
21/07/2025
بانو (شیتل) کی تکلیف تو پہلی گولی چلنے کے ایک منٹ بعد ختم ہو گئی ہوگی
لیکن مجھے اپنے دوست انیس کی تکلیف ستائے جا رہی ہے
وہ لندن میں مقیم ہے اب برطانوی شہری بن چکا ہے لیکن اس کا دل اج بھی اپنے آباؤ اجداد کے وطن کے لیے دھڑکتا ہے
وہ یہاں کے رہنے والوں کے غم میں پریشان رہتا ہے۔۔
حساس ایسا کہ روئے تو جلدی چپ نہیں کرتا
گزرے رمضان کی بات ہے کہ ہم ٹرین سٹیشن سے نکل کے اس کی دکان کی جانب جا رہے تھے۔ پاکستان کے حالات پہ بات کرتے کرتے اچانک اس نے ڈائیوو میں کام کرنے والی اس لڑکی کا ذکر کیا کہ جس کو اس لیے قتل کر دیا گیا کہ اس نے اسی بس کمپنی میں کام کرنے والے گارڈ سے تعلقات قائم کرنے سے انکار کیا تھا۔ ایک دو جملوں کے بعد انیس کی اواز بند ہو گئی اور میں نے اس کی
جانب توجہ کی تو اس کہ گال آنسوؤں سے تر تھے
میری ہمت نہ ہوئی کہ میں اس سے پوچھوں کہ کیوں رو رہے ہو۔۔؟
وہ اپنے انسو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے زیر لب یہی بڑبڑائے جا رہا تھا ۔ "مار ہی ڈالا" وہ معصوم اپنے گھر کو پال رہی تھی۔
گارڈ کو ذرا ترس نہ ایا؟
جان ہی لے لی؟
میں دل ہی دل میں سوچے جا رہا تھا کہ پاکستان میں تو یہ کئی مہینے پرانا واقعہ عوام اب بھول بھی چکے ہیں لیکن انیس نے اج تک یاد رکھا اور پھر ایسے یاد رکھا۔
میں دعا گو ہوں کہ انیس کو بانو اور احسان کے بارے علم نہ ہو۔ اس جیسا حساس بندہ ایسے غم کی تاب نہ لا سکے گا۔
"میں اوورسیز پاکستانیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے "ہجر اس کائنات کی سب سے بڑی دولت لگتی ہے - یہ جو دو چار سالوں کا ہجر اور اس کے بعد وصال ہوتا ہے یہ اپنے لوگوں اپنے وطن کے بارے سوچنے کا سارا نظریہ ہی بدل دیتا ہے۔
بانو اور احسان کے چلے جانے پہ ہر طرف غم ہی غم ہے۔ تکلیف کے اس طوفان میں راحت کا ایک جھونکا عوام کا سوشل میڈیا پر وہ رد عمل ہے جو وہ 2 انجان لوگوں کیلئے دکھا رہے ہیں ۔ دو سطروں میں لکھیں تو ۔۔
حساسیت بڑھتی گئی ہر نئے سانحے کے بعد
ہم ان کے لیے بھی روئے جنہیں جانتے نہ تھے
عادل تنویر