10/10/2025
نجکاری خطرناک مرحلے میں داخل
جو کہتے ھیں نجکاری نہیں ھونے دیں گے
وہ بدترین دھوکے باز ھی
جنہوں نے سی بی اے ھوتے نجکاری پر دستخط کئے وہ کہہ رھے ھیں نجکاری کا جو یار ھے غدار ھے
نجکاری اور واپڈا کی تباھی کے اصل ذمہ دار وہ سب مزدور ھیں جنہوں نے نجکاری پر دستخط کرنیوالوں کو ھر ریفرنڈم میں ووٹ دیکر سی بی اے بنایا واپڈا توڑنے والوں کو ھر ماہ اپنی تنخواہوں سے کروڑوں روپے چندہ دیکر مضبوط کرتے رھے
اور آج جب نجکاری آخری مراحل میں داخل ھو چکی ھے
اسکے باوجود اس ٹولے کا ساتھ نہیں چھوڑا جس نے نجکاری پر دستخط کر کے واپڈا ٹکڑے ٹکڑے کروا دیا
سراج الدین ثاقب مرکزی صدر واپڈا پیغام یونین پاکستان نجکاری کے خوفناک محلے پر گفتگو کرتے ہوئے
انکے ھمراہ رزاق احمد مرکزی جنرل سیکریٹری ، عثمان گجر مرکزی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور ریجنل عہدیداران توقیر اسلام ، احسان فاروقی ، عثمان ڈوگر، تنویر خان ، کے علاوہ این ٹی ڈی سی سے ناصر کھٹانہ ریجنل چیئرمین واپڈا ھاؤس، عمران علی ای ایچ وی
نجکاری کے خلاف جنگ جاری رہیگی مگر ایک دن کے احتجاج سے نجکاری رکنے والی نہیں دھرنا دینا ھو گا اور اس کے علاوہ کوئی حل ھے تو پیش کریں
Alhamdulillah Aaj dt:13/9/2025 Ko Pak Wapda Employees Pegham Union (Regd) Ke Markazi Majliss E Aamla Ka Aham Ejlaas Zair Saddart Mohtram SD Saqib Sb' Markazi Saddar Ke Huaa Jis Main dt:17/9/2025 Ko Nijkari Ke Khilaf D- Chowk Islamabad Main Hydro Workers Union Ke Ehtijaj Call Ki Bharpuor Himayat Ka Eelan Kiya Gaya @ Pegham Union Markazi Secretraite Old Anarkali Lahore Punjab Regards!
کوئی شرم ہوتی ہے حیا ہوتی نجکاری کے خلاف جنگ جاری رہیگی
لاہور اسلام آباد ملتان فیصل آباد تیار ہو جاو اب باہر آنے کے لیے ہم سراج الدین ثاقب کو درخواست کرتے ہیں باہر آو ہم آپکے ساتھ ھیں نجکاری اور ملازمین کو ای اینڈ ڈی رولز پے نکلوانے پے افسران کے خلاف دھرنا دینا ھو گا
رحمان باجوہ نے گیپکو میں خطاب کرتے ہوے وضاحت کی ک نجکاری کے خلاف اور ملازمین ک تحفظ کی خاطر اب تالہ بندی بجلی کی بندش اور دھرنا دینا ہوگا
اپنی یونین کو مضبوط کریں اور نجکاری کا اپنے ہر دفتر میں ذکر کریں پینشن کے نظام کو ختم مت ہونے دیں
چھوٹے ملازمین کا تحفظ کریں
فیسکو کمپنی کی انتظامیہ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز (BOD) نے حکم دیا ہے کہ ERP HCM (Human Capital Management) اور SharePoint سسٹم کو 100% مکمل طور پر اپنایا جائے۔
یہ سسٹم بنیادی طور پر ملازمین کے ریکارڈ، منظوریوں، چھٹیوں، تنخواہوں اور دیگر HR/Admin کاموں کو ڈیجیٹل اور آن لائن طریقے سے چلانے کے لیے ہے۔
تمام ڈپارٹمنٹس اور آفسز کو فوری طور پر اس پر عمل کرنے کا کہا گیا ہے تاکہ پرانے (manual) طریقے بند ہوں اور سب کچھ SharePoint پر ہو۔
---
کن پروسیسز کو لازمی SharePoint پر کرنا ہے:
یعنی یہ سب کام اب صرف آن لائن SharePoint کے ذریعے ہوں گے:
1. تنخواہوں سے متعلق تبدیلیاں (Pay Roll Process Changes)
2. تبادلے اور پوسٹنگ کی منظوری (Transfer / Posting Approval)
3. TA/DA (سفر الاؤنس) منظوری
4. چھٹیوں کی منظوری (Leave Approval)
5. GPF ایڈوانس کی منظوری
6. میڈیکل اخراجات کی منظوری
7. ویلفیئر فنڈ کی منظوری
8. ایڈوانس کیش کی منظوری
9. قرضہ کی منظوری (Loan Approval)
10. آن لائن حاضری کا سسٹم
11. کیریئر مینجمنٹ پروسیسز
12. خفیہ سیکشن سے متعلقہ پروسیسز
13. آرگنائزیشنل مینجمنٹ
14. قانونی معاملات (Legal Case Management)
15. ریٹائرمنٹ یا فائنل سیٹلمنٹ
16. دیگر تمام پروسیسز
---
اضافی ہدایات:
تمام دفاتر کو سرٹیفکیٹ دینا ہوگا کہ ان کے ہاں یہ سارے کام SharePoint کے ذریعے کیے جا رہے ہیں۔
اگر کوئی افسر یا دفتر پرانے طریقے سے کام کرے گا تو اسے کمپنی پالیسی کے خلاف سمجھا جائے گا۔
IT ڈپارٹمنٹ اور متعلقہ افراد کی کانٹیکٹ ڈیٹیل بھی دی گئی ہیں تاکہ تکنیکی مدد مل سکے۔
---
سادہ الفاظ میں مطلب:
یہ لیٹر ایک آفیشل ہدایت ہے کہ FESCO کے تمام دفاتر میں ملازمین سے متعلقہ تمام کارروائیاں، منظوریوں اور پروسیسز اب مکمل طور پر آن لائن ERP HCM اور SharePoint کے ذریعے ہی ہوں گی۔
یعنی کاغذی کارروائی یا پرانا Manual سسٹم بند کر کے ڈیجیٹل سسٹم کو 100% اپنانا ہوگا۔
نام نہاد یونین کیا سوچتی رھے گی یا احتجاج کرے گی حکومت نے فہرست قومی اسمبلی میں پیش کردی ہے سب کو اب باھر انا ھو گا
بقول پاور منسٹر واپڈا افسران چور ھیں جناب پاور منسٹر صاحب حکومتی املاک کو بیچنا بھی چوری ھوتی ھے اگر حکومتی املاک نہیں ہونگی تو حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ھو گی۔
لیسکو میں سینکڑوں ملازمین کو غیر قانونی اور ان کمپیٹینٹ سزائیں دے کر نوکریوں سے نکالا جا رہا ہےاور لیسکو ملازمین پر وہ رولز اپلائی کیے گئے ہیں جو ان پر لاگو ہی نہیں ہوتے۔واضع محکمانہ ڈائر یکشنز اور لیبر کورٹس احکامات کے با وجود لیسکو افسران مختلف الزامات لگا کر چھوٹے ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے میں مصروف عمل ہیں اس میں سب سے پیش پیش ایس ڈی او صاحبان ہیں جن کے پاس کسی بھی ملازم کو نکالنے کا اختیار ہی نہیں لیکن وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سینکڑوں ملازمین کو نوکری سے نکال چکے ہیں بالکل اسی طرز پر ایکسین اور ایس ای صاحبان بنا کسی انکوائری شہادت یا ثبوت کے ملازمین پر بجلی چوری میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر نوکریوں سے فارغ کر رہے ہیں جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے اور سی بی اے یونین اس سلسلے میں کسی قسم کا کوئی احتجاج یا کردار ادا کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔۔ چھوٹےملازمین خصوصی طور پر فیلڈ ملازمین کی نوکری ہر وقت خطرات سے دو چار ہے کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔سب سے جو خوفناک بات ہے وہ یہ کہ جن غیر لاگو شدہ سروس رولز کے تحت لیسکو ملازمین کو نکالا جا رہا ہے یا سخت سزائیں دی جا رہی ہیں ان رولز کو بھی فالو نہیں کیا جاتا۔