہنچے اور پٹھان لڑکے کو چائے بنانے کا کہا اور چینی کی جگہ گڑ ڈالنے کی ہدایت کی۔ اُس بزرگ ماں کو ہم دونوں ٹھیلا آہستہ آہستہ دھکیلتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔ وہ بزرگ ماں ٹھیلے کو چند قدم دھکیل کر آگے لے جاتی، تھوڑی دیر سستانے کو بیٹھ جاتی۔ جب سانس درست ہو جاتی دوبارہ چل پڑتی۔ شہباز صاحب کہنے لگے یار رزق کی دین اس ذات کے ذمہ ہے۔ رات کے دو بج رہے ہیں۔ رات گئے اس وقت اتنی بزرگ عورت کا ٹھیلا لے کر چلانا سمجھ سے باہر ہے۔ ہم اسے نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ چائے آئی، جلدی جلدی پی۔ اور گاڑی ڈسکہ سے سیالکوٹ کی ظرف موٹروے کی طرف سروس روڈ پہ ڈال دی۔ تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ وہ بزرگ ماں ٹھیلے کو آہستگی سے چلاتے ہوئے نظر آ گئی۔

اب زرا غور سے دیکھا تو ان کی عمر کوئی ساٹھ سال کے قریب ہو گی۔ چہرے کی جھریاں عمر کا صاف پتہ بتا رہی تھیں ۔ بولنے کا انداز تھکن کی آمیزش کے ساتھ تھا۔ ہمت سے البتہ کسی نوجوان کو بھی پچھاڑ رہی تھیں۔ ہم نے پوچھا ماں جی یہ کیا ماجرا ہے؟ رات کو اس وقت اکیلے اس ٹھیلے پہ کیا بیچ رہی ہیں اور گھر کہاں ہے آپ کا؟ کہتیں پتر ٹھیلے پہ آلو چھولے بیچتی ہوں۔ شام کو دو تین کلو ابال کے بناتی ہوں اور روڈ پہ ساتھ والے چوک پہ بیچ دیتی ہوں۔ میرا کوئی سہارا نہیں ۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ شوہر ہوتا تو شاید بہتر حالات ہوتے ۔ بیٹا چنگ چی رکشہ چلاتا ہے جس سے پانچ چھ سو روپے کی آمدن ہو جاتی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ کہتا ہے۔ مگر مجھ پہ ذمہ داریاں ہیں ۔ میں کسی سے مانگ نہیں سکتی بلکل، اسی لیے محنت کرنے نکل پڑتی ہوں۔ یہ الگ بات کہ مجھے یوں روڈ پہ کھڑے ہو کے آلو چھولے بیچتے دیکھ کے لوگ عزت سے پیش آتے ہیں۔ مجھ سے خریداری کر کے اور کیے بغیر میری مدد کر جاتے ہیں۔ ان کا بھلا ہو۔ سر نے پوچھا ماں جی آپ کا بیٹا کوئی اور کام کیوں نہیں کرتا۔ کہتیں یہی تو مسئلہ ہے۔ اس کی پیدائش پرچی نہیں بنی۔ یہ بات اوپر پنجابی میں بھی مذکور ہے۔ شہباز صاحب کہتے اس کا نام کیا ہے؟ کہتیں حسنین نام ہے۔ ہم نے کہا ماں جی آپ کا نام کیا ہے؟ انہوں نے اپنا نام عذرا بتایا ۔ ہم نے کہا ماں جی آپ اپنے بیٹے کو ہمارے دفتر بھیلو مہار بھیجیں ۔ انشاء اللّٰہ اس کا کام کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اگر شناختی کارڈ بن جاتا ہے تو سیالکوٹ صنعتی شہر جہاں اچھا اور باعزت روزگار کمایا جا سکتا ہے۔

