Urdu Novels

Urdu Novels - is the 1st and largest online free Urdu novels books site and can download in PDF form

A Site Where you can Read and Download free online Best Urdu Novels in PDF.

04/08/2025

پیلا اپریل
عنایت عادل
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے کاغذقلم سنبھالا اور لکھنا شروع کیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مورخہ: 12اپریل2025
ڈیرہ اسماعیل خان
زید۔۔
کیسے ہو؟
باقی چھوڑو۔۔۔تمہاری ماں پوچھ رہی ہے۔ تمہارے سوہنے مکھڑے پہ اب بھی وہ ہلکی ہلکی مسکان لڈیاں ڈالتی ہے؟۔ میری پوچھو تو مجھے تیری اس مسکان نے جب بھی یاد دلائی، بسنت کی یاد دلائی۔ یاد ہے، وہ بسنت کا ہی موسم تھا، جب تم اس دنیا میں، میری دنیا میں رنگ اور خوشبو لے کر آئے تھے۔۔ بہار کہنے کو اب بھی ہے۔ اپریل کی آج بارہ ہے اور بہار کے رنگ بھی کچھ ایسی ہی تاریخ بتا رہے ہیں۔ کتنے سال ہوئے؟ کچھ یاد ہے؟ بیس؟ نہیں نہیں، تم اس وقت گیارہ سال کے تھے۔ اب تم بتیس کے ہو چکے۔۔ تمہاری ماں بتا رہی تھی کہ آج تمہاری سالگرہ ہے۔ مجھ سے لڑ رہی تھی۔ کہتی ہے زیدی ابھی تیس کا نہیں ہوا۔۔ کرماں والی کو چوتھا مہینہ بھولتا ہے اور نہ بارہ تاریخ۔۔ سال مگر ہر سال بھول جاتی ہے۔۔ پگلی کہیں کی۔ شاید بائیس سال ہوئے۔ چھٹی جماعت کا داخلہ تھا ناں؟
کب سوچا تھا کہ میں شہر کے اتنے بڑے سکول کا دروازہ بھی کبھی پار کر پاوں گا؟ اور وہ بھی اپنے بیٹے کو داخلہ دلوانے کے لئے۔۔ مجھے یاد ہے۔ جب تمہاری ماں نے جھجک جھجک کر مجھے کہا تھا کہ تم اس سکول میں داخلہ لینے کی خواہش رکھتے ہو۔۔ جانتے ہو۔۔ سن کر مجھے کیا لگا۔۔؟۔۔۔ چھوڑو۔۔ کیا کرنا اب تمہیں بتا کر۔
نوکری کیسی جا رہی ہے؟ کوئی مسئلہ وسلہ تو نہیں ہے ناں؟سنا ہے بڑے نوکر چاکر ہیں؟ اچھا خود پہ زیادہ بوجھ مت ڈالا کرو۔۔ تمہاری عادت ہے رات کو دیر تک کام کرنے کی۔۔ کچھ آرام کر لیا کرو۔۔
پڑھائی لکھائی سے تمہاری اسی لگن نے تو مجھے ہمت دی تھی۔۔دل جھوم اٹھا تھاکہ میرا زید ی اتنے بڑے سکول میں داخلے کے قابل ہو گیاہے۔۔ دماغ نے دل کومگر تھپیڑے مارے تھے۔۔ اتنی بھاری فیس کون دے گا؟ اب تک تو جیسے تیسے کپڑے پہن لیتاتھا، اس سکول میں تو ایک دن کے یونیفارم کو دوسرے دن پہننا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ امیروں کے لڑکوں لڑکیوں کے ساتھ پڑھے گا تو روزانہ کا جیب خرچ مہینے بھر کی ساری تنخواہ چٹ کر جائے گا۔۔ لیکن باپ کا دل، کسی اور کی تو کیا، اپنے چوکیدار دماغ تک کی نہیں سنتا۔۔
کتنا مزے کا موسم تھا۔۔ تم نے پہلی بار بش شرٹ اور نیکر پہنی تھی۔ مجھے عجیب لگ رہا تھا کہ ایسے کپڑوں میں تم میرے ساتھ سائیکل پہ جا رہے تھے۔۔ تب ہی مجھے خیال آیا تھا اور میں نے سائیکل۔۔۔ سکول سے کچھ پہلے ہی ایک دکان کے ساتھ کھڑی کر دی تھی۔۔ تم داخلے کے امتحان کے لئے ہال میں بیٹھے تھے۔۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر تمہیں دیکھا تھا۔۔ میں بھاگ کر سکول سے نکلا تھا اور سامنے کی دکان سے ایک چھوٹا سا۔۔ چٹا سفید رومال لا کر تم تک پہنچایا تھا۔۔ ابھی تک رکھا ہوا ہے نہ تم نے اپنی الماری میں؟۔۔ اب یہ الزام بھی اپنی پگلی ماں پہ مت ڈال دینا۔۔وہ اسے چوم چوم کر یہی کہتی رہتی ہے کہ زیدی اپنی چیزوں کس قدر سنبھال کر رکھتا ہے۔
میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا۔۔۔ تمہاری ماں مجھے بار بار ٹہوکے دے رہی ہے۔ اسے تم سے زیادہ پوتے کی لگی ہے۔۔ بتاو۔۔ کیا حال ہے شمریز کا؟ یہی نام رکھا تھا ناں؟ تم بھلے جو بھی کہو،میں تو اسے علی حبیب ہی کہوں گا۔ ابھی بیٹھنا تو شروع نہیں کیا؟ جلدی مت کرنا۔۔ کمر پکی ہو اور گردن خود سنبھال سکے تو بٹھانے کی کوشش کرنا۔۔ مگر پیچھے ہاتھ کا سہارا ضرور دینا۔۔ یہاں ہوتا تو میں خود مالش کرتا، دنوں دنوں میں بیٹھنا تو کیا بھاگنا شروع کر دیتا، تمہیں بھی تو ایسے ہی گردن سہارنا، کمر سیدھی کرنا اور کبھی انگلی پکڑ کر اور کبھی چھوڑ کر۔۔ پاوں پاوں چلنا میں نے ہی سکھایا تھا۔۔۔۔ اس کی ماں کو یہ سب سمجھا دو۔۔۔ گوری ہے تو کیا ہوا۔۔ ماں تو ہے ناں۔۔
دفتر سے واپسی پرگھر کے باہر ریڑھی لگانے کا سوچا تھا کہ یوں اور نہیں تو تمہارے جیب خرچ کے پیسے تو برابر ہوتے رہیں گے۔ تمہاری ماں نے تو کئی بار باہر نکل کر دروازے کے سامنے جھاڑو تک لگا دی تھی۔ میں نے بھی ایک ترکھان سے قسطوں پر ریڑھی خریدنے کی بات چلائی تھی۔ مگر پھر۔۔۔ خیال آیا تھا کہ تمہارے دوست گھر پہ بھی تو آئیں گے۔ میں نے دوسرے محلے کی ایک بیٹھک کرایہ پہ لے لی تھی اور چھوٹا موٹا کریانے کا کاروبار، کافی ہوا تھا۔۔ گلہ مگر تم سے ہمیشہ رہے گا زیدی۔۔۔ مہینے کی تنخواہ لاتا یا کریانے کی کمائی۔۔ تیری فیس کے دن ہوتے یا یاروں دوستوں کے ساتھ مری اسلام آباد جانے کا کوئی موقع۔۔ تم نے کہا بھی تو صرف اس کرماں والی ماں سے؟ مجھ سے کیوں نہیں کہا؟۔۔پاگل کہیں کے۔۔ باپ سے بھی کوئی شرماتا ہے بھلا؟
ادھر موسم کیسا ہے؟ وہاں تو سردی ہو گی؟ تمہاری ماں نے پھر میری پسلی پہ ہاتھ مارا ہے۔۔۔ کہتی ہے وہاں سردی ہی ہوتی ہے۔۔ سورج سال میں کبھی کبھار ہی درشن کرواتا ہے۔ یہاں تو ابھی بہار میں بھی اس کی تڑیاں شروع ہو چکی ہیں۔ اگلے چار پانچ ماہ کے لئے آگ اکھٹی کررہا ہے۔۔ دن میں ہی اتنی برسائے گا کہ راتیں تک دہکتی رہیں گی۔
صبر کر۔۔ میرا ہاتھ تھک گیا ہے۔۔ داہنا پاوں بھی سُن سُن سا لگ رہا ہے۔ کیا کہا؟ ہاں ہاں۔۔ لی تھی دوائی۔۔ وہ والا مسئلہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں سب ٹھیک ہے۔۔۔ تمہاری ماں نے پھر وار کیا ہے۔ اس بار۔۔ باری گردن کی تھی۔۔ اسے شک ہے کہ میں چھپ چھپ کر پھر سے سگریٹ پیتا ہوں۔۔ وہم ہے اس کا۔۔ پگلی کہیں کی۔۔ نہیں یار۔۔ تم ہمیشہ ماں کی ہی طرفداری کرنا۔ اتنی دور سے تمہیں کیسے پتہ بھلا۔۔ نہیں پیتایار۔۔تمہاری ماں چائے بنانے گئی ہے۔ پتہ تو ہے تمہیں۔۔ میں جب بھی کچھ لکھنے بیٹھتا ہوں۔۔ اسے چائے کی پڑ جاتی ہے۔۔ پینتیس سال سے مجھے چائے پلائی چلے جا رہی ہے۔۔اچھا سنو۔۔ سب سے جھوٹ بول سکتا ہوں۔۔ تم سے نہیں۔۔ کبھی کبھی گیس سی محسوس ہوتی ہے تو دو چار کش لگا لیتا ہوں۔۔
اچھا تمہاری ماں بتا رہی تھی وہاں بڑے بڑے پارک ہیں؟ جاتے تو ہو ناں وہاں؟ اچھا وہ پگلی کہتی ہے ان پارکوں میں ہر قسم کے پھلوں کے درخت بھی ہیں۔۔ اور میٹھے پانی کے چشمے بھی؟ کوئی روک ٹوک تو نہیں؟ پھل کھا لئے کرو۔۔ صحت اچھی رہتی ہے۔۔
