Gupshup Digest

Gupshup Digest This page provides Infotainment and educational stuff

ویڈیو دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے
23/04/2025

ویڈیو دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے

16/04/2025

میرا مَن یہ کہتا ہے کہ لحنِ داؤدی کے خالق نے اس کائنات میں جو اَن گِنت آوازیں تخلیق کی ہیں ، اگر حضرتِ انسان ان میں سے کانوں میں رس گھولنے والی ، رس بھری ، شیریں اور دِلرُبا ، سو بہترین آوازوں کی فہرست مرتب کرے تو ایک آواز جو لازماً اس فہرست میں شامل ہو گی وہ آواز بیٹی کی آواز ہو گی جب وہ کوئی چیز طلب کرنے کے لیے بہت پیار سے لٹکا لٹکا کر "بابا" کہتی ہے ـ

از: سید محمد نقی عباس

15/04/2025

پھر کہیں گے پڑھتے نہیں

اگست ١٩٩٤ میں والد صاحب ، والدہ اور تینوں بہنوں کے ہمراہ ہمیں ایران کے مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ـ میری عمر تقریباً ساڑھے دس برس تھی ـ تربیتِ اولاد کے حوالے سے بھی دیکھیں تو اُس عمر میں ہمیں اس طرح کا دورہ کروانا بابا کا بہترین فیصلہ تھا ـ اگرچہ اپنی سستی اور کاہلی کے باعث اس دورے سے جو نتائج حاصل ہو سکتے تھے ، ان سے ہم محروم رہ گئے مگر یہ تسلی اپنی جگہ برقرار ہے کہ آج تلک اس سفر کے مثبت اثرات محسوس کر رہے ہیں ـ زیرِ مطالعہ تحریر اس سفر سے متعلق تو نہیں مگر اس مسافرت سے بہرحال ایک تعلق رکھتی ہے ـ

دیگر خواتین کی طرح شاپنگ سے الفت ہماری والدہ کے خون میں بھی شامل ہے مگر مجال ہے کبھی اس معاملے میں والد صاحب کو رتی برابر بھی تکلیف دی ہو ـ اس مقدس سفر کے دوران کسی بازار سے گزرتے کوئی چیز اچھی معلوم ہوتی اور والدہ ذرا ٹھہرتیں تو ساتھ ہی والد صاحب کی آواز کانوں میں گُونجتی "یہ دنیا کی چیزیں ہیں ادھر ہی رہ جانی ہیں ، چلتے چلو" اور ہم سب سر جھکائے پِتا جی کی معیت میں قطار در قطار چلتے رہتے ـ والدہ کے دل میں ایک حسرت رہ جاتی کہ فلاں شے میرے اکلوتے پِسر پر خوب جچنی تھی ، اس مِقنعے میں تو میری دختر نے اور بھی سندر لگنا تھا ـ

بہرحال زیارات کا یہ روحانی سفر مکمل کر کے ہم تفتان بارڈر سے ہوتے ہوئے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ پہنچ گئے ـ یہاں سے ہمیں اپنی آخری منزل کے لیے ٹرین پکڑنی تھی ـ ہمارے پاس ایک آدھ دن کی گنجائش موجود تھی ـ ایک ڈبل کیبن گاڑی والے سے والد صاحب نے بات بھی کر لی تھی ـ جی ہاں ، ہم لوگ زیارت جانے کا پروگرام بنا رہے تھے مگر والدہ کا جھکاؤ اس جانب تھا کہ زیارت جانے کی بجائے ہمیں کوئٹہ کے بازار دیکھنے چاہیئیں ـ والدہ عُنفُوانِ شباب میں ، اپنی شادی سے پہلے ایک بار ہماری نانی کے ہمراہ کوئٹہ آ چکی تھیں ـ ہمارے ماموں اُن دنوں واپڈا میں بطورِ انجنیئر یہیں فرائض سرانجام دے رہے تھے ـ لہٰذا والدہ کو کوئٹہ کے بازاروں کے بارے میں معلومات تھیں ـ والدہ نے بڑی مہارت سے ہمیں قائل کر لیا ورنہ ہم بچے زیارت جانے کا سوچ کر بہت جوش میں آ چکے تھے ـ