چھوٹے ملازمین عدم تحفظ اور افسر شاہی کے چنگل میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ بولنے والے کو عبرتناک سزائیں دی جا رہی ہیں۔ہر ڈیپارٹمنٹ میں سزا اور جزا کا ایک مربوط سسٹم موجود ہوتاہے اس میں قانون اور قاعدے بھی ہوتے ہیں جن کو فالو کرتے ہوئے انصاف کت تقاضے پورے کیے جاتے ہیں لیکن لیسکو میں افسران کو علم ہونے کے باوجود کہ وہ غیر لاگو شدہ رولز کے تحت ان کمپیٹینٹ پروسیڈنگ کر رہا ہے اور وہ بلا خوف وخطر کیے جا رہا ہے اگر کوئی ملزم جس کو افسران ڈاکو بنا کر پروسیڈنگ کرتے ہیں نوکری سے نکال دیتے ہیں اور وہ ملازم لیبر کورٹ چلا جاتا ہے تو یقین مانیں نہ یہ افسران اپنے کیے کو ڈیفنڈ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کمپنی وکیل صاحبان۔جب عدالت میں ان سے جواب مانگا جاتا ہے کہ جن رولز کے تحت لیسکو افسران نے ملازم کو نکالا ہوتا ہے وہ رولز تو لاگو ہی نہیں ہوتے اور جس افسر نے نکالا ہے وہ اس ملازم کی کمپیٹنٹ اتھارٹی ہی نہیں ہے تو لیسکو وکلاء کا تحریری اور زبانی جواب ہاں میں ہوتا ہے اب کیا فائدہ ایسی ایفیشنسی کا کہ جس میں بے گناہ تو ایک طرف حقیقی بجلی چوری میں ملوث لوگوں کو بھی بچ نکلنے کا موقع مل جاتا ہے اب یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ لیسکو ملازمین پر سکیل 1ت16 ای اینڈ ڈی رولز لاگو ہی نہیں ہوتے بلکہ سٹینڈنگ آرڈر 1968ء لاگو ہوتے ہیں اور اس میں کمپیٹنٹ اتھارٹی صرف کمپنی کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے نہ کہ ایس ڈی او ایکسین یا ایس ای۔۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لیسکو کے کئی ملازمین دوران پروسیڈنگ شو کاز لیبر کورٹ چلے گئے تو عدالت کی طرف سے واضع تحریری احکامات دیے گئے کہ پروسیڈنگ قانون کے مطابق انصاف پر مبنی کریں ای اینڈ رولز جو کہ لیسکو ملازمین سکیل1تا16 پر لاگو نہیں ہوتے ان کی بجائے سٹینڈنگ آرڈر 1968ء کے تحت کریں اور ان افسران کو ای اینڈ رولز کے تحت پروسیڈنگ روکنا پڑ گئی اور ایسا لیسکو لا برانچ سے مشاورت کے بعد کیا گیا۔۔ ۔تحریرو
تحقیق۔محمد اصغر ریٹائرڈ آفیشل لیسکو ۔لاہور
پاور منسٹر کمپنیز نہیں چلا سکتا بیچنا ھی سہی ھو گا اور اس کے علاوہ ڈسکوز چیف انجنیئر کےپاس کوئی حل ھے تو پیش کریں
سال کے آخر تک آئیسکو ۔ فیسکو ۔ گیپکو ۔ پرائیویٹائز کرنے اور سیپکو اور حیسکو کو ٹھیکے پر دینے کا تجربہ کرنے کا پروگرام
# تھوڑا نہیں پورا سوچیے #
اویس لغاری کے حالیہ بیان نے سب پردے ہٹا دیے ہیں۔ انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا کہ "ہم بجلی کمپنیوں کی نجکاری اس لیے کر رہے ہیں کہ یونین کی طرف سے ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں آ رہی، بلکہ ڈسکوز یونین بھی اس کی حامی ہے"۔ یہ جملہ کسی عام سیاسی دعوے یا الزام کا حصہ نہیں، بلکہ ایک ایسا سرکاری اعتراف ہے جو مزدور طبقے کے مستقبل پر موت کا پروانہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو یونین برسوں سے مزدوروں کی محافظ، ان کی طاقت، اور ان کی واحد آواز بننے کا دعویٰ کرتی رہی، آج نجکاری جیسے مزدور دشمن منصوبے پر خاموش کیوں ہے؟ یہ خاموشی محض مصلحت نہیں بلکہ جرم ہے، اور جرم میں شراکت داری سے بھی بڑھ کر ایک کھلی سازش ہے
