Realistic Raza

Realistic Raza Welcome to Realistic Raza, your gateway to enthralling posts videos and insightful life lessons. My youtube channel is Realistic Raza.

سرگودھا میں معاشی بدحالی نوجوانوں کی زندگیاں نگلنے لگی قرض کے بوجھ تلے دبے 24 سالہ محمد طیّب نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلی...
30/07/2025

سرگودھا میں معاشی بدحالی نوجوانوں کی زندگیاں نگلنے لگی قرض کے بوجھ تلے دبے 24 سالہ محمد طیّب نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا، لاش سپورٹس سٹیڈیم کے قریب سے برآمد ہوئی ہے۔ نوجوان کی جیب سے قرضوں سے متعلق پرچی برآمد جس پر ادھار کی تفصیلات لکھی تھیں۔

26/07/2025

اسلام آباد میں فوڈ اتھارٹی کا چھاپہ، ترنول کے قریب سے گدھے کا 25 من (600 کلو) گوشت برآمد

تھانہ ریتڑہ میں چوڑیاں بیچنے والی خاتون کا ریپ، بھائی اپنی بے ہوش بہن کو ہسپتال لے جا رہا ہے۔ 💔💔💔
24/07/2025

تھانہ ریتڑہ میں چوڑیاں بیچنے والی خاتون کا ریپ،
بھائی اپنی بے ہوش بہن کو ہسپتال لے جا رہا ہے۔

💔💔💔

ایک دن میں تین کہانیاں ۔۔۔ شرمناک ۔۔ قابل افسوس
22/07/2025

ایک دن میں تین کہانیاں ۔۔۔ شرمناک ۔۔ قابل افسوس

ابو، دیوار اور میںمیرے ابو بوڑھے ہو چکے تھے۔ چلتے ہوئے اکثر دیوار کا سہارا لیتے۔ آہستہ آہستہ ان کی انگلیوں کے نشان دیوار...
22/07/2025

ابو، دیوار اور میں

میرے ابو بوڑھے ہو چکے تھے۔ چلتے ہوئے اکثر دیوار کا سہارا لیتے۔ آہستہ آہستہ ان کی انگلیوں کے نشان دیواروں پر نمایاں ہونے لگے — ایسے نشان جو ان کی کمزوری اور محتاجی کا پتہ دیتے تھے۔

میری بیوی ان نشانات سے الجھن محسوس کرتی تھی۔ وہ اکثر شکایت کرتی کہ دیواریں گندی ہو رہی ہیں۔
ایک دن ابو کے سر میں شدید درد تھا۔ انہوں نے تیل لگایا اور حسبِ عادت دیوار کا سہارا لیا، جس سے دیوار پر تیل کے دھبے پڑ گئے۔

اس بات پر بیوی نے ناراضی ظاہر کی، اور ابّا سے سخت لہجے میں کہا:
“دیوار کو ہاتھ نہ لگایا کریں!”

ابو خاموش ہو گئے۔ ان کی آنکھوں میں گہرا دکھ تھا۔ میری گزشتہ رات ہی بیوی سے تلخ کلامی ہوئی تھی اس لیئے میں مصلحتًا خاموش رہا۔ یعنی مجھے بیوی کی اس بدتمیزی پر شرمندگی تو ہوئی، مگر کچھ کہہ نہ سکا۔

اس دن کے بعد ابو نے دیوار کا سہارا لینا چھوڑ دیا۔ ایک دن وہ توازن کھو بیٹھے اور گر پڑے۔ ان کی کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ آپریشن ہوا، مگر وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو سکے، اور کچھ ہی دنوں میں ہم سب کو روتا چھوڑ گئے۔

میرے دل میں شدید پچھتاوا تھا۔ ابو کی خاموش نظریں آج بھی میرا پیچھا کرتی ہیں۔ نہ انہیں بھلا سکا، نہ خود کو معاف کر پایا۔

کچھ عرصے بعد ہم نے گھر کو رنگ کروانے کا فیصلہ کیا۔ جب رنگ کرنے والے آئے تو میرا بیٹا، جو اپنے دادا سے بے حد محبت کرتا تھا، اُن دیواروں پر رنگ کروانے سے رک گیا جن پر دادا کی انگلیوں کے نشان تھے۔

