Umer Diary

Umer Diary Welcome to my world �

27/12/2023

(Theory of Success)
از قلم محمد طیب گورائیہ
#=Aim
کامیابی کی طرف پہلا قدم آپ کا ایک خاصgoal یا Aim سیٹ کر لینا ہے یعنی اک خواب دیکھنا۔۔۔کچھ کر لینے اور کچھ بن جانے کا خواب۔۔۔ایسا Aim اور vision اپنی روح میں اتار لینا جس سے دنیا تمھیں پہچاننے لگے اور دنیا کہنے لگے کہ ”تم ہو“...اپنی existance دنیا پر عیاں کرنے کےلیے ایک مقصد حیات سیٹ کر لینا لازمی امر ہے۔جب ہمارا ٹارگٹ کلیئر ہوتا ہے تو چلنا آسان ہو جاتا ہے لہذا ضروری ہے اپنا واضح aim بنا لیں جس میں کوئی ambiguity نہ ہو۔

#=Resistance and Reactances
جب بھی ہم اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھنا شروع کرتے ہیں تو راستے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ان مشکلات سے نمٹنے کےلیے لازمی ہے کہ ہم pre plan کر لیں اور دماغ کو سمجھا دیں کہ مشکلات تو آئیں گی توان سے لڑنا بھی ہے۔راستے کی تمام رکاوٹیں یا رزسٹنسز ہی اصل میں ہمیں طاقت ور بناتی ہے اور یہ امتحان ہی بطور فلٹر کام کرتا ہے جو ہمیں بالکل pure بنا کے چھوڑتا ہے۔۔۔۔یہ مشکلات ہمیں slow down تو کر سکتی ہیں مگر مکمل طور پر بلاک نہیں کر سکتیں تو opposition سے ڈر کر رکنا ہے یا آگے بڑھنا ہے ،یہ ہم پر منحصر ہے۔
اقبال نے کہا تھا کہ
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہےراہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غم منزل نہ بن جاۓ۔۔
بس اسی سینے کی کھٹک،انٹرنل انرجی یا ہیٹ یا انٹرنل سپارک کو زندہ رکھنا ہے۔اندر کا الاؤ جتنا بڑا ہو گا آپ اتنے ہی بہترین mold ہوں گے۔
آتا ہے جو طوفاں آنے دو،کشتی کا خدا خود حافظ ہے
ممکن ہے ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جاۓ۔

#=Focus and Flow
جب کبھی راستے میں رزسٹنس کا سامنا کرنا پڑے دو کام کرنے ہیں پہلا فوکس اور دوسرا flow میں آنا ہے۔
فوکس کرنا ہے اپنی منزل پر نا کہ پرابلمز پر۔۔۔
اصل میں بعض اوقات ہم یوں الجھ جاتے ہیں کہ ہار کے ڈر سے یا راہ کے کانٹوں سے زخمی ہو کر دل چھوڑ جاتے ہیں۔اس phase سے نکلنا انتہائی آسان ہے وہ ہے فوکس کرنا منزل پر۔۔۔یعنی ہمیں پرابلم oriented نہیں ہونا بلکہ solution oriented ہوتا ہے کیونکہ ہماری مشکلات کا حل کہیں ناں کہیں ہماری مشکلات میں ہی چھپا ہوتا ہے تو بس اک الگ نظریے اور concept سے چلنا ہوتا ہے۔ جب ہمارا فوکس ہماری destination ہو گی تو ہم آؤٹ آف فوکس نہیں ہوں گے۔بالکل اسی طرح جس طرح ریس میں ایک ہی rule سمجھایا جاتا ہے کہ اپنے track اور اپنی دوڑ پر فوکس کرنا ہے اگر ادھر ادھر دیکھا تو race میں ہار ہی مقدر بنے گی۔
ہم جب اپنی game پر فوکس کر لیتے ہیں تو آٹو میٹک اک momentum gain کر لیتے ہیں اور اک flow میں آ جاتے ہیں پھر پریشر handling بھی آ جاتی ہے اور nerves بھی کنٹرول میں آ جاتی ہیں۔گیم win کرنے کا ایک بنیادی کلیہ کھلاڑی کو یہی دیا جاتا ہے کہ اپنی گیم پرفوکس کرنا ہے۔۔۔اور آگے بڑھنا ہے۔۔۔جس طرح جاوید میاں داد نے تماشائیوں کا پریشر نہ لیا اور آخری بال پر چھکا لگایا تھا کیونکہ اس کا فوکس تماشائی نہیں اس کی گیم تھی اور وہ اس flow میں تھا کہ اس نے six لگا دیا۔
ورلڈ کپ فائنل میں اک ویسٹ انڈین بلے باز نے 4 بالز پر 4 چھکے لگا دیے کیونکہ اس کا فوکس گیم پر تھا۔۔اسے منزل سامنے نظر آ رہی تھی اپنی imagination میں اس نے خود کو ٹرافی اٹھاتے محسوس کیا تو ایسا flow آیا کہ اس کا illusion اک realityبن گیا۔
تو یادرکھیے گا اگر لمبی innings کھیلنی ہے تو تماشائیوں پر نہیں پچ اور بال کے ساتھ اپنے بیٹ پر فوکس کرنا ہے۔آپ کی only innings ہی long innings بن جاۓ گی۔

#=Assessment and Analysis

بعض اوقات یہ ہو گا کہ سب کچھ perfect ہوتا ہے آپ کی تیاری بھی مکمل ہوتی ہے کوشش بھی کرتے ہیں مگر ہار جاتے ہیں یا ناکام ہو جاتے ہیں اس پوائنٹ پر آ کر لوگ su***de تک کر لیتے ہیں یا زندگی سے اکتا جاتے ہیں۔

