26/10/2025
آج کل افغانستان میں بھارت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کا پانی روکنے کے لیے دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کی خبریں گردش میں ہیں۔ یہ معاملہ بظاہر سیاسی نعرے بازی اور علاقائی دباؤ کا حصہ لگتا ہے، مگر زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دریائے کنڑ (Kunar River) دراصل پاکستان کے ضلع چترال سے نکلنے والے دریائے چترال (جسے دریائے کابل بھی کہا جاتا ہے) کی ایک شاخ ہے، جو بعد میں افغانستان میں داخل ہو کر دریائے کابل سے ملتی ہے، اور پھر دوبارہ پاکستان میں آ کر دریائے سندھ کا حصہ بن جاتی ہے۔ یعنی یہ ایک مشترکہ آبی نظام (shared river system) ہے، جس کے دونوں ممالک پر ماحولیاتی اور معاشی اثرات براہِ راست پڑتے ہیں۔
اگر افغانستان اس دریا پر ڈیم تعمیر کرتا ہے تو بظاہر اسے توانائی اور آبپاشی کے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن اس منصوبے کے لیے اربوں ڈالر کی لاگت، غیر معمولی تکنیکی مہارت، عالمی مالیاتی اداروں کی منظوری، اور کئی سال کی تعمیراتی مدت درکار ہوگی۔ موجودہ طالبان حکومت کے پاس نہ تو اتنے مالی وسائل ہیں، نہ عالمی سرمایہ کاری کی حمایت، اور نہ ہی وہ تکنیکی صلاحیت جو اتنے بڑے ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے ضروری ہے۔
دوسری جانب، اگر طالبان حکومت سیاسی مقاصد یا بھارتی اثرورسوخ کے تحت اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے خطے پر سنگین ماحولیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان اگر جواباً دریائے کنڑ کے چترال والے منبع پر انجینئرنگ کے ذریعے پانی کے بہاؤ کا رخ ٹنل یا بائی پاس کے ذریعے تبدیل کر دے، تو اس کا نتیجہ افغانستان کے مشرقی صوبوں—خاص طور پر کنڑ، ننگرہار، لغمان اور کابل—میں شدید خشک سالی، زرعی تباہی اور قحط کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
اس طرح کی صورتحال افغانستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی، کیونکہ ان علاقوں کی معیشت کا دار و مدار اسی دریا کے پانی پر ہے۔ اگر پانی کی کمی ہوئی تو خوراک کا بحران، نقل مکانی (mass migration) اور اندرونی تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے نزدیک طالبان حکومت کا یہ بیان محض جذباتی یا سیاسی نعرہ زیادہ معلوم ہوتا ہے، نہ کہ کوئی حقیقت پسندانہ یا قابلِ عمل منصوبہ۔ بھارت نے ماضی میں افغانستان میں کئی چھوٹے آبی منصوبوں میں تعاون کیا ہے، جیسے سلما ڈیم (Indo-Afghan Friendship Dam)، مگر کنڑ جیسا بڑا ڈیم بھارت کے لیے بھی ایک جغرافیائی اور سیاسی چیلنج ہے، کیونکہ اس کے اثرات خطے کی توازنِ آب (hydro balance) پر براہِ راست پڑیں گے۔
آخرکار، اگر افغانستان اور پاکستان پانی کے معاملے کو باہمی دشمنی کی بجائے سفارتی مذاکرات، مشترکہ آبی انتظام (joint water management) اور ریجنل واٹر ایگریمنٹ کے ذریعے حل کریں، تو یہ دونوں ممالک کے لیے توانائی، زرعی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، پانی کا یہ تنازعہ مستقبل میں نئے خطے کی جنگوں کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