رنگ کرنے والے سمجھدار لوگ تھے۔ انہوں نے ان نشانات کے گرد خوبصورت دائرے بنا دیے، جیسے دیوار پر کوئی خوبصورت فن پارہ ہو۔

آہستہ آہستہ وہ نشان ہمارے گھر کی پہچان بن گئے۔ جو بھی آتا، اس دیوار کی تعریف ضرور کرتا، مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس سجاوٹ کے پیچھے ایک دلخراش سچائی چھپی ہے۔

وقت گزرتا گیا۔ اب میں خود بھی بوڑھا ہو چکا ہوں۔ ایک دن چلتے ہوئے مجھے بھی دیوار کا سہارا لینا پڑا۔ اسی لمحے مجھے اپنا ماضی یاد آیا — میری بیوی کا ابو کو جھڑکنا، ان کی خاموشی، اور ان کا درد۔ میں نے سہارا لیے بغیر چلنے کی کوشش کی۔

میرا بیٹا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ فوراً آگے بڑھا اور بولا:
“پاپا، دیوار کا سہارا لیجیے، ورنہ آپ گر جائیں گے!”

پھر میری پوتی دوڑتی ہوئی آئی اور بولی:
“دادُو، آپ میرا کندھا پکڑ لیں!”

یہ سن کر میری آنکھیں بھر آئیں۔
کاش، کاش میں نے بھی اپنے ابو کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیا ہوتا — تو شاید وہ کچھ دن اور ہمارے ساتھ رہتے۔

میرے بیٹے اور پوتی نے مجھے سہارا دے کر صوفے پر بٹھایا۔ پھر پوتی اپنی ڈرائنگ بک لے آئی۔ اس نے مجھے دکھایا کہ اس کی ٹیچر نے ایک تصویر کی بہت تعریف کی تھی — وہ تصویر اسی دیوار کی تھی جس پر میرے ابو کے نشان تھے۔
تصویر کے نیچے ٹیچر نے لکھا تھا:
“کتنا اچھا ہو کہ ہر بچہ اپنے بزرگوں سے ایسی ہی محبت کرے!”

میں اپنے کمرے میں گیا، اپنے مرحوم والد کی یاد میں سسکیاں لیتے ہوئے الـلــَّـه تعالیٰ سے معافی مانگنے لگا۔

(تامل زبان کی ایک سچی، سبق آموز روداد ——عرفان جاوید صاحب کی وال سے لیا)

آپ شرابی کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے۔فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسیوں کے سامنے 11 منٹ بیٹھ...
21/07/2025

آپ شرابی کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے۔

فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسیوں کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ کو خیرات میں اپنا سب کچھ تحفے میں دینے کی خواہش محسوس ہوگی۔

لیڈر کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی تمام پڑھائی بیکار ہے۔

لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ محسوس کریں گے کہ مرنا ہی بہتر ہے۔

تاجروں کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی کمائی بہت کم ہے۔

سائنسدانوں کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا۔

اچھے اساتذہ کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ محسوس کریں گے کہ آپ دوبارہ طالب علم بننا چاہتے ہیں۔

کسان یا مزدور کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ محسوس کریں گے کہ آپ کافی محنت نہیں کر رہے ہیں۔

ایک سپاہی کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی اپنی خدمات اور قربانیاں معمولی ہیں۔

ایک اچھے دوست کے سامنے 11 منٹ بیٹھیں - آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی زندگی جنت ہے!

جیسی عینک پہنیں گے ویسا ہی نظر آئے گا۔

20/07/2025

اگر آپ اپنی فیس بک کے کمنٹ پڑھ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ کمنٹ لکھنے والوں اور معاشرے کی اکثریت شیتل اور زرک کے قتل سے دکھی ہے، اس کو غلط سمجھتی ہے، عورت کی مرضی کی حامی ہے اور اپنی باری آنے پر غیرت کا ایسا مظاہرہ ہر گز نہیں کرے گی تو آپ بنیادی طور پر گدھے ہیں۔

اندھا آدمی ایک فائیو سٹار ھوٹل میں گیا۔منیجر نےاس سے پوچھا:"یہ ھمارا مینو ھے،آپ کیا لیں گے سر؟" آدمی:"میں اندھا ھوں، آپ ...
20/07/2025

