Punjab Media Cell

Punjab Media Cell Punjab Media Cell

26/10/2025

آج کل افغانستان میں بھارت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کا پانی روکنے کے لیے دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کی خبریں گردش میں ہیں۔ یہ معاملہ بظاہر سیاسی نعرے بازی اور علاقائی دباؤ کا حصہ لگتا ہے، مگر زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دریائے کنڑ (Kunar River) دراصل پاکستان کے ضلع چترال سے نکلنے والے دریائے چترال (جسے دریائے کابل بھی کہا جاتا ہے) کی ایک شاخ ہے، جو بعد میں افغانستان میں داخل ہو کر دریائے کابل سے ملتی ہے، اور پھر دوبارہ پاکستان میں آ کر دریائے سندھ کا حصہ بن جاتی ہے۔ یعنی یہ ایک مشترکہ آبی نظام (shared river system) ہے، جس کے دونوں ممالک پر ماحولیاتی اور معاشی اثرات براہِ راست پڑتے ہیں۔

اگر افغانستان اس دریا پر ڈیم تعمیر کرتا ہے تو بظاہر اسے توانائی اور آبپاشی کے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن اس منصوبے کے لیے اربوں ڈالر کی لاگت، غیر معمولی تکنیکی مہارت، عالمی مالیاتی اداروں کی منظوری، اور کئی سال کی تعمیراتی مدت درکار ہوگی۔ موجودہ طالبان حکومت کے پاس نہ تو اتنے مالی وسائل ہیں، نہ عالمی سرمایہ کاری کی حمایت، اور نہ ہی وہ تکنیکی صلاحیت جو اتنے بڑے ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے ضروری ہے۔

دوسری جانب، اگر طالبان حکومت سیاسی مقاصد یا بھارتی اثرورسوخ کے تحت اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے خطے پر سنگین ماحولیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان اگر جواباً دریائے کنڑ کے چترال والے منبع پر انجینئرنگ کے ذریعے پانی کے بہاؤ کا رخ ٹنل یا بائی پاس کے ذریعے تبدیل کر دے، تو اس کا نتیجہ افغانستان کے مشرقی صوبوں—خاص طور پر کنڑ، ننگرہار، لغمان اور کابل—میں شدید خشک سالی، زرعی تباہی اور قحط کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

اس طرح کی صورتحال افغانستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی، کیونکہ ان علاقوں کی معیشت کا دار و مدار اسی دریا کے پانی پر ہے۔ اگر پانی کی کمی ہوئی تو خوراک کا بحران، نقل مکانی (mass migration) اور اندرونی تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے نزدیک طالبان حکومت کا یہ بیان محض جذباتی یا سیاسی نعرہ زیادہ معلوم ہوتا ہے، نہ کہ کوئی حقیقت پسندانہ یا قابلِ عمل منصوبہ۔ بھارت نے ماضی میں افغانستان میں کئی چھوٹے آبی منصوبوں میں تعاون کیا ہے، جیسے سلما ڈیم (Indo-Afghan Friendship Dam)، مگر کنڑ جیسا بڑا ڈیم بھارت کے لیے بھی ایک جغرافیائی اور سیاسی چیلنج ہے، کیونکہ اس کے اثرات خطے کی توازنِ آب (hydro balance) پر براہِ راست پڑیں گے۔

آخرکار، اگر افغانستان اور پاکستان پانی کے معاملے کو باہمی دشمنی کی بجائے سفارتی مذاکرات، مشترکہ آبی انتظام (joint water management) اور ریجنل واٹر ایگریمنٹ کے ذریعے حل کریں، تو یہ دونوں ممالک کے لیے توانائی، زرعی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، پانی کا یہ تنازعہ مستقبل میں نئے خطے کی جنگوں کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔

چٹی کوٹھی گوجرانوالہ ؛یہ بدنصیب عمارت گوجرانوالہ شہر میں ”وائٹ پیلس“ یا سفید محل (اور سفید کوٹھی) کے نام سے مشہور ہے۔ چو...
24/10/2025

