RS Rizvi Official

RS Rizvi Official Digital Channel
Backgrounds
@پنجابی ثقافت @ خواب گذیدہ @ اسلام اور سائنس

رنگ باز لاہوری--- شہنشاہ اکبر اور شاہ جہاں کے دور میں لاہور نیل کی دنیا کی سب سے بڑی منڈی تھا۔ شہنشاہ اکبر نے لاہور کے ق...
19/06/2024

رنگ باز لاہوری---
شہنشاہ اکبر اور شاہ جہاں کے دور میں لاہور نیل کی دنیا کی سب سے بڑی منڈی تھا۔ شہنشاہ اکبر نے لاہور کے قلعے سے ذرا فاصلے پر ہندوستان میں نیل کی پہلی منڈی قائم کی.
یہ منڈی اکبر کے نام پر اکبری منڈی اور اس سے ملحق علاقہ رنگ محل کہلایا. لاہور کے مضافاتی علاقے موجودہ ساہیوال میں میلوں نیل کے پودے تھے. اسی نسبت سے اسے آج بھی نیلی بار کہتے ہیں.
لوگ نیل کے پودوں کا عرق نکالتے، بڑی بڑی کڑاہیوں میں ڈال کر پکاتے، اس کا پاؤڈر اور ڈلیاں بنائی جاتی تھیں. پھر ٹوکریوں اور بوریوں میں بھر کر اکبری منڈی پہنچ کر بکتیں.
پھر یہ وہاں سے بمبئی اور کولکتہ کے فرانسیسی اور اطالوی تاجر انہیں خرید لیتے، بحری جہازوں میں بھر کر یہ نیل اٹلی کے ساحلی شہر جنیوا پہنچ جاتی. جنوا نامی شہر فرانسیسی شہر نیم، کے قریب تھا. نیم شہر ڈی نیم بھی کہلاتا ہے جہاں ہزاروں کھڈیاں لگی تھیں، ان پر موٹا سوتی کپڑا بُنا جاتا تھا جو سرج کہلاتا تھا. کپڑا بن کر پھر جنوا پہنچتا جہاں گورے اس پر لاہوری نیل کا رنگ چڑھاتے، کپڑا نیلا ہو جاتا تھا. پھر یہ کپڑا درزیوں کے پاس پہنچتا، درزی اس سے مزدوروں، مستریوں اور فیکٹری ورکرز کے لیے پتلونیں سیتے. وہ پتلونیں بعد ازاں جنوا شہر کی وجہ سے جینز کہلانے لگیں.
جینز پتلونیں دنیا بھر مشہور ہو گئیں. ڈی نیم شہر کے تاجروں نے جوش حسد میں اپنے کپڑے کو بھی ڈی نیم کہنا شروع کر دیا. ڈی نیم آہستہ آہستہ ’’ڈینم‘‘ بن گیا. جبکہ جینز اور ڈینم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکٹھے ہو کر ڈینم جینز بن گئے۔
جینز کے تین عناصر تھے. ڈی نیم کا کپڑا، لاہور کا نیل اور جنوا کے درزی. مغلوں کے دور میں اگر لاہور کا نیل نہ ہوتا تو جینز نہ بن سکتی تھی. اگر بنتی بھی تو کم از کم نیلی نہ ہوتی. جینز کا نیلا پن لاہور کی بدولت تھا. آج بھی انگریزی کی پرانی ڈکشنریوں میں نیل کا نام لاہوری ملے گا. گورے اس زمانے میں نیل کو لاہوری کہتے تھے. یہ رنگ بعد ازاں انڈیا کی مناسبت سے انڈیگو بن گیا. فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ڈچ نیل خریدنے کے لئے ہندوستان آتے تھے. برطانوی افیون پینے کے لئے آے تھے مگر پھر پورا ہندوستان ہتھیا لیا. لیکن یہ ںیت بعد کی باتیں ہیں. ابھی اس دور کی بات ہے جب نیل لاہور کی سب سے بڑی تجارت تھا. تب یہ پاک و ہند میں لاہوری یا انڈیگو کہلاتا تھ۔ یہ ہزاروں میل کا زمینی اور سمندری فاصلہ طے کر کے جنوا پہنچتا، جینز کا حصہ بن کر ساری دنیا میں پھیل جاتا تھا۔ پھر لاہور کے نیل کو نظر لگ گئی۔ مغلوں نے نیل پر ٹیکس لگا دیا تو یورپ نے مصنوعی رنگ ایجاد کر لئے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے فرانسیسیوں اطالویوں اور پرتگالیوں کو مار بھگایا. یوں نیل کی صنعت زوال پذیر ہو گئی۔ نیل لاہوری نہ رہا مگر لاہور کے شہری آج بھی رنگ باز ہیں. لاہوریوں کو یہ خطاب ممبئی اور کولکتہ کے تاجروں نے دیا تھا۔ ہندوستان میں اس وقت فارسی زبان رائج تھی. فارسی میں کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو باز کہا جاتا تھا. پتنگ بنانے والے پتنگ باز، کبوتر پالنے والوں کو کبوتر باز. اور اس مناسبت سے رنگ بیچنے والے رنگ باز ہو گئے۔ چنانچہ کولکتہ اور ممبئی کے تاجر نیل کی صنعت سے وابستہ لاہوریوں کو ’’رنگ باز‘‘ کہنے لگے. اس زمانے میں کیونکہ لاہور کی زیادہ تر آبادی نیل کی صنعت سے وابستہ تھی چنانچہ پورا لاہور رنگ باز ہو گیا. یہ رنگ بازی آج بھی لاہوری مزاج میں زندہ ہے-----

🥭Very Important Information about Mango🥭آم درخت سے کچا توڑا جاتا ہے۔ پھر اسے کریٹ پیٹی وغیرہ میں بند کرکے اندر مسالہ رکھ...
01/06/2024

