Saadat International

Saadat International Office(SAADAT INTERNATIONAL GROUP OF PUBLICATION)
SINCE-1937- Saadat Building ,19-A ,Abbot Lahore

کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای) پنجاب کمیٹی اجلاس  پنجاب میں میڈیا کومکمل آزادی حاصل ہے،صوبائی وزیر اطلا...
10/08/2025

کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای) پنجاب کمیٹی اجلاس
پنجاب میں میڈیا کومکمل آزادی حاصل ہے،صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ زاہد بخاری
سی پی این ای کی کوششوں سے اخبارات کو ریلیف ملا ہے اور ان کو اشتہارات کے واجبات کی ادائیگیاں شروع ہوگئی ہیں،کاظم خان
ملک میں آزادی صحافت کی حالت تشویش ناک ہے، اس طرح کی پابندیاں مارشل لاءدور میں بھی نہیں دیکھیں، ایاز خان

لاہور(نعیم احمد سے ،وائے آئی این این) صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ زاہد بخاری نے کہا ہے کہ پنجاب میں میڈیا کومکمل آزادی حاصل ہے، بقایاجات میں سے اخبارات کو 84 کروڑ روپے کے واجبات اداکئے جاچکے ہیں، کارکنان کو تنخواہیں نہ دینے والے اداروں کے اشتہارات روک لئے جائیں گے۔ سی پی این سی پنجاب کمیٹی کے چیئرمین ایاز خان کا کہنا ہے ملک میں آزادی صحافت کی حالت تشویش ناک ہے۔ اس طرح کی پابندیاں مارشل لاء دور میں بھی نہیں دیکھیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے

کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں سی پی این ای کے مرکزی صدر کاظم خان ، ارشاد احمد عارف، اعجاز الحق سمیت دیگر ذمے داران وممبران شرکت کی۔ صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب اعظمی بخاری اور ڈائریکٹرجنرل شعبہ تعلقات عامہ پنجاب غلام صغیرشاہد نے خصوصی طور پر اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر طلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب میں آزادی صحافت کو کوئی خطرہ نہیں ، یہاں میڈیا کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ میں نے کبھی کوئی خبر رکوانے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی صحافی کو نوکری سے نکلوایا ہے حالانکہ اس حوالے سے قانون موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ صحافت کے نام پر اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایسی بیماری ہے جس کا علاج پیناڈول سے ممکن نہیں یہ موذی مرض بن چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سی پی این ای کے ساتھ مل کر دو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ ایک کمیٹی جرنلسٹ کی تعریف کیا ہوگی؟ اس پرکام کررہی ہے جبکہ دوسری کمیٹی ڈمی اخبارات کی نشاندہی اور ان کے ڈیکلریشن منسوخ کئے جانے سے متعلق کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے میڈیا ہاﺅسز جو کارکنان کوتنخواہیں ادا نہیں کررہے، پہلے یہ طے پایا تھا کہ ایسے اداروں کو واجبات کی ادائیگیاں روک دی جائیں لیکن اب حوالے سے کچھ تجاویز آئیں کی ادائیگیاں روکنے کی بجائے ایسے اداروں کے اشتہارات بند کردیئے جائیں۔ اس وقت 84 کروڑ روپے کے واجبات کی ادائیگیاں ہوچکی ہیں۔ ماضی میں قانونی تقاضے پورے کئے بغیر اشتہارات جاری کئے جاتے رہے۔ ان کی ادائیگوں کے کلیم ہمارے پاس پڑے ہیں جن کا جائزہ لے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کواشتہارات جاری کرنے اور ادائیگیوں کے طریقہ کار کو اب تو وفاقی اور سندھ حکومت بھی اپنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرنلسٹ سپورٹ فنڈ کے لئے بجٹ کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ صحافیوں کے لئے صحت کارڈ جاری کیا جائیگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں صحت کارڈ بند کیا گیا ہے لیکن پرائیویٹ ہسپتالوں میں صحت کارڈ کارآمد ہے اور لوگ اس پر علاج بھی کروا رہے ہیں۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ جرنلسٹ ہاﺅسنگ سوسائٹی فیز ٹو کے لئے وزیراعلی پنجاب رواں سال ستمبر میں بیلٹنگ کریں گی۔ اس میں میڈیا ورکرز کو بھی شامل کررہے ہیں اور ان کو بھی پلاٹ ملیں گے۔سی پی این ای پنجاب کمیٹی کے چیئرمین ایاز خان نے کہا کہ ملک میں آزادی صحافت کی صورت حالتشویش ناک ہے۔اس طرح کی پابندیاں مارشل لا ءدور میں بھی نہیں تھیں۔ ریاست جب خبریں بتانے کی بجائے چھپانے پر آجائے تو مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ اپوزیشن کی آواز کو مکمل طور پر دبایا جارہا ہے۔ ملک میں ایک طرف یو م استحصال کشمیر منایا جارہا ہے لیکن ملک کے اندر سب کا استحصال ہورہا ہے۔ سی پی این ای کے مرکزی صدر اور پنجاب کمیٹی کے رکن کاظم خان کا کہنا تھا ملک میں اس وقت بدترین سنسرشپ ہے۔اب تو سوچتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے۔ پنجاب میں وزیراطلاعات اور ڈی جی پی آر کے ساتھ مل کر اخبارات وجرائد کے لئے کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور ادائیگیوں کے نظام کو بہتر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وزیراطلاعات پنجاب اور ڈی جی پی آر اخبارات پر فیصلے مسلط کرنے کی بجائے مشاورت سے کام کررہے ہیں۔ سی پی این ای کی کوششوں سے اخبارات کو ریلیف ملا ہے اور ان کو اشتہارات کے واجبات کی ادائیگیاں شروع ہوگئی ہیں۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں اخبارات کو واجبات کی ادائیگیاں سب سے بہتر انداز میں ہورہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت 10ہزار کے قریب ڈمی اخبارات ہیں جن کے ڈیکلیئریشن منسوخ ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ڈی جی پی آر کے مطابق314 قومی اورریجنل اخبارات کو اشتہارات مل رہے ہیں۔ 150 اخبارات وجرائد ایسے ہیں جو صرف اشتہارات کے لئے شائع ہوتے ہیں۔کاظم خان نے بتایا کہ ڈی جی پی آر کے ساتھ گزشتہ میٹنگ میں طے پایا تھا کہ ایسے اخبارات جو ورکرز کو تنخواہیں نہیں دیتے ان کو سرکاری ادائیگیاں بند کردی جائیں تاہم اس پر پی بی اے کی طرف سے کچھ سفارشات آئیں۔جن میں کہا گیا ہے کہ ایسے اداروں کی ادائیگیاں روکنے کی بجائے اشتہارات بند کردیئے جائیں۔انہوں نے تجویز دی کہ سی پی این ای کو ہرمہینے ایک سیمینار ضرور کرنا چاہیے۔ سی پی این ای کے ذمے داران کو سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیے۔ پوڈکاسٹ، وی لاگ اور تجزیئے کرنا چاہیں۔ اخبارات کو الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے مقابلے میں کم مشکلات کاسامنا ہے۔سی پی این ای کے سابق سیکرٹری جنرل اعجاز الحق نے کہا کہسی پی این ای کو اس پربھی کوئی اعتراض نہیں کہ جو ادارے میڈیا ورکرز کو تنخواہیں ادانہیں کرتے ان کی ادائیگیاں روک دی جائیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایسے ادارے جن کو اشتہارات کی ادائیگیوں کی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ان کو واجبات کی ادائیگی کے لئے سندھ حکومت کی طرز پر تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے۔ سی پی این ای کے سینیئررہنما اورسابق صدر ارشاد احمد عارف کاکہنا تھاکہ اس وقت ریاست اور ریاستی ادارے ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتے۔ صحافی قربانیاں دے رہے ہیں اور ہرممکن حد تک حق اورسچ کی آواز بلند کررہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں جبر اور گھٹن کا ماحول ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ صحافت مردہ ہوچکی ہے۔ جس بہادری اور دلیری سے صحافی آج اپنا کردار ادا کررہے ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔آزادی صحافت کے حوالے سے جن لوگوں کی آج ہم مثالیں دیتے ہیں وہ آج کے دور میں ہوتے تو شاید ایک دن بھی صحافت نہ کرپاتے۔ آج اگر صحافیوں کے پروگرام بند کئے جارہے ہیں ، انہیں نوکریوں سے نکلوایا جاتا ہے تو یقینا اسی وجہ سے کہ وہ بولتے ہیں۔ آج بھی میڈیا ہرممکن حدتک عوام کے جذبات کی ترجمانی کررہا ہے۔ انہوں نے کہا آج ہمیں اگر 30 فیصد بھی بولنے کی آزادی ہے تو 100 فیصد آزادی کے چکر میں 30 فیصد سے بھی ہاتھ دھونا عقلمندی نہیں ہے۔۔انشائ اللہ اس جبر،گھٹن اورغیرفطری حالات سے خیربرآمد ہوگی۔سی پی این ای کے رکن ذوالفقار راحت نے کہا کہ اس وقت کہنے کو توملک میں جمہوری نظام ہے لیکن اس نظام کو جمہوری کہنا خود جمہوریت کی توہین ہے۔ ملک میں نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی صحافت اور آزادی اظہار کی آزادی ہے۔ اس نظام نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ سی پی این ای کے پلیٹ فارم سے ہمیں آزادی صحافت کے حوالے سے ایسی شمع روشن کرنی چاہیے جو آگے چل کر روشنی کا مینار بن سکے۔سی پی این ای کے رکن عرفان اطہرقاضی نے کہا ہمیں اپنے اداروں اور ورکرز دونوںکو ہی بچانا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی آزادی صحافت کی جدوجہد بھی جاری رکھنی ہے۔ ملک بھر میں صحافیوں کیخلاف مقدمات کے اندراج اور قتل سے متعلق سی پی این ای ماہانہ بنیادوں پر رپورٹ جاری کرے۔ڈی جی پی آر غلام صغیر شاہد نے کہاکہ صوبائی کابینہ نے ریجنل اخبارات کو بھی سرکاری ٹینڈر اشتہارات جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار اخبارات کو واجبات کی ادائیگیاں آن لائن کی جارہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کو بھی 95 فیصد ادائیگیاں آن لائن کی جارہی ہیں۔ 10 ہزار ڈمی اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ کئے جانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔اجلاس میں اویس رضی، زبیرمحمود، فہد صفدر، اسلم میر، سید مصور زنجانی، ضیا تنولی،توفیق الرحمن سیفی، عثمان غنی، عرفان اطہرقاضی، صفدرعلی خان، ذوالفقارعلی راحت، وقاص طارق،امتیاز روحانی، اسدروحانی، شہزاد عامر، فرخ شہبازوڑائچ اور ندیم نثار بھی شریک ہوئے۔

DAILY SAADAT LAHORE  02-8-2025      .
31/07/2025

DAILY SAADAT LAHORE 02-8-2025
.