اب ہم لوگ تھے اور کوئٹہ کے بازار تھے ـ طرح طرح کی اشیاء دستیاب تھیں ـ والدہ کو ہر اچھی شے میں اپنی اولاد نظر آ رہی تھی ـ خاص طور پر سُویٹر وغیرہ تو بہت ہی خوبصورت تھے ـ "بیٹا آپ یہ لے لو ، بہت اچھا ہے ، سردیوں میں آپ کے کام آئے گا" والدہ مجھے مخاطب کر کہ کہتیں ـ مگر میں انکار کر دیتا جیسے میرا دل ہی نہ کر رہا ہو حالانکہ کچھ اشیاء مجھے بھی بہت پسند آ رہی تھیں ـ بہنوں نے تو پھر بھی کچھ نہ کچھ لے لیا مگر ہم نے تو ایسے ہٹیلےپن کا مظاہرہ کیا کہ والد صاحب بھی پریشان دکھائی دیے کہ یہ کیوں کوئی چیز نہیں لے رہا ـ والدہ بھی ہمارے اس رویّے پر ایک تذبذب کا شکار دکھائی دیں ـ

شام کو واپس ہوٹل لوٹتے ہوئے ایک بہن نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ بھائی اتنی پیاری چیزیں تھیں آپ نے اپنے لیے کیوں کچھ نہیں لیا ـ پھر ہم نے وہ بیان دیا کہ تاریخ میں رقم ہو گیا ـ ہم نے بہن سے کہا کہ اگر ابھی ہم چیزیں لے لیتے تو واپس جا کر ہمیں گاہے بگاہے اماں ابا کی جانب سے یہ طعنے سننے کو ملیں گے کہ چیزیں تو لے لیتے ہو مگر پڑھتے نہیں ہو ـ بہن نے فوراً ہمارا جواب مائی باپ تک پہنچا دیا ـ زیرِ لب شروع ہونے والی یہ مسکراہٹ اب آہستہ آہستہ ماما بابا کے چہروں پر پھیلتی جا رہی تھی ـ اماں کہہ رہی تھیں "یہ کبھی نہیں بدلے گا" ـ وقت نے بھی ہمارے اندر کے باغی کو زندہ رکھا اور یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا آج بھی ہمارے خون میں شامل ہے ـ

تحریر : سید محمد نقی عباس

ویڈیو دیکھنے کے لیے کلک کیجیے
05/04/2025

ویڈیو دیکھنے کے لیے کلک کیجیے

ParkUrdu DictionaryUrdu to English Dictionaryمرن برت

05/04/2025

منجھلے بہنوئی نے چند دن قبل فون پر ہم سے دریافت کیا کہ یہاں دیارِ غیر سے کچھ چاہیے تو بلا تعامل اظہار کر دو ـ ہم نے Peanut butter کی فرمائش کر ڈالی ـ ساتھ بیٹھی والدہ نے ایک چپت ہماری گال پر رسید کرتے ہوئے فرمایا کہ بے وقوف ایسے موقع پر کہتے ہیں کہ مجھے i phone pro max 14 چاہیے ـ ہم نے والدہ کو سمجھایا کہ ہم جیسے دقیانوس لوگوں کا I فون سے کیا واسطہ ـ ہم تو بٹنوں والا فون تمام فیچرز کے ساتھ استعمال کر لیں تو بڑی بات ہے ـ
منجھلی بہن اور اُن کے شوہرِ نامدار کی مہربانی کہ انھوں نے peanut butter خرید کر ایک عزیز کے ہاتھ بھجوا دیا ہے مگر اُس پر ہمارا نام لکھنا بھول گئے ہیں ـ سامان پہلے بڑے جیجا جی کے ہاں پہنچنا ہے ـ تب سے طبیعت میں بے چینی سی ہے ـ بے قراری بڑھتی جا رہی ہے ـ ادھر اُدھر پھر کر دل بہلانے کی کوشش کر رہا ہوں ـ خدا نہ کرے میرا peanut butter بڑے جیجا جی کا لقمہ بن جائے ـ

از : سید محمد نقی عباس

04/04/2025

اٹیچ باتھ اور شادی

بسا اوقات زندگی کے بعض پہلو جتنے سادہ معلوم ہوتے ہیں اتنے سادہ ہوتے نہیں یا یوں کہہ لیں کہ وقت اور حالات کے ساتھ تقاضے بدل جاتے ہیں ـ اس تحریر کا عنوان اگرچہ ذرا ہٹ کر ہے مگر عنوان self explanatory ہے یعنی کسی تعارف کا محتاج نہیں اور اپنی وضاحت خود دے رہا ہے ـ میں تحریر یہیں روک دوں تب بھی آپ نتیجے پر پہنچ جائیں گے مگر نتیجہ دینے کے لیے میں جس سچی کہانی کا سہارا لے رہا ہوں اُس سے شناسائی کے لیے آپ کو ورق گردانی کرنی ہو گی ـ