🥭Very Important Information about Mango🥭
آم درخت سے کچا توڑا جاتا ہے۔ پھر اسے کریٹ پیٹی وغیرہ میں بند کرکے اندر مسالہ رکھ دیا جاتا ہے کہ دو سے تین دن میں آم کا گودا اندر سے نرم ہو جائے اور رنگ بھی پیلا ہوجائے۔ آم کھانے کے لیے تیار ہے۔

مسالہ ہے کیلشیم کاربائیڈ CaC2 جسے بازار میں موجود اکثریت آموں کو لگا کر آموں کا رنگ بدلا گیا ہوتا ہے۔ یہ ایک زہر ہے جو پوری دنیا میں پھلوں کو لگا کر پکانا ممنوع ہے۔ اسکا ایک استعمال آپکو بتاتا ہوں۔ گیس ویلڈنگ دیکھی ہے؟ جو لوہے کی بڑی سی ٹینکی ہوتی اس میں ایک مسالہ ڈال کر آگ پیدا کی جاتی جس سے ویلڈنگ کی جاتی ہے۔ وہ مسالہ یہی کیلشیم کاربائیڈ ہوتا ہے۔ یہ آتش گیر مادہ ہے جسے فیکٹریوں میں استعمال کیا جاتا۔ آموں کی پیٹی میں اسکی تھوڑی سی مقدار اتنی حرارت پیدا کر دیتی کہ آموں کا رنگ بدل جاتا اندر تک گل سڑ جاتے آم۔ اور یہ زہر آموں میں بھی سرائیت کر جاتا ہے۔

اسکا استعمال پاکستان میں بھی ممنوع ہے مگر یہاں کونسا قانون ہے۔ اسکے ساتھ ایک تو آم کی قدرتی خوشبو بدل جاتی۔ دوسرا کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آم فوری تو منہ میں تیزابیت پیدا کرتے۔ گلا پکڑا جاتا گلے میں جلن سی ہوتی ہے، خوراک کی نالی میں زخم ہوجاتے اور لانگ ٹرم نقصانات میں معدے کے السر انتڑیوں کے زہر، اسکن پرابلمز اور کینسر، گردے فیل ہونا جیسی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

دوسرا طریقہ ہے ایک گیس کا استعمال۔ جس کا نام ہے ethylene ایتھائلین C2H2 ہے۔ یہ گیس آموں کے اپنے اندر بھی ہوتی ہے۔ جس سے خود ہی آم پک جاتے ہیں۔ اسے پنجاب فوڈ اتھارٹی سمیت پوری دنیا پھل پکانے کے استعمال میں ریکمنڈ کرتی ہے۔ ایک بند چیمبر میں آم پھیلا کر ایتھائلین گیس چھوڑ دی جاتی ہے۔ اس سے پکے آم رنگ تو بہت زیادہ پیلا نہیں کرتے۔ مگر ان کا ذائقہ بلکل قدرتی اور کمال ہوتا ہے۔ دوسرا صحت کے لیے اسکا کوئی بھی نقصان نہیں۔

ان ایتھائلین سے پکے یا اپنی ہی حرارت سے پکے آموں کا ذائقہ کیا بتاؤں آپ کو ایک نشہ سا ہے۔

اکثریت دوکانداروں کو اس بات کا پتا ہی نہیں ہے۔ کہ ایتھائلین اور کیلشیم کاربائیڈ کیا بلا ہیں۔ اور گاہک کو بھی بس گہرے پیلے رنگ کے آم چاہیں۔ تو جو ڈیمانڈ ہے اسی کے پیش نظر کیلشیم کاربائیڈ لگا کر آم فوراً پکا دیے جاتے جو ہم آج تک آم کے نام پر زہر کھا رہے ہیں۔

میرا آپکو مشورہ ہے۔ کہ ایتھا ئلین سے پکے یا قدرتی طور پر بھی کسی بلکل بند کمرے میں جہاں ہوا نہ گزر سکے آم پڑے رہنے سے بھی پک جاتے ہیں وہ کھائیں۔ جہاں سے مرضی منگوائیں انہیں کہیں کہ کیلشیم کاربائیڈ نہیں لگانا۔
ریڑھیوں یا دوکانوں پر پڑے آم نوے فیصد کیلشیم کاربائیڈ سے پکے ہوتے۔ منڈی سے لائی پیٹی میں بھی نوے فیصد کیلشیم کاربائیڈ ہی ہوگا تجربہ کرلیں ایک بار۔
دعا میں یاد رکھیں 🙏🏼

معروف صحافی اور شاعر انوار فطرت کہتے ہیں کہ پوٹھوہار وہ جگہ ہے جہاں زندگی نے اپنا اولین گیت گایا۔ خطہ پوٹھوہار کی پانچ ل...
29/05/2024

معروف صحافی اور شاعر انوار فطرت کہتے ہیں کہ پوٹھوہار وہ جگہ ہے جہاں زندگی نے اپنا اولین گیت گایا۔ خطہ پوٹھوہار کی پانچ لاکھ سال قدیم تاریخ کو انجینئر مالک اشتر نے اس مضمون کی صورت میں گویا ایک سمندر کوزے میں بند کردیا ہے۔ انجینئر مالک اشتر ایک کتاب ’’ٹیکسلا ٹائمز‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ آپ اس خطے کی تہذیب و تاریخ پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ تاریخ کے کئی کردار انہوں نے اپنے افسانوں میں زندہ کئے ہیں۔ تاریخ کو حال میں لا کر بیان کرنے کا ملکہ مالک اشتر کا خاصا ہے۔
پوٹھوار کی سرزمین جغرافیائی طور پر چار اطراف سے قدرتی حصار میں گھری ہوئی ہے۔مشرق میں دریائے جہلم اس کی حدود متعین کرتا ہے اور مغرب کی جانب ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں سے پھوٹنے والا مہان دریا سندھو(سندھ) صدیوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے،انہی دو دریاؤں کے درمیان کا علاقہ دوآبہ سندھ ساگر کے نام سے مشہور ہے۔شمال کی جانب کالا چٹا پہاڑ اور مارگلہ کے پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ جنوبی سمت میں کوہستانِ نمک سینہ تانے کھڑا ہے اس طرح درمیان میں جو قطعہ ارض وجود میں آتا ہے وہ سطح مرتفع پوٹھوار کہلاتا ہے۔

