
27/09/2025
رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم محسن ِ نسواں بھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و زن کو حقوق کے اعتبار سے برابری کا درجہ عطا فرمایا، ڈاکٹر رضوانہ انصاری
Usman Ghani USMAN GHANI
Topface Leaders Media Network
کراچی (سعادت انٹرنیشنل رپورٹ )رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم محسن ِ نسواں بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و زن کو حقوق کے اعتبار سے برابری کا درجہ عطا فرمایا۔ عورت کوجینے کا حق دیا، علم حاصل کرنے کا حق دیا، معاشی خودمختاری اور ملکیت کا حق دیا، اور تشدد و ظلم سے تحفظ فراہم فرمایا۔
یہ بات ڈاکٹر رضوانہ انصاری نے گزشتہ روز ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس میں اسپیکر جنرل(ر) معین الدین حیدر کی زیر صدارت منعقدہ ہمدرد شوریٰ کراچی کے اجلاس میں کہی۔اجلاس کا موضوع ”سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بچوں اور خواتین کا مقام“‘تھا۔جامعہ کراچی شعبہ قرآن و سنت کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر زینت ہارون مہمان مقررکے ساتھ ہمدرد فاﺅنڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد بھی خصوصی طور پر شریک ہوئیں۔
ڈاکٹر رضوانہ انصاری نے کہانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتے ہوں،لیکن افسوس کیا ہم نے واقعی اپنےاس مذہبی تقاضے کو پورا کیا ہے؟ آج صنفی برابری کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 147ویں نمبر پر ہے۔ ہر سال پانچ ہزار سے زائد خواتین گھریلو تشدد کے باعث مرجاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کو عورت کا بنیادی حق قرار دیا، آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کی لاکھوں بیٹیاں اس حق سے محروم ہیں۔ اسلام نے عورت کو اپنی پسند کی شادی کا حق دیا، لیکن اس حق کے استعمال پر کئی عورتیں غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ اسی طرح عورت کو وراثت میں حصہ دینا فرض ہے، مگر اکثر اسے عدالتوں میں جانا پڑتا ہے اور پھر بھی انصاف نہیں ملتا۔ یہ سب ظلم ہے اور اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
ا±نہوں نے مزید کہاکہ قرآن و احادیث میں کئی جگہ بچوں کے ساتھ شفقت کے واضح احکامات ہیں، پھر بھی لاکھوں بچے جبری مشقت، تشدد اور جنسی زیادتی کا شکار ہیں۔ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں حالاں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تعلیم و تدریس کے انتظامات کا درس فرمایا۔ کم سن گھریلو ملازمین کے ساتھ خراب رویے اور تشدد کی خبریں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ ہماری اجتماعی روش پر ایک کڑا سوالیہ نشان بھی۔
مہمان مقرر ڈاکٹر زینت ہارون نے کہا اسلام نے عورت کو حقیقی وقار اور عظمت بخشی، جائیداد و وراثت میں اس کا حصہ مقرر کیا، شوہر کے انتخاب اور رائے کے اظہار میں آزادی عطا کی، اور ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے اس کی عظمت کو تسلیم کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے حقوق کو نہایت اہمیت دی اور عملی زندگی میں ان کی بہترین مثال قائم فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچے والدین کے لیے امانت ہیں، ان کی اچھی پرورش، تعلیم و تربیت، عدل و مساوات اور محبت دینا والدین کی بنیادی ذمے داری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے، انہیں سلام کرتے، گود میں اٹھاتے اور کھیلنے میں شریک ہوجاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کی پرورش کو باعثِ جنت قرار دیا اور یتیم بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھنے کو جنت میں اپنے قریب ہونے کی بشارت دی۔
اجلاس میں جنرل(ر) معین الدین حیدر، کموڈور(ر)سدید انورملک، انجینئر ابن الحسن، شہلااحمد، ڈپٹی اسپیکر کرنل(ر) مختار احمد بٹ، مسرت اکرم، مظفر اعجاز، سلطان چاولہ، ڈاکٹر عامر طاسین، بریگیڈیئر(ر)طارق خلیل، پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان، سینیٹر عبدالحسیب خان، مبشر میر اور دیگر نے کہاکہ جرگہ سسٹم اسلام تعلیمات کے برخلاف روایتی رسوم و رواج کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جس میں اگر مرد کسی کو قتل کردے تو سزا ا±س کے گھرانے کی عورتوں کو بھگتنا پڑتی ہے، یہ خلاف شریعہ عمل ہے جس پر علمائ کو آواز ا±ٹھانی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے پر روک لگا کر دورِ جاہلیت کی اس رسمِ بد کا قلع قمع کر دیا۔اس معاشرہ میں جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا فرمایا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ”جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی بہتر پرورش کرے، اور انہیںاپنی حیثیت کے مطابق پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے آگ سے حجاب ہوں گی۔“ لیکن آج ہمارے اپنے ملک میں ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے جن میں لوگوں نے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کیا۔ یہ اندوہناک واقعات ہماری دین سے دوری کا نتیجہ ہیں۔