Urdu Novels

Urdu Novels - is the 1st and largest online free Urdu novels books site and can download in PDF form

A Site Where you can Read and Download free online Best Urdu Novels in PDF.

سجاد علی نے یہ بالکل نہیں کہا تھا کہ وہ لاہور میں دریا راوی کے اندر پانی چاہتے ہیں۔ اصل میں وہ پاکستان سے باہر مقیم ہیں ...
01/09/2025

سجاد علی نے یہ بالکل نہیں کہا تھا کہ وہ لاہور میں دریا راوی کے اندر پانی چاہتے ہیں۔
اصل میں وہ پاکستان سے باہر مقیم ہیں انہوں نے بطور پردیسی دبئی کے ایک دریا کے پاس کھڑے ہو کر ایک گانا گایا جو کہ ایک پردیسی کے جذبات کی ترجمانی تھی
انہوں نے چاہا کہ کاش اس جگہ راوی گزر رہا ہوتا یعنی وہ کہنا چاہتا ہے کہ کاش میں اپنے گھر ہوتا اپنے لوگوں میں اپنوں کے درمیان
کاش میں لاہور ہوتا۔
اب دوبارہ وہ گانا سنیے
جے ایتھوں کدے راوی لنگ جاوے
حیاتی پنج آبی بن جاوے

ڈیوٹی کے دوران کلرسیداں میں تعینات وارڈن اہلکار امتنان مرزا نے ایک گاڑی روکی اور ڈرائیور سے احتیاط سے نہ چلانے پر لائسنس...
01/09/2025

ڈیوٹی کے دوران کلرسیداں میں تعینات وارڈن اہلکار امتنان مرزا نے ایک گاڑی روکی اور ڈرائیور سے احتیاط سے نہ چلانے پر لائسنس طلب کیا۔ اس پر گاڑی میں بیٹھے ایک مسافر نے عاجزی سے کہا: مہربانی کریں، ہم شدید مشکل میں ہیں، ہمیں جانے دیں۔”
اہلکار نے حیرانی سے پوچھا “ایسی کون سی بڑی مشکل ہے؟”
مسافر نے بتایا، ہمارے بھائی کو خون کی ضرورت ہے۔ اس کا بلڈ گروپ (O نیگیٹو) ہے، جو ہم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔
یہ سنتے ہی وارڈن اہلکار نے کہا:
“اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں تو یہ خون میں آپ کو دے سکتا ہوں۔”
مسافر کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے کہا:
“بھائی! اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟”
اہلکار امتنان مرزا فوراً گاڑی میں بیٹھے اور خون دینے کے لیے روانہ ہوگئے۔ خون دینے کے بعد مریض کے گھر والوں نے دلی شکریہ ادا کیا۔
جس پر وارڈن اہلکار امتنان مرزا نے نہایت عاجزی سے جواب دیا:“یہ سب میں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے۔”

"کوئی بھی درخت کسی دوسرے درخت سے پھل نہیں چراتا۔اور اگر کسی درخت کو پھل نہ لگیں تو دوسرے درخت اس کا مذاق نہیں اُڑاتے۔ایک...
01/09/2025

"کوئی بھی درخت کسی دوسرے درخت سے پھل نہیں چراتا۔اور اگر کسی درخت کو پھل نہ لگیں تو دوسرے درخت اس کا مذاق نہیں اُڑاتے۔ایک درخت دوسرے درخت پہ حملہ نہیں کرتا اور نہ ہی کسی لکڑہارے کا مقابلہ کرتے ہیں۔جب وہ(درخت)کشتی بن جاتیں ہیں تو تیرنا سیکھ لیتے ہیں۔جب وہ(درخت)دروازہ بن جاتے ہیں تو رازوں کو چُھپانے والے بن جاتے ہیں۔جب وہ(درخت) کرسی بن جاتے ہیں تو اس آسمان کو کبھی نہیں بھولتے جو کبھی ان کے اوپر تناں ہوتا تھا۔جب وہ(درخت)میز بن جاتے ہیں تو(ایک)شاعر کو سکھاتے ہیں کہ کبھی لکڑہارا نہیں بنتے۔"
______محمود درویش(فلسطینی نوبل ایوارڈ یافتہ شاعر)