اچھا تمہاری ماں آ رہی ہے۔۔ اب ہر بار کی طرح احسان جتائے گی کہ چائے بنا لائی ہوں۔ ان چونتیس پینتیس سالوں میں شاید پچاس ہزار بار وہ یہ احسان جتا چکی ہے۔ پھر ہنستی بھی ہے۔۔ ابھی بھی ہنس رہی ہے۔
سنو۔۔۔ اسے کش لگانے والی بات مت بتانا۔۔۔
تمہیں یاد ہے جب تمہیں کالج کے داخلے کے لئے پیسے چاہئیں تھے اور تمہاری پگلی ماں نے بالیاں بیچنے کی چغد ماری تھی؟ حالانکہ میں نے اسے کہا تھا کہ داخلے کی تاریخ سے پہلے ہی مجھے جی پی فنڈ کی رقم مل جائے گی۔۔ بس تمہارے معاملے میں ہر وقت اتاولی ہی رہتی تھی۔۔ تمہاری افسری سے زیادہ اسے تمہاری شادی کی جلدی تھی۔۔
ایک مزے کی بات بتاوں؟ جب تم نے انٹر کر لیا تھا اور انجینئرنگ کے داخلے کی تیاری کر رہے تھے تو تمہاری ماں پتہ ہے کیا کر نے میں لگی تھی؟ درزی سے تمہارے کپڑوں سے بچ جانے والے کپڑوں سے ننھے ننھے چولے سیتی رہتی تھی۔۔ وہ بھی مجھ سے چھپ چھپ کر۔۔ ایک دن میں نے پکڑ لیا۔۔ پہلے بھتیجے کے ہاں بچے کی متوقع آمد کا بہانہ بنایا۔۔۔ پھر پھیکی پھیکی مسکراہٹ سے کہنے لگی کہ زیدی کے بیٹے کے لئے بنا رہی ہوں۔۔۔ کیا پتہ زندہ رہوں یا نہ رہوں۔۔ ہے نہ پگلی؟
تمہاری ماں نے پھر میرے سر پر ہاتھ مارا ہے۔۔ کاش۔۔ یہ دو چار جماعتیں نہ پڑھی ہوتی۔۔۔
اچھا سنو۔۔ ماں کہہ رہی ہے۔۔ اس عید پہ تو آو گے ناں؟ اتنی عیدیں گزر چکیں۔۔۔ ہر بار کہتے ہو مگر آتے نہیں ہو۔۔ بہو کو بھی فوٹو میں دیکھا اور علی حبیب کی بھی صرف تصویر بھیجی۔۔
زیدی۔۔ بیٹا۔۔ یار اس بار آ جاؤ۔۔۔ بہو کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی آرزو بھی ہے اور علی حبیب کو کندھے پہ گھمانے کی چاہ بھی۔۔۔ ہاں ہاں وہی۔۔ شمریز۔۔ تم اسے میرے پاس لے آو۔۔ شمریز ہی کہوں گا۔۔ وعدہ۔
اچھا۔۔دل تو بہت کر رہا ہے لیکن بوڑھی انگلیاں اب ساتھ نہیں دے رہیں۔۔ تمہاری مصروفیت کا بھی اندازہ ہے۔۔اس لئے آج بس یہیں تک کافی ہے۔۔ ماں بہت بہت پیار دے رہی ہے۔۔ تمہیں بھی، بہو کو بھی اور علی حبیب۔۔۔۔ میرا مطلب ہے شمریز کو بھی۔۔
تم نے مجھے تو بوسہ بس کبھی کبھار ہی دیا۔۔ میری طرف سے خود کو اور میرے پوتے کو بہت سے بوسے دے دینا یاد سے۔۔
ضرور دینا۔۔ یہ نہ ہو کہ اب مجھے تمہاری ماں کو ساتھ لے کر وہیں آنا پڑے۔۔ گلے سے لگانے، بہت سے بوسے دینے۔۔
وقت ملے تو جواب ضرور دینا۔
تمہاری راہ تکتاتمہارا باپ۔۔ تمہاری یاد میں آنکھیں بہاتی تمہاری پگلی ماں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے خط کو ایک نظر دیکھا۔۔ چوم کر لفافے میں بند کیا اور گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ واسکٹ کی جیب سے سرخ رنگ کا موٹا سا دھاگہ نکالا اور اسے خط کے گرد لپیٹ کر اپنے اوپر جھکے ہوئے کریر کے درخت کی ایک شاخ سے باندھ دیا۔ جہاں ایسے ہی کئی خط۔۔ پہلے ہی لٹک رہے تھے۔۔ نیچے قبر کے کتبے پر لکھا تھا۔۔
”زید وقار شہید“
تاریخ پیدائش: 12اپریل1993
تاریخ شہادت:12اپریل 2004
وجہ شہادت: بم دھماکہ بمقام معیار معمار پبلک سکول
اناللہ وانا الیہ راجعون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طلاق صرف میاں بیوی کو ہی الگ نہیں کرتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمارے معاشرے میں اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ جب دو افرا...
04/08/2025