دفاعی نکتہ نظر سے اہم ان قدرتی رکاوٹوں نے اس خطے میں انسانی آباد کاری کی راہ میں اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ تھی کہ سطح زمین کی بلندی، موافق موسمی حالات اور جنگلات کی کثرت نے قبل از تاریخ کے انسان کو یہاں بود و باش اختیار کرنے پر مجبور کیا۔یوں جنگلی حیات،وافر پانی کی موجودگی اور وسیع و عریض چراگاہوں کی وجہ سے زرعی معاشرے کی بنیاد پڑی۔

1928ء میں جیولاجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ مسٹر ڈی این واڈیا اور1930ء میں ژیل کیمرج ایکسپی ڈیشن نے دریائے سواں کی پٹی کے ساتھ قدیم دور کے پتھر کے تراشیدہ اوزار اور ہتھیار دریافت کیے جرمن محقق ڈی ٹیرا اور پیٹرسن نے بھی یہاں قدیم ترین انسانی عہد کا سراغ لگایا۔انہوں نے چونترا،اڈیالہ،ملک پور اور روات کے مقامات سے پتھر کے دور کے تقریباً تین لاکھ سال قدیم سنگی کلہاڑیاں ور تیز دھار شیشے دریافت کیے۔ڈاکٹر ڈی ٹیرہ کی رائے کے مطابق وادی سواں کی تاریخ بابل، نینوا، وادی سندھ، مصر اور یونان کی تہذیبوں سے بھی ہزاروں سال قدیم ہے۔

انہوں نے روات کے قریب سے دریافت ہونے والی دو انسانی کھوپڑیوں پر تحقیق کی۔انHomo Sapiens کا تعلق پتھر کے جدید دور سے بتایا جاتا ہے یہ ڈھانچے5 سے10 ہزار سال قدیم ہیں۔

1968ء میں آرکیالوجی آف پاکستان کے محکمے نے ایم اے حلیم کی رہنمائی میں ٹیکسلا میں سرائے کھولا کے قریب کھدائی کی اور ماقبل از تاریخ دور کا پتہ لگایا دریافت شدہ برتنوں اور ہتھیاروں پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ3100 قبل میح میں یہاں انسانی آبادی موجود تھی۔اس کے علاوہ ٹیکسلا میوزیم کی شمالی سمت میں دو فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہتھیال نامی مقام سے مٹی کے ایک ٹیلے کی کھدائی کے دوران2800 ق م سے2400ق م کے قدیم کوٹ ڈجین عہد کے آثار دریافت ہوئے ہیں جبکہ اوپر والی تہہ کا تعلق1200ق م سے800ق م کے گندھارا گورستانی عہد سے ہے۔

پوٹھوار کی مختلف وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہیں۔بعض محققین بشمول ڈی این واڈیا کی رائے میں یہ’’پٹھ آر‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔’’پٹھ‘‘ بمعنی پیٹھ اور’’آر‘‘ مثل کے معنی میں آیا ہے یعنی پیٹھ کی طرح کا ابھار۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ لفظ پوٹھوار’’پوپ ہار‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے’’پھولوں کا ہار‘‘۔جب پرتھوی راج،شہاب الدین غوری کی افواج کا غزنی کی جانب تعاقب کرتے ہوئے پشاور تک گیا اور واپسی پر پوٹھوار سے گزر ہوا تو پھولی ہوئی سرسوں اور کھلے ہوئے خودرو پھول دیکھے تو بے ساختہ کہہ اٹھا ’’ایں ملک پوپ ہار است‘‘ یعنی یہ پھولوں کا دیس ہے۔ یہ خطہ’’پوٹا‘‘ دیوتا کی پرستش کے حوالے سے بھی مشہور تھا اس مناسبت سے اس کا نام پوٹھوار پڑ گیا ہوگا اس خطے میں بہنے والے بعض ندی نالوں کا رخ مشرق سے مغرب کی بجائے مغرب سے مشرق کی سمت ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی پُٹھا(الٹا) اور ہاڑ(ندی نالے) کی باہمی اصطلاح پوٹھوار کے نام کی وجہ بن سکتی ہے۔

یہاں بہنے والے مشہور دریاؤں میں سواں،کالس اور ہرو قابل ذکر ہیں جب کہ ندی نالوں کے حوالے سے نالہ لنگ،نالہ کورنگ،نالہ سرین،نالہ لئی،کس گلیانہ،نالہ دھمرا،نالہ کانسی وغیرہ کے نام گنوائے جاسکتے ہیں۔

خیال ہے کہ برصغیر کا قدیم ترین تہذیبی خطہ ہونے کے ناطے پوٹھوار سے ہی زراعت کا آغاز ہوا۔اس حساب سے سب سے پہلے گندم وغیرہ یہیں کاشت کی گئی تھی۔پیداوار کے لحاظ سے باجرہ کی فصل دوسرے نمبر پر ہے۔مونگ،ماش،مسور،موٹھ،چنے اور تل کی کاشت بھی ہوتی ہے جبکہ روغن دار اجناس میں سرسوں اور تارا میرا مشہور ہیں۔ تاہم مکئی کشمیر سے یہاں لا کر متعارف کرائی گئی تھی۔

خطہ پوٹھوار میں مختلف اقسام کے درخت اگتے ہیں، کبھی یہاں گھنے جنگلات کی بھرمار تھی۔ بابر نے ہاتھی اور گینڈے کے شکار کا تذکرہ کیا ہے
۔سکندر اعظم نے بھی ان جنگلات میں گینڈے کا شکار کھیلا تھا۔ تاہم آج پائے جانے والے درختوں میں شیشم، بکائن(دھریک)،بیری، کہو(جنگلی زیتون)،ڈھاک،اوکانہہ جبکہ پھلدار درختوں میں آم، لوکاٹ، جنگلی انار وغیرہ مشہور ہیں۔ چیڑ کے درخت پہاڑوں پر کثرت سے اگتے ہیں۔

