Punjab Media Cell

Punjab Media Cell Punjab Media Cell

23/07/2025

انارکلی بازار سے ہسپتال روڈ کی جانب جانے والی سڑک کو ایبک روڈ کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ سڑک چھوٹی سی ہے لیکن یہاں پر ایک بہت بڑا بادشاہ آسودہ خاک ہے۔ یہ ہندوستان میں پہلا باقاعدہ مسلمان بادشاہ قطب الدین ایبک ہے۔ دہلی کا معروف قطب مینار اسی ذی شان بادشاہ کی یادگار ہے۔ محل میں ایبک، چوگان (پولو) کھیلا کرتا تھا کیوں کہ وہ اس کھیل کا بہت شوقین تھا۔ ایک مرتبہ وہ پولو کھیل رہا تھا کہ گھوڑے سے گر پڑا اور یہی واقعہ اس کی موت کا سبب بنا۔

سلطان قطب الدین ایبک نے 1210ء بمطابق 607ھ میں وفات پائی اور اسے لاہور ہی میں دفن کردیا گیا ۔ 1215ء میں سلطان شمس الدین التمش لاہور آیا تو اس نے سلطان قطب الدین ایبک کا شاندار مقبرہ تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا، چناں چہ اس عظیم بادشاہ کی شایان شان مقبرے کی تعمیر کی گئی۔ تاہم یہ امتداد زمانہ کی نذر ہوگیا۔ دور مغلیہ میں شہر کی توسیع ہوگئی تو مقبرہ اور باغ اجڑنے لگا۔ مقبرے سے متصل محلے کا نام محلہ قطب غوری ہی رہا۔ انگریزی عہد میں مقبرے کے گردونواح میں آبادی ہونے لگی اور بالاخر قبر پر بھی مکان تعمیر ہوگیا۔ اس مکان میں ایک ہندووکیل رہائش پذیر تھا تاہم انگریز سرکار نے ایک مہربانی یہ کی کہ قبر کی مرمت کروادی اور میونسپل کمیٹی نے بازار اور گلی کانام ایبک سٹریٹ رکھ کر اس کا نام مٹنے سے بچا لیا، ورنہ شاید لوگ اس نام اور قبر کے محل وقوع سے ہی ناآشنا رہتے اور یہ گوہر نایاب وقت کی خاک میں گم ہوجاتا۔ مقبرے کے آثار دیکھنے کے لیے کھدائی کی گئی لیکن کوئی واضح آثار دریافت نہ ہوسکے۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ قبر اس جگہ پر موجود تھی تو اس کے بعد مقبرے کی تعمیر کے سلسلہ میں اقدامات کیے.

تعمیر کے کام کا آغاز 1968ء میں ہوا اور جولائی 1979ء میں اسے مکمل کرلیا گیا ۔ مقبرے کی تعمیر سنگ مرمر اور پیلے پتھر سے کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں کوشش کی گئی ہے کہ اسے اسی انداز میں تعمیر کیا جائے جو انداز تعمیر اس دور میں مسلمانوں سے مخصوص تھا۔ مقبرے کا گنبد بھی منفرد انداز کا ہے۔ گنبد کے وسط میں فانوس لگا ہواہے۔ مقبرہ چوکور ہے اور چاروں طرف سنگ مرمر کی جالیاں ہیں۔ فرش اوردیواریں بھی سنگ مرمر کی ہیں جب کہ چھت پر پلستر کیا گیا ہے۔

سلطان قطب الدین ایبک نے 1210ء بمطابق 607ھ میں وفات پائی اور اسے لاہور ہی میں دفن کردیا گیا ۔

"ایران کے گاؤں کندوان میں پتھروں کو تراش کر بنائے گئے قدیم گھر"
17/07/2025

"ایران کے گاؤں کندوان میں پتھروں کو تراش کر بنائے گئے قدیم گھر"