اک ناکام اور کامیاب شخص کی زندگی میں بس اسی لمحے کے attitude کا فرق ہوتا ہے عین اس وقت جب ناکام لوگ اپنی ناکامی کا ملبہ حالات،واقعات،قسمت یا کسی دوسرے پر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ کامیاب لوگ analyis اور assessment کر کے اپنے strong پوائنٹس اور weak پوائنٹس یا خامیاں لکھ کر فیوچر کا لائحہ عمل تیار کر رہے ہوتے ہیں۔وہ ناکامی کا پوسٹ مارٹم کر کے اپنی دہرائی جانے والی چھوٹی سے چھوٹی mistake بھی اپنے ساتھ لکھ کر شیئر کر دیتے ہیں تو تہیہ کر لیتے ہیں کہ اگلی گیم میں یہ غلطی نہیں کرنی بالکل بین سٹوک کی طرح جو 4 چھکے کھا کر ورلڈ کپ ہار جاتا ہے اور پھر وہ اس دن روتا ہے ناکامی کا تجزیہ کرتا ہے خود کو پہلے سے زیادہ طاقت ور بناتا ہے اور وہ دن آتا ہے جب وہ دنیا کا بہترین بیٹسمن اور باؤلر ثابت ہوتا ہے اور اپنے ملک کےلیے اپنی بہترین پرفارمنس سے ورلڈ کپ جیتتا ہے پھر وہ جو خوشی کے آنسو چھلکتے ہیں دنیا دیکھتی ہے اور اس کےلیے اٹھ کر تالیاں بجاتی ہے کہ یہ ہوتا ہے حوصلہ۔۔۔۔
تو بس ہار جانے پر صرف صف ماتم بچھانی ہے یا اگلا پلن مرتب کرنا ہے یہ آپ کی choice ہے یاد رکھیے گا کہا جاتا ہے
life is from B to D ...i.e Birth to death...
تو Bاور D کے درمیان کیا ہے وہ ہے C اور C ہے چوائس choice..تو B سے betterکو choose کریں تاکہ D سے destination تک پہنچ سکیں

and Threats
کامیابی تک پہنچنے سے پہلے اک آخری مقام آتا ہے جسے threat کہتے۔۔۔۔یعنی Target سے پہلے اک threat موجود ہے۔۔۔
بہزاد لکھنوی نےکہا تھا
اے رہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جاۓ
تو بعض اوقات منزل سامنے پاکر ہم بہک جاتے ہیں یہ آخری threat وسوسہ ہوتا ہے اور قدرت ٹھیک طرح سے امتحان لینے کےلیے ہمیں جان بوجھ کر ایسا دھکا دیتی ہے کہ ہم نے شروع زیرو سے کیا ہوتا ہے مگر پہنچ نیگیٹیو پر جاتے ہیں۔تو اس آخری مرحلے کو پار کرنے کےلیے وہ جگرا چاہیے جس سے دریاؤں کے دل دہل جائیں۔۔وہ گرمی چاہیے جو پگھلا کے رکھ دے کائنات کو۔۔۔وہ جذبہ چاہیے جو ہواؤں کےرخ موڑ دے۔۔۔اس مرحلے پر مشکلات اردگرد آئیں گی ۔دل کرے گا واپسی کا سفر اختیار کر لیا جاۓ
راحت اندوروی نے کہا تھا
اب اس مقام پہ ہاتھوں کے آبلے دیکھیں۔۔
پہاڑ کاٹ لیا ہے،چٹان چھوڑ دیں ہم!!!
۔۔بابا اشفاق احمد کی بات یادرکھنی ہے یہاں پتر کتے بھونکنے کےلیے ہوتے ہیں راہ کے کتوں کی بھونک پر توجہ دینے سے منزل روٹھ جاتی ہے۔جاؤ آگے مگر اپنے پیچھے سے پھاٹک بند کر لینا ۔جب آپ اس اندھیرے میں بھی امید کا دامن تھام کر دوبارہ کمر باندھ لیتے تو رب سالوں کی محنت کا پھل لمحوں میں عطا کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اور پھربس اک لمحے میں معراج ہو جاتی ہے

*پہلی اڑان-از قلم محمد طیب گورائیہ*
سی-ای-او: این-پی-ایس

24/12/2023

کوئی شوہر اپنی بیوی سے پاگل پن کی حد تک پیار کیسے کر سکتا ہے؟
ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو

جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا

🍀 خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟

کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟

یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟

یا ڈھیر سارے سارے بچوں کا ہونا اس کی وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟

🍀 بوڑھی خاتون نے جواب دیا : پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار و مدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے ہاتھ میں ہے، عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور وہ چاہے تو اس کے برعکس یعنی جہنم بھی بنا سکتی ہے.

اس سلسلے میں مال کا نام مت لیجیے،
بہت ساری مالدار عورتیں جن کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، شوہر ان سے بھاگا بھاگا رہتا ہے

خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے دسیوں بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے

بہت ساری خواتین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں، دن دن بھر کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے

🍀 انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی، اس نے پوچھا :
پھر آخر اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے ؟

🍀بوڑھی خاتون نے جواب دیا : جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں.

ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے

🍀 نامہ نگار خاتون نے پوچھا : ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟

🍀 بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں، ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے بھاگ رہی ہیں،
اسے سننا بھی نہیں چاہتی ہیں.

ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے.

🍀 جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں :
پوری ہو گئی آپ کی بات ؟

پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں

کیونکہ شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے.

میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں.

🍀 خاتون صحافی نے پوچھا : اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت نہیں کرتی ہیں؟

🍀 بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں !

اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے،

یہ دودھاری ہتھیار ہے،
جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی.

🍀 صحافی نے پوچھا : پھر آپ کیا کرتی ہیں؟

🍀 بوڑھی خاتون بولیں :
میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لے کر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں: پی لیجیے.

حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے.

پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں.

وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟

میں کہتی ہوں : نہیں.
اس کے بعد اس کا رویہ ٹھیک ہونا شروع ہو جاتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ مگر میں نے کبھی اپنے شوہر کو جھکانے کی کوشش نہیں کی ۔ہمیشہ اسے سربلند ہی رکھا ۔

انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا : اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟

🍀 بوڑھی خاتون بولیں : بالکل، میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں، مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے.

کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟

خاتون صحافی نے پوچھا : اور آپ کی عزت نفس (self respect) ؟

🍀 بوڑھی خاتون بولیں :

پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اسی وقت ہے
جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو
اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو

دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی

جب مرد و عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر الگ سی عزت نفس کیسی ؟؟

منقول

22/12/2023

ہے زمین زرخیز اب تو یہ غلاموں کے لیے
اب نہیں رہنے کے قابل یہ جوانوں کے لیے

ہم غریبوں کے کریں گے فیصلے تقدیر کے
منتظر ہیں سب لٹیرے اب ایوانوں کے لیے

جب میرے اپنے محافظ ہی میرے دشمن ہوئے
کچھ نہیں ہیں اب یہ تالے ان مکانوں کے لیے

22/12/2023

( سائنس کی نظر میں )
تدفین کے ایک دن بعد یعنی ٹھیک 24 گھنٹے بعد انسان کی آنتوں میں ایسے کیڑوں کا گروہ سرگرم عمل ہو جاتا ہے جو مردے کے پاخانہ کے راستے سے نکلنا شروع ہو جاتا ہے،
ساتھ نا قابل برداشت بدبو پھیلنا شروع کرتا ہے،
جوکہ در اصل اپنے ہم پیشہ کیڑوں کو دعوت دیتے ہیں۔

یہ اعلان ہوتے ہی بچھو اور تمام کیڑے مکوڑے انسان کے جسم کی طرف حرکت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور انسان کا گوشت کھانا شرو ع کر دیتے ہیں۔

تدفین کے 3 دن بعد سب سے پہلے ناک کی حالت تبدیل ہونا شرو ع ہو جاتی ہے۔
6 دن بعد ناخن گرنا شرو ع ہو جاتے ہیں۔
9 دن کے بعد بال گرنا شرو ع ہو جاتے ہیں۔
انسان کے جسم پر کوئی بال نہیں رہتا اور پیٹ پھولنا شروع ہو جاتا ہے۔
17 دن بعد پیٹ پھٹ جاتا ہے اور دیگر اجزاء باہر آنا شرو ع ہو جاتے ہیں۔
60 دن بعد مردے کے جسم سے سارا گوشت ختم ہو جاتا ہے۔ انسان کے جسم پر بوٹی کا ایک ٹکڑا باقی نہیں رہتا۔
90 دن بعد تمام ہڈیاں ایک دوسرے سے جدا ہونا شرو ع ہو جاتی ہیں۔
ایک سال بعد ہڈیاں بوسیدہ ہو جاتی ہیں،
اور بالآخر جس انسان کو دفنایا گیا تھا اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
۔
تو میرے دوستوں غرور، تکبر، حرص، لالچ، گھمنڈ، دشمنی، حسد، بغض، جلن، عزت، وقار، نام، عہدہ، بادشاہی،
یہ سب کہاں جاتا ہے؟
سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے

انسان کی حیثیت ہی کیا ہے؟
مٹی سے بنا ہے، مٹی میں دفن ہو کر مٹی ہو جاتا ہے۔
پانچ یا چھ فٹ کا انسان قبر میں جا کر بے نام و نشان ہو جاتا ہے۔۔۔
دنیا میں اکڑ کر چلنے والا،
اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنے والا
دوسروں کو حقیر سمجھنے والا
دنیا پر حکومت کرنے والا
قبر میں آتے ہی اس کی حیثیت، صرف "مٹی" رہ جاتی ہے

لہٰذا انسان کو اپنی ابدی اور ہمیشہ کی زندگی کو خوبصورت اور پرسکون بنانے کے لئے ہرلمحہ فکر کرنی چاہیئے،
اللہ کو یاد کرنا چاہیئے،
ہر نیک عمل اور عبادت میں اخلاص پیدا کرنا چاہیئے
اور
خاتمہ بالخیر کی دعا کرنی چاہیئے۔۔۔!
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین

22/12/2023

بلراج ساہنی بالی ووڈ کے نامور اداکار تھے‘ ایک وقت تھا جب سینما کا دوسرا نام بلراج ساہنی تھا اور بلراج ساہنی کو سینما کہا جاتا تھا‘ یہ 1913میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے ‘ گارڈن کالج میں پڑھتے رہے‘ پھرگورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے‘ وہاں سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا‘ راولپنڈی واپس آئے‘ شادی کی اور بیگم کو لے کر بنگال چلے گئے اور رابندر ناتھ ٹیگور کی یونیورسٹی شانتی نیکیتن میں انگریزی پڑھانے لگے۔

مہاتما گاندھی سے رابطہ ہوا‘ گاندھی جی نے انھیں لندن بھجوا دیا اور یہ بی بی سی میں بھرتی ہو گئے‘ وہاں سے ان کا صداکاری اور اداکاری کا کیریئر شروع ہو گیا اور پھر بلراج ساہنی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ ان کی فلمیں دھرتی کے لعل‘ دو بیگہ زمین‘ چھوٹی بہن‘ کابلی والا‘ وقت اور گرم ہوا برصغیر پاک وہند میں جدید سینما کی بنیاد ثابت ہوئیں‘ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان بھارت شفٹ ہو گیا‘ بلراج ساہنی 1973میں ممبئی میں فوت ہوئے لیکن یہ مرنے تک راولپنڈی اور لاہور کو یاد کرتے رہے۔

اداکاری کے علاوہ مصنف بھی تھے‘ انگریزی‘ ہندی اور اردو تینوں زبانوں میں روانی سے لکھتے تھے اور لوگ ان کی تحریریں بھی پڑھتے تھے‘ یہ 1962 میں اپنے کیریئر کی پیک پر پاکستان کے دورے پر آئے تھے‘ گورنمنٹ کالج ان کا میزبان تھا‘یہ 10 اکتوبر 1962 کو لاہور پہنچے اور انھوں نے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر لیٹ کر اس کی مٹی چوم کر اپنے وزٹ کا آغاز کیا‘ یہ پیدل چل کر گورنمنٹ کالج بھی پہنچے تھے۔
اس وقت یہ پاکستان میں بھی بہت مقبول تھے چناں چہ ہر جگہ لوگوں نے ان کا کھلے دل سے استقبال کیا اور ان پر اپنی محبتیں نچھاور کیں‘ ڈاکٹر نذیر احمد اس وقت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے‘ یہ اپنے زمانے کے انتہائی مشہور معلم اور دانشور تھے‘ فیض احمد فیض جیسے مشاہیر بھی ان کے سامنے بولنے سے پہلے ان سے اجازت لیتے تھے‘ ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج ہی میں رہتے تھے‘ انھوں نے بلراج ساہنی کے لیے اپنا بیڈ روم خالی کر دیا اور انھیں اس میں ٹھہرا دیا‘ یہ بلراج کے لیے اعزاز کی بات تھی۔

