07/10/2025
تحریر: ملک حمزہ ابراہیم
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے
2000
کے بعد پیدا ہونے والی جنریشن بدقسمتی سے اس لذت، سکون اور محبت سے محروم رہی جو نوے کی دہائی کی جنریشن کو ملی، ہم نے زندگی کے اصل رنگ اپنی آخری ہچکیاں لیتے ہوۓ دیکھے اور انہیں الوداع کیا، ہم نے مٹی کے چولہوں پر کڑتی ہوی چاے کا بہترین ذائقہ لیا اور مٹی کے برتنوں میں بنتے سالنوں کی مہک سے خود کو لطف اندوز کیا،
ہم نے سکول ڈیسک یا بنچ پر بیٹھ کر ساتھ والے بنچ پر اپنا بستا رکھ کر کہا کے یہ جگہ میرے دوست کی ہے یہاں وہ بیٹھے گا، ہم نے نانی اور دادی سے وہ کہانیاں بھی سنی جن کے حصار میں جوانی تک مبتلا رہے، ہم نے دو دو روپے جمع کر کے گیندیں خریدی شام دیر تک کرکٹ کھیلی اور گھر لیٹ آنے پر مار کھائی ۔ رات کے وقت گاؤں کی گلیوں میں لکن میٹی کھیلی۔
ہم نے مہمانوں کی آمد پر جشن کا ماحول دیکھا گھر میں اور ان کے الوداع ہونے پر ان کی طرف سے محبت کے طور پر ملے دس روپیوں کو قارون کے خزانے کے برابر سمجھا، پھر مہمانوں کی پلیٹ میں بچے ہوے بسکٹوں پر ہاتھ صاف کیا جس کا بعض اوقات ازالہ بھی کرنا پڑا😄
کلاس روم سے ٹیچر کے ساتھ کاپیاں اٹھا کر سٹاف روم تک لے جانا اپنے لیے اعزاز سمجھا، ٹیسٹ کے دوران ایک خالی پیج کے لیے کلاس میں بھیک مانگی😝 کبھی کبھار کسی کی کاپی ہاتھ لگی تو تین چار دن کی ٹیسٹوں کے لیے پیج نکال کر جیب میں ڈال دیے، کبھی ٹیسٹ کے دوران نقل کرنے کے لیے کسی دوسرے کی کتاب سے پییج پھاڑ کر لے جاتے۔
ہم سکول تختییاں لکھ کر لے جاتے جس کے ایک طرف گنتی اور دوسری طرف اب لکھی ہوتی اور روز چھٹی سے پہلے چیک کرواتے۔
ہم نے پڑوس کے گھروں میں سالن دیتے اور لیتے دیکھا، ہم نے پڑوسیوں کے آے ہوے مہمانوں کو اپنے گھر لے آنے کو اپنا اعزاز سمجھا،
جمعے والے دن بیگ میں آدھی کتابوں کو رکھتے وقت کی خوشی محسوس کی اور ہم نے آخری پیریڈ کے دوران چھٹی کے لیے بجتی ہوی گھنٹی کے لیے وہ بیتابی کا مزہ لیا، کبھی دفتر سے حاضری رجسٹر لے کر آنے اور رکھ کر آنے کو اعزاز سمجھتے۔ پانی پینے کے بہانے سارا سکول گھوم پھر کر آتے۔ ہم نے استاد کی مار سے بچنے کے لیے سارا سارا پیریڈ واش روم میں بھی گزارا 😀
نوے فیصد لوگ ہو ہی نہیں سکتا کے کسی نے کلاس روم سے چاک چوری نہ کیا ہو یا گھر جاتے راستے میں آے کسی پھلدار پودے پر پتھر مار کر پھل نہ کھاے ہوں یہ الگ بات تھی کے اکثر اوقات پھلوں کے ساتھ مالکان کی طرف سے بہت کچھ سننے کو ملا کبھی مالک پیچھے لگ جاتا مگر ہم نے پرواہ نہیں کی اور دوسرے دن پھر روایت جاری رکھی😝
ہمارے سکول دور میں امیر وہی سمجھا جاتا تھا جس کے پاس جومیٹری بکس ہوتا تھا، پانی کے لیے ایک بوتل جو اکثر کاندھوں پر لٹکای جاتی تھی اور جو ٹفن میں گھر سے کھانا لے آتا تھا، ہاں یہ الگ بات تھی کے ہمارے ہوتے ہوے وہ کھانا اسے کبھی کبھار ہی نصیب ہوتا تھا😝