پاکستان کا حج نوٹ مئی 1949 میں حکومت پاکستان نے سٹیٹ بینک کے آرڈر میں ترمیم کر دی جس کا مقصد مرکزی بینک کو اختیار دینا ت...
17/07/2025

پاکستان کا حج نوٹ
مئی 1949 میں حکومت پاکستان نے سٹیٹ بینک کے آرڈر میں ترمیم کر دی جس کا مقصد مرکزی بینک کو اختیار دینا تھا کہ وہ حاجیوں کے لیے خصوصی ’حج نوٹ‘ جاری کر سکے۔

پہلا حج کرنسی نوٹ مئی 1950 میں 100 روپے کا جاری ہوا۔ اس کا ڈیزائن تو عام 100 روپے کے نوٹ جیسا ہی تھا، تاہم اس کا رنگ سبز سے سرخ کر دیا گیا اور اس کے اوپر ایک خاص تحریر کا اضافہ کر دیا گیا کہ ’یہ نوٹ صرف سعودی عرب جانے والے حاجیوں اور عراق جانے والے زائرین کے لیے ہے۔‘

یہ کرنسی نوٹ پاکستان میں استعمال نہیں ہو سکتے تھے اور صرف سعودی عرب اور عراق میں استعمال کے لیے جاری کیے گئے تھے۔ حاجی یہ نوٹ سعودی بینکوں کو دے کر بدلے میں ریال خرید سکتے تھے اور سعودی بینک یہ نوٹ سٹیٹ بینک کو واپس کر کے زرمبادلہ لے لیتے۔

حکومت کو خصوصی حج کرنسی جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کی وجوہات کیا تھیں؟ درحقیقت یہ بھی ان معاشی چیلنجوں میں سے ایک تھا جو پاکستان کو اپنے قیام کے فوراً بعد درپیش ہوئے۔
حج نوٹوں کے اجرا سے نہ صرف سرکاری خزانے پر پڑا بہت بڑا بوجھ اتر گیا بلکہ یہ نوٹ حاجیوں میں مقبول بھی ہوئے، جس کو دیکھتے ہوئے 100 روپے کے بعد ستمبر 1951 میں 10 روپے کا حج کرنسی نوٹ بھی جاری کر دیا گیا۔

02/07/2025

ہم سب
میرے مطابق
امام بارگاہ کربلا گامے شاہ
15/09/2019 طلحہ شفیق

4789 Views

یہ مشہور و معروف امام بارگاہ بیرون بھاٹی دروازہ نزد دربار حضرت علی ہجویری واقع ہے۔

کربلا گامے شاہ کا شمار لاہور کی قدیم ترین بلکہ اولین امام بارگاہ میں ہوتا ہے۔ یہ امام بارگاہ بابا سید غلام علی شاہ المعروف گامے شاہ سے منسوب ہے۔ گامے شاہ کے حالات زندگی زیادہ تر زبانی روایات پر مشتمل ہیں۔ سوائے نور احمد چشتی کے ماضی کی کسی کتاب میں ان کے متعلق خاص معلومات نہیں ملتیں۔

چشتی صاحب اس امام بارگاہ کے متعلق لکھتے ہیں ”یہ مکان جنوب رویہ خانقاہ جناب پیر علی ہجویری کے آگے واقع ہے۔ اول یہاں بڑا بھاری قبرستان تھا۔ ابتدا میں مکان یوں بنا کہ سنہ 1805 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک سال تعزیہ نکالنے شہر میں تعصباً موقوف کر کے منادی کرادی کہ جو کوئی تعزیہ نکالے گا سخت سزا یاب ہو گا۔ تب سید گامے شاہ نے یہاں تعزیہ بنوایا اور ماتم کرایا۔ جب رتن سنگھ گرجاکھیہ نے جو عدالتی شہر لاہور کا تھا، سنا تو اس نے اس کو گرفتار کر منگوایا اور ضرب و شلاق کرائی۔ کہتے ہیں کہ بوقت شب کو کچھ خوف آیا اور اس باعث سے اس نے اس سید کو کچھ نذر دے کر رہا کر دیا تب سے یہ مکان مشہور ہوا ہے۔“

