Exciting Pakistan

Exciting Pakistan News | History | Travel

A fascinating request! Since I am an AI, I can't generate the post in the Urdu script itself, but I will provide a faith...
12/10/2025

A fascinating request! Since I am an AI, I can't generate the post in the Urdu script itself, but I will provide a faithful transliteration into Roman Urdu (using the Latin alphabet) so you can easily copy, paste, and translate it into the Urdu script (Nastaliq) for your post.

Here is the consolidated and engaging post in Roman Urdu, around 350 words, combining the topics of "Warmholes/Wormholes" and "Al-Tariq."

---

# # **کیا کائنات میں ٹائم ٹریول کے شارٹ کٹس موجود ہیں؟**

**"وورم ہولز" (Wormholes) اور سورة "الطَّارِق" (At-Tariq) کا گہرا راز!**

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر آپ کو کائنات کے دوسرے سرے پر جانا ہو تو کیا کوئی **شارٹ کٹ** ہو سکتا ہے؟ سائنس فکشن فلموں کا یہ پسندیدہ تصور – جسے فزکس کی دنیا میں **وورم ہول** کہا جاتا ہے – آئن سٹائن کی تھیوری آف **جنرل ریلیٹیویٹی** سے نکلتا ہے۔

یہ ایک **ہائپوتھیٹیکل سٹرکچر** (Hypothetical Structure) ہے جو خلا اور وقت کے دو دور دراز پوائنٹس کو ایک سرنگ (Tunnel) کے ذریعے آپس میں جوڑ دیتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی کاغذ کو موڑ کر دو پوائنٹس کو ملا دیں اور ان کے درمیان سوراخ کر دیں۔ یہ سوراخ ہی **وورم ہول** ہے!

مگر ایک بڑا مسئلہ ہے: ریاضی کے حساب سے، یہ سُرنگ فوراً منہدم (Collapse) ہو جائے گی، اور آپ اس میں سے گزر نہیں پائیں گے۔ اسے کھُلا رکھنے کے لیے ایک خاص قسم کے **"ایگزوٹک میٹر" (Exotic Matter)** کی ضرورت ہو گی جس میں منفی توانائی (Negative Energy) ہو—ایک ایسی چیز جسے سائنس دانوں نے ابھی تک دریافت نہیں کیا ہے۔

# # # **قرآن اور "رات کا آنے والا ستارہ"**

اب آئیے ایک اور دلچسپ اور پراسرار **"راستہ"** کی طرف۔

قرآن مجید کے 30ویں پارے میں ایک سورت ہے جسے **"سورة الطَّارِق"** کہا جاتا ہے۔ **"الطَّارِق"** کا لفظی مطلب ہے: **"رات کو دستک دینے والا"** یا **"رات کا آنے والا"** (The Nightcomer).

یہ سورت آسمان اور **"الطَّارِق"** کی قسم کھا کر شروع ہوتی ہے، اور پھر اس کی وضاحت کرتی ہے: **"(یہ ہے) چمکتا ہوا سوراخ کرنے والا ستارہ" ($\text{An-Najm Ath-Thāqib}$)**۔

بعض مفسرین نے اسے **صبح کا ستارہ (Morning Star)** کہا ہے، جبکہ جدید سائنس کے کچھ قاری اسے **پلسار (Pulsar)** سے تشبیہ دیتے ہیں—ایک تیزی سے گھومتا ہوا نیوٹران ستارہ جو باقاعدگی سے توانائی کی لہریں "دستک" کی طرح بھیجتا ہے۔ یہ سورت انسان کی تخلیق، آخرت، اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہر شخص پر اس کے اعمال کی نگہبانی کرنے والے مقرر ہیں۔

کیا یہ دونوں تصورات، سائنسی اور قرآنی، ہمیں کائنات کے رازوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ کیا "چمکتا ہوا سوراخ کرنے والا ستارہ" کائناتی راستوں کی کوئی ایسی سچائی رکھتا ہے جسے ہم ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھ پائے؟ سوچنے پر مجبور کر دینے والا سوال ہے!

---











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

نوحؑ سے پہلے کا طوفان: "اُتنپشتِم" کی حیران کُن داستانکہا جاتا ہے کہ طوفانِ نوحؑ دنیا کی سب سے مشہور تباہی تھی۔مگر اگر آ...
12/10/2025

نوحؑ سے پہلے کا طوفان: "اُتنپشتِم" کی حیران کُن داستان

کہا جاتا ہے کہ طوفانِ نوحؑ دنیا کی سب سے مشہور تباہی تھی۔
مگر اگر آپ کو بتایا جائے کہ یہ کہانی اس سے ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھی — تو؟

قدیم بین النہرین (Mesopotamia) میں، یعنی آج کے عراق کے علاقے میں، ایک رزمیہ نظم لکھی گئی تھی جسے ایپک آف گلگامش (Epic of Gilgamesh) کہا جاتا ہے۔
اسی کہانی میں ایک شخص کا ذکر آتا ہے — اُتنپشتِم (Utnapishtim) — جسے خدا نے خبردار کیا کہ زمین پر ایک ہولناک طوفان آنے والا ہے، جو تمام زندگی کو مٹا دے گا۔