یہ بات چیت جاری تھی کہ تین موٹر سائیکل سوار آئے جن پہ ایک ایک بائیک پہ دو دو لڑکے سوار تھے۔ سب سے پہلی والی بائیک کے نوجوان نے کہا ماں جی چنے کھلاؤ ہمیں۔ ماں جی کہتیں بیٹا ختم ہو گئے ہیں۔ دوسرا لڑکا بولا اچھے بنے ہوں گے جبھی ختم ہو گئے۔ ان کی ان باتوں سے معلوم پڑتا تھا وہ انہیں جانتے تھے۔ پہلے والے نے چپکے سے اپنے پرس میں جتنے پیسے تھے سبھی نکال کے ماں جی ہاتھ میں یوں پکڑائے کہ نظر نہ آ سکیں۔ دوسرے لڑکے نے بھی یوں ہی کیا۔ ساتھ ہی اس نے اپنے پیچھے والے سوار کو بھی پیسے دینے کے لیے کہ دیا۔ یہ سارا منظر ہم دیکھ رہے تھے۔ شہباز صاحب نے بھی اپنا پرس کھول کے کچھ پیسے ماں جی کو پکڑا دیے۔ یہ پیسے لیتے ہوئے وہ رونے لگ گئیں۔ کہتیں مجھے اس قدر رزق بیٹے کی طرف سے مل جائے کہ اس عمر میں باہر نہ نکلوں اور اپنی بیٹیوں کا سر ڈھانپ کے پرورش کر پاؤں تو کبھی بھی باہر نہ نکلوں۔ موٹر سائیکل سوار یہ سن کے چل پڑے۔ شہباز صاحب نے بھی اعادہ کیا کہ اب وہ یہ کام ضرور کریں گے۔ ہم بھی واپسی کو چل دیے

اسے کیا نام دیں۔ میرے اور آپ کے چاروں طرف یہ مناظر بکھرے ہوئے ہیں۔ بزرگ عورتیں اور مرد بڑھاپے کی عمر میں رزق کے لیے خوار ہو رہے ہیں۔ وہ شخص جس نے ریاست کو جوانی دی ہوتی ہے اسے پچھلی عمر میں ریاست کی جانب سے کچھ نہیں ملتا۔ کسی پہ آزمائش آ جاتی ہے۔ کوئی گھر والوں کی بے پرواہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بزرگوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہییے۔ وجہ کچھ بھی ہو بزرگ انسان اس حالت اور مشقت کا مستحق نہیں ہوتا۔ اپنے ارد گرد نظر رکھیے۔ کہیں کوئی مجبور بزرگ نظر آئے تو حتی الوسع مدد کیجیئے ۔ ان کے گھر کے راشن پانی کا بندوبست کر دیجیئے ۔ریاست، پولیٹیکس، گورننس ، معاشی حالت اور عوام میں کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں اس الجھن میں ہم پھنسے رہے تو شاید کچھ نہ کر پائیں۔ جو ایک تنکے کی سکت رکھتا یے وہ اس تنکے جتنی مدد کرے۔ مگر بزرگ شہریوں کی عزت ، حرمت، ضرورت کا خیال رکھنے کی بھرپور کوشش کیجیئے

وزارتِ کیفیاتِ داخلہ ، چوک سیالاں

17/06/2024

نئے نکور لفظوں اور تصویروں سے عید کی مبارک دینے والے، فارورڈ میسج نہ کرنے والے، گوشت کی اچھی قسم بانٹنے والے ، ایک دوسرے کو بکرے کی پُٹھ کے گوشت کی دعوت کھلانے والے اور چیدہ چیدہ دوستوں کو شام کو الگ عشائیہ پہ بلانے والے لوگوں کو عید صد سعید مُبارک♥️♥️

باقیوں کو صرف "عید مبارک"

وزارتِ کیفیاتِ داخلہ، چوچک سیالاں

موٹروے جابز سیلیبستمام امیدواران جنہوں نے موٹروے کا جسمانی آزمائش ( فزیکل ٹیسٹ) کا ٹیسٹ پاس کر لیا ہے۔ اور وہ امیدواران ...
13/06/2024

موٹروے جابز سیلیبس
تمام امیدواران جنہوں نے موٹروے کا جسمانی آزمائش ( فزیکل ٹیسٹ) کا ٹیسٹ پاس کر لیا ہے۔ اور وہ امیدواران جنہوں نے موٹروے پولیس کی سیویلین جابز میں اپلائی کیا ہوا ہے۔ ان سب کے لیے پیغام ہے اس تصویر کو غور سے دیکھیں۔ تمام جابز کے لیے ٹیسٹ کا طریقہ کار سادہ انداز میں لکھا ہوا ہے۔ ٹیسٹ کے پانچ حصے ہوں گے۔ ہر حصے میں قریب بیس بیس سوال آئیں گے۔ سوال سارے MCQs ہوں گے۔ پانچواں حصہ ہر جاب کے لیے مختلف ہو گا۔ جیسے اگر جے پی اوز کی بات کریں تو اس میں روڈ سیفٹی کے متعلق سوال آئیں گے۔ روڈ سیفٹی کے سوالات کسی بھی پبلشر کی کتاب یا گوگل پہ لکھنے سے بے شمار میٹیریل دستیاب ہو سکتا ہے۔اسی طرح سویلین جابز کے لیے بھی ان کے متعلق میٹریل دستیاب ہو سکتا ہے۔تیاری کے لیے ایک سے زائد زرائع کا استعمال کریں۔ انٹرنیٹ سورسز، کتابیں، تیاری والی ایپلیکیشنز قابلِ ذکر ہیں۔

