14/11/2025
پاک افغان تجارت کی بندش نے پاکستانی کسانوں کو شدید بحران میں دھکیل دیا ہے: افغان مارکیٹ ہمیشہ سے پاکستانی پھلوں اور سبزیوں کی سب سے بڑی خریدار رہی ہے۔ ابھی پاکستان میں کینو، مالٹا، کیلا اور آلو کی نئی فصلیں تیار کھڑی ہیں اور ان کی سب سے بڑی منڈی ہی بند ہو چکی ہے۔ نتیجتاً ہزاروں کسانوں کو شدید معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان فروٹس اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین شیخ شہزاد کہتے ہیں کہ افغانستان نے ایسے وقت میں تجارت بند کی ہے جب افغانستان میں انار، سیب، انگور، خوبانی اور انجیر کا سیزن تقریباً ختم ہو چکا ہے، جبکہ پاکستان میں کینو، کیلا اور آلو کا سیزن شروع ہونے والا ہے۔
ان کے مطابق نہ صرف افغانستان بلکہ ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور دیگر وسطی ایشیائی ملکوں کو جانے والی پاکستانی تازہ پیداوار بھی افغانستان کے راستے ہی جاتی ہے۔ اس لیے خاص طور پر کینو کے کاشت کار سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
شیخ شہزاد کے مطابق گزشتہ کئی سالوں سے افغانستان پاکستانی کینو اور مالٹا کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے، اور اب جب تجارت رکی ہے تو اس سال کسانوں کو بھاری نقصان ہو سکتا ہے۔
پاکستان ایگری کلچر اینڈ ہارٹی کلچر فورم کے صدر شیخ امتیاز حسین کا خیال ہے کہ پاکستان میں اب پہلے جیسی اعلیٰ کوالٹی کی سٹرس پیدا نہیں ہو رہی، اس لیے افغانستان کے بغیر نئی منڈیاں تلاش کرنا مشکل ہوگا۔
البتہ وہ کہتے ہیں کہ کیلا اور آلو کے کاشتکاروں پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ ایک تو ان کے لیے مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کی منڈیاں موجود ہیں، اور دوسرا آلو کو کچھ عرصہ ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
شیخ امتیاز کے مطابق پاکستان کا سٹرس ایران کے راستے وسط ایشیائی ملکوں تک پہنچ سکتا ہے، لیکن پاکستان اور ایران کے درمیان تیسرے ملک کے ساتھ تجارت کے لیے کوئی ایسا باہمی معاہدہ موجود نہیں جبکہ ایران کے راستے سامان لے جانا وقت اور پالیسیوں کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے۔
سرگودھا کے کینو کے کاشتکار رانا جہانگیر اپنے باغ ٹھیکے پر فروخت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب افغانستان کے ساتھ تجارت جاری تھی تو ٹھیکے دار سرگودھا میں کینو کا بھاؤ 2,000 روپے فی من لگا رہے تھے۔ افغانستان سے بارڈ بند ہونے کے بعد یہ بھاؤ کم ہو کر 1,500 روپے فی من رہ گیا۔ اب جب افغانستان نے تجارت ہی بند کرنے کا اعلان کردیا ہے تو کوئی بھی ٹھیکے دار خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہے۔
ان کے مطابق اگر بارڈر نہ کھلا تو کینو اور مالٹا برآمد نہیں ہوں گے اور صرف مقامی منڈی میں ہی فروخت ہوں گے، جس سے قیمتیں بہت گر جائیں گی اور کسانوں کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوگا۔
روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی افغانستان کو ماہانہ برآمدات 100 سے 200 ملین ڈالر کے درمیان ہوتی ہیں۔
رپورٹ: آصف ریاض
ڈیزائن: شعیب طارق