ہندو اور بدھ مت کی عبادت گاہوں کے اطراف میں تالابوں کے کنارے اور قدیم راستوں کے ساتھ سستانے کیلئے برگد اور پیپل کے درخت بھی کثیر تعداد میں لگائے گئے۔درحقیقت یہ درخت وسطی ہندوستان سے لائے گئے تھے چونکہ ان کے پتے چوڑے ہوتے ہیں اس لئے انہیں پانی کی وافر مقدار درکار ہوتی ہے جبکہ پوٹھوار کو بارانی خطہ ہونے کے ناطے بارشوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اس لئے قدرتی طور پر یہاں چھوٹے پتوں والے درختوں کی بہتات ہے۔پیپل اور برگد کے درخت،مذہبی تقدس کی وجہ سے پوٹھوار میں متعارف کرائے گئے تھے۔جنگلات کی موجودگی نے جنگلی حیات کو پھلنے پھولنے میں خوب مدد دی۔

پاکستان لوک ورثا
Pakistan lok virsa

صرف ایک ایسا شعبہ جس نے 32 سال میں پاکستان کو موت کے دھانے پر پہنچا دیا ۔ وہ ہے IPPs . یعنی بجلی پیدا کرنے والے 90 پرائی...
27/05/2024

صرف ایک ایسا شعبہ جس نے 32 سال میں پاکستان کو موت کے دھانے پر پہنچا دیا ۔ وہ ہے IPPs . یعنی بجلی پیدا کرنے والے 90 پرائیویٹ ادارے ۔
ان معاہدوں کی قاتلانہ شرائط سے آپ پہلے سے واقف ہیں لیکن آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ انکے مالک کون ہیں؟ تو دل تھام لیجیے
28 فیصد شریف خاندان
16 فیصد ن لیگی رہنما
16 فیصد زرداری
8 فیصد پیپلز پارٹی رہنما
10 فیصد اسٹبلشمنٹ
8 فیصد چین کے سرمایہ کا
7 فیصد عرب کے سرمایہ کار ( قطری)
7 فیصد پاکستانی سرمایہ دار

یعنی 78 فیصد صرف تین گروپس ( شریف ، زرداری ، اسٹبلشمنٹ) کی ملکیت ہیں

اس سے آگے کا المیہ بھی سن لیجیے
یہی وہ 90 لوگ یا گروپ ہیں جس کے پاس پاکستان کی تمام شوگر ملز ، سٹیل ملز ، سیمنٹ ، کھاد ، کپڑے ، بنک ، LPG اور گاڑیاں بنانے کے لائسنس ہیں ۔

یہ بجلی گھر پاکستان کی کل ضرورت کا 125 فیصد پیدا کرنے کی صلاحیت بتا کر لگائے گئے ہیں ۔ لیکن دیتے صرف 48 فیصد ہیں ۔
لیکن قیمت 125 فیصدی کی وصول کرتے آ رہے ہیں
لہذا پچھلے 5 سال میں 6 ہزار ارب دینے کے باوجود یہ ملک ان کا 2900 ارب کا مقروض ہے

List of IPP (Independent Power Producers)

1 ACT Wind (Pvt) Limited
2 AJ Power (Private) Ltd.
3 Almoiz Industries Limited
4 Altern Energy Ltd.
5 Appolo Solar Development Pakistan Limited
6 Artistic Energy (Pvt.) Limited
7 Atlas Power Limited
8 Attock Gen Limited
9 Azad Jammu & Kashmir Power Development Organzation
10 Best Green Energy Pakistan Limited
11 Central Power Generation Company Limited-(Genco-2)
12 Chanar Energy Limited
13 China Power Hub Generation company (Pvt.) Ltd
14 Chiniot Power Limited
15 Crest Energy Pakistan Limited
16 Davis Energen (Pvt) Limited
17 Engro Powergen Qadirpur Limited
18 Engro Powergen Thar (Pvt) Limited
19 F.D QESCO (Collector of Customs Quetta)
20 Fatima Energy Limited
21 Fauji Kabirwala Power Company Ltd.
22 FFC Energy Limited
23 Foundation Power Company Daharki Ltd.
24 Foundation Wind Energy-I Limited
25 Foundation Wind Energy-II (Pvt.) Limited
26 Gul Ahmed Wind Power Ltd
27 Gulf Powergen (Pvt) Ltd
28 Habibullah Coastal Power Co. (Pvt.) Ltd.
29 Halmore Power Generation Company Limited
30 Hamza Sugar Mills Limited
31 Harapa Solar (Pvt) Limited
32 Hawa Energy (Private) Limited
33 Huaneng Shandong Ruyi Energy (Pvt) Ltd
34 Hydrochina Dawood Power (Private) Limited
35 Jamshoro Power Company Limited-(Genco-1)
36 Japan Power Generation Ltd.37JDW Sugar Mills Ltd.
38 Jhimpir Power (Private) Limited
39 Karachi Nucelar Power Plants
40 Kohinoor Energy Ltd.
41Kot Addu Power Company Ltd.
42 Lakhra Power Generation Company Limited-(Genco-4)
43 Lalpir Power (Private) Limited
44 Laraib Energy Limited
45Liberty Power Tech Limited
46Master Wind Energy Limited
47Metro Power Company Ltd
48Mira Power Limited
49Narowal Energy Limited
50National Power Parks Management Company Private Limited
51Neelum Jhelum Hydropower Company (Pvt.) Ltd.
52Nishat Chunian Power Limited53Nishat Power Limited
54Northern Power Generation Company Limited-(Genco-3)
55Orient Power Company (Private) Limited
56PAEC Chashma Nuclear Power Plant.
57Pak Gen Power Limited
58Pakhtunkhwa Energy Development Organization (Malakand-III)
59Pakhtunkhwa Energy Development Organzation (P**O)
60Pakistan State Oil
61Port Qasim Electric Power Company (Pvt.) Limited
62Quaid E Azam Solar Power Pvt Ltd
63Quaid-e-Azam Thermal Power (Pvt) Limited
64Reshma Power Generation (Pvt) Ltd
65Rousch Pak Power Ltd.
66RYK Mills Limited
67Saba Power Company (Pvt.) Ltd.68Sachal Energy Development (Private) Limited
69Saif Power Limited
70Sapphire Electric Company Limited
71Sapphire Wind Power Company Limited
72Sarhad Hydel Developement Organization
73Southern Electric Power Co Ltd.74Star Hydro Power Limited
75Tavanir Iran
76Tenaga Generasi Limited
77Thal Industries Corporation Ltd
78The Hub Power Company Limited
79Three Gorges First Wind Farm Pakistan (Private) Limited
80Three Gorges Second Wind Farm Pakistan Limited
81Three Gorges Third Wind Farm Pakistan (Private) Limited
82TNB Liberty Power Ltd.
83Tricon Boston Consulting Corporation (Private) Limited
84Uch Power Ltd.
85Uch-II Power (Pvt.) Limited
86UEP Wind Power (Pvt)Ltd
87WAPDA Hydel
88Yunus Energy Limited
89 Zephyr Power (Pvt.) Limited
90 Zorlu Enerji Pakistan Limited

