Ameeq Monthly Newsletter

Ameeq Monthly Newsletter نیوز ایجنسی

اب سموگ کو کیوں روتے ہو جب ملتان کے گردونواح مطلب ملتان شہر کے چاروں طرف بیس پچیس کلو میٹر تک فصلیں درخت اور ذرعی  زمین ...
12/11/2023

اب سموگ کو کیوں روتے ہو

جب ملتان کے گردونواح مطلب ملتان شہر کے چاروں طرف بیس پچیس کلو میٹر تک فصلیں درخت اور ذرعی زمین تباہ کی جا رہی تھی
باغات کی جگہ پلاٹنگ کی گی
نہری پانی ختم کردیا گیا
سیمنٹ بجری اور سریے کو اہمیت دی گئ
لوگوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے پیسے لیے اور گاڑیوں کی بھر مار ہو گئ
اب دھواں اٹھتا ہے سانس بند ہوتا ہے
گردوں دل اور دمے کے امراض میں اضافے سے گھبراتے کیوں ہو
ایورج عمر ساٹھ ستر سے پچاس تک آرہی ہے
اس سب کے زمے دار ہم خود ہیں
حکومت بھی عام لوگ بھی
یہ لکڑی کے ٹرک اور ٹرالے ریڑیاں پچھلے بیس سال سے روزانہ شہر میں داخل ہوتے ہیں
تو اب چھٹیاں کریں سمال لاک ڈاؤن لگائیں
یہ سب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہے

وہ درخت وہ لہلہاتے کھیت وہ سبزہ کبھی واپس نہیں آ سکتا
بلکہ یہاں توسیاست کا کنجر خانہ ہی ختم نہیں ہوتا
لوگوں کی صحت عوامی بھلائ کا کون سوچے

یہ درخت نہیں بلکہ ہم نے اپنی سانس کی ڈوریاں کاٹی ہیں ۔۔۔

25/10/2023

“Success is a journey not a destination,the doing is often more important than outcome”

چند دن قبل جڑانوالہ میں ایک مسیحی نوجوان پر توہین رسالت اور توہین مذہب کا الزام لگا کر شر پسند عناصر نے جڑا والا میں مقی...
22/08/2023

چند دن قبل جڑانوالہ میں ایک مسیحی نوجوان پر توہین رسالت اور توہین مذہب کا الزام لگا کر شر پسند عناصر نے جڑا والا میں مقیم گھروں اور گرجا گھروں کو نظر اتش کر دیا جس کے نتیجے میں 26 چرچ اور تقریبا 300 کے گھر متاثر ہوئے ۔

Beloved Brothers and Sisters, please continue to pray for Flood affected regions of Interior Sindh and Balochistan of Pa...
25/08/2022

Beloved Brothers and Sisters, please continue to pray for Flood affected regions of Interior Sindh and Balochistan of Pakistan.

There is an urgent need for food Items and Non-food Items clean drinking water, hygiene kits for displaced families, Need tents for children, women & men living under the open sky on the roadside, medical treatment for displaced families.

The Love of the Lord shall shine in midst of chaos and trouble, and many will witness His Goodness!

Jazzcash :03016410061
Account title :. Live For others
Account Number : 20007441577

22/02/2022

"اگر کسی قوم کو غلام بنانا ہو تو اس سے تعلیم چھین لی جائے یا اسکے تعلیمی نظام کو فرسودہ حال بنا دیا جائے"۔ جو قومیں تعلیم میں پیچھے رہ جاتی ہیں وہ اقوام عالم میں اپنا مقام نہیں بنا سکتیں. انکے عروج و زوال کا سبب تعلیم ہی ہوتی ہے۔ ہمارے سدھار اور بگاڑ میں تعلیم کا بڑا دخل ہے۔ تعلیم ہی زیور تہذیب و تمدن سےآراستہ کرتی ہے. دہشت گردی اور انتشار بھی تعلیم کے فقدان کا نتیجہ ہے۔فرد جب فکری سرمایہ سے خالی ہو جاتا ہے تو گمراہ کن افکار نئی نسل کے ذہنوں میں بس جاتی ہیں۔

کورونا وائرس ٢٠١٩ کے آخری ماہ میں چین کے ایک شہر "وہان" سے شروع ہوا اور یکا یک اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان میں پہلا کیس ٢٦ فروری ٢٠٢٠ کراچی میں رپورٹ ہوا۔ یہ وبا تیزی سے پھیلتی گئی اور اس بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے رفتہ رفتہ پوری دنیا میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔ دنیا بھر میں جلسے جلوس، ریلیوں اور محفلوں پر پابندی لگا دی گئی۔ جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ، بازاروں، تعلیمی اداروں ،ہوٹلوں، تفریحی مقامات، شادی ہالز، عبادت گاہوں کو یکے بعد دیگرے بند کردیا گیا۔ اس عالمی بحران نے زندگی کی تمام تر مصروفیات کو مفلوج کر کہ انسان کو گھر کے کمرے تک محدود کر دیا۔ اس عالم گیر وبا نے دنیا بھر کی معشیت اور معمولات زندگی کو شدید متاثر کیا اور ساتھ ہی بہت سی قیمتی جانیں بھی نگل گیا۔ چونکہ یہ حالات آزمائش اور تکالیف سے بھرے تھے اسلئے ترقی یافتہ ممالک بھی اس وبا کے سامنے بے بس نظر آئے۔

