Dunya Blog

Dunya Blog ایک منفرد بلاگ، جدید اور اچھوتے ذرایع ابلاغ کی جانب پہلا قدم

بلاگ کی دنیا میں خوش آمدید

دنیا بلاگ ڈاٹ پی کے خاص کر ان نوجوانوں کے لئے بنایا گیا بلاگ اور فیس بک پیج ہے جن کی تحریریں عام طور پر مختلف وجوہات کی بنا منظر عام پر نہیں آسکتی مگر وہ لکھنے اور اظہار خیال کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ادارے کا مقصد تعصب سے پاک تحریر کی برقی اشاعت ہے جسے ہر طور کامیاب بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاصوں کے عین مطابق اور لوگوں کی مصروف زندگی

کو مدنظر رکھتے نہایت اہم اور ضروری خبروں تبصروں اور تحقیقی کاموں کی برقی اشاعت کی جائے گی۔ نئے لکھاریوں کے ساتھ ساتھ مشہور لکھاری بھی اپنی تحریروں سے صفحے کو گاہے گاہے عزت بخشیں گے۔

: لکھاریوں کے لئےچند گزارشات

1: براہ کرم اپنی تحریر ادارے کے ای میل ([email protected]) پر یا میسج میں مکمل نام کے ساتھ اردو میں ٹائپ کر کے بھیجیں۔ تحریر کے ساتھ اپنا مختصر تعارف یعنی تعلیم، شعبہ و مشاغل بھی بھیج دیں تاکہ تحریر کے آخر میں شامل کیا جا سکے۔ فی الحال تحاریر صرف فیس بک پیج پرشائع ہو گئیں، ویب سائٹ ابھی زیر تکمیل ہے۔

2: مدیر کو پورا اختیار ہو گا کہ وہ ادارے کی پالیسی کے مطابق آپ کی تحریر میں ضروری تبدیلی کر سکے۔

3: ایسی کسی بھی تحریر سے احتیاط کریں جس سے کسی مذہب، فرقے، رنگ، نسل، ملک، قوم یا جماعت کی دل آزاری ہو۔

4: ذاتی حملوں سے اجتناب کریں۔

5: مختصر تحریر لکھیں تا کہ لوگوں کی دلچسپی برقرار رہ سکیں۔

6: ادارے کا آپ کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں لہذا آپ اپنی تحریر کے مکمل ذمہ دار ہونگے۔

معزز ممبران:

1: ایسی کسی بھی تحریر یعنی کمنٹ یا اظہار خیال سے احتیاط کریں جس سے کسی مذہب، فرقے، رنگ، نسل، ملک، قوم یا جماعت کی دل آزاری ہو۔

2: کسی بھی شکایت کی صورت میں پوسٹ یا کمنٹ کو رپورٹ کریں۔

3: تجاویز کے لئے ادارے کا ای میل یا میسج کا استعمال کریں۔


ایک وضاحت:
اس بلاگ/ادارے کا دنیا نیوز یا اس سے منسلک کسی بھی ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔

14/08/2024
عید مبارک
10/04/2024

عید مبارک

غزوہ بدر جسے قرآن نے یوم الفرقان کہاحفصہ افضل𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆تاکہ سچ کو سچا کردکھائے اور جھوٹ کو جھوٹاکردکھائے اگرچ...
28/03/2024

غزوہ بدر جسے قرآن نے یوم الفرقان کہا
حفصہ افضل
𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆
تاکہ سچ کو سچا کردکھائے اور جھوٹ کو جھوٹاکردکھائے اگرچہ مجرم ناپسند کریں- الانفال۸۔
غزوہ بدر اسلام کا پہلا معرکہ تھا جو فیصلہ کن فتح سے سرفراز ہوا۔ بدر کے مقام پر 17 رمضان المبارک کوحق و باطل کے مابین لڑا گیا جب دونوں لشکر، مسلمان اور قریش مقابل ہوئے۔ مسلمانوں کے لشکر کی قیادت نبی کریم ﷺ نے فرمائی. دوسری جانب قریش کے لشکر کی قیادت ابو جہل، ابو سفیان اور دیگر مشہور سردار کر رہے تھے۔ کفار و مشرکین تعداد میں بہت زیادہ تھے جبکہ مسلمانوں کی تعداد ٣١٣ تھی، اسکے ساتھ ساتھ 2 گھوڑے اور 70 اونٹ تھے جن میں سے ہر اونٹ پر 2 یا 3 آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔
اس جنگ میں مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نو عمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خیال سے چھپتے پھرتے کہ کہییں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جاٸیں۔
دوسری جانب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی رات بارش نازل فرماٸی جو مشرکین کے لئے عذاب بنی جس سے انکی پیش قدمی رک گئے اور کیچر رکاوٹ بن گیا۔ ادھر مسلمانوں کے لئے باران رحمت بنی جس کی بدولت پانی کی ضرورت پوری ہوئی اور قرآن مجید کے مطابق شیطان کی گندگی اور بزدلی دور ہوگٸی جس سے مسلمانوں کے قدم مضبوط ہوگئے۔
چونکہ مسلمان تعداد میں کم اوراسلحے کی کمی تھی تو نبی کریم ﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ پھیلا دیے اور کہا کہ اے اللہ تعالیٰ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا فرما‘ اے اللہ تعالیٰ اگر تیری مرضی یہی ہے تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ ابنِ اسحاق کی روایت میں ہے کہ جب قریش مکہ مکرمہ کے کافر سامنے آئے تو آپ نے یوں دُعا فرمائی اے میرے اللہ تعالیٰ یہ قریش کے لوگ بڑے غرور اور فخر کے ساتھ پیغمبر سے لڑنے اور جھٹلانے کو آ رہے ہیں ‘ اپنی مدد بھیج جس کا تُو نے وعدہ فرمایا ہے۔
رسول کریم ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور جبرئیل علیہ السلام کی قیادت میں مسلمانوں کی مدد و نصرت کے لیۓ ایک ہزار فرشتوں کو بھیجا گیا۔ آخر کار اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوٸی۔ مشرکین شکست کھا کر منہ کے بل گر پڑے اور حق و باطل کا فیصلہ سامنے آگیا۔
غزوہ بدر میں مسلمان قریش کے مقابلے میں ایک تہاٸی سے بھی کم تھے۔ قریش کے پاس اسلحہ بھی مسلمانوں سے زیادہ تھا۔ اس کے باوجود کامیابی نے مسلمانوں کے قدم چومے کیونکہ مسلمان ایمانی قوت و طاقت سے لبریز اور ایمانی جذبے سے سرشار تھے.
اس جنگ میں مسلمانوں نے بہت ہمت، شجاعت، بہادری اور صبر سے کام لیا۔ مسلمانوں کے تقویٰ اور اطاعتِ رسول ﷺ کی وجہ سے ان کی برتری روز روشن کی طرح عیاں ہوگٸی اور کفار کے حوصلے پست ہوئے جبکہ مسلمانوں کا اللہ تبارک وتعالیٰ پر توکل اور بڑھ گیا۔ غزوہ بدر اسلام اور کفر میں پہلی اور اہم ترین جنگ تھی۔ اس سے دنیا پر واضح ہوگیا کہ نصرت الٰہی کی بدولت مومنین اپنے سے کٸی گُنا فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ یہ وہی جنگ تھی جس میں 2 نو عمر صحابیوں نے قریش کے سرداراوراس جنگ کے موجب بننےوالے مغرور و شریر ابو جہل کو جہنم واصل کیا۔
حاصل تحریر یہ کہ آج کل کے دجالی نظام میں اسلام کی تاریخ کو رونما کیا جائے اور اپنی نسلوں کو بھی اسلام کی تاریخ، سیرت رسول ﷺ اور سیرت صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے متعارف کرایا جائے۔ بدر کی تعلیم کو اپنی زندگیوں میں شامل کیا جائے کیونکہ رمضان المبارک ہمیں تقویٰ کے ساتھ ساتھ بدر کی تعلیم اور جہاد کا حکم دیتا ہے۔

