04/08/2025
پیلا اپریل
عنایت عادل
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے کاغذقلم سنبھالا اور لکھنا شروع کیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مورخہ: 12اپریل2025
ڈیرہ اسماعیل خان
زید۔۔
کیسے ہو؟
باقی چھوڑو۔۔۔تمہاری ماں پوچھ رہی ہے۔ تمہارے سوہنے مکھڑے پہ اب بھی وہ ہلکی ہلکی مسکان لڈیاں ڈالتی ہے؟۔ میری پوچھو تو مجھے تیری اس مسکان نے جب بھی یاد دلائی، بسنت کی یاد دلائی۔ یاد ہے، وہ بسنت کا ہی موسم تھا، جب تم اس دنیا میں، میری دنیا میں رنگ اور خوشبو لے کر آئے تھے۔۔ بہار کہنے کو اب بھی ہے۔ اپریل کی آج بارہ ہے اور بہار کے رنگ بھی کچھ ایسی ہی تاریخ بتا رہے ہیں۔ کتنے سال ہوئے؟ کچھ یاد ہے؟ بیس؟ نہیں نہیں، تم اس وقت گیارہ سال کے تھے۔ اب تم بتیس کے ہو چکے۔۔ تمہاری ماں بتا رہی تھی کہ آج تمہاری سالگرہ ہے۔ مجھ سے لڑ رہی تھی۔ کہتی ہے زیدی ابھی تیس کا نہیں ہوا۔۔ کرماں والی کو چوتھا مہینہ بھولتا ہے اور نہ بارہ تاریخ۔۔ سال مگر ہر سال بھول جاتی ہے۔۔ پگلی کہیں کی۔ شاید بائیس سال ہوئے۔ چھٹی جماعت کا داخلہ تھا ناں؟
کب سوچا تھا کہ میں شہر کے اتنے بڑے سکول کا دروازہ بھی کبھی پار کر پاوں گا؟ اور وہ بھی اپنے بیٹے کو داخلہ دلوانے کے لئے۔۔ مجھے یاد ہے۔ جب تمہاری ماں نے جھجک جھجک کر مجھے کہا تھا کہ تم اس سکول میں داخلہ لینے کی خواہش رکھتے ہو۔۔ جانتے ہو۔۔ سن کر مجھے کیا لگا۔۔؟۔۔۔ چھوڑو۔۔ کیا کرنا اب تمہیں بتا کر۔
نوکری کیسی جا رہی ہے؟ کوئی مسئلہ وسلہ تو نہیں ہے ناں؟سنا ہے بڑے نوکر چاکر ہیں؟ اچھا خود پہ زیادہ بوجھ مت ڈالا کرو۔۔ تمہاری عادت ہے رات کو دیر تک کام کرنے کی۔۔ کچھ آرام کر لیا کرو۔۔
پڑھائی لکھائی سے تمہاری اسی لگن نے تو مجھے ہمت دی تھی۔۔دل جھوم اٹھا تھاکہ میرا زید ی اتنے بڑے سکول میں داخلے کے قابل ہو گیاہے۔۔ دماغ نے دل کومگر تھپیڑے مارے تھے۔۔ اتنی بھاری فیس کون دے گا؟ اب تک تو جیسے تیسے کپڑے پہن لیتاتھا، اس سکول میں تو ایک دن کے یونیفارم کو دوسرے دن پہننا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ امیروں کے لڑکوں لڑکیوں کے ساتھ پڑھے گا تو روزانہ کا جیب خرچ مہینے بھر کی ساری تنخواہ چٹ کر جائے گا۔۔ لیکن باپ کا دل، کسی اور کی تو کیا، اپنے چوکیدار دماغ تک کی نہیں سنتا۔۔
کتنا مزے کا موسم تھا۔۔ تم نے پہلی بار بش شرٹ اور نیکر پہنی تھی۔ مجھے عجیب لگ رہا تھا کہ ایسے کپڑوں میں تم میرے ساتھ سائیکل پہ جا رہے تھے۔۔ تب ہی مجھے خیال آیا تھا اور میں نے سائیکل۔۔۔ سکول سے کچھ پہلے ہی ایک دکان کے ساتھ کھڑی کر دی تھی۔۔ تم داخلے کے امتحان کے لئے ہال میں بیٹھے تھے۔۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر تمہیں دیکھا تھا۔۔ میں بھاگ کر سکول سے نکلا تھا اور سامنے کی دکان سے ایک چھوٹا سا۔۔ چٹا سفید رومال لا کر تم تک پہنچایا تھا۔۔ ابھی تک رکھا ہوا ہے نہ تم نے اپنی الماری میں؟۔۔ اب یہ الزام بھی اپنی پگلی ماں پہ مت ڈال دینا۔۔وہ اسے چوم چوم کر یہی کہتی رہتی ہے کہ زیدی اپنی چیزوں کس قدر سنبھال کر رکھتا ہے۔
میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا۔۔۔ تمہاری ماں مجھے بار بار ٹہوکے دے رہی ہے۔ اسے تم سے زیادہ پوتے کی لگی ہے۔۔ بتاو۔۔ کیا حال ہے شمریز کا؟ یہی نام رکھا تھا ناں؟ تم بھلے جو بھی کہو،میں تو اسے علی حبیب ہی کہوں گا۔ ابھی بیٹھنا تو شروع نہیں کیا؟ جلدی مت کرنا۔۔ کمر پکی ہو اور گردن خود سنبھال سکے تو بٹھانے کی کوشش کرنا۔۔ مگر پیچھے ہاتھ کا سہارا ضرور دینا۔۔ یہاں ہوتا تو میں خود مالش کرتا، دنوں دنوں میں بیٹھنا تو کیا بھاگنا شروع کر دیتا، تمہیں بھی تو ایسے ہی گردن سہارنا، کمر سیدھی کرنا اور کبھی انگلی پکڑ کر اور کبھی چھوڑ کر۔۔ پاوں پاوں چلنا میں نے ہی سکھایا تھا۔۔۔۔ اس کی ماں کو یہ سب سمجھا دو۔۔۔ گوری ہے تو کیا ہوا۔۔ ماں تو ہے ناں۔۔
دفتر سے واپسی پرگھر کے باہر ریڑھی لگانے کا سوچا تھا کہ یوں اور نہیں تو تمہارے جیب خرچ کے پیسے تو برابر ہوتے رہیں گے۔ تمہاری ماں نے تو کئی بار باہر نکل کر دروازے کے سامنے جھاڑو تک لگا دی تھی۔ میں نے بھی ایک ترکھان سے قسطوں پر ریڑھی خریدنے کی بات چلائی تھی۔ مگر پھر۔۔۔ خیال آیا تھا کہ تمہارے دوست گھر پہ بھی تو آئیں گے۔ میں نے دوسرے محلے کی ایک بیٹھک کرایہ پہ لے لی تھی اور چھوٹا موٹا کریانے کا کاروبار، کافی ہوا تھا۔۔ گلہ مگر تم سے ہمیشہ رہے گا زیدی۔۔۔ مہینے کی تنخواہ لاتا یا کریانے کی کمائی۔۔ تیری فیس کے دن ہوتے یا یاروں دوستوں کے ساتھ مری اسلام آباد جانے کا کوئی موقع۔۔ تم نے کہا بھی تو صرف اس کرماں والی ماں سے؟ مجھ سے کیوں نہیں کہا؟۔۔پاگل کہیں کے۔۔ باپ سے بھی کوئی شرماتا ہے بھلا؟
ادھر موسم کیسا ہے؟ وہاں تو سردی ہو گی؟ تمہاری ماں نے پھر میری پسلی پہ ہاتھ مارا ہے۔۔۔ کہتی ہے وہاں سردی ہی ہوتی ہے۔۔ سورج سال میں کبھی کبھار ہی درشن کرواتا ہے۔ یہاں تو ابھی بہار میں بھی اس کی تڑیاں شروع ہو چکی ہیں۔ اگلے چار پانچ ماہ کے لئے آگ اکھٹی کررہا ہے۔۔ دن میں ہی اتنی برسائے گا کہ راتیں تک دہکتی رہیں گی۔
صبر کر۔۔ میرا ہاتھ تھک گیا ہے۔۔ داہنا پاوں بھی سُن سُن سا لگ رہا ہے۔ کیا کہا؟ ہاں ہاں۔۔ لی تھی دوائی۔۔ وہ والا مسئلہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں سب ٹھیک ہے۔۔۔ تمہاری ماں نے پھر وار کیا ہے۔ اس بار۔۔ باری گردن کی تھی۔۔ اسے شک ہے کہ میں چھپ چھپ کر پھر سے سگریٹ پیتا ہوں۔۔ وہم ہے اس کا۔۔ پگلی کہیں کی۔۔ نہیں یار۔۔ تم ہمیشہ ماں کی ہی طرفداری کرنا۔ اتنی دور سے تمہیں کیسے پتہ بھلا۔۔ نہیں پیتایار۔۔تمہاری ماں چائے بنانے گئی ہے۔ پتہ تو ہے تمہیں۔۔ میں جب بھی کچھ لکھنے بیٹھتا ہوں۔۔ اسے چائے کی پڑ جاتی ہے۔۔ پینتیس سال سے مجھے چائے پلائی چلے جا رہی ہے۔۔اچھا سنو۔۔ سب سے جھوٹ بول سکتا ہوں۔۔ تم سے نہیں۔۔ کبھی کبھی گیس سی محسوس ہوتی ہے تو دو چار کش لگا لیتا ہوں۔۔
اچھا تمہاری ماں بتا رہی تھی وہاں بڑے بڑے پارک ہیں؟ جاتے تو ہو ناں وہاں؟ اچھا وہ پگلی کہتی ہے ان پارکوں میں ہر قسم کے پھلوں کے درخت بھی ہیں۔۔ اور میٹھے پانی کے چشمے بھی؟ کوئی روک ٹوک تو نہیں؟ پھل کھا لئے کرو۔۔ صحت اچھی رہتی ہے۔۔