کورونا کے وبائی دور، مارچ ٢٠٢٠ میں جب تعلیمی ادارے بند کیے گئے تو کہاں گیا یکم اپریل سے دوبارہ کھول دیئے جائیں گے، لیکن کرونا کہ بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے ایسا ممکن نا ہو سکا. لاک ڈاؤن نے نہ صرف اقتصادی نظام کی کمر توڑدی بلکہ تمام تر تعلیمی سرگرمیوں کا بھی پہیہ جام کردیا۔ جس نے طلباء کی "تعلیم" اور "علم" میں ایک بہت بڑا خلا پیدا کردیا۔ لاک ڈائون کے بعد آن لائن تعلیم کی منظوری دی گئی کہ گیجٹس اور انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھ کر بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں اور پھر گوگل کلاس روم اور زوم ایپ نے طلباء کو گھنٹوں اسکرینز کے سامنے بٹھا کر پڑھانا شروع کر دیا۔
آئن لائن تعلیم ایک نیا رجحان ہے۔ مٹھی بھر نجی اسکولوں نے آن لائن تعلیمی طریقہ اپنایا البتہ کم آمدن والے نجی اور گورنمنٹ تعلیمی اداروں نے انٹرنیٹ اور گیجٹس تک رسائی نہ ہونے کے باعث آنلائن تعلیم اپنانے میں سست روی سے کام لیا۔ اس تعلیمی بحران نے نہ صرف طلباء بلکہ اساتذہ اور والدین پر بھی منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ آدھے سے زیادہ بچے تو اس کو سمجھ ہی نا سکے۔ جنہوں نے کچھ سمجھا ان میں سے اکثر ایسے علاقوں میں رہتے جہاں انٹرنیٹ آتا نہیں یا آتا ہے تو بہت ہی کم۔ باقی جن بچوں کہ پاس انٹرنیٹ کی رفتار اچھی تھی وہ کلاس میں خود کو اندراج کر کہ ایک دوسرے کے ساتھ میسجز میں لگ جاتے تھے تو کچھ بچے کلاس جوائن کر کہ نیندیں پوری کرتے تھے۔ تقریباً پورا نظام تعلیم بربادی کا شکار ہے۔ البتہ؛ سب سے زیادہ اس وبا سے جو نظام متاثر ہوا وہ نظام تعلیم ہے . گھروں میں بچے کتابوں سے دور ہیں اور جو سبق یاد کیا تھا وہ بھی بھول گئے اور اسکول جانے کا اب اکثر طلبہ کا دل نہیں کر رہا.
آن لائن تعلیم کا آغاز تو کر دیا گیا مگر اس کے لئے مطلوبہ سہولیات کا جائزہ نہیں لیا۔ آنلائن تعلیم کے لیے کوئی مضبوط اور تسلی بخش لائحۂ عمل نہیں ہے اداروں کے پاس بچوں کے لیے کوئی ایسا طریقۂ تعلیم و تربیت نہیں ہے جس کے ذریعہ بچوں کے ساتھ ذہنی و نفسیاتی لگاؤ پیداکیا جاسکے۔ بغیر کسی منصوبہ بندی اور نگرانی کے آنلائن تعلیم کا آغاز کر کہ تعلیم کا مذاق اڑایا گیا۔ نہ انٹرنیٹ کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور نہ ہی یہ دیکھا گیا کہ کس قدر مضبوط اور توانا سگنل والا انٹرنیٹ میسر ہے اور کن علاقوں میں یہ سہولت میسر نہیں؟ ان سب دشواریوں کے سبب غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور کم عمر طلباء انٹرنیٹ پر عبور نہ رکھنے، انٹرنیٹ کی عدم دستیابی اور کمزور سگنلز کی وجہ سے آنلائن تعلیم سے استفادہ حاصل نہیں کر سکے جبکہ اساتذہ اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دینے میں تقریباً ناکام رہے۔ خاص طور پر پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ آن لائن تعلیم کے آغاز کے ساتھ ہی یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ طلباء کے لئے انٹرنیٹ پیکج متعارف کروائے جائیں۔ اس مطالبے کو بھی سنجیدہ نہیں لیا گیا۔

ایک سروے کے مطابق یہ دیکھا گیا ہے کہ سنجیدہ طلباء کی اکثریت آن لائن تعلیم سے مطمئن نہیں ہے۔ عدم اطمینان کی ایک وجہ استاد کی کارکردگی ہے۔اساتذہ کے لئے بھی آن لائن پڑھانے کا تجربہ نیا تھا۔ چند ایک تعلیمی اداروں نے اپنے طور پر تربیت کا اہتمام کر رکھا تھا۔ لیکن سرکاری تعلیمی اداروں میں استاد کی نگرانی اور تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ جامعات کے طلباء کو شکایات ہیں کہ بہت سے اساتذہ باقاعدگی سے لیکچر نہیں دیتے۔ اگر کلاس لیتے بھی ہیں تو مختصر وقت کے لئے پڑھا کر چھٹی کر دیتے ہیں۔

دنیا بھر کے سائنسدانوں نے ایک طویل تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آنلائن تدریس صرف اس صورت میں سود مند ثابت ہوسکتی ہے جب طلباء کے پاس کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مستقل سہولت موجود ہو اور اساتذہ کو آنلائن تدریسی طریقہ کار کی مکمل تربیت دی جائے۔ کورونا کی وجہ سے لیکچر اور سمسٹر کے دورانیے کو کم کرنے سے بھی سیکھنے کا عمل متاثر ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پس منظر میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں تصدیق کی تھی کہ اس وقت ١١٠ سے زائد ممالک میں تمام اسکول اور کالج بند پڑے ہیں اور دنیا بھر میں اس وبا سے پیدا ہونے والے حالات تقریباﹰ ١.٣ بلین طلبا و طالبات کو متاثر کر رہے ہیں۔

اس تعلیمی بحران کی وجہ سے تعلیمی سیکٹر میں ہر درجے کے امتحانات اور داخلے ملتوی یا پھر منسوخ کردیے گئے۔ آسٹریلیا ، برطانیہ ، نیوزی لینڈ اور کینیڈا جیسے بہت سے ممالک کی یونیورسٹیاں چین اور ہندوستان کے طلبا کی تعلیمی نقل و حرکت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ یہ بات زیادہ واضح ہوتی جارہی ہے کہ طلبہ کی سرحد پار سے کم از کم اگلے دو سے تین سالوں میں تعلیمی نقل و حرکت بہت کم ہو گئی ہے اور ان ممالک کی یونیورسٹیوں کے لئے ایک بڑا مالی خطرہ ہوگا جو پہلے ہی مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ بہت سے والدین وبائی امراض کے خطرہ کی وجہ سے بچوں کو بیرون ملک اعلی تعلیم کے لئے بھیجنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ماہرین تعلیم نے اس نازک صورتحال پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ طلباء جو آن کیمپس تعلیم اور امتحانات کی وجہ سے محنت کیا کرتے تھے، وہ نقل کے نت نئے طریقے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے محنت صفر اور نقل کا رجحان قابل فکر حد تک بڑھ گیا ہے۔ طلباء اپنے اسائنمنٹ بنانے کے بجائے، تیار شدہ اسائنمنٹ خریدتے اور اساتذہ کو جمع کروا دیتے ہیں۔

"آنلائن تعلیم نوجوانوں کو سند یافتہ تو بنا دے گی لیکن تعلیم یافتہ نہیں۔"

