Tension Free

Tension Free Let's Smile :)

15/07/2025

خواہ بڑے سے بڑا ریسٹورنٹ ہی کیوں نہ ہو ، ٹیبل پر پہلے سے پڑے ہوئے برتنوں اور حتی کہ ٹشو باکس کو بھی استعمال سے گریز کیجیے، ورنہ ایسی صورتحال کا شکار آپ بھی ہو سکتے ہیں جو راولپنڈی صدر کے ایک ریسٹورنٹ کے ویڈیو کلپ میں آپ دیکھ سکتے ہیں ۔

آمین 🤲
14/07/2025

آمین 🤲

14/07/2025

لاہور میں آج تیز بارش کے بعد
چاچے کو اس کے گھر والوں نے کمرے میں بند کر کے کنڈی لگا دی...
"تُوں باہر نہیں جانا"😅

اس یادگار سے عوام کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟
13/07/2025

اس یادگار سے عوام کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟

ناامیدی کو توڑو، اللہ کی امید پکڑو! 🌱
13/07/2025

ناامیدی کو توڑو، اللہ کی امید پکڑو! 🌱

🚨عزت نفس کی فتح: ایک معمولی لمحے سے عظمت تک 🚨 ایک نوجوان، دل میں طوفان لیے، میرے سامنے بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھ...
13/07/2025