خدا نے اُتنپشتِم سے کہا کہ وہ ایک بڑی کشتی بنائے، اپنے اہلِ خانہ، جانوروں اور ہر جاندار کی ایک ایک نسل اس میں سوار کرے۔
طوفان آیا، دنیا پانی میں ڈوب گئی — مگر اُتنپشتِم بچ گیا۔
پانی اترنے کے بعد اُس نے پرندے چھوڑے تاکہ معلوم ہو سکے کہ زمین خشک ہوئی یا نہیں۔
اور جب زمین نظر آئی، تو اُس نے قربانی دی اور خدا کا شکر ادا کیا۔

یہ کہانی آپ کو جانی پہچانی لگ رہی ہے، ہے نا؟
کیونکہ یہی واقعات بائبل اور قرآن میں نوحؑ کی کشتی سے منسلک ہیں۔
فرق صرف یہ ہے کہ ایپک آف گلگامش، بائبل سے ایک ہزار سال پرانی تحریر ہے۔

تو کیا نوحؑ کی کہانی اُسی قدیم یاد کا تسلسل ہے؟
یا مختلف تہذیبوں نے ایک ہی تباہی کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا؟

یہ سوال آج بھی تاریخ دانوں، ماہرینِ مذہب اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لیے ایک معمہ ہے۔
لیکن ایک بات یقینی ہے —
طوفان کی یہ کہانی صرف مذہب نہیں، بلکہ انسان کی اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے۔
ایک ایسی یاد، جو ہزاروں سال گزرنے کے باوجود، آج بھی ہمارے اندر گونجتی ہے۔

حوالہ جات / Sources:

The Epic of Gilgamesh – Tablet XI (Flood Narrative), Translated by N.K. Sandars, Penguin Classics.

British Museum – Cuneiform Tablets Collection, London.

The Bible – Genesis Chapters 6–9 (The Flood of Noah).

Encyclopaedia Britannica – “Utnapishtim and the Mesopotamian Flood Myth.”

Andrew R. George, The Epic of Gilgamesh: A New Translation, Penguin Books, 2003











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

🕊️ "وہ طوطا جو انصاف کی آواز بن گیا"امریکہ کی ریاست مشی گن میں ایک پُراسرار قتل نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔مارٹینا ...
12/10/2025

🕊️ "وہ طوطا جو انصاف کی آواز بن گیا"

امریکہ کی ریاست مشی گن میں ایک پُراسرار قتل نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔
مارٹینا ڈرہم نامی خاتون اپنے ہی گھر میں گولی لگنے سے ہلاک پائی گئیں۔ اُن کے شوہر، گلین، نے پولیس کو بتایا کہ یہ ایک ڈکیتی تھی جو غلط ہو گئی — وہ خود بھی معمولی زخمی ہوا۔

پولیس نے معاملہ چوری کا سمجھ کر فائل بند کر دی، مگر گھر میں موجود ایک افریقی طوطا، "بد" (Bud)، اس خاموشی کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔

مارٹینا کے مرنے کے بعد، یہ طوطا اکثر ایک خوفناک جملہ دہراتا رہتا —
"Don’t shoot! Don’t f*ing shoot!"**
(یعنی "گولی مت چلاو! خدا کے لیے مت چلاو!")

پہلے تو خاندان نے سمجھا کہ شاید یہ اتفاق ہے، مگر جب طوطا بار بار چیختے ہوئے کہتا،
"گلن! نہیں!"
تو سب کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

یہ وہ لمحے تھے جب طوطا گویا مارٹینا کی آخری چیخ دہرا رہا تھا۔

پولیس نے دوبارہ تفتیش شروع کی۔ حیرت انگیز طور پر، گھر میں زبردستی داخل ہونے کے کوئی آثار نہیں ملے۔ نہ کوئی قیمتی چیز چوری ہوئی، نہ ہی گلین کا بیان حقیقت سے میل کھاتا تھا۔

جب فارنزک رپورٹ آئی تو انکشاف ہوا کہ گولی گلین کے اپنے لائسنس یافتہ پستول سے چلی تھی۔

گلن کا جھوٹ ٹوٹ گیا۔ اُس نے غصے کے عالم میں بیوی کو قتل کر دیا تھا — اور سمجھا تھا کہ سب کچھ چھپ جائے گا۔ مگر اُس نے ایک چیز بھلا دی تھی:
گھر میں ایک طوطا بھی موجود تھا — جو سب کچھ دیکھ چکا اور سن چکا تھا۔

پولیس نے اگرچہ عدالت میں طوطے کی "گواہی" استعمال نہیں کی، مگر یہی وہ اشارہ تھا جس نے پورا کیس پلٹ دیا۔

مارٹینا کے اہلِ خانہ نے بعد میں بد کو اپنا لیا۔ آج بھی جب وہ کبھی کبھار چیختا ہے —
"گلن! نہیں!"
تو ایسا لگتا ہے جیسے مارٹینا کی روح اب بھی انصاف کا مطالبہ کر رہی ہو۔











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا:“جب تین آدمی چل رہے تھے تو انہ...
11/10/2025