Don't forget to share it.

Less Knowledge More Talks کم علمی کثرت کلامی (نفسیاتی تجزیہ)آج سے کچھ عرصہ پہلے اگر آپ مجھ سے بات کرتے تو آپ کو شاید لگت...
21/05/2024

Less Knowledge More Talks
کم علمی کثرت کلامی
(نفسیاتی تجزیہ)
آج سے کچھ عرصہ پہلے اگر آپ مجھ سے بات کرتے تو آپ کو شاید لگتا کہ دنیا جہاں کا علم میرے پاس ہے، میں ہر ٹاپک پہ بات کرنے کو تیار رہتا بات کیا بحث کرنے کو تیار۔ ایسا اس لیے نہیں تھا کہ میرے پاس واقعی کوئی علم تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی وہ آگے چل کر آپ کو سمجھ ا جائے گی۔

یقیناً آپ کا بھی سامنا ایسے گفتگو کے شہکاروں سے ہوا ہو گا جن کی گفتگو سن کر آپ بھی انگشت بدنداں ہو جاتے ہوں گے ۔۔۔
میرے جاننے والے ایک دفعہ مجھے نفسیات پہ بڑی لمبی چوڑی تقریر سنا رہے تھے ان کے پاس سطحیح علم تھا اور وہ ایسے گفتگو کر رہے تھے جیسے سگمنڈ فرائڈ انھیں سے پڑھ کر گیا ہو۔۔۔۔
خیر ہم نے ان سے درخواست کی کہ جناب اتنا تو لحاظ کریں کہ ہم نفسیات گریجوایٹ ہیں تو آپ سے تھوڑا سا تو زیادہ جانتے ہوں گے۔۔۔۔ ہمیں سیکھنے کا شوق بھلے ہے لیکن جو ہمیں زیادہ علم ہے وہ تو نہ سیکھائیں۔۔
تو جناب ہو گئے تھوڑے خاموش۔۔۔

جی تو اس کے پیچھے اس بندے کی نفسیاتی کمزوریاں جنھیں ہم Psychological Weaknesses کہتے ہیں، ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ذاتی خامیوں کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہوتے اس لیے وہ ایسا کرتے ہیں۔۔۔
ایسا کرنے کی چند وجوہات آپ کے گوش گذار کرتے ہیں۔۔۔۔

1) Insecure:

ایسا انسان خود کو غیر محفوظ پاتا ہے اگر اس نے بحث میں حصہ نہ لیا یا اپنی لا علمی کا اظہار کیا تو اس کی شخصیت کا جو Impression ہے وہ غلط جائے گا اس سے اس کے Future Interests کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔۔

2) Cognitive Disonance:

ایسا انسان اپنی شخصیت کے Intrnal Conflicts میں پھنسا ہوتا ہے اس کا علم اور اس کی لاعلمی دونوں کا اسے پتہ ہی نہیں ہوتا اس لیے وہ باتیں بہت زیادہ کرتا ہے تاکہ علم اور لاعلمی مکس ہو کر سامنے والے کو کنفیوز کر دیں۔

3) Impression Management:

ایسے انسان کو محفل پہ اپنا Impression ہر صورت جمانا ہوتا ہے اور اگر محفل میں کوئی اس سے زیادہ علم والا ہو تو اس کی شخصیت کے نمایا پن کو کم کرنا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے تاکہ اسے Attention مل سکے اور وہ اس محفل پہ چھا جائے۔
4) Fear of judgement:

ایسے انسان کو بہت زیادہ ڈر ہوتا ہے کہ اسے کہیں کم علمی کی وجہ سے Judge نہ کیا جائے اور اسے کہیں Reject ہی نہ کر دیا جائے اس لیے وہ الفاظ کی Bombardment کرتا ہے۔
5) Over Confidence:

بعض لوگوں کو شعور ہی نہیں ہوتا کہ وہ خود کو Overestimate کر رہے ہیں وہ لاشعوری طور پر خود کو سامنے والے سے زیادہ اہل علم سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کو نفسیات میں Dunning-Krugar Effect کہتے ہیں۔

یہ چند وجوہات تھیں
اب اگر آپ کا سامنا کسی ایسے انسان سے ہو بھی جائے تو جناب یوں سمجھیں اس کو نفسیاتی مسائل ہیں اس لیے آپ بس مسکرانے پہ اکتفا کریں ورنہ وہ آپ کو آپ کے علم کے بارے میں بھی شک میں ڈال دیں گے۔۔