بلراج ساہنی نے کمرے میں جا کر جب اپنے سوٹ کیس کھولے اور اپنے کپڑے لٹکانے چاہے تو اسے کمرے میں وارڈروب نہیں ملی‘ وہ کپڑے اٹھا کر پورے کمرے میں پھرتے رہے مگر ڈاکٹر نذیر احمد کے بیڈروم میں کپڑوں کی الماری نہیں تھی‘ انھوں نے آخر میں ڈاکٹر نذیر احمد سے پوچھا ’’سر آپ اپنے کپڑے کہاں لٹکاتے ہیں‘‘ ڈاکٹر نذیر احمد شرمندہ ہو کر بولے‘ بلراج صاحب میں معافی چاہتا ہوں میرے کمرے میں وارڈروب نہیں ہے‘ بلراج نے دوبارہ پوچھا پھر آپ اپنے کپڑے کہاں لٹکاتے ہیں؟

ڈاکٹر صاحب کے جواب نے بھارت کے سب سے بڑے اداکار کو حیران کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’یار میرے پاس اتنے کپڑے ہی نہیں ہوتے کہ میں وارڈروب کی مصیبت پال لوں‘‘ یہ سن کر بلراج دیر تک ان کی طرف دیکھتے رہے‘ کیوں؟ کیوں کہ وہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے اور یہ وہ ادارہ تھا جس سے پورے ہندوستان کا فیشن شروع ہوتا تھا۔

بلراج ساہنی نے تحقیق کی تو پتا چلا ڈاکٹر صاحب کے پاس صرف دو سوٹ ہیں‘ ایک لانڈری میں ہوتا ہے اور دوسرا وہ پہن لیتے ہیں‘ سلیپنگ سوٹ وہ باتھ روم میں لٹکائے رکھتے ہیں‘ جوتا وہ چار پانچ سال کے لیے خریدتے ہیں‘ خراب ہو جائے تو اس کی مرمت کرا لیتے ہیں‘ زیادہ خراب ہو جائے تومجبوری میں نیا خرید لیتے ہیں اور جب تک وہ بھی مکمل طور پر جواب نہیں دیتا وہ اس کا استعمال بھی جاری رکھتے ہیں۔

یہ 1960کی دہائی میں گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور ملک کے بڑے دانشور کا لائف اسٹائل تھا اور وہ ایسے پرنسپل تھے جو صدر ایوب خان کو بھی امتحان کے دنوں میں کیمپس آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے‘ انھوں نے گورنمنٹ کالج کی تین اطراف کی سڑکوں پر ہارن بجانے پر پابندی لگائی اور یہ پابندی 30 سال قائم رہی تھی لیکن آپ اس شخص کی سادگی دیکھیں‘ اس کے کمرے میں وارڈروب نہیں تھی‘ اب سوال یہ ہے کیا ڈاکٹر صاحب سادگی کے سلسلے کے واحد مجدد تھے؟

جی نہیں‘ دنیا کا ہر بڑا انسان اور بڑا معاشرہ ڈاکٹر صاحب کی طرح سادہ ہوتا ہے‘کیوں؟ کیوں کہ سادگی ذہانت کا آخری درجہ ہوتا ہے‘ انسانی ذہانت کے پانچ درجے ہوتے ہیں‘ پہلے درجے کے انسانوں کوا سمارٹ کہا جاتا ہے‘ دوسرے درجے میں ذہین لوگ آتے ہیں‘ یہ (Intelligent) ہوتے ہیں‘ تیسرے درجے میں بریلینٹ (Brilliant) آتے ہیں‘ چوتھا لیول جینئس یعنی آئن اسٹائن قسم کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ انسانی ذہانت کا آخری درجہ سادگی ہوتا ہے۔

سادگی ذہانت کی پیک ہوتی ہے‘ شاید یہی وجہ ہے دنیا کے تمام نبی‘ اولیاء کرام‘ سائنس دان اور بین الاقوامی لیڈر سادہ تھے‘ یہ چھوٹے کمروں میں انتہائی ضرورت کی چیزوں کے ساتھ زندگی گزارتے رہے‘ بڑے معاشرے بھی سادہ ہوتے ہیں‘ میں اس سلسلے میں جاپان‘ چین اور جرمنی کی مثال دوں گا‘ یہ تینوں دنیا کی بڑی معیشتیں ہیں لیکن ان کے لوگ انتہائی سادہ اور عاجز ہیں‘ آپ ان سے راستہ بھی پوچھیں گے تو یہ ہاتھ جوڑ کر آپ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے‘ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اور کم سے کم وسائل میں زندگی گزارتے ہیں‘ ہمارے شہروں میں آج بھی لنڈے کے کپڑے بکتے ہیں‘ یہ کپڑے امیر ملکوں کے عوام کے ’’گفٹ‘‘ ہوتے ہیں۔

یورپین لوگ ہر سال اپنے فالتو کپڑے این جی اوز کے حوالے کرتے ہیں اور این جی اوز انھیں تیسری دنیا کے ملکوں میں بھجوا دیتی ہیں‘ جاپان میں سیکنڈا سٹریٹ کے نام سے اسٹورز کی ایک چین ہے‘ اس میں سیکنڈ ہینڈ اشیاء بکتی ہیں‘ آپ کو وہاں جرابوں سے لے کر رولیکس کی گھڑیاں تک مل جاتی ہیں‘ جاپانی لوگ تھوڑا عرصہ استعمال کے بعد اشیاء کو آدھی قیمت میں بیچ دیتے ہیں اور اسٹورز انھیں دوبارہ فروخت کر دیتے ہیں اور انھیں استعمال کرتے ہوئے کسی کو برا نہیں لگتا۔