11/06/2024

بازگشت
کہتے ہیں ان کہے لفظوں میں اصل معنی ہوتے ہیں جو کہی ہوئی باتوں سے بھی بیاں شاید نہ ہو پائیں۔ کبھی کبھی ایک لفظ، فقرے یا چند سطروں کی کہانی کی بازگشت مدتوں کانوں میں سنائی پڑتی رہتی ہے۔ آپ Echo سمجھتے ہیں؟ فزکس کی رو سے آواز کا دیواروں یا دور دراز کے آبسٹیکل سے ٹکرا کے واپس آنا کو کہتے
ہیں۔ ایسے ہی روزمرہ کی زندگی میں ہمیں کبھی کچھ ایسا سننے کو ملتا ہے جس کی بازگشت کبھی نہ بھلائی جا سکے۔ آج بھرتی ڈیوٹی میں فی میل کینڈیڈیٹ کا دن تھا۔ دوڑ، قد کی پیمائش کے بعد کسی کو پاس ہونے کی نوید ملی تو کسی کو فیل ہونے کا مژدہ سنایا گیا۔ یہ ساری کاروائی ان کی رول نمبر سلپ پہ پکی مہر کے ساتھ چسپاں کر دی جاتی ہے۔ فیصلے کے بعد تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں

ہم نے آٹھ بجے ڈیوٹی ختم کی۔ ساڑھے آٹھ بجے تک ناشتہ کیا۔ نو بجے تک تمام ساتھیوں کی مصروفیت کے اختتام کا انتظار کرنا تھا تاکہ سبھی بعد از ڈیوٹی اپنے اپنی منزلوں کو لوٹ سکیں۔ میں، رائے عبدلاغفور اور علی حسنین صاحب گاڑی میں بیٹھ کے واپس جانے کو تیار تھے کہ ایک ماں اپنی بیٹی کے ساتھ سامنے سے آتے ہوئے نظر آئی۔ قریب آنے پہ ماں یوں گوش گزار ہوئی کہ میری بیٹی ایک انچ قد کے فرق سے فزیکل ٹیسٹ پاس نہ کر سکی ہے۔ ہو سکے تو اس کا فزیکل ٹیسٹ دوبارہ لے کیا جائے۔ یہ محض اس کے دل کی تسلی تھی ورنہ جو فیصلہ فیصل ہو چکا تھا وہ تبدیل کہاں ہو سکتا تھا۔ ہم نے ان کا دل رکھنے اور تسلی کروانے کو انہیں گاڑی میں ساتھ بٹھایا اور اس طرف کو چل پڑے جہاں قد کی پیمائش کے مراحل سر انجام دیے جا رہے تھے۔ دمِ واپسیں ماں نے پانچ سات فقروں میں داستان بیان کر دی۔ یہ داستان حوصلے ، ہمت، جرات اور بلند پایہ شخص کی ہے جو اپنی بیٹی کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہے

ماں نے بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے۔ اس کا باپ انہیں پڑھانے میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لیتا۔ الٹا روکتا ہے۔ میں نے محنت کر کے اسے ایف اے تک پڑھایا ہے۔ یہ خود آگے پڑھنا چاہتی ہے اور ساتھ ساتھ میرا ہاتھ مالی اور اخلاقی طور پہ بٹانا چاہتی ہے۔ آج اس کا یہاں فزیکل ٹیسٹ تھا جس کے لیے ہمیں اجازت نہ مل پا رہی تھی ۔ لیکن میں نے ضد اور کوشش کر کے اسے گھر سے ساتھ لیا اور یہاں ٹیسٹ سینٹر پہ آئی ہوں۔ نہ جانے کیا بات ہوئی کہ اسے فزیکل ٹیسٹ میں فیل کر دیا گیا ہے۔ اس ماں نے بعد میں ایک فقرہ کہا جو کسی بھی ماں کے منہ سے بیاں ہو تو اس کا مطلب ہے وہ اپنے بچوں کو بشرط زندگی کوئی نہ کوئی مقام دلوا کے چھوڑے گی۔ اس نے کہا کچھ بھی ہو میں اس کے خواب ادھورے نہیں رہنے دوں گی۔ سبحان اللّٰہ۔۔۔
یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں ان کے لفظوں سے مقدور بھر میل کھا رہی تھیں۔ وہ جو کہ رہی تھیں وہی کر بھی رہیں تھیں۔ مقدر کے سکندر اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ مگر وہ جو مقدر کے پتھروں کو اپنی ضرورت کے مطابق تراشتے ہیں کیسے خوبصورت اور جری لوگ ہوتے ہیں اس ماں سے مل کے پتہ چلا۔ ان کی انکھوں میں زمانے بھر کی طاقت کا راز چھپا ہوتا ہے باوجود اس کے وہ ظاہری وسائل سے خالی یا تنگ ہوتے ہیں۔ تو کیا ہوا جو آج ایک ٹیسٹ میں اس کی بیٹی رہ گئی۔ اس کے پاس پہاڑ ایسے حوصلے جیسی ماں تو ہے جو زندگی کے خار بھرے راستے میں گلاب اگانے کا ہنر جانتی ہے۔ یوں لگتا ہے کسی روز خبر آئے گی کہ اس ماں کی محنت اور بہادری کی وجہ سے اس کی یہ بیٹی معاشرے میں ایک بہترین مقام حاصل کر چکی ہے۔ انشاء اللّٰہ

یہ الگ بات کہ دوبارہ چیک کرنے پہ بھی پہلے والا رزلٹ یکساں رہا اور انہیں واپس نامراد لوٹنا پڑا۔ لیکن وہ دن دور نہیں جب گلِ مراد ان کے سر پہ سہرے کی مانند جڑا ہو گا۔ وہ آنکھیں جو خوابوں کو دیکھتی ہیں انہیں حقیقتوں میں تبدیل ہوتے دیکھ پائیں گی۔ اس لمحے قدرت کے دلفریب ساز پہ ایک لے بجے گی۔ اور اس لے کی آواز کی مٹھاس وہی دل سن سکیں گے جنہیں زمانے کی ٹھوکروں نے آزمائشوں کی زد میں رکھا

بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے
ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے

وزارتِ کیفیاتِ داخلہ ، چوچک سیالاں

09/06/2024

اطلاعِ عام
بہت سارے امیدوار جنہوں نے JPO کا فزیکل ٹیسٹ پاس کر لیا ہے وہ تحریری امتحان کی بابت جاننا چاہ رہے ہیں۔ اس کا سیلیبس کیا ہو گا، کون کون سے سبجیکٹ ہوں گے، ایم سی کیوز ٹائپ ہو گا کیا ہو گا۔
خاطر جمع رکھیے۔ آپ کو ایک پوسٹ میں جلد ہی آگاہ کرتا ہوں۔ تب تک کسی بھی پبلشر کی JPO Test Preparation والی بک لے لیں اور اسے پڑھنا شروع کر دیں۔ خیال رہے وہ نئے ایڈیشن کی ہو۔

08/06/2024

انسان کی ظاہری پہچان دھوکہ دیتی ہے۔ وہ اندر سے کیا ہے، اس کے قول و فعل میں کتنا ربط ہے یا کتنا تضاد ہے اس بات کا اندازہ واہ پیاں یا راہ پیاں پتہ چلتا ہے۔ فریحہ نقوی صاحبہ کا ایک شعر اسی ضمن میں ہے کہ
یہ شکل کی، لباس کی بساط کیا
کلام کر۔.......! پتہ چلے تو کون ہے