تو ان سب مسائل کا حل۔۔۔
Reading, Listening

تحقیق و تجزیہ: محمد زمان جوئیہ (نفسیات دان)

عثمانی کشتی بويك جمي (büyük gemi)."وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر"...یہ عثمانی نیوی کا ایک دیوھیکل بحری جہاز تھا، اس...
21/05/2024

عثمانی کشتی بويك جمي (büyük gemi).
"وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر"...
یہ عثمانی نیوی کا ایک دیوھیکل بحری جہاز تھا، اس 1488م بنایا گیا اور استنبول سے سمندر میں اتارا گیا، اس کا وزن 2500 ٹن تھا.
اس وقت یہ دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا، اس کے عملے کی تعداد2000 تھی، اس سے بیک وقت 120 توپ خانے فائرنگ کرتے تھے، اس کو بنانے میں موجودہ حساب سے تقریبََا 64 ملین ڈالر خرچ کیاگیا تھا.
اس کو سلطان محمد الفاتح کے بیٹے سلطان بایزید دوم کے عہد میں تیار کیا گیا، عیسٰی پاشا کو اس کا کپتان مقرر کیا گیا تھا اس وقت امیرالبحر خیرالدین باربروسا تھا جو اس سے پہلے سمندری قزاق تھا اور سمندر کے چپے چپے سے واقف تھے.
عظیم باپ کا عظیم بیٹا۔۔۔سلطان محمد الفاتح تاریخ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے عہد میں قسطنطنیہ فتح ہوا جو موجودہ استنبول کے نام سے مشہور ہے ۔۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت آٹھ صدیوں بعد پایہ تکمیل تک پہنچی۔

ﺳﯽ _ ﺍﯾﺲ _ﺍﯾﺲ  سی ایس ایس ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﮨﮯ ۔ داخلے اکتوبر ، نومبر میں جاتے ہیں ۔داخلہ فیس 2200 ۔پیپرز  فروری میں ...
21/05/2024

ﺳﯽ _ ﺍﯾﺲ _ﺍﯾﺲ

سی ایس ایس ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﮨﮯ ۔
داخلے اکتوبر ، نومبر میں جاتے ہیں ۔
داخلہ فیس 2200 ۔
پیپرز فروری میں ہوتے ہیں ۔
ٹوٹل مارکس 1200 ۔
لازمی مضامین 06 ۔
اختیاری مضامین 06 ۔
لازمی مضامین کے نمبر 600 ۔
اختیاری مضامین کے نمبر 600 ۔

س ایس ایس ایک مقابلے کا امتحان ہے ﺟﺲ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ FPSC ﮐﮯ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﮐﮯ ﺯﯾﺮ نگرانی گریڈ17 ﻣﯿﮟ ﺁﻓﯿﺴﺮ ﺑﮭﺮﺗﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﯾﮕﺰﻡ ﺳﺎﻝ میںﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮭﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﻭﺭ ذہین ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺳﻠﯿﮑﺸﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ انہیں ﺑﯿﻮﺭﻭ ﮐﺮﯾﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﯿﻮﺭﻭ ﮐﺮﯾﺴﯽ حکومتی ﻣﺸﯿﻨﺮﯼ ﭼﻼﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﮍﮪ ﮐﯽ ﮨﮉﯼ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ رکھتی ہے ۔

تعلیمی قابلیت اور عمر کی حد ۔
ہر سال اس امتحان کا اعلان بذریعہ FPSC کیا جاتا ہے ۔
جس میں گریجویشن( آرٹس ، سائنس ، کامرس ، میڈیکل یا انجینئرنگ ) میں سیکنڈ ڈویژن رکھنے والے 21 سے 30 سال کے مرد و خواتین اور خصوصی افراد امتحانات دینے کے اہل ہوتے ہیں ۔ خصوصی افراد کے لیے عمر میں 2 سال کی رعایت ہوتی ہے ۔ اکتوبر ، نومبر ﮐﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ درخواست ﻓﺎﺭﻡ بھرے ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ امتحان فرﻭﺭﯼ ﮐﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

امتحانی مراکز ۔
سی ایس ایس کے امتحانات ملک کے تقریباً 19 شہروں جن
میں ایبٹ آباد، بہاولپور، ڈی جی خان، ڈی آئی خان، فیصل آباد، گلگت، گوجرانوالہ، حیدرآباد، اسلام آباد، کراچی، لاہور، لاڑکانہ، ملتان، مظفر آباد، پشاور، کوئٹہ ، راولپنڈی اور دیگر شامل ہیں میں منعقد ہوتے ہیں ۔

امتحانی طریقہ کار ۔
اس سال سے سی ایس ایس کے امتحان میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں ، اب Css امتحانات سے قبل ایک سکرین آؤٹ ٹیسٹ approve کیا گیا ہے. جو 200 نمبر کا ہوگا ہے ۔ جو لوگ اس میں کامیاب ہونگے وہ written ٹیسٹ دے سکیں گے. ٹیسٹ 200 MCQs سوالات پر مشتمل ہوگا جس میں انگلش پاکستان سٹڈیز اسلامیات اور جنرل سائنس+ میتھ میں سے سوالات پوچھے جائیں گے.
لہذا اب امیدوار جو سی ایس ایس کےامتحانات میں شرکت کرنا چاہتے ہیں اُنہیں پہلے اسکریننگ ٹیسٹ کلیئر کرنا ہوگا ۔
اس کے بعد ہی وہ پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) پورٹل پر درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ درخواست دہندگان اپنی درخواست کی ہارڈکاپی لازمی دستاویزات کے ساتھ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے ہیڈکوارٹر میں MPT ٹیسٹ کلیئر ہونے کے بعد ہی جمع کروا سکتے ہیں ۔