اندھا آدمی ایک فائیو سٹار ھوٹل میں گیا۔
منیجر نےاس سے پوچھا:
"یہ ھمارا مینو ھے،
آپ کیا لیں گے سر؟"
آدمی:
"میں اندھا ھوں،
آپ مجھے اپنے کچن سے چمچہ کو کھانے کےاشیاء میں ڈبو كر لا دیں، میں اسےسُونگھ کر آرڈر کر دوں گا۔"
منیجر کو یہ سن کر بڑی حیرانی ھوئی۔
اُس نے دل ھی
دل میں سوچا کہ کوئی آدمی سُونگھ كر کیسے بتا سکتا ھے کہ ھم نےآج کیا بنایا ھے، کیا پکایا ھے۔
منیجر نے جتنی بار بھی اپنے الگ الگ کھانے کی اشیاء میں چمچہ ڈبو كر، اندھےآدمی کو سُنگھایا، اندھے نے صحیح بتایا کہ وہ کیا ھے اور اندھے نے سُونگھ کر ھی کھانے کا آرڈرکیا !!
ھفتہ بھر یہی چلتا رھا۔
اندھا سُونگھ كر آرڈر دیتا اورکھانا کھا کرچلا جاتا..!
ایک دن منیجر نے اندھے کا امتحان لینےکا سوچا کہ ایک اندھا آدمی سُونگھ كر کس طرح بتا سکتا ھے؟
منیجر کچن میں گیا اپنی بیوی شگفتہ سے بولا کہ تُم چمچے کواپنے هونٹوں سے گیلا کر دو۔
شگفتہ نے چائے کےچمچ کو اپنے ہونٹوں پر رگڑ کر، منیجر
کو دے دیا.
منیجر نے وہ چائے کا چمچہ اندھے آدمی کو لے جا کر دیا اور بولا:
"بتاؤ، آج ھم نےکیا بنایا ھے؟"
آدمی نے چمچ کو سُونگھا اور بولا:
*"اوہ مائی گاڈ..!*
*میری كلاس فیلو عاصمہ یہاں کام کرتی ہے

ڈیڑھ سال قبل پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو  قبیلے والوں نے دعوت پر بلایا ، مگر وہ کھانے کی نہیں ,, غیرت دکھانے ،، کی دع...
20/07/2025

ڈیڑھ سال قبل پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو قبیلے والوں نے دعوت پر بلایا ، مگر وہ کھانے کی نہیں ,, غیرت دکھانے ،، کی دعوت تھی ۔ دونوں کو لے جا کر ایک چٹیل میدان میں کھڑا کردیا جاتا ہے ، وہاں 19 غیرت مند بلوچی مرد کھڑے ہیں جن میں سے پانچ کے پاس لوڈڈ اسلحہ ہے ، بڑی سی چادر میں لپٹی 24 سالہ شیتل اور 32 سالہ زرک کو گاڑیوں کے قافلے میں قتل گاہ پر لاکر اتارا جاتا ہے ۔۔۔
آج پھر جرگے میں اسکے عشق کا ہے امتحاں
آج پھر وہ گِھر گئی ہے ، پگڑیوں کے درمیاں
شیتل نے چادر میں قرآن تھام رکھا ہے ، قبیلے کے ایک مرد کو قرآن تھما کر یہ کہتے ہوئے سکون سے آگے بڑھتی ہے ,, صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ،، جبکہ اس کی اجازت کسی نے طلب ہی کب کی تھی ۔۔۔ وہ قتل گاہ کی جانب خود بڑھی ، اسے معلوم تھا اپنا انجام ، اس لیے نہ اس کے پاؤں کانپے، نہ آنکھوں میں التجا تھی، نہ لبوں پر چیخ، نہ دامن میں رحم کی بھیک۔۔۔ اس کی خاموشی میں وہ شور تھا، جو ان سب چیخوں پر بھاری تھا جو ظلم کے خلاف کبھی نہ نکل سکیں۔۔۔پھر گولی نہیں ، 9 گولیاں ماری ۔

مزید لکھنے کو کچھ بھی نہیں ہے ، وہاں لکھا بھی کیا جا سکتا ہے جہاں اس قتل کو جسٹیفائی کرنے والے موجود ہوں

19/07/2025

تاجی کھوکھر کے بیٹے فرخ کھوکھر کا جمیعت میں شامل ہونا، طاہر اشرفی کا بلاسفیمی بزنس گینگ میں ملوث اپنے بھائی حسن معاویہ کی وکالت میں سامنے آنا،پی ٹی آئی کے علی محمد خان کا راؤ عبدالرحیم کے ساتھ جا بیٹھنا اور لطیف کھوسہ کا بلاسفیمی گینگ وکلاء کے اجلاس میں شرکت کر کے جسٹس اعجاز اسحاق کے کمیشن بنانے کے فیصلے کی مذمت کرنا یہ کوئی اچنبھے کی باتیں بھی نہیں ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا لینڈ مافیا، ٹمبر مافیا، شوگر مافیا، آئیل مافیا سمیت مسلح مافیاز ،سمگلرز اور کن ٹٹے لوگوں کو آشیرباد دینا پولیٹیکل بزنس کا حصہ ہے۔ عزیر بلوچ ہو، تاجی کھوکھر یا اس کا بیٹا ہو، شوگر مافیا ہو، ٹمبر مافیا کے سرغنہ ہوں یہ سب سیاسی جماعتوں کے اندر ہی تو پھلتے پھولتے ہیں۔

رہ گئی بات بلاسفیمی بزنس کی تو وہ مذہب کارڈ کے طور پر مذہبی ٹھیکیداروں کا ہتھیار ہے۔ وہ اس ہتھیار پر ضرب نہیں پڑنے دیں گے۔ کون اپنی روزی پر لات مارنے کی اجازت دیتا ہے۔

ان سب کرداروں اور ان کی کرتوتوں پر مجھے کوئی نہ کوئی فلمی سین یاد آ جاتا ہے۔ مثلاً جب فرخ کھوکھر اور مولانا کی تصویر سامنے آئی تو “مرزا پور” سیزن سے گڈو بھیا کا ڈائیلاگ ذہن میں آ گیا

“ایک باری کی بات ہے۔ جنگل میں بھالو بیڑی پی رہا تھا۔ اچانک چوہا آیا، بولا: ویاسن کا سوق، کتے کی موت۔ نسہ چھوڑو ہمارے ساتھ چلو دیکھو جنگل کتنا بیوٹی فول ہے۔”

اور بلاسفیمی بزنس گینگ کے کرداروں اور ان کے ہمدردوں کی تصویروں کو دیکھ کر شاہ رخ کا ڈائیلاگ یاد آ جاتا ہے۔

“امی جان کہتی تھیں کوئی دھندا چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔”

کچھ دوست ان معاملات کو لے کر بہت سنجیدہ ہو جاتے ہیں جبکہ سچ پوچھیں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ ہاتھی کے گھر ہاتھی ہی پیدا ہو گا لومڑی تو پیدا ہونے سے رہی۔ جو بویا ہے وہی تو سامنے آئے گا۔ ببول کی فصل پر گلاب نہیں اُگ سکتے۔نہ کچھ عجیب ہے نہ انہونا، وہی ہم عوام ہیں، وہی سیاستدان، وہی نظام۔ جس طرح کا ڈھانچہ اور مزاج ورثے میں ملا ہے، نسل در نسل وہی تو کروائے گا جو ہوتا آیا ہے۔ یہی ہمارا ثقافتی ڈھانچہ ہے اور یہی ہماری بود و باش۔۔۔

یہاں شور و غوغا تو ہر بڑی چھوٹی بات پر اُٹھتا ہے اور دو روز کی دھینگا مشتی،اک دوجے کو بیغیرت کے طعنوں سے چھلنی کرنے بعد کمبل اوڑھ کے سو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی بڑے سے بڑے مدعے کی عمر چوبیس گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پھر نیا مدعا یا سانحہ اور نیا شور۔ یہ باتیں اور مناظر کم ازکم میری نسل کے لیے بالکل بھی نئے نہیں لہذا پھر ایسی باتوں پر حیرت کیسی۔ کچھ عرصہ قبل تک (اور آج بھی گلی محلوں اور گنجان شہروں کی آبادیوں میں) جب گھر کا مرد کام پر اور بچے اسکول روانہ ہو جاتے تو عورتیں برتن اور کام کاج سمیٹ کر سبزی خریدنے کاٹنے کے بعد وقت گزاری کے لیے پچھلی گلی میں کھلنے والے اپنے اپنے دروازے پر کھڑی ہو جاتیں اور پھر باتیں شروع ہو جاتیں۔