یہ کہانی مجھے میرے ایک جاننے والے نے سنائی تھی ـ کہانی کا مرکزی کردار میرے جاننے والے کا دوست تھا ـ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ان دوست صاحب کے والدین نے اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجایا اور بہو کو گھر لے آئے ـ لڑکا نوجوان تھا بلکہ جوانی اپنے جوبن پر تھی ، لڑکی بھی خوبرو حسینہ تھی ـ لڑکا بے قراری سے اس انتظار میں تھا کہ کب رخصتی ہو اور کب گھر پہنچ کر وہ اپنے خوابوں کی شہزادی کا گھونگٹ اُٹھائے اور سُرخ پِشواز میں چُھپی بیٹھی اپنی جیون ساتھی کے چہرے کو جی بھر کے دیکھے ـ بارات دلہن کو لے کر گھر پہنچی تو اب لڑکا اس انتظار میں تھا کہ کب رشتے دار دفع ہوں اور کب خلوت کا حصول ممکن ہو سکے ـ گھڑی کی ہر ٹک ٹک کے ساتھ نوجوان کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی ـ وہ رشتے دار جو صبح بارات کی روانگی سے قبل سہرا بندی کی تقریب میں اپنے اپنے سے دکھائی دے رہے تھے اب زہرِ قاتل محسوس ہو رہے تھے ـ کچھ ایسے بھی تھے جو حجلۂ عروسی میں ایسے جم کر بیٹھے ہوئے تھے جیسے باپ کی جاگیر میں بیٹھے ہوں ـ خدا خدا کر کے رشتے دار رخصت ہوئے اور نوجوان نے سکون کا سانس لیا ـ اب اُس کے قدم اپنے کمرے کی جانب اُٹھ رہے تھے ـ دل خوشی سے مچل رہا تھا ـ پھر وہ کمرے میں داخل ہوا ـ کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس نے چٹخنی چڑھا دی ـ اُس کے قدموں کی آہٹ سنتے ہی دلہن نے اپنی آرائش کو درست کیا اور نظریں جھکا لیں ـ

تازہ گلاب کی لڑیوں کو ایک جانب ہٹا کر اب وہ مسہری میں منتظر دلہن کے پہلو میں جا بیٹھا تھا ـ چند ہی ساعتوں بعد وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ساتھ جینے ساتھ مرنے کی قسمیں کھا رہے تھے ـ بے تکلفی کا یہ سفر دونوں نے جلد ہی طے کر لیا تھا ـ مخصوص جذبات میں تیزی آنے سے پہلے ہی دونوں یہ بات طے کر چکے تھے کہ ہر صورت اذانِ صبح سے پہلے بیدار ہو جانا ہے اور یادِ الہی سے غافل نہیں ہونا ـ اکثر نوجوانوں میں ایسے موقعوں پر مذہبی حس جوش مارتی ہے مگر پھر اکثریت بے راہ روی کے ریلے میں بہہ جاتی ہے ـ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ایک ایک کر کے تمام حجاب ہٹتے چلے گئے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ گُھل مل کر ایک ہو گئے اور نہ جانے کس لمحے نیند کی آغوش میں چلے گئے ـ سائیڈ ٹیبل پر رکھے 3310 موبائل کا الارم بجتے ہی دونوں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے اور ایک دوسرے کو ایسے مضبوطی سے تھام لیا جیسے زلزلہ آ گیا ہو ـ یاد آیا کہ جذبات میں ہیجان برپا ہونے سے پہلے ایک عہد کیا تھا ـ مگر مُصلّے پر جانے سے پہلے کچھ اور واجب ہو چکا تھا ـ

کمرے اور غسل خانے کے بیچ صحن تھا ـ مگر آج اس چھوٹے سے صحن کو عبور کرنا ایسا تھا جیسے پلِ صراط سے گزرنا ہو ـ آج رہ رہ کر خیال آ رہا تھا کہ وہ پیسے جو ہنی مون کے لیے جمع کیے تھے اُس سے ایک اٹیچ باتھ ہی بنوا لیا جاتا ـ لڑکی سہم سی گئی ـ نوجوان نے پہلے خود ہمت کی ـ اپنے کاندھے پر تولیہ رکھا اور دبے پاؤں کمرے سے نکل کر غسل خانے کی جانب بڑھنے لگا ـ بانگ میں ابھی کچھ وقت باقی تھا ـ صحن میں تاریکی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ـ غسل خانے میں روشن زیرو کا بلب منزل کی نشاندہی کے لیے کافی تھا ـ لڑکا غسل خانے کے قریب پہنچا تو ایک ہَیُّولا سا نظر آیا ـ قریب جا کر دیکھنے پر معلوم پڑا کہ ابا جی کُرسی پر براجمان ہیں اور غسل خانے جانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ـ بیٹے کو دیکھتے ہی ابا جی پکار اُٹھے "ہاں وئی کیتھے چلّاں ایں ، نان چلّاں ایں ، نا لے نا لے میرا پُت" (ہاں بھئی کہاں جا رہے ہو ، نہانے جا رہے ہو ، نہا لو نہا لو میرا بیٹا) ـ یہ جملے سُن کر نوجوان شرم سے پانی پانی ہو گیا ـ غسل خانے میں بھی اُس کا دھیان واجب غسل کے احکامات کی جانب کم جبکہ ابا جی کے کہے گئے جملوں کی طرف زیادہ تھا ـ