طلاق صرف میاں بیوی کو ہی الگ نہیں کرتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمارے معاشرے میں اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ جب دو افراد، جو کبھی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں، اپنے راستے الگ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو یہ صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہتا۔ اس کا اثر ان کے گرد موجود ہر رشتے اور ہر فرد پر پڑتا ہے، خصوصاً ان معصوم روحوں پر جو ان کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرتی ہیں۔
طلاق ایک خاموش طوفان کی مانند ہے جو ایک گھر کی مضبوط دیواروں کو گرا دیتا ہے۔ اس طوفان میں سب سے زیادہ نقصان ان بچوں کو پہنچتا ہے جن کی دنیا ماں اور باپ کے وجود کے گرد گھومتی ہے۔ جب ان کے والدین کی راہیں جدا ہوتی ہیں، تو ان بچوں کی دنیا بھی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں دو گھرانوں کا حصہ ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں کسی ایک کے بھی مکمل طور پر نہیں ہوتے۔ یہ کشمکش ان کی نفسیات پر گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے۔
بچے کے لیے طلاق کا مطلب صرف والدین کا الگ ہونا نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے محبت اور توجہ کے لیے دو مختلف مقامات پر بھٹکنا پڑتا ہے۔ ماں کے پاس ہوتا ہے تو باپ کی کمی محسوس کرتا ہے اور باپ کے پاس ہوتا ہے تو ماں کی یاد ستاتی ہے۔ یہ احساس کہ اس کی دنیا مکمل نہیں ہے، اسے ایک نہ ختم ہونے والی تنہائی اور محرومی کا شکار بنا دیتا ہے۔ اس کے لیے گھر کا تصور بدل جاتا ہے، جو کبھی ایک محفوظ پناہ گاہ تھا، اب ایک ایسی جگہ بن جاتا ہے جہاں اسے اپنے دل کے ٹکڑے دو جگہوں پر بانٹنے پڑتے ہیں۔
طلاق کا سب سے تلخ پہلو یہ ہے کہ یہ صرف جذباتی علیحدگی نہیں ہے۔ اس کے سماجی اور نفسیاتی اثرات بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ ایک بچہ جو والدین کی محبت اور توجہ کے سائے میں پروان چڑھتا ہے، اس کی شخصیت میں خود اعتمادی اور استحکام ہوتا ہے۔ مگر طلاق یافتہ والدین کے بچوں کو اکثر ذہنی انتشار، غصہ اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ان کی زندگی میں کوئی بھی رشتہ مستقل ہے۔ اس عدم استحکام کا اثر ان کے مستقبل کے فیصلوں، ان کی دوستیوں اور ان کے اپنے رشتے بنانے کی صلاحیت پر بھی پڑتا ہے۔
اس لیے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ طلاق صرف میاں بیوی کو ہی الگ نہیں کرتی۔ یہ ایک ایسی زلزلہ ہے جو پورے خاندان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے نتائج آنے والی نسلوں تک کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی جوڑا طلاق کے بارے میں سوچے، تو اسے اپنے بچوں کے مستقبل اور ان کی نفسیاتی صحت پر اس کے تباہ کن اثرات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ کیونکہ کسی بھی بچے کی مسکراہٹ اور اس کا مکمل بچپن، کسی بھی ذاتی انا اور ناراضگی سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔

ﻧﺌﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﮍﻭﺳﻦ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﯿﻦ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﭽﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺷﻮﮨﺮ ﺷﮑﻞ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺧﺮﺍﻧﭧ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﻣﺰﺍﺝ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮍﻭﺳﻦ ﮐﯽ ﺻﻮ...
03/08/2025

ﻧﺌﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﮍﻭﺳﻦ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺗﯿﻦ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﭽﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺷﻮﮨﺮ ﺷﮑﻞ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺧﺮﺍﻧﭧ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﻣﺰﺍﺝ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮍﻭﺳﻦ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺮ ﮨﻤﺪﺭﺩﯾﺎﮞ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ ...
ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ۔ رانا ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺯﺍ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﮕﻤﺎﺕ ﮐﮯ ﺗﻮﺳﻂ ﺳﮯ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻧﺌﯽ ﭘﮍﻭﺳﻦ ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺗﻨﺪ ﺧﻮ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﯽ ﮨﮯ۔ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮈﺭﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﮧ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺮﺩ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﭨﮫ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﻮﮦ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﺎ ﷲ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﯿﺮﮮ ﻧﺎﻗﺪﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻧﺌﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﮍﻭﺳﻦ ﺳﺒﺰﯼ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ رانا ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﻣﻠﯽ۔ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ۔ رانا ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﭘﺮ ﻧﺎﺯ ﮨﻮﺍ۔ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ رانا ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺮﺍ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﮯ۔
رانا ﺻﺎﺣﺐ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺑﺎؤﻟﮯ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﻋﺎﻡ ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ رانا ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ۔
رانا ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺩﻟﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﭼﮭﭙﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﻣﺘﺎﻧﺖ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ۔ ﺟﯽ ﻓﺮﻣﺎﯾﺌﮯ۔ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﭘﮍﮬﯽ ﻟﮑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮉﻣﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﺗﮭﯽ۔
رانا صاحب کچھ کہنے ھى لگے تھے
که
ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﻮﮞ ﺳﮍﮎ ﭘﮧ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭧ گھر ميں آکر ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺩﯾﮟ۔ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﻭﮞ۔
رانا ﺻﺎﺣﺐ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭧ ﮐﯿﺎ ﺻﺪﯾﺎﮞ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﮯ۔ ﻓﻮﺭﺍ ﮐﮩﺎ ﺟﯽ ﺿﺮﻭﺭ
رانا ﺻﺎﺣﺐ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯽ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﺳﮑﻮﭨﺮ ﮐﮯ ﺭﮐﻨﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ۔
ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮔﮭﺒﺮﺍ گئى۔ ﯾﺎ ﷲ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺁﮔﺌﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻗﺘﻞ ﮨﯽ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺠﯿﮯ۔ ﯾﮧ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﮐﺎ ﮈﮬﯿﺮ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﯾﮧ ﻧﯿﻼ ﺩﻭﭘﭩﮯ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﻧﮕﮭﭧ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭙﮍﮮ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ ﮐﮧ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺎﺳﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔
رانا ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﮔﮭﻮﻧﮕﮭﭧ ﮐﺎﮌﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺧﺮﺍﻧﭧ ﺷﺨﺺ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﺎ۔
ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺷﻮﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮔﯿﺎ۔ ﭘﺴﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﺍﺑﻮﺭ، ﺗﮭﮑﻦ ﺳﮯ ﭼﻮﺭ رانا ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ۔
ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺮﺯﺍ ﺻﺎﺣﺐ ﺁﺗﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩيئے۔ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺘﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﻮ۔
ﺑﻮﻟﮯ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﻣﺮﺯﺍ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺗﺎﺳﻒ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﮐﮯ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ،
ﮐﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮨﯽ ﭼﺎﺭ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺩﮬﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻼ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺍﮌﮬﺎﯾﺎ تھا۔😳

03/08/2025

‏طلاق یافتہ عورتوں میں 80 فیصد تعلیم یافتہ عورتیں ہیں، اس میں قصور کس کا ہے تعلیم کا یا تربیت کا ؟؟اپنی رائے دیں ☺️☺️

03/08/2025

ہمارے ٹویٹر اکاوئنٹ کا ایڈریس نوٹ فرما لیں اور فالو بھی کر لیں ۔۔۔
https://x.com/urdunovels

03/08/2025

تاریخ دانوں نے روایت کیا ہے کہ عمر بن خطابؓ، جنہیں ان کی سختی اور قوت کے لیے جانا جاتا ہے، ایک دن مدینہ میں لوگوں کے لیے کھانے کے دسترخوان لگا رہے تھے۔ انہوں نے ایک شخص کو بائیں ہاتھ سے کھاتے ہوئے دیکھا، تو پیچھے سے آ کر کہا:

"اے عبداللہ! دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔"
اس شخص نے جواب دیا: "اے عبداللہ! میرا دایاں ہاتھ مصروف ہے۔"
عمرؓ نے دوبارہ یہی بات کہی۔
شخص نے پھر وہی جواب دیا۔
عمرؓ نے پوچھا: "اسے کیا مصروفیت ہے؟"
تو اس نے جواب دیا: "یہ ہاتھ غزوۂ مؤتہ میں زخمی ہوا تھا، اب حرکت نہیں کرتا۔"

یہ سن کر عمرؓ اس کے پاس بیٹھ گئے اور رونے لگے، اور سوالات کرنے لگے:

"تجھے وضو کون کراتا ہے؟
تیرے کپڑے کون دھوتا ہے؟
تیرا سر کون دھوتا ہے؟
اور۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔؟"

اور ہر سوال کے ساتھ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
پھر انہوں نے اس کے لیے ایک خادم، ایک سواری اور کھانے کا بندوبست کیا، اور اس سے معذرت کرنے لگے کہ انہوں نے نادانستہ طور پر ایسی بات کہہ دی جو اسے تکلیف دے گئی۔

اسی طرح قوانین بنتے ہیں...