چٹی کوٹھی گوجرانوالہ ؛
یہ بدنصیب عمارت گوجرانوالہ شہر میں ”وائٹ پیلس“ یا سفید محل (اور سفید کوٹھی) کے نام سے مشہور ہے۔ چونکہ یہاں پاسپورٹ آفس بھی رہ چکا ہے اس لیئے لوگ عام طور پر اسے پرانا پاسپورٹ آفس بھی کہتے ہیں۔
سفید کوٹھی گوجرانوالہ کے ریلوے اسٹیشن کے ساتھ چار دیواری کے اندر واقع ہے جبکہ باہر سے بھی اس کی کچھ جھلک نظر آ جاتی ہے۔ ”روزنامہ دنیا“ میں شائع ایک خبر کے مطابق دو ایکڑ پر قائم اس کوٹھی کی تعمیر کا آغاز 1934 میں ہوا اور آٹھ سال کی محنت کے بعد 1942 میں مکمل ہوا۔ عمارت کا دو منزلہ نقشہ انگلینڈ سے تیار کروایا گیا تھا جس کے مطابق اس میں 48 سے 50 کمرے بنائے گئے تھے جن کی چنوائی ماہر کاریگروں نے اعلیٰ معیار کی خالص میرا مٹی سے کی تھی۔ اس دور میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کمروں کو ہوادار رکھنے کے لیئے دیواروں کی اونچائی 24 سے 30 فٹ تک رکھی گئی تھی جبکہ چوڑائی 13 انچ تک ہے۔
یہ عمارت ”لاہب سنگھ“ کی ملکیت تھی جو اپنی بیوی سے شدید محبت کرتا تھا اور یہ کوٹھی اس نے اپنی بیوی کو تحفہ دینے کے لیئے بنوائی تھی (جبکہ ایک جگہ اس کوٹھی کو کسی چرن سنگھ کے نام سے بھی منسوب کیا گیا ہے)۔
عمارت کی دلکشی کے لیئے اس نے یہاں چار فوارے بھی نصب کروائے تھے۔ دروازے کھڑکی اور روشندان دیار کی مہنگی لکڑی سے بنائے گئے تھے۔ یہ سفید کوٹھی بھارت کے بڑے صنعتی گروپ ''ٹاٹا گروپ آف کمپنیز'' کے مالکان کی رہائش گاہ بھی رہ چکی ہے۔ کچھ سال قبل وہ اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ اسے دیکھنے بھی آئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ جگہ نواحی گاؤں نڈالہ سندھواں کے زمیندار چوہدری نور احمد صاحب کو الاٹ ہوئی تھی۔
سنسان سی اس کوٹھی میں اب نہ کوئی رہتا ہے نہ یہاں کوئی آتا ہے۔ اس کے در دروازے بھی خستہ حال ہوچکے ہیں۔ سامنے لگےتین فوارے بھی اپنی خوبصورتی کھو چکے ہیں البتہ عمارت کا ڈھانچہ اب بھی کھڑا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس کا ماضی انتہاٸی شاندار رہا ہو گا۔🥀🌹🍁🍁