ولیمے کی تقریب میں بھی دونوں کا دھیان بار بار اسی طرف جا رہا تھا کہ آج رات کیا کرنا ہے ـ راتوں رات تو اٹیچ باتھ بننے سے رہا ـ رات کو قریبی عزیزوں کو الوداع کہنے کے بعد اب وہ دونوں پھر اپنے کمرے میں تھے اور دماغ لڑا رہے تھے کہ آج رات غسل کا انتظام کیسے کیا جائے ـ طے یہ پایا کہ آج غسل میں صبح صادق تک تاخیر نہیں کرنی جو کرنا ہے وقت پر ہی کر لینا ہے تا کہ دو بجے کے قریب غسل سے فارغ ہوا جا سکے ـ منصوبے کا جو حصہ کمرے کے اندر انجام پانا تھا وہ تو بر وقت مکمل ہو گیا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ایک اور مُصیبت باہر اُن کا انتظار کر رہی ہے ـ ڈھلتی عمر اور ذیابیطس کا مریض ہونے کی وجہ سے لڑکے کے ابا رات میں دو سے تین بار بیت الخلاء کی سیر کو جاتے تھے ـ سوا دو بجے جیسے ہی تولیہ کاندھے پر رکھے لڑکا غسل خانے کے قریب پہنچا ، پیچھے سے آواز آئی "ہاں وئی کیتھے چلّاں ایں ، نان چلّاں ایں ، نا لے نا لے میرا پُت" (ہاں بھئی کہاں جا رہے ہو ، نہانے جا رہے ہو ، نہا لو نہا لو میرا بیٹا) ـ نوجوان کا دل کر رہا تھا کہ اپنا سر دیوار میں دے مارے ـ

اگلے دن وہ دونوں مکلاوے کی رسم کی ادائیگی کی خاطر لڑکی کے ابا اماں کے گھر چلے گئے ـ لڑکی والوں نے دونوں کو جس کمرے میں ٹھہرایا وہاں اٹیچ باتھ کی سہولت مُیَسّر تھی ـ دونوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی ـ پروگرام دو دن کا تھا مگر دل سے دعائیں نکل رہی تھیں کہ لڑکی کے میکے میں اُن کا قیام طُول پکڑ جائے ـ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ـ دو دن بعد ہی لڑکے کو ابا کا فون آ گیا کہ "بوتے دن سسرال نئیں رئی دا کاکا (زیادہ دن سسرال میں نہیں رہتے میرے لال) " ـ مُنہ لٹکائے دونوں نے واپسی کے لیے رختِ سفر باندھنا شروع کر دیا ـ گھر واپس آ کر پھر وہی پریشانی دامن گیر تھی ـ وہ رات کے جس پہر کا بھی انتخاب کرتے ، ابا جی کو اپنے منصوبوں میں مُزاحِم پاتے ـ واجب غسل اٌن کے لیے جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جا رہا تھا ـ حسین لمحات میں اب دِنوں کے وقفے آنا شروع ہو گئے تھے ـ اکثر وہ رات کو جلدی سونے کی کوشش کرتے تا کہ ذہن کسی اور طرف نہ جانے پائے ـ بعض اوقات وہ اپنے درمیاں تکیوں کی ایک دیوار بنا لیتے کہ کہیں غیر ارادی طور پر اُن کے بدن آپس میں ٹکرا نہ جائیں اور معاملہ بڑھتے بڑھتے غسلِ جنابت تک نہ پہنچ جائے ـ سوتے ہوئے وہ اپنے منہ مخالف سِمتوں میں کر لیتے ـ ایک دن لڑکی کا ضبط جواب دے ہی گیا اور اس نے نوجوان کو کہا کہ پلیز مجھے کچھ دن کے لیے امی کے ہاں چھوڑ آئیں یہ کہتے ہوئے آنسو اُس کی آنکھوں سے اُمڈ آئے ـ اس فرمائش نے تازہ تازہ دلہا بننے والے نوجوان کو اُداس کر دیا ـ نوجوان نے اپنی شریکِ حیات کو تسلی دے کر اُس کا حوصلہ بندھایاـ