عمرؓ رات کو مدینے کی گلیوں میں گشت کرتے تھے، نہ کہ رعایا پر نظر رکھنے کے لیے، بلکہ ان کے حالات جاننے کے لیے۔

ایک رات انہوں نے ایک دیہاتی عورت کو اپنے شوہر کی یاد میں اشعار پڑھتے سنا:

"طویل ہو گیا ہے یہ رات، اور اس کا اندھیرا بڑھ گیا ہے
مجھے نیند نہیں آتی کہ میرا محبوب میرے ساتھ نہیں کھیلتا
اگر نہ ہوتا وہ ذات جس کا عرش آسمانوں پر ہے
تو یہ بستر میرے ہجر کی شدت سے ہل گیا ہوتا"

امیر المؤمنین قریب آئے، سنا، اور پھر دروازے کے پیچھے سے پوچھا:
"اے بہن! کیا ہوا؟"

عورت نے جواب دیا:
"میرے شوہر کئی مہینوں سے جہاد کے لیے گئے ہوئے ہیں، میں انہیں یاد کرتی ہوں۔"

عمرؓ فوراً اپنی بیٹی حفصہؓ کے پاس گئے اور پوچھا:
"عورت اپنے شوہر کی جدائی کتنے عرصے برداشت کر سکتی ہے؟"

بیٹی شرما گئی اور سر جھکا لیا، تو عمرؓ نے عاجزی سے کہا:
"اللہ حق کہنے سے نہیں شرماتا، اگر یہ سوال رعایا کے معاملے کے لیے نہ ہوتا تو میں نہ پوچھتا۔"

حفصہؓ نے جواب دیا:
"چار، پانچ یا چھ مہینے۔"

عمرؓ واپس گئے اور تمام فوجی کمانڈروں کو لکھا:
"فوجوں کو چار ماہ سے زیادہ نہ روکا جائے۔"

یوں عورت کے ایک فطری حق کی بنیاد پر ایک قانون بنا۔
یہ قانون ریاست نے نہیں، بلکہ معاشرے (ایک دیہاتی عورت اور حفصہؓ) نے تشکیل دیا۔ ریاست نے صرف اسے نافذ کیا۔

اسی طرح عورت کا قانون تشکیل پایا۔

ایک رات عمرؓ گشت پر تھے تو ایک بچے کی رونے کی آواز سنی۔ قریب گئے اور پوچھا:
"کیا ہوا بچے کو؟"

ماں نے کہا:
"میں اسے دودھ چھڑوا رہی ہوں، اس لیے رو رہا ہے۔"

ظاہر ہے، یہ عام بات تھی۔ لیکن عمرؓ نے اس سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ وہ عورت صرف اس لیے بچے کو وقت سے پہلے دودھ چھڑا رہی ہے تاکہ بیت المال سے ملنے والے سو درہم حاصل کر سکے، جو صرف دودھ چھڑانے کے بعد دیے جاتے تھے۔

عمرؓ گھر واپس گئے، مگر نیند نہ آئی۔ اس بچے کی سسکیوں نے دل کو جھنجھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے فوراً حکم جاری کیا:
"بچے کو پیدائش کے وقت ہی سے سو درہم دیے جائیں، نہ کہ دودھ چھڑانے کے بعد۔"

یوں بچوں کے لیے قانون بنا جو ان کی مناسب غذا اور صحت کا ضامن بن گیا۔
اگر عمرؓ اس عورت سے گفتگو نہ کرتے تو یہ قانون نہ بنتا۔

یوں بچے کا قانون بھی تشکیل پایا۔

عمرؓ کو اپنے بھائی زید سے محبت تھی، جو حروبِ ارتداد میں شہید ہو گئے تھے۔
ایک دن بازار میں عمرؓ کی ملاقات زید کے قاتل سے ہوئی، جو اب مسلمان ہو چکا تھا۔

عمرؓ نے غصے سے کہا:
"اللہ کی قسم! میں تجھ سے اتنی نفرت کرتا ہوں جتنا زمین بہتے ہوئے خون سے کرتی ہے!"