آنلائن کلاسز کبھی بھی کمرہ جماعت کا نعمل بدل نہیں ہو سکتی۔ استاد کا کلاس میں طلباء کو سمجھانا، سوال کرنا، نظر رکھنا اور انکا امتحان لینا یہ آفلائن کلاسز میں ممکن نہیں۔ بچے اہم امور جیسے اجتماعی اخلاقیات اور صفات کو سیکھنے میں اسکول اور اساتذہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ آنلائن تعلیم نے طلباء کو اجتماعی زندگی کی اخلاقیات سے عاری بنادیا ہے۔ طلباء ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ تعلیم حقائق کو سیکھنے کا نام نہیں بلکہ یہ دماغ کو سوچنے کے قابل بنانے اور عملی شعور کی ایک تربیت ہے جس کا طلباء میں فقدان نظر آتا ہے۔ لائق طلباء ہو یا نالائق آئن لائن تعلیم کو کوئی بھی سنجیدہ نہیں لے رہا۔ کئی طلباء تعلیم سے کٹ کر بے مقصد کاموں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ آنلائن کلاسز مزاحیہ محفل کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔

"استاد اگر کافر ہوگا تو شاگرد کو قرآن پڑھا کر بھی کافر بنا دے گا اور اگر استاد مسلمان ہوگا تو وہ انجیل پڑھا کر بھی مسلمان بنا دے گا۔یہ استاد پر منحصر ہے۔"

کورونا کے باعث تعلیمی ادارے بند کرنا اگرچہ انتظامی مجبوری ہو سکتی ہے مگر طلباء کا گھر بیٹھے تعلیمی حرج ہو رہا ہے۔ ایسے وقت میں مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں۔ آن لائن تعلیم سے ترقی پذیر ممالک ترقی حاصل نہیں کر سکتے۔ کہیں انٹر نیٹ نہیں اور کہیں لیکچر کی آواز صاف نہیں آ رہی ہوتی اور کہیں بجلی نہ ہونے سے موبائل چارج نہیں ہوتے گویا ہر طرف مسائل کا سامنا ہے۔ بلاشبہ؛ آن لائن سسٹم معلم و طلباء دونوں کیلئے ایک آزمائش ہے۔ بیشتر اساتذہ کلاسز اپنے مقررہ وقت پر نہیں بلکہ اپنی مرضی سے لیتے ہیں۔

دوسری جانب لاک ڈاؤن کے باعث مالی تنگی سے دوچار والدین نے نجی اسکولوں کی آنلائن تعلیم کے نام پر منہ مانگی فیس اور انٹرنیٹ کے مہنگے پیکیجز کی وجہ سے بچوں کو تعلیمی اداروں سے اٹھوا لیا۔ جس کی وجہ سے ٢٠٢٠ میں کئی بچے تعلیم سے محروم ہوئے ہیں۔ ’آن لائن تعلیم میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا سارا دارومدار والدین پر ہے ۔بچوں کو جو بھی ’ہوم ورک‘ ملتاہے اس کا زیادہ تر حصہ والدین کو کرنا پڑتاہے ۔

"والدین کہتے ہیں کہ اتنے مہینے کے تلخ تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ خاص طور پر چھوٹے بچوں کے حوالے سے آن لائن تعلیم محض ایک خام خیالی ہے."

کم تعلیم یافتہ والدین بچوں کو صحیح طرح نصاب کے ذریعہ نہیں پڑھا پاتے۔ تعلیمی نظام صرف بچوں کے ذہن، صلاحیت اور مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرتا بلکہ والدین کی نفسیات کے ساتھ بھی کھیل رہاہے۔ کئی نجی اداروں کے مالکان کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور کئی بے حد کم آمدنی ہونے کی وجہ سے مستقل طور پر بند کر دیئے گئے۔

اتنے ماہ گزرنے کے باوجود تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی۔ جزوی طور پر ہی سہی، آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک کا تعلیمی نظام زوال کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس مختصر سے عرصے کا تعلیمی سرگرمیوں پر طویل صدمہ دیکھنے میں آیا ہے جس کو پھر سے بحال کرنے میں کئی سال درکار ہونگے۔ تعلیمی سرگرمیوں کو منجمد کرنا حل نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔ موجودہ کٹھن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ معاملات کی اصلاح احوال کی کاوش کی جائے۔ انٹرنیٹ اور دیگر انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانا حکومتوں کا کام ہے۔ لیکن اساتذہ کے لیکچروں میں باقاعدگی اور کلاس کے دورانیے کو یقینی بنانا یقیناً تعلیمی اداروں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس جانب توجہ نہیں دی جاتی تو اس وبائی دور میں تعلیمی اسناد حاصل کرنے والے طلباء کی علمی اور ذہنی استعداد صفر ہو گی۔مزید برآں ملازمتوں ، انٹرن شپ پروگراموں اور تحقیقی منصوبوں پر وبائی امراض کے اثرات کو کم کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ طلباء جب نوکریوں کے حصول کے لئے نکلیں گے تو ان کے پاس قابلیت کے بجائے صرف ڈگری کے کاغذ ہونگے۔ حکومت کو چاہیے کہ طلبہ کے مستقبل کے بارے میں ایسے کمزور فیصلے نہ کرے اسکول کی بندش کی بجائے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کروانے کیلئے اقدامات کریں اورجہاں ایس او پیز پر عمل نہیں ہو وہ شعبے بند کرے یا ان اداروں کے مالکان سے بھاری جرمانے وصول کیے جائیں۔ مسائل مناسب اقدامات اٹھانے سے سلجھتے ہیں۔