آپ لاہوری ہوں یا غیر لاہوری، آپ نے چوبرجی بارے تو سنا ہی کو گا۔ چوبرجی مطلب چار کونوں والی عمارت۔ چوبرجی پر تو بات پھر ک...
01/09/2025

آپ لاہوری ہوں یا غیر لاہوری، آپ نے چوبرجی بارے تو سنا ہی کو گا۔ چوبرجی مطلب چار کونوں والی عمارت۔ چوبرجی پر تو بات پھر کسی پوسٹ میں کریں گئے۔ پہلے ذرا آج بات ہو جائے چھوٹی چوبرجی کی جس کے بارے شاید آپ لا علم ہوں۔
چھوٹی چوبرجی لاہور کی ایک قدیم مگر کم معروف تاریخی عمارت ہے۔ عام طور پر جب "چوبرجی" کہا جائے تو لوگ مشہور چوبرجی لاہور (جو ملتان روڈ پر واقع ہے اور اورنگزیب کے عہد کی یادگار ہے) کو سمجھتے ہیں، لیکن "چھوٹی چوبرجی" نسبتاً کم جانی پہچانی ہے۔ چھوٹی چوبرجی لاہور کے قدیم باغات اور مغل دور کی تعمیرات سے جڑی ہوئی ایک چھوٹی مگر خوبصورت عمارت تھی۔ اس کی بناوٹ بڑی چوبرجی (ملتان روڈ والی) کی طرح چار میناروں پر مشتمل تھی لیکن یہ سائز میں چھوٹی تھی، اس لیے اسے "چھوٹی چوبرجی" کہا جانے لگا۔ بعض محققین کے مطابق یہ بھی کسی مغل باغ کے دروازے یا یادگار کا حصہ تھی۔
آج یہ اپنی اصل حالت میں محفوظ نہیں ہے۔ وقت اور آبادی کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ عمارت تقریباً ختم ہو گئ ہے یا اس کے صرف آثار باقی ہیں۔
لاہور کی چھوٹی چوبرجی کے بارے میں تاریخی ماخذ بہت کم ملتے ہیں، لیکن جو تحقیق دستیاب ہے اس کے مطابق یہ بھی مغل دور کی یادگار تھی اور غالباً کسی مغل شہزادی یا کسی اعلیٰ مغل خاتون نے اسے تعمیر کروایا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے بڑی چوبرجی (ملتان روڈ والی) بیگم زیب النسا (اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی) یا اس سے منسوب کسی مغل بیگم کے باغ کا حصہ تھی۔
"چھوٹی چوبرجی" دراصل ایک چھوٹے باغ یا عمارت کا دروازہ تھی جس کے چار مینار تھے، اور چونکہ یہ سائز میں بڑی چوبرجی سے چھوٹی تھی اس لیے عوام نے اسے چھوٹی چوبرجی کہنا شروع کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چھوٹی چوبرجی کے بانی کا نام واضح طور پر تاریخ میں محفوظ نہیں ہوا۔ صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی کسی مغل بیگم یا نواب کی تعمیر تھی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی تفصیل گم ہو گئی۔
پرانی کتابوں میں “چھوٹی چوبرجی” عموماً اسی نام سے نہیں آتی—زیادہ تر اسے “نواں کوٹ گیٹ وے/نواں کوٹ کا دروازہ” یا زبدہ/زیب النساء کے باغ کا دروازہ لکھا گیا ہے۔ درجِ ذیل معتبر پرانی ماخذ اس کا ذکر کرتے ہیں براہِ راست “Chhoti/چھوٹی چوبرجی” کم اور “نواں کوٹ گیٹ” زیادہ ملتا ہے۔
یہاں لگے معلوماتی بورڈ کے مطابق "ڈیوڑھی باغ نواں کوٹ"
ایک باغ کا مشرقی حصہ ہے جسے ممکنہ طور پر شاہ جہان کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اسے کس نے تعمیر کروایا تھا مگر اسے اورنگزیب عالمگیر کی بڑی بیٹی شہزادی زیب النساء سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ خود ساختہ اسیری میں یہیں بسر کر دیا۔ وہ باغ کے ایک حصے میں لنگر خانی چلاتی تھیں اور غریبوں میں ہر وقت کھانا تقسیم کرتی رہتی تھیں۔
ڈیوڑھی کی بیرونی کاشی گری بہت حد تک خراب ہو چکی ہے مگر اب اس کی مرمت کا کام جاری ہے۔ چھت کے اوپر والے کونوں میں بارہ دری والی چھوٹی چھوٹی چھتریاں بنائی گئی ہیں۔ جو اپنی ساخت میں دائی انگہ کے مقبرے پر بنی چھتریاں سے مماثلت رکھتی ہیں۔ یہ باغ تقریباً 188 میٹر چوڑا اور 186 میٹر لمبا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے افسوس ہے کہ اس جگہ میری کوئی تصویر نہیں۔ حالاں کہ میری خیال میں میں نے یہاں اپنی زندگی کی خوب صورت تصاویر میں سے ایک تصویر بنوائی تھی مگر بد قسمتی سے وہ گم ہو گئی۔ اچھا ہوا جو وہ تصویر گم ہو گئی۔ ایک تصویر گم ہو جانے سے میرا خود ساختہ ایک بت ٹوٹ گیا جس کا مجھے دکھ بھی بہت ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکون بھی میسر آتا جا رہا ہے۔
جہاں تک ڈیوڑھی باغ نواں کوٹ کی تصاویر کی بات ہے تو تمام تصاویر شجاعت علی کی مرہونِ منت ہیں۔

