Peace Media

Peace Media Only For justice The purpose of this page is to provide a brief introduction to Islam and its beliefs. With your support we can help many people together.

In this page we would like to share good Quotations from all over the world (not just from Hadith & Qur'an ) Which can be very helpful not only for our Muslim friends but also very useful for non-Muslims who would like to find out more about Islam. This page is all about social work and giving awareness about helping the helpless. We all are humans, and we have some responsibilities to fulfill. May God give us strength to make this possible.

31/08/2024


31/08/2024
ایک شخص کا ایک بیٹا تھا،روز رات کو دیر سے آتا اور جب بھی اس سے باپ پوچھتا کہ بیٹا کہاں تھے.؟ تو جھٹ سے کہتا کہ دوست کے س...
31/08/2024

ایک شخص کا ایک بیٹا تھا،
روز رات کو دیر سے آتا اور جب بھی اس سے باپ پوچھتا کہ بیٹا کہاں تھے.؟
تو جھٹ سے کہتا کہ دوست کے ساتھ تھا. ایک دن بیٹا جب بہت زیادہ دیر سے آیا تو باپ نے کہا کہ بیٹا آج ہم آپ کے دوست سے ملنا چاہتے ہیں.
بیٹے نے فوراً کہا اباجی اس وقت؟
ابھی رات کے دوبجے ہیں کل چلتے ہیں.
نہیں ابھی چلتے ہیں.
آپ کے دوست کا تو پتہ چلے.
باپ نے ابھی پہ زور دیتے ہوئے کہا.
جب اس کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کافی دیر تک کوئی جواب نہ آیا.
بالآخر بالکونی سے سر نکال کہ ایک بزرگ نے جو اس کے دوست کا باپ تھا آنے کی وجہ دریافت کی تو لڑکے نے کہا کہ اپنے دوست سے ملنے آیا ہے.
اس وقت، مگروہ تو سو رہا ہے بزرگ نے جواب دیا.
چاچا آپ اس کو جگاؤ مجھے اس سے ضروری کام ہے،
مگر بہت دیر گزرنے کے بعد بھی یہی جواب آیا کہ صبح کو آجانا.
ابھی سونے دو،
اب تو عزت کا معاملہ تھا تو اس نے ایمرجنسی اور اہم کام کا حوالہ دیا مگر آنا تو درکنار دیکھنا اور جھانکنا بھی گوارا نہ کیا.
باپ نے بیٹے سے کہا کہ چلو اب میرے ایک دوست کے پاس چلتے ہیں.
جس کا نام خیر دین ہے.
دور سفر کرتے اذانوں سے ذرا پہلے وہ اس گاؤں پہنچے اور خیردین کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا،
مگر جواب ندارد، بالآخر اس نے زور سے اپنا نام بتایا کہ میں الله ڈنو، مگر پھر بھی دروازہ ساکت اور کوئی حرکت نہیں.
اب تو بیٹے کے چہرے پہ بھی فاتحانہ مسکراہٹ آگئی.
لیکن اسی لمحے لاٹھی کی ٹھک ٹھک سنائی دی، اور دروازے کی زنجیر اور کنڈی کھولنے کی آواز آئی،
ایک بوڑھا شخص برآمد ہوا جس نے لپٹ کر اپنے دوست کو گلے لگایا اور بولا کہ میرے دوست، بہت معذرت، مجھے دیر اس لیے ہوئی کہ جب تم نے 27 سال بعد میرا دروازہ رات گئے کھٹکھٹایا تو مجھے لگا کہ کسی مصیبت میں ہو،
اس لیے جمع پیسے نکالے کہ شاید پیسوں کی ضرورت ہے،
پھر بیٹےکو اٹھایا کہ شاید بندے کی ضرورت ہے،
پھر سوچا شاید فیصلے کےلیے پگ کی ضرورت ہو تو اسے بھی لایا ہوں.
اب سب کچھ سامنے ہے،
پہلے بتاؤ کہ کس چیز کی ضرورت ہے؟
یہ سن کر بیٹے کی آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ابا جی کتنا سمجھاتے تھے کہ بیٹا دوست وہ نہیں ہوتا جو رت جگوں میں ساتھ ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جو ایک آواز پر حق دوستی نبھانے آجائے.
آج بھی کئی نوجوان ایسی دوستیوں پہ اپنے والدین کو ناراض کرتے ہیں، باپ کے سامنے اکڑجاتے ہیں.
ذرا دل تھام کر سوچیےکہ آپ کے۔!!!