22/02/2022

پنجاب میں اس وقت تقریبا سوا لاکھ کے قریب اساتذہ ہونگے پی ٹی سی ٹیچر کی تنخواہ بھی تقریبا 28ہزار سے شروع ہوتی ہے اس تنخواہ میں صرف ایک فرد ایک ماہ بہت مشکل سے نکال سکتا ہے اگر خاندان کو بھی ساتھ لیکر چلنا پڑے تو پھر ٹیچر کی توجہ تعلیم سے ہٹ کر روزگار کی طرف زیادہ ہوجاتی ہے یہ وہ طبقہ ہے جو بچوں کی بنیاد یں تیار کرتا ہے آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ جس عمارت کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہے وہ بڑے بڑے طوفانوں میں بھی مضبوطی سے کھڑی رہتی ہے اور اس پر بسیرا کرنے والے اپنی زندگی سکون سے گذارتے ہیں ہمارے بچوں کی ابتدائی تعلیم اور انکی نشو نما انہی اساتذہ کے سپرد ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے ٹیچرز کو وہ مقام ہی نہیں دیا جو انہیں ملنا چاہیے تھا شائد اسکے پیچھے ہماری اپنی کمزوریاں بھی تھیں سفارش اور رشوت نے جہاں ہمارے دوسرے محکموں کو تباہ کیا وہیں پر ہمارے اساتذہ بھی اسکی ضد میں آئے ہمارے دیہاتوں میں جو بچہ میٹر پاس کرلیتا تھا اسے سفارش کے زور پرٹیچر بھرتی کروادیا جاتا تھاجو سکول میں بچوں سے دالیں ،سبزیاں اور دودھ منگوا کر عیش کیا کرتے تھے بچے بھی اپنی مرضی سے پڑھتے تھے انہی سکولوں سے سے بچے پڑھ کر مختلف محکموں میں چلے گئے کوئی پٹواری بن گیا تو کوئی پولیس مین بن گیا یہ بچے جس جس میدان میں بھی گئے وہیں داستانیں چھوڑ آئے ہمارے سفارشی کلچر نے نہ صرف افراد کو کرپٹ بنایا بلکہ اداروں کے ادارے تباہ کردیے آج آپ کسی بھی محکمہ کی کارکردگی جانچنا چاہیے تو صرف اتنا دیکھ لیں کہ انکا کرپشن میں کونسا نمبر ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس سارے کے سارے نظام کو تباہ کرنے میں ہمارے سیاستدانوں کا کردار رہا ہے جو آج بھی ہیرا پھیری سے باز نہیں آتے ہمارا سفارشی کلچر اتنا مضبوط اور پائیدار ہے کہ اس وقت بھی لاہور میں مختلف سرکاری سکولوں میں جونیئر ٹیچرز کو ہیڈ بنایا ہوا ہے جنکی سکول میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے نہ ہی بچوں کے کسی معاملہ میں انکا کردار ہوتا ہے گذشتہ 10سالوں سے لاہور میں گریڈ 19اور 20کی سیٹوں پر گریڈ 16کے نااہل اور نکمے ٹیچروں کوچارج دے رکھا ہے بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے نو اضلاع میں ڈائریکٹر ایلیمنٹری اور سکینڈری کی سیٹیں2016سے ہیں ان سیٹوں پر اساتذہ کی تقرریاں بھی ہوتی ہیں مگر نہ وہ دفتر آتے ہیں نہ انکا سٹاف اور نہ ہی انکے ذمہ کوئی کام ہے جہاں تعلیم سے وابسطہ افراد کا یہ حال ہوگا وہاں ہم نے اپنی نسل کو کیا پڑھانا ہے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ استاد ہی قوم کا اصل محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور انکو ملک کی خدمت کیلیے قابل بناناانہی کے سپرد ہیں علامہ اقبال نے شمس العلما ء کے خطاب کیلیے اپنے استاد میر حسن کا نام پیش کیا جس پر کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ انکی کوئی تصنیف بتائیں تو علامہ اقبال نے اپنی طرف اشارہ کرکے کہا کہ میں ہوں انکی تصنیف یہ تھا ٹیچر کا مقام اور عزت ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب سکول میں کوئی ٹیچر کسی بچے کو مارتا تو پھر چھٹی کے بعد بچے اس ٹیچر کی ایسی تیسی کردیتے تھے ہمارے ہاں روحانی باپ کی جو عزت وہ شائد ہی کسی اور ملک میں ہو سرکاری سکولوں کی ٹیچر بچپن میں استاد کم جلاد زیادہ لگتے تھے اور انکے رویوں کی وجہ سے بچے پڑھنے سے بھاگ جایا کرتے تھے ہمیں اپنے رویوں میں پیار محبت اور خلوص کا رشتہ رکھنا چاہیے ایسے اساتذہ چاہیے جو بچوں کی علمی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی کریں ہماری جیلیں مجرموں سے بھری پڑی ہیں برداشت ختم ہوچکی ہے معمولی بات پر ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں ہمارے اساتذہ بھی مجبور ہیں کہ وہ اس طرح بچوں کی تربیت نہیں کرسکے جس طرح کرنی چاہیے کام کرنے والے ٹیچر کواوپر والا سٹاف ٹکنے نہیں دیتا اور تو اور کلرکوں بادشاہ الگ سے بلیک میل کرتے ہیں اور جو اس کے اوپر نااہل اور نکما ٹیچر ہیڈ بن کربیٹھا ہوا ہے یا بیٹھی ہوئی ہے وہ الگ سے اپنی افسری دکھا رہی ہوتی ہے ہم دن بدن اپنی منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اس وقت تک ہم ترقی کی منزل پر نہیں پہنچ سکتے جب تک ہمیں ہمارے بنیادیں مضبوط کرنے والے معمار نہ مل جائیں آج بھی ایسے اساتذہ موجود ہیں جو اپنا سب کچھ اپنے طالبعلموں پر قربان کرتے ہیں اور وہ ٹیچرانسان کو عمر بھر یاد رہتے ہیں وہ ٹیچر تو کیا وہ سکول وہ بنچ اوروہ بنچ فیلو بھی انسان کو ساری عمر یاد رہتے ہیں سلطنت عمان کے سلطان قابوس بن سعید کا اپنے ٹیچر کے حوالہ سے واقعہ بہت مشہور ہے وہ پروٹوکولز کے بارے میں اپنا خاص نظریہ تھا زندگی بھر کسی شخصیت کے استقبال کیلیے وہ ہوائی اڈے نہ گئے مگر ان کی یہ عادت اْس وقت ٹوٹ گئی جب انہوں نے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما کا ہوائی اڈے پر جا کر استقبال کیا حکومتی اراکین اور عہدیداران اس بات پر حیران و پریشان تو تھے ہی صحافیوں کیلیے بھی یہ سب کچھ انوکھا اور حیرت و تعجب کا سبب بن گیا تھاسلطان قابوس انڈین صدر سے اس کے جہاز میں کرسی پر سے اٹھنے سے پہلے ہی جا کر گلے ملے اس کے ساتھ ہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جہاز سے نیچے اترے جب کار کے نزدیک پہنچے تو ڈرائیور کو اتر جانے کا کہا خود جا کر کار کا دروازہ کھولا مہمان کو بٹھایا اور خود ہی کار چلا کر مہمان کو اپنے محل میں لائے۔بعد میں جب صحافیوں نے اس بارے میں سلطان سے سبب پوچھا تو انہوں نے جواباً بتایامیں ایئرپورٹ پر انڈیا کے صدر کے استقبال کیلیئے ہرگز نہیں گیاتھا میں تو ایئرپورٹ اس وجہ سے گیا ہوں کہ میں نے بچپن میں انڈیا کے شہر پونا کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کی ہے اور جناب شنکر دیال شرما اس وقت میرے استاد ہوا کرتے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ زندگی کیسے گزارنی ہے اور زندگی میں آنے والی مشکل اور مصائب کا کیسے سامنا کرنا ہے اور میں آج تک حتی المقدور کوشش کرتا ہوں کہ جو کچھ اْن سے پڑھا اور سیکھا ہے اسے عملی زندگی میں نافذ کروں یہ تھی ایک استاد کی قدر و منزلت جو سلطان کے اپنے پروٹوکول نظریات سے انحراف کا سبب بنی تھی۔کچھ دن پہلے کی بات ہے جب روسی صدر پوٹین کو اپنے استقبال میں کھڑے لوگوں کے ہجوم میں اپنی ایک استانی نظر آ گئی۔ پوٹین نے سارے گارڈز، حفاظتی عملے اور حفاظتی حصار بالائے طاق رکھ کر سیدھا استانی کو جا کر گلے لگایا اور وہ رو رہی تھی خلقت کے ہجوم میں استانی کو ساتھ لیکر باتیں کرتے اور چلتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ پوٹین اپنی استانی کے ساتھ نہیں کسی ملکہ کے پہلو میں چل رہا ہے ہمیں بھی ایسے ہی اساتذہ کی ضرورت جو ہمیں کردار کے غازی کے ساتھ ساتھ افکار کا غازی بھی بنا ڈالے اور اس سلسلہ میں بزدار حکومت کی کوشش ہے کہ پرانے اور فرسودہ نظام تعلیم کو تبدیل کیا جائے تاکہ آج کی نسل تو راہ راست پر آجائے ۔