20/10/2025

پاکستان روس اور امریکہ سے زیادہ طاقتور نہیں لیکن ۔۔۔۔ !!
کسی نے کہا کہ 'جنگ افغانیوں کے لیے کھیل تماشا ہے' جواب ہے کہ 'اس لیے کیونکہ دونوں بار حملہ آور قوتیں اپنے ساتھ بےپناہ دولت بھی لائی تھیں۔' صرف امریکہ نے بیس سال میں 2 ہزار ارب ڈالر افغانستان میں خرچ کیا جس نے کباڑیوں کو بھی ارب پتی کر دیا تھا۔ ایسا ہی روس والی جنگ میں بھی ہوا تھا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ جنگ بھوک اور افلاس لائیگی۔
افغانستان کی ضرورت کی 70٪ اشیاء پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ سے جاتی ہیں جو بند ہوچکی ہے۔ اس لیے انکی طرف سیز فائر کے دوران جو مطالبات پیش کیے جارہے ہیں ان میں چیک پوسٹیں واپس کرنے کے بعد دوسرے نمبر پر ٹرانزٹ ٹریڈ کھولنے کا مطالبہ ہے۔ پاکستان نے مشترکہ دفاعی معاہدے کے تحت ابھی تک سعودی عرب کو افغانستان کی امداد اور ترسیلات زر روکنے کا نہیں کہا لیکن ضرورت پڑنے پر کہہ دے گا۔
لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں مختلف ہیں۔
پہلی یہ کہ پاکستان افغانستان کے اندر فوجیں نہیں بھیج رہا۔ افغانیوں کو یہی جنگ آتی کہ قابض فوج کی گاڑی گزر رہی ہے تو سڑک کے کنارے گڑھا کھود کر بم لگا کر بھاگ جاؤ اور گاڑی اڑا دو یا فائرنگ کر کے بھاگ جاؤ یا کسی کو نشے کے بھاری ڈوز دے دے کر ذہنی مفلوج کر کے پھر اس سے بم باندھ کر بھیج دو۔ لیکن یہ سب تب ہوسکتا ہے جب پاکستان افغانستان کے اندر ڈیرے ڈال دے۔ پاکستان ایسا نہیں کر رہا۔ پاک فوج صرف سرحد پر کھڑی ہے جب افغانی حملہ کرنے آتے ہیں ان پر جوابی حملہ کرتی ہے اور وہ بھاگ جاتے ہیں۔
دوسری اس سے پہلے جنگوں میں اکثر افغان خاندان جنگ زدہ علاقے سے بھاگ کر پاکستان آجاتے تھے۔ اپنی فیملیاں یہاں محفوظ کر کے صرف جنگ کے فوائد سمیٹنے واپس جایا کرتے تھے۔ پاکستان کے ساتھ جنگ میں الٹ ہے۔ جو افغان پاکستان میں موجود ہیں انکو بھی واپس بھیجا جا رہا ہے۔ ایران کے دروازے بھی افغانیوں پر بند ہوچکے ہیں۔
تیسری امریکہ اور روس نے افغانستان کی حکومتوں کے ساتھ ملکر گوریلوں کے خلاف لڑنے کی کوشش کی اور مار کھائی۔ پاکستان اس کے الٹ کرے گا۔ وہ افغان طالبان کی حکومت کے خلاف شمالی اتحاد کے گوریلوں کو سپورٹ کرنے کا سوچ رہا ہے۔ انکو پاکستان میں ایک دو ٹھکانے بنا کر دینے ہونگے۔ اگر بلوچستان میں انکو جگہ دی اور ان پر بی ایل اے نے حملہ بھی کر دیا تو جواب میں وہ افغانستان میں ان سے نمٹ لینگے یوں پاکستان کو مزید آسانی ہوجائیگی۔
اور آخری چیز یہ کہ کچھ افغان تجزیہ کاروں کو امید تھی کہ پاکستان سیز فائر نہیں مان رہا تو گولہ بارود ختم کروا کر خود ہی رک جائیگا۔ پاکستان نے انٹلیجنس انفارمیشن کی بنیاد پر پہلے اڑتالیس گھنٹوں میں تمام اہم ترین ٹارگٹس کو نشانہ بنا کر بڑے حملے بند کر دئیے ہیں۔ اب وہ افغانستان کی ہر شرارت کے جواب میں ان کے اہم ترین ٹھکانوں اور راہنماؤں پر ایک ایک سٹرائیک کرے گا۔ یہ پاکستان سو سال بھی کرے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
لہذا پاکستان امریکہ اور روس سے زیادہ طاقتور نہیں۔ لیکن پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ پاکستان کے ساتھ جنگ کو افغانی کھیل تماشے کی طرح انجوائے نہیں کر سکیں گے۔
لہذا فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) کی حمایت اور مہمان نوازی چھوڑ دیں