اور گامے شاہ کے متعلق چشتی صاحب فرماتے ہیں ”یہ شحص مذہب شیعہ رکھتا تھا اور تمام عمر مجرد رہا اور شہر والے لوگ جو اہل سنت و جماعت تھے سب اس سے عداوت رکھتے تھے۔“ پھر ایک واقعہ درج کیا جس میں شیعہ سنی تصادم کا ذکر ہے۔ اس واقعہ کو کہنیالال نے بھی بیان کیا ہے۔ 1849 ء اس امام بارگاہ میں شدید شیعہ سنی فساد ہوا تھا۔ بلکہ اہل سنت کے افراد نے اس امام بارگاہ میں موجود تعمیرات کو گرا دیا اور کنویں کو اینٹوں سے بھر دیا تھا۔ خیر اس فساد کی وجہ اور اس کے علاوہ یہاں ہونے والے تَعارُض کی وجوہات یادگار چشتی کے مطالعہ سے معلوم ہو جاتی ہیں۔*

کہنیالال ہندی نے اس امام بارگاہ کا ماضی کا منظر یوں بیان کیا ہے ”یہ بہت وسیع و عالیشان مکان بیرون دروازہ بھاٹی داتا گنج بخش کے مزار پر انوار کے جنوب سمت کو ہے۔ چاروں طرف پختہ چار دیواری بنی ہوئی ہے۔ شمالی و شرقی دو دروازے آمد و رفت کے ہیں۔ چار دیواری کے اندر ایک روضہ مد ور گنبد کا بنام نہام امام حسینؓ صاحب کے پختہ چونہ گچ بنا ہے۔ اس گنبد کے نیچے سرد خانہ ہے جس کے اندر زینہ اتر کر جاتے ہیں، سقف اس کی قالبوتی ہے اور بیچ میں امام حسن و امام حسینؓ کی قبریں وضعی بنائی گئی ہیں اور انہیں پر تعزیہ رکھا جاتا ہے۔ اس میں قبر گامے شاہ کی یے جو بانی مبانی اس مکان امام باڑے کا تھا۔ چھت قالبوتی کے اوپر ایک مقطع بارہ دری بنی ہے۔ اس پر گنبد ہے اس چار دیواری کے اندر درخت بھی بکثرت ہیں اور قبور بھی بہت ہیں۔ مکانات بھی فقرا کے رہنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔“

اس امام بارگاہ کو خاص ترقی قزلباش خاندان کے باعث حاصل ہوئی۔ قزلباش خاندان کا شمار لاہور کے سرکردہ گھرانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انگریز عہد میں بہت عروج پایا۔ اس خاندان نے برطانوی راج کو تقویت پہنچانے میں اہم کردار اد کیا۔ بقول گریفن ”100 برس سے زائد عرصے سے علی رضا خاں اور اس کی اولاد سرکار انگریزی کی ایسی عقیدت مندی سے خدمت گزاری کرتی چلی آئی ہے جس کی بالکل بے لوث صداقت میں مطلق شبہ نہیں۔ اور جب تک 1857 ء کے مصائب و آلام اور فتح و نصرت، انگریزی گھرانوں میں روزانہ قصہ کے طور پر یاد رہیں گے تب تک علی رضا خاں اور اس کے بہادر خاندان کا نام تمام سچے انگریزوں کو احترام اور احسان مندی کے ساتھ یاد رہے گا۔ “

جب کچھ عرصہ قبل کربلا گامے شاہ حاضری دی تو داخلی دروازے پر بھی قزلباش خاندان کا نام نظر آیا۔ داخلی دروازے پر درج ہے :