🔥 یہ ہے ایراوڈی ڈالفن — ایک نایاب ڈالفن جس کے بارے میں شاید کم لوگ جانتے ہوں  ! 🐬ایراوڈی ڈالفن میانمار کے ایراوڈی دریا ا...
01/09/2025

🔥 یہ ہے ایراوڈی ڈالفن — ایک نایاب ڈالفن جس کے بارے میں شاید کم لوگ جانتے ہوں ! 🐬
ایراوڈی ڈالفن میانمار کے ایراوڈی دریا اور میکونگ جیسے دریاؤں کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا کے ساحلی جھیلوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ ان چند ڈالفنوں میں سے ایک ہے جو میٹھے اور کھارے پانی دونوں میں رہ سکتی ہے۔
ان کی شناخت ان کے گول سر اور لمبی چونچ کی عدم موجودگی سے ہوتی ہے، جو انہیں زیادہ تر ڈالفنوں سے مختلف بناتی ہے۔
✨ دلچسپ حقیقت: میانمار کے کچھ حصوں میں، ایراوڈی ڈالفن مچھلی پکڑتے وقت ماہی گیروں سے تعاون کرتی ہیں — ڈالفن مچھلیوں کو جالوں کی طرف ہانکتی ہیں۔

"وہ شخص جو مقصد کے ساتھ چلتا ہے، اُسے ہجوم کی تالیاں درکار نہیں ہوتیں، کیونکہ اُسے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں جا ر...
01/09/2025

"وہ شخص جو مقصد کے ساتھ چلتا ہے، اُسے ہجوم کی تالیاں درکار نہیں ہوتیں، کیونکہ اُسے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔"
ایسا انسان نہ شور سے بہکتا ہے اور نہ خاموشی سے گھبراتا ہے۔ اُس کی نگاہیں اُس کا قطب نما ہیں اور اُس کا حوصلہ اُس کی طاقت۔ وہ جانتا ہے کہ اصل سفر تعریف کے شور کا محتاج نہیں، بلکہ اُس منزل تک پہنچنے کا ہے جس کا خواب صرف اُس نے دیکھا ہے۔

🏰 لاہور، دریا راوی اور بادشاہی مسجد — تاریخ، قدرت اور ہماری کوتاہیاںلاہور کی عظیم بادشاہی مسجد آج بھی اپنی شان و شوکت کے...
01/09/2025