آپ کو یہ سادگی دنیا کے بڑے لوگوں میں بھی ملتی ہے‘ مرار جی ڈیسائی بھارت کے وزیراعظم تھے‘ ان کے بارے میں مشہور تھا ان کے پاس دو پائجامے اور تین کرتے تھے‘ یہ برسوں یہ کپڑے پہنتے رہے‘ جب وہ پھٹ گئے تو ان کی بیگم نے کرتے کاٹ کر رومال بنا دیے اور ڈیسائی صاحب باقی زندگی وہ رومال استعمال کرتے رہے‘ ایپل کمپنی کے بانی اور مالک سٹیو جابز نے پوری زندگی جینز کی سستی پینٹ اور دس ڈالر کی سیاہ شرٹ پہنی‘ اس کے کمرے میں فرنیچر بھی نہیں تھا‘ وہ فرش پر سوتا تھا اور انتہائی تھوڑی اور سستی خوراک کھاتا تھا۔

مرنے کے بعد اس کی وارڈروب سے تین جوتے‘ دو پینٹس اور پانچ گھسی ہوئیں سلیولیس شرٹس ملیں‘ بل گیٹس کے کپڑے بھی سادہ اور سستے ہوتے ہیں‘ آپ اسے تین رنگوں کے سستے سوٹ میں دیکھیں گے اور یہ سوٹس بھی برسوں استعمال ہوتے ہیں‘ وارن بفٹ آج بھی پرانے گھر میں رہتا ہے‘ پرانے سوٹس پہنتا ہے اور ساڑھے پانچ ڈالر کا میکڈونلڈ کا برگر کھاتا ہے‘ دنیا کے اس وقت کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے اپنے تمام گھر (مالیت 134 ملین ڈالر) بیچ دیے ہیں اور اب اس کا کوئی ملکیتی گھر نہیں ہے۔

یہ آفس کے چھوٹے سے کمرے میں رہتا ہے اور اس کا لائف اسٹائل عام مڈل کلاس امریکی سے بھی پست ہے‘ پاکستان کے اندر بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں‘ عبدالستار ایدھی صاحب نے پوری زندگی مُردوں کے جوتے اور کپڑے پہنے‘ ان کی ٹوپی کی مالیت بھی دو روپے ہوتی تھی لیکن اس شخص نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بنا ئی‘ زندہ لوگوں میں سید بابر علی کمال انسان ہیں‘ یہ 97 سال کی عمر میں بھی لمز میں ایسے ڈیپارٹمنٹس بنا رہے ہیں جو دس سال بعد مکمل ہوں گے لیکن آپ ان کے کپڑے اور جوتے دیکھ لیں آپ حیران رہ جائیں گے‘ یہ گاڑی بھی سستی استعمال کرتے ہیں۔

سیٹھ عابد بھی سادگی کی مثال تھے‘ میں نے انھیں ہمیشہ ایک ہی قسم کی شلوار قمیض میں دیکھا‘ میں نے ان سے ایک بار وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا جب دو تین شلوار قمیضوں میںگزارہ ہو سکتا ہے تو پھر مجھے اپنی الماری بھرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں ریڈ فائونڈیشن کے بانی محمود صاحب سے بہت متاثر ہوں‘ اس شخص نے ملک میں چار سو اسکول اور کالج بنائے‘ اس وقت بھی ان کے اسکولوں میں ڈیڑھ لاکھ طالب علم پڑھ رہے ہیں مگر آپ اس شخص کی سادگی دیکھیں۔

انھوں نے 30سال بعد بھی وہی سویٹر پہنا ہوا تھا جو انھوں نے پہلے اسکول کے افتتاح پر پہنا تھا‘ ان سے جب وجہ پوچھی گئی تو ان کا جواب تھا سویٹر کا کام سردی روکنا ہوتا ہے اور اگر میرا سویٹر یہ کام کر رہا ہے تو پھر مجھے نیا خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے رقم بھی ضایع ہو گی‘ اسے محفوظ رکھنے کی کوفت بھی اٹھانی پڑے گی اور کسی ایسے شخص کی حق تلفی بھی ہو گی جس کے پاس سویٹر نہیں ہے‘ یہ سن کر میرا دل چاہا میں آگے بڑھ کر ان کا سویٹر چوم لوں۔

میں نے ایک بار حساب لگایا‘ میں سردیوں میں کتنی جیکٹس اور سویٹرز استعمال کرتا ہوں‘ پتا چلا سردیوں کے صرف تین ماہ ہوتے ہیں اور ان میں بھی شدید سردی صرف 20 دن پڑتی ہے‘ میں ان میں صرف دو جیکٹس پہنتا ہوں‘ ایک ہلکی سردی کے دوران اور دوسری شدید سردی میں‘ اس کے بعد اگلا سوال تھا پھر میرے پاس اتنے سویٹر اور جیکٹس کیوں ہیں؟

میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا‘ یقینا میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن کی ذہنی افلاس ختم نہیں ہو سکی اور یہ وارڈروبز کو ناک تک بھر کر خود کو رئیس سمجھتے ہیں اور ’’وارڈروب بھرو‘‘ کے اس کھیل میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وارڈروبز والے لوگ بڑے نہیں ہوتے‘ بڑے وہ ہوتے ہیں جن کے کمروں میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی طرح وارڈ روبز نہیں ہوتیں‘ یہ جانتے ہیں ضرورتیں محدود ہوتی ہیں لیکن ہوس کی کوئی حد نہیں ہوتی.

14/10/2023

💊 English Plus

💊 There are many benefits of studying at night, some of which may surprise you. Here are a few:

🟰 Less distractions:
The night is often a quieter and more peaceful time, which can make it easier to focus on your studies. There are fewer people around, and there is less noise and activity. This can be especially helpful if you are easily distracted.