حفصہ افضل جامعہ کراچی کے شعبہ ساٸنس کی طالبہ اور اردو بلاگر بھی ہیں۔

مزید معیاری خبروں، بلاگز، ویڈیوز اور تصاویر کے لئے ہمارا پیچ لائک کریں۔

ام المومنین عفیفہ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہماعلامہ محمد خلیل الرحمان (مرحوم)𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆آج ام المومن...
28/03/2024

ام المومنین عفیفہ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما
علامہ محمد خلیل الرحمان (مرحوم)
𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆
آج ام المومنین عفیفہ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کا یوم وصال ہے ـ آ پ رضی اللہ عنہما کو حضور ﷺ کی شریک حیات بننے کا شرف تب ملا جب ملیکة العرب ام المومنین سیدہ خدیجة الکبری رضی اللہ عنہما کا وصال ہواـ آپ امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں ـ کمال کی ذہین تھیں ،حافظہ بھی کمال کا تھا ،تفقہ فی الدین میں بھی نمایاں مقام کی حامل تھیں ، کئی صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے ان سے دین سیکھا ـ کئی قرآنی آیات کی تفسیر ان سے منقول ہے ـ خصوصاً خواتین سے متعلق مسائل شرعیہ تو اکثر آپ کی وساطت سے امت تک پہنچے ـ
حضورﷺ آپ کو بہت چاہتے تھے، اسی لئے جب عدل بین الزوجین کا حکم آیا تو حضور ﷺ نے اللہ رب العزت سے دعا کی کہ دل کے میلان میں عدل کرنا میرے اختیار میں نہیں اسلئے اس پر مواخذہ نہ فرمانا، چنانچہ اللہ رب العزت نے آیات نازل فرمائیں جن میں واضح کر دیا کہ قلبی میلان کے حوالے سے عدل بین الزوجین یہی ہے کہ کسی ایک کی طرف مکمل نہ جھک جائیں اور دوسریوں کو معلق نہ چھوڑ دیں ـ دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما بھی حضور ﷺ کی آپ کی طرف زیادہ رغبت سے آگاہ تھیں ـ
واقعہ افک میں جب آپ رضی اللہ عنہما کی پاکدامنی پر تہمت لگائی گئی تو اللہ رب العزت نے دس آیات نازل فرما کر آپ کی پاکدامنی کی شہادت دی، یہ آپ کیلئے ایسا اعزاز ہے جس میں اور کوئی شریک نہیںـ آپ کا وصال بھی بہت برکت والے دن یعنی یوم بدر میں ہواـ آج ہمیں اپنی محسنہ ماں رضی اللہ عنہما کی یاد منانی چاہیے اور ان کے ایصال ثواب کیلئے اہتمام کرنا چاہیے، حسن ظن رکھنا چاہیے کہ آج ان کے اور شہدائے بدر کے وسیلے سے مانگی ہوئی دعائیں مقبول ہوں گی.

علامہ محمد خلیل الرحمان صاحب ممبر مرکزی رویت ہلال کمیٹی، ناظم اعلی جامعہ اسلامیہ لاہور، سربراہ اقراء اسلامک سکول سسٹم اور سی ائی او اسلامک پیلب پاکستان تھے۔ آپ ملک کے موقر اخبارات میں مذہبی اور سماجی مسائل کر لکھتے رہتے تھے۔ درجنوں کتابوں کے مصنف اور ماہنامہ سوئے حجاز کے مدیر تھے۔

مزید معیاری خبروں، بلاگز، ویڈیوز اور تصاویر کے لئے ہمارا پیچ لائک کریں۔

درخت اگائیں، زندگی بچائیںمحمد عثمان یٰسین𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆انسانی زندگی کا دارومدار خوراک، پانی اور آکسیجن پر ہے۔ خور...
26/03/2024

درخت اگائیں، زندگی بچائیں
محمد عثمان یٰسین

𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆

انسانی زندگی کا دارومدار خوراک، پانی اور آکسیجن پر ہے۔ خوراک اور پانی کے بغیر تو انسان چند دن زندہ رہ سکتا ہے مگر آکسیجن کے بغیر چند منٹ گزارنا بھی نا ممکن ہے۔ آکسیجن کا سب سے بڑا ذریعہ درخت ہیں جن کو زمین کے پھیپھڑے بھی کہا جاتا ہے۔ درخت آکسیجن کے ساتھ ساتھ خوراک کا بھی بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کی ضرورت و اہمیت کے متعلق تقریباََ دنیا کے ہر مذہب میں تلقین کی گئی ہے۔ اسلام نے بھی درختوں کو کاٹنے کی ممانعت کی ہے۔ محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ نے شجر کاری کو فروغ دینے کے لیے اسے صدقہ جاریہ قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ''جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو پھر وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا''(بخاری)۔ آپ ﷺ نے شجر کاری کو اتنی اہمیت دی کہ دوران جنگ مفتوحہ علاقے میں فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچانے سے سختی سے منع فرمایا ہے اور فرمایا کہ ''اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو اور وہ اس کولگا سکتا ہو تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو''۔

