09/11/2025
کسان مافیا کو غصّہ نہیں آتا
میں ایک کسان ہوں اور میں نے آنکھ کھولتے ہی یہ سنا تھا کہ کسان کو غصہ نہیں آتا
کسان کا دل بھینس کی طرح فراغ ہوتا ہے
صدیوں سے پنجاب کا کسان اور بھینس ساتھ رہ رہے ہیں۔ صدیوں کے اس ساتھ میں کسان نے بھینس سے پر امن اور پر سکون رہنا سیکھ لیا۔
اس قدر لحیم شحیم بھینس ایک ذرا سے کھونٹے سے اس لئے بندھی رہتی ہے کیونکہ یہ اس کی مرضی ہے، ورنہ نہ کھونٹے میں اتنی طاقت ہے اور نہ ہی انسان کی اتنی مجال کہ بھینس کو کھونٹے سے باندھ کے رکھے۔
جس شخص کو یہ مالک تصور کر لیتی ہے پھر وہ کم چارہ دے، سوکھا کھلائے، پانی نہ پلائے، صفائی ستھرائی کا دھیان نہ رکھے، علاج معالجے پر توجہ نہ دے یہ اللہ لوک اسی طرح کھڑی رہتی ہے۔ بلکہ مورکھ مالک جب قصاب کے ہاتھ بیچنے جا رہا ہو تو اسے محبت پاش نظروں سے دیکھتی بھی جاتی ہے اور موقع ملنے پر مارے محبت کے چاٹ بھی لیتی ہے۔
پنجاب کا کسان بھی اپنی بھینس کی طرح باظرف ہے۔ صدیوں سے، کہاں کہاں سے بھوکے، اجڈ، گنوار، جنھیں اناج اگانے کا فن نہیں آتا تھا اٹھ اٹھ کے اس کے دستر خوان پر لوٹ مار مچاتے رہے۔ کھا کھا کے جب یہ حملہ آور اپھر جاتے تھے تو کسان پر حکومت کرتے تھے، زرعی اصلاحات کرتے تھے اور اسی کی اگائی فصل سے اسے فقط چند ٹکے دے کر ٹرخا دیا کرتے تھے۔
کسان کو کبھی غصہ نہ آیا ورنہ کیا درانتی چلانے والے ہاتھ تلوار چلانے والی کلائی کاٹ کر نہیں پھینک سکتے تھے؟
نوآبادیاتی دور میں بھی یہ کسان ہی تھا جسے لوٹ لوٹ کر اپنے کارخانے چلائے گئے اور اجرت میں، قحط، فاقہ، غربت اور عسرت ملی۔ آزادی کے نعروں اور دل نشیں خوابوں میں سے ایک خواب یہ بھی تھا کہ آزادی کے بعد ہمارا خام مال کوڑیوں کے مول لے کر اپنے کارخانوں کا مال مہنگے داموں ہمیں نہیں بیچا جائے گا۔
مگر صاحبو! یہ خواب فقط خواب تھا۔ آزادی کے پہلے ہی برسوں میں ہم سے ہمارے دریا چھین لئے گئے، ہمیں ٹیوب ویل کی صورت میں مسلسل بجلی کے بلوں کے بوجھ کے نیچے دبا دیا گیا، کیمیائی کھادوں، ہائبرڈ بیج اور کیڑے مار ادویات کی منڈی بنا دیا گیا۔ کسان کو اب بھی غصہ نہ آیا۔
جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے کا جھنجھنا بجا کے کسانوں کی زمین ٹکڑے ٹکڑے کر دی گئی جبکہ جاگیر دار وہیں کے وہیں ہیں بلکہ نت نئے جاگیر دار پیدا ہو رہے ہیں۔
اصلاحات کے نام پر کسان کے دل میں جو بد اعتمادی پیدا کی گئی اس نے ہاؤسنگ کالونی نامی بیماری کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا اور ہماری قیمتی زرعی زمینیں پراپرٹی ڈیلر کھا گئے۔ کسانوں کو تب بھی غصہ نہیں آیا۔
انگریز نے مقامی کپڑے کی صنعت کو تباہ کرنے کے لئے جو قوانین وضع کیے تھے قریبا سب کے سب وہیں موجود ہیں۔ شوگر مل مالکان کسان کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں سب ہی کو معلوم ہے اور اس پر تیار چینی کس قدر مہنگی بیچی جاتی ہے یہ بھی کوئی راز نہیں۔
فصل کاشت ہونے سے پہلے نہ اس کی قیمت مقرر کی جاتی ہے اور نہ ہی فصل کی فروخت کا کوئی نظام ہے۔ آڑھت کے نظام کو کسی نے کبھی آنکھ بھر کے نہیں دیکھا، صدیوں سے یہ نظام اسی طرح چلا آرہا ہے۔ فصل اچھی ہوتی ہے دام گر جاتے ہیں۔
ملک میں اچھی پیداوار ہونے کے باوجود اچانک بیرون ملک سے وہی فصل دگنے داموں منگوائی جانے لگتی ہے۔ کسان کو فصل یا تو کوڑیوں کے مول بیچنا پڑتی ہے یا یوں ہی سڑک پر پھینک کے کھلیان خالی کرنا پڑتے ہیں مگر کسان کو غصہ نہیں آتا۔
موجودہ حکومت نے آٹے اور چینی کے معاملے میں جو گڑ بڑ کی ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
وفاقی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے گندم کی قیمتیں مقرر کرے لت لال سے کام لے رہی ہے۔
جبکہ کھاد اور پیسٹی سائیڈ مافیا کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں کسانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے حکومت کسانوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے
کسانوں کو بلیک میلر مافیا کے القابات سے پکارتے ہیں
ایسی باتیں سن کے چرچل یاد آجاتا ہے۔ گندم کی قیمت کسان کے سوا کسی اور کو مقرر کرنے کا حق کس نے دیا؟
کسان کا خام مال کوڑیوں کے مول خریدنے کی یہ ظالمانہ روایت اب ختم کرنی ہو گی۔ کسان شاید مزید احتجاج بھی نہ کریں، آپ ان کی گندم سستی خرید کے مہنگی روٹی بیچ کے کمائیں گے کیا؟ چند ٹکے؟
کسانوں کو شاید اب بھی غصہ نہیں آیا ہو گا مگر قوم ثمود کی راہ پر چلنے والوں پر اگر قدرت کو غصہ آ گیا تو کیا ہو گا۔
کسان کو کب تک غصہ نہیں آئے گا؟
#کسان