دروازے کربلائے گامے شاہ
با اہتمام : نواب نثار علی خان قزلباش
در محرم الحرام 1354 ہ تعمیر شُد

داخلی دروازے سے آگے ایک جانب دکانیں ہیں پھر ایک اور دروازہ آتا ہے جس پر درج ہے :

باب حسُینیہ
با اہتمام نواب مظفر علی خان قزلباش
بہ نگرانی آغا ناظم وقف
بماہ ستمبر؟ 52 ء (درست نہیں پڑھا جاتا) تعمیر شد

پیچھے کی جانب ایک شعر درج ہے جس کا پہلا مصرعہ تو غالباً ناصر علی سرہندی کا جبکہ دوسرے مصرعہ میں شاید ترمیم کی گئی ہے :

بے ادب پا منہ ایں جا کہ عجب درگاہ است
سجدہ گاہ ملک و روضہ مشاہنشاہ است

آگے جائیں تو ایک قد آور درخت نظر آتا ہے جس کے عقب میں سفید عمارت ہے جس پر گنبد ہے جو کہ کچھ کچھ گرو ارجن کی سمادھ پر موجود گنبد سے ملتا جلتا ہے۔ ایک جانب لنگر خانہ ہے۔ اور دوسرے دروازے کے ساتھ ہی ایک لکڑی کا خوبصورت کمرہ سا ہے جو کہ ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ آگے جائیں تو ایک کمرے میں قزلباش خاندان کی کچھ قبور ہیں پھر تھوڑا آگے ایک چھوٹا سا دروازہ جو قبرستان کی جانب کھلتا ہے، یہاں بہت سے معروف لوگوں کی قبور ہیں جیسا کہ شمس العلماء محمد حسین آزاد، علامہ کفایت حسین، مفتی جعفر حسین صاحب، خطیب آل محمد سید اظہر حسن زیدی وغیرہ۔

قبرستان میں مسجد کا پچھلا حصہ نظر آتا ہے جو کہ زیارات کے ساتھ ہی بنائی گئی ہے۔ اس امام بارگاہ کا سب سے اہم حصہ زیارات کا ہے جہاں آئمہ کے روضے کی شبیہات موجود ہیں۔ ایک جانب وہ تعزیہ ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے اس کو گامے شاہ سر پر رکھ کر لاہور کی گلیوں میں چکر لگایا کرتا تھا۔ گامے شاہ کی ہم عصر ایک خاتون ”آغیاں مائی“ کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے جس نے لاہور میں عزاداری کو فروغ دیا۔

تہہ خانے میں گامے شاہ کی قبر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گامے شاہ کو وفات کے بعد انہی کے حجرہ میں دفن کیا گیا۔ ان کا درست سن وفات باوجود تلاش کے مجھے کہیں نہیں ملا۔ گامے شاہ کے مزار کے پاس حضرت امام حسینؓ کی ضریح نصب ہے اس کے حوالے سے معروف ہے کہ اس ضریح کی بنیاد میں کربلا کے میدان کی مٹی ڈالی گئی ہے اور اسی نسبت سے اس درگاہ کو کربلا گامے شاہ کہا جاتا ہے۔ گامے شاہ کی وفات کے بعد نواب علی رضا قزلباش اور سرنوازش علی قزلباس وغیرہ نے یہ جگہ خرید کر یہاں گامے شاہ کے مقبرہ کے ساتھ لاہور شہر کے مرکز میں امام بارگاہ قائم کی۔

ماضی میں بھی محرم کا مرکزی جلوس یہیں احتتام پذیر ہوتا تھا جیسا کہ سید لطیف نے ذکر کیا ہے ”ہر سال محرم کی دس تاریخ کو فرضی طور پر امام حسین کے زخمی گھوڑے یا دلدل کو یہاں لایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ مسلمانوں زیادہ تر شیعہ فرقے کے لوگوں کا بڑا جلوس ہوتا ہے۔ “