🏰 لاہور، دریا راوی اور بادشاہی مسجد — تاریخ، قدرت اور ہماری کوتاہیاں

لاہور کی عظیم بادشاہی مسجد آج بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن آج کے سیلاب نے ہمیں وہ منظر یاد دلا دیا ہے جو صدیوں پہلے حقیقت تھا۔

دراصل قدیم زمانے میں دریا راوی کا بہاؤ بالکل بادشاہی مسجد کے قریب سے گزرتا تھا۔ اس کے کنارے روشنی دروازہ (جو آج بھی محفوظ ہے) ایک اہم مقام تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس دروازے پر رات کو بڑی بڑی مشعلیں روشن کی جاتی تھیں تاکہ جو لوگ دریا کے دوسرے کنارے سے کشتیوں میں سوار ہوکر شہر کی طرف آتے تھے، وہ دور سے اس روشنی کو دیکھ کر محفوظ راستہ پا لیتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت دریا کا بہاؤ اتنا چوڑا تھا کہ وہ مسجد اور شہر کی فصیل کو چھوتا تھا۔

⏳ وقت کے ساتھ ساتھ دریا کا بہاؤ بدل گیا۔ شہری آبادی بڑھی، اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انسان نے دریا کے قدرتی راستے کو کاٹ کر، بند بنا کر اور ہاؤسنگ سوسائٹیز تعمیر کر کے اسے مزید دور دھکیل دیا۔ وہ مقامات جو کبھی دریا کا حصہ تھے، آج شہر کے بیچوں بیچ ہیں۔

🏘 لیکن اب قدرت نے اپنا اصل رخ دکھایا ہے۔ سیلاب کی شکل میں دریا واپس اپنے پرانے راستوں کو ڈھونڈ رہا ہے۔ وہی پرانے کنارے جہاں کبھی کشتیوں کا شور اور مشعلوں کی روشنی ہوتی تھی، آج پانی اور تباہی کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔

یہ منظر ایک سخت پیغام ہے:
🌊 قدرت کا راستہ روکنا انسان کی سب سے بڑی غلطی ہے۔
ہم نے دریا کے کنارے آبادیاں بنائیں، قدرتی بہاؤ کے راستے بیچے، اور اب خود ان فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

📍 تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ لاہور صرف بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اور روشنی دروازے کی عظمت سے نہیں جیتا، بلکہ یہ بھی کہ دریا راوی کے بغیر لاہور کی شناخت ادھوری ہے۔ دریا کا بہاؤ صدیوں سے شہر کی سانس تھا، اور ہم نے اپنی کم عقلی سے اُسے زخمی کیا۔

اب وقت ہے کہ ہم قدرت کے راستوں کو بحال کریں، ورنہ تاریخ بار بار ہمیں یاد دلاتی رہے گی کہ دریا ہمیشہ اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔

#مندرہ

ہمارے ہاں  اگر لڑکی نکاح کےلیے اپنی پسند کا ذکر کر دے تو اسے بے حیائی سمجھا جاتا ہے زمانہ اگر چہ بدل چکا ہے بہت سی تبدیل...
01/09/2025

ہمارے ہاں اگر لڑکی نکاح کےلیے اپنی پسند کا ذکر کر دے تو اسے بے حیائی سمجھا جاتا ہے زمانہ اگر چہ بدل چکا ہے بہت سی تبدیلیاں معاشرے میں رونما ہوئی ہیں مگر بعض روایات ایسی ہیں جو بوسیدہ ہو کر زندگیاں برباد کر دیتی ہیں مگر ان پہ ہمارے لوگ بڑی عقیدت سے قائم ہیں
شیکسپیئر نے کہا تھا کہ سڑے ہوئے پھول کانٹوں سے زیادہ بدبودار ہوتے ہیں بالکل اسی طرح بوسیدہ اور سڑی ہوئی روایات بھی انسانوں کے لیے تعفن کا باعث بن جاتی ہیں اس کی ایک واضح مثال ہمارے ہاں شادی کا وہ فیصلہ ہے جس میں دو زندگیوں کو جوڑنے کا ارادہ کیا جاتا ہے لڑکے سے تو اس کی رضامندی اور پسند پوچھی جاتی ہے مگر عموماً روایت یہ ہے کہ لڑکی کی رائے اور پسند کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