22/02/2022

معاشرے میں ایسے لوگوں کی شدید ضرورت ہے جو اپنی ذات کے دائرے سے باہر نکل کر لوگوں کے لیے کام کریں اور کسی نہ کسی پہلو سے ان کی رہنمائی کا موجب بنیں۔ اب یہ کام انفرادی سطح پر بھی کیا جاسکتا ہے اور منظم صورت میں بھی۔یعنی اس سوچ کے حامل افراد مل کر ایک ایسا ادارہ بھی بناسکتے ہیں جس کا مقصد اس شعبہ میں نئے آنے والوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہو جس کے ذریعے وہ ترقی کے زینے چڑھتے جائیں۔ایسا ہی ایک ادارہ ہے’’آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن‘‘جو لکھاریوں‘کالم نگاروں‘شعراء اور شعبہ صحافت سے منسلک افراد کی رہنمائی اور ان کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے۔جس کے چند اہم اور بنیادی مقاصد یہ ہیں: کالم نگاروں‘ افسانہ نگاروں اورتحریر کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والے افرادکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا‘نئے لکھنے والوں کی فکری اور نظریاتی تربیت کرنا‘پاکستانی قوانین اور آئین کے حوالے سے لکھاریوں کو مکمل رہنمائی فراہم کرنا تاکہ وہ اپنی تحریروں کو مدلل اندز میں مرتب کر سکیں‘ نئے لکھنے والوں کی تحریروں کوقابل اشاعت بناکر اخبارات‘میگزین اور ڈائجسٹ وغیرہ میں شائع کروانا‘وغیرہ۔

انہی مقاصد کی تکمیل کے لیے گزشتہ دنوں ۹نومبرکو لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام لکھاریوں اور شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے تنظیم کے سرپرست اعلیٰ زبیر احمد انصاری کی زیرنگرانی ’’ایک روزہ تربیتی نشست‘‘کا اہتمام کیا گیا جس میں تنظیم کے عہدے داران‘لکھاریوں‘پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاسے وابستہ افراد‘طالب علموں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کثیر افراد نے ملک کے دور دراز علاقوں سے شرکت کی۔تربیتی نشست کا باقاعدہ آغاز حافظ محمد زاہد نے تلاوت کلام مجید سے کیا اور پھر حذیفہ اشرف نے نعت مقبولﷺکی سعادت حاصل کی۔اور میزبانی کے فرائض حفصہ خالد اور ثنا آغا خان نے انجام دیے۔

اس تربیتی نشست میں ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمٰن قمر‘موٹیویشنل سپیکر اختر عباس‘ سٹی ۲۴کے ڈائریکٹر نوید چوہدری‘ اردو پوائنٹ ملٹی میڈیا کے انچارج شاہد نذیر‘ اینکر پرسن اسد اﷲ خان‘ اخوت کے ایگزیگٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد ثاقب‘ بین الاقوامی سکالر و ماہر نفسیات ڈاکٹر جاوید اقبال‘معروف مزاح نگارگل نوخیز اختر‘معروف شاعر اعتبار ساجد اور آغر ندیم سحر‘روزنامہ مشرق کے میگزین ایڈیٹر ندیم نظر‘ لیگل ایڈوائزر سعدیہ ہما شیخ اور تنظیم کے سرپرست اعلیٰ زبیر احمد انصاری نے لکھاریوں کو اپنی تحریر کو جاندار بنانے کے حوالے سے مختلف مشوروں سے نوازا۔ مہمانانِ گرامی کا کہنا تھا کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی ٹریننگ کے لیے کوئی نہ کوئی ادارہ موجودہے جس میں اُن افراد کو اس شعبہ سے متعلق بنیادی تربیت دی جاتی ہے‘جبکہ المیہ یہ ہے کہ لکھاریوں کے لیے ایسا کوئی ادارہ سرے سے ہے ہی نہیں جس میں ابتدائی تربیت دی جائے۔اس ضمن میں آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کاگزشتہ چار سال سے ایسی تربیتی نشستوں کا اہتمام کرنا گویا ’’اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جانا‘‘کے مترادف ہے اور یہ شمع چلتی رہنی چاہیے اس لیے کہ یہ شمع جلے گی توہمارا معاشرہ روشن سے روشن ترہوگا۔