تحریک پاکستان میںمحترمہ فاطمہ جناح ؒ کا کردار!تحریر:۔ محمد  نصیر الحق ہاشمیDAILY SAADAT LAHORE  01-8-2025محترمہ فاطمہ جن...
31/07/2025

تحریک پاکستان میںمحترمہ فاطمہ جناح ؒ کا کردار!
تحریر:۔ محمد نصیر الحق ہاشمی
DAILY SAADAT LAHORE 01-8-2025
محترمہ فاطمہ جناحؒ 31 جولائی 1893ءکو وزیر مینشن کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام ”جناح پونجا“ تھا۔ آپ ابھی دو برس کی تھیں کہ والدہ ”مٹھی بائی“ کا انتقال ہو گیا۔ ان دنوں آپ کے بڑے بھائی محمد علی جناحؒ (قائداعظمؒ) حصولِ تعلیم کے لئے انگلستان میں تھے۔ آپ کی دیکھ بھال آپ کی بڑی بہن ”مریم جناح“ نے کی۔ والدہ کی وفات کے تقریباً ایک سال بعد اگست 1896ءمیں محمد علی جناحؒ انگلستان سے بار ایٹ لاءکرکے واپس کراچی آئے۔ اس وقت فاطمہ جناحؒ کی عمر تین برس تھی، وہ اپنے بھائی قائداعظمؒ سے 17 برس چھوٹی تھیں۔ 8 سال کی ہوئیں تو والد جناح پونجا بھی وفات پا گئے۔ والد کی وفات کے بعد دونوں بہنوںمریم اور فاطمہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری محمد علی جناح کے کاندھوں پرآ پڑی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ خصوصاً جو لوگ اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم دلواتے تھے، اسلامی معاشرے میں انہیں تحقیر آمیز نظروں سے دیکھا جاتا تھا ،مگر محمد علی جناح نے بڑی جرا¿ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فاطمہ جناح کو انگریزی تعلیم دلوانے کا اہتمام کیا اور انہیں 1902ءمیں ”باندرہ“ کے کانونٹ سکول میں داخل کروایا جس کی خاندان کے لوگوں نے سخت مخالفت کی۔
علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبہ¿ الہٰ آباد میں قیامِ پاکستان کا ابتدائی خاکہ پیش کیا، تو قائداعظمؒ مسلم لیگ کے مرکزی صدر کی حیثیت سے مسلم لیگ کو منظم کرنے اور اس کے پلیٹ فارم سے برصغیر کے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے میدانِ سیاست میں سرگرمِ عمل ہوئے تو دیکھتے ہی دیکھتے قیامِ پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی۔ اس جدوجہد میں ہر مقام پر آپ اپنے بھائی کے شانہ بشانہ رہیں اور بھائی کا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔ 1937ءمیں آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو¿ میں شریک ہوئیں جو کسی خاص اجلاس میں آپ کی پہلی باقاعدہ شرکت تھی۔ 10 جولائی 1938ءمیں آپ آل انڈیا مسلم لیگ ممبئی کی رکن بنیں۔ 8 اکتوبر 1938ءکو ممبئی مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا جس میں تیس نمائندوں کا انتخاب کیا گیا، ان میں آپ کا نام سرفہرست تھا۔ دسمبر 1938ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ خواتین کی کمیٹی قائم ہوئی توآپ اس کمیٹی کی ممبر تھیں۔ آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ خواتین کمیٹی کی بنیاد رکھی اور ہندوستان بھر کے دورے کیے، آپ کی تحریک پر لاتعداد خواتین کی کمیٹیاں قائم ہوئیں۔
مادرِ ملت فاطمہ جناح ؒکی عملی سیاسی زندگی کا آغاز آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کے ساتھ ہوا۔ مسلم لیگ کی تنظیم نو کے موقع پر آپ کو ممبئی پراونشل مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا ممبر چنا گیا۔ 1938ءمیں آپ آل انڈیا مسلم لیگ کی ”سنٹرل ویمن سب کمیٹی“ کے لئے منتخب ہوئیں، آپ اس عہدے پر قیامِ پاکستان تک فائز رہیں۔ آپ ہی کے ایماءپر دہلی میں فروری 1941ءمیں انڈیا مسلم لیگ ویمن سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ ویمنز کانفرنس کو بھی آپ ہی کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس دور کی نامور مسلم خواتین نے آپ کی راہنمائی میں مسلم لیگی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 1937ءکے لیگ سیشن میںمسلمان خواتین کو باقاعدہ مسلم لیگ میں شامل کرنے کے لئے ابتدائی کام کا آغاز کردیا گیا تھا ،اگرچہ مسلم لیگ کے کھلے اجلاس میں خواتین کی باقاعدہ شمولیت کا اعلان نہیں کیا گیا تھا؛ البتہ بعدازاں، پٹنہ کے لیگ سیشن میں 32 مسلمان خواتین پر مشتمل، مرکزی سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ممبئی سے آپ کو ممبر چنا گیا تھا۔ مرکزی کمیٹی کا پہلا سالانہ اجلاس 1938ءمیں لاہور میں منعقد ہوا جس میں آپ کا حصہ قابل ِرشک تھا۔ اس اجلاس میں ملک بھر سے مسلم خواتین نے حصہ لیا۔ اس موقع پر جہاں بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم نواب حفیظ الدین اور بیگم نواب بہادر یار جنگ نے خطاب کیا، وہاں محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے خطاب میں مسلم خواتین کی سیاسی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”صرف چند سال قبل سیاسی میدان میں کسی قابلِ ذکر مسلمان خاتون کا حوالہ نہیں ملتا تھا، لیکن اب حیرت انگیز طور پرمسلمان خواتین نہ صرف سیاسی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں بلکہ وہ ہر قسم کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی سینہ سپر دکھائی دے رہی ہیں۔“
محترمہ فاطمہ جناح ؒ نے 1947ءمیں اپنی سرکردگی میں کراچی میں ”ویمن ریلیف کمیٹی“ قائم کی، جس نے بھارت سے نقل مکانی کرنے والی ہزاروں مسلمان خواتین کی دیکھ بھال کی۔ بعدازاں اس کمیٹی کو ”آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن“ کا نام دیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ایک موقع پر اپنے ملٹری سیکرٹری ”کرنل برینی“ کو اپنی عظیم بہن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”وہ اپنی بہن کی سالہا سال کی پُرخلوص خدمت اور مسلمان خواتین کی آزادی کے لئے انتھک جدوجہد کی وجہ سے ان کے مقروض ہیں۔“
قیامِ پاکستان کے بعد محترمہ فاطمہ جناحؒ جنوری 1948ءمیں پہلی بار لاہور تشریف لائیں۔ آپ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ہمراہ لارنس گارڈن موجودہ باغِ جناح میں نواب افتخار خان ممدوٹ کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں شریک ہوئیں۔ لاہور میں آپ کے نام پر باغِ جناح میں قصرِ فاطمہ پارک، فاطمہ جناح روڈ ،فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور مادرِملت پارک ہمیشہ آپ کی یادزندہ رکھیں گے۔جنوری 1950ءمیںمحترمہ فاطمہ جناح ؒنے صوبہ سندھ کے دورے کا آغاز کیا۔ بعدازاں دیگر صوبوںکے دورے بھی کیے۔ آپ نے 14 اگست 1957ءکو انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ ”ملک کی سیاسی زندگی کو سازشوں اور جوڑ توڑ کی سیاست سے زہرآلود اور عوام کو ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام کسی غیرجمہوری رجحان کو برداشت نہیں کریں گے، اب عوام ملک میں جلد انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔ مارچ 1956ءکو دستور ساز اسمبلی سے ”دستورِ پاکستان“ کے منظور ہونے پر آپ نے قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ ”آٹھ برس کی طویل جدوجہد کے بعد ملک کو ایک دستور نصیب ہوا ،اب ہم جمہوریت کو صحیح انداز میں طلوع ہوتے دیکھیں گے“۔ 1964ءکے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناحؒ نے صدارتی امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے یکم اکتوبر 1964ءکو پشاور سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا، پھر مغربی پاکستان کی آٹھ روزہ عوامی رابطہ مہم میں راولپنڈی، حیدرآباد اور لاہور کے دورے کیے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے 26 نومبر 1964ءکو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے۔ صدارتی امیدواروں میں سے چار امیدواروں کے درمیان مقابلہ متوقع تھا۔ 1965ءکے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان ”لالٹین“ تھا۔صدارتی انتخابات کی تاریخ 2 جنوری 1965ءمقرر ہوئی۔ اس نام نہاد انتخاب میں ووٹوں کا تناسب 62.7 فیصد رہا۔ ایوب خان کو 49,951 جبکہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو 28,691 ووٹ ملے۔ 8 جنوری 1965ءکو صدر ایوب خان کی کامیابی کا سرکاری اعلان کردیا گیا۔ صدارتی الیکشن میں ناکامی کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناحؒ مسلسل ملک وقوم کی خدمت کرتی رہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح ؒکو خاتونِ پاکستان اور مادرِ ملتؒ کے عظیم خطابات ملے۔ خاتونِ پاکستان کا خطاب قوم کی طرف سے قیامِ پاکستان کے وقت دیا گیا جبکہ مادرِ ملت کا خطاب ایوب خان کے مقابل جب آپ نے صدارتی امیدوار کے طور پر انتخابی مہم چلائی تو لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار نے آپ کو مسلسل مادرِ ملت لکھا جس سے آپ اس خطاب سے مشہور ہو گئیں اور یہ خطاب واقعی آپ کے شایانِ شان تھا۔ آپ جب تک زندہ رہیں اکثر جمعرات کو اپنے عظیم بھائی قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کرنے جاتیں۔ 1949ءمیں مزار سرکاری تحویل میں آنے سے قبل یہاں قرآن خوانی کا اہتمام بھی کرواتیں، آپ نے اپنی زندگی پاکستان میں جمہوریت کی حفاظت، ملکی ترقی اور خوشحالی کی جدوجہد میں گزاری۔