اگر ہم انسان کے سانس لینے کے نظام پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ درخت اور ان سے حاصل ہونے والی آکسیجن ہمارے لیے کتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ایک انسان ایک دن میں 550 لیٹر آکسیجن استعمال کرتا ہے جبکہ ایک صحت منددرخت 10صحت مند انسانوں یا 35 بچوں کو آکسیجن فراہم کر سکتا ہے۔ اس وقت 8ارب کی دنیا کے 30فیصد رقبے پر درخت موجود ہیں۔دنیا میں فی کس درختوں کی تعداد 422 ہے۔ کینیڈا میں 10163 آسٹریلیا میں 4964 امریکہ میں 699 چین میں 130 انڈیا میں 28 جبکہ سبز ہلالی پرچم والے وطن عزیزمیں صرف 5 درخت فی کس ہیں۔ انٹرنیشنل اداروں کے مطابق 2فیصد جبکہ پاکستانی اداروں کے مطابق 5فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ اگر پاکستانی اداروں کی رپورٹ کو ہی درست مان لیں تو پھر بھی خطرناک حد تک کم ہیں اور جن کی مسلسل زور و شور سے کٹائی جاری ہے۔ ابھی تو گزشتہ سال دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھنے والے پھلوں کے بادشاہ آم کے کئی باغات کو کاٹ کر ملتان میں ہاوسنگ سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو کہ قابل شرم بات ہے جس کا خمیازہ ہم نے حالیہ سیلاب میں بھرپور طریقے سے ادا بھی کیا مگر پھر بھی ہوش نہیں آیا کہ ہم اب ہی کچھ درخت لگا لیں. یاد رہے کہ ایک عام کے درخت کو بیج سے پحل دینے تک 5 سے 8 سال لگتے ہیں۔ دوسری طرف گندم و سبزیوں کے بحران نے عام آدمی کا جینا محال کیا ہوا ہے جس کہ بنیادی وجہ زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیا ں کااضافہ ہے۔ دنیا سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنی غیر آباد زمینوں کو زرعی زمینوں میں تبدیل کررہی ہے اس سال تاریخ میں پہلی مرتبہ دبئی حکومت نے ریت کے ٹیلوں کو سرسبز کھیتوں میں تبدیل کیا ہے اور گندم کی فصل کی کاشت کر رکھی ہے جبکہ پاکستان میں بحیریہ ٹاؤن اور بسم اللہ سوسائٹی کے نئے فیز کا افتتاح بڑی دھوم دھام سے کیا گیا اور لوگ زراعت پر توجہ دینے کی بجائے ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں پیسہ لگا کر اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ حکومت کی بھی اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ہم جنگلات و زراعت پر تھوڑی سی بھی توجہ مرکوز کر لیں تو ہم معاشی بحران سے بھی نکل سکتے ہیں مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ شجر کاری بھی تصاویر کی حد تک ہی کرتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی چار درخت لگا بھی دیں تو حفاظت کوئی انتظام نہیں ہوتاہے ٹمبر مافیا مکمل آزاد ہے۔

اگر ہم دنیا کے خوب صورت خطوں کا جائزہ لیں تو گھنے جنگلات و باغات والے علاقے کو زیادہ خوب صورت مانا جاتا ہے۔ انسان فطری طور پر ماحول دوست ہے جو اپنے اردگرد صاف ستھرا ماحول پسند کرتا ہے جو کہ سبزے اور درختوں سے ہی ممکن ہے۔ درخت ہی ہوا کو صاف کرتے ہیں خوراک اور استعمال کی لکڑی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تیز آندھیوں، طوفانی بارشوں اور تباہ کن سیلاب، زمینی کٹاؤ اور موسم کی شدت سے بچاتے ہیں جس کا بخوبی اندازہ زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور سیلابوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ حالیہ ہونے والی مون سون کی بارشوں نے پاکستان سمیت پور ے ایشیاء میں تباہی مچا رکھی ہے اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو بحثیت قوم ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم کتنی نااہل قوم ہیں کہ اسلام آباد جیسا شہر جو بنا ہی پہاڑی ڈھلوانوں پر ہے ہماری روز مرہ کی محنت سے پہاڑوں پر بھی سیلاب امڈ آیا اور ساحل سمندر پر واقع شہر کراچی ہیٹ اسٹرک سے مرنے والوں کا مرکز بن چکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی اور رئیل اسٹیٹ کے بزنس کا بے ہنگم پھیلاؤ ہے۔ ریاست و قانون نام کی کہیں کوئی چیز نظر نہیں آتی جہاں جس کا دل چاہتا ہے کالونی بنا کر بیٹھ جاتا ہے اب یہاں پر ہماری نااہلی کی انتہا دیکھیں کہ مری اور ایبٹ آباد جیسے ٹھنڈے علاقے جہاں لمحوں میں موسلادھار بارش برس جاتی ہے اور کھانا پکانے کے لیے آگ جلانا ایک مشکل کام ہے وہاں جنگلات میں لگی خود ساختہ آگ بجھانا ہمارے لیے ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے ساتھ اور نہ ہی آنے والی نسلوں کے ساتھ مخلص ہیں۔

ایک دو پیڑ ہی سہی، کوئی خیابان نہ سہی
اپنی نسلوں کے لیے کچھ تو بچایاجائے

ہر شخص درخت کے نیچے بیٹھنا چاہتا ہے گاڑی درخت کے نیچے پارک کرنا چاہتا ہے اپنی تصویر کے عکس میں سرسبز میدان و باغات دیکھنا چاہتا ہے مگر درخت لگانا کوئی بھی نہیں چاہتا درختوں کی کٹائی کی روک تھام کے لیے سخت قوانین اور ان کے اطلاق کے لیے خصوصی فورس بنانی چاہیے۔ بنجر زمینوں کو غربا میں تقسیم کردیا جائے، آئل و فیول کمپنیوں کو بنجر زمینیں الاٹ کرکے جنگلات اگانے پر قائل کیا جائے اسی طرح زمینی و فضائی ٹرانسپورٹ کمپنیوں سمیت ہر وہ کمپنی و ادارہ جو ماحول میں آلودگی کا سبب بن رہاہے ان کی رجسٹریشن او ر اجازت نامے کو جنگلات کے ساتھ منسلک کردینا چاہیے۔ آلودگی کے حجم کے برابر درخت نہ لگانے والے ادارے کوبند کر دیا جائے، شجر کاری کے سالانہ مقابلہ جات کروائے جائیں اچھی کارکردگی دیکھانے والے کو انعامات سے نوازاجائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا جائے کہ جہاں بھی درخت لگائے جائیں پھل دار لگائے جائیں جو آکسیجن کے ساتھ ساتھ پھل بھی دیں جس کو بیچ کر خطیر زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔ اکثر دیکھا یہی گیا ہے کہ حکومتی ادارے جہاں بھی شجر کاری کرتے ہیں ایسے درخت لگاتے ہیں جن کا سایہ ہوتا ہے نہ پھل اور نہ ہی لکڑی کسی کام کی ہوتی ہے مثلاََکونو، الٹا شوک، سفیدہ وغیرہ نہ جانے ہم اچھے کو بھی برا بنا کر کیوں کرتے ہیں؟بی آربی نہر کنارے میرے اپنے گاؤں میں محکمہ انہار اور جنگلات نے شجر کاری کی جس میں صرف سفیدے کے پودے لگائے گئے ہیں جو پانی کا بھی دشمن ہے لمبے قد کی وجہ سے فصلوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اسی طرح اکثر جگہوں پر'' کونو'' کے پودے لگائے جا رہا ہے جن پر پرند تک نہیں بیٹھتا اب آپ خود اندازہ کریں جس پودے پر پرندے نہیں بیٹھتے جن کا مسکن ہی درخت ہوتے ہیں وہ بھلا انسان کو کیا فائد ہ دے سکتا ہے۔ اگر ہم نے پاکستان کو بنجر ہونے سے بچاناہے توہمیں شجر کاری کے معاملے میں ہر حال میں سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ورنہ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق 2050 تک پنجاب اور سندھ کے معتد د اضلاع بنجر بن جائیں گے جن میں پنجاب سے لاہور، ملتان اور فیصل آباد جبکہ سندھ سے میر پور خاص، سکھر اور حیدرآباد شامل ہیں۔ ہمیں جنگلات کے اگاو اور زراعت کو سائنس و ٹیکنالوجی کے نت نئے طریقوں کو اپنانے کے لیے ہر حال میں سنجیدہ ہونا پڑے گا ورنہ ہماری آنے والی نسلیں قحط و بھوک سے مر جائے گی تاریخ کے اوراق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جو قومیں اپنے مستقبل کے ساتھ مخلص نہیں ہوا کرتیں تاریخ ان کی آنے والی نسلوں کو غلامی پر مجبور کر دیتی ہے۔