اس امام بارگاہ کی کافی تاریخی اہمیت ہے بلکہ عبداللہ ملک صاحب اپنی کتاب ”یہ لاہور ہے“ ہے میں لکھتے ہیں ”حضرت گامے شاہ کے ہاں بھی مجلس عزا ہوتی تھی اور ذوالجناح نکلتا اس مجلس میں تو خود مہاراجہ رنجیت سنگھ اور ان کی رانی بھی بعض اوقات شرکت کرتیں۔ “

آج بھی لاہور میں اس امام بارگاہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مبارک حویلی سے بر آمد ہونے والا جلوس مختلف رستے سے ہوتا ہوا اسی امام بارگاہ میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اگر آپ لاہور میں محرم اور اہل تشیع دوستوں کی تاریخ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو یہاں ضرور جانا چاہیے کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ لاہور میں محرم کا تذکرہ اس امام بارگاہ کے ذکر کے بغیر مکمل ہو جائے۔

02/07/2025

♥️♥️لاہور میں تعزیہ نکالنے کی ابتدا سید غلام علی شاہ المعروف بابا گامے شاہ سے منسوب کی جاتی ہے
یہ مشہور و معروف امام بارگاہ بیرون بھاٹی دروازہ نزد دربار حضرت علی ہجویری کے قریب واقع ہے۔

محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی بابا سید غلام علی شاہ اندروں لاہور کی گلیوں میں تازیا اٹھاۓ یا حسین یا حسین کی صدائیں لگاتے چل پڑتے
زمانے کی نظروں میں دیوانے اور اہل بیت کی نگاہ پاک میں عارف کامل تھے۔ ہمیشہ سیاہ لباس زیب تن رکھتے اور دربار حضرت علی ہجویریؒ کے پہلو میں موجود کربلا گامے شاہ قدیم برف خانہ کی جگہ بیٹھے رہتے۔ ان دنوں ایک بڑھیا ”آغیاں مائی“ بھی موچی دروازے سے عاشورہ کے روز سرپیٹتے اور گریہ و زاری کرتے گامے شاہ کے ڈیرہ کی جانب آتی ۔ آہستہ آہستہ باباگامے شاہ کا حلقہ ارادت وسیع ہوتا گیا۔ روایت ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد 1799ءتا1839ءمیں بابا گامے شاہ نے لاہور میں سب سے پہلے تعزیہ نکالا (یہ سال راقم کی تحقیق کے مطابق 1828ءبنتا ہے) جس پر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بابا گامے شاہ کو دربار میں طلب کرکے سرزنش کی اور کہا کہ وہ آئندہ تعزیہ نہیں نکالے گا۔ گامے شاہ نے انکار کیا اور کہا کہ وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہے گاجس پر رنجیت سنگھ نے اسے گرفتار کرکے شاہی قلعہ لاہور میں قید کر دیا جس پر رنجیت سنگھ ڈراﺅنے خواب دیکھتا رہا اور ساری رات پریشان رہا۔ صبح ہوئی تو فقیر سید عزیز الدین کے ہمراہ بابا گامے شاہ کے زندان میں گیا اور بابا گامے شاہ سے معافی مانگنے کے بعد اسے رہا کر دیا۔ انہی ایام میں بابا گامے شاہ نے وفات پائی۔ انکی تاریخ وفات اور سال تذکروں میں تلاش کے باوجود نہیں مل سکے۔ بعد وفات اسی مقام پر جہاں ان کا ڈیرہ تھا، حجرہ میں دفن کیا گیا۔ بابا گامے شاہ کے مزار کے پاس حضرت امام حسینؓ کی ضریح نصب ہے جوحضرت بابا گامے شاہ کو سب سے بڑا نذرانہ عقیدت ہے۔ اس حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ ضریح مبارک کی بنیاد میں کربلا (عراق) کