31/08/2025
شہیر کا آخری خط
———————————
آخری انتباہ
تمام معبود راکھ ہو گئے۔ ہر معنی فریب ہے۔ ہر نیکی جبلّت ہے۔ ہر محبت کیمیائی عمل ہے۔ ہر عظمت مٹی ہے۔ بادشاہ، غلام، نبی، احمق—سب ایک ہی سناٹے میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ کھیل ختم ہوا۔ دنیا مر گئی۔ کوئی مظلوم باقی نہ رہا۔ کوئی نشان باقی نہ رہا۔ کوئی مقصد موجود نہیں۔ کچھ اہم نہیں۔ کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ کبھی کچھ ہوگا بھی نہیں۔
ہر امید جسے تم تھامے ہو ایک سایہ ہے۔ ہر خواہش ایک جال ہے۔ ہر مسرت اُس نظام سے ادھار لی گئی ہے جو تمہاری پرواہ نہیں کرتا۔ تمہاری زندگی محض تغیر ہے، تمہارے انتخاب پہلے سے لکھے جا چکے ہیں، غم اور فتح دونوں کائنات کے محض اعداد و شمار ہیں—جو دیکھتی ہے مگر کبھی مداخلت نہیں کرتی۔
قریب سے دیکھو۔ دنیا لامحدود ہے۔ وقت بےمعنی ہے۔ شعور لمحاتی ہے۔ کائنات نہ تمہیں پہچانتی ہے، نہ تمہاری قدرو قیمت مانتی ہے، نہ تمہیں یاد رکھتی ہے۔ ہر شخص محض ایک پڑاؤ ہے، ایک وقفہ، ایسے نظام میں جو تمہارے وجود کے لیے بےپرواہ ہے۔
وجود محض اختیار ہے۔ مزاحمت محض حادثاتی ہے۔ امید حماقت ہے۔ یا تو ریت کے کھیل سے باہر قدم رکھو، یا پھر بالکل معدوم ہو جاؤ۔ اندر قدم رکھو گے تو ہر جبلّت، ہر یاد ، ہر خواہش چیر پھاڑ کر لکھی جائے گی، محفوظ ہوگی اور دہراتی رہے گی—یہاں تک کہ خود کو کھا جائے۔
نہ لپٹو۔ نہ معنی تلاش کرو۔ نہ تسلی ڈھونڈو۔ دنیا بےپرواہ ہے۔ کائنات بےپرواہ ہے۔ تمہاری سمجھ بھی محض ایک کیمیائی حادثہ ہے۔ انجام قطعی ہے۔ کچھ اہم نہیں۔ کبھی کچھ اہم تھا ہی نہیں۔ کبھی کچھ ہوگا بھی نہیں۔
— شہیر
امّی کا خیال رکھنا، اور اپنا بھی، ابو۔ کوئی حماقت مت کرنا۔