مزید معیاری خبروں، بلاگز، ویڈیوز اور تصاویر کے لئے ہمارا پیچ لائیک کریں۔

ماہ صیامصبا احمد𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆 جس طرح دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں موسموں کا تغیر جغرافیائی تبدیلی لاتا ھے ا...
26/03/2024

ماہ صیام
صبا احمد
𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆

جس طرح دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں موسموں کا تغیر جغرافیائی تبدیلی لاتا ھے اسی طرح اسلامی سال کا ھر مہینہ خاص واقعات کی تاریخ کا احاطہ کرتا ھے. رمضان جس کو نیکیوں کا موسم بہار کہتے ہیں. جیسے سال میں بہار کے آنے سے ہر طرف درخت پودے اور باغ سبزے سے ہرا بھرا اور رنگین ھو جا تا ہے ہر دنگ کے پھولوں سے من مہکتا ہے اسی طرح رمضان میں نیکیاں نشوونما پاتی ہیں انسان بھوک پیاس کے ساتھ اپنی زبان ھاتھ کان اور ناک تک پر قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ روزے کی حالت میں اس کے کسی اعضاء سے غلطی سر زرد نہ ھو۔ اس کے روزے کی روح نہ ختم ھو جائے۔ اس کا اصل مقصد فوت نہ ھو جائے۔ جس کے لیے وہ سارا دن بھوکا پیاسا رہا۔ یہ با برکت مہینہ ہے کہ جہاں نیکیاں کونپلوں کی طرح کھلتی ہیں۔ ھر نیکی کی پنیری لگاٸی جاتی ھے۔ تربیت گاہ ھوتی ھے، باغ ھے جہاں سارا سال انسان اپنی من مانی کرتا ہے اللہ کے احکامات کی حکم عدولی بھی کرتا ہے مگر رمضان میں مسلمان لوٹ آتا ہے اپنے اصل یعنی اللہ تعالٰی کی جانب بھولا بھٹکا جیسے انسان غلطی کرکے شیطان کے بہکاوے میں آکر یوں خزاں کے بعد بہار آتی ھے اللہ کے رحمت وشفقت کا اور مغفرت کی۔ اللہ پاک کا تخت عرش سے زمین کے قریب ھو جاتا ھے۔ اپنے بندوں کے لیے تہجد اور سحر وافطاری میں وہ پکارتا ھے کون اس کے رحمت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں وضو کرنا چاہتا ھے، غسل یا ھاتھ دھونا چاہتا ھے۔ رمضان اللہ کامہینہ ھے جس میں نفل عبادات فرض کے اور فرض عبادات کاثواب ستر گنا۔ اللہ پاک فرماتا ھے روزہ میرے لیے ھے اور میں ھی اس کا اجر د۔ونگا. "باب ریان" منتظر رہتا ھے ہر سال روزہ داروں کا جس میں صرف روزہ دارھی داخل ھونگے۔ یہ ھے نیکی کا ثمر گناہوں کی معافی کا کون طلبگار ھے۔ جائے نماز پر سجدے میں ندامت کے آنسو بہا کر معافی مانگتا ھے۔ پھر اللہ تعالی فرماتا ھے کہ "اے لوگوں جو ایمان لائے ھو روزے تم پر فرض کیے گے ھیں جسطرح تم سے پہلی امتوں پر تاکہ تم پرھیز گار بنو " (البقرہ ١٨٣)

پرہیزگار سے مراد گناھوں سے بچو، کینہ حسد بغض چغل کیونکہ یہ سب نیکیوں کو جلا دینے والی ھیں۔ اللہ تعالیﷻ ھمیں پاک صاف دیکھنا چاہتا ھے۔ دوزخ کی آگ سے بچانا اس کا مقصد ھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ھیں۔ روزہ کہتا ھے کہ اے میرے رب میں نے دن بھر اسے کھانے ( پینے) اور شہوت سے روکے رکھا، تو میری سفاررش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہتا ھے اے رب میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ پس دونوں کی شفاعت قبول فرمائی جائے گٸی .(بیہقی)۔ نبی کریم ﷺ روزہ دار کو پانی اپنے حوض کوثر سے پلاٸیں گئیں اور یہ وہ مہینہ ھے جس کے آغاز میں رحمت وسطہ میں مغفرت اور آخر میں دوزخ سے رہاٸی ھے . (البہیقی ). حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی سے روایت ھے کے رسول اللہﷺ نے فرمایا تم پر رمضان کا مہینہ آیا ھے۔ روزے فرض کیے ھیں۔ اس میں آسمان (یعنی جنت ) کے دروازے کھول دیے جاتے ھیں دوزخ کے بند کر دیے جاتے ہیں ۔شیاطین باندھ دیے جاتے ھیں اس میں اللہ کی طرف سے ایسی رات ھے جو ھزار مہینے سے بہتر ھے جو اس رات کی بھلائی سے محروم رھا پس وہ محروم ھی رہ گیے.(احمد نسائی).