Send a message to learn more

20/10/2025

دربار عالیہ حضرت بابا شاہ کمال چشتی قصوری پر حاضری* ۔۔۔۔ ....... ........ *کبھی ظلم ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ نٸی نویلی دلہن کو پہلی رات اپنے شوہر کی بجاۓ بادشاہ وقت کے ساتھ گزارنا ہوتی تھی ۔* شہر کے قوانین میں ایسا قانون تھا اور حکم عدولی پر موت کا پیالہ لبوں کو لگانا پڑتا ۔ یہ کوٸی کہانی نہیں بلکہ تاریخ کے ان سیاہ صفحات پر روشنی ڈال رہا ہوں جہاں سچ کو چھپایا جاتا ہے ۔ایک تاریخی شہر روۓوال جو اب قصور کے نام سے جانا جاتا ہے اکبری کے عہد سے پہلے کی بات ہے کہ یہاں راۓ سنگھ نامی شخص حکومت کیا کرتا تھا اور اس کا قانون تھا کہ نٸی دلہن کے لیے شادی کی پہلی رات راجہ راۓ سنگھ کے پاس گزارنا لازم ہے ۔یہ *سولہویں اور سترویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا* ۔اس فرعون وقت نے اپنی رعایا میں ایسا رواج ڈالا کہ وہ ہر دلہن کے ساتھ پہلی رات گزارتا۔قانون قدرت کی دلچسپ بات تو یہ ہے کہ *جہاں فرعون ہو وہاں موسی تو رب بھیجتا ہی ہے* ۔ اس وقت یہاں منصب موسی پر کمال چشتی رح فاٸز تھے ۔ *ایک رات آپ کی ایک مریدنی جو دلہن بنی تھی فرعون وقت نے پیغام بھیجا کہ اسے بتاو یہاں کا قوانین میں طے کرتا ہوں کیا اسے علاقے کا رواج معلوم نہیں ۔* اس مسلمان لڑکی کے گھر والوں کو میرا حکم پہنچاو کہ جلد از جلد اسے میری آرام گاہ میں بھیجا جاۓ ۔ سپاہی جیسے ہی راۓ سنگھ کا یہ حکم لے کر اس گھر کی دہلیز پر پہنچے تو سب اہل خانہ پریشان ہو گٸے ۔ *لڑکی تیار ہوٸی دلہن لباس زیب تن کیا اور سیدھا بابا شاہ کمال چشتی رح کی بارگاہ میں حاضر ہوگٸی ۔*
بابا جی نے پوچھا
ہاں بیٹی کیا پریشانی ہے
لڑکی نے ساری پریشانی بیان کر دی ۔
*ادھر فرعون وقت کو بھی خبر ہو گٸی کہ اس لڑکی نے میرا قانون توڑا ہے میری حکم عدولی کی ہے اور اس ٹیلے والے فقیر کے پاس پناہ لینے بھاگ گٸی ہے ۔*
راۓ سنگھ نے اپنے سپاہی بھیج کر بابا جی کو پیغام بھیجوایا کہ اس لڑکی پر میرا حق ہے یہاں کے قوانین کے مطابق ۔لہذا اسے میرے سپاہیوں کے ساتھ میری خواب گاہ میں بھیج دیا جاۓ گا اور اگر آپ کی طرف سے حکم عدولی کی گٸی تو آپ بھی میرے عتاب سے نہیں بچ سکیں گے ۔
*سپاہیوں کا پیغام سن کر بابا جی نےفرمایا کہ جاو اسے کہو یہاں قانون اللہ کا چلتا ہے اور اگر اللہ کے قوانین پر ہاتھ ڈالا تو تمھیں اور تمھاری شہنشایت کو نیست و نابود کر دیا جاۓ گا ۔لہذا تم اپنی حرکات سے باز آو اور اس ظلم سے توبہ کر لو ۔*
سپاہیوں نے واپس جا کر پیغام دیا کہ جناب وہ فقیر تو اپنے جلال میں آپ کو اس طرح تنبیہ کر رہا ہے ۔
راۓ سنگھ نے فورا بابا جی کی گرفتاری کے لیے اپنے پیادہ اور ہاتھی سوار سپاہی بھیجے ۔اس وقت یہ ٹیلہ شہر سے خاصا اونچا تھا اور آج بھی یہ ٹیلہ جہاں بابا جی کا مزار ہے بلندی پر ہے ۔ سپاہیوں نے ٹیلے کو گھیر لیا اور کہا بلند آواز سے کہنے لگے شاہ کمال حاکم وقت نے تمھیں گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیا ہے لہذا خود کو ہمارے حوالے کر دو ۔ *ادھر اللہ کافقیر تھا اور اللہ کے ولی صرف اللہ کی مانتے ہیں ۔اللہ اپنے پیاروں کو بہت سے اختیارات دیتا ہے ۔ آپ نے غصہ کے عالم میں اپنا پیالہ الٹا کر دیا۔ اس طرح یہ شہر غرق ہو گیا۔ یہاں کے بزرگ بتاتے ہیں* اس الٹنے والے شہر کا نام روہےوال تھا اور عہدِ اکبری میں قصور روہیوال کا ایک قصبہ تھا جو اکبر نے تان سین کو عطا کیا تھا