وہ دونوں کلاس فیلو تھے‘ لڑکی پوری یونیورسٹی میں خوبصورت تھی اور لڑکا تمام لڑکوں میں وجیہہ‘ دونوں ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے...
19/08/2024

وہ دونوں کلاس فیلو تھے‘ لڑکی پوری یونیورسٹی میں خوبصورت تھی اور لڑکا تمام لڑکوں میں وجیہہ‘ دونوں ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے اور آخر میں دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے‘ معاملہ رومیو جولیٹ جیسا تھا‘ دونوں کے خاندان ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے‘ شادی مشکل تھی‘ دونوں باعزت گھرانوں کے سعادت مند بچے تھے‘ یہ بھاگ کر شادی کیلئے تیار نہیں تھے اور خاندان اپنے اپنے شملے نیچے
نہیں لا رہے تھے لہٰذا معاملہ پھنس گیا‘ لڑکے اور لڑکی نے پوری زندگی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ یہ دونوں اپنے اپنے گھر میں رہتے رہے‘ پانچ سال دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہ ہوا‘ والدین شادی کی کوشش کرتے مگر یہ انکار کرتے رہے یہاں تک کہ لڑکی کے والدین ہار مان گئے‘ لڑکی نے لڑکے کو فون کیا‘ لڑکے نے فون اٹھایا‘ لڑکی کی صرف ہیلو سنی اور کہا ”مجھے بتاؤ‘ میں نے بارات لے کر کب آنا ہے“ دونوں کے والدین ملے‘ شادی ہوئی اور دونوں نے اپنا گھر آباد کر لیا‘ لڑکے نے کاروبار شروع کیا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور وہ خوش حال ہو گئے‘ یہ شادی بیس سال چلی‘ اس دوران تین بچے ہو گئے‘ خاتون کو اپنے حسن‘ اپنی خوبصورتی پر بہت ناز تھا‘ وہ تھی بھی ناز کے قابل‘ وہ 45 سال اور تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود جوان لگتی تھی‘ خاوند بھی روز اول کی طرح اس پر فریفتہ تھا‘ وہ روز جی بھر کر بیوی کی تعریف کرتا تھا لیکن پھر ایک دن وہ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا‘ خاتون کی پر چھوٹی سی گلٹی نکلی اور یہ گلٹی پھیلتے پھیلتے ناسور بن گئی‘ ڈاکٹروں کو دکھایا‘ ٹیسٹ ہوئے‘ پتہ چلا خاتون جلد کے کینسر میں مبتلا ہیں‘ خاوند صرف خاوند نہیں تھا وہ اپنی بیوی کا مہینوال تھا‘ وہ اپنی ران چیر کر بیوی کو کباب بنا کر کھلا سکتا تھا‘ وہ بیوی کو لے کر دنیا جہاں کے ڈاکٹروں کے پاس گیا‘ ایک کلینک سے دوسرے کلینک‘ ایک ڈاکٹر سے
دوسرے ڈاکٹر اور ایک ملک سے دوسرے ملک‘ وہ دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا‘ خاتون کا جسم گلٹیوں سے بھر گیا‘ یہ مصیبت ابھی ختم نہیں ہوئی کہ ایک دن دوسری آفت آن پڑی‘ خاوند کی گاڑی ٹرک سے ٹکرائی اور وہ شدید زخمی ہو گیا‘ وہ ہسپتال پہنچا‘ پتہ چلا وہ بینائی کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے‘ آپ اس کے بعد المیہ ملاحظہ کیجئے‘ شہر کا خوبصورت ترین جوڑا‘ بدقسمتی‘ ب جلد کے کینسر کی مریض اور خاوند آنکھوں سے اندھا‘