یہ رویہ ایک حد تک ظلم جیسا ہے سوچا جائے کہ جس طرح مرد کی خوشی اور سکون اس رشتے سے وابستہ ہوتی ہیں ویسے ہی عورت کی عزت، خوشی اور پوری زندگی بھی اسی فیصلے پر قائم ہوتی ہیں جب عورت کی رائے کو نظرانداز کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ناانصافی کے ساتھ ساتھ اس رشتے کی بنیاد بھی کمزور ہو جاتی ہے کیونکہ کوئی بھی تعلق جبر پر نہیں بلکہ باہمی اور دلی رضامندی پر قائم رہتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر لڑکی کی خاموشی کو ہی اس کی رضا سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ خاموشی ہمیشہ خوشی کی گواہی نہیں ہوتی کئی بار یہ خاموشی دل کی مجبوری اور دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہے ایسے فیصلے بعد میں بے سکونی پشیمانی اور رشتے کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتے ہیں انجام کیا ہو گا یہ کوئی نہیں دیکھتا بس یہ بندھن قائم کر کے بوجھ اتار دیا جائے، سب اسی کوشش میں ہوتے ہیں۔

جب دین نے عورت کو یہ حق دیا ہے اور انسانی حقوق کے ناطے بھی یہ ضروری ہے کہ عورت کو بھی اس کی زندگی اپنی پسند کے مطابق گزارنے کی اجازت ہونی چاہیے تو پھر معاشرہ کس بنیاد پر اسے نظرانداز کر سکتا ہے؟

وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان فرسودہ روایات کو چھوڑ دیں جو خوشبو کے بجائے تعفن پھیلاتی ہیں معاشرے کو وہ فضا دینا ہوگی جہاں نکاح نامہ صرف ایک کاغذ نہ ہو بلکہ خوشی، عزت اور اعتماد کی گواہی بنے شادیاں تبھی کامیاب اور پائیدار ہوں گی جب دونوں شریکِ حیات اپنی مرضی اور رضامندی کے ساتھ اس بندھن میں جُڑیں گے اور عورت کی رائے کو بھی تسلیم کیے جانے کا ظرف پیدا کیا جائے گا ۔

بلال ترک
Bilal Turk

سوچ سمجھ کر زندگی گزارو کیونکہ جو آج مٹی کہ اوپر کرو گے کل مٹی کے نیچے اُس کا حساب بھی دینا پڑے گا۔
01/09/2025

سوچ سمجھ کر زندگی گزارو کیونکہ جو آج مٹی کہ اوپر کرو گے کل مٹی کے نیچے اُس کا حساب بھی دینا پڑے گا۔

قانون نمبر ننانوے‏ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا:‏یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں. جبکہ ان کے پاس کچھ...
01/09/2025

قانون نمبر ننانوے

‏ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا:
‏یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں. جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں.

‏وزیر نے کہا:
‏بادشاہ سلامت، اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کر کے دیکھیئے

‏بادشاہ نے پوچھا:
‏اچھا، یہ قانون نمبر ننانوے کیا ہوتا ہے؟

‏وزیر نے کہا:
‏بادشاہ سلامت، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر، صراحی پر لکھیئے اس میں تمہارے لیئے سو درہم ہدیہ ہے،رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر ادھر اُدھر چھپ جائیں اور تماشہ دیکھ لیجیئے.
‏بادشاہ نے یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جیسے وزیر نے سمجھایا تھا، ویسے ہی کیا، صراحی رکھنے کے بعد دروازہ کھٹکھٹایا اور چھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا.

‏دستک سن کر اندر سے خادم نکلا، درہم سے بھری صراحی دیکھ کر حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ اس نے صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا. درہم گنے تو ننانوے نکلے، جبکہ صراحی پر لکھا سو درہم تھا. خادم نے سوچا: یقینا ایک درہم کہیں باہر گرا ہوگا. خادم اور اس کے سارے گھر والے باہر نکلے اوردرہم کی تلاش شروع کر دی.

‏ننانوے درہم غیب سے ملنے کی خوشی چھوڑ کر ان کی ساری رات ایک درہم کی تلاش میں گزر گئی. خادم کا غصہ اور بے چینی دیکھنے لائق تھی۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کوسخت سست بھی کہا کیونکہ وہ درہم تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے.
‏کچھ رات صبر اور باقی کی رات بک بک اور جھک جھک میں گزری.

‏دوسرے دن یہ ملازم محل میں کام کرنے کیلئے گیا تو اس کا مزاج مکدر، آنکھوں سے جگراتے، کام سے جھنجھلاہٹ، شکل پر افسردگی عیاں تھی.

‏بادشاہ سمجھ چکا تھا کہ ننانوے کا قانون کیا ہوا کرتا ہے.
‏لوگ ان 99 نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو الله تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہوتی ہیں. اور ساری زندگی اس ایک نعمت کے حصول میں سر گرداں رہ کر گزار دیتے ہیں جو انہیں نہیں ملی ہوتی

‏.اوروہ ایک نعمت بھی الله کی کسی حکمت کی وجہ سے رُکی ہوئی ہوتی ہے جسے عطا کر دینا الله کیلئے بڑا کام نہیں ہوا کرتا.

‏لوگ اپنی اسی ایک مفقود نعمت کیلئے سرگرداں رہ کر اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں کی لذتوں سے محروم مزاجوں کو مکدر کر کے جیتے ہیں.

‏حاصل ہو جانے والی ننانوے نعمتوں پر الله تبارک و تعالٰی کا احسان مانیئے اور ان سے مستفید ہو کر شکرگزار بندے بن کر رہیئے.

‏یا الله پاک آپ ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بنا دیں۔

ایک فراڈ جو مارکیٹ میں بڑا عام ہے۔کوئی ادارہ یا شخص لوگوں کو لالچ دیتے ہیں کہ اپنا سرمایہ ہمارے پاس انویسٹ کریں اور بدلے...
01/09/2025

ایک فراڈ جو مارکیٹ میں بڑا عام ہے۔
کوئی ادارہ یا شخص لوگوں کو لالچ دیتے ہیں کہ اپنا سرمایہ ہمارے پاس انویسٹ کریں اور بدلے میں ماہانہ پرکشش منافع حاصل کریں۔ جب کبھی آپ کو آپ کی سرمایہ کردہ مکمل رقم کی ضرورت ہو گی آپ ایک مہینے کا نوٹس دے کر وصول کر سکیں گے۔ ایسی "کمپنیاں" ایک لاکھ روپے کی انویسٹمنٹ کے بدلے 10، 12 ہزار کے منافع اور بعض اس سے بھی بہتر کی پیشکش کرتی ہیں۔ مطلب اگر کوئی بندہ 10 لاکھ کی سرمایہ کاری کرے گا تو اسے ماہانہ قریب لاکھ روپے کا منافع گھر بیٹھے مل رہا ہو گا اور سرمایہ کاری محفوظ کی محفوظ۔ یقینا کوئی بھی شخص ایسی پرکشش آفر سے فایدہ کیوں نہ اٹھائے جبکہ کمپنی یا یہ آفر دینے والا شخص اصل سرمایہ کاری کی رقم کا چیک بھی کاٹ کر دے رہا ہو کہ بھائی اگر آپ کو کسی وقت اعتماد نہ رہے تو فوری چیک کیش کرائیں اور اپنے پیسے وصول کر لیں۔
میں نے بہت سارے سمجھدار لوگوں کو بھی اس ٹریپ میں پھنسا ہوا دیکھا ہے۔
اس سارے میں فراڈ ہوتا کیا ہے۔
کمپنی یا وہ شخص اپنا چیک تو دیتے ہیں۔ ساتھ سرمایہ کار کی "مزید تسلی" کیلئے ایک اسٹامپ پیپر پر معاہدہ بھی کر لیتے ہیں۔ اس معاہدے میں اس چیک اور دی گئی رقم کا باقاعدہ ذکر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ رقم انویسٹ کی جا رہی ہے۔ سرمایہ کار مزید مطمئن ہو جاتا ہے کہ یہ تو چیک کے ساتھ ساتھ اپنا دستخط کردہ اسٹامپ پیپر بھی کر کے دے رہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ اسٹامپ پیپر اس چیک کیخلاف کسی ممکنہ کارروائی کا کور فراہم کر رہا ہوتا ہے۔
"کمپنی" سرمایہ کار کے اپنے دیے گئے پیسوں سے ہی دو تین مہینے "منافع" نکال کر اسے دیتی ہے جس پر وہ خوش ہو جاتا ہے اور اپنے خاندان اور جاننے والوں کو بھی اس آسان اور محفوظ سرمایہ کاری کی ترغیب دے کر مزید لوگوں کو اس ٹریپ کا شکار بنواتا ہے۔ ہر شخص کو دو تین مہینے کا ریگولر منافع دے کر کمپنی اب لیت و لعل سے کام شروع کر دیتی ہے۔ کبھی دو مہینے بعد منافع کی ایک قسط تو کبھی چار بعد۔ اور پھر ایک موقع پر بالکل انکار ہو جاتا ہے کہ آج کل "خسارہ" چل رہا ہے۔ اور پھر یہ خسارہ کبھی منافع میں نہیں بدلتا۔
یہ بڑا بہترین اور منافع بخش قسم کا فراڈ ہے۔ میرے ہی دیے گئے پیسوں میں سے کچھ پیسے کچھ مہینے میں مجھے واپس کر کے باقی ہڑپ کر لیے جاتے ہیں۔ اب بیچارے سرمایہ کار کے پاس وکیل یا پولیس کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
عموما چیک باؤنس ہونے پر 489 ایف تعزیرات پاکستان کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ جس کی سزا زیادہ سے زیادہ 3 سال تک قید ہوتی ہے۔ اور عموما ملزم اگر گرفتار بھی ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ ماہ بعد ضمانت پر رہا ہو کر باہر آ جاتا ہے۔ لیکن رکیے۔ ان سرمایہ کاری کمپنیوں یا اشخاص پر یہ ایف آئی آر سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ کیوں؟ قانون کہتا ہے کہ جب آپ نے کسی بزنس میں سرمایہ کاری کی ہے تو پھر آپ منافع اور خسارہ میں برابر کے شریک ہیں۔ کمپنی نے آپ سے جو اسٹامپ پیپر کروایا تھا وہ یہاں ان کی مدد اور ڈیفینس کو آتا ہے۔ کمپنی کا نمائندہ یا وکیل تھانے اور عدالت میں کہتا ہے کہ یہ خالصتا دیوانی نوعیت کا معاملہ ہے۔ سرمایہ کاری تھی۔ جب تک فائدہ ہوتا رہا، منافع دیا جاتا رہا۔ نقصان ہوا تو سرمایہ دار نقصان میں بھی شریک ہے۔ اس کے پیسے بھی ڈوب گئے۔ قانون اس بات کو مانتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ یہاں روٹین کی 489 ایف کی ایف آئی آر نہیں ہو گی کہ it is matter of pure civil nature. You may approach the civil court for remedy if any.
سرمایہ کار خالی ہاتھ اور کمپنی "دن دگنی رات چوگنی" ترقی کرتی ہے۔
خود بھی محتاط رہیں اور اپنے جاننے والوں کو بھی اس فراڈ سے بچائیں۔ ہر آسان رقم ایک فراڈ کا پیش خیمہ ہوتی ہیں
#قراةالعین زینب ایڈووکیٹ

بیل ٹرین:🍁کیلیفورنیا کے ہائی سیراس، ٹولیئر کاؤنٹی میں ایک بیل ٹرین۔  19ویں صدی کے آخر میں**کیلیفورنیا کے ہائی سیراس: ٹول...
01/09/2025

بیل ٹرین:🍁
کیلیفورنیا کے ہائی سیراس، ٹولیئر کاؤنٹی میں ایک بیل ٹرین۔ 19ویں صدی کے آخر میں
**کیلیفورنیا کے ہائی سیراس: ٹولیئر کاؤنٹی میں 19ویں صدی کے آخر کی بیل ٹرینیں**