گلاب لمحوں کے مخمل پر کھیلتے بچپن،
پلٹ کے آ ، میں تجھ سے شرارتیں مانگوں،
ٹیچر کی غیر حاضری کے لیے مانگی ہوی دعا بہت کم ہی قبول ہوتی تھی، اکثر راہ سے واپس آجاتی تھی، فارغ پریڈ میں ہم اکثر اپنے اجداد کی بڑھای بیان کرتے ہوے خود سے بناے قصے سنایا کرتے تھے، چھٹی سے کچھ دیر پہلے روز میڈم سے جنوں اور پریوں کی کہانیاں سنتے جن میں زیادہ تر جن کی جان کسی طاطے میں اٹکی ہوتی تھی۔😀
کبھی ہاتھوں کے ناخنوں کی وجہ سے اسمبلی میں مار نہیں کھای جیسے ہی چیکینگ شروع ہوتی دانتوں سے فوراً صفایا کر دیتے تھے😝
ہماری امیدیں بہت ٹوٹی ہیں اکثر رات کو ہوتی بارش میں سکون سے سوتے تھے کے کل صبح بارش ہونے کی وجہ سے سکول نہیں جایں گے مگر صبح اٹھتے ہی نکلی ہوی ایسی دھوپ دیکھتے تھے اور ایسے دیکھتے جیسے کوی معجزہ ہو گیا ہو😭 اس ٹوٹتی امید کا دکھ کسی ماتم کے دکھ سے کم نہیں ہوتا تھا،
ہم نے کتابوں میں مور رکھے اور انکو چینی ڈالی اس امید سے چینی کھا کر جلدی بڑے ہوں گے اور بچے دیں گے ۔
ہم راستے میں بیٹھتے تو بیگ جھولی میں رکھتے تھے نیچے نہیں ڈرتے تھے کے اس میں اسلامیات کی کتاب ہوتی ہے، ہم بازار میں کہی اگر جاتے اور وہاں کسی ٹیچر پر نظر پڑھ جاتی تو واپس بھاگتے ہوے یہ بھی بھول جاتے تھے کے بازار آے کس لیے تھے، ہم نے گرمیوں کی دوپہر میں نیند نہ آنے کے باوجود بھی مجبوراً سونے کی اکٹینگ کی جو کسی بڑی ازیت سے کم نہ ہوتی تھی،
کرکٹ سے دلچسپی کا یہ عالم تھا رڈیو پہ میچ کی کمینٹری سنی۔ جب شاہد آفریدی بیٹنگ کرنے آتا تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ایک ہی دعا ہوتی اللہ کرے اوٹ نہ ہو مگر اس کمبخت نے ہمارے جذبات سے بہت کھیلا۔ کبھی میچ دیکھنے کے لیے گھنٹوں چھت پہ انٹینا سٹ کرنے میں لگ جاتے۔ پکڑ کے رکھتے تو چلتا جیسے انٹینا چھوڑتے تو چینل غائب ہوتا۔ جو سٹ کر رہا ہوتا اسے نیچے سے ایک ہی آواز آتی " چلا گیا آگیا" 😀یہ جاننے کے لیے کہ اس ریڈیو اور ٹی وی میں لوگ کہاں سے اور کیسے داخل ہوے ہم نےکھول کر پرزہ پرزہ کر کے بغور معائنہ کیا۔ ہم نے گاؤں کے ہوٹل پر فلم دیکھتے پکڑے جانے پر کئی بار ابو سے مار کھائی۔
ہم نے احترام دیکھا، خلوص محبت بھائی چارہ اور ہمدردی دیکھی، ہم نے لوگوں کے لوگوں کے ساتھ دعوے اور رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی، ہم نے کچے گھروں پر گرتی ہوی بارش کے پہلے قطروں سے مٹی سے اٹھتی ہوئی خوشبو کو محسوس کیا، ہم نے انسان کو انسان کے روپ میں دیکھا، ہم نے عشاء کے بعد فوراً سونے پر نیند کا مزہ چکھا اور فجر کے بعد پھوٹتی روشنی کا نور دیکھا، سچ پوچھو تو ہم نے عام سے پتھر کو بھی کوہِ نور دیکھا۔