ہیڈرو یونین کی قیادت نے عرصہ دراز سے اپنی پالیسیوں کو اس انداز میں ڈھال لیا ہے کہ اقتدار میں بیٹھے افراد خوش رہیں، افسران مطمئن رہیں، اور مزدور صرف نعروں اور کھوکھلے وعدوں پر گزارہ کرتے رہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مزدور کی آواز دب گئی، اس کا اعتماد ٹوٹ گیا، اور یونین ایک "مزدور تنظیم" سے زیادہ "اقتدار کے دلالوں کا پلیٹ فارم" بن گئی
نجکاری صرف نوکریوں کا خاتمہ نہیں، یہ مزدور کی عزت، اس کی ریٹائرمنٹ کی امید، اور اس کے بچوں کے مستقبل پر ڈاکہ ہے۔ جب کمپنیاں نجی ہاتھوں میں چلی جائیں گی تو معاہدے، سیفٹی اصول، اور ملازمین کے تحفظ کے ضابطے سب قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ ایسے میں جو قیادت خاموش ہے، یا حمایت کر رہی ہے، وہ دراصل اپنے ہی کارکنوں کے روزگار پر دستخط کر رہی ہے
مزدوروں کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ خاموش تماشائی بن کر اپنے بچوں کا مستقبل بیچنے والوں کو سہولت دیتے رہیں گے یا اپنی اصل طاقت پہچان کر ان سے حساب لیں گے۔ تاریخ نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ جب مزدور متحد ہو جائے، تو سب سے بڑی سازش بھی خاک میں مل جاتی ہے
آج ضرورت ہے کہ ہم نجکاری کے خلاف ایک متحد محاذ بنائیں، چاہے اس کے لیے پرانی اور بوسیدہ یونین قیادت کو بدلنا پڑے۔ یہ جنگ صرف تنخواہ کی نہیں، عزت اور بقا کی ہے — اور جو اس میں خاموش ہے، وہ دشمن کے ساتھ کھڑا ہے۔
میاں لقمان اشرف
لیسکو کنسٹرکشن ڈویژن شیخوپورہ
ڈویژنل چیئرمین
WAPDA ایمپلائیز پیغام یونین (رجسٹرڈ) لیسکو
"واپڈا کے عروج اور زوال کے حوشربا انکشافات"
مغربی اور مشرقی پاکستان پر مشتمل " متحدہ پاکستان " کے آبی اور بجلی کے امور کو چلانے کے لٸے اس وقت کی سول پارلیمنٹ کے ایک آرڈینس کے تحت 22 فروری 1958 میں واپڈا " واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اٹھارٹی" کا قیام عمل میں لایا گیا پاکستان کا بجلی اور پانی کا سنہرا دور 1960 تا 1990 تک رھا اس دور میں "متحدہ واپڈا" ایک منافع بخش ادارہ تھا اور دنیا میں واپڈا پاکستان کی شناخت کی علامت تھی اسوقت بشمول تمام اخراجات محکمہ کو فی یونٹ صرف 90 پیسہ آتے تھے اور صارفین کو اوسطاً 1.50 روپۓ فی یونٹ کے حساب سے بجلی بیچی جاتی تھی اس طرح منافع کی شرح 40% بنتی تھی أور اب نا اہل حکمران اور " آٸل مافیا" کی اجارہ داری کے نتیجے میں یہ قیمت 47 روپۓ فی یونٹ تک جا پہنچی ھے اس کے باوجود گردشی قرضہ 2500 ارب روپٸے سےتجاوز کر گیا ھے یہ امر قابل زکر ھے کہ" متحدہ واپڈ" کے ہی دور میں تمام