🚨عزت نفس کی فتح: ایک معمولی لمحے سے عظمت تک 🚨

ایک نوجوان، دل میں طوفان لیے، میرے سامنے بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی چھلک رہی تھی۔ وہ بار بار اپنا گلہ صاف کرتا، مگر اس کا دل بوجھل تھا۔ کوئی بڑا سانحہ نہیں تھا، بس ایک چھوٹی سی بات، جو اس کی غربت نے ایک پہاڑ بنا دی تھی۔ غربت ایک آئینہ ہے، جو چھوٹے سے غم کو عظیم دکھ اور معمولی خوشی کو آسمانی مسرت بنا دیتا ہے۔ ایک امیر شخص جو دکھ کو کندھے سے جھٹک دیتا ہے، وہی دکھ ایک غریب کے دل کو چھلنی کر دیتا ہے۔
یہ نوجوان ایک مالدار گھر میں ٹیوشن پڑھانے جاتا تھا۔ وہ اپنی پرانی موٹر سائیکل پر وہاں پہنچتا، جو اس کے لیے بس ایک سواری نہیں، بلکہ اس کی محنت اور عزت نفس کا نشان تھی۔ ایک شام، اس گھر میں ایک پرتعیش دعوت تھی۔ ڈرائیو وے میں چمچماتی گاڑیوں کا ہجوم تھا، جن کے سامنے اس کی موٹر سائیکل ایک بے وقعت چیز لگ رہی تھی۔ جب وہ باہر نکلا تو چند امرا نے اس کی موٹر سائیکل کا مذاق اڑایا۔ اس سے بھی بدتر، جب وہ شرمندگی سے بھاگنا چاہتا تھا، اس کی موٹر سائیکل نے سٹارٹ ہونے سے انکار کر دیا۔ وہ وہاں کھڑا، کک مارتا رہا، اور پیچھے سے قہقہوں کی آوازیں اس کے دل میں خنجر کی طرح چبھتی رہیں۔ وہ میرے سامنے بیٹھا رو رہا تھا، کیونکہ اس کی عزت نفس زخمی ہو چکی تھی۔
میں نے اس سے کہا، “بیٹا، یہ توہین کا لمحہ، یہ زخمی انا، یہ عزت نفس کی چھلنی، یہ سب تمہارے لیے ایک خزانہ ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو تمہیں یا تو جلا دے گی یا پھر تمہیں عظمت کے آسمان پر چمکتا ستارہ بنا دے گی۔ اگر تم اس درد کو سنبھال سکو، اسے اپنی طاقت بنا سکو، تو یہ تمہیں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں تک لے جائے گا۔”
اس کی آنکھوں میں چمک ابھری۔ میں نے کہا، “چلو، میں تمہیں ایک ایسی کہانی سناتا ہوں جو تمہارے اس درد کو معنی دے گی۔” وہ خاموشی سے سننے لگا۔
“پولینڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی، جس کا نام مانیا تھا۔ وہ بھی تمہاری طرح غریب تھی، ٹیوشن پڑھاتی تھی، اور اپنی زندگی کے خوابوں کو سمیٹنے کی کوشش میں لگی تھی۔ وہ ایک امیر گھر میں ایک بچی کو پڑھانے جاتی تھی۔ اس گھر کے ایک لڑکے سے اسے محبت ہو گئی، اور دونوں نے شادی کا خواب دیکھا۔ مگر جب لڑکے کی ماں کو پتا چلا، اس نے مانیا کو سب کے سامنے ذلیل کیا۔ اسے پورچ میں کھڑا کر کے نوکروں کے سامنے کہا، ‘دیکھو، یہ لڑکی، جس کے پاس ایک جوڑا کپڑا اور ٹوٹے جوتے ہیں، یہ ہمارے خاندان کی بہو بننا چاہتی ہے!’ قہقہے گونجے، اور مانیا کا دل جیسے پگھلتا ہوا لوہا بن گیا۔ اس نے اسی لمحے عہد کیا کہ وہ ایک دن ایسی کامیابی حاصل کرے گی کہ دنیا اس کے نام سے جھکے گی۔”
میں نے سانس لی اور کہانی جاری رکھی۔ “مانیا پولینڈ سے پیرس چلی گئی۔ وہاں اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، فزکس پڑھنا شروع کیا۔ اس کے پاس پیسہ نہیں تھا، بس ایک جوڑا کپڑوں اور خوابوں کی پونجی تھی۔ وہ رات کو سردی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے بستر پر بچھاتی، کتابیں اور کرسی تک اوڑھ لیتی۔ وہ دن میں صرف ایک وقت کا کھانا کھاتی—سوکھی روٹی اور تھوڑا سا مکھن۔ کئی بار بھوک سے وہ بے ہوش ہو جاتی، مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے ایک غریب سائنسدان، پائری، سے شادی کی، اور دونوں نے مل کر ایک ناممکن خواب دیکھا—یورینیم کی روشنی کے راز کو کھولنا۔”
“انہوں نے ایک ٹوٹے پھوٹے گودام میں کام شروع کیا۔ چار سال تک، گرمی ہو یا سردی، انہوں نے آٹھ ٹن لوہا پگھلایا، صرف ایک چھوٹے سے دانے جتنا ریڈیم حاصل کرنے کے لیے۔ اس ریڈیم نے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ ایک ایسی دھات تھی جو لکڑی، پتھر، حتیٰ کہ لوہے سے بھی گزر سکتی تھی۔ مانیا کی یہ دریافت سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب تھی۔ اس نے کینسر کے علاج کا راستہ کھولا، لاکھوں جانیں بچائیں۔”
نوجوان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ میں نے کہا، “یہ مانیا کوئی اور نہیں، مادام کیوری تھی—وہ خاتون جسے دو نوبل انعام ملے، جس کی زندگی پر فلمیں بنیں، اور جس نے پولینڈ کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جب دنیا نے مادام کیوری کو اربوں ڈالر کی پیشکش کی، تو اس نے کہا، ‘میں یہ ریڈیم اسی کمپنی کو دوں گی جو اس بوڑھی عورت کا مفت علاج کرے گی جس نے مجھے کبھی ذلیل کیا تھا۔’ جی ہاں، وہی عورت جو کینسر سے لڑ رہی تھی۔”
میں نے نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، “بیٹا، یہ دنیا توہین سے بھری پڑی ہے۔ ہر روز لاکھوں لوگوں کی عزت نفس پامال ہوتی ہے۔ لیکن جو اس توہین کو اپنی طاقت بنا لے، وہ مادام کیوری بن جاتا ہے۔ یہ لمحہ تمہارے لیے ایک تحفہ ہے۔ اسے سنبھالو، اسے اپنی کامیابی کا ایندھن بناؤ۔ اللہ نے تمہیں یہ درد دیا ہے، کیونکہ وہ تم سے بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اب یہ تم پر ہے کہ تم اسے رونا بناؤ یا اس سے عظمت کی عمارت تعمیر کرو۔”
نوجوان نے سر اٹھایا، اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک تھی۔ وہ اٹھا، اور میں جانتا تھا کہ اس نے اپنی زندگی کا رخ بدل لیا تھا۔