۔ *اب روۓ وال آج کھنڈرات کی ایک داستان اور نشان عبرت بنا ہوا ہے جسے آثار قدیمہ کا محکمہ سنھبالے ہوۓ ہے اور قصور شاہ کمال چشتی رح کی نظر سے آباد ہے اور پھل پھول رہا ہے ۔*
فیروز پور روڈ کے عین کنارے پر تصاویر میں نظر آنے والا یہ مقبرہ سڑک سے قریبا پچاس فٹ کی بلندی پر ہے۔ *مقبرے تک ایک سو دوسیڑھیاں ہیں۔* مسلمان بادشاہ شیر شاہ سوری نے اسی راستے سے گزر کیا یہاں سے ٹیلے کاٹ کر یہ طویل ترین سڑک بنوائ تھی۔
*اس خوبصورت سفر میں میرے لیے قابل فخر بات یہ تھی کہ بابا کمال چشتی رح کی درگاہ کے سجادہ نشین پیر بدر ظہور چشتی صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔* آپ بھی خوش اخلاق ہیں اور اپنے اسلاف کی خوبیاں آپ میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔ سب سے اہم بات عشق رسول ﷺ ہے ۔ *اسی عشق کی بدولت زمانہ طالب علمی میں ATI انجمن طلبا اسلام سے منسلک ہوۓ* اور ایک اچھے لیڈر ثابت ہوۓ اب آپ کی سیاسی وابستگی پاکستان فلاح پارٹی سے ہے۔جس میں اساتذہ اور پڑھے لکھے سجادہ نشینوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے ۔ *آپ کے بزرگ شاہ کمال یعنی بابا جی رح کی زندگی پر اگر غور و فکر کی جاۓ تو ہم دیکھیں گے کہ ان کی زندگی کا ہر پہلو ہی ہمیں الا ان اولیا ٕ اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون کا پیغام دیتا ہے ۔*
بابا کمال چشتی رح سیالکوٹ سے قصور تشریف لائے۔ اس ضلع کی تحصیل پسرور کا ایک بڑا قصبہ کمال پور چشتیاں انہی کے نام سے موسوم ہے جہاں بابا صاحب نے عمرِ عزیز کا ایک بڑا حصہ تبلیغِ دین میں صرف کیا اور پھر اپنے مرشد کے حکم پر قصور کو اپنا مسکن بنایا۔ آپ کا مزار آج بھی قصورمیں مرجعِ خاص و عام ہے کہا جاتا ہے کہ *پاکستان میں کوئی دوسرا مزار اتنی بلندی پر واقع نہیں۔ مجھے تو یوں لگا کہ اللہ نے اپنے اس فقیر کو ارضی بلندی بھی دی اور روحانی بلندی بھی ۔دور سے ہی ان کے مزار کا نظر آنے والا گنبد بھی اپنے اندر اللہ سےدوستی کی دعوت دیتا ہے اور فرعون وقت کے مقابل اللہ والوں کی شان کا منہ بولتا ثبوت ۔* مزار کے سامنے سے گزرنے والی سڑک بار بار بناٸی گٸی ہے تقریبا یہ اصل سڑک سے تیس فٹ اونچی ہے پھر بھی بابا جی کا مزار بلند و بالا ہونے میں اپنی شان آپ ہے ۔
*مزار کے باہر ایک قبر موجود ہے جس کے کتبہ پر ”شاہ کمال چشتی کی خاص مریدنی مائی صاحبہ“ لکھا ہے۔*
رات کے منظر سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے شہر کی بلند ترین جگہ پر کھڑے ہو کر روحانیت بھی پاٸیے اور ٹھنڈی ہوا سے بدن کی تازگی بھی لیجیے ۔ *اگر آپ قصور جاٸیں تو یہاں ضرور حاضری دیجیے* ۔۔ اللہ کریم ہمیں اپنے دوستوں کے راستے پر چلنے کی توفیق عنایت کرے ۔۔ ہمیں بھی نیکوں کی صف میں شامل کرے ۔امین
والسلام