19ویں صدی کے آخر میں کیلیفورنیا کے ہائی سیراس پہاڑوں میں بیل ٹرینوں کا استعمال عام تھا، خاص طور پر ٹولیئر کاؤنٹی میں، جہاں یہ بیل ٹرینیں سخت پہاڑی علاقوں میں اشیاء کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ ان بیل ٹرینوں میں مضبوط اور تربیت یافتہ بیلوں کو استعمال کیا جاتا تھا، جو ان دشوار گزار راستوں پر بھاری بوجھ کھینچنے کے قابل ہوتے تھے۔🍁

بیل ٹرینوں کا کردار اور استعمال
ٹولیئر کاؤنٹی میں بیل ٹرینوں کا استعمال بنیادی طور پر لکڑی، سونے کی کانوں سے نکالی جانے والی دھاتیں، اور دیگر اشیاء کو منتقل کرنے کے لیے ہوتا تھا۔ ان بیلوں کو لمبی قطاروں میں باندھ کر پہاڑی راستوں پر چلایا جاتا تھا، اور ہر قطار میں 8 سے 12 بیل شامل ہوتے تھے۔ بیلوں کی یہ ٹرینیں دن رات چلتی تھیں تاکہ مال کو جلد از جلد منزل تک پہنچایا جا سکے۔
🍁
بیلوں کی تربیت اور استعمال
ان بیلوں کو انتہائی محتاط تربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ پہاڑی راستوں پر بھاری بوجھ کو کھینچ سکیں۔ بیل ٹرینوں کے مَہر ان جانوروں کی دیکھ بھال اور تربیت میں ماہر ہوتے تھے۔ تربیت کے دوران بیلوں کو اس بات کی عادت ڈالی جاتی تھی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے چلیں اور تنگ راستوں پر بغیر کسی مشکل کے بوجھ کھینچ سکیں۔ 🍁

بیل ٹرینوں کی قیادت
بیل ٹرینوں کی قیادت کرنے والے شخص کو "ڈراویور" کہا جاتا تھا۔ ڈراویور راستے کے ہر نکتے سے واقف ہوتا تھا اور وہ موسم اور جغرافیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بیلوں کو صحیح سمت میں لے کر جاتا تھا۔ یہ ڈراویور ہی ہوتے تھے جو اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ بیل ٹرینیں بغیر کسی حادثے کے اپنے مقررہ مقام تک پہنچ سکیں۔🍁

اقتصادی اہمیت
بیل ٹرینوں نے ٹولیئر کاؤنٹی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ سونے کی تلاش کے دوران اور کان کنی کے عروج کے زمانے میں، ان بیل ٹرینوں نے مال برداری کaے ذریعے دور دراز علاقوں کو مرکزی شہروں سے جوڑنے میں مدد دی۔ اس کے علاوہ، یہ بیل ٹرینیں علاقے کی زندگی کا ایک اہم حصہ تھیں، جہاں مقامی لوگ اور مزدور ان بیلوں کے ذریعے اپنی روزی کماتے تھے۔🍁

بیل ٹرینوں کا زوال
20ویں صدی کی شروعات میں، جب ریل گاڑیوں اور دیگر جدید نقل و حمل کے ذرائع کا استعمال بڑھا، تو بیل ٹرینوں کی ضرورت کم ہو گئی۔ تاہم، ان بیل ٹرینوں کی یاد آج بھی کیلیفورنیا کی تاریخ کا حصہ ہے، اور یہ اس دور کی ایک علامت ہیں جب انسانی ترقی کے لیے قدرتی وسائل اور جانوروں کی طاقت کا انحصار تھا۔🍁

عجیب و غریب تاریخ
بیل ٹرینیں کیلیفورنیا کے ہائی سیراس کے پہاڑوں میں ایک زمانے میں زندگی کا اہم حصہ تھیں۔ ان کا وجود آج بھی ٹولیئر کاؤنٹی کے لوگوں کی یادوں میں زندہ ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ کس طرح محنت، تربیت، اور عزم کے ذریعے ان دشوار گزار علاقوں کو آباد کیا گیا تھا۔🍁

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Novels posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Urdu Novels:

Share