اعرابی نے پوچھا:
"کیا اس نفرت سے میرے حقوق متاثر ہوں گے، اے امیر المؤمنین؟"

عمرؓ نے کہا:
"نہیں۔"

تو اعرابی نے بے پروائی سے کہا:
"محبت کا غم تو عورتیں کرتی ہیں۔"
(یعنی مجھے تمہاری محبت کی پروا نہیں، میرے اور تمہارے درمیان صرف حقوق اور فرائض کا رشتہ ہے)

عمرؓ نے غصے کے باوجود نہ اسے جیل بھیجا، نہ سزا دی۔
اس کی آزادی رائے کا احترام کیا۔

یوں معاشرے میں آزادیِ اظہار کا قانون بنا۔

ایک عورت نے ایک جمعے کے خطبے کے دوران کہا:
"اے عمر! تم غلطی پر ہو۔"

یہ اس وقت ہوا جب عمرؓ نے مہر کی حد مقرر کرنے کا قانون تجویز کیا۔
وہ عورت عام تھی، مگر اس کی دلیل درست تھی۔

عمرؓ نے نہ اسے گرفتار کیا، نہ سزا دی، نہ شرمندہ کیا، بلکہ علی الاعلان کہا:
"عمر غلطی پر تھا، اور عورت نے درست کہا۔"

اور اس قانون کو واپس لے لیا۔
یوں مہر کی مقدار کا فیصلہ معاشرے پر چھوڑ دیا گیا۔

یوں قوانین بنتے ہیں۔۔۔ معاشرے کی ضرورت، خواہش، روایت، اور فطری تقاضوں سے۔

قانون نہ ایوان اقتدار میں بنتے ہیں، نہ محلات میں، بلکہ لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر، ان کی حالت سن کر، ان سے سیکھ کر۔
اصل قانون ساز معاشرہ ہے، اقتدار
نہیں۔

بشکریہ محمد فراز گورائیہ

فلم ❞اجازت❝ کی کہانی میں نصیرُالدّین شاہ اور ریکھا کی طلاق ھو جاتی ھے اور ایک دِن دونوں ریلوے کے ویٹنگ رُوم میں اتفاقاً ...
02/08/2025

فلم ❞اجازت❝ کی کہانی میں نصیرُالدّین شاہ اور ریکھا کی طلاق ھو جاتی ھے اور ایک دِن دونوں ریلوے کے ویٹنگ رُوم میں اتفاقاً مِل جاتے ھیں۔

یہ ڈائیلاگ اُسی ویٹنگ رُوم کے ھیں۔

نصیرالدین شاہ : اب بھی ماچِس رَکھتی ھو؟ پہلے تو میرے لیے رَکھتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اب کس کے لیے رکھتی ھو ؟؟

ریکھا: ❞اب اپنے لیے رَکھتی ھُوں❝

نصیرالدین شاہ: ❞مطلب سِگریٹ پینا شروع کر دیا کیا ؟❝

ریکھا: ❞ نہیں تو ، آپ کی بُھولنے کی عادت نہیں گئی ، میری رَکھنے کی عادت نہیں گئی❝

❞گلزار❝

اللہ کی شان! 28 سال بعد نصیرالدین عرف ہجو والد بہرام کی بر پالس لیدی گلیشر کے پاس پڑی، لاش ملی ہے۔ جیب میں پڑے سامان اور...
02/08/2025

اللہ کی شان! 28 سال بعد نصیرالدین عرف ہجو والد بہرام کی بر پالس لیدی گلیشر کے پاس پڑی، لاش ملی ہے۔ جیب میں پڑے سامان اور شناختی کارڈ مکمل محفوظ تھے۔

کہا جاتا ہے:” جو عورت مطالعہ کرتی ہے، وہ آسانی سے محبت نہیں کرتی۔ وہ صرف اپنے روحانی ہمزاد کو تلاش کرتی ہے، جو اس کی چھو...
02/08/2025

کہا جاتا ہے:
” جو عورت مطالعہ کرتی ہے، وہ آسانی سے محبت نہیں کرتی۔ وہ صرف اپنے روحانی ہمزاد کو تلاش کرتی ہے، جو اس کی چھوٹی چھوٹی جزئیات سے مشابہ ہو۔“
عورت جب کتاب کھولتی ہے، تو دراصل وہ اپنی ذات کا در وا کرتی ہے۔ مطالعہ اس کے لیے محض علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ اس کی روح کا آئینہ ہوتا ہے۔ ہر صفحہ اس کے باطن سے مکالمہ کرتا ہے، اور ہر سطر اس کے اندر چھپی ہوئی کہانیوں کو جگاتا ہے۔ ایسی عورت آسانی سے محبت نہیں کرتی، کیونکہ اس کی روح سادہ نہیں رہتی، وہ معمولی چیزوں پر قناعت نہیں کرتی۔ وہ صرف اُس شخص کی منتظر رہتی ہے جو اس کی خاموشی کو سمجھے، جو اس کے لفظوں کے پیچھے چھپے درد کو پہچانے، جو اس کے اندر کے موسموں کا ہمراز بنے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عبد الاحد ندوی

‏یہ شخص نہ تو اسلم رئیسانی ھےاور نہ ہی پاکستانی ملنگ ھےبلکہ یہ عراق کا مشہور ڈاکٹر مہدی ھےاس کی کہانی یہ ھے کہ ایک بار د...
02/08/2025