Send a message to learn more

06/10/2025

مقبوضہ جموں کشمیر کے جموں شہر کے بیچ میں سے گذرنے والے دریائے توی کا ایک منظر ۔۔۔۔۔۔۔

یہ دریائے توی تقریبن 150 کلومیٹر لمبا ہے جو جموں شہر کے مشرق میں واقع کوھ ھمالیہ کے پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے سے نکل کر آگے مغرب کی جانب جموں شہر کے بیچ میں سے گذر کر وہاں سے 14 کلومیٹر کے فاصلے کے بعد یہ دریائے توی پاکستان کے ضلع سیالکوٹ میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر پاکستان میں داخل ہونے کے مزید 15 کلومیٹر بعد دریائے توی ھیڈ مرالا پر آ کر دریائے چناب سے مل جاتا ہے ۔ جموں شہر دریائے توی کے دونوں کناروں پر آباد ہے اور جموں شہر میں یہ دریا دو شاخوں میں بھی تقسیم ہو جا جاتا ہے اور وہ دونوں شاخیں اس تصویر میں بھی واضح نظر آ رہی ہیں اور یہ دونوں شاخیں جموں شہر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے کے بعد پاکستان کے حدود میں دوبارہ ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں ۔ اس تصویر میں سامنے سے پیر پنجال کا برف پوش پہاڑی سلسلہ بھی نظر آ رہا ہے جہاں سے یہ دریائے توی شروع ہوتا ہے ۔

جموں شہر کی آبادی تقریبن ساڑھے سات لاکھ افراد پر مشتمل ہے جن میں سے 81 فیصد ھندو ، 9 فیصد سکھ اور 8 فیصد مسلمان ہیں ۔ جموں شہر کے تقریبن 55 فیصد لوگ پنجابی زبان کا ڈوگری لہجہ بولتے ہیں اور 22 فیصد لوگ پنجابی کا ماجھا لہجہ بولتے ہیں جس کو پنجابی کا معیاری یا اسٹینڈرڈ لہجہ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ جموں شہر سیالکوٹ شہر سے 35 کلومیٹر دور شمال مشرق کی جانب واقع ہے اور انگریزوں نے سیالکوٹ اور جموں کے درمیان ریلوے لائین بھی بچھائی تھی جو ابھی تک بھی موجود ہے ۔ سن 1846ع میں جموں کشمیر پر ڈوگرہ ھندو خاندان کی حکومت قائم کرنے والے مہاراجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کا تعلق بھی اس جموں کے علاقے سے تھا ۔

فاروق بجارانی
تحصیل تنگوانی ، ضلع کشمور (سندھ)

پاکستان کی عظیم بیٹی فاطمہ صغریٰٰ : یہ وہ بہادر لڑکی ہے جس نے 1947 میں لاہور سیکرٹیریٹ  کی چھت پر لگا برطانوی سامراج کا ...
03/10/2025

پاکستان کی عظیم بیٹی فاطمہ صغریٰٰ : یہ وہ بہادر لڑکی ہے جس نے 1947 میں لاہور سیکرٹیریٹ کی چھت پر لگا برطانوی سامراج کا جھنڈا اتار کر اپنا سبز رنگ کا دوپٹہ لہرا دیا تھا ۔۔۔۔ اللہ کریم انکے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین، فاطمہ صغری کا انتقال 2017 میں لاہور میں 84 سال کی عمر میں ہوا، انکے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں انہیں لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں سپرد خاک کیا گیا تھا ۔۔۔۔

Shela Bagh Railway Station, 1905Historical picture of a train parked at Shela Bagh railway station in Qila Abdullah dist...
30/09/2025

Shela Bagh Railway Station, 1905

Historical picture of a train parked at Shela Bagh railway station in Qila Abdullah district Balochistan around 1905. This station is located at the entrance of Khwajak tunnel.

I am neither the light of someone's eyes nor the contract of someone's heartI am a Musht-e-Gubar who could not be useful...
29/09/2025

I am neither the light of someone's eyes nor the contract of someone's heart
I am a Musht-e-Gubar who could not be useful

I am neither the medicine of pain of liver nor the sweet eyes of anyone
I am neither here nor there. I am neither Shakeb nor Karar

My time has separated from me, my face has spoiled.
I am the crop of the garden which was ruined by the treasure

Why did someone come and offer four flowers to me?
Someone come and light the light, why I am the shrine of Beksi

I am neither lag nor attachment nor suhag nor good
I am the creator which is not left, I am the singer

I am not Nagma-e-Jaan-Faza. Will anyone do after listening to me?
I am of great illness, I am always a call of sadness.