🟰Optimal brain function: Some people find that their brains function better at night. This is because the body's natural sleep-wake cycle peaks in the early morning hours, but some people may experience this peak later in the evening. If you are one of these people, you may find that you are more alert and focused when you study at night.

🟰Enhanced creativity:
The quiet and solitude of the night can be conducive to creative thinking. If you are working on a creative project, such as writing a paper or designing a presentation, you may find that you have better ideas when you study at night.

🟰Flexibility:
If you are a night owl, studying at night can give you more flexibility in your schedule. You can study when you are most alert and productive, without having to worry about conflicting with other commitments.

🟰Enhanced memory retention:
Studies have shown that information learned at night can be better retained than information learned during the day. This is because the brain undergoes a unique processing of memories during sleep.

Of course, there are also some potential drawbacks to studying at night. If you are not a natural night owl, you may find it difficult to stay awake and focused. And if you study too late at night, you may not get enough sleep, which can impact your performance the next day.

Overall, whether or not you should study at night depends on your individual preferences and circumstances. If you find that you are more productive and focused at night, then go for it! But if you find that you are struggling to stay awake or alert, it may be better to study during the day.

💊 Here are some tips for making studying at night more enjoyable and productive:

▪️ Create a comfortable and inviting study space. This could be your bedroom, a library, or any other place where you feel relaxed and focused.

▪️Set aside specific times to study each night. This will help you to stay on track and avoid procrastination.

▪️Take breaks every 20-30 minutes to avoid burnout. Get up and move around, or take a few minutes to stretch or meditate.

▪️Reward yourself for your hard work. This could be anything from taking a hot bath to watching your favorite TV show.

05/10/2023

*کیا زمین کے نیچے دوسری زمین پر لوگ آباد ہیں*

______کبھی لگتا ہے اس جگہ پہلے آیا ہوں جبکہ ایسا نہیں ہوتا اس کی کیا وجہ ہوتی ہے______

عراق کے ایک صحراء کی ہے جہاں صحراء میں زمین کی گہرائی کے اندر جنگل دریافت ہوا.
اور دوسرا چائنہ جہاں زمین سے179 میٹر گہرائی میں ایک جنگل دریافت ہوا ہے!
زیرِ زمین الگ دنیاؤں کا وجود ممکن ہے بلکہ بعض اوقات اس کا ثبوت ہمیں ملتا ہے

مگر وہ لوگ جن کا دنیا پر قبضہ ہے اس کو چھپا رکھتے ہیں

مثلا دو سبز رنگ کے بہن بھائیوں کا قصہ مشہور ہے جو زمین کے اندر سے آئے تھے وہ سبز رنگ کے تھے صرف سبزہ کھاتے تھے
ہماری دنیا کی آب و ہوا موافق نہ آنے کی وجہ سے پہلے لڑکی مر گئی پھر چند سال لڑکا زندہ رہا وہ بھی مر گیا

اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہٹلر زیر زمین دنیا کی کھوج میں فوجیں بگھاتا رہتا تھا جس میں اسے کچھ حد تک کامیابی بھی ملی تھی

مزے کی بات ہے کہ حدیث پاک میں بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ اللہ رب العزت کی کچھ مخلوقات ایسی جگہ آباد ہیں جہاں پر سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی
سات زمینیں حقیقت میں ہیں
خریدۃ العجائب میں ابن الوردی نے اس کا ذکر کیا ہے

اب یہ بھی ممکن ہے کہ ہر زمین دوسری سے لاکھوں کلومیٹر دور ہو
اور یہ بھی ممکن ہے کہ بالکل اوپر نیچے ہوں اور ہماری زمین سب سے اوپر ہے کیونکہ سب سے افضل و اشرف ہے
اس کے نیچے زمینوں پر دوسری مخلوقات ہوں!
یہ بھی ممکن ہے کہ ساتوں زمینوں میں ہم جیسے ہمارے نام و کام و شکل و صورت جیسے لوگ آباد ہوں
کبھی کبھی بندہ پہلی بار کوئی کام کرنے لگتا ہے تو خیال آتا ہے یہ کام پہلے کیا ہوا ہے
یا کسی جگہ پر پہلی بار جاتا ہے تو مدھم سا یاد پڑتا ہے یہاں پہلے بھی آیا ہوں
حالانکہ نہ وہ کام پہلے کیا ہوتا ہے نہ اس جگہ بندہ گیا ہوتا ہے
اسے سائنسی زبان میں Deja vu کہتے ہیں
اور یہ تقریبا ہر انسان کے ساتھ زندگی میں ایک دو بار تو ہوتا ہے
مجھے خود اس کا تجربہ ہوا ہے
اس کی حقیقت کیا ہے وہ تو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں
ہماری ناقص رائے میں ممکن ہے کسی اور زمین پر ہماری شکل و صورت و نام والا بندہ وہ کام پہلے کر چکا ہو
اس کا ہماری ذات سے کچھ نہ کچھ تعلق ہوتا ہے جس کی بناء پر ہمیں محسوس ہوتا ہے ہم یہ کر چکے ہیں جبکہ ہم نہیں وہ دوسرا بندہ کر چکا ہوتا ہے
اس کی دلیل وہ حدیث پاک ہے جو مستدرک حاکم میں ہے
سَبْعَ أَرَضِينَ فِي كُلِّ أَرْضٍ نَبِيٌّ كَنَبِيِّكُمْ ، وَآدَمُ كآدمَ ، وَنُوحٌ كَنُوحٍ، وَإِبْرَاهِيمُ كَإِبْرَاهِيمَ، وَعِيسَى كَعِيسَى
سات زمینیں ہیں ہر زمین میں تمہارے نبی جیسا ایک نبی ہے تمہارے آدم جیسا ایک آدم ہے تمہارے نوح جیسا ایک نوح ہے تمہارے ابراھیم جیسا ایک ابراھیم ہے تمہارے موسی جیسا ایک موسی ہے
(علی نبینا و علیھم الصلوۃ و السلام)
ممکن جس طرح ہماری اس زمین کے انبیاء کرام علیھم السلام کے ہم نام وہاں ہیں اسی طرح وہاں ہماری امت کے ہم نام بھی ہوں گے!
اب ایک اشکال کا حل باقی رہ گیا کہ اس حدیث سے ختم نبوت پر حرف آتا ہے تو اس کی تاویل وہی جس کا اشارہ اوپر میں نے کر دیا ہے کہ ان زمینوں کا وقت ہماری زمین سے پہلے کا ہے
یعنی وہاں کام پہلے ہوتے ہیں بعد میں یہاں رونما ہوتے ہیں
تو جو ان کے آدم ہیں وہ ہمارے آدم سے پہلے گزرے ان کے عیسی ہمارے عیسی سے پہلے گزرے ان کے آخری نبی ہمارے نبی سے پہلے گزرے ہیں اسی لیئے ہمارے آقا و مولا علی الاطلاق خاتم النبیین ہیں
زمانے کے لحاظ سے بھی اور مرتبہ کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں
ہر لحاظ سے خاتم النبیین ہیں کیونکہ رحمۃ للعالمین ہیں کیونکہ سید المرسلین ہیں کیونکہ سید العالمین ہیں
دوسرا حل یہ ہے وہ اس مخصوص علاقے یا زمین کے لحاظ سے خاتم النبیین ہیں جبکہ ہمارے مولا و ملجا تمام مخلوقات کے لحاظ سے خاتم النبیین ہیں یہ بھی اسی لحاظ سے کہ ان کا وقت ہم سے پہلے کا ہے!
واللہ اعلم و رسولہ!
الغرض دنیا عجائبات کا مجموعہ ہے!
✍️

●▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬●
𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼
❤️ ✍🏻ㅤ 📩 📤
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ

20/09/2023

ہم لوگ ماڈرن کہلائے جانے کے چکر میں بہت قیمتی چیزیں چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ہم نے آسانیاں ڈھونڈیں اور اپنے لیے مشکلیں کھڑی کر دیں۔
-
آج ہم دھوتی پہن کے باہر نہیں نکل سکتے لیکن صدیوں کی آزمائش کے بعد یہ واحد لباس تھا جو ہمارے موسم کا تھا۔ ہم نے خود اپنے اوپر جینز مسلط کی اور اس کو پہننے کے لیے کمروں میں اے سی لگوائے۔ شالیں ہم نے فینسی ڈریس شو کے لیے رکھ دیں اور کندھے جکڑنے والے کوٹ جیکٹ اپنا لیے۔ ہمیں داڑھی مونچھ اور لمبے بال کٹ جانے میں امپاورمنٹ ملی اور فیشن بدلا تو یہ سب رکھ کے بھی ہم امپاورڈ تھے!
-
ہم نے حقہ چھوڑ کے سگریٹ اٹھایا اور ولایت سے وہی چیز جب شیشے کی شکل میں آئی تو ہزار روپے فی چلم دے کر اسے پینا شروع کر دیا۔ ہے کوئی ہم جیسا خوش نصیب؟
-
ہم نے لسی چھوڑی، کولا بوتلیں تھام لیں، ہم نے ستو ترک کیا اور سلش کے جام انڈیلے، ہم نے املی آلو بخارے کو اَن ہائی جینک بنا دیا اور وہی چیز ایسنس کے ساتھ جوس کے مہر بند ڈبے خرید کے بچوں کو پلائی، وہ پیک جس کے آر پار نہیں دیکھا جا سکتا کہ گتے کا ہوتا ہے۔ ہم نے ہی اس اندھے پن پہ اعتبار کیا اور آنکھوں دیکھے کو غیر صحت بخش بنا دیا۔
-
ہم نے دودھ سے نکلا دیسی گھی چھوڑا اور بیجوں سے نکلے تیل کو خوش ہو کے پیا، ہم نے چٹا سفید مکھن چھوڑا اور زرد ممی ڈیڈی مارجرین کو چاٹنا شروع کر دیا، اس کے نقصان سٹیبلش ہو گئے تو پھر ڈگمگاتے ڈولتے پھرتے ہیں۔ گوالے کا پانی ہمیں برداشت نہیں لیکن یوریا سے بنا دودھ ہم گڑک جاتے ہیں، الحمدللہ!
-
اصلی دودھ سے ہمیں چائے میں بو آتی ہے اور ٹی واٹنر ہم نوش جان کرتے ہیں جس پہ خود لکھا ہے کہ وہ دودھ نہیں۔ گھر کے نیچے بھینس باندھ کر ہم نے سوکھا دودھ باہر ملک سے خریدنے کا سودا کیا اور کیا ہی خوب کیا!
ہم تو وہ ہیں جو آم کے موسم میں بھی اس کا جوس شیشے کی بوتلوں میں پیتے ہیں۔
-
ہم گڑ کو پینڈو کہتے تھے، سفید چینی ہمیں پیاری لگتی تھی، براؤن شوگر نے ہوٹلوں میں واپس آ کے ہمیں چماٹ مار دیا۔ اب ہم ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گال سہلاتے ہیں لیکن گڑ بھی کھاتے ہیں تو پیلے والا کہ بھورا گڑ تو ابھی بھی ہمیں رنگ کی وجہ سے پسند نہیں۔
-
آئیں، ہم سے ملیں، ہم ایمرجنسی میں پیاسے مر جاتے ہیں، گھروں کی ٹونٹی کا پانی نہیں پی سکتے، نہ ابال کر نہ نتھار کے، ہم پانی بھی خرید کے پیتے ہیں۔ ہم ستلجوں، راویوں، چنابوں اور سندھوں کے زمین زاد، ہم ولایتی کمپنیوں کو پیسے دے کے پانی خریدتے ہیں۔
-
ہم تو پودینے کی چٹنی تک ڈبوں میں بند خریدتے ہیں۔ چھٹانک دہی اور مفت والے پودینے کی چٹنی ہم ڈیڑھ سو روپے دے کے اس ذائقے میں کھاتے ہیں جو ہمارے دادوں کو ملتی تو انہوں نے دسترخوان سے اٹھ جانا تھا۔
-
سوہانجنا ہمیں کڑوا لگتا تھا، جب سے وہ مورنگا بن کر کیپسولوں میں آیا ہے تو ہم دو ہزار میں پندرہ دن کی خوراک خریدتے ہیں۔ وہی سوکھے پسے ہوئے پتے جب حکیم پچاس روپے کے دیتا تھا تو ہمیں یقین نہیں تھا آتا۔
-
پانچ سو روپے کا شربت کھانسی کے لیے خریدیں گے لیکن پانچ روپے کی ملٹھی کا ٹکڑا دانتوں میں نہیں دبانا، ’عجیب سا ٹیسٹ آتا ہے۔‘
-
ہم پولیسٹر کے تکیوں پہ سوتے ہیں، نائلون ملا لباس پہنتے ہیں، سردی گرمی بند جوتا چڑھاتے ہیں، کپڑوں کے نیچے کچھ مزید کپڑے پہنتے ہیں اور زندگی کی سڑک پہ دوڑ پڑتے ہیں، رات ہوتی ہے تو اینٹی الرجی بہرحال ہمیں کھانی پڑتی ہے۔
-
ہم اپنی مادری زبان ماں باپ کے لہجے میں نہیں بول سکتے۔ ہم زبان کے لیے نعرے لگاتے ہیں لیکن گھروں میں بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ ہم اردو یا انگریزی کے رعب میں آ کے اپنی جڑیں خود کاٹتے ہیں اور بعد میں وجہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہم ’مس فٹ‘ کیوں ہیں۔
-
عربی فارسی کو ہم نے مدرسے والوں کی زبان قرار دیا اور ہاتھ جھاڑ کے سکون سے بیٹھ گئے۔ ’فورٹی رولز آف لَو‘ انگریزی میں آئی تو چومتے نہیں تھکتے۔ الف لیلیٰ، کلیلہ و دمنہ اور اپنے دیسی قصے کہانیوں کو ہم نے لات مار دی، جرمن سے گورے کے پاس آئی تو ہمیں یاد آ گیا کہ استاد مال تو اپنا تھا۔
جا کے دیکھیں تو سہی، عربی فارسی کی پرانی ہوں یا نئی، صرف وہ کتابیں ہمارے پاس اب باقی ہیں جو مدرسوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ باقی ایک خزانہ ہے جسے ہم طلاق دیے بیٹھے ہیں۔ پاؤلو کوہلو اسی کا ٹنکچر بنا کے دے گا تو بگ واؤ کرتے ہوئے آنکھوں سے لگا لیں گے۔ متنبی کون تھا، آملی کیا کر گئے، شمس تبریز کا دیوان کیا کہتا ہے، اغانی میں کیا قصے ہیں، ہماری جانے بلا!
-
ہماری گلیوں میں اب کوئی چارپائی بُننے والا نہیں آتا، ہمیں نیم اور بکائن میں تمیز نہیں رہ گئی، ہمارے سورج سخت ہوگئے اور ہمارے سائے ہم سے بھاگ چکے، ہمارے چاند روشنیاں نگل گئیں اور مٹی کی خوشبو کو ہم نے عطر کی شکل میں خریدنا پسند کیا۔
-
وہ بابا جو نیم کی چھاؤں میں چارپائی لگائے ٹیوب ویل کے ساتھ دھوتی پہنے لیٹا ہوتا ہے، وہ حقے کا کش لگاتا ہے، ہمیں دیکھتا ہے اور ہنس کے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اسے کب کی سمجھ آ گئی ہے، ہمیں نہیں آئی۔
منقول