ہر مسلمان کی زندگی اللہ تعالی کی امانت ھے۔ رمضان تحفہ بن سکتا ھے۔ اگلا رمضان اس کو بیماری یا موت کی وجہ سی میسر نہ آئے تو ھر رمضان کو خشو وخضوع کے ساتھ گزارے۔ اپنے جان و مال سے سے اپنی جان کھپا دے کیونکہ مالی عبادت زکوۃ کا ادا کرنا مال کو صاف کرنا بھی فرض ھے۔ یہی اس مہینے کی روح ھے۔ قرآن مجید کی زیادہ سے تلاوت کرنا مگر سمجھ کر پڑھنا نبی مہربانﷺ بھی رات میں حضرت جبرٸیل امین کو قرآن سناتے۔

سحر اور افطاری سنت ھے۔ بڑی بڑی دعوتیں مقصد نہیں۔ آپ ایک کجھور سے بھی افطاری کر سکتے ہے اس کا ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔ ضروری ہے کے زکوۃ اس سفید پوش اور ضرورت مند اور حق دار کے پاس پہنچائیں۔ اپنے اللہ کے حضور سجدے میں سر کا جھکنا فرض عبادات کے ساتھ تہجد تراویح قیام الیل اعتکاف بھی اہم ھے. ھو سکتا ھے مہلت عمل ختم ھو جاۓ .آخرت کی تیاری کے لئے ہمیں اگلا رمضان نصیب ہو نہ ھو جو ہے اسی میں اپنی مغفرت کرانے کی پوری کوشش کریں۔

رمضان بھلائی انسانیت اور حقوق اللہ کا مہینہ ہے وہیں حقوق العباد پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے چلتے بھرتے اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے رحمت مغفرت جہنم سے نجات کی طلب اور کوشش اور بھلائی کریں۔ یہ اسلامی معاشرے اور معاشرت کی پہجان اور روح ہے اور اصلاح معاشرہ کی بہترین تر بیت گاہ بھی۔

مزید معیاری خبروں، بلاگز، ویڈیوز اور تصاویر کے لئیے ہمارا پیچ لائیک کریں۔

ماہ صیام اور تزکیہ نفسندااسلام، شاہدرہ𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆ماہ صیام کی بابرکت اور رحمت بھری فضاء ہی ہے کہ ہم نیکی کی طرف...
26/03/2024

ماہ صیام اور تزکیہ نفس
ندااسلام، شاہدرہ
𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆

ماہ صیام کی بابرکت اور رحمت بھری فضاء ہی ہے کہ ہم نیکی کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ برا سوچنے، برا چاہنے اور برا کرنے سے صرف اس لئے باز رہتے ہیں کہ نفس گناہ سے آلودہ نہ ہو جائے۔ یہی تزکیہ نفس ہے۔ جب ہم ماہ صیام کے تقدس کا خیال کرتے ہوئے دوسرے کو حقیر جاننے سے باز رہتے ہیں، گھریلو سطح پر ہوں یا کاروباری، دفتری امور ہوں یا ملکی جب ہم دوسرے کے لئے آسانی پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور نہ خود کسی کی ترقی، کامیابی، خوشی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں نہ ہی دوسرے کو بننے دیتے ہیں تو دراصل ہم اپنے نفس کو شر سے بچانے کی قصداً کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

ماہ صیام ہمارے لئے رحمت، مغفرت، جہنم سے آزادی کا پروانہ اور ایک تقدس ماحول ہے جس میں نفس امارہ کمزور پڑ جاتا ہے، نفس ملامہ متحرک ہو جاتا ہے اور یوں نفس مطمئنہ تک کا سفر سہل ہو جاتا ہے۔ بے شک اللہ نے کوئی ذی روح خیر سے خالی پیدا نہیں کی مگر نفس تو شر پر اکساتا ہی ہے لہٰذا جو انسان نفس کی اکساہٹ کے آگے بے بس ہو جاتا ہے، مختلف حیلوں کے ساتھ نفس کی سنتا ہے۔ کبھی اولاد کی آزمائش میں ناکامی کا ثبوت دیتے ہوئے نفس کی پوجا کرنے لگتا ہے تو کبھی مال کی آزمائش اسے نفس کا غلام بنا دیتی ہے تو دراصل وہ بندگی رب نہیں بندگی نفس کر رہا ہوتا ہے خواہ وہ کتنی ہی نمازیں پڑھتا ہو، روزے رکھتا ہو۔

روحانی امراض ہی ہیں جو جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔نفس اور نفسانی اکساہٹیں ذی روحوں کو روحانی بیماریوں میں مبتلاء کرتی ہیں تو دوسری طرف بے ضرر انسان جن سے کسی کو نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا اور یہ خیر پھیلانے کا ہی سبب ہوتے ہیں۔ یہ بھی بسا اوقات روحانی بیمار مثلا حاسد، مغرور، متکبر، بڑائی کے طلبگار، غصیلے، جھگڑالو، بد اخلاق، انا پرست، گھمنڈی اور بغض سے بھرے انسانوں کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں اور یا تو انہی کے جیسے ہو جاتے ہیں یا سرد مہری کا شکار ہو جاتے ہیں، خ*ل میں بند ہو جاتے ہیں، خود ساختہ قیود کا اپنے آپ کو پابند بنا لیتے ہیں۔ اپنا حق چھوڑتے چھوڑتے اپنے سے وابستہ رشتوں، ماتحتوں سے بھی اسی طرح حق چھوڑ دینے کی توقع رکھتے ہیں۔ بجا ہے کہ حق پر ہوتے ہوئے حق کو چھوڑ دینا بلند خیالی ہے مگر دوسرے کو اس کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ گویا نفس صرف ایک فرد ہی کو بیمار نہیں کرتا بلکہ کئی انسانوں کی روحانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔

رمضان وہ مہینہ ہے جو ان بیماریوں کے لئے مرہم کا کام دیتا ہے۔ اگر ہم اس ماہ میں اپنا تصور بندگی درست کر لیں اور صرف نماز کی ورزش اور جسم پر فاقہ طاری کرنے کی بجائے ضمیر کی آواز پر توجہ دیتے ہوئے ہر کھٹک پیدا کرنے روئیے، عمل، سوچ، ارادے سے پرہیز کریں، فحش سے باز رہیں، منکر یعنی وہ تمام افعال جن کو کرنے سے روک دیا گیا ہے ان سے باز رہیں تو پھر ہی ہم نفس کے تزکیے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے،ت زکیےکے لئے صرف ذکر لسان ہی کافی نہیں بلکہ عملی ذکر بھی ضروری ہے۔ أئیےعہد کریں کہ اس رمضان میں ہم اپنی کم از کم ایک بری خصلت کو اللہ کی خاطر چھوڑ دیں گے اور کم از کم ایک نیک عادت کو شعوری طور پر اپنائیں گے۔ مثلا بڑائی کا طلبگار ہونا چھوڑ دیجئے کہ بڑائی اللہ کے لئے ہے اور اس میں شریک ہونے والے کو اللہ کبھی بھی عزت نہیں دیتا تا وقتیکہ وہ اسے ترک کر دے اور عفو کا پلو تھام لیجئے تا کہ دل کی گہرائیوں سے ہم اللہ کے عفو کو طلب کر سکیں۔ اگر ہم ایسا کر لیتے ہیں اور پورا سال اس روش پر قائم رہتے ہیں تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ ہم رمضان کی عظمت کو پا گئے، نفس کے تزکیے میں کامیاب ہو گئے۔ اللہ اس رمضان کو ہمارے لئے تزکیہ نفس کا سبب بنا دے ۔اٰمین