لوگ انہیں دیکھتے تھے تو کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے لیکن یہ دونوں اس کے باوجود مطمئن تھے‘ یہ روز صبح باغ میں واک بھی کرتے تھے‘ سینما بھی جاتے تھے اور ریستورانوں میں کھانا بھی کھاتے تھے‘ بیوی خاوند کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ ساتھ چلتی تھی‘ وہ اسے گائیڈ کرتی تھی اور خاوند بیوی کی گائیڈینس پر چلتا جاتا تھا‘ یہ سلسلہ بھی کئی ماہ تک چلتا رہالیکن پھر بیوی نے خاوند سے ایک عجیب مطالبہ کر دیا‘ وہ اکیلی سوئٹزرلینڈ جانا چاہتی تھی‘ خاوند نے وجہ پوچھی‘ بیوی کا کہنا تھا وہ دس پندرہ دن اکیلی رہنا چاہتی ہے‘
خاوند نے اس کے ساتھ جانے کی ضد کی لیکن وہ نہ مانی‘ اصرار اور انکار بڑھتا رہا یہاں تک کہ آخر میں وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوتا ہے‘ خاوند نے بیوی کو اجازت دے دی۔بیوی سوئٹزر لینڈ چلی گئی‘ خاوند نے وہ دس دن بڑی مشکل سے گزارے‘ وہ شادی کے 20 برسوں میں ایک دن کیلئے بھی اکیلے نہیں ہوئے تھے‘ یہ ان کی جدائی کے پہلے دس دن تھے‘ یہ دس دن پہاڑ تھے‘ خاوند اس پہاڑ تلے سسکتا رہا‘ دس دن بعد بیوی نے آنا تھا‘ خاوند ائیرپورٹ پہنچا لیکن بیوی نہ آئی‘

خاوند کو دنیا ڈولتی ہوئی محسوس ہوئی‘ وہ سارا دن بیوی کو فون کرتا رہا‘ بیوی سے رابطہ نہ ہوا لیکن شام کو بیوی کا خط آ گیا‘ وہ خط ان کے بیٹے نے پڑھا‘ وہ خط صرف خط نہیں تھا‘ وہ ایک تحریری قیامت تھی اور پورا خاندان اس تحریری قیامت کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں اس قیامت کی طرف آنے سے قبل آپ کو دنیا کی ایک خوفناک لیکن دلچسپ حقیقت بتاتا چلوں۔دنیا میں ایسے بے شمار سینٹرز ہیں جہاں آپ اپنی مرضی سے مر سکتے ہیں‘ یہ سینٹرزلاعلاج مریضوں کیلئے بنائے گئے ہیں‘