تحریر : ایم-یو-چوہدری

۔👇😂😍
13/07/2025

۔👇😂😍

‏کافی پہلے گھر کے کمرے میں اوپر ایک جگہ بنائی جاتی تھی جس پر برتن سجاکر رکھے جاتے تھے۔😊‏بتائیں اسے کیا کہتے تھے ؟؟🤔
13/07/2025

‏کافی پہلے گھر کے کمرے میں اوپر ایک جگہ بنائی جاتی تھی جس پر برتن سجاکر رکھے جاتے تھے۔😊

‏بتائیں اسے کیا کہتے تھے ؟؟🤔

🚨🚨ساڑھے چار سیکنڈ کی حقیقت🚨🚨نیاز احمد، ایک 36 سالہ اردو کے استاد، جن کی آواز میں جادو تھا، قد کاٹھ میں رعب، اور تدریس می...
13/07/2025

🚨🚨ساڑھے چار سیکنڈ کی حقیقت🚨🚨
نیاز احمد، ایک 36 سالہ اردو کے استاد، جن کی آواز میں جادو تھا، قد کاٹھ میں رعب، اور تدریس میں کمال۔ وہ لاہور کے کریسنٹ ماڈل اسکول میں یکم جولائی 2025 کو ٹیچرز کو تربیت دے رہے تھے۔ کلاس جوش سے بھری ہوئی تھی، طالب علم ان کے دیوانے تھے، اور نیاز صاحب فل انرجی کے ساتھ لیکچر دے رہے تھے۔ پھر اچانک، وہ وائیٹ بورڈ سے کلاس کی طرف مڑے، بولتے بولتے خاموش ہوئے، زمین پر بیٹھے، دو گہرے سانس لیے، اور منہ کے بل گر پڑے۔ صرف ساڑھے چار سیکنڈ میں، وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
یہ منظر ویڈیو پر ریکارڈ ہوا اور سوشل میڈیا پر پھیل گیا۔ لاکھوں لوگوں نے اسے دیکھا اور ہر ایک کے دل میں ایک ہی سوال اٹھا: زندگی کیا ہے؟ ایک لمحے میں سب کچھ ختم؟ نیاز احمد کے خواب—وہ بڑا سا گھر، باغیچے میں پھول، بچوں کے روشن مستقبل کے منصوبے—سب کچھ پیچھے رہ گیا۔ لیکن یہ کہانی صرف موت کی نہیں، یہ ہمیں زندگی کا سب سے بڑا سبق دیتی ہے: ہر سانس ایک امتحان ہے، اور ہم اسے کیسے پاس کرتے ہیں؟

**شعور کا وہ راز جو سائنس نہیں سمجھ سکی**

نیاز احمد کی کہانی ہمیں ایک ایسی حقیقت سے روبرو کرتی ہے جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں: ہمارا وجود صرف جسم تک محدود نہیں۔ ہمارا شعور، ہماری روح، شاید کہیں اور سے ہمیں چلاتی ہے۔ ڈاکٹر ریمنڈ موڈی، جو قریب المرگ تجربات (Near-Death Experiences) پر عالمی شہرت یافتہ محقق ہیں، اپنی کتاب Life After Life میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے سینکڑوں ایسے مریضوں سے بات کی جنہوں نے موت کے دروازے سے واپسی کی۔ ایک مریض نے بتایا کہ جب اس کا دل بند ہو چکا تھا اور دماغی سرگرمی صفر تھی، تب بھی وہ اپنے آپریشن تھیٹر کے اوپر “معلق” تھا۔ اس نے ڈاکٹروں کی باتیں سنیں، آلات دیکھے، حتیٰ کہ تھیٹر کے باہر ہال میں پڑی ایک خاتون کے جوتوں کا رنگ بھی بتایا—ایسا رنگ جو وہ اپنی بند آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
ڈاکٹر موڈی کا کہنا ہے کہ یہ تجربات ہمیں ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارا شعور جسم سے الگ ہے۔ اگر یہ سچ ہے، تو نیاز احمد کے ساڑھے چار سیکنڈ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ہر لمحہ ایک تحفہ ہے۔ یہ تحفہ ہمیں اس لیے ملا ہے کہ ہم اسے معنی خیز بنائیں، نہ کہ اسے خوف یا پچھتاوے میں ضائع کریں۔