مزید معیاری خبروں، بلاگز، ویڈیوز اور تصاویر کے لئے ہمارا پیچ لائیک کریں۔

محبت کے پکوڑے کھا رہا ہوں حمیرا حیدر𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆رمضان اور پکوڑوں میں چولی دامن کے ساتھ سے کون واقف نہیں۔ روزوں ...
26/03/2024

محبت کے پکوڑے کھا رہا ہوں
حمیرا حیدر
𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆
رمضان اور پکوڑوں میں چولی دامن کے ساتھ سے کون واقف نہیں۔ روزوں میں دستر خوان پر ایک جوڑا ایسا ہے جس کے بغیر افطاری سونی سونی لگتی ہے۔ جی ہاں لال شربت اور پکوڑے۔ ان کے بغیر افطار کا تصور کم از کم ہمارے ہاں مفقود ہے۔ لال شربت میں اختلاف ہے کچھ افراد روح افزاء کے حق اور کچھ جام شیریں کے حق میں دلائل دیتے ہیں مگر ایک چیز جس پر تمام قوم کا اجماع ہے وہ ہیں پکوڑے، ان کو رمضان کا برانڈ ایمبسیڈر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
پکوڑے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ افراد کہتے کہ کسی مکرانی شخص نے گھی میں بیسن کی ٹکیاں ڈالیں۔ بھوک کی شدت تھی اور پکنے میں دیر ہو رہی تھی تو اس نے جھنجلا کر کہا پکو رےے۔ جو کثرت استعمال سے پکوڑے ہو گیا مگر اندر کی بات ہے کہ اس شخص کے گھر آٹا ختم ہو گیا تھا، بیوی بہت سخت مزاج تھی اس نے محلے کی "خبرگیری" کے لئے جانے سے پہلے، واپسی پر کھانا تیار ہونے کا حکم دیا تھا۔ بازار جانے کا وقت نہ تھا چنے کی دال نظر آئی وہی پیس کر آٹا بنایا۔ بیوی کے آنے کا وقت ہو چلا تھا گھبراہٹ میں اس نے گوندھنے کی کوشش کی تو پانی زیادہ ڈال دیا اب وہ لئی بن چکی تھی۔ اس نے جلدی سے اس میں نمک اور دستیاب مصالحے ڈال دیئے اور گھی میں پکنے کو ڈالا۔ باہر بیوی کی پڑوسن سے لڑنے اور بچوں کو پیٹنے کی آواز آنے لگی۔ تو اس نے کڑاہی میں پڑے مرکب کو دیکھا اسی دوران بیوی گھر میں داخل ہوئی اور کڑک کر بولی کیا پکایا ہے میاں گھبرا کر بولا پکو ڑےےےے۔ بس اسی سے اسے پکوڑے کا نام ملا۔ آگے کی کہانی میں بیوی کو پکوڑے بہت پسند آئے اور وہ بہت خوش بھی ہوئی۔

کچھ افراد کا خیال ہے کہ یہ آدمی کوئی بلوچ تھا مگر ہمیں یہ شبہ ہے کہ ان صاحب کا تعلق لاہور سے تھا کہ کیونکہ وہاں"ڑ" بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ ”پکوڑا“ سنسکرت زبان کے لفظ ”پکواتا“ سے ماخوذ ہے، پکواتا معنی ”پکا ہوا“ اور واتا کا معنی ”سوجن“۔ پکوڑا اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ادبی حیثیت سے اس 1780 ء کو "کلیاتِ سودا ”میں پہلی بار استعمال ہوتے ہوئے سنا گیا۔ کسی محاورے یا ضرب مثل میں پکوڑے کا استعمال تاحال نہیں سنا۔ خدا معلوم "باتیں بڑی بڑی اور دکان پکوڑوں کی" کس کیٹیگری میں شمار کیا جائے گا؟ البتہ لڑائی میں ناک پکوڑے جیسی کرنے کی دھمکی ضرور سنی گئی ہے۔ وہ ملکہ جس نے لوگوں کو بھوک سے مرنے کی بجائے کیک کھانے کا مشورہ دیا تھا اگر ہمارے ہاں ہوتی تو ضرور پکوڑے کھانے کا مشورہ دیتی۔

ہمارے شاعر حضرات نے پکوڑوں کو بھی نہیں بخشا ذرا پکوڑا شاعری ملاحظہ ہو
وہ افطاری سے پہلے چکھتے چکھتے
کهجوریں اور پکوڑے کھا چکا ہے
محبت کے پکوڑے کھا رہا ہوں
ذرا چاہت کی چٹنی ڈال دینا
سوچو تو کیا لمحہ ہو
بارش، شاعری اور پکوڑے
ویسے پکوڑے کھاتے ہوئے دوسرا کوئی بھی کام ممکن تو نہیں مگر کیا کہہ سکتے ہیں

اردو اور پنجابی کو ملا کر مزاحیہ شاعری کرنے والے امام دین گجراتی سے کون واقف نہیں۔ ہمارے ہاں شاعروں کو عموما ان کی وفات کے بعد ہی عزت و شہرت ملتی ہے۔ امام دین گجراتی کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ عمر کے آخری حصے میں وہ کسی سکول یا کالج کے باہر پکوڑے بیچتے رہے۔ سُنا ہے اِن پکوڑوں کے ساتھ اُن کی کافی یادیں بھی وابستہ ہیں۔ پکوڑوں کے حوالے سے اُستاد امام دین کے اس شعر کی وجہ بھی ہے۔
کوئی تَن بیچے، کوئی مَن بیچے
امام دین پکوڑے نہ بیچے تو کیا بیچے

ویکی پیڈیا کے مطابق" پکوڑا برصغیر پاک و ہند کے مشہور پکوانوں میں سے ایک ہے۔ مختلف اشکال میں برصغیر کے تمام علاقوں میں مقبول ہے۔ جنوبی بھارت کے بیشتر علاقوں میں پکوڑوں کو بھجّی بھی کہتے ہیں۔
انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا پکوڑے کی تعریف یوں بیان کرتا ہے "انڈین پکوڑے گوبھی، بینگن، یا دیگر سبزیوں پر مشتمل تیل میں تلے ہوئے چٹ پٹے کیک ہوتے ہیں۔"

اس کے نام یا ابتداء کے بارے میں اگرچہ اختلاف ہے البتہ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ برصغیر یا جنوبی ایشیائی پکوان ہے۔ اسی لئے یہاں اسے کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ بھارت کے کئی علاقوں صوبہ مہاراشٹر، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں ان کو’’بھجی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں بنائے جانے والے پکوڑوں میں سبزی کا استعمال لازمی کیا جاتا ہے۔ یہ برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں بھی شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے کئی علاقوں میں انہیں ’’دھلجیس‘‘ کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ ’’پکوڑا‘‘ یا ’’پکووڑا‘‘ کہلاتے ہیں۔ چین اور نیپال میں انہیں پکوڈا، جب کہ صومالیہ میں انہیں’’بیجیئے‘‘ کہا جاتا ہے۔ بہرحال پاکستان میں ان کو پکوڑے یا پکوڑی ہی پکارا جاتا ہے۔ البتہ کچھ انگریزی میڈیم افراد اس کو "پکوراس" بھی کہتے ہیں۔