میں کمپلینٹ سیل میں بیٹھا ہوا ہوں۔ امیدوار بھرتی کے لیے فزیکل ٹیسٹ دینے جوق در جوق آ رہے ہیں۔ کسی کا کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بھیجا جا رہا ہے۔ اگر کوئی امیدوار بوجوہ مقررہ تاریخ پہ نہیں آ پاتا تو وہ اگلے دن آ کے ٹیسٹ دے سکتا ہے۔ اس کے لیے انہیں ایک درخواست لکھ کے دینی پڑتی ہے جس پہ وہ وجہ بیان کی جاتی ہے جس بنا پہ وہ اپنے دن پہ ٹیسٹ دینے نہ آسکے۔ آج بیس پچیس امیدوار لائن میں کھڑے تھے ۔ ان سب کو ایک ایک سادہ کاغذ مہیا کیا گیا جس پہ وہ اپنی درخواست لکھ سکیں۔ ایک امیدوار زرا گھبرایا ہوا معلوم ہوا، جب سب کو کاغذ بانٹے گئے تو وہ اپنی پہلے والی جگہ چھوڑ کے پیچھے چلا گیا، سب نے اپنی اپنی درخواست لکھ کے دے دی۔ میں نے دیکھا بہت سے لڑکوں نے غلطیاں کی ہوئی تھیں ۔ جب اس لڑکے کی باری آئی تو اس نے ڈرتے ڈرتے اپنی درخواست لکھی، لکھ کے مرے سامنے کی۔ میں نے پڑھا ، پڑھ کے انتہائی مسرت اور خوشی سے اسے جاتے جاتے واپس بلایا۔ اس نے اپنی درخواست نہایت سلیس زبان اور بمطابق نمونہ لکھی ہوئی تھی جو باقی لڑکوں میں مفقود تھی۔ اسے کہا کہ یار تم تو بہت قابل ہو، صحیح سے پڑھے لکھے ہو۔ معلوم ہوا کہ وہ بی ایس کریمنالوجی میں سیکنڈ سمسٹر کا طالبعلم تھا۔ یہ سن کے اس کے جانے کس وجہ سے اداس چہرے میں کئی رنگ بکھر گئے۔ خوش ہوا اور کھلے کھلے چہرے سے دوڑ والی جگہ کی طرف چل دیا۔ کون جانتا تھا وہ جو سب سے زیادہ خوف زدہ تھا، اسے باقیوں میں سے کسی خاص پہلو پہ عبور تھا۔ وہ جو اپنی باری اورورں کے لیے چھوڑ گیا، وہی اس وقت کا بہترین حق دار تھا۔۔ آج تو اسکی صلاحیت کا مول درست پڑا، جانے کتنی بار اسے چہرے مہرے سے بے مول ہونا پڑے۔۔۔۔

وزارتِ کیفیاتِ داخلہ، چوچک سیالاں

07/06/2024

مرشدِ بے سلسلہ
علی حسنین صاحب سب انسپکٹر ہیں۔ جڑانوالہ سے ان کا تعلق ہے۔ بھلے آدمی ہیں۔ مومن ہیں۔ انسان ہیں۔ دردِ دل رکھتے ہیں۔ بچوں کو کھانا کھلاتے ہوئے ویڈیو بنانے کے سوال پہ خود ہی شرمندہ ہونے لگے تو میں نے کہا بھائی جس نیکی کو کرنے میں رب بے حد راضی ہو، اسے دوسروں تک پہنچانے میں کیا مضائقہ ہے۔ دوسرے بھی آپ کو دیکھ کے توفیق پکڑیں گے۔ چائلڈ لیبر پاکستان میں عام ہے، تقریباً بائیس ملین بچے سکول نہیں جاتے۔ وجوہات بے شمار ہیں۔ ریاست ماں جیسی نہیں ہے۔ شہری پکے مسلمان ہیں، پکے انسان ہونے میں شبہ ہے۔ غربت ہے۔ افراطِ فرد ہے۔ وسائل کی کمی ہے۔ زندگی قرضہ زدہ ممالک میں تنگی کی عملی شکل ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ پھول کیا کریں۔ گھر والوں کے لیے روزی روٹی کمانے کا آسرا ہیں۔ جنسی درندگی ، ظلم، مار پیٹ، خوف و ہراس، چائلڈ لیبر، ہیومن ٹریفکنگ کا آسان شکار یہی بچے ہوتے ہیں۔
ان بچوں کو دیکھ کے علی حسنین کا دل بھی بچے جیسے مچلتا ہے۔ وہ پانی پیتے ہوئے اپنے گھونٹ میں انہیں شریک کر لیتا ہے۔ کھانے کے لقموں کو موجود بچوں میں تقسیم کر لیتا ہے۔ ہمیں موٹیویشن لینے کے لیے دور نہیں جانا پڑتا، ہمسائیگی میں ہی رب کے پیارے بستے ہیں

اللّٰہ کرے انکی بھلائی اور قائم و دائم رہے

وزارتِ کیفیاتِ داخلہ، چوچک سیالاں

Address

Jaranwala
Kot Addu
34050

Telephone

+923126462764

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when M. Babar Yaqoob posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to M. Babar Yaqoob:

Share