The one who got spoiled, I am the fate, the one who got ruined, I am kind.

کیا آپ جانتے ہیں کے پاکستان کی قومی ایر لائن PIA کس شخصیت نے حکومت پاکستان کو تحفے میں عطیہ کی تھییہ ہیں ہندوستان سے پاک...
23/09/2025

کیا آپ جانتے ہیں کے پاکستان کی قومی ایر لائن PIA کس شخصیت نے حکومت پاکستان کو تحفے میں عطیہ کی تھی
یہ ہیں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجر جناب ابوالحسن اصفحانی جو متحدہ ہندوستان میں اورینٹ ایرویز کے مالک تھے
پاکستان کے قیام کے وقت حکومت پاکستان مالی طور پر اس قابل نہ تھی کے اپنی ایرلائن بنا سکے
سو ابولحسن ا صفحانی نے وقت کی پکار کو لبیک کیا اور اپنی ایرلائن اورینٹ ایرویز کے ساتھ پاکستان میں آبسے
اور اپنی ایرلائن کو مکمل طور پر نئی مملکت پاکستان کو عطیہ کر دیا جو پاکستان کی قومی ایرلائن بنی اور اس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن رکھ دیا گیا۔
محسن پاکستان ابوالحسن اصفحانی کو ہمارا سلام

21 ستمبر —•— 1857 دی جنگ ِ  آزادی دے  منے پر منے  پنجابی مزاحمت کار  سردار  راۓ احمد خان کھرل شھید  دا یوم ِ شھادت جھامر...
21/09/2025

21 ستمبر —•—

1857 دی جنگ ِ آزادی دے منے پر منے پنجابی مزاحمت کار
سردار راۓ احمد خان کھرل شھید دا یوم ِ شھادت

جھامرے دے عظیم سپوت نے پنجاب دی پگ نوں اُچا رکھیا ۔۔

اپنے بے خوف مِتراں دی قیادت کر کے انگریزی استعمار دے خلاف مزاحمت ، جرأت تے بے جگری دی نویں تاریخ مرتب کیتی

راۓ احمد خان کھرل ، مراد فتیانہ تے انہاں دے عظیم مجاھد ساتھیاں دی جدوجہد نوں سلام

مغلیہ حکومت میں صوبہ پنجاب کے گورنرزقارئین مغلیہ سلطنت ہندوستان پر قائم ہونے والی پہلی واحد سلطنت تھی جس نے اس سرزمین کے...
11/09/2025

مغلیہ حکومت میں صوبہ پنجاب کے گورنرز

قارئین مغلیہ سلطنت ہندوستان پر قائم ہونے والی پہلی واحد سلطنت تھی جس نے اس سرزمین کے شہر دہلی پر 316 سال تک حکومت کی اور سرزمین پنجاب پر 1526ء سے لے کر 1758ء تک پورے 232سال حکومت کی۔اس 2 سو سالہ دور حکومت میں ہمارے پیارے صوبہ پنجاب پر اس دور کے کون کون سے گورنر مرکز کی جانب سے فائز ہوتے رہے آئیے ان کے نام جانتے ہیں۔

ظہیرالدین محمد بابر کے دور حکومت میں
(1526 تا 1530ء)

1۔میریونس علی خان

نصیرالدین محمد ہمایوں کے دور حکومت میں
(1530 تا 1540)

2۔مرزا کامران

3۔ابوالمعالی

جلاالدین محمد اکبر کے دور حکومت میں
(1556 تا 1605ء)

4۔خضر خواجہ خان

5۔حسین خان ٹکریہ

6۔شمس الدین محمد خان اتکہ

7۔قطب الدین خان

8۔میرمحمدخان

9۔خاں جہان حسین قلی بیگ

10۔شاہ قلی خان

11۔سعید خاں چغتائی

12۔راجہ بھگونت داس (ہندو گورنر)

13۔اسماعیل قلی خان ذوالقدر

14۔قلیچ خان اندیجانی

15۔خواجہ شمس الدین خوفی

16۔خواجہ مومن

17۔نواب مرتضی خان

نورالدین محمد جہانگیر کے دور حکومت میں
(1605 تا 1627ء)