دنیا میں یہ لوگ جب امراض کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک جاتے ہیں اور یہ چین کی موت مرنا چاہتے ہیں تو یہ لوگ ان سینٹرز میں جاتے ہیں‘ اپنی میڈیکل رپورٹس دکھاتے ہیں‘ ڈاکٹرز ان کی حالت اور رپورٹ چیک کرتے ہیں‘ ان سے یہ حلف نامہ لیتے ہیں ”ہم اپنی مرضی سے دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں“ ان کی مرضی سے ان کی موت کا دن اور وقت طے کرتے ہیں‘ ان کی آخری خواہش پوری کرتے ہیں اور پھر انہیں زہر کا ٹیکہ لگا کر دنیا سے رخصت کر دیتے ہیں‘ یہ عمل طبی زبان میں یوتھانیزیا(euthanasia)یعنی آسان موت کہلاتا ہے‘یہ دنیا کے 7 ممالک میں قانونی ہے اور اتنے ہی ملکوں میں اس کی اجازت کیلئے بحث چل رہی ہے‘
سوئٹزر لینڈ بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں یوتھانیزیا کو قانونی سٹیٹس حاصل ہے‘ زیورخ شہرمیں یوتھانیزیا کا سینٹر بنا ہے‘ یہ سینٹر انتہائی خوبصورت جگہ پر قائم ہے‘ سینٹر کے کمرے پہاڑوں‘ آب شاروں اور جھیلوں کے کنارے بنائے گئے ہیں‘ مریض بیڈ پر لیٹ کر زندگی کی آخری صبحیں اور شامیں دیکھتے ہیں اور آخر میں مہربان ڈاکٹروں اور نرسوں کے ہاتھوں میں زندگی کی سرحد پار کر جاتے ہیں‘ وہ خاتون بھی یوتھانیزیاکیلئے سوئٹزر لینڈ گئی تھی‘ وہ کینسر کا دکھ برداشت نہیں کر پا رہی تھی چنانچہ اس نے آسان موت لینے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ زیورخ گئی‘
زندگی کے آخری دس دن گزارے اور عین اس وقت اپنے لئے موت کا تعین کر لیا جب اس کی فلائیٹ نے وطن کی مٹی کو چھونا تھا‘ ادھر فلائیٹ اتری اور ادھر وہ زندگی کی سرحد پار کر گئی‘ خاتون کا آخری خط بیٹے کے ہاتھ میں تھا‘ وہ سسکیاں لے لے کر خط پڑھ رہا تھا اور خاوند سر جھکا کر اپنی بیگم کا ایک ایک لفظ سن رہاتھا۔بیوی نے اپنی پوری زندگی کا احاطہ کیا‘ اس نے بتایا‘ وہ جب پہلی بار یونیورسٹی میں ملے تھے تو اس نے کیا محسوس کیا تھا‘ وہ یونیورسٹی میں لڑتی کیوں تھی اور وہ کون سا دن تھا جب لڑتے لڑتے اسے اس سے محبت ہو گئی تھی‘ اس نے فراق کے وہ پانچ سال کیسے گزارے تھے اور اس نے شادی کے بعد اپنے بچوں کو ملازموں کے رحم وکرم پر کیوں چھوڑے رکھا تھا ”میں اپنی محبت کو تقسیم نہیں کر سکتی تھی‘ میں تمہارا حصہ اپنے بچوں کو بھی نہیں دے سکتی تھی“
اس نے 20 سال کی ازدواجی زندگی کس مسرت اور سرشاری میں گزاری اور پھر جب اسے پہلی گلٹی نکلی تو اس نے کیا محسوس کیا‘ وہ خود کو روز بروز بدصورت ہوتا ہوا دیکھتی تھی تو اس کے دل پر کیا گزرتی تھی‘ وہ قدرت کا یہ فیصلہ بھی سہتی چلی گئی لیکن پھر عجیب واقعہ ہوا”آپ نے پہلے بچے بورڈنگ سکول میں بھیج دیئے‘ میں جانتی تھی آپ نے یہ فیصلہ کیوں کیا‘ آپ نہیں چاہتے تھے میرے بچے مجھے اس حالت میں دیکھیں اور پھر میں ان کی آنکھوں میں اپنے لئے ترس دیکھوں‘
پھر آپ ملازموں کو رشوت دیتے تھے اور وہ روزانہ کوئی نہ کوئی شیشہ توڑ دیتے تھے‘ میں آپ سے شیشے لگوانے کا کہتی تھی‘ آپ ہنس کر ٹال جاتے تھے یوں آہستہ آہستہ گھر سے سارے آئینے غائب ہو گئے‘ آپ نہیں چاہتے تھے میں اپنی آنکھوں سے اپنی بدصورتی دیکھوں‘ بات اگر یہاں تک رہتی توبھی میں برداشت کر جاتی لیکن آپ نے آخر میں عجیب کام کیا‘ آپ نے ایکسیڈنٹ کیا اور خود کو اندھا ڈکلیئر کر دیا‘ میں جانتی ہوں آپ کی آنکھیں ٹھیک ہیں‘ آپ مسلسل چھ ماہ سے اندھے پن کی ایکٹنگ کر رہے ہیں اور میں یہ بھی جانتی ہوں آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نہیں چاہتے تھے
میرے دل میں ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال آئے میں آپ کو بدصورت دکھائی دے رہی ہوں یا میں آپ کی آنکھوں میں اپنی بدصورتی کو پڑھ لوں چنانچہ آپ اندھے بن گئے‘ آپ کا یہ مصنوعی اندھا پن محبت کی انتہا تھی‘ میں یہ انتہا برداشت نہ کر سکی چنانچہ میں نے دنیا سے رخصت ہونے کا فیصلہ کر لیا‘ میں دنیا سے جا رہی ہوں‘ آپ اب پلیز اندھے پن کی یہ ایکٹنگ بند کر دیں‘ یہ خط پکڑیں اور خود پڑھنا شروع کر دیں“ یہاں پہنچ کر بیٹے کے منہ سے چیخ نکل گئی‘
باپ نے اس کے ہاتھ سے خط لیا اور اونچی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا ”آپ پلیز میرے بعد اپنا خیال رکھئے گا‘ سارے تولئے الماری میں رکھے ہیں‘ میں درزی کو پانچ سال کے کپڑے دے آئی ہوں‘ وہ سال میں دس جوڑے سی کر دے جائے گا‘ آپ نے وہ سارے کپڑے پھٹنے گھسنے تک پہننے ہیں‘ دانت چیک کراتے رہا کریں اور صبح کی سیر کبھی نہیں بھولنی اور آخری بات چڑیوں کو روز دانا ڈالنا ہے اور میری بلیوں کا ہمیشہ خیال رکھئے

