M Adrees Ghuman Advocate

M Adrees Ghuman Advocate NO ONE COULD LET YOU DOWN UNLESS ALLAH

01/03/2025

سورۃ آل عمران – آیات 189-190 (اردو ترجمہ اور تفسیر)

---

آیت 189:

وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ

ترجمہ:

اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

تفسیر:

یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور قدرت کو بیان کرتی ہے۔

تمام کائنات، زمین و آسمان، اور ہر شے اللہ کے اختیار میں ہے۔

کوئی چیز اللہ کے حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتی، اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔

---

آیت 190:

إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ لَءَايَٰتٍۢ لِأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ

ترجمہ:

بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔

تفسیر:

یہ آیت غور و فکر کرنے والوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ کائنات میں اللہ کی نشانیاں دیکھیں۔

آسمانوں اور زمین کی تخلیق، سورج اور چاند کا نظام، دن اور رات کا آنا جانا—all یہ چیزیں اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔

عقل مند لوگ ان نشانیوں پر غور کرکے اللہ کی وحدانیت کو پہچانتے ہیں اور ایمان میں مضبوط ہوتے ہیں۔

---

عملی سبق:

1. اللہ ہی کائنات کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے، اس لیے اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

2. کائنات میں غور و فکر کرنے سے انسان کو اللہ کی قدرت اور حکمت کا ادراک ہوتا ہے۔

3. عقل مند وہی ہیں جو کائنات کی نشانیوں کو دیکھ کر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔

4. دن اور رات کا بدلنا، سورج اور چاند کا نظام—یہ سب اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، جو ہمیں اس کی وحدانیت اور قدرت کی یاد دلاتے ہیں۔

---

مجموعی پیغام:

یہ آیات اللہ کی حاکمیت اور قدرت کو بیان کرتی ہیں اور انسانوں کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔
جو لوگ عقل و دانش رکھتے ہیں، وہ کائنات میں اللہ کی نشانیاں دیکھ کر اس کی وحدانیت اور قدرت کو پہچانتے ہیں، اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔

26/02/2025

سورۃ آل عمران – آیات 181-182 (اردو ترجمہ اور تفسیر)

---

آیت 181:

لَّقَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ قَوْلَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ فَقِيرٌۭ وَنَحْنُ أَغْنِيَا ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا۟ وَقَتْلَهُمُ ٱلْأَنۢبِيَآءَ بِغَيْرِ حَقٍّۢ وَنَقُولُ ذُوقُوا۟ عَذَابَ ٱلْحَرِيقِ

ترجمہ:

اللہ نے ان لوگوں کی بات کو سن لیا جنہوں نے کہا کہ "اللہ فقیر ہے اور ہم امیر ہیں۔" ہم ان کی یہ بات اور ان کا نبیوں کو ناحق قتل کرنا لکھ رکھیں گے اور (قیامت کے دن) ہم کہیں گے "جلنے والے عذاب کا مزہ چکھو!"

---

آیت 182:

ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍۢ لِّلْعَبِيدِ

ترجمہ:

یہ (عذاب) تمہارے اپنے ہاتھوں کے کیے کا بدلہ ہے، اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

---

تفسیر:

1. اللہ پر گستاخی کرنے والوں کی سزا (آیت 181)

یہود نے نبی کریم ﷺ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر اللہ مالدار ہوتا، تو وہ مسلمانوں سے زکوٰۃ اور صدقات کیوں طلب کرتا؟ (معاذ اللہ)

اللہ نے ان کی اس گستاخانہ بات کو سن لیا اور ان کے لیے سخت عذاب کا اعلان کیا۔

ان کا یہ کہنا کہ "ہم امیر ہیں اور اللہ فقیر ہے" انتہائی گستاخی اور تکبر کی علامت ہے، حالانکہ اصل مالک اللہ ہی ہے۔

اللہ نے فرمایا کہ ہم ان کی یہ بات اور ان کے انبیاء کو ناحق قتل کرنے کا جرم بھی لکھ رکھیں گے۔

یہود کے نبیوں کے قتل کی تاریخ:

حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کو قتل کیا گیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔

یہود نے کئی انبیاء کو جھٹلایا اور ان پر ظلم کیا، جس کا نتیجہ قیامت کے دن سخت عذاب کی صورت میں ملے گا۔

---

2. قیامت کے دن سخت عذاب (آیت 181 کا اختتام)

اللہ ان سے کہے گا: "جلنے والے عذاب کا مزہ چکھو!"