اگلے روز لڑکا اپنے ایک جگری یار کے پاس پہنچا اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا ـ پہلے پہل تو دوست نے خُوب چسکے لیے ـ مگر پھر سنجیدہ ہو کر معاملے کا کوئی حل نکالنے کے لیے غور و خوض شروع کر دیا ـ زیادہ دیر نہیں گرزی تھی کہ دوست نے اپنے نوبیاہتا دوست کو ایک حل تجویز کر دیا ـ حل بہت سادہ تھا مگر اُس پر عمل کے لیے حوصلہ درکار تھا ـ دلہا صاحب قدرے مطمئن ہو کر گھر لوٹے اور بیگم کو منصوبے سے آگاہ کیا ـ آج کی رات کو ہر طرح سے رنگین بنانے کا عزم کر لیا گیا تھا ـ ذہن پر سے بوجھ اُترتا جا رہا تھا ـ بس ایک بار ہمت کرنی تھی ـ ایک خفیف سا خدشہ اپنی جگہ بہرحال موجود تھا کہ عین موقعے پر کہیں ہمت کم نہ پڑ جائے ـ آج کی رات دونوں نے اطمینان کے ساتھ تمام مراحل طے کیے اور پھر وہ وقت آ گیا جب ہمت کا عملی مظاہرہ کرنا تھا ـ تولیہ کندھے پر لٹکائے لڑکا کمرے سے باہر نکلا تو حسبِ معمول ابا جی کو بیت الخلاء کے سامنے پایا مگر اس بار اس سے پہلے کہ ابا جی کہتے "ہاں وئی کیتھے چلّاں ایں ، نان چلّاں ایں ، نا لے نا لے میرا پُت" (ہاں بھئی کہاں جا رہے ہو ، نہانے جا رہے ہو ، نہا لو نہا لو میرا بیٹا) " ، لڑکا پُر اعتماد لہجے میں بولا"ابا جی اے ذرا پیچھے ہونا مَیں نان چلّاں آں تے منوں تھوڑا ٹَیم لگ جاناں جے واجب غسل اے ذرا تسلی نال ای کراں گا " (ابا جی ذرا پیچھے ہو جائیں ، مَیں نہانے جا رہا ہوں اور مجھے تھوڑا ٹائم لگ جانا ہے واجب غسل ہے تسلی سے ہی کروں گا) ـ ترکیب چل گئی تھی ـ آج لڑکے کی بجائے ابا جی شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے ـ آہستہ آہستہ لڑکی نے بھی ہمت پکڑ لی اور پھر حالات معمول کی جانب آنا شروع ہو گئے ـ

کہنا بس یہ تھا کہ بزرگوں کو چاہیے کہ بچوں کو اُن کے زمانے کے حالات کے مطابق زندگی گزارنے دیں ـ ضروری نہیں کہ جن حالات میں آپ نی زندگی گزاری ہے بچے بھی انہی مراحل سے گزریں ـ لہٰذا نوبیاہتا جوڑوں کو مشورہ ہے کہ اٹیچ باتھ بنوا کر جیو ـ

تحریر : سید محمد نقی عباس

29/03/2025

زِگ زیگ کرتی دھار

خالہ کا بڑا لڑکا لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں زیرِ تعلیم تھا اور اپنے دوست کے ہمراہ ایک فلیٹ میں مقیم تھا ـ بازاری کھانا کسی کسی کو ہی راس آتا ہے ـ ایک بار کزن کا پیٹ خراب ہو گیا بلکہ اچھا خاصہ خراب ہو گیا ـ جلاب تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ـ دیسی ٹوٹکے ناکام ہو گئے ، دوا دارُو سے بھی کوئی فرق نہ پڑا تو کزن چند روز کے لیے ہماری طرف یعنی اپنی خالہ کی طرف چلا آیا تا کہ طبیعت سنبھل سکے ـ دست تو ایک دن میں ہی اچھوں اچھوں کی طبیعت صاف کر دیتے ہیں ـ کزن کی حالت بھی بہت پتلی تھی ـ جب وہ ہمارے ہاں پہنچا تو ڈاڑھی بڑھی ہوئی تھی اور پیٹ کمر کے ساتھ لگا ہوا تھا ـ چال ڈھال اور رُخِ انور سے نقاہت عیاں ہو رہی تھی ـ گھر پہنچتے ہی وہ پلنگ پر دراز ہو گیا ـ کھچڑی ، دہی اور نمکیات ملے پانی کے علاوہ چوتھی چیز حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی ـ ہم نے اسی عالم میں کزن کی ایک عدد تصویر بھی کھینچ لی تا کہ ہفتے دس دن بعد جب وہ ٹھیک ہو کر لوٹے گا تو ہم اپنی خالہ کو فخر سے بتا سکیں کہ بھائی جب ہمارے غریب خانے پر آیا تھا تو کیا حالت تھی اور اب تندرستی کے بعد رخصت ہوتے ہوئے چہرے پر کیسی شادابی ہے ـ