بڑے پروجیکٹ تربیلا ڈیم منگلا ڈیم وارسک ڈیم وغیرہ کی تکمیل ھو چکی تھی اور کالا باغ ڈیم پر کام کا آغاز کر دیا گیا تھا جو بعد میں بیرونی ایجینڈے کے تحت یہ تاریخی پروجیکٹ سیاست کی نظر ھو گیا اس کے بعد تمام آنے والی حکومتوں نے ملک کے مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی تاکہ اقتدار کو طول دیا جا سکے ان کی محب وطنی کا جنازہ اس وقٹ ھی اٹھ گیا تھا جب 1960 میں امریکہ کی شے پر سندہ طاس معاھدہ کے تحت جنرل ایوب خان نے پاکستان کے تین بہتے ھوٸے دریا ستلج, راوی اور بیاس کو انڈیا کو محض 62 ملین اسٹیرلنگ پاٶنڈ میں بیچ دٸے انڈیا نے نہ صرف ان دریاٶں پر سینکڑوں ڈیمز بنا دٸے ھیں بلکہ طغیانی اور سیلاب کے دنوں میں پانی کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیتا ھے جس کی وجہ سے پاکستان کو بے پناہ جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ھے اس گھناٶنے عمل کے زریعے پاکستان میں فی کس پانی کا حصول میں 84% کمی آچکی ھے یعنی فی کس پانی کی مقدار 5000 کیوبک میٹر سے سکڑ کر محض 800 کیوبک میٹر رہ گٸی ھے یہ کتنے فخر کی بات ھے کہ انٹرنیشنل سروے کے مطابق پاکستان صرف کوٸلہ کے زخاٸر میں دنیا کا چھٹا ملک ھے جس میں 380 ٹریلین ٹن کوٸلہ موجود ھے اس میں صرف تھر میں 186 بلین ٹن کوٸلہ موجود ھے جو 50 بلین ٹن آٸل کے زخاٸیر کے برابر ھے جبکہ سعودی عرب اور ایران کے پاس مجموعی آٸل کے زخاٸر اس سے کہیں کم (400 بلین بیرل) موجود ھے اگر ان زخاٸر کا صرف 2 % بھی استمال کر لیا جاٸے تو پاکستان آٸیندہ 40 سال تک متواتر 20000 میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتا ھے یہ کتنے شرم کی بات ھے کہ اتنے وسیع زخاٸیر کی موجودگی کے باوجود ہم اپنے تھرمل پاور پلانٹ ملاٸشیا اور جنوبی افریقہ سے درامد شدہ کوٸلہ پر چلا رھے ھیں اس سنہری دور (1960 تا 1990) میں پاکستان صنعتی اور زرعی شعبے میں زبردست ترقی کی طرف گامزن تھا ملاٸشیا جنوبی و شمالی کوریا سنگا پور چاٸنا ھم سے کافی پیچھے تھے اور یہ ممالک پاکستان کی ترقی کی رفتار سے کافی مرعوب تھے پی آٸی اے کا شمار دنیا کی صف اول ایٸر لاٸنز میں ھوتا تھا جب ملکہ برطانیہ نے 60 کی دھاٸی میں پی آٸی اے کے زریعے سفر کیا تو وہ اتنی متاثر ھوٸیں کہ ان کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل گٸے " Great People to Fly with" اور بعد میں یہی الفاظ پی آٸی اے کا Slogan بن گٸے متحد امارات اٸر لاٸین کی بنیاد پی آٸی اے نے ھی رکھی آپ کو یاد دلاتا جاٶں کہ اس دور میں ایشیا کی تیسری الیکٹرک ٹرین کا ابتدا لاھور سے خانیوال تک کر دیا گیا تھا اب اس ریلوے لاٸن کا نام ونشان مٹ گیا بجلی کے ریٹ حیرت ناک حد تک کم تھے دوران سروس میں نے اپنے لٸے اس سنیری دور کے گھریلو تجارتی صنعتی اور زرعی بجلی کے ٹیرف کے نرخ اپنی نوٹ بک میں محفوظ کر لٸے تھے جو ابھی تک میرے پاس اصل حیثیت میں موجود ھے اس ٹیرف کا ایک خلاصہ آپ کے لٸے پیش خدمت ھے گھریلو ٹرف A-1 Tariff پہلے 