یہ عذاب جہنم کی آگ ہوگی، جو ان کی گستاخیوں اور انبیاء کے قتل کا بدلہ ہوگا۔

---

3. عذاب کا سبب اور اللہ کا عدل (آیت 182)

اللہ واضح کر رہا ہے کہ یہ سزا کسی ظلم کا نتیجہ نہیں، بلکہ ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے۔

اللہ ظالم نہیں، بلکہ انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے خود ہی جہنم کا مستحق بنتا ہے۔

انبیاء کو قتل کرنا، اللہ کی نعمتوں کا انکار کرنا، اور تکبر و بخل کرنا – یہ وہ بڑے گناہ ہیں جن کی سزا جہنم کی آگ ہے۔

---

عملی سبق:

1. اللہ کے بارے میں گستاخانہ باتیں کرنا سخت جرم ہے، جس کی سزا آخرت میں بہت سخت ہوگی۔

2. دنیا میں مالداری پر غرور نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اصل دولت ایمان اور نیکی ہے۔

3. اللہ ہر عمل کو ریکارڈ کر رہا ہے، اور قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ ملے گا۔

4. اللہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ انسان خود ہی اپنے برے اعمال کی وجہ سے سزا کا مستحق بنتا ہے۔

---

مجموعی پیغام:

یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں اور انبیاء کے قاتلوں کے لیے قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا۔ وہ لوگ جو دنیا میں اپنی دولت پر گھمنڈ کرتے ہیں، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل کرتے ہیں، ان کے لیے جہنم کی آگ تیار ہے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ ہر شخص کو اس کے اپنے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔

25/02/2025

سورۃ آل عمران – آیت 179 (اردو ترجمہ اور تفسیر)

---

آیت 179:

مَّا كَانَ ٱللَّهُ لِيَذَرَ ٱلْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ ٱلْخَبِيثَ مِنَ ٱلطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى ٱلْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَجْتَبِى مِن رُّسُلِهِۦ مَن يَشَآءُ فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا۟ وَتَتَّقُوا۟ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ

ترجمہ:

اللہ ہرگز ایسا نہیں ہے کہ وہ مؤمنوں کو اسی حال پر چھوڑ دے جس میں تم (اس وقت) ہو، جب تک کہ وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے۔ اور اللہ ایسا نہیں کہ وہ تمہیں غیب پر مطلع کر دے، بلکہ وہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے (غیب کا) انتخاب کر لیتا ہے، پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے۔

---

تفسیر:

1. آزمائش کے ذریعے نیک و بد کی پہچان (آیت 179 کا پہلا حصہ)

اللہ مسلمانوں کو بغیر آزمائش کے نہیں چھوڑے گا۔

وہ مومنوں کو آزمائش میں ڈال کر خالص اور ناپاک لوگوں میں فرق ظاہر کر دے گا۔

بعض لوگ ظاہری طور پر مسلمان ہوتے ہیں، مگر ان کے دل میں نفاق ہوتا ہے، اللہ آزمائش کے ذریعے انہیں بے نقاب کرتا ہے۔

غزوۂ اُحد کے بعد منافقین کا چہرہ کھل کر سامنے آیا، یہی اللہ کی سنت ہے کہ وہ آزمائش کے ذریعے حقیقی مؤمن اور منافق کو واضح کر دیتا ہے۔

---

2. اللہ سب کو غیب کا علم نہیں دیتا (آیت 179 کا دوسرا حصہ)

اللہ کسی عام انسان کو غیب کا علم نہیں دیتا، کیونکہ اگر ہر شخص جان لے کہ آزمائش آنے والی ہے، تو وہ پہلے سے ہی تیاری کر لے گا، اور آزمائش کا مقصد ختم ہو جائے گا۔

اللہ اپنے رسولوں کو مخصوص وحی کے ذریعے غیب کی خبریں دیتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو خبردار کریں۔

انبیاء کے ذریعے ہی انسان کو غیب کی بعض باتوں کا علم ہوتا ہے، جیسے جنت، دوزخ، قیامت، اور فرشتے وغیرہ۔

---

3. ایمان اور تقویٰ کی اہمیت (آیت 179 کا آخری حصہ)

اللہ حکم دیتا ہے کہ "پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ", کیونکہ ہدایت انہی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔

ایمان کے ساتھ تقویٰ (پرہیزگاری) ضروری ہے، یعنی صرف زبانی ایمان کافی نہیں، بلکہ عملی طور پر اللہ سے ڈرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا لازمی ہے۔

اللہ ایمان اور تقویٰ رکھنے والوں کو بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔

---

عملی سبق:

1. زندگی کی آزمائشیں اللہ کی حکمت کا حصہ ہیں: ہر مشکل، پریشانی اور امتحان دراصل خالص مؤمن اور ناپاک لوگوں کو الگ کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔

2. نیکی اور بدی کی پہچان آزمائش کے بعد ہوتی ہے: جیسے غزوۂ اُحد میں منافقین کا اصل چہرہ سامنے آیا، ویسے ہی ہر دور میں آزمائش کے ذریعے اچھے اور برے لوگوں کا فرق واضح ہوتا ہے۔

3. غیب کا علم اللہ کے اختیار میں ہے: صرف انبیاء کو وحی کے ذریعے مخصوص غیب کی خبریں ملتی ہیں، عام انسان کو نہیں، اس لیے ہمیں قرآن اور حدیث پر یقین رکھنا چاہیے۔

4. ایمان کے ساتھ تقویٰ لازمی ہے: صرف مسلمان کہلانے سے کامیابی نہیں ملے گی، بلکہ اللہ کا خوف دل میں ہونا چاہیے اور اس کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔

---

مجموعی پیغام:

یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ ہر کسی کو غیب کا علم نہیں دیتا، بلکہ آزمائشوں کے ذریعے مؤمن اور منافق کو الگ کرتا ہے۔ جو لوگ ایمان کے ساتھ تقویٰ اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے اللہ نے بہت بڑا اجر تیار کیا ہے۔

25/02/2025

سورۃ آل عمران – آیت 178 (اردو ترجمہ اور تفسیر)

---

آیت 178:

وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌۭ لِأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُوٓا۟ إِثْمًۭا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌۭ مُّهِينٌۭ

ترجمہ:

اور کافر ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں، یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ ہم تو انہیں (ڈھیل دیتے ہیں) تاکہ وہ اپنے گناہ بڑھا لیں، اور ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔

---

تفسیر:

پس منظر:

یہ آیت کفار اور منافقین کے اس وہم کو رد کر رہی ہے کہ اگر انہیں دنیا میں مہلت مل رہی ہے یا وہ کامیاب نظر آ رہے ہیں، تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ حقیقت میں یہ مہلت اللہ کی طرف سے آزمائش اور ان کے گناہوں میں اضافے کا سبب ہے۔

---

اہم نکات:

1. دنیاوی کامیابی کا مطلب آخرت کی کامیابی نہیں (آیت 178)

کافر یہ نہ سمجھیں کہ اگر انہیں دنیا میں زیادہ وقت، دولت، طاقت یا کامیابی ملی ہے، تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔

حقیقت میں یہ اللہ کی طرف سے ایک ڈھیل (مہلت) ہے، تاکہ وہ اپنے گناہ مزید بڑھا لیں۔

اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، نہ کہ دنیا کی وقتی خوشحالی۔

2. گناہوں میں اضافہ اور آخرت کا عذاب

اللہ انہیں مہلت دے رہا ہے تاکہ وہ اور زیادہ گناہ کریں، اور نتیجتاً زیادہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں۔

انہیں ایک ذلت آمیز عذاب ملے گا، یعنی اللہ نہ صرف انہیں عذاب دے گا بلکہ انہیں ذلیل بھی کرے گا۔

یہ ایک اصولی بات ہے کہ اللہ ظالموں اور کافروں کو کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں چھوڑتا، بلکہ ان کے لیے بڑی سزا تیار کرتا ہے۔

---

عملی سبق:

1. دنیاوی مہلت کو غلط نہ سمجھیں: اگر کوئی شخص گناہ کر رہا ہے اور اسے کوئی سزا نہیں مل رہی، تو یہ اللہ کی ڈھیل ہے، جس کا انجام برا ہوگا۔

2. اللہ کے صبر کو آزمائش نہ سمجھیں: اللہ فوراً کسی کو نہیں پکڑتا، بلکہ مہلت دیتا ہے تاکہ وہ یا تو سنبھل جائے یا اپنے گناہ بڑھا لے۔

3. اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے: دنیا کی دولت، طاقت، شہرت اور لمبی زندگی اگر ایمان کے بغیر ہو، تو یہ آزمائش ہے، نہ کہ کامیابی۔

4. ظالموں کی مہلت وقتی ہوتی ہے: کفار اور ظالم جتنا بھی آگے بڑھ جائیں، آخرکار اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔

---

مجموعی پیغام:

یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ ظالموں اور گناہگاروں کو فوری سزا نہیں دیتا بلکہ انہیں مہلت دیتا ہے تاکہ وہ یا تو توبہ کر لیں یا پھر مزید گناہ کرکے آخرت میں سخت عذاب کا مستحق بن جائیں۔ اس لیے دنیا کی وقتی کامیابی کو اللہ کی رضا کا معیار نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ آخرت کی کامیابی کو اصل مقصد بنانا چاہیے۔

23/02/2025

سورۃ آل عمران – آیات 173-174 (اردو ترجمہ اور تفسیر)

---

آیت 173:

ٱلَّذِينَ قَالَ لَهُمُ ٱلنَّاسُ إِنَّ ٱلنَّاسَ قَدْ جَمَعُوا۟ لَكُمْ فَٱخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَٰنًۭا وَقَالُوا۟ حَسْبُنَا ٱللَّهُ وَنِعْمَ ٱلْوَكِيلُ

ترجمہ:

(یہ وہ لوگ ہیں) جن سے لوگوں نے کہا کہ "تمہارے مقابلے کے لیے (تمہارے دشمن) بہت بڑی تعداد میں جمع ہو چکے ہیں، ان سے ڈرو"، تو اس (بات) نے ان کے ایمان کو اور بڑھا دیا، اور انہوں نے کہا: "اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے"۔

---

آیت 174:

فَٱنقَلَبُوا۟ بِنِعْمَةٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَضْلٍۢ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوٓءٌۭ وَٱتَّبَعُوا۟ رِضْوَٰنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍۢ

ترجمہ:

چنانچہ وہ (مسلمان) اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ واپس لوٹے، انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا اور وہ اللہ کی رضا کے پیچھے چلے، اور اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

---

تفسیر:

پس منظر:

یہ آیات غزوۂ اُحد کے بعد کے ایک اہم واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جب نبی کریم ﷺ نے زخمی صحابہ کو دوبارہ دشمن کے تعاقب میں بھیجا۔ منافقین اور دشمنوں نے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی، مگر صحابہ نے "حسبنا اللہ ونعم الوکیل" (اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اور وہ بہترین کارساز ہے) کہہ کر اللہ پر بھروسہ کیا اور اللہ نے انہیں کامیابی دی۔

---

اہم نکات:

1. اللہ پر بھروسہ خوف کو طاقت میں بدل دیتا ہے (آیت 173)

جب دشمن نے خوف پھیلایا کہ "بہت بڑی فوج تمہارے خلاف جمع ہو چکی ہے", تو بجائے ڈرنے کے، مسلمانوں کا ایمان مزید بڑھ گیا۔

انہوں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے کہا: "حسبنا اللہ ونعم الوکیل" یعنی اللہ ہمارے لیے کافی ہے، وہی بہترین کارساز ہے۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ پر مکمل بھروسہ ہی اصل ہتھیار ہے جو خوف کو ختم کر دیتا ہے۔

2. اللہ کی مدد اور حفاظت (آیت 174)

صحابہؓ اللہ کے فضل اور رحمت کے ساتھ محفوظ لوٹے، دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔

انہوں نے اللہ کی رضا کو ترجیح دی، جس کی وجہ سے اللہ نے انہیں بڑی نعمتیں عطا کیں۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو اللہ کے لیے نکلتا ہے، اللہ اس کی حفاظت خود فرماتا ہے۔

---

عملی سبق:

1. اللہ پر بھروسہ رکھیں: جب بھی مشکل آئے، تو "حسبنا اللہ ونعم الوکیل" کہنا چاہیے، کیونکہ اللہ ہر مسئلے کا حل نکالنے والا ہے۔

2. خوف میں ایمان کو مضبوط کریں: جب لوگ خوفزدہ کریں، تو گھبرانے کے بجائے ایمان کو بڑھائیں اور اللہ کی مدد مانگیں۔