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا:
“جب تین آدمی چل رہے تھے تو انہیں بارش نے آ لیا، وہ پہاڑ کے ایک غار میں جا کر پناہ گزین ہوئے، پس ایک پتھر پہاڑ سے لڑھک کر آیا اور غار کے دہانے کو بند کر دیا۔ تو انہوں نے کہا: تم اپنے ان نیک اعمال کو یاد کرو جو تم نے خالص اللہ کے لیے کیے ہوں، پھر ان کے ذریعہ سے دعا کرو، شاید اللہ تعالیٰ تمہیں اس مصیبت سے نجات دے دے۔”

پھر ان میں سے ایک نے کہا:
“اے اللہ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے، میں ان دونوں سے پہلے نہ اپنے اہل و عیال کو دودھ پلاتا تھا نہ مویشیوں کو، ایک دن میں لکڑیاں تلاش کرنے گیا تو دیر ہو گئی، جب واپس آیا تو وہ سو چکے تھے، میں نے ان کے لیے دودھ نکالا، لیکن انہیں بیدار کرنا ناپسند کیا، اور اپنے بچوں کو بھی ان سے پہلے دودھ نہیں پلایا، حالانکہ وہ میرے قدموں کے پاس بھوک سے رو رہے تھے۔ میں ان کے جاگنے تک برتن ہاتھ میں لیے کھڑا رہا، حتیٰ کہ فجر طلوع ہو گئی، تب جاگے اور میں نے انہیں دودھ پلایا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہم سے اس چٹان کو ہٹا دے۔”
چنانچہ چٹان کچھ ہٹ گئی لیکن وہ باہر نہ نکل سکے۔

دوسرے نے کہا:
“اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی، میں نے اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی مگر اس نے انکار کیا، ایک سال قحط آیا تو وہ میرے پاس آئی، میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیے کہ وہ میرے ساتھ ہمبستری کرے، جب میں اس کے پاس بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور ناحق مہر کے بغیر میرا پردہ نہ کھول۔ تو میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور وہ سونا اسے دے دیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہم سے یہ چٹان ہٹا دے۔”
تو چٹان کچھ اور ہٹ گئی لیکن وہ ابھی بھی باہر نہ نکل سکے۔

تیسرے نے کہا:
“اے اللہ! میں نے کچھ مزدوروں کو مزدوری پر رکھا، سب کو ان کی مزدوری دے دی سوائے ایک آدمی کے، وہ اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا، میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا، حتیٰ کہ بہت مالدار ہو گیا، وہ کچھ عرصے بعد آیا اور بولا: اے اللہ کے بندے! اپنی مزدوری دے دو، میں نے کہا: وہ تمام اونٹ، گائے، بکریاں اور غلام جو تم دیکھ رہے ہو، سب تمہارا مال ہے، اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا: میں تم سے مذاق نہیں کر رہا، سب کچھ لے جاؤ، چنانچہ وہ سب کچھ لے گیا اور کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا تھا تو یہ چٹان ہم سے ہٹا دے۔”
چنانچہ چٹان بالکل ہٹ گئی اور وہ باہر نکل آئے۔

---

📖 حوالہ:
صحیح بخاری، حدیث: 5974
(اسی مفہوم کی روایت: صحیح مسلم، حدیث: 2743)











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

ارس سرخس، جو ایران کے چھوٹے سے گاؤں ابرکوہ میں واقع ہے، ایک زندہ یادگار ہے جو زیادہ تر تہذیبوں سے بھی قدیم ہے۔ اس کی عمر...
10/10/2025

ارس سرخس، جو ایران کے چھوٹے سے گاؤں ابرکوہ میں واقع ہے، ایک زندہ یادگار ہے جو زیادہ تر تہذیبوں سے بھی قدیم ہے۔ اس کی عمر تقریباً 4,825 سال تخمینہ لگائی جاتی ہے، اور یہ شاہانہ درخت سلطنتوں، جنگوں، اور بدلتی آب و ہوا کو برداشت کرتے ہوئے زندہ رہا ہے، جو زمین پر سب سے پرانے جیتے جاگتے جانداروں میں سے ایک ہے۔

25 میٹر سے زیادہ بلندی اور 11 میٹر سے زائد تنے کا چکر لئے، یہ سرخس ایران کی قومی دولت اور ثقافت میں استقامت کا نشان بن چکا ہے۔ مقامی روایات کے مطابق، اسے خود نبی زرتشت نے لگایا تھا، جبکہ جدید سائنسدان اس کی لمبی عمر کو جینیاتی ساخت، سازگار آب و ہوا، اور گہرے زیر زمین پانی کے ذخائر سے جوڑتے ہیں۔ قانون کے تحفظ میں ہونے کی وجہ سے، ارس سرخس دنیا بھر سے سیاحوں اور محققین کو اپنی طرف کھینچتا ہے، جو اس خاموش گواہِ تاریخ کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ فطرت کی صبر آزما طاقت کا ایک یادگار ثبوت ہے، جو تہذیبوں کے اوجھل اور ظہور سے بھی بڑھ کر ہے۔