تربیتی نشست میں سینئر لکھاریوں نے نئے لکھنے والوں کو بہت سے مفید مشوروں سے نوازا۔ان کا کہنا تھا کہ:(۱) لکھاری کے الفاظ اور اس کا نظریہ اگر جاندار ہوگاتو کوئی بھی اخبار‘میگزین یا ڈائجسٹ اس کی تحریر کوردّ نہیں کرسکتا۔(۲) اپنی تحاریر کوجاندار بنانے کے لیے پڑھنے اور مطالعہ کا تناسب لکھنے سے تیس سے چالیس فیصد زیادہ ہونا چاہیے۔(۳) اپنی تحریروں کے لیے بہتر اور مناسب الفاظ تلاش کریں اور اس کے لیے ادب اور شعروشاعری کا ضرور مطالعہ کریں اس لیے کہ ادیب اورشاعر حضرات الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔(۴) ہمیشہ سچ لکھنا چاہیے اس لیے کہ سچ اپنے اندر بہت طاقت رکھتا ہے۔(۵)آپ کو مایوس ہوئے بغیر مسلسل لکھتے رہنا چاہیے اوریہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہمای بعض تحریریں کہیں شائع نہیں ہورہیں یا ہماری تحریروں کو پذیرائی نہیں مل رہی۔(۶) اگر آپ مزاح لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحریروں میں خود سے مزاح ڈالنے کی کوشش نہ کریں بلکہ روز مرہ واقعات کو ہی اس انداز میں بیان کریں کہ لوگوں کو پڑھ کر ہنسی آئے۔(۷)نئے اور اچھوتے موضوعات کا انتخاب کریں اور عام موضوعات سے ہٹ کر لکھنے کی کوشش کریں۔

مذکورہ تربیتی نشست میں فروغِ ادب کے حوالے سے بہت سے نئے اورقابل تقلید اقدام بھی کیے گئے۔تنظیم کے سرپرست زبیر احمد انصاری کی جانب سے تنظیم کے عہدے داروں میں بذریعہ قرعہ اندازی عمرہ کا ایک ٹکٹ اورشرکاء میں غلافِ کعبہ پر لگائے جانے والے عطر کے چارپیکٹ تقسیم کیے گئے۔ عمرہ کا ٹکٹ سوشل میڈیا کی انچارج ’’ساجدہ چوہدری‘‘کے حصے میں آیا اور جب ایم ایم علی نے ان کے نام کا اعلان کیااور انہیں ڈائس پر بلایاگیا تو سٹیج پر موجود تمام مہمانانِ گرامی اور شرکاء نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر کافی دیر تک مسلسل تالیاں بجا کر ان کو مبارکباد دی۔ ساجدہ چوہدری نے نم آنکھوں سے بتایا کہ وہ سرگودھا کے دور دراز علاقے سے آئی ہیں اور آج لاہور شہر میں اتنے بڑے پروگرام میں ان کے لیے عمرہ کا ٹکٹ نکلنا اور پھر ڈائس پر آکر سینئر لوگوں سے سامنے گفتگو کرنا‘یہ میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے اور میں یہ اعزاز اپنے ’’والدین کے نام‘‘کرتی ہوں جن کی کاوشوں سے آج میں آپ کے سامنے ہوں۔اس کے علاوہ کرونا وبا کے پیش نظر تمام شرکاء میں سینٹائزر کی ایک ایک بوتل اور KN95ماسک تقسیم کیے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ ان کے استعمال سے آپ اس وبا کا بہت حد تک مقابلہ کرسکتے ہیں۔آخر میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے عہدے داران میں ایوارڈ‘ موجودہ سال کتابیں لکھنے والے ممبران کو’’ایوارڈ برائے کتاب‘‘ اور باقی شرکاء میں اعزازی سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے۔پروگرام کے آخر میں تنظیم کے بانی و صدرایم ایم علی نے اپنے اختتامی کلمات میں مہمانانِ گرامی اور شرکاءِ ورکشاپ کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ان شاء اﷲ یہ تنظیم فروغِ ادب کے حوالے سے ایسے پروگرامات کا انعقاد کراتی رہے گی۔پھر ہائی ٹی کا ایک پُر تکلف دور بھی چلا اور اس طرح صبح ساڑھے دس بجے سے جاری یہ نشست شام چھ بجیاختتام پذیر ہوئی۔

مبالغہ آرائی سے قطع نظر یہ ایک بہت خوبصورت پروگرام تھا جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے‘کم ہے۔ ایسے پروگرام ہوتے رہنے چاہیں اس لیے کہ ایسی شمعیں جلیں گی تو ہمارا معاشرہ روشن سے روشن تر ہوگا۔ایسے پروگرام مکالمہ بازی اور لوگوں کی بات تحمل سے سننے اور اپنی بات کو اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے جیسے جذبات کو فروغ دیتے ہیں اور آج ہمارے معاشرے کی اس کی اشد ضرورت ہے۔آخر میں‘مَیں آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے مرکزی اور خواتین ونگ کے تمام عہدے داران کو اس کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اﷲ تعالیٰ فروغِ ادب اور اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور تنظیم کے سرپرست اعلیٰ زبیر احمد انصاری صاحب کے جان و مال میں برکت عطا فرمائے جن کی سرپرستی اور رہنمائی میں تنظیم دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے۔

22/02/2022

’ہمارے والدین نے ہمارے لیے اچھا گھر نہیں بنایا اور نہ ہی اچھے کپڑے خریدے بلکہ ان کے پاس جو کچھ تھا وہ ہماری تعلیم پر لگایا جس کے نتیجے میں ہم تمام آٹھ بہن بھائی نہ صرف امتیازی نمبروں سے پاس ہوتے رہے بلکہ تمام کے تمام اچھی ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘

یہ الفاظ کوئٹہ کی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی ماریہ شمعون کے ہیں جنھوں نے اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن افسروں کی آسامیوں کے لیے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے حالیہ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں خدا کی شکر گزار ہوں جس نے میری دعائیں اور عبادتیں قبول کیں۔ اس کے بعد تمام کریڈٹ میرے والدین کو جاتا ہے اور میں ان کو سیلوٹ پیش کرتی ہوں۔'

وہ کہتی ہیں کہ ’ناکامی کا سامنا بہت کرنا پڑا لیکن والدین اور بہن بھائیوں کی حوصلہ افزائی سے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری اور ہر بار پہلے سے زیادہ محنت کی جس کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹ کے لیے امتحان میں پاس ہونے والے امیدواروں میں پہلے نمبر پر آئی۔‘
میرے والدین اصل ہیروز ہیں'
ماریہ کہتی ہیں کہ میرے والد ڈرائیور تھے جبکہ والدہ بھی ان کو ہیلپ کرنے کے لیے ملازمت کرتی تھیں۔

’ہمارا خاندان بڑا تھا لیکن کم آمدنی کے باوجود والدین نے تین بھائیوں سمیت آٹھ بچوں کو پڑھانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘

'کوئی ہمارا گھر آ کر دیکھے تو اس کی حالت اتنی اچھی نہیں۔ انھوں نے ہماری آسائش پر بہت زیادہ خرچے نہیں کیے لیکن سب کچھ ہماری تعلیم پر لگا دیا۔'

انھوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے میں اپنے خدا کی شکر گزار ہوں۔ فرنٹ پر ہم بہن بھائی ہیں لیکن ہمارے اصل ہیروز ہمارے والدین ہیں۔ میرے والدین بہت وژنری تھے۔ وہ ہمیں اپنا اصل سرمایہ سمجھتے تھے۔

’ان کی سوچ تھی کہ بچوں پر سرمایہ لگائیں گے تو کل وہ کچھ بنیں گے۔ گھر وغیرہ بعد میں بھی بن سکتے ہیں یا باقی آسائشیں بعد میں حاصل کی جا سکتی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ہم آٹھ بہن بھائیوں میں سے پانچ گریڈ 17 کے افسر ہیں جبکہ باقی بھی اچھی پوزیشنوں پر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے والدین کو اس لیے وژنری اور ہیرو کہتی ہوں کہ انھوں نے انسانی وسائل پر سرمایہ کاری کی اور اس کے علاوہ میں اپنی سہیلی ثنا کاظمی کو بھی کریڈٹ دیتی ہوں جنھوں نے پڑھائی میں میری بہت مدد کی۔

ماریہ شمعون کا کہنا تھا کہ ہماری والدہ کی لکھنے پڑھنے کی بہت خواہش تھی لیکن وہ نہیں پڑھ سکیں۔

'والد کی طرح والدہ نے بھی ہماری تعلیم کی جانب بہت زیادہ توجہ دی کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ وہ نہیں پڑھ سکیں تو ان کے بچوں کو اچھی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔‘

'ہر ناکامی کے بعد مزید محنت کی'
ماریہ شمعون نے بتایا کہ ایف ایس سی میں جو بھی پری میڈیکل میں داخلہ لیتا ہے تو اس کے سامنے ایک سوچ ڈاکٹر بننے کی ہوتی ہے اسی طرح کی سوچ میری بھی تھی لیکن اس وقت میرا وژن بہت زیادہ نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’جب مجھے ایم ایس سی میں میری محنت کا صلہ گولڈ میڈل کی شکل میں مل گیا تو میرا حوصلہ بڑھ گیا اور بہن بھائیوں اور دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ سی ایس ایس کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اپنی محنت کی وجہ سے یہ اعتماد تھا کہ میں سی ایس ایس کر سکتی ہوں لیکن تین کوششوں کے باوجود میں سی ایس ایس نہیں کر سکی۔

’ان ناکامیوں کے باوجود جہاں میں نے ہمت نہیں ہاری وہاں مجھے والدین اور دیگر لوگ حوصلہ دیتے رہے کہ ابھی تک مواقع بہت ہیں۔ اس لیے میں نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن سے بھی اسسٹنٹ کمشنر بننے کی کوشش کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہر ناکامی کے بعد مایوسی بہت زیادہ ہوتی تھی لیکن خدا سے دعائیں کرتی اور روزہ رکھتی تھی جس کی وجہ سے مایوسی غالب نہیں آتی تھی اور مجھے پھر سے محنت کرنے کا حوصلہ مل جاتا تھا۔

'میرا یقین تھا کہ خدا انصاف کرے گا اور میری محنت کا صلہ ضرور دے گا۔ میں ایک کمزور لڑکی نہیں بننا چاہتی تھی کہ جو رو کر شکست قبول کرتی۔ میں نے عزم کیا تھا کہ میں نے ہر حال میں اسسٹنٹ کمشنر بننا ہے۔'

انھوں نے بتایا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں بھی دو بار ناکام ہوئی لیکن ہمت اور حوصلے کا دامن نہیں چھوڑا اور آخری موقع کے لیے پہلے سے بہت زیادہ محنت کی جس میں کامیابی حاصل کی۔

ماریہ کہتی ہیں کہ خدا نے میری کوششوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا بلکہ آخری مرتبہ جو نو امیدوار اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن افسر کے عہدوں کے لیے کامیاب ہوئے ان میں میں اول نمبر پر آئی۔

'ان نو امیدواروں میں سے مجھ سمیت دو امیدواروں کی سلیکشن اسسٹنٹ کمشنر اور سات کی سیکشن افسر کے طور پر ہوئی اور ان سب میں میں واحد خاتون تھی۔'ماریہ شمعون کون ہیں؟
ماریہ شمعون کا تعلق کوئٹہ شہر کے ایک غریب اور متوسط گھرانے سے ہے۔ ان کے والد شمعون مسیح کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈرائیور رہے اور 2016 میں ریٹائر ہوئے۔

غربت کے باعث نہ صرف ماریہ شمعون بلکہ ان کے تمام بہن بھائی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکے بلکہ تمام نے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔

ماریہ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سیٹلائٹ ٹاﺅن کوئٹہ سے حاصل کی۔ ایف ایس سی پری میڈیکل سائنس میں گورنمنٹ گرلز کالج سیٹلائیٹ ٹاﺅن سے جبکہ بی ایس سی گورنمنٹ گرلز کالج کواری روڈ سے کی۔

ایم ایس سی کے لیے انھوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان میں داخلہ لیا اور بائیو کمیسٹری میں ایم ایس سی کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔

بلوچستان میں مسیحی خاتون اسسٹنٹ کمشنر
ماریہ کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ سی ایس ایس کر کے ایڈمنسٹریٹو سروس میں آئیں لیکن وہ ممکن نہیں ہو سکا لیکن اب وہ محسوس کر رہی ہیں کہ خدا جو کچھ کرتا ہے وہ بہتر کرتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ 'پی سی ایس کے ذریعے ایڈمنسٹریٹو سروس میں آنے سے انھیں جو عزت ملی وہ شاید سی ایس ایس کے ذریعے بھی نہ ملتی۔ مجھے اپنے شہر اور بلوچستان بھر سے بہت زیادہ پزیرائی اور عزت ملی ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے والد نے کہا کہ یہ بات میری سوچ سے باہر تھی میں کسی اسسٹنٹ کمشنر کی باپ بنوں گا۔‘

ماریہ شمعون نے کہا کہ جب بلوچستان پبلک سروس کمیشن نے نتائج کا اعلان کیا تو اس وقت میں گھر میں موجود نہیں تھیں۔

'مجھے کامیابی کی اطلاع باہر ملی لیکن جب میں گھر پہنچی تو گھر میں جشن کا سماں تھا۔ میں نے دیکھا کہ والدین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ انھوں نے مجھے گلے لگالیا اور بہت زیادہ پیار کیا۔'