3. اللہ کی رضا کو ترجیح دیں: جو لوگ دنیا کی بجائے اللہ کی رضا کے پیچھے چلتے ہیں، اللہ انہیں کامیابی اور عزت عطا کرتا ہے۔

4. مشکلات میں ثابت قدم رہیں: اگر اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے مشکلات آئیں، تو صبر اور استقامت دکھائیں، کیونکہ اللہ کی مدد یقینی ہے۔

---

مجموعی پیغام:

یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ اللہ پر کامل بھروسہ رکھنے والے لوگ دنیا کی کسی بھی طاقت سے نہیں ڈرتے، بلکہ اللہ ان کے لیے کافی ہوتا ہے، اور وہی انہیں کامیابی عطا کرتا ہے۔

23/02/2025

سورۃ آل عمران – آیت 172 (اردو ترجمہ اور تفسیر)

---

آیت 172:

ٱلَّذِينَ ٱسْتَجَابُوا۟ لِلَّهِ وَٱلرَّسُولِ مِنۢ بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ ٱلْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا۟ مِنْهُمْ وَٱتَّقَوْا۟ أَجْرٌ عَظِيمٌ

ترجمہ:

(یہ وہ لوگ ہیں) جنہوں نے اللہ اور رسول (ﷺ) کا حکم مانا، اس تکلیف کے بعد جو انہیں (اُحد میں) پہنچی تھی۔ ان میں سے جنہوں نے نیکی اور پرہیزگاری اختیار کی، ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔

---

تفسیر:

یہ آیت غزوۂ اُحد کے بعد کے واقعات کے متعلق ہے، جب مسلمانوں کو دشمن کے ہاتھوں نقصان پہنچا، مگر پھر بھی وہ اللہ اور رسول ﷺ کے حکم پر ڈٹے رہے۔

پس منظر:

غزوۂ اُحد میں مسلمانوں کو نقصان ہوا، مگر اس کے فوراً بعد نبی کریم ﷺ نے دشمن کا پیچھا کرنے کا حکم دیا۔

زخمی اور تھکے ہوئے صحابہؓ نے پھر بھی اللہ اور رسول ﷺ کی آواز پر لبیک کہا اور دشمن کو گھبرا کر واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا۔

اس قربانی اور ثابت قدمی پر اللہ نے ان کی تعریف کی اور بڑا اجر دینے کا وعدہ کیا۔

---

اہم نکات:

1. اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت

حقیقی ایمان یہ ہے کہ مصیبت اور تکلیف کے باوجود اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی پیروی کی جائے۔

ان صحابہؓ نے شدید زخموں کے باوجود اطاعت گزاری کی اور دشمن کے خلاف نکلے۔

2. صبر اور استقامت کی اہمیت

اللہ تعالیٰ نے ان صحابہؓ کے ثابت قدمی، صبر اور تقویٰ کی تعریف کی۔

دنیاوی نقصان کے باوجود، جو لوگ نیکی اور پرہیزگاری پر قائم رہے، ان کے لیے اللہ نے عظیم اجر کا وعدہ کیا۔

3. ایمان کا عملی ثبوت

ایمان صرف زبانی دعوے کا نام نہیں، بلکہ مشکل وقت میں اللہ کی راہ میں استقامت دکھانا اصل ایمان ہے۔

جب مشکلات آئیں، تو گھبرانے یا ہمت ہارنے کے بجائے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

---

عملی سبق:

1. مشکل وقت میں بھی دین پر قائم رہیں: اگر آزمائش آئے تو اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات پر عمل جاری رکھیں۔

2. صبر اور استقامت اپنائیں: مشکلات ایمان کا امتحان ہوتی ہیں، جو لوگ ان میں ثابت قدم رہتے ہیں، اللہ انہیں بڑا اجر دیتا ہے۔

3. اللہ پر یقین رکھیں: اگر ہم اللہ کے راستے پر چلیں گے، تو تکلیف کے بعد کامیابی ضرور ملے گی۔

4. دین کی خدمت قربانی مانگتی ہے: صحابہؓ کی طرح ہمیں بھی اللہ کے دین کے لیے تکلیفوں کو جھیلنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔

---

مجموعی پیغام:

یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ مصیبت کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی اطاعت کرنا اصل کامیابی ہے۔ جو لوگ مشکلات میں بھی صبر اور تقویٰ پر قائم رہتے ہیں، ان کے لیے اللہ نے بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔

19/02/2025

سورۃ آل عمران – آیات 156-158 (اردو ترجمہ اور تفسیر)

---

آیت 156:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ:
اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے کفر کیا اور اپنے بھائیوں کے بارے میں (یہ) کہا کہ اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کیے جاتے۔ (یہ باتیں وہ اس لیے کہتے ہیں) تاکہ اللہ اس (سوچ) کو ان کے دلوں میں حسرت بنا دے، حالانکہ (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہی زندگی دیتا اور موت دیتا ہے، اور اللہ تمہارے تمام اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

تفسیر:

یہ آیت منافقین اور کفار کے اس باطل نظریے کی تردید کرتی ہے جو وہ جنگ میں شہید ہونے والوں کے بارے میں رکھتے تھے۔

اہم نکات:

1. منافقین کی سوچ:
منافقین کہتے تھے کہ اگر ہمارے بھائی گھروں میں رہتے اور جنگ میں نہ جاتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے۔ اللہ نے ان کی اس سوچ کو رد کیا۔

2. حقیقی موت و حیات کا مالک:
حقیقت میں موت و زندگی اللہ کے اختیار میں ہے، کوئی انسان اپنی تدبیر سے موت کو ٹال نہیں سکتا۔

3. حسرت اور ندامت:
جو لوگ اللہ کے فیصلے پر یقین نہیں رکھتے، وہ ہمیشہ حسرت اور ندامت میں مبتلا رہتے ہیں، کیونکہ وہ سوچتے رہتے ہیں کہ "اگر ایسا ہوتا تو ویسا نہ ہوتا"، لیکن مؤمن اللہ کے فیصلے پر راضی ہوتا ہے۔

---

آیت 157:

وَلَئِن قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ

ترجمہ:
اور اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جاؤ یا مر جاؤ، تو اللہ کی بخشش اور رحمت اس (مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔

تفسیر:

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونا یا طبعی موت مر جانا، دونوں صورتوں میں اللہ کی مغفرت اور رحمت کا حصول دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔

اہم نکات:

1. شہادت کا مقام:
اللہ کی راہ میں قتل ہونا (شہید ہونا) یا فطری موت مرنا، دونوں میں اللہ کی رحمت شامل ہوتی ہے، لیکن شہید کا مقام بہت بلند ہے۔

2. دنیاوی مال و دولت سے بہتر:
لوگ دنیا کی دولت، جائیداد اور آسائشوں کو سب سے بڑا مقصد سمجھتے ہیں، لیکن اللہ کی مغفرت اور جنت کی نعمتیں ان سب سے بدرجہا بہتر ہیں۔

---

آیت 158:

وَلَئِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ

ترجمہ:
اور اگر تم مر جاؤ یا قتل کر دیے جاؤ، (بہر حال) تمہیں اللہ ہی کے حضور جمع کیا جائے گا۔

تفسیر:

یہ آیت اس حقیقت کی وضاحت کرتی ہے کہ ہر انسان کا انجام اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے، چاہے وہ کسی بھی حالت میں مرے۔

اہم نکات:

1. ہر حال میں اللہ کے پاس واپسی:
چاہے کوئی جنگ میں مارا جائے یا طبعی موت مرے، انجام ایک ہی ہے، یعنی اللہ کے سامنے پیش ہونا۔

2. مؤمن کی سوچ:
ایک مومن کا ایمان ہوتا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اصل کامیابی آخرت میں اللہ کے سامنے سرخرو ہونا ہے۔

---

مجموعی پیغام:

یہ آیات مسلمانوں کو منافقین کی سوچ سے بچنے کی تلقین کرتی ہیں اور یہ سکھاتی ہیں کہ موت و حیات اللہ کے اختیار میں ہے۔ اللہ کی راہ میں شہادت یا طبعی موت، دونوں ہی اللہ کی رحمت اور مغفرت کے ذریعے انسان کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں، اور انجام کار سب کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔

17/02/2025

"نقصان کا خوف، نقصان سے کہیں بڑا ہوتا ہے ۔🖤

04/05/2024
01/04/2024

Surat no 14 | سورة ابرہیم
Seeking knowledge islam | Islamic short | Islamic video youtube | the importance of seeking knowledge in Islam | learn islam

Address

Kot Daska

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when M Adrees Ghuman Advocate posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to M Adrees Ghuman Advocate:

Share