اس کے علاؤہ آپشنل مضمون ریوائز ہو گئے ہیں اور جو لازمی ہیں وہ اسی طرح ہیں۔

امتحان کی اقسام ۔
سی ایس ایس میں 4 ﻗﺴﻢ ﮐﮯ امتحان/ ﭨﯿﺴﭧ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
1 ۔ ﺗﺤﺮﯾﺮﯼ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ written test
2 ۔ ﻧﻔﺴﯿﺎﺗﯽ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ psychological test
3 ۔ ﻃﺒﻌﯽ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ medical test
4 ۔ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ vivavoce/interview

ﺍﻥ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺮﺍﺣﻞ ﺳﮯ ﮔﺬﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺍﻣﯿﺪﻭﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭﭖ ‏( ﻣﺎﺭﮐﺲ ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ‏) ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﮔﺮﻭﭘﺲ ۔۔1 Districtt Management Group
2. Police Services of Pakistan
3. Custom and Excise
4. Postal group
5. Income tax group
6. Information group
7. Foriegn Services of Pakistan
8. Commerce and Trade
9. Millitary lands and Contonments
10. Office Management group
11. Pakistan Audit and Accounts
12. Railways (commercial & transportation)group

مضامین کی تعداد ۔
امتحان کے مضامین ﮐﻮ ﺩﻭ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔
1 Compulsary subjects
2. Optional subjects

Compulsary subjects : 1. Normal English (precis and composition). عمومی انگریزی 2. English Essay & precie. انگریزی مضمون نویسی3. Pakistan affairs. مطالعہ پاکستان4. islamic studies Or comparative study of Major Religion for Non Muslims . اسلامیات5. Current affairs. حالات حاضرہ6. Everyday Science . روزمرہ سائنس

لازمی مضامین میں پاسنگ نمبر 44 ہوتے ہیں اور اختیاری مضامین میں 33 ہوتے ہیں ۔
لازمی مضامین میں حالات حاضرہ ، مطالعہ پاکستان ، اور روزمرہ سائنس میں اگر نمبر 40 سے کم ہوں لیکن دیگر مضامین میں نمبر زیادہ ہوں اور ایگریگیٹ 120 ہو یا اس سے زیادہ ہو تو بھی پاس ہوگا ۔

ﺁﭘﺸﻨﻞ یعنی اختیاری مضامین کی تعداد تقریباً 55 ہے جو سات گروپ پر مشتمل ہیں اور جس میں سے 6 منتخب کرنے ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﭙﺮﺯ 100 ﻣﺎﺭﮐﺲ ﮐﮯ ہوتے ﮨﯿﮟ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﭨﻮﭨﻞ ﻣﺎﺭﮐﺲ 1200 ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ اﻣﯿﺪﻭﺍﺭ ﮐﮯﻟﮱ %50 ﻣﺎﺭﮐﺲ ﺣﺎﺻل ﮐﺮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﯿﮟ۔آﭘﺸﻨﻞ ﺳﺒﺠﯿﮑﭩﺲ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﺎئی ﺍﺳﮑﻮﺭﻧﮓ ﺳﺒﺠﯿﮑﭩﺲ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﻠﯿﮑﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﺫﮬﺎﻧﺖ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ جائے
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺒﺠﯿﮑﭩﺲ منتخب ﮐﺮﯾﮟ ﺟﻮ ﺁﭖ کو پسند ہوں ،ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﮨﻮ، اور کافی حد ان پر عبور ہو ۔ ۔ ۔

‏اگر آپکو کسی لڑکی کی فرینڈ ریکویسٹ آئے تو رومانوی سپنوں میں کھونے سے پہلے مندرجہ ذیل طریقوں سے جانچ پڑتال کرلیں تو سکری...
18/05/2024

‏اگر آپکو کسی لڑکی کی فرینڈ ریکویسٹ آئے تو رومانوی سپنوں میں کھونے سے پہلے مندرجہ ذیل طریقوں سے جانچ پڑتال کرلیں تو سکرین شاٹ و ندامت سے بچ سکتے ہیں.

1۔ اگر اس کا نام کیوٹ پری، ٹُو ہاٹ ٹو ہینڈل ، باربی ڈال، پرنسس وغیرہ سے ملتا جلتا ہو تو سمجھ جائیں کہ ابھی آپ کے مقدر پر چھائے تاریکی کے سائے نہیں چھٹے اور فوری فرینڈ ریکویسٹ ریجیکٹ یا بلاک کردیں کیونکہ 99 فیصد فیک اکاؤنٹ ہے لیکن اگر اسکا نام انسانوں والا ہے تو اگلے سٹیپ نمبر 2 پر چلے جائیں

2۔ اب وال کا وزٹ کریں اور دیکھیں کہ‏ اس کا یہ اکاؤنٹ کب بنا تھا۔ اگر تو اس نے کل، پرسوں، ایک ہفتہ پہلے یا اسی مہینے اپنا یہ اکاؤنٹ بنایا ہے اور آپ کو انباکس بھی بھیج دیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کے اندر سے نکلنے والی مقناطیسی لہروں نے اس لڑکی کو دنیا کے کسی دوسرے کونے سے اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا بلکہ اسکی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ یا تو آپ کا کوئی دوست آپ کے ساتھ کوئی گیم کر رہا ہے یا پھر کوئی غفورا آپکے سکرین شاٹ بنانے یا اکاؤنٹ اڑانےکے درپے ہے لہذا اسی سٹیپ پر اپنی تفتیش ختم کردیں لیکن اگر اس کی پروفائل تازہ تازہ نہیں بلکہ ایک سال ‏سے پرانی ہے تو پھر آپ اپنی تفتیش جاری رکھتے ہوئے سٹیپ نمبر 3 پر عمل کریں۔

