27/12/2023
(Theory of Success)
از قلم محمد طیب گورائیہ
#=Aim
کامیابی کی طرف پہلا قدم آپ کا ایک خاصgoal یا Aim سیٹ کر لینا ہے یعنی اک خواب دیکھنا۔۔۔کچھ کر لینے اور کچھ بن جانے کا خواب۔۔۔ایسا Aim اور vision اپنی روح میں اتار لینا جس سے دنیا تمھیں پہچاننے لگے اور دنیا کہنے لگے کہ ”تم ہو“...اپنی existance دنیا پر عیاں کرنے کےلیے ایک مقصد حیات سیٹ کر لینا لازمی امر ہے۔جب ہمارا ٹارگٹ کلیئر ہوتا ہے تو چلنا آسان ہو جاتا ہے لہذا ضروری ہے اپنا واضح aim بنا لیں جس میں کوئی ambiguity نہ ہو۔
#=Resistance and Reactances
جب بھی ہم اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھنا شروع کرتے ہیں تو راستے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ان مشکلات سے نمٹنے کےلیے لازمی ہے کہ ہم pre plan کر لیں اور دماغ کو سمجھا دیں کہ مشکلات تو آئیں گی توان سے لڑنا بھی ہے۔راستے کی تمام رکاوٹیں یا رزسٹنسز ہی اصل میں ہمیں طاقت ور بناتی ہے اور یہ امتحان ہی بطور فلٹر کام کرتا ہے جو ہمیں بالکل pure بنا کے چھوڑتا ہے۔۔۔۔یہ مشکلات ہمیں slow down تو کر سکتی ہیں مگر مکمل طور پر بلاک نہیں کر سکتیں تو opposition سے ڈر کر رکنا ہے یا آگے بڑھنا ہے ،یہ ہم پر منحصر ہے۔
اقبال نے کہا تھا کہ
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہےراہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غم منزل نہ بن جاۓ۔۔
بس اسی سینے کی کھٹک،انٹرنل انرجی یا ہیٹ یا انٹرنل سپارک کو زندہ رکھنا ہے۔اندر کا الاؤ جتنا بڑا ہو گا آپ اتنے ہی بہترین mold ہوں گے۔
آتا ہے جو طوفاں آنے دو،کشتی کا خدا خود حافظ ہے
ممکن ہے ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جاۓ۔
#=Focus and Flow
جب کبھی راستے میں رزسٹنس کا سامنا کرنا پڑے دو کام کرنے ہیں پہلا فوکس اور دوسرا flow میں آنا ہے۔
فوکس کرنا ہے اپنی منزل پر نا کہ پرابلمز پر۔۔۔
اصل میں بعض اوقات ہم یوں الجھ جاتے ہیں کہ ہار کے ڈر سے یا راہ کے کانٹوں سے زخمی ہو کر دل چھوڑ جاتے ہیں۔اس phase سے نکلنا انتہائی آسان ہے وہ ہے فوکس کرنا منزل پر۔۔۔یعنی ہمیں پرابلم oriented نہیں ہونا بلکہ solution oriented ہوتا ہے کیونکہ ہماری مشکلات کا حل کہیں ناں کہیں ہماری مشکلات میں ہی چھپا ہوتا ہے تو بس اک الگ نظریے اور concept سے چلنا ہوتا ہے۔ جب ہمارا فوکس ہماری destination ہو گی تو ہم آؤٹ آف فوکس نہیں ہوں گے۔بالکل اسی طرح جس طرح ریس میں ایک ہی rule سمجھایا جاتا ہے کہ اپنے track اور اپنی دوڑ پر فوکس کرنا ہے اگر ادھر ادھر دیکھا تو race میں ہار ہی مقدر بنے گی۔
ہم جب اپنی game پر فوکس کر لیتے ہیں تو آٹو میٹک اک momentum gain کر لیتے ہیں اور اک flow میں آ جاتے ہیں پھر پریشر handling بھی آ جاتی ہے اور nerves بھی کنٹرول میں آ جاتی ہیں۔گیم win کرنے کا ایک بنیادی کلیہ کھلاڑی کو یہی دیا جاتا ہے کہ اپنی گیم پرفوکس کرنا ہے۔۔۔اور آگے بڑھنا ہے۔۔۔جس طرح جاوید میاں داد نے تماشائیوں کا پریشر نہ لیا اور آخری بال پر چھکا لگایا تھا کیونکہ اس کا فوکس تماشائی نہیں اس کی گیم تھی اور وہ اس flow میں تھا کہ اس نے six لگا دیا۔
ورلڈ کپ فائنل میں اک ویسٹ انڈین بلے باز نے 4 بالز پر 4 چھکے لگا دیے کیونکہ اس کا فوکس گیم پر تھا۔۔اسے منزل سامنے نظر آ رہی تھی اپنی imagination میں اس نے خود کو ٹرافی اٹھاتے محسوس کیا تو ایسا flow آیا کہ اس کا illusion اک realityبن گیا۔
تو یادرکھیے گا اگر لمبی innings کھیلنی ہے تو تماشائیوں پر نہیں پچ اور بال کے ساتھ اپنے بیٹ پر فوکس کرنا ہے۔آپ کی only innings ہی long innings بن جاۓ گی۔
#=Assessment and Analysis
بعض اوقات یہ ہو گا کہ سب کچھ perfect ہوتا ہے آپ کی تیاری بھی مکمل ہوتی ہے کوشش بھی کرتے ہیں مگر ہار جاتے ہیں یا ناکام ہو جاتے ہیں اس پوائنٹ پر آ کر لوگ su***de تک کر لیتے ہیں یا زندگی سے اکتا جاتے ہیں۔
اک ناکام اور کامیاب شخص کی زندگی میں بس اسی لمحے کے attitude کا فرق ہوتا ہے عین اس وقت جب ناکام لوگ اپنی ناکامی کا ملبہ حالات،واقعات،قسمت یا کسی دوسرے پر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ کامیاب لوگ analyis اور assessment کر کے اپنے strong پوائنٹس اور weak پوائنٹس یا خامیاں لکھ کر فیوچر کا لائحہ عمل تیار کر رہے ہوتے ہیں۔وہ ناکامی کا پوسٹ مارٹم کر کے اپنی دہرائی جانے والی چھوٹی سے چھوٹی mistake بھی اپنے ساتھ لکھ کر شیئر کر دیتے ہیں تو تہیہ کر لیتے ہیں کہ اگلی گیم میں یہ غلطی نہیں کرنی بالکل بین سٹوک کی طرح جو 4 چھکے کھا کر ورلڈ کپ ہار جاتا ہے اور پھر وہ اس دن روتا ہے ناکامی کا تجزیہ کرتا ہے خود کو پہلے سے زیادہ طاقت ور بناتا ہے اور وہ دن آتا ہے جب وہ دنیا کا بہترین بیٹسمن اور باؤلر ثابت ہوتا ہے اور اپنے ملک کےلیے اپنی بہترین پرفارمنس سے ورلڈ کپ جیتتا ہے پھر وہ جو خوشی کے آنسو چھلکتے ہیں دنیا دیکھتی ہے اور اس کےلیے اٹھ کر تالیاں بجاتی ہے کہ یہ ہوتا ہے حوصلہ۔۔۔۔
تو بس ہار جانے پر صرف صف ماتم بچھانی ہے یا اگلا پلن مرتب کرنا ہے یہ آپ کی choice ہے یاد رکھیے گا کہا جاتا ہے
life is from B to D ...i.e Birth to death...
تو Bاور D کے درمیان کیا ہے وہ ہے C اور C ہے چوائس choice..تو B سے betterکو choose کریں تاکہ D سے destination تک پہنچ سکیں
and Threats
کامیابی تک پہنچنے سے پہلے اک آخری مقام آتا ہے جسے threat کہتے۔۔۔۔یعنی Target سے پہلے اک threat موجود ہے۔۔۔
بہزاد لکھنوی نےکہا تھا
اے رہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جاۓ
تو بعض اوقات منزل سامنے پاکر ہم بہک جاتے ہیں یہ آخری threat وسوسہ ہوتا ہے اور قدرت ٹھیک طرح سے امتحان لینے کےلیے ہمیں جان بوجھ کر ایسا دھکا دیتی ہے کہ ہم نے شروع زیرو سے کیا ہوتا ہے مگر پہنچ نیگیٹیو پر جاتے ہیں۔تو اس آخری مرحلے کو پار کرنے کےلیے وہ جگرا چاہیے جس سے دریاؤں کے دل دہل جائیں۔۔وہ گرمی چاہیے جو پگھلا کے رکھ دے کائنات کو۔۔۔وہ جذبہ چاہیے جو ہواؤں کےرخ موڑ دے۔۔۔اس مرحلے پر مشکلات اردگرد آئیں گی ۔دل کرے گا واپسی کا سفر اختیار کر لیا جاۓ
راحت اندوروی نے کہا تھا
اب اس مقام پہ ہاتھوں کے آبلے دیکھیں۔۔
پہاڑ کاٹ لیا ہے،چٹان چھوڑ دیں ہم!!!
۔۔بابا اشفاق احمد کی بات یادرکھنی ہے یہاں پتر کتے بھونکنے کےلیے ہوتے ہیں راہ کے کتوں کی بھونک پر توجہ دینے سے منزل روٹھ جاتی ہے۔جاؤ آگے مگر اپنے پیچھے سے پھاٹک بند کر لینا ۔جب آپ اس اندھیرے میں بھی امید کا دامن تھام کر دوبارہ کمر باندھ لیتے تو رب سالوں کی محنت کا پھل لمحوں میں عطا کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اور پھربس اک لمحے میں معراج ہو جاتی ہے
*پہلی اڑان-از قلم محمد طیب گورائیہ*
سی-ای-او: این-پی-ایس