DAILY SAADAT LAHORE 01-8-2025
Leaders Media Network
.
*F

DAILY SAADAT LAHORE  31-7-25Leaders Media Network          .              *F
31/07/2025

DAILY SAADAT LAHORE 31-7-25
Leaders Media Network
.
*F

DAILY SAADAT LAHORE  29-7-25DAILY SAADAT LAHORE  30-7-25      .              *F
29/07/2025

DAILY SAADAT LAHORE 29-7-25
DAILY SAADAT LAHORE 30-7-25
.
*F

پورے ریلوے کو ڈیجیٹائز کررہے ہیں،پاکستان ریلوے پاکستان کی شان ہے، وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسیWEEKLY SAADAT INTERNATIONAL...
28/07/2025

پورے ریلوے کو ڈیجیٹائز کررہے ہیں،پاکستان ریلوے پاکستان کی شان ہے، وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی
WEEKLY SAADAT INTERNATIONAL LAHORE
Usman Ghani

حنیف عباسی نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اب محنت کے بعد وفاقی وزیر بنے، خواجہ سعد رفیق کے بعد ریلوے میں بہتری کا نعم البدل حنیف عباسی ہیں، ارشد انصاری صدرلاہورپریس کلب
(عثمان غنی) نیوز رپورٹ
لاہورپریس کلب کے پروگرام گیسٹ آف آنر میں وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے شرکت کی۔ لاہورپریس کلب کے صدر ارشد انصاری ، سینئر نائب صدر افضال طالب ، جوائنٹ سیکرٹری عمران شیخ ، فنانس سیکرٹری سالک نواز ، اراکین گورننگ باڈی سید بدر سعید، سرمد فرخ خواجہ ، محبوب احمد چوہدری اور الفت مغل نے معزز مہمان کو کلب آمد پر خوش آمدید کہا۔وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انھیں لاہورپریس کلب آکر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے، صحافی ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں اور ہمیں ان کی دل سے قدر ہے،لاہور پریس کلب پورے پاکستان کا بڑا پریس کلب ہے ادھر لوگوں نے اپنی زندگیاں دی ہیں، ہمیشہ سے تعلق صحافیوں سے اچھا رہا ہے۔ انھوں نے کہاکہ لاہور میں پیدا ہوا ،ایف سی کالج میں پڑھا طالب علمی میں سیاست شروع کی،جب ریلوے کا چارج سنبھالا تو کوئی بڑے دعویٰ نہیں کئے، پاکستان اب بدلا ہوا پاکستان ہے ،پاکستان کی دنیا میں جو عزت اب ہے وہ پہلے نہیں تھی، یہ کہتے ہوئے شرمانا نہیں چاہیے فیلڈ مارشل اور وزیر اعظم کی وجہ سے سر اٹھا کر دنیا میں گھوم رہے ہیں، ترکیہ ہو یا روس اوورسیز پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان کا کہناتھاکہ قید کے باوجود ملک کو برا نہیں کہا، میرے لیڈر نے بھی صبرو استقامت کے ساتھ جیل کاٹی، کچھ لوگ قید میں ہیں تو چیخنا چلانا اور گالی گلوچ دیئے جا ر ہے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اس دشمن کو شکست دی جس کے پاس پندرہ جہاز تو ہمارے پاس ایک جہاز تھا۔ انھوں نے کہاکہ،بہترین خارجہ پالیسی سے دنیا نے پاکستان کی طاقت کو تسلیم کرلیا ہے بھارت زخم چاٹ رہا ہے،کچھ لوگوں کی خصلت میں ہے کہ ڈسنا ہی ڈسنا ہے، کچھ لوگ تو پاک بھارت جنگ کو نورا کشتی کہتے رہے،۔ان کا کہناتھاکہ آزادی اور غلامی کا تقابلی جائزہ کرنا ہے تو مقبوضہ و آزاد کشمیرمیں زندگی کو دیکھ لیں۔انھوں نے کہاکہ کوئی گندم پر کوئی گیس تو کوئی پانی پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے۔انھوں نے کہاکہ بھارت کا اس لئے شکریہ کہ آپ نے پوری قوم کو اکٹھاکر دیا،نور خان ائیر بیس پر میزائل گرا تو لوگ میزائل دیکھنے کے لیے بھاگتے رہے جبکہ ادھربھارت میں لوگ چیخ و پکار کرتے رہے، برے وقت میں چین ترکیہ آزربائیجان ملائیشیا اور بنگلہ دیش بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے، وزیر اعظم نے کہاپہلگام واقعہ پر آزادانہ تحقیقات کروا لیں لیکن بھارت نے بزدلانہ موقف اپنایا،امریکہ نے خود کہہ دیا پانچ بھارتی جہاز گرے۔