‏یہ شخص نہ تو اسلم رئیسانی ھے
اور نہ ہی پاکستانی ملنگ ھےبلکہ یہ عراق کا مشہور ڈاکٹر مہدی ھے

اس کی کہانی یہ ھے کہ ایک بار دوسرا سرجن موقعے پر نہ ہونے کی وجہ سے ایمرجنسی میں اس نے اپنی ماں کا آپریشن خود کیا۔ (میڈیکل کے پروٹوکول کے مطابق اپنے قریبی عزیز کا آپریشن آپ خود نہیں کرسکتے ہیں)
اور ماں ان کی نظروں کے سامنے دنیا سے رخصت ہوئی
یہ شخص صدمہ برداشت نہ کرسکا اور ذہنی توازن کھو بیٹھا ھے، اس واقعے کو برسوں بیت گیے ہیں۔
بغداد کے بچے اسے دیکھتے ہوئے بڑے ہوچکے ہیں، کسی نے بھی ان کی زبان سے آج تک ایک جملے سے زیادہ نہیں سنا وہ جملہ ھے کہ
"ماں مجھے معاف کرنا "

"تم یورپ کی طرف ہجرت کرو گے، اور قانون کی پابندی کرو گے۔ تم سگریٹ کے ٹوٹے زمین پر نہیں پھینکو گے، عوامی مقامات پر تمباکو...
02/08/2025

"تم یورپ کی طرف ہجرت کرو گے، اور قانون کی پابندی کرو گے۔ تم سگریٹ کے ٹوٹے زمین پر نہیں پھینکو گے، عوامی مقامات پر تمباکو نوشی نہیں کرو گے، اور مخصوص مقامات سے سڑک پار کرو گے۔ تمہاری سیکیورٹی کا شعور اتنا ہوگا کہ اگر تمہاری کھڑکی کے سامنے سے بلی بھی چوری ہو جائے تو پولیس کو اطلاع دو گے۔

تم گاڑی چلاتے وقت سیٹ بیلٹ باندھو گے اور بچے کے لیے پچھلی سیٹ پر کرسی رکھو گے۔ تم قطار میں کھڑے رہو گے چاہے وہ ایک کلومیٹر لمبی کیوں نہ ہو۔ جب تمہیں یورپی شہریت ملے گی اور تم اپنے نمائندے کا انتخاب کرو گے، تو اس کی تاریخ، ماضی اور پیشہ ورانہ مہارت کے بارے میں تحقیق کرو گے۔ اگر تم یہ سب اپنی ملک میں کرتے تو شاید تمہیں ہجرت کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔"

-
Copy

آج جو مہینے ہم انگریزی کیلنڈر میں استعمال کرتے ہیں، وہ دراصل رومن تہذیب کی ایک زندہ میراث ہیں، جن کے نام رومی دیوی دیوتا...
02/08/2025

آج جو مہینے ہم انگریزی کیلنڈر میں استعمال کرتے ہیں، وہ دراصل رومن تہذیب کی ایک زندہ میراث ہیں، جن کے نام رومی دیوی دیوتاؤں، رسم و رواج اور بادشاہوں سے منسوب ہیں۔ جنوری کا نام دو چہروں والے دیوتا Janus کے نام پر رکھا گیا، جو ماضی اور مستقبل دونوں کو دیکھتا ہے، اور یوں نئے سال کی شروعات کی علامت ہے۔ فروری ایک رومی تطہیری تہوار Februa سے ماخوذ ہے، جو پاکیزگی اور روحانی صفائی کی علامت تھا۔ مارچ کا مہینہ جنگ کے دیوتا Mars کے نام پر ہے، جو رومی قوم کا محافظ اور قومی دیوتا سمجھا جاتا تھا۔ اپریل کا تعلق محبت اور حسن کی دیوی Venus (یونانی: Aphrodite) سے ہے، جب بہار کی آمد کے ساتھ قدرتی مناظر کھلنے لگتے ہیں۔ مئی زمین اور نمو کی دیوی Maia کے نام پر ہے، اور جون شادی اور عورتوں کی سرپرست دیوی Juno سے منسوب ہے۔ جولائی اور اگست اصل میں Quintilis اور Sextilis کہلاتے تھے، مگر بعد میں Quintilis کو رومن بادشاہ جولیس سیزر کے اعزاز میں July اور Sextilis کو اس کے منہ بولے بیٹے اور سلطنتِ روم کے پہلے شہنشاہ Augustus Caesar کے نام پر August کہا گیا۔ ستمبر سے دسمبر تک کے مہینے اپنی عددی ترتیب پر مبنی ہیں: Septem (سات)، Octo (آٹھ)، Novem (نو)، اور Decem (دس)، کیونکہ قدیم رومن کیلنڈر مارچ سے شروع ہوتا تھا۔

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Novels posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Urdu Novels:

Share