18۔اعتمادالدولہ غیاث بیگ

19۔قاسم خان

20۔صادق خان

شہاب الدین محمد شاہجہان کے دور حکومت میں
(1627 تا 1658ء)

21۔آصف خان

22۔خدمت پرست خان

23۔قلیچ خان تورانی

24۔عنایت اللہ یزدی

25۔وزیر خان

26۔معتمد خان

27۔نواب علی مردان خان

28۔سعید خان بہادر ظفر جنگ

29۔جعفر خان

30۔قاضی افضل

31۔شیخ عبدالکریم

32۔بہادر خان

33۔سید عزت خان

34۔خلیل اللہ خان

35۔ابراہیم خان

36۔محمد امین خان

محی الدین اورنگ زیب کے دور حکومت میں
(1658 تا 1707ء)

37۔اعظم خان کوکہ

38۔امانت خان

39۔قوام الدین خاں اصفہانی

40۔مکرم خان

41۔سپہدار خان

42۔خان جہان بہادر

43۔مہابت خان ابراہیم

44۔ابونصر خان

45۔زبردست خان

46۔شہزادہ محمد اعظم خان

47۔شہزاده محمد معظم خان

48۔حفیظ اللہ عرف نواب میاں خان

49۔منعم خان (خان خاناں)

محمد معظم شاہ عالم کے دور حکومت میں
(1707 تا 1712ء)

50۔سید محمد اسلم خاں

جہاندار شاہ کے دور حکومت میں
(1712 تا 1713ء)

50۔سید محمد اسلم خاں

بادشاہ فرخ سیر کے دور حکومت میں
(1712 تا 1719ء)

51۔نواب عبدالصمد خان

بادشاہ رفیع الدرجات کے دور حکومت میں
(1719 تا 1719ء)

51۔نواب عبدالصمد خان

شاہ جہان دوئم کے دور حکومت میں
(1719 تا 1719ء)

51۔نواب عبدالصمد خان

محمد شاہ رنگیلا کے دور حکومت میں
(1719 تا 1748ء)

51۔نواب عبدالصمد خان

52۔نواب زکریا خاں

53۔نواب یحیی خاں

54۔شاہ نواز خاں

بادشاہ احمدشاہ بہادر کے دور حکومت میں
(1748 تا 1754ء)

55۔معین الملک میرمنو

56۔مغلانی بیگم (زوجہ میرمنو)

57۔آدینہ بیگ
(مغلیہ صوبہ لاہور جسے آج پنجاب کہتے ہیں کا آخری مغل گورنر)

تحقیق و تحرير:عمیراحمدکڑیالوی


゚viralシal





゚viralシalシ




تفصیل: ڈیرہ غازی خان کے علاقے سخی سرور میں کوہ سلیمان سے آنے والے برساتی ریلے نے صدیوں پرانا خزانہ آشکار کر دیا۔ مقامی ا...
07/09/2025

تفصیل: ڈیرہ غازی خان کے علاقے سخی سرور میں کوہ سلیمان سے آنے والے برساتی ریلے نے صدیوں پرانا خزانہ آشکار کر دیا۔ مقامی افراد کے مطابق ریلے میں سونا، چاندی، جواہرات اور قیمتی دھاتوں کے سکے برآمد ہوئے ہیں جو مختلف ادوار سے تعلق رکھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ملنے والے سکوں کا تعلق ویما دیوا کنشکا، نوانگر کج ریاست، برٹش راج، درانی سلطنت، سکھ حکمران رنجیت سنگھ اور مغلیہ بادشاہوں شاہ جہاں، اورنگزیب عالمگیر، محمد شاہ رنگیلا اور بہادر شاہ ظفر کے ادوار سے ہے۔ اس کے علاوہ نادر شاہ کے دور کے سکے بھی شامل ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس برساتی ریلے سے ملنے والے سکوں میں چین، برطانیہ، خراسان، عراق، عمان اور عرب ممالک کے قدیم سکے بھی شامل ہیں، جنہیں دیکھ کر ماہرین نے اسے خطے کی قدیم تجارتی تاریخ کا نایاب ثبوت قرار دیا ہے۔

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Punjab Media Cell posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share