ماریہ شمعون نے کہا کہ اس وقت اپنے والدین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہیں رہی اور میں نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ اس عمر میں اپنے والدین کو خوشی کے آنسو دے سکی۔‘


انھوں نے کہا کہ 'میرے والد بہت خوش تھے۔ والد نے کہا کہ میں تو ایک ڈرائیور تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کا باپ بنوں گا یا میں کسی اسسٹنٹ کمشنر کا باپ ہوسکتا ہوں۔'

انھوں نے بتایا کہ میرے خاندان کے لوگوں کے چہروں پر جو خوشی تھی اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں اور جذبات کو الفاظ میں بیان بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

’والدین کی طرح ہماری کمیونٹی میں بھی اس کامیابی پر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا گیا اور خوشی کے اظہار کے طور پر چرچ میں تقاریب ہوئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہاں مجھے ہار پہنایا گیا اور کیمونٹی کی جانب سے بہت سارے تحفے اور تحائف دیے گئے۔

والدین کے جذبات
بیٹی کی اسسٹنٹ کمشنر بننے پر ماریہ کے والد شمعون مسیح اور والدہ انتہائی خوش ہیں۔

شمعون مسیح کا کہنا تھا کہ 'خدا نے میری محنتوں کو بارآور کیا۔ خدا نے مجھے سرفراز کیا کہ میری بیٹی آج اسسٹنٹ کمشنر بن گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو پڑھانے پر مجھے کافی مالی مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

’ان پریشانیوں اور مشکلات میں میری اہلیہ نے میرا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے آج ہمارے بچے کامیاب ہوئے۔‘

ماریہ کی والدہ کہتی ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں اس لائق کیا اور ہمارے بچوں کو اس قابل بنایا کہ آج ہم ان پر ہم فخر کر سکیں۔

22/02/2022

مارے والدین نے اچھا گھر اور اچھے کپڑے نہیں خریدے… کوئٹہ کی ماریہ شمعون کی اسسٹنٹ کمشنر بننے کی کہانی جس نے ہمت نہ ہاری

22/02/2022

شادی ایک ایسا بندھن ہے جس کے حوالے سے دنیا بھر کے ماہرین اس کی افادیت اور کامیابی کے بارے میں سالوں سے ریسرچ کر رہے ہیں مگر جس طرح انسانی فطرت کے بارے میں کچھ بھی اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوتا ہے-

میاں بیوی کی عمر کے دوران کتنا فرق اس شادی کو کامیاب بنا سکتا ہے اس کے حوالے سے بھی کافی ریسرچ کی گئی ہے اور اس کے مطابق اگر مرد ادھیڑ عمری میں یعنی چالیس سال کی عمر کے بعد اپنے سے کم عمر لڑکی سے شادی کر لیتا ہے اور ان کی عمر کے درمیان بیس سال تک کا فرق موجود ہوتا ہے تو یہ فرق اس مرد کی زندگی کے دس سال بڑھا سکتی ہے دوسرے لفظوں میں ماہرین کے اعداد و شمار کے مطابق جو مرد ادھیڑ عمری میں اپنے عمر سے کم عمر لڑکی سے شادی کرتے ہیں تو اس کے اچانک مرنے کے امکانات میں 20 فی صد تک کمی واقع ہو جاتی ہے-

کم عمر لڑکی سے شادی کے نتیجے میں زندگی بڑھنے کی وجوہات
ماہرین ازدواجیات اور ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق جو مرد اپنے سے کم عمر لڑکی سے شادی کرتے ہیں ان کی زندگی کس طرح سے بہتر ہو سکتی ہے- اس کی وجوہات کچھ اس طرح سے ہوتی ہیں-
ذہنی اثرات
انسان کی صحت کا انحصار اس کی نفسیات پر ہوتا ہے اگر وہ ذہنی طور پر خود کو جوان محسوس کرے گا تو قدرتی طور پر اس کی صحت پر بھی اس کا اثر پڑے گا- اس وجہ سے جو مرد ادھیڑ عمری میں کسی کم عمر لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں اس سے ان کی صحت پر مثبت اثرات اس لیے مرتب ہوتے ہیں کہ وہ نفسیاتی طور پر خوش ہوتے ہیں اور اس خوشی کا اثر ان کی صحت پر بھی پڑتا ہے-

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس شادی کے نتیجے میں نہ صرف ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کا بلڈ پریشر کنٹرول ہوتا ہے بلکہ اس طرح سے ان کے خون کا کولیسٹرول لیول بھی نارمل ہوتا ہے-

صحت کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے
جو افراد کم عمر لڑکی سے شادی کرتے ہیں وہ اپنے صحت کا دھیان پہلے سے زيادہ رکھنے لگتے ہیں تاکہ انہیں کسی قسم کی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اس وجہ سے اچھی دیکھ بھال کے سبب ان کی صحت کے مسائل میں کمی واقع ہوتی ہے جو ان کی عمر میں اضافے کا سبب بنتی ہے اور اچانک موت کے خطرے کو کم کرتی ہے-

کم عمر بیوی زيادہ اچھی دیکھ بھال کر سکتی ہے
اگر بیوی عمر میں کم ہو تو اس کا انرجی لیول بھی بہتر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ زيادہ بہتر طور پر اپنے لائف پارٹنر کا خیال رکھ سکتی ہے اور اس وجہ سے اچھی دیکھ بھال کے سبب مرد کی صحت میں بہتری نظر آتی ہے اور اس کی زںدگی میں اضافہ ہوتا ہے-زندگی کو ایک نیا مقصد حاصل ہوتا ہے
اگر ادھیڑ عمری میں مرد کسی کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھتا ہے تو اس طرح سے وہ ایک نئے تعلق سے بندھ جاتا ہے جس کے تحت اس کی زندگی کو ایک نیا مقصد مل جاتا ہے کہ اپنے لائف پارٹنر کو زندگی کے سکھ دینے ہیں- اس سے اس کو کام کرنے کا نیا حوصلہ ملتا ہے اور اس کی توانائی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے-

یہ تمام ایسی وجوہات ہیں جن کے سبب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ادھیڑ عمری میں اپنے سے کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کرنا نہ صرف صحت کے لیے بہتر ہوتا ہے بلکہ اس طرح سے مرد کی زندگی کی طوالت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے-

Address

Lahore

Telephone

+923090231646

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ameeq Monthly Newsletter posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ameeq Monthly Newsletter:

Share