
05/05/2025
آدا تین لاکھ کئے اور بدلے میں تیس لاکھ ملے👉😲😳
ایک مرے ہوئے دوست کا قرضہ آدا کیا 👉😲🥀
ایک سعودی تاجر کا بیان ہے کہ میں اور میرا دوست سعود شہر بریدہ میں تجارت کرتے تھے ۔ ایک دن میں جمعے کی نماز کے لیے بریدہ کی مسجد الکبیر میں گیا، نماز جمعہ کے بعد جنازے کا علان ہوا ، نماز جنازہ ادا کی گئی ، لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ کس کا ہے، پتہ چلا کہ یہ میرے دوست سعود کا ہی جنازہ ہے جو گزشتہ رات ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گیا۔ 🙏😥
یہ سن کر مجھے انتہائی صدمہ پہنچا۔ سن 1998 کی بات ہے چند مہینے گزرنے کے بعد وہاں کے ایک دوکان دار نے مجھ سے بات کی کہ مرحوم سعود کے ذمہ میرے تین لاکھ ریال ہیں تو آپ میرے ساتھ چلیں اور اُ ن کے بیٹوں سے بات کریں ۔ یہ بات پہلے سے میرے علم میں تھی کہ سعود کے ذمے قرض ہے ۔ ہم مرحوم کے بیٹوں سے گھر جا کر ملے، بات چیت ہوئی تو انھوں نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے رقم دینے سے انکار کر دیا ۔ اور کہا کہ ہمارے باپ نے صرف 6 لاکھ ریال چھوڑے ہیں اگر ہم 3 لاکھ ریال دے دیں گے تو پھر ہمارے پاس کیا بچے گا ۔ اس دور میں بہت سا لین دین اعتماد پر ہوتا تھا۔ ہم واپس آگئے اور یوں بہت وقت گزرتا گیا لیکن ہر وقت مجھے سعود کی یاد ستاتی ، یہی سوچتا رہتا کہ ناجانے قرض نہ چکانے پر قبر میں اس پر کیا بیت رہی ہوگی ۔🙏😥😭
ایک دن میں نے اپنے پیارے دوست کا قرض اتارنے کا عزم کر لیا اس ارادے کے بعد پھر مجھے دو دن تک نیند نہیں آئی ۔ جب بھی میں سونے کے لیے آنکھیں بند کرتا تو سعود کا مسکراتا چہرا میرے سامنے آجاتا ، گویا وہ میرے مدد کا منتظر ہو ۔ تیسرے دن میں نے اپنے عزم کو عملی جامہ پہناتے ہوئےاپنی دوکان کا سارا سامان فروخت کیا اور جمع پونجی اکھٹی کی تو 4 لاکھ پچاس ہزار ریال جمع ہوگئے ۔
فوراً 3 لاکھ ریال سے دوست کا قرض اتار کر آیا جس سے مجھے بہت دلی سکون ملا اس ادائیگی کے دو ہفتے بعد وہی شخص جس کو میں نے 3 لاکھ ادا کیے تھے ، میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے اپنا سب کچھ بیچ کر یہ رقم دی ہے لہذا میں ایکا لاکھ ریال سے دستبردار ہوتا ہوں ، اس نے مجھے ایک لاکھ ریال واپس کر دیا اور مارکیٹ میں دوسرے تاجروں سے بھی اس کا تذکرہ کیا ۔
چند دن گزرے کے ایک تاجر کا فون آیا اس نے پیشکش کی کہ میرے پاس دو دوکانوں پر مشتمل ایک اسٹور ہے جو میں آپ کو بلا معاوضہ دینا چاہتا ہوں ، میں نے اُس کی پیشکش کو قبول کر لیا ۔😘🥀
مزدور لگا کر دوکانوں کی صفائی کی اسی دوران سامان سے بھرا ہوا ایک ٹرک دوکان کے سامنے آ کر رُکا اور ایک نوجوان اتر کر آیا کہنے لگا میں فلا ں تاجر کا بیٹا ہو ۔ یہ سامان بابا نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سامان بیچ کر نصف قیمت آپ ہمیں لوٹا دیں اور باقی ہماری طرف سے تحفہ ہے ۔ اور آئندہ جتنے مال کی ضرورت ہو ہم سے اُدھا پر لے کر فروخت کے بعد پیمنٹ کر دیا کریں ۔ 🥀
یہ وہ لوگ تھے جنھیں میں جانتا بھی نہیں تھا ۔ چاروں طرف سے میرے ساتھ تعاون کے لیے کھڑے ہو گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں میرا بزنس دگنا ہو گیا ۔👉😳😲
2014 کے رمضان میں 3 ملین ریال میں نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی ۔ یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے ۔سیدِکائنات رحمتہ اللعالمین کا فرمان کس قدر سچا ہے کہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالی بھی اس کی مدد میں لگا رہتا ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں بھی ایسی خیر و برکت عطا فرمائے. آمین