19/04/2024
کھڈیاں کی تاریخ
کھڈیاں خاص ضلع قصور کا ایک مشہور تاریخی قصبہ ہے۔ پچاس سال پہلے یہ ضلع لاہور اور تحصیل قصور کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہ قصبہ قصور سے براستہ ٹھینگ موڑ، حجرہ شاہ مقیم ، دیپالپور، پاکپتن اور وہاڑی ملتان جانے والی سڑک پر قصور سے بجانب جنوب 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سرحدی قصبے گنڈا سنگھ والا سے اس کا فاصلہ بجانب مغرب 12 کلومیٹر ہے۔ اسے ابتداً ڈوگر اور ارائیں زمینداروں نے آباد کیا تھا اور اس کا نام کھڈیاں تھا۔ بعض روایات کے مطابق یہاں جولاہوں نے کپڑا بننے کی کھڈیاں لگا رکھی تھیں اس لیے اس کا نام کھڈیاں پڑ گیا ۔مغل دور حکومت کے دوران لاہور سے پاکپتن ، ساہیوال اور ملتان کی ڈاک اور پیغامات لے کر جانے والے گھڑ سواروں کے لیے یہاں ایک سرائے قائم کی گئی تھی ۔ گھوڑوں کو چارہ ڈالنے کے لیے یہاں لکڑی کی کھڈیاں بنائی گئی تھیں۔ کچھ روایات کے مطابق کھڈیاں کا نام اسی مناسبت سے رکھا گیا تھا۔ تقریباً دو سو سال پہلے مغل فوج کے باغیوں پر حملوں کے باعث یہ آبادی ویران ہوگئی، پھر جب امیر تیمور نے ہندوستان پر حملہ کیا اور اس کے بعد قصور ی پٹھانوں کا اس علاقے میں تسلط ہوا تو قصور کے ایک افغان رئیس لطیف خان نے اس کو پھر سے آباد کیا اور اسے پُرانے نام سے موسوم رکھا۔ اس کی اجازت سے یہاں جاٹ ، کمبوہ، کھتری اور برہمن آکر آباد ہوئے اور مزارعوں کی حیثیت سے کاشتکاری کرتے رہے۔ جب رنجیت سنگھ نے ۱۸۰۷ء میں قصور پر قبضہ کر لیا تویہی مزارع یہاں کے مالک بن گئے۔ بعدازاں ۱۸۴۶ء میں پنجاب انگریزوں کے قبضے میں آیا، تو یہ قصبہ بھی ان کے زیرتسلط آگیا ،اسے انتظامی طور پر ضلع لاہور کی تحصیل چونیاں میں شامل کردیا گیا۔ سکھ دور میں کھڈیاں کے نواح میں ایک کچا قلعہ تھا، جو انگریزی عہد میں گرا دیا گیا۔ اس دور میں کھڈیاں چاروں طرف سے پختہ فصیل میں گھرا ہوا ایک معقول قصبہ تھا۔ انگریزی عہد میں ہی یہاں تھانہ، ڈسپنسری اور ریسٹ ہائوس قائم ہوئے۔ ۱۸۸۱ء میں اس قصبہ کی آبادی ۲۹۱۷ افراد پر مشتمل تھی۔ ان میں ۱۰۷۱ ہندو، ۱۵۲ سکھ اور ۱۶۹۴ مسلمان تھے۔۱۸۹۴ میں کُھڈیاں سے قصور شہر تک ایک کچھی سڑک بنائی گی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس قصبے کے تمام غیر مسلم نقل مکانی کر کے بھارت چلے گئے اور ان کی جگہ مسلمان مہاجرین آبسے۔ ۱۹۱۹ء کی ایک سرکاری دستاویز کے مطابق اس وقت یہاں ایک ڈسپنسری، تھانہ اور ڈاکخانہ موجود تھے۔۱۸۷۴ء میں یہاں میونسپلٹی قائم کی گئی۔ بعدازاں اسے ختم کر دیا گیا۔ ۸ جولائی ۱۹۲۴ء کو اسے سمال ٹائون کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۳۱۸۴ نفوس پر مشتمل تھی۔ اب یہ ضلع قصور کا حصہ ہے۔ یہاں طلبا و طالبات کے علیٰحدہ علیٰحدہ ہائی سکول، لڑکیوں کا ڈگری کالج ، کنکورڈیا کالج ،تھانہ، ڈاکخانہ، تجارتی بازار، ریسٹ ہائوس وغیرہ موجود ہیں۔ ادبی حوالے سے ابراہیم اختر، نصر اللّٰہ نصر کے نام کھڈیاں کی پہچان ہیں۔ ابراہیم اختر ۱۹۲۱ء میں پیدا ہوئے اور ۲۰۰۰ء میں فوت ہوئے۔ اُردو، فارسی اور پنجابی میں شاعری کرتے تھے۔ ’’حُسنِ محمدؐ‘‘ آپ کا نعتیہ مجموعہ ہے جبکہ ایک قِصّہ ’’ساہ بھری کھل‘‘ پنجابی زبان میں چھپا۔ ایک کتاب پاکستان بننے سے پہلے ’’پاکستان اور اس کی ضرورت‘‘ بھی لکھی۔ انگریز دور میں پنجاب کے مشہور کردار جگت سنگھ المعروف جگا ڈاکو کا تعلق کھڈیاں کے قریبی گائوں بُرج رن سنگھ سے تھا۔اس کردار پر پنجابی فلم بھی بنی۔ ایک اور کردار ملنگی کا تعلق بھی اسی علاقے کے ایک گاؤں موضع ساہد سے تھا۔ اس زمانے میں اسے موضع سدھوالہ کہا جاتا تھا، انگریزوں نے اسے پھانسی چڑھا دیا تھا، اسی مقام پر جگا ڈاکو بھی مارا گیا تھا۔کھڈیا ں کی آبادی ۱۹۸۱ء میں ۱۲۸۸۴ اور ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق ۲۳۱۲۷ نفوس پر مشتمل تھی۔ اب اس کی آبادی پچاس ہزار سے زائد ہے۔
(سید ابرار حسین گیلانی)