3۔ اب آپ لڑکی کی وال پر اس کے ' About ' سیکشن کا جائزہ لیں۔ اگر تو اس نے اپنی انفارمیشن میں اپنی تعلیم لمز، کنئیرڈ کالج، بیکن ہاؤس سکول سسٹم، ڈی پی ایس، این سی اے، کنگ ایڈروڈ میڈیکل کالج وغیرہ لکھی ہے تو آپکی جانچ پڑتال یہیں مفقود ہوتی ہے کیونکہ اگر آپ کو اپنی ماں کی تمام دعائیں بھی لگ جائیں تو بھی آپ کو لمز، این سی اے، آئی بی اے، ڈاکٹر یا انجینر لڑکی خود سے کبھی میسج کرکے دوستی کی خواہش کا اظہار نہیں کرنے والی لیکن اگر اس نے کچھ نہیں لکھا بلکہ کسی سرکاری سکول یا کالج سے ایف اے یا بی اے کیا ہو تو پھر آپ کی امید ابھی بھی قائم ہے۔ سٹیپ نمبر 4 پر جائیں اور ‏اپنے نصیب کی بارش اپنی چھت پر ہونے کی امید جواں رکھیں۔

4۔ اب آپ دوشیزہ کی گزشتہ 30 دن کی ایکٹیویٹیز کا جائزہ لیں۔ اگر تو اس کی تمام تر پوسٹس تصویری شکل میں ہیں، مطلب کہ اس نے کسی کی پوسٹس شئیر کی ہیں اور خود سے کبھی کوئی پوسٹ نہیں کی، یا زیادہ سے زیادہ یہ پوسٹ کی ہو کہ آج میرے سر میں بہت درد ہے، یا گڈ مارننگ گائیز، یا میں اس تصویر میں کیسی لگ رہی ہوں، یا آج صبح سے طبیعت بہت خراب ہے وغیرہ تو اب میرے بھائی بوجھل دل کے ساتھ اپنا یہ شرمندگی والا سفر یہیں روک لیں کیونکہ یہ کوئی پرانا خوچل قسم کا ویلا مشٹنڈہ ہے جسکا کام آپ جیسے مفت کے ٹھرکیوں کو بیوقوف بنانا ہے اور لوڈ مانگنا ہے لیکن اگر اس کی پوسٹس سیاست، سماجی پہلوؤں، اپنے پرسنل حالات زندگی سے متعلق ہوں جن سے لگے کہ یہ سب اس نے خود لکھا ہے تو پھر اپنے من مندر میں بجنے والی گھنٹیوں کے ساز سنتے رہیں اور اگلے سٹیپ نمبر 5 پر پہنچ جائیں۔

5۔ اب آپ نے اس لڑکی کی پروفائل فوٹو پر موجود کمنٹس کا بغور جائزہ لینا ہے۔ اگر تو اکثریتی کمنٹس آپ جیسے واجبی شکل و صورت کے ہر عمر کے ٹھرکی حضرات کررہے ہیں، جن میں انپڑھ ویلوں و عرب ممالک میں لیبر کرنے والے بھی شامل ہیں تو پھر اے میرے بدقسمت دوست، تمہیں اس ‏دفعہ بھی ہمیشہ کی طرح محبت میں ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑا۔ خاموشی سے اس کی وال سے واپس چلے جاؤ اور اچھے وقت کا انتظار کرو، لیکن اگر کمنٹس میں مہذب قسم کے لوگ نظر آئیں، جن میں ایک آدھ اس کا فیملی ممبر بھی شامل ہو ‏تو پھر حوصلہ جواں رکھیں، ہوسکتا ہے کہ اللہ نے آپ کی سن لی ہو ۔ ۔ ۔ سٹیپ نمبر 6 پر تشریف لے جائیں۔

6۔ اب آپ اس لڑکی کی فرینڈ لسٹ اگر پبلک ہے یا پروفائل کمنٹس میں موجود اپنی عمر کے لڑکوں سے شکل و صورت کوالیفیکشن اور نوکری کے حساب سے اپنے ساتھ موازنہ کریں۔ یقیناً وہ سب لوگ شکل و صورت میں آپ سے بہتر اور تعلیم و سٹیٹس کے اعتبار سے آپ سے اوپر ہونگے لیکن گھبرانا نہیں بلکہ باتھ روم میں جا کر اپنے منہ ‏پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں، تولیا سے منہ رگڑ رگڑ کر صاف کریں اور پھر شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ سے سوال کریں کہ اس لڑکی کو کیا پاگل کتے نے کاٹا تھا جو تم سے بہتر لوگوں کی موجودگی میں تمہارے پیچھے پڑ گئی؟ آپ کی تفتیش یہیں ختم ہوگئی، لیکن اگر شومئی قسمت سے اس لڑکی کی لسٹ میں آپ سے بھی زیادہ شوخے اور ناکام لوگ پائے جاتے ہیں تو پھر 'ابھی مجھ میں کہیں، باقی تھوڑی سی ہے زندگی' گائیں کیونکہ آپ میری طرح ان چند خوش نصیبوں میں ‏سے ایک ہیں جس سے ایک حقیقی دوشیزہ نے خود دوستی کی خواہش کا اظہار کیا ہے😍
م ن ق و ل

#محمدزبیرزائر
#کاپی

مرے ہم سفر، تجھے کیا خبریہ جو وقت ہے کسی دھوپ چھاؤں کے کھیل سااِسے دیکھتے، اِسے جھیلتےمری آنکھ گرد سے اٹ‌ گئیمرے خواب ری...
17/05/2024

مرے ہم سفر، تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ہے کسی دھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے، اِسے جھیلتے
مری آنکھ گرد سے اٹ‌ گئی
مرے خواب ریت میں‌ کھو گئے
مرے ہاتھ برف سے ہو گئے
مرے بے خبر، ترے نام پر
وہ جو پھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر
وہ نہیں‌ رہے
وہ نہیں‌ رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہوا چلی
کسی شام ایسی ہوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں، وہ گرا دیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر، وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مٹا دئیے
مرے ہم سفر، ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے، اسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
یہ جو درمیاں سے نکل گیا
اسی فاصلے کے شمار میں
اسی بے یقیں سے غبار میں
اسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے...!!!

Everyone
YouTube

Address

Lahore
54000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when RS Rizvi Official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to RS Rizvi Official:

Share