اچھا تمہاری ماں آ رہی ہے۔۔ اب ہر بار کی طرح احسان جتائے گی کہ چائے بنا لائی ہوں۔ ان چونتیس پینتیس سالوں میں شاید پچاس ہزار بار وہ یہ احسان جتا چکی ہے۔ پھر ہنستی بھی ہے۔۔ ابھی بھی ہنس رہی ہے۔
سنو۔۔۔ اسے کش لگانے والی بات مت بتانا۔۔۔
تمہیں یاد ہے جب تمہیں کالج کے داخلے کے لئے پیسے چاہئیں تھے اور تمہاری پگلی ماں نے بالیاں بیچنے کی چغد ماری تھی؟ حالانکہ میں نے اسے کہا تھا کہ داخلے کی تاریخ سے پہلے ہی مجھے جی پی فنڈ کی رقم مل جائے گی۔۔ بس تمہارے معاملے میں ہر وقت اتاولی ہی رہتی تھی۔۔ تمہاری افسری سے زیادہ اسے تمہاری شادی کی جلدی تھی۔۔
ایک مزے کی بات بتاوں؟ جب تم نے انٹر کر لیا تھا اور انجینئرنگ کے داخلے کی تیاری کر رہے تھے تو تمہاری ماں پتہ ہے کیا کر نے میں لگی تھی؟ درزی سے تمہارے کپڑوں سے بچ جانے والے کپڑوں سے ننھے ننھے چولے سیتی رہتی تھی۔۔ وہ بھی مجھ سے چھپ چھپ کر۔۔ ایک دن میں نے پکڑ لیا۔۔ پہلے بھتیجے کے ہاں بچے کی متوقع آمد کا بہانہ بنایا۔۔۔ پھر پھیکی پھیکی مسکراہٹ سے کہنے لگی کہ زیدی کے بیٹے کے لئے بنا رہی ہوں۔۔۔ کیا پتہ زندہ رہوں یا نہ رہوں۔۔ ہے نہ پگلی؟
تمہاری ماں نے پھر میرے سر پر ہاتھ مارا ہے۔۔ کاش۔۔ یہ دو چار جماعتیں نہ پڑھی ہوتی۔۔۔
اچھا سنو۔۔ ماں کہہ رہی ہے۔۔ اس عید پہ تو آو گے ناں؟ اتنی عیدیں گزر چکیں۔۔۔ ہر بار کہتے ہو مگر آتے نہیں ہو۔۔ بہو کو بھی فوٹو میں دیکھا اور علی حبیب کی بھی صرف تصویر بھیجی۔۔
زیدی۔۔ بیٹا۔۔ یار اس بار آ جاؤ۔۔۔ بہو کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی آرزو بھی ہے اور علی حبیب کو کندھے پہ گھمانے کی چاہ بھی۔۔۔ ہاں ہاں وہی۔۔ شمریز۔۔ تم اسے میرے پاس لے آو۔۔ شمریز ہی کہوں گا۔۔ وعدہ۔
اچھا۔۔دل تو بہت کر رہا ہے لیکن بوڑھی انگلیاں اب ساتھ نہیں دے رہیں۔۔ تمہاری مصروفیت کا بھی اندازہ ہے۔۔اس لئے آج بس یہیں تک کافی ہے۔۔ ماں بہت بہت پیار دے رہی ہے۔۔ تمہیں بھی، بہو کو بھی اور علی حبیب۔۔۔۔ میرا مطلب ہے شمریز کو بھی۔۔
تم نے مجھے تو بوسہ بس کبھی کبھار ہی دیا۔۔ میری طرف سے خود کو اور میرے پوتے کو بہت سے بوسے دے دینا یاد سے۔۔
ضرور دینا۔۔ یہ نہ ہو کہ اب مجھے تمہاری ماں کو ساتھ لے کر وہیں آنا پڑے۔۔ گلے سے لگانے، بہت سے بوسے دینے۔۔
وقت ملے تو جواب ضرور دینا۔
تمہاری راہ تکتاتمہارا باپ۔۔ تمہاری یاد میں آنکھیں بہاتی تمہاری پگلی ماں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے خط کو ایک نظر دیکھا۔۔ چوم کر لفافے میں بند کیا اور گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ واسکٹ کی جیب سے سرخ رنگ کا موٹا سا دھاگہ نکالا اور اسے خط کے گرد لپیٹ کر اپنے اوپر جھکے ہوئے کریر کے درخت کی ایک شاخ سے باندھ دیا۔ جہاں ایسے ہی کئی خط۔۔ پہلے ہی لٹک رہے تھے۔۔ نیچے قبر کے کتبے پر لکھا تھا۔۔
”زید وقار شہید“
تاریخ پیدائش: 12اپریل1993
تاریخ شہادت:12اپریل 2004
وجہ شہادت: بم دھماکہ بمقام معیار معمار پبلک سکول
اناللہ وانا الیہ راجعون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