اس درخت کی بڑی جڑیں اور پھیلا ہوا تنا اس کی طویل عمر کی داستان سناتا ہے۔ اس کی شاخیں، جو آسمان کی طرف بلند ہیں، ایک عظیم تاریخی ورثے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایران کے خشک اور سخت موسم میں بھی اس سرخس نے اپنی جڑیں مضبوط رکھیں، جو اس کی لچک اور زندگی کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ زرتشتی روایات میں اسے مقدس سمجھا جاتا ہے، اور لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سائنسی نقطہ نظر سے، اس کی بقا کے پیچھے زمین کے اندر پانی کا ایک گہرا ذخیرہ ہے، جو اسے خشک سالیوں میں بھی زندہ رکھتا ہے۔

ہر سال، سیاح اس کی خوبصورتی اور تاریخ کو دیکھنے آتے ہیں، جبکہ محققین اس کے جینیاتی رازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ارس سرخس نہ صرف ایک درخت بلکہ وقت کے دھاروں سے گزرتے ہوئے فطرت کی ایک عظیم نشانی ہے، جو انسانیت کو یہ سبق دیتی ہے کہ صبر اور استقامت سے کچھ بھی ممکن ہے۔ اسے دیکھ کر انسان اپنی عارضی موجودگی کا احساس کرتا ہے، جبکہ یہ درخت ابدی طور پر کھڑا رہتا ہے، اپنی خاموش کہانی سناتا ہوا۔











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

بیربل کی حاضر جوابی: منحوس کون؟ایک بار شہنشاہ اکبر کے دربار میں ایک عجیب شکایت پہنچی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کی ریاست م...
10/10/2025

بیربل کی حاضر جوابی: منحوس کون؟

ایک بار شہنشاہ اکبر کے دربار میں ایک عجیب شکایت پہنچی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کی ریاست میں ایک ایسا شخص ہے جس کا چہرہ اگر صبح صبح دیکھ لیا جائے تو سارا دن کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ بادشاہ نے یہ سن کر اسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس شخص کو بلوایا گیا اور رات بادشاہ کے کمرے کے عین سامنے سلا دیا گیا۔

صبح ہوتے ہی بادشاہ نے سب سے پہلے اس شخص کا منہ دیکھا۔ اور سچ مچ، اس دن دربار میں کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ بادشاہ کو دن بھر کھانا کھانے کا موقع ہی نہ ملا۔ بھوک کی شدت اور ایک واقعہ کی بنیاد پر، اکبر غصے میں آ گئے اور فوراً اس 'منحوس' شخص کو پھانسی کا حکم سنا دیا۔

غریب شخص بیربل کی پناہ میں گیا اور التجا کی کہ اسے موت سے بچایا جائے۔ بیربل نے بادشاہ سے ملاقات کی اور پوچھا، "جہاں پناہ، آپ اس بے چارے کو پھانسی کیوں دے رہے ہیں؟"

بادشاہ نے جواب دیا، "بیربل! یہ آدمی منحوس ہے۔ میں نے آج صبح اس کی صورت دیکھی اور مجھے سارا دن کھانا نصیب نہیں ہوا۔"

بیربل مسکرائے اور نہایت ادب سے عرض کیا، "بادشاہ سلامت! آپ نے اس کی صورت دیکھی تو آپ کو کھانا نصیب نہ ہوا، لیکن اس بدنصیب نے صبح صبح آپ کی صورت دیکھی تو اسے براہ راست موت کا حکم مل گیا۔ تو ذرا سوچئے، ہم دونوں میں سے اصل منحوس کون ہوا؟"

بیربل کی حاضر جوابی نے بادشاہ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اکبر نے اپنی غلطی تسلیم کی اور فوراً اس شخص کو رہا کر دیا۔











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

🏛️ "سلطنت سے لائبریری کارڈ تک: عثمانی شاہی خاندان کی غیر معمولی داستان"چھ سو سال تک دنیا کی عظیم ترین اسلامی سلطنت پر حک...
09/10/2025

🏛️ "سلطنت سے لائبریری کارڈ تک: عثمانی شاہی خاندان کی غیر معمولی داستان"

چھ سو سال تک دنیا کی عظیم ترین اسلامی سلطنت پر حکومت کرنے والا خاندان، جس کے حکم پر تین براعظموں تک زمینیں لرزتی تھیں — ایک دن سب کچھ کھو بیٹھا۔
یہ کہانی ہے عثمانی سلطنت کے زوال کے بعد کی، جب ایک شاہی فرمان سے پوری سلطنت ختم ہوئی اور شاہی خاندان کو جلا وطن کر دیا گیا۔

مارچ 1924ء کی ایک سرد صبح تھی، جب ترکی کی قومی اسمبلی نے آخری خلیفہ، عبدالمجید ثانی کو معزول کر دیا۔ چند ہی گھنٹوں میں، شاہی خاندان کے تمام افراد کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔ انہیں نہ مال و دولت لے جانے کی اجازت ملی، نہ ہی عزت و وقار۔ صرف چند کپڑے اور یادیں — باقی سب ماضی بن گیا۔

جو شہزادے کبھی توپ خانے اور محلوں میں کھیلتے تھے، وہ پیرس، دمشق، اور قاہرہ کی گلیوں میں روزی کمانے کے لیے دربدر پھرنے لگے۔
ایک شہزادہ ریڈیو مرمت کرنے لگا، ایک شہزادی نے پیانو پڑھانا شروع کیا، اور ایک شہزادی نے کپڑوں کی دکان پر کام کیا۔