50 یونٹ تک 49 پیسے فی یونٹ 51-150 یونٹ تک 56 پیسے فی یونٹ 151-300 یونٹ تک 59 پیسے فی یونٹ 301-600 یونٹ تک 74 پیسے فی یونٹ اور 600 سے زاٸد 99 پیسے فی یونٹ اس دور میں 50 یونٹ کا بل 25.75 روپٸے , 100یونٹ کا بل 54.78 روپٸے 200 یونٹ کا بل 115 روپۓ, 300 یونٹ کا بل176.50 روپۓ 400 یونٹ ک بل 254 روپۓ 500 یونٹ کا بل 319 روپۓ 600 یونٹ کا بل 405 روپۓ آتا تھا تجارتی ٹیرف A-2 Tariff پہلے 100 یونٹ 1.57 روپۓ فی یونٹ 100 یونٹ سے زاٸد 1.75 روپۓ فی یونٹ پہلے 50 یونٹ کا بل 78.50 روپۓ 100 یونٹ کا بل 157 روپۓ 200 یونٹ کا بل 332 رپۓ 300 یونٹ ک بل 507 روپۓ 500 یونٹ کا بل 858 روپۓ 600 یونٹ کا بل 1034 روپۓ بنتا تھا صنعتی ٹیرف B-1 Tariff 70 کلو واٹ لوڈ تک 89 پیسے فی یونٹ فکسڈ چارجز 31 روپۓ فی کلو واٹ زرعی ٹیرف ٹیوب ویل فلیٹ ریٹ 70 روپۓ فی ھارس پاور ریڈنگ پر ٹیوب ویل 25 پیسے فی یونٹ بشمول 26 روپۓ فی کلو واٹ کے حساب بلنگ کی جاتی تھی اور اسکے بعد آٸی ایم ایف ورلڈ بینک کی شے پر متحدہ واپڈا کو کم از کم از 16 حصوں میں تقسیم کرکے نفسا نفسی بد انتظامی اور مہنگی ترین بجلی کی بنیادرکھی انا للہ وانا الیہ راجعون اے طاٸر لاھوتی اس رزق سے موت اچھی چس رزق سے آتی ھو پرواز میں کوتاہی نااھل حکمرانوں اور "آٸل مافیا" کی ملی بھگت سے آبی وساٸل پر بجلی بنانے کے تمام نٸے پروجیکٹ بند کر دٸے گٸے اور 1990 میں بین الاقومی سازش کے تحت IPPs ( انڈیپینڈت پاور پروڈوسر ) کے مہنگے ترین پروجیکٹ لگا دٸے گٸے اس طرح واپڈا جو 70% آبی وساٸل سے سستی ترین بجلی پیدا کرتا تھا اب 70% مہنگے ترین پلانٹ سے بجلی پیدا کرکے عوام کی چیخیں نکال دی ھیں حیران کن طور پر بجلی کے اصل اخراجات کے علاوہ 13 قسم کے مزید ٹیکسس لگا دیٸے گٸے ھیں اس کے باوجود گردشی قرضہ 2500 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ھے اس قرضے کو اتارنے کے لٸے روز بروز بجلی مہنگی کی جا رہی ھے بد انتظامی کی وجہ سے ھر سال صرف لاٸن لاسز کی مد میں 50 ارب روپٸے کا نقصان ھو رہا ھے ناقص میٹیریل مہنگے داموں خریدا جا رہا ھے غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 500% سے زاٸد کا اضافہ ھو چکا ھے ابھی کل ھی بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر تاریخ کا سب سے زیادہ اضافہ کر دیا گیا ھے جس سے محکمے اور عوام کے مساٸل کم ھونےکے ان میں روز بروز اضافہ ھو رہا ھے آخر میں اتنا ھی کہوں گا کہ ھمیں صرف اور صرف محب وطن , سچے , نڈر , بے لوث اور بیباک پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا چاہٸے کیونک ایک متحد و خوشحال پاکستان ھی ھماری شناخت ھے اللہ میرے پاکستان پر رحم فرماٸے پاکستان زندہ باد خودی کو کر بلند اتنا کہ ھر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری
۔رضا کیا ہے۔تحریر و تحقیق مرزا محمد شریفcopy
سال کے آخر تک آئیسکو ۔ فیسکو ۔ گیپکو ۔ پرائیویٹائز کرنے اور سیپکو اور حیسکو کو ٹھیکے پر دینے کا تجربہ کرنے کا پروگرام