انھوں نے مزید کہاکہ بلوچستان اورکے پی کے میں بھارتی پراکسی وار جاری ہے،حکومتی پالیسی پر افراط زر 38 سے زیرو فیصد پر آگئی ہے،معیشت کو سنبھالنے کےلئے سخت فیصلہ کرنے پڑے، بڑے بڑے مگرمچھوں کو پکڑیں جنہوں نے لوٹ مار کی،دس آئی پی پیز بند اور پندرہ کو بند کرنے لگے ہیں، راولپنڈی کے تین کراچی کے دو لاہور کے دو اسٹیشنز پر صفائی پر آﺅٹ سورس کرچکے ہیں،ریلوے میں فوڈ کوالٹی کو بہتر کیا ہے،کوالٹی ایجوکیشن کےلئے ریلوے کے چھ سکولوں کو آﺅٹ سورس کررہے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ جب تک ریلوے میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے ملکی معیشت میں بہتری نہیں آ سکتی،روہڑی کراچی ریلوے کی مین آرٹری ہے اس پر معاہدہ جلد کریں گے،مریم نواز کا شکرگزار ہوں جنہوں نے لاہور سے راولپنڈی کو دو سے ڈھائی گھنٹے سفر کےلئے ٹریک کو بہتر کرنے کا عملی اقدام اٹھایا ہے،مریم نواز نے پچاس ارب ریلوے کیلئے مختص کئے ہیں، لاہور ریلوے اسٹیشن پر مفت وائی فائی لگایا گیا ہے، کوئٹہ شہر خوبصورت ہوجائے گا ڈی ڈبلیو چلا دیں ،کوئلے کو پاور پلانٹ کےلئے ایک سو پانچ کلومیٹر کا ٹریک تیس اپریل تک مکمل ہوگا،کول پاور پلانٹ پر کوئلے کی بہترین ترسیل سے پندرہ روپے یونٹ سے ساڑھے چار روپے میں فی یونٹ ملے گا،چار ٹرینوں کے ریکوڈکٹ کیلئے 2028 کا معاہدہ ہوجائے گا ۔انھوں نے بتایاکہ ہمارے پاس ویگنز کی کمی ہے ٹریک کو پہلے ٹھیک کریں گے، پہلی بار ریلوے اسٹیشن پر ایکسیلیٹر لگایا ہے انفارمیشن ڈیسک لگائے گئے ہیں، راولپنڈی میں ایک معاہدہ کیا ہے ٹرین میں صفائی ستھرائی ڈیڑھ گھنٹے میں کریں گے، بزنس ٹرین کا انتیس جولائی کو وزیر اعظم افتتاح کریں گے، سترہ کوچز میں وائی فائی موجود ہیں جو کھانا ڈائننگ کار میں دیا جائے گا وہ بہترین معیار کا ہوگا،ریلوے کی بیوروکریسی کو کہتا ہوں وہ کام کریں چھٹی نہیں ملے گی، ریلوے میں ریونیو کو بڑھایا ہے۔انھوں نے کہاکہ ،وفاقی حکومت پنشن اور تنخواہوں کا بوجھ اٹھا لے تو ریلوے کو منافع بخش بنا دوں گا،ریلوے کو کسی مزدور نے نہیں لوٹا بلکہ ان لوگوں نے لوٹا جن کا نام نہیں لینا چاہتا،پورے ریلوے کو ڈیجیٹائز کررہے ہیں، سولہ بینک رابطہ ایپ کے ساتھ جوڑ دئیے ہیں ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کیوں نہیں ریلوے میں چل سکتا، تین سو اڑتالیس ریلوے اسٹیشنز پر اے ٹی ایم مشینیں لگانے جا رہے ہیں،ریلوے میں بڑے بڑے کام کرنے والے ہیں جو لوگ چھٹیوں پر گئے ہیں تو وہ ثبوت دیں اگر نیشنلیٹی کیلئے گئے تو واپس آئیں گے لانگ لیو والوں کو واپس بلائیں گے، تین ریلوے کی کمپنیوں کو بند کردیا ہے،پاکستان ریلوے پاکستان کی شان ہے،جعفر ایکسپریس کو چلا کر دشمن کو بتا دیا کہ ڈرنے والے نہیں بولان اور جعفر ایکسپریس اب بھی چل رہی ہے،سپورٹس کو بھولا نہیں ترجیحات میں ہیں فٹبال کرکٹ اور ہاکی پر لائحہ عمل بنائیں گے،یکٹ کے لوگوں کو ایک ماہ کی تنخواہ دے کر فارغ کرسکتے ہیں لیکن ریلوے کے صفائی کے عملہ کو گھروں میں لگانے کا سوچ رہے ہیں،ستھرا پنجاب ریلوے کالونیز تک بڑھا دیں گے،سمگلنگ چوری ریلوے میں ہوتی رہی اب جو ٹکٹ کے بغیر سفر کرے گا کرنے اور کروانے والا جیل جائے گا،پانچ سو لوگوں کو ریلوے پولیس میں بھرتی کیا ہے،ریلوے میں محکمہ کی جیب سے سکینر ز میٹل ڈیٹیکٹر لائیں گے،دنیا میں ریلوے کا سیٹ اپ آﺅٹ سورس ہے، ریلوے کی صفائی جو اب کروائی ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔لاہورپریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے معززمہمان کو کلب آمد پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہاکہ ہماری خواہش تھی کہ حنیف عباسی صاحب لاہور آئیں تو پریس کلب میں بھی گیسٹ آف آنر پروگرام میں آئیں،حنیف عباسی نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اب محنت کے بعد وفاقی وزیر بنے، خواجہ سعد رفیق کے بعد ریلوے میں بہتری کا نعم البدل حنیف عباسی ہیں۔ تقریب کے اختتام پر معزز مہمان کو کلب کی جانب سے یادگای شیلڈ اور پھول پیش کئے گئے۔