مقامی حکومتوں کے انتخابات کا زمانہ تھا ـ کونسلر اور ناظم کی نشستوں کے امیدوار زیادہ سے زیادہ ووٹوں کے حصول کے لیے سڑکوں اور گلیوں کی مرمت کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے ـ ہماری گلی کی بھی اسی بہانے سُنی گئی ـ ایک روز اچانک پرانی شکستہ حال سڑک کو مکمل طور پر اُکھاڑ دیا گیا تاکہ نئی سڑک کُلّی طور پر دوبارہ بنائی جا سکے ـ توڑ پھوڑ کا یہ عمل اتنا شدید تھا کہ ہمارے گھر کے گٹر سے گلی کے مین گٹر تک جانے والا پائپ بُری طرح شکست و ریخت کا شکار ہو گیا ـ بڑے منصوبوں پر کام کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کے درمیان ایک ہم آہنگی اور تعاون پایا جاتا ہے مگر اس طرح کی چھوٹی گلیوں میں سڑکیں بچھانے کے دوران محکمہ جاتی تعاون مفقود دکھائی دیتا ہے ـ صورتحال بالکل واضح تھی ـ بڑا پائپ کھدائی کے دوران یا کسی ٹرالی کے ٹائر کے نیچے آ کر پھٹ چکا تھا اور اب اس بات کا غالب امکان پیدا ہو چکا تھا کہ اگر پائپ بالکل بیٹھ گیا تو گھر سے نکاسی آب کا نظام مکمل طور پر جواب دے جائے گا یعنی گندا پانی غسل خانوں اور طہارت خانوں سے اُبل آئے گا ـ یہ بات بھی پریشانی کا باعث تھی کہ اگر ہم نے بر وقت اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا تو سڑک والے تو ایک دو دن میں سڑک بنا کر چلے جائیں گے اور نیا پائپ ڈالنے کے لیے پھر سے نو تعمیر شدہ سڑک کو اُکھاڑنا پڑے گا ـ

بات تو خالہ کے بیٹے کی ہو رہی تھی مگر یہ نکاسی آب کا ذکر کہاں سے آ گیا ـ جُوں جُوں آپ پڑھتے جائیں گے یہ ربط واضح ہوتا جائے گا ـ خیر معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے میں اگلے ہی روز مالک مکان کے پاس جا پہنچا اور صورتحال سے آگاہ کیا ـ ایک دن تو ایسے ہی گزر گیا اور یوں محسوس ہوا جیسے مالک مکان کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی ـ بہرکیف اگلی ملاقات میں مالک مکان کو معاملے کی حساسیت کا اندازہ ہو گیا اور اس بات کے اگلے ہی دن صبح سویرے کسی نے دَقُ الباب کیا ـ مَیں گھر کے صدر دروازے پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں مالک مکان ایک مستری اور چند مزدوروں کے ہمراہ موجود ہے ـ مالک مکان نے مجھے بتایا کہ سیمنٹ ، ریت ، سیورج کے نئے پائپ اور باقی سامان بھی پہنچ چکا ہے اور مجھ سے درخواست کی کہ مَیں اپنی نگرانی میں کام مکمل کروا لوں ـ یہ کہہ کر مالک مکان نے موٹر بائیک کو کک لگائی اور یہ جا وہ جا ـ اب میں کسی اناڑی پراجیکٹ مینیجر کی طرح تمام کاروائی کا معائنہ کر رہا تھا ـ مستری نے مجھے کہا کہ گھر میں اگر کسی نے بول و براز سے فراغت پانی ہے تو فوراً لیٹرین ہو آئے کیونکہ اس کے بعد گھر کا پانی بند کر دیا جائے گا تاکہ پُرانے تباہ حال پائپوں کو نکالا جا سکے ـ مَیں نے اندر جا کر گھر والوں کو ہدایات جاری کر دیں کہ جلدی جلدی اپنے کام سمیٹ لیں ـ بیس منٹ میں سب منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر چکے تھے ـ کچن بھی فری ہو چکا تھا اور طہارت خانے بھی ـ مستری اور مزدوروں کے لیے چائے بھی بن چکی تھی ـ گرین سگنل ملتے ہی مَیں نے گھر کا پانی بند کر دیا اور پھر مزدوروں نے اپنا کام شروع کر دیا ـ