اگرچہ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر اسے کھانے کا بہانہ ڈھونڈا جاتا ہے مثلا برسات کی شام، سردیوں کی چائے، بہار کی آمد یا عزیز مہمان کی آمد کے ساتھ۔ مگر رمضان کے مہینے میں تو پکوڑے لازم و ملزوم ہیں۔ ہر گھر میں پکوڑے کی مختلف قسم پسند کی جاتی ہے۔ کہیں صرف آلو کے پکوڑے، پیاز کے پکوڑے، پالک پکوڑے، ہری مرچ پکوڑے، بینگن پکوڑے، آلو پیاز ٹماٹر مکس پکوڑے، پھول گوبھی اور بند گوبھی کے پکوڑے۔ جیسے جیسے ہمارے گھروں میں بدیسی کھانے کا رحجان بڑھ ریا ہے اسی کے ساتھ پکوڑے میں مزید ورائٹی آئی ہے۔ جیسے انڈا پکوڑے، پنیر پکوڑے، چکن پکوڑے، وغیرہ۔ رمضان گرمی میں ہو یا سردی میں پکوڑے اپنی جگہ کسی کو نہیں لینے دیتے۔ کچھ سال سے رمضان گرمیوں میں آ رہا ہے تو ہمارے ایک بھائی ہیں وہ کہنے لگے کہ گرمی کی شدت نے اس قدر پریشان کیا کہ افطار کے وقت آئس کیوب نکال کر ان پر بیسن کا کوٹ کر کے کڑاہی میں ڈال کر ٹھنڈے پکوڑے بنانے کی کوشش کی۔ (نتیجتا جو کڑاہی میں بھونچال آیا ہو گا آپ تصور کر سکتے ہیں) مگر اب سنا ہےکہ آئس کریم پکوڑا بھی کچھ شہروں میں دستیاب ہے۔ ہر قسم کے پکوڑوں کی اپنی خاص اہمیت اور مزہ ہے۔ ان کے ساتھ اگر ہری چٹنی ہو تو کیا ہی کہنے۔ سوشل میڈیا میں کچھ عرصہ پہلے بحث چلی کہ کونسے پکوڑے نمبر ون ہیں تو پکوڑے پکوڑے ہیں ان کی درجہ بندی زیادتی ہے جس کو جو پسند ہیں کھائے۔ جاتے جاتے ایک ضروری ٹوٹکا حاضر ہے۔

پکوڑے کے لئے تیار مصالحہ لینے کی بجائے اپنا مصالحہ خود تیار کریں جو تیار مصالحے کی نسبت کم قیمت اور بہتر ہو گا۔ سفید زیرہ ( بھنا ہوا)، سرخ کوٹی مرچ، اناردانہ/لیموں پاووڈر، کشمیری مرچ پاوودڑ/ پیپریکا پاووڈر، قصوری میتھی، کوٹا دھنیا، ہلدی، اجوائین ، کلونجی ( آدھی چائے کی چمچ سے زیادہ نہ ہو) گرم مصالحہ پسا ہوا۔ ان سب خشک مصالحوں کو ملا کر ایک ڈبے میں رکھ لیں۔ جب بیسن گھولنے لگیں تو ایک چائے کا چمچ ادرک لہسن کا پیسٹ شامل کر لیں۔

باقی پکوڑوں کے ساتھ ہری چٹنی ضرور استعمال کریں کیونکہ ان دونوں کی کیمسٹری آپس میں خوب ملتی ہے۔ بہت زیادہ پکوڑے کھانے سے پرہیز کریں۔ اس سے پیٹ جلدی بھر جاتا ہے (سنا ہے کہ عید قربان کے جانوروں کو فربہ کرنے کے لئے چنے و بیسن کھلایا جاتا ہے) اور انسان باقی اشیاء کھانے سے رہ جاتا ہے۔ تو اگر دسترخوان کے تمام اشیاء سے انصاف کرنا ہے تو سمجھداری کا مظاہر کریں۔

مزید معیاری خبروں، بلاگز، ویڈیوز اور تصاویر کے لئیے ہمارا پیچ لائیک کریں۔

راکبِ دوش مصطفےٰ، حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہمحمد عبدالماجد عطاری مدنی𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆 حضرتِ سیّدہ فاطم...
25/03/2024

راکبِ دوش مصطفےٰ، حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ
محمد عبدالماجد عطاری مدنی
𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆

حضرتِ سیّدہ فاطمۃُ الزّہراء رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا کے گلشن کے مہکتے پھول، اپنے نانا جان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں کے نور، راکبِ دوشِ مصطفےٰ (مصطفےٰ جانِ رحمت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک کندھوں پر سواری کرنے والے)، سردارِ امّت، حضرت سیّدُنا امام حَسَن مجتبیٰ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کی ولادتِ باسعادت 15رمضان المبارک 3ہجری کو مدینہ طیبہ میں ہوئی. (البدايۃوالنہایہ، 5/519)

آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کا نام حسن کنیت ”ابو محمد“ اور لقب ”سبطِ رسول اللہ“ (رَسُوۡلُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے نَواسے) اور”رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل“ (رَسُوۡلُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے پھول) ہے۔(تاریخ الخلفاء، ص149).

نبیِ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کے کان میں اذان کہی۔ (معجم کبیر، 1/313، حدیث:926) اور اپنے لعابِ دہن سے گھٹی دی۔(البدايۃ والنہایہ، 5/519).

نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نےآپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کے عقىقے میں دو دنبے ذبح فرمائے. (نسائی،ص 688، حدیث: 4225)

حضورِ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ سے بے پناہ محبت تھی۔ پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کو کبھی اپنی آغوشِ شفقت میں لیتے تو کبھی مبارک کندھے پر سوار کئے ہوئے گھر سے باہر تشریف لاتے. آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کی معمولی سی تکلیف پر بےقرار ہوجاتے، آپ کو دیکھنےاور پیار کرنے کے لئے سیّدتنا فاطمہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا کے گھر تشریف لے جاتے۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ بھی اپنے پیارے نانا جان صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم سے بے حد مانوس تھے، نماز کی حالت میں پشت مبارک پر سوار ہو جاتے تو کبھی داڑھی مبارک سے کھیلتے لیکن سرکارِ دو عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں کبھی نہیں جھڑکا۔ ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کو حضور پرنور صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کےشانۂ مبارک پرسوار دیکھ کر کسی نے کہا: صاحبزادے! آپ کی سواری کیسی اچھی ہےتو نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سواربھی تو کیسا اچھا ہے۔ (ترمذی،5/432،حدیث:3809).

آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہیں نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بِاَبِي وَاُمِّي یعنی تم پر میرے ماں باپ فِدا۔(معجم کبیر،3/65، حديث:2677).

حضرت سیّدنا انس رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ فرماتے ہیں: ( امام) حسن رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ سے بڑھ کرکوئی بھی حضور اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم سے مُشابہت رکھنے والا نہ تھا.

آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ نے حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ سےصلح فرما کر اپنے نانا جان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان کو عملاً پورا فرمایا: میرایہ بیٹا سردار ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی بدولت مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح فرمائے گا۔ (بخاری،2/214،حدیث:2704)

آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ نہایت رحم دل، سخی، عبادت گزار اور عفوودرگزر کے پیکر تھے۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ فجر کى نماز کے بعد طلوع آفتاب تک ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے اور مسجد میں موجود لوگوں سے دینی مسائل پر گفتگو فرماتے۔ جب آفتاب بلند ہو جاتا تو چاشت کے نوافل ادا فرماتے پھر اُمَّہاتُ المؤمنین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُنَّ کے گھر تشریف لے جاتےتھے۔ (تاریخ ابن عساکر، 13/241). آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ نے(مدینۂ منورہ زادہَا اللَّہُ شرفًا وَّتعظیمًا سے مکۂ مکرمہ زادہَا اللَّہُ شرفاً وَّ تعظیماً) پیدل چل کر 25 حج ادا فرمائے۔(سیراعلام النبلاء، 4/387)

آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ کثرت سے صدقہ و خیرات فرماتے حتّی کہ دو مرتبہ اپنا سارا مال اور تین مرتبہ آدھا مال راہِ خدا میں صدقہ فرمایا۔ (ابن عساکر، 13/243)

کسی کے زہر کھلا دینے کی وجہ سےآپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ نے 5ربیع الاول 49 ہجری کو مدینۂ منورہ میں شہادت کا جام نوش فرمایا۔ ایک قول50ہجری کا بھی ہے۔(المنتظم، 5/226، صفۃ الصفوة،1/386)

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو.

ذریعہ؛ ماہنامہ فیضان مدینہ، جون 2017

معیاری خبروں، بلاگز، ویڈیوز اور تصاویر کے لئے ہمارا پیچ لائک کریں.

23 مارچ، یوم پاکستان مبارک
23/03/2024

23 مارچ، یوم پاکستان مبارک

روزہ محض بھوک پیاس کا نام نہیںندااسلام، شاہدرہ𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆 بے شک رمضان المبارک اپنی تمام رحمتوں، برکتوں کے ساتھ...
23/03/2024

روزہ محض بھوک پیاس کا نام نہیں
ندااسلام، شاہدرہ
𝑳𝒊𝒌𝒆, 𝑪𝒐𝒎𝒎𝒆𝒏𝒕 & 𝑺𝒉𝒂𝒓𝒆

بے شک رمضان المبارک اپنی تمام رحمتوں، برکتوں کے ساتھ جلوہ فرما ہے مگر اس سے مستفید ہونا ہر فرد کا اپنا کام ہے .اس سے صحیح معنوں میں وہی فرد فیض یاب ہو سکتا ہے جو نیکی کے درست تصور سے آشنا ہو۔

نیکی کا مطلب محض عبادات کو ظاہری شکل میں ادا کر دینا اور بھوکا پیاسا رہنا نہیں نہ ہی یہ نیکی اللہ کو مطلوب ہے. اللہ کو اچھا عمل پسند ہے، اللہ نیتیں دیکھتا ہے، اس کے ترازو میں نیکی کی ظاہری شکل کی کوئی وقعت نہیں. بندگی کے مفہوم پر پورا اترنا اسی وقت ممکن ہے جب ہم نیکی کی روح کو سمجھتے ہوئے نیکی کریں گے۔

آپ نیکی کرنا چاہتے ہیں اور کرتے بھی ہیں مگر بدلے کی امید کے ساتھ تو یہ نیکی نہیں۔ آپ اذکار کر کے اجر سمیٹنے کے متمنی ہیں مگر سخت کلامی یا سرد مہری میں بھی سر تا پا ڈوبے ہوئے ہیں، آپ کی بد کلامی کے ڈر سے لوگ آپ سے بات کرنے سے گھبراتے ہیں یا آپ کی اسی عادت کی وجہ سے آپ سے کنارہ کر لیتے ہیں۔ بقدر ضرورت بات بھی نہیں کہہ پاتے تو سر دست، آپ تسبیحات کی کتنی بھی تعداد پوری کر لیں، نوافل جتنے بھی پڑھ لیں مگر بندگی کے مفہوم کو آپ نہیں سمجھتے، ارے اللہ کے بندے تو اس کی مخلوق سے بہت محبت کیا کرتے ہیں، رحم دل ہوتے ہیں، نرم دل اور شیریں زبان ہوتے ہیں، لوگ ان سے بھاگتے نہیں بلکہ ان سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ کیوں نا ہم اس رمضان میں ایسی منصوبہ بندی کریں کہ اللہ کے قرب کو محسوس کریں، کیوں نا ہم اللہ کے بندوں سے ایثار، قربانی، محبت، در گزر سے پیش آئیں۔ اپنی بڑائی کے خمار میں دوسروں کے جذبات و احساسات پر چھری پھیرنے بجائے جذبات کا احترام کرنے کی روش پر گامزن ہو جائیں، کیوں نا لہجوں کی کرواہٹ کا روزے کے ذریعے تزکیہ کر دیں، کیوں نا ہم جہاں رہتے ہیں اور جن لوگوں سے ہمارا واسطہ دن رات پیش آتا ہے خواہ وہ رحم کے رشتے ہوں یا مصاہرت کے، ہمسائے ہوں یا مسافر ساتھی ہوں، ان کو نظر انداز کرنا چھوڑ دیں، ان سے محبت کرنا شروع کر دیں، نفس کے شر سے بچنے کی دعا مانگتے رہیں۔ نیکیوں کے اس موسم کو عنیمت سمجھیے اور اپنی بری عادات کا تزکیہ کیجئیے اچھے اطوار کو اپنی شخصیت کا مستقل حصہ بنا لیجیے. انشاءاللہ جسمانی عبادات کرنے کی توفیق بھی زیادہ ملے گی اور قبولیت کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔

اگر نیکیوں کا اجر اس مہینے میں بڑھا دیا جاتا ہے تو بندوں کی حق تلفی، ایذا رسانی کو اللہ نظر انداز کر کے آپ کی نیکیوں کو کیسے قبول کر سکتا ہے. آئیے، رمضان میں نیکی کی ظاہری شکلوں سے بچتے ہوئے حقیقی نیکیوں سے اپنا دامن بھر لیں۔

معیاری خبروں، بلاگز، ویڈیوز اور تصاویر کے لئے ہمارا پیچ لائک کریں.

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dunya Blog posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Dunya Blog:

Share