19/09/2023

آج کے معاملات کی آخری اور سب سے اہم گذارش:

آپ نے دیکھا ہو گا ہر جج کے پیچھے ایک خادم کھڑا تھا۔اس کے کام کو چھوڑیے اور اس سوال کو بھی چھوڑیے کہ معاشی بدحالی کے شکار ملک میں جج صاحبان کے اٹھتے بیٹھتے وقت کرسی آگے پیچھے کرنے کے لیے بھی قومی خزانے سے خادم رکھے گئے ہیں سوال اور ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ان خدام ادب کے لباس پر غور کیا۔ سب کو شلوار قمیض شیروانی اور جناح کیپ پہنائی گئی تھی۔

کیوں؟

اس لیے کہ یہ نوآبادیاتی دور غلامی کی رسم ہے جب انگریز نے ٹیپو سلطان کو شہید کیا تو تمام مقامی علامتوں کو ذلیل اور رسوا کیا گیا۔

جنگ آزادی 1857 کے بعد اس میں مزید شدت آگئی کہ مسلم تہذیب کی ہر علامت کی تذلیل کی جائے۔ نوکروں کے لیے وہ لباس خاص کر دیے گیے جو مسلمان اشرافیہ پہنتی تھی۔

انگریز نے اپنی عدالتیں قائم کیں تو جو لباس اس سے پہلے مسلمان قاضی پہن کر عدالت لگاتے تھے وہ نوکروں کو پہنا دیا۔ اور انہیں نوآبادیاتئ ججوں کے پیچھے کھڑا کر دیا۔ یہ تذلیل اور رسوائی تھی تا کہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ مسلمان قاضی کا دور ختم ہوا اب وہ فرنگی کے نوکر کے سوا کچھ نہیں۔

یہ رسم آج تک جاری ہے۔اس نوآبادیاتی نظام انصاف و قانون کو سمجھیے۔ سمجھیں گے تو نجات اور اصلاح کی کوشش کر سکیں گے۔
( منقول )

31/08/2023

” دنیا میں دوستی ، محبت ، انس ، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔ محبت آمیز باتوں ، مسکراہٹوں ، مہربانیوں ، شفقتوں___ ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں ، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔
اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسے گی ، تمہارا مذاق اڑائے گی۔ اگر عقل مند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چِڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔ اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔
اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔
عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا، نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتّیٰ کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔ یہاں سے جاتے وقت تم متحیّر ہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنی اور بے سود تھا۔“

شفیق الرحمان کی کتاب ” حماقتیں “ سے اقتباس

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Umer Diary posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Umer Diary:

Share