سب سے حیران کن کہانی عثمان ارطغرل عثمانوغلو کی ہے — وہ شہزادہ جس کے آباؤ اجداد کبھی خلافت کے تخت پر بیٹھتے تھے، اب نیویارک کی ایک لائبریری میں عام شہری کے طور پر رہتا تھا۔ وہ روز صبح سب وے سے سفر کرتا، خاموشی سے کتابیں پڑھتا، اور صرف چند قریبی لوگ ہی جانتے تھے کہ یہ شخص دراصل ایک “شہزادہ” ہے۔

وقت نے تخت کو کتابوں کی الماری سے بدل دیا — لیکن وقار اور حوصلہ باقی رہا۔
عثمانی شاہی خاندان کی یہ داستان یاد دلاتی ہے کہ طاقت، دولت اور عظمت سب عارضی ہیں، مگر کردار اور عزت وہ خزانے ہیں جو زوال کے بعد بھی باقی رہتے ہیں۔











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

نمک آدمیوں کی کہانی: ایک عجیب تاریخی سفرزیر زمین 1,700 سال تک دفن، نمک نے ایران کے "نمک آدمیوں" کو زمانے سے بچا لیا۔ چہر...
08/10/2025

نمک آدمیوں کی کہانی: ایک عجیب تاریخی سفر

زیر زمین 1,700 سال تک دفن، نمک نے ایران کے "نمک آدمیوں" کو زمانے سے بچا لیا۔ چہرباد نمک کی کانوں میں دریافت ہونے والی یہ لاشیں، جو 700 قبل مسیح سے 300 قبل مسیح تک کے دور کی ہیں، ایک عجیب و غریب تاریخی تحفہ ہیں۔ 1993 میں جب کان کنوں نے پہلی لاش کو پایا، تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ بال، داڑھیاں، چمڑے کے بوٹ، اور اوزار—سب کچھ ایسے محفوظ جیسے کل ہی چھوڑا گیا ہو۔ نمک نے ان کے جسموں سے نمی کھینچ کر انہیں قدرتی طریقے سے خشک کر دیا، جس سے ان کی تباہی روک دی گئی۔ آج تک، چھ سے زائد "نمک آدمی" سامنے آ چکے ہیں، جن کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں بتاتی ہیں کہ ان کی موت کتنی تکلیف دہ تھی—کان کی چٹانوں کے گرنے سے ایک بھیانک انجام۔

یہ صرف لاشیں نہیں، بلکہ ایک زندہ عجوبہ ہیں جو ہمیں ماضی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان کے کپڑوں اور اوزاروں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگی کتنی سخت تھی، اور نمک نے ان کی کہانی کو ہزاروں سال تک زندہ رکھا۔ آج یہ میوزیموں میں گلاس کے کیسوں میں رکھے گئے ہیں، جہاں لوگ ان کی طرف دیکھ کر سوچتے ہیں کہ کاش یہ بول سکیں۔ ان کی خالی آنکھیں اب بھی گھورتی نظر آتی ہیں، جیسے وہ اپنی محنت اور تکلیف کی داستاں سنارہی ہوں۔ یہ ایک زمانے کی گمشدہ آواز ہیں، جو نمک کے ذریعے ہمیں پہنچائی گئیں۔

نمک آدمیوں کی دریافت نے تاریخ دانوں کو ایک نایاب موقع دیا کہ وہ قدیم زندگی کو قریب سے دیکھ سکیں۔ ان کے چہروں پر اب بھی زندگی کی جھلکیاں موجود ہیں، جو وقت کے رحم و کرم سے بچی ہوئی ہیں۔ ایران کے میوزیمز میں یہ نمائش نہ صرف ایک دلچسپ منظر ہے بلکہ ایک سبق بھی، کہ کبھی کبھی قدرتیں خود تاریخ کی محافظ بن جاتی ہے۔ ان کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی کتنی نازک ہے، اور موت بھی کبھی کبھار ایک نئی شروعات بن جاتی ہے۔











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

قدیم لندن کی 'ضرورت کی گلی': ایک بھولی بسری داستاندھندلکے میں لپٹی یہ گلی، صرف اینٹوں اور پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ قدیم ...
08/10/2025

قدیم لندن کی 'ضرورت کی گلی': ایک بھولی بسری داستان

دھندلکے میں لپٹی یہ گلی، صرف اینٹوں اور پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ قدیم لندن کے ایک ایسے سچ کی گواہ ہے جسے آج کا صاف ستھرا لندن شاید پہچان بھی نہ پائے۔ رات کی گہری دھند میں، جب لندن کی روشن اینٹوں کی دیواریں نمی سے چمک رہی تھیں، یہ تنگ گلی ایک خاموش، مگر بدبودار راز چھپائے رکھتی تھی۔ یہ سڑکوں کے ناموں پر درج نہیں تھی، لیکن شہر کا ہر باسی اسے "ضرورت کی گلی" یا اس سے بھی بدتر نام سے جانتا تھا۔