05/08/2024
جب مرد اور عورت کی شادی ہو جاتی ہے تو ان کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہو جاتا ہے بزرگ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد میاں اور ب...
05/08/2024

جب مرد اور عورت کی شادی ہو جاتی ہے تو ان کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہو جاتا ہے بزرگ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد میاں اور بیوی دونوں اپنے ماں باپ سے دور ہو جاتے ہیں اور جب ان کے ہاں اولاد ہو جاتی ہے تو پھر وہ دونوں اپنے آپ سے دور ہو جاتے ہیں یہ دونوں رشتے ایسے ہیں کہ شادی سے پہلے اپنے ماں اور باپ دونوں سے بہت زیادہ محبت اور پیار کرتے ہیں لیکن جیسے ہی شادی کے بندھن میں بند جاتے ہیں تو پھر وہ ہی محبت میاں اور بیوی کے درمیان پروان چڑھتی ہے لیکن جب ان کے ہاں اولاد ہو جاتی ہے تو پھر وہ ہی محبت جو ان دونوں کے درمیان ہوتی ہے وہ بچوں میں منتقل ہو جاتی ہے جیسے ہی وہ ماں باپ بن جاتے ہیں تو پھر وہ دونوں اپنا خیال کم اور اپنے بچوں کا زیادہ رکھتے ہیں زندگی کے اس طویل سفر میں شوہر اور بیوی کے درمیان کئی بار تلح کلامی اور کشیدگیاں بھی ہوتی ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب جوانی عروج پر ہوتی ہے تو اس وقت انسان کی جو عقل ہے اس کا بچپن ہوتا ہے اس عقل کے بچپن کی وجہ سے انسان کے جزبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے انسان کی عمر ڈھلتی جاتی ہے اس کی جسمانی طاقت کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت وہ بڑھاپے کی عمر میں داخل ہو جاتے ہے اور یہ وقت وہ ہوتا ہے جب انسان کی عقل جوان ہوتی ہے لیکن اس کا جسم کمزور ہو چکا ہوتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ
(جوانی بوڑھی ہو گئی ہے)جب جوانی جوان ہوتی ہے اور عقل میں بچپنا ہوتا ہے تو اس وقت انسان اپنی زندگی کے ساتھی کی قدر نہیں کرتا کیونکہ انسان کے جزبات عروج پر ہوتے ہیں اس جزبات کی روح میں انسان اپنا سب کچھ لٹا چکا ہوتا ہے اور وہ لوگ جو اپنا سب کچھ لٹا چکے ہوتے ہیں وہ بڑھاپے میں اس قدر کمزور ہو جاتے ہیں کہ ان کی کمر جھک جاتی ہے وہ سیدھے ہو کر چل بھی نہیں سکتے۔
لیکن جیسے جیسے انسان کی عقل جوان ہوتی ہے تو اس وقت میاں اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرنے لگ جاتا ہے اس وقت اپنی زندگی کے ساتھی کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے یہ وقت ہوتا ہے جب وہ دونوں ایک دوسرے کے غمگسار بن جاتے ہیں لیکن اگر زندگی کے اس موڑ پر کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو دوسرے کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے سب سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ اپنی زندگی کے ساتھی کی جدائی کا غم دوسرے کو دن رات کھائے جا رہا ہوتا ہے اس حالت میں اس کا جو خیال اس کا ساتھی رکھتا تھا کوئی دوسرا نہیں رکھ سکتا جس کی وجہ سے بہت ساری بیماریاں اس انسان میں پیدا ہو جاتی ہیں ایسے افراد جو اپنی زندگی میں ہر کسم کا کام جو مل کر کرتے تھے وہ اچانک سے ختم ہو جاتا ہے اس حالت میں وہ لوگ جن کا مرنا اور جینا ایک ساتھ تھا اور کافی عرصہ گزر جانے تک اس نے کوئی بھی حق زوجیت ادا نہیں کیا اس حالت میں بہت ساری بیماریاں جنم لیتی ہیں لیکن ان بیماریوں کا حکمت میں آسان حل موجود ہے اور بے شمار ادویات ہیں جن کے استعمال سے ان بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ایسے میں انکی امیندیں انکی اپنی اولاد سے لگی ہوتی ہے آپ چاہیں پیسوں کا ڈھیر لگادیں انکے سامنے کوئی خوشی نہیں ملنی پر آپ چند منٹ نکال کر بوڑھے ماں باب سے بیٹھ کر انہیں گلے سے لگائیں انکے ساتھ باتیں کریں انکی ضروریات کا خیال رکھیں انشاء اللہ کوئی بھی مرض قریب نہیں آئے گا انکے۔
اللہ ہمیں اپنے ماں باب کا فرماں بردار بنائے آمیین۔

دنیاں مکافاتِ عمل ہیں آج جیسا سلوق اپنے ماں باب سے کریں گے کل آپکی اولاد بھی ایسا کرے گی آپکے ساتھ یہ ایک حقیقت ہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا ہیں۔
کے ماں باب کے پاس بیٹھنے میں دو بڑے فائدے ہیں
آپ کبھی بڑے نہیں ہوتے اور وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔

01/08/2024
01/08/2024

Address

Lahore
75070

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Peace Media posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Peace Media:

Share

Our Story

The purpose of this page is to provide a brief introduction to Islam and its beliefs. In this page we would like to share News ,Media Entertainment, good Quotations from all over the world (not just from Hadith & Qur'an ) Which can be very helpful not only for our Muslim friends but also very useful for non-Muslims who would like to find out more about updates of social Activities and National News make sure that be a member of our Good Page kindly Like and follow my Page


  • Chief Admin: Mrs Dr Aysha (Lahore Model Town )
  • Timings:6:00 Pm To 9:00 Pm

    2.Admin: Amna Habib (Faisalabad)