**زندگی کا اصل امتحان**

نیاز احمد کی کہانی ہر اس شخص کی کہانی ہے جو خواب دیکھتا ہے۔ وہ بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا تھا۔ وہ بھی اپنی بیوی کے ساتھ دنیا کی سیر کرنا چاہتا تھا۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنی ماں کے لیے ایک خوبصورت گھر بنائے گا۔ لیکن وہ ساڑھے چار سیکنڈ نے سب کچھ بدل دیا۔ تو کیا ہم بھی اپنی زندگی کو مستقبل کے وعدوں پر ٹال رہے ہیں؟ کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ “کل” ہم اپنے پیاروں سے محبت کا اظہار کریں گے، “کل”

**ہم اپنے خواب پورے کریں گے؟٭٭

ایک مشہور ماہر نفسیات، ڈاکٹر ایرک فروم، نے کہا تھا: “زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ ہم مر جاتے ہیں، بلکہ یہ کہ ہم جیتے ہوئے مر جاتے ہیں۔” نیاز احمد کی کہانی ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو جینا شروع کریں۔ یہ جینا کوئی بڑی کامیابیوں کا پیچھا نہیں، بلکہ چھوٹے چھوٹے لمحات میں خوشی تلاش کرنا ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق، والدین کے ساتھ ایک کپ چائے، یا کسی غریب کی مدد—یہ سب وہ لمحات ہیں جو ہماری زندگی کو بامقصد بناتے ہیں۔

**ایک چھوٹی سی کہانی جو سب کچھ سکھاتی ہے**

چند ماہ قبل، کراچی میں ایک اسکول ٹیچر، آمنہ، اپنی کلاس میں بچوں کو ایک کہانی سنا رہی تھیں کہ کس طرح ایک چھوٹا سا عمل دنیا بدل سکتا ہے۔ وہ بتا رہی تھیں کہ ایک مسکراہٹ، ایک محبت بھرا لفظ، یا ایک چھوٹی سی مدد کسی کی زندگی بدل دیتی ہے۔ اچانک انہیں چکر آیا، وہ گر پڑیں، اور چند لمحوں میں وہ اس دنیا سے چلی گئیں۔ لیکن ان کی آخری کہانی نے ان بچوں کے دل میں ایک ایسی چنگاری جگائی کہ آج وہ اپنی کمیونٹی میں چھوٹے چھوٹے نیک کام کر رہے ہیں—کسی کے لیے کھانا بانٹ رہے ہیں، کسی کے لیے کپڑے جمع کر رہے ہیں۔ آمنہ کی موت نے ان بچوں کو زندگی کا سبق دیا: ہر لمحہ ایک موقع ہے کہ آپ کچھ اچھا چھوڑ جائیں۔

**ہم کیا کریں؟**

نیاز احمد کے ساڑھے چار سیکنڈ ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ زندگی ایک لمحے کی مہمان ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارا اگلا سانس آخری ہوگا یا نہیں۔ تو آئیے، آج سے یہ عہد کریں کہ ہم ہر صبح اٹھیں گے تو اپنے آپ سے پوچھیں گے: آج میں کس کے لیے کچھ اچھا کر سکتا ہوں؟ آج میں اپنے خوابوں کی طرف کون سا ایک چھوٹا قدم اٹھا سکتا ہوں؟ آج میں کس سے معافی مانگ سکتا ہوں یا کسے معاف کر سکتا ہوں؟
زندگی صرف ساڑھے چار سیکنڈ نہیں، بلکہ وہ ہر لمحہ ہے جو ہم محبت، خلوص اور نیکی کے ساتھ جیتے ہیں۔ جب وہ آخری لمحہ آئے، تو ہمارے دل میں سکون ہو، چہرے پر مسکراہٹ ہو، اور پیچھے ایک ایسی کہانی ہو جو دوسروں کو جینے کی وجہ دے۔ کیونکہ یہی وہ زندگی ہے جو واقعی معنی رکھتی ہے۔

11/07/2025

محرر بمقابلہ فرنٹ ڈیسک آپریٹر 😂

This  Wholesome thread dedicated to all Dads.🧵
04/07/2025

This Wholesome thread dedicated to all Dads.🧵

04/07/2025

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tension Free posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share