سوچیں، ایک ایسا وقت جب عوامی سہولیات کا کوئی تصور نہیں تھا، اور شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی نے ان تاریک اور ویران کونوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا جہاں دیواریں ہر آنے والے کی مجبوری کا پردہ بن جاتی تھیں۔ اس تصویر میں آپ گلی کے گیلے، چکنے پتھر دیکھ سکتے ہیں جو شاید ہر قدم پر بدبو کے بادل اٹھاتے ہوں گے، ایک ایسی ناگوار مہک جو کسی بھی چراغ کی روشنی سے نہیں چھپائی جا سکتی تھی۔ لکڑی کے بھاری دروازوں اور اونچی اینٹوں کی دیواروں کے بیچ، کچھ سائے شرمندگی اور عجلت میں اپنے کپڑے ٹھیک کر رہے ہوتے تھے۔ ان میں غریب دہقان بھی تھے، اور کبھی کبھار مہنگے کپڑوں میں ملبوس کوئی ایسا شخص بھی نظر آتا جو اپنی مجبوری پر خفا ہوتا تھا۔ ہر گزرنے والا تیز قدموں سے چلتا، اپنی سانسیں روک کر اس حصے کو جلد از جلد پار کر جانا چاہتا تھا۔ لالٹین کی پیلی روشنی بمشکل قدموں تک پہنچ پاتی تھی، اور دور سے آنے والے قدموں کی آواز بھی اس خوفناک خاموشی میں گونجتی تھی۔

یہ منظر اس دور کے محنت کش سلیم جیسے ہزاروں لوگوں کی کہانی ہے، جو دیر رات تک اپنا بوجھ اٹھائے تھک چکے ہوتے اور فطری تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس ناخوشگوار جگہ تک پہنچ جاتے تھے۔ سردی کے باوجود ان کے ماتھے پر پسینہ ہوتا۔ کام کی تھکن اور مجبوری انہیں یہاں لے آتی۔ جب وہ اپنا کام ختم کر کے جلدی سے آگے بڑھتے، تو دل میں ایک گہری ندامت ہوتی۔ وہ جانتے تھے کہ کل صبح، یہ گلی پھر سے اسی طرح غلاظت اور نجاست کا مرکز ہوگی۔ یہ شہر کی سچائی تھی—ایک طرف شاہی محلوں کی شان و شوکت، اور دوسری طرف یہ تنگ گلیاں جہاں انسان محض ضرورت کے ہاتھوں مجبور تھا۔

یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ آج کا صاف ستھرا لندن کبھی ایسا بھی تھا۔ یہ کہانی صرف ایک گلی کی نہیں، بلکہ ایک پورے عہد کی ہے جب انسانی صفائی اور صحت کے بنیادی اصولوں کو سمجھا اور اپنایا جا رہا تھا۔











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

دریائے نیل میں کشتی چلانے والے ایک ملاح کا بیان ہے کہ:'' ایک دن ایک بہت ہی نورانی چہرے والے بزرگ میرے پاس آئے اور فرمایا...
08/10/2025