WEEKLY SAADAT INTERNATIONAL LAHORE
(23 TO 29 JULY 2025 )








https://www.facebook.com/yinn92
_ _ _ _ _ _
Follow Us On YouTube:
https://www.youtube.com/c/YINNOfficial



امام صحافت: ناسخ سیفیby جمیل اطہر قاضی Jul 27, 2025in رائے, ادارتی مضامینnawaiwaqt.comhttps://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Pap...
28/07/2025

امام صحافت: ناسخ سیفی
by جمیل اطہر قاضی Jul 27, 2025in رائے, ادارتی مضامین
nawaiwaqt.com
https://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2025-07-27/page-5

WRITER JAMIL ATHER
BANI DAILY SAADAT IMAM BUKASH NASKIH SAIFI
تشکیلِ پاکستان کے بعد لائل پور سے چار روزانہ اخبارات نے امتیازی مقام حاصل کیا۔ ’’سعادت‘‘ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی لائل پور سے ہفتہ وار شائع ہورہا تھا، یہ اخبار 1939ء میں ضلع لائل پور (اب فیصل آباد) کے ایک قدیم قصبہ کمالیہ سے شائع ہوتا تھا۔ ’’سعادت‘‘ ابتدا سے ہی مسلم لیگ کا حامی اور قائداعظم کا پرستار رہا تھا۔ اس کے مدیرومالک جناب ناسخ سیفی تھے جن کا اصل نام ملک امام بخش تھا لیکن اس دور کے رواج کے مطابق ان کا اصل نام تو پسِ پردہ چلا گیا اور قلمی یا اخباری نام ناسخ سیفی زبان زدِ عام ہوا۔
میں نے جناب ناسخ سیفی کو سب سے پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس وقت دیکھا جب 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہورہے تھے اور مسلم لیگ نے جھنگ کے ایک صاحب شفیع منصور کو ٹوبہ ٹیک سنگھ سے انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹ دے دیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سیاسی رہنما، کارکن اور کاروباری لوگ اس نامزدگی کے سخت مخالف تھے اور انہوں نے ایک پنچایت بلا کر مسلم لیگی امیدوار کے مقابلے میں ٹوبہ کے ایک عالم دین اور سیاسی رہنما مفتی عبدالحمید لدھیانوی کو شفیع منصور کے مقابلے میںآزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے پر آمادہ کیا۔ شفیع منصور کا انتخابی دفتر ہمارے گھر کے سامنے تھا۔ میرے والد قاضی سراج الدین سرہندی چونکہ مفتی صاحب کے بہت گہرے دوست تھے اور ان لوگوں میں پیش پیش تھے جنہوں نے انہیں الیکشن لڑنے پر آمادہ کیا اس لئے والد صاحب نے ہمارے گھر کی بیٹھک کو مفتی صاحب کے الیکشن آفس میں تبدیل کردیا تھا۔ ایک روز میں نے ایک نہایت خوبصورت شخص کو جنہوں نے سیاہ رنگ کی پتلون اور سفید شرٹ پہنے ہوئی تھی شفیع منصور کے دفتر سے نکلتے دیکھا۔ یہ جناب ناسخ سیفی تھے جن کا اخبار ’’سعادت‘‘ شفیع منصور کی حمایت میں پیش پیش تھا۔ میرے والد صاحب نے بھی ان سے علیک سلیک کی اور مجھے بتایا کہ یہ ’’سعادت‘‘ کے ایڈیٹر صاحب تھے۔
جب روزنامہ ’’غریب‘‘ کا نامہ نگار بن کر میرا لائل پورآنا جانا ہوا تو میں مدیر ’’غریب‘‘ چوہدری ریاست علی آزاد کے علاوہ مدیر ’’سعادت‘‘ جناب ناسخ سیفی اور مدیر ’’عوام‘‘ جناب خلیق قریشی سے بھی ملنے لگا۔ ’’سعادت‘‘ میری نظروں سے گذرتا تھا۔ ایک روز میں نے سعادت میں خبر پڑھی کہ مسلم لیگی رہنما چوہدری عزیزالدین ممبر قومی اسمبلی ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعدچناب ایکسپریس میں کراچی سے لائل پور آرہے ہیں۔ میرا ارادہ اس روز کسی کام سے لائل پور جانے کا تھا، میں نے سوچا میں چناب ایکسپریس سے جائوں تاکہ دوران سفر چوہدری عزیزالدین سے بھی ملاقات کرسکوں۔ چوہدری عزیزالدین درجہ اول کے ایک ’’کُوپے‘‘ میں سفر کررہے تھے، میرے پاس اگرچہ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ تھا مگر میں ہمت کرکے ان کے ڈبے میں سوار ہوگیا اور انہیں بتایا کہ میں لائل پور کے ایک اخبار ’’غریب‘‘ کا نامہ نگار ہوں اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے احوال پوچھنے کے لئے آپ کے ساتھ لائل پور تک سفر کروں گا۔ چوہدری صاحب کے ساتھ ایک اور صاحب بھی سفر کررہے تھے، انہوں نے فرمائش کی کہ میں چوہدری عزیزالدین کے ساتھ گفتگو کی جو خبر مرتب کروں وہ روزنامہ ’’سعادت‘‘ کو بھی مہیا کروں، کیونکہ مسلم لیگ کے حلقہ میں ’’سعادت‘‘ بہت دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔
چوہدری صاحب سے گفتگو ہوتی رہی اورلائل پور ریلوے سٹیشن آگیا۔ چوہدری صاحب نے ازراہ کرم مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا او ر اپنی رہائش گاہ جاتے ہوئے مجھے کچہری بازار کے باہر اتار دیا۔ میں کچہری بازار میں پہلے ’’غریب‘‘ کے دفتر گیا، رپورٹ مرتب کی، نیوز ایڈیٹر جناب لطیف آذر کے سپرد کی اور اس کی ایک نقل لے کر کچہری بازار کے اس حصے میں چلا گیا جہاں گھنٹہ گھر کے قریب جہانگیر مُرغ پلائو کے سامنے ایک دوکان کی بالائی منزل پر ’’سعادت‘‘ کا بورڈ دکھائی دے رہا تھا۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر ’’سعادت‘‘ کے دفتر میں پہنچا جہاں ایک فرشی نشست پر سیفی صاحب تشریف فرما تھے، مجھے بعد میں پتہ چلا کہ سیفی صاحب خوشنویس بھی ہیں اور یہ نشست گاہ خوش نویسی میں اُن کے اُستاد صاحب کی ہے اور جب اُستاد دفتر میں موجود ہوں تو سیفی صاحب میز کُرسی استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے اُستاد کے احترام میں فرشی نشست پر اُن کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ میں نے سیفی صاحب سے اپنا تعارف کرایا اور چوہدری عزیزالدین کے ساتھ انٹرویو کی خبر اُن کے حوالے کی اور یہ بھی بتایا کہ چوہدری عزیزالدین کی خواہش ہے کہ یہ انٹر ویو ’’سعادت‘‘ میں بھی شائع ہو۔ جناب ناسخ سیفی نے انٹرویو پڑھا اور بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’مجھے تم جیسے آدمی کی اپنے دفتر میں ضرورت ہے‘‘ یہ سیفی صاحب سے میرا باقاعدہ تعارف تھا۔
ناسخ سیفی جو اُس وقت بے ریش تھے اور قمیض پینٹ زیب تن کرتے تھے، 1965ء میں فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد باریش ہوگئے اور قمیض شلوار، اچکن یا واسکٹ کے ساتھ پہننے لگے۔ مسلم لیگ کی طرف اُن کے اخبار کا جھکائو جاری رہا بعد میں وہ جمعیت علمائے پاکستان کی طرف بھی راغب ہوگئے اور ان کے اخبار میں مختلف شعراء کرام کا نعتیہ کلام بڑے اہتمام سے شائع ہونے لگا۔ ناسخ سیفی اپنے اخبار میں مختلف موضوعات پر مقالہ خصوصی شائع کرتے تھے یہ دو کالموں میں ہوتا تھا اور اس کے آخر میں سیفی صاحب کا نام لکھا ہوتا تھا۔ جمعیت علمائے پاکستان کی ہم نوائی کے دور میں اُنہوں نے جو مقالات سپردِ قلم کئے اُن میں اسلامی نظام یا نظامِ شریعت کے لئے نظامِ مصطفی کی اصطلاح استعمال کی جو اصطلاح بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انتخابی بدعنوانیوں کی پاداش میں چلائی گئی، عوامی تحریک کا سرِ عنوان بن گئی اور یہ تحریک نظامِ مصطفی کہلائی۔
1958 ء میں جب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور چلا آیا تو ناسخ سیفی صاحب سے کسی نہ کسی تقریب میں ملاقات ہوجاتی تھی وہ بہت بااخلاق، نرم خُو اور دینی رُجحان کے حامل صحافی تھے۔ 1965ء میں جب پاکستان (مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں) کے ایڈیٹروں کا ایک وفد سعودی عرب کے دورے پر گیا تو جناب ناسخ سیفی کے ساتھ مصطفی صادق بھی وفد میں شامل تھے۔ مصطفی صادق نے بتایا کہ جب مکہ مکرمہ میں بارانِ رحمت ہوتی تھی تو جناب ناسخ سیفی میزابِ رحمت کے نیچے چلے جاتے تھے بارش کا پانی ان کے گنجے سر پر پڑتا جس سے سیفی صاحب بہت لطف اندوز ہوتے۔
میں نے اگست 1980ء میں جب روزنامہ ’’وفاق‘‘ سے الگ ہوکر -14 ایبٹ روڈ سے ’’تجارت‘‘ کا اجراء کیا تو ان کے اخبار ’’سعادت‘‘ کا دفتر پہلے میکلوڈ روڈ اور پھر کُوپر روڈ پر رہا، ایک مرتبہ اُنہوں نے مجھے بہت دلچسپ فون کیا، فرمانے لگے، ’’جمیل ! بڑی پریشانی کی بات ہے آج ویج بورڈ کے چیئرمین کے سامنے میری پیشی تھی۔ اچانک چیئرمین صاحب نے فرمایا کہ میں کل گیارہ بجے ’’سعادت‘‘ کے دفتر آئوں گا۔ اب کیا کیا جائے میں نے تو دوباتیں سوچی ہیں، ایک یہ کہ اخبار میں اعلان تعطیل شائع کردوں تاکہ نہ کل دفتر میں سٹاف ہو اور نہ کوئی مسئلہ پیدا ہو، دوسرا حل یہ ہے کہ جب چیئرمین صاحب تشریف لائیں تو نماز کی نیت باندھ لوں اور جب تک وہ دفتر سے چلے نہ جائیں سلام نہ پھیروں‘‘ اس کے ساتھ ہی قہقہے لگاتے ہوئے اُنہوں نے ٹیلی فون بند کردیا۔