اپنے اپنے مردوں کی اچھائی برائی، بچوں کی بیماری، مہنگائی ، فلانی کا فلانے سے آنکھ مٹکا، کسی محلے دار کی بیٹی کے لچھن سے ہوتی ہواتی غیبت کے چراغ جلاتی ایک دوسرے پر طعنہ زنی اور بعض اوقات اے فلانی ڈھینگنی ، اپنی شکل دیکھی ہے تو نے کمینی، جوتا مار دوں گی منہ پر جو ایک لفظ بھی اور اس منحوس منہ سے نکالا ، اے ہے ذرا ایک قدم آگے تو آ تیرا جُوڑا پکڑ کے اسی گلی میں نہ گھسیٹ دیا تو نام صفیہ نہیں وغیرہ وغیرہ تک آن پہنچتی اور پھر دو چار دروازے دھرم سے بند ہونے کی آوازیں آتیں اور دوپہر کا سکوت چھا جاتا۔

ذرا دیر بعد بچے اسکول سے واپس آنے شروع ہو جاتے۔ان کی کھلائی پلائی ہوتی ، چھوٹے بچے سو جاتے اور بڑے بچے سائے لمبے ہونے کے ساتھ ہی یا تو ٹیوشن پر یا پھر ساتھ والے میدان میں کھیلنے چلے جاتے۔چنانچہ پچھلی گلی میں کھلنے والے دروازوں اور چوباروں پر صبح کو جو سیشن بدمزگی کے ساتھ ختم ہوا تھا وہ دوبارہ شروع ہو جاتا۔کوئی عورت کسی سے نہیں پوچھتی تھی کہ صبح کو بدمزگی کیوں ہوئی تھی۔

پھر سے وہی گفتگو جو صبح کے سیشن کی طرح دھیمے خوشگوار سروں میں ہنسی مذاق کے ساتھ شروع ہوتی اور پھر ملازمت پیشہ اور کام کاج پر گئے گھر کے مردوں کی واپسی شروع ہو جاتی اور انکل سلام، بھائی صاحب کیسے ہیں، جیتی رہو ، جیتے رہو کے ساتھ ساتھ پچھلی گلی کے پٹ بند ہوتے چلے جاتے۔

مغرب کے بعد کبھی کبھار کسی گھر کے اندر سے مردانہ گالیوں کی آوازیں ، کبھی تھپڑ یا لات مکی اور اس کے ساتھ ہی کوئی روتی ہوئی مسلسل باریک سی آواز، کبھی دیوار سے سر ٹکرانے کی دھمک یا کبھی بلند ہوتے قہقہے اور کبھی ایک ساتھ سب بچوں بڑوں کی گفتگو کا شور آس پڑوس کو سنائی دیتا۔ جوں جوں اندھیرا چھانے لگتا توں توں آوازوں کا دائرہ سمٹنے لگتا اور پھر ٹی وی یا پڑوس کی مسجد میں ہونے والی کسی محفل کی آواز محلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور پھر بھیگتی رات کا سکوت تمام آوازوں کو فجر تک کمبل اوڑھا دیتا۔

یہ ہے وہ ماحول کہ جس کے خمیر سے ہماری اٹھان ہوتی ہے اور پھر پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔شاید ہم سب ایک “کنٹرولڈ کیاس” یعنی منظم افراتفری کے وال کلاک میں لگی سوئیاں ہیں جو روزانہ بارہ بارہ گھنٹے کا دائرہ مکمل کرنے کے سوا نہ کچھ سوچ سکتی ہیں نہ کر سکتی ہیں۔

سید مہدی بخاری

17/07/2025

"کسی کو اپنے دادا کے دادا کا نام کام اولاد پیشہ یاد نہ ہوگا۔ سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ زندہ ہو تو کوشش کرو کچھ دن اپنی مرضی سے جی لو۔ سب مایا ہے۔

گل چڑھائیں گے لحد پر
جن سے یہ امید تھی،
وہ بھی پتھر رکھ گئے
سینے پہ مر جانے کے بعد۔

12/07/2025

بیٹی کی انسولین کیلئے بھی پیسے نہیں، باپ نے فیس بک لائیو ویڈیو میں مدد کی
اپیل کے بعد خود کشی کر لی
انڈیا

Address

Lahore
39350

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Realistic Raza posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Realistic Raza:

Share