کزن کو مَیں نے ڈسٹرب نہیں کیا کیونکہ ایک تو اُس کی طبیعت ناساز تھی اور دوسرا اُس کی صبح دوپہر دو بجے کے بعد ہوتی تھی ـ لہٰذا اس کے آرام میں مُخِل ہونا بے معنی تھا ـ یہ کام تین سے چار گھنٹے کا تھا اور بھائی کی آنکھ کُھلنے سے پہلے بہ آسانی مکمل ہو سکتا تھا ـ اب صورتحال یہ تھی کہ مستری کی ہدایت پر مزدوروں نے پرانے ٹُوٹے ہوئے پائپ کچھ کھدائی کرنے کے بعد مکمل طور پر نکال باہر کیے تھے ـ گھر کے مین گیٹ پر ڈھلوان کے نیچے موجود گٹر اور گلی کے مین گٹر (مین ہول) میں اب کوئی رابطہ باقی نہ رہا تھا ماسِوا اُس کچی نالی کے جس میں سے پرانے پائپ نکالنے کے بعد نئے پائپ رکھے جانے تھے ـ مستری کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مزدوروں نے اس قدرے گیلی نالی کو خشک کرنے کے لیے اس کے اوپر خشک مٹی اور ریت ڈال دی ـ مَیں اور مستری صاحب اس نالی کے کنارے کھڑے کام کا جائزہ لے رہے تھے ـ مستری کہنے لگا "لو باؤ جی کم تقریباً ہو ای گیا اے بس جیویں تھاں خشک ہوندی اے اپاں نوَیں پَیپ پا دینے نیں (باؤ جی کام تقریباً ہو گیا ہے جیسے ہی جگہ خشک ہوتی ہے ہم نے نئے پائپ ڈال دینے ہیں) " ـ میں مطمئن ہو کر تھوڑی دیر کے لیے گھر کے اندر آ گیا ـ میں نے محسوس کیا کہ جس کمرے میں کزن سو رہا تھا اُس کمرے سے ملحقہ بیت الخلاء میں بلب روشن ہوا ہے ـ میں فوراً کمرے کی جانب لپکا اور دیکھا کہ کزن واش روم میں آدھا داخل ہو چکا ہے ـ میں نے فوراً آواز لگائی کہ "واش روم نہیں جا سکتے" ـ کزن نے اپنی طرح کا لمبا سا "کیوں" کہہ کر میری طرف دیکھا ـ میں نے اُسے صورتحال سے آگاہ کیا ـ کزن کہنے لگا "لیکن مجھے تو بہت تیز شُوشُو (پیشاب) آیا ہوا ہے" ـ اس پر میں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ اگلے تین گھنٹے تک واش روم نہیں جا سکتے ـ کزن حیرت کے باعث پھٹی آنکھوں سے مجھے گھورنے لگا جیسے میں اُس سے کوئی سنجیدہ مذاق کر رہا ہوں ـ مجبور ہو کر بھائی دوبارہ پلنگ پر لیٹ گیا ـ

تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ اُٹھا اور واش روم کی جانب چل پڑا ـ میں نے آگے بڑھ کر دونوں ہاتھ پھیلائے اور اُس کے سامنے کھڑے ہو کر راستہ روک لیا ـ کزن کو مجھ سے اس قسم کے اقدام کی توقع نہ تھی ـ اب وہ بھی مکمل طور پر سیریس ہو چکا تھا ـ اُس نے اپنے پیٹ کے زیرِ ناف حصے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چھلانگیں لگانی شروع کر دیں اور ساتھ میں چِلانا شروع کر دیا کہ یار مجھے واش روم جانے دو ، میرا مثانہ (Bladder) پھٹ جانا ہے ـ یہ بہت ہی مضحکہ خیز صورتحال تھی ـ میں نے بمشکل اپنی ہنسی کو قابو کیا ـ ایک بار پھر سارا معاملہ کھول کر کزن کے سامنے رکھا مگر اُس مخصوص پریشر نے اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی معطل کر رکھا تھا ـ اب وہ حسرت بھری نگاہوں سے میری جانب دیکھنے لگا ـ مجھے اُس پر ترس کے ساتھ پیار بھی آ رہا تھا مگر میرے بس میں کچھ بھی نہیں تھا ـ میں نے کزن کو مشورہ دیا کہ قریبی مسجد میں چلتے ہیں ـ مسجد کے باہر طہارت خانے موجود ہیں اور وہاں بآسانی بول و براز سے فراغت پائی جا سکتی ہے ـ کزن نے کبھی نماز کے لیے بھی مسجد کا رُخ نہیں کیا تھا لہٰذا اب اس مقصد کے لیے مسجد کے باہر موجود بیت الخلاء جاتے ہوئے ایک جھجھک سی آڑے آ رہی تھی ـ میری اس تجویز کو اُس نے فوراً ہی رد کر دیا ـ اچانک مجھے یاد آیا کہ چھت پر پانی کی ٹینکی کے عقب میں ریت کا ایک ڈھیر لگا ہوا ہے ـ میں نے فوراً کزن کو کہا کہ اُسے چاہیے کہ چھت پر چلا جائے اور ٹینکی کے پیچھے چھپ کر ریت پر وہ سب نکال باہر کرے جس نے اُسے بے چین کر رکھا ہے ـ "مَیں اور مُوتر کروں وہ بھی چھت پر ٹینکی کے پیچھے چھپ کر" ـ کزن نے حیرت اور غصے کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ مجھے گھورتے ہوئے کہا ـ "اِس کے علاوہ تو بس یہی حل رہ جاتا ہے کہ مَیں آپ کو بازار سے بالغوں کے سائز کا ایک پیمپر لا دوں" یہ کہہ کر مَیں کمرے سے باہر آ گیا ـ

گلی میں مزدور اپنے کام میں مشغول تھے ـ نالی تقریباً خشک ہو چلی تھی اور اب چند ہی لمحات میں نئے پائپ اس نالی میں رکھے جانے تھے ـ مَیں اور مستری صاحب نالی کے بالکل اوپر کھڑے ، نظریں نالی میں گاڑھے محوِ گفتگو تھے کہ اچانک گھر کے گٹر سے ایک سبزی مائل زرد رنگ کی دھار برآمد ہوئی اور سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی ہماری نظروں کے سامنے سے ہوتی ہوئی اُس نالی جسے بڑی مشکل سے خشک کیا گیا تھا سے گزرتی ہوئی گلی کے بڑے گٹر میں اُتر گئی ـ ہم دونوں کے اوسان تقریباً خطا ہو گئے ـ مستری مایوس اور بے بس نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا "او پائن اے کی کر دتا جے ـ اوئے شوکے اوتھوں ہور ریتا لیا کم ود گیا ای" (او بھائی یہ کیا کر دیا ہے ـ او شوکت وہاں سے اور ریت لے کر آو کام بڑھ گیا ہے) ـ مَیں فوراً گھر کے اندر بھاگا ـ کیا دیکھتا ہوں کزن واش روم سے باہر نکل رہا ہے ـ اُس نے اطمینان بھرے لہجے میں مجھے کہا " مَیں شُوشُو کر آیا ہوں " ـ" جی مَیں دیکھ آیا ہوں" میں نے جواباً عرض کیا ـ

تحریر : سید محمد نقی عباس

White crochet with colorful flowers and green leaves
11/03/2025

White crochet with colorful flowers and green leaves

11/03/2025

ایک وقت تھا کہ سحری کے لیے لوگوں کو بیدار کرنے کے واسطے ڈھول والا آیا کرتا تھا ـ لوگ ڈھول کی آواز پر اٹھتے تھے اور چاند رات کو ڈھول والا اپنی خدمت کا صلہ عیدی کی صورت میں وصول کرنے آیا کرتا تھا مگر اب اس روایت کی جگہ موبائل کے الارم نے لے لی ہے ـ سب کچھ مشینی ہوتا جا رہا ہے ـ سننے میں آیا ہے کہ ایک ایسی ایپ بھی متعارف کروا دی گئی ہے کہ اب آپ کو قبرستان جانے کی ضرورت نہیں ، سب کچھ لائیو آپ کے سامنے اسکرین پر آ جائے گا آپ کو بس فاتحہ پڑھنی ہے ـ وقت اس تیزی سے بدلے گا کبھی سوچا بھی نہ تھا ـ

Crochet sample
11/03/2025

Crochet sample

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Gupshup Digest posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share