دریائے نیل میں کشتی چلانے والے ایک ملاح کا بیان ہے کہ:
'' ایک دن ایک بہت ہی نورانی چہرے والے بزرگ میرے پاس آئے اور فرمایا کہ کیا تم مجھے اللّہ کے نام پر دریا کے پار اُتار دو گے؟ ''
میں نے عرض کِیا کہ:
'' ہاں۔ ''
وہ بزرگ میری کشتی پر سوار ہو گئے اور میں نے انہیں دریا کے پار اُتار دیا۔جب وہ کشتی سے اُترنے لگے تو انہو ں نے مجھ سے فرمایا کہ:
'' میں تمہیں ایک امانت سونپتا ہوں۔کیا تم اس کو قبول کرو گے؟ ''
میں نے کہا کہ:
'' جی حضور! ضرور قبول کر لوں گا۔ ''
تو انہوں نے فرمایا کہ:
'' کل فلاں درخت کے پاس ظہر کے وقت آنا تم کو وہاں میری لاش ملے گی۔تم مجھ کو غسل دینا اور میرے سرہانے جو کفن تم کو ملے اس کو مجھے پہنا کر اُسی درخت کے نیچے دفن کر دینا اور میری گدڑی اور عصا اور مشک کو اپنے پاس رکھنا اور جو شخص ان تینوں چیزوں کے طلب کرنے کے لیے تمہارے پاس آئے اُس کو یہ سب سامان دے دینا۔ ''
ملاح کا بیان ہے کہ:
'' میں ان بزرگ کی وصیت کو بھول گیا اور بجائے ظہر کے عصر کے وقت مجھے خیال آیا تو میں اُس درخت کے پاس حاضر ہُوا تو واقعی ان بزرگ کو مُردہ حالت میں پایا۔میں نے وصیت کے مطابق ان کو کفن پہنایا۔اُس میں مُشک کی خوشبُو آ رہی تھی۔میں نے جونہی ان کا جنازہ تیار کِیا۔ایک دم ناگہاں ایک طرف سے انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت آ گئی اور میں نے ان لوگوں کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا کر کے اُسی درخت کے نیچے دفن کر دیا اور اپنے گھر آ کر رات میں سو رہا۔ ''
صبح سویرے ہی ایک جوان جو ناچنے گانے والے بھانڈ کا لڑکا تھا۔میرے پاس آیا،نہائیت ہی باریک کپڑے پہنے ہوئے ہاتھوں میں مہندی لگی ہوئی اور بغل میں ستار دبائے میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور میں نے اُس کے سلام کا جواب دیا۔پِھر اُس نے مجھ سے دریافت کِیا کہ:
" فلاں بِن فلاں تم ہی ہو؟ ''
میں نے جواب دیا کہ:
'' ہاں! میں ہی ہوں۔ ''
اُس نے کہا کہ:
'' پِھر جو تمہارے پاس میری امانت ہے مجھے دے دو۔ ''
میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ:
'' تمہیں اس کی خبر کیوں کر ہو گئی؟ ''
اُس نے کہا:
'' یہ نہ پوچھیے۔ ''
میں نے کہا:
'' تم کو بتانا ہی پڑے گا۔ ''
میرا اصرار سُن کر اُس نے کہا کہ:
'' بھائی! میں اس کے سِوا کچھ نہیں جانتا کہ گزشتہ رات ایک شادی میں ساری رات ناچتا اور گاتا رہا۔جب صبح کو اذانِ فجر ہوئی تو میں ناچ ختم کر کے سو گیا۔اچانک ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ کو جھنجھوڑ کر کہا کہ اللّہ تعالیٰ نے فلاں ولی کو وفات دے دی ہے اور تجھ کو اس کا قائم مقام بنا دیا ہے۔لہٰذا تُو فلاں ملاح کے یہاں جا کر اُس وفات پا جانے والے ولی کے تبرّکات وصول کر لے۔جن کو وہ بزرگ تیرے لیے بطورِ امانت ملاح کے پاس رکھ کے دنیا سے تشریف لے گئے ہیں۔ ''
ملاح نے بیان کِیا کہ:
'' میں نے ان بزرگ کی تینوں چیزیں حسبِ وعدہء وصیت بھانڈ لڑکے کو دے دیں۔لڑکے پر سامان ہاتھ میں لیتے ہی ایک انقلابی کیفیت نمودار ہو گئی۔ ''
اس نے باریک کپڑوں کو اُتار کر میری کشتی میں پھینک دیا اور کہا کہ:
'' تم میرے ان کپڑوں کو جیسے چاہو بطور صدقہ دے دینا اور خود اُن بزرگ کی گدڑی پہن کر اور عصا،مشک لے کر چل دیا۔ ''
ملاح کا بیان ہے کہ:
'' میں اس بھانڈ کے لڑکے کی خوش نصیبی اور اپنی محرومی کا خیال کر کے رونے لگا۔یہاں تک کہ رات آ گئی اور میں روتے روتے سو گیا۔ ''
مجھے اس رات خواب میں اللّہ جل مجدہ کا دیدار ہُوا اور مُجھ سے ربّ العزت جل جلالہ نے ارشاد فرمایا کہ:
'' تم پر یہ گِراں گُزرا؟ کہ میں نے اپنے ایک گنہگار بندّے پر احسان فرما کر اس کو اپنے دربار کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔اے ملاح! یہ میرا فضل ہے اور میں اپنا فضل جسے چاہتا ہوں عطا فرما دیتا ہوں۔ ''
( مستطرف،جِلد1،صفحہ 147 )
روضۃ الریاحی











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

سڑکوں پر میری کہانی: سکوٹی نے بدلی میری دنیا!میں، آمنہ، آج سے چند سال پہلے تک کراچی کی بھری سڑکوں کو دیکھ کر اکثر یہ سوچ...
07/10/2025

سڑکوں پر میری کہانی: سکوٹی نے بدلی میری دنیا!

میں، آمنہ، آج سے چند سال پہلے تک کراچی کی بھری سڑکوں کو دیکھ کر اکثر یہ سوچتی تھی کہ کاش میری بھی کوئی اپنی سواری ہو۔ یونیورسٹی جانا ہو یا کسی دوست کی سالگرہ میں، ہر بار بھائی یا ابو کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کبھی پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے گھنٹوں دھوپ میں کھڑا رہنا پڑتا اور کبھی بسوں میں دھکے کھاتے ہوئے پہنچنا پڑتا۔ آزادی کا وہ خواب میری آنکھوں میں ہی قید رہتا تھا۔

پھر ایک دن میرے والد نے ایک حیران کن اعلان کیا: "آمنہ، تم نے اپنی تعلیم میں بہت محنت کی ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اپنی زندگی میں آسانی ہو۔" یہ کہتے ہوئے انہوں نے میری پسند کی گلابی سکوٹی کی چابیاں میری طرف بڑھا دیں۔ وہ لمحہ! میں اسے کبھی نہیں بھول سکتی۔ یہ صرف ایک سکوٹی نہیں تھی، یہ میری آزادی کا پروانہ تھا۔