جب ’’تجارت‘‘ ’’وفاق‘‘ سے الگ ہوکر شائع ہونے لگا تو چند ماہ بعد اس کی ضخامت چار صفحات سے بڑھاکر چھ صفحات کردی گئی اور ہفتہ میں ایک روز بچوں کا صفحہ بھی شائع ہونے لگا اس صفحہ کا نام ’’بچوںکا تجارت‘‘ رکھا گیا۔ یہ صفحہ سیفی صاحب کی نظر سے گذرا، اُنہوں نے ایک خط کے ذریعے ’’تجارت‘‘ کے نئے دورپر مبارک باد دی اور بچوں کے صفحہ کی اشاعت پر خاص طور پر خوشی ظاہر کی اور خط کے آخر میں لکھا کہ اگر ’’بچوں کا تجارت‘‘ کی بجائے اس صفحہ کا نام ’’بچوں کی تجارت‘‘ کردیا جائے تو یہ مشرق وسطیٰ میںبھی دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔
ناسخ سیفی لائل پور سے شائع ہونے والے روزانہ اخبارات میں سب سے پُرانے اخبار کے مدیر و مالک تھے، اُنہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں قائد اعظم کا ساتھ دیا، بانیٔ پاکستان نے اُن کی خدمات کا اعتراف کیا۔ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ نے اُنہیں بعد ازمرگ گولڈ میڈل سے نوازا۔ وہ مدیروں کی جماعت ، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) اور ناشروں کی جماعت آل پاکستان نیوز پیپرزسوسائٹی (اے پی این ایس) کی سرگرمیوں میں بھی فعال رہے، وفات کے بعد اُنہیں کمالیہ میں اُن کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔


( SAADAT INTERNATIONAL GROUP OF PUBLICATION (SINCE 1937)


Leaders Media Club




USMAN GHANI Shahid Mehmood

Address

Lahore

Telephone

+923334373575

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Saadat International posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Saadat International:

Share

Category