ابتدا میں تھوڑا ڈر لگا۔ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں، ہارن کا شور، اور سب سے بڑھ کر کچھ لوگوں کی گھورتی نظریں۔ پہلے دن جب میں نے کالج کے لیے سکوٹی نکالی تو محسوس ہوا جیسے سب کی نظریں مجھ پر ہیں۔ کچھ لوگوں نے عجیب نظروں سے دیکھا، کچھ نے مسکرا کر حوصلہ افزائی کی۔ لیکن میرے اندر ایک نئی ہمت جاگ اٹھی تھی۔ آہستہ آہستہ میں نے راستے پہچان لیے، سگنلز کا خیال رکھنا سیکھا، اور سب سے اہم بات، میں نے ڈرنا چھوڑ دیا۔

اب میرا معمول بدل چکا ہے۔ صبح وقت پر یونیورسٹی پہنچنا ہو یا شام کو ٹیوشن پڑھانے جانا، ہر کام میں ایک خود مختاری آ چکی ہے۔ میں اپنی دوستوں کے ساتھ شہر کے نئے کیفے بھی دریافت کرتی ہوں اور اکثر چھٹی کے دن امی کے ساتھ خریداری پر بھی چلی جاتی ہوں۔ یہ سکوٹی صرف میرے لیے ایک ذریعہ آمد و رفت نہیں رہی، بلکہ یہ میری خود اعتمادی کی علامت بن چکی ہے۔

یقیناً، ہر چیز کے کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ کراچی کی ٹریفک میں محتاط رہنا پڑتا ہے، اور ہیلمٹ ہمیشہ میری پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اب بھی خواتین کو سکوٹی چلاتے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں، لیکن مجھے اب ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔ میں جانتی ہوں کہ یہ چھوٹا سا قدم میری اور مجھ جیسی ہزاروں لڑکیوں کی زندگیوں میں کتنا بڑا فرق لا رہا ہے۔

ہمیں ایک نئی ثقافت دیکھنے کو مل رہی ہے، جہاں لڑکیاں خود مختاری کے ساتھ سڑکوں پر نکل رہی ہیں۔ یہ صرف ایک گاڑی نہیں، یہ ایک روشن مستقبل کی جانب بڑھتا ہوا ایک قدم ہے۔ میری سکوٹی میری کہانی کا ایک خوبصورت حصہ ہے، اور میں اسے فخر کے ساتھ جی رہی ہوں۔











👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

🌿 ہالینڈ کے لوگوں کا خفیہ راز — "کچھ نہ کرنے" کا فن (Niksen)کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہالینڈ کے لوگ ہمیشہ اتنے پُرسکون اور م...
07/10/2025

🌿 ہالینڈ کے لوگوں کا خفیہ راز — "کچھ نہ کرنے" کا فن (Niksen)

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہالینڈ کے لوگ ہمیشہ اتنے پُرسکون اور مطمئن کیوں نظر آتے ہیں؟ نہ اُن کے چہروں پر جلدی کا احساس، نہ زندگی سے تھکن کا تاثر۔ گویا وہ کسی ایسے راز سے واقف ہیں جو دنیا کے باقی لوگوں کو معلوم ہی نہیں۔
اور ہاں — وہ راز واقعی موجود ہے!
اسے "Niksen" کہا جاتا ہے، یعنی کچھ نہ کرنے کا فن۔

نِکسن کوئی سستی نہیں، بلکہ ایک شعوری وقفہ ہے۔ ایک ایسا لمحہ جب انسان خود کو مصروفیات، ذمہ داریوں، اور دباؤ سے الگ کر کے بس ہونے پر توجہ دیتا ہے۔ نہ فون دیکھنا، نہ پلان بنانا، نہ سوچوں میں الجھنا — بس خاموش بیٹھنا، سانس لینا، اور لمحے کو محسوس کرنا۔

ہالینڈ کے لوگ صدیوں سے نِکسن کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ جب دماغ مسلسل بھاگتا رہے تو وہ تھک جاتا ہے، جیسے مشین گرم ہو جاتی ہے۔ نِکسن اس دماغ کو ٹھنڈا کرتا ہے، ری سیٹ کرتا ہے، اور تخلیقی سوچ کو جگاتا ہے۔

تحقیقات بتاتی ہیں کہ جو لوگ Niksen کو روزمرہ زندگی میں اپناتے ہیں، وہ نہ صرف ذہنی دباؤ سے بہتر طور پر نمٹتے ہیں بلکہ زیادہ خوش، پُرسکون اور مثبت سوچ رکھتے ہیں۔
شاید اسی لیے ہالینڈ دنیا کے اُن چند ممالک میں سے ہے جہاں خوشی اور ذہنی سکون کا معیار سب سے بلند ہے۔

تو اگلی بار جب آپ کچھ نہیں کر رہے ہوں، اپنے آپ کو الزام نہ دیں۔
یہ سستی نہیں — یہ آپ کے ذہن اور روح کے لیے ریچارج کا لمحہ ہے۔

ایک کپ چائے بنائیں، کھڑکی کے پاس بیٹھیں، اور بس چند لمحوں کے لیے دنیا کو رُکنے دیں۔
کیونکہ کبھی کبھی، کچھ نہ کرنا ہی سب سے ضروری کام ہوتا ہے۔ ☕🌸










👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

Address

32 Purley Downs Road
Lahore
CR81HA

Telephone

+923164352225

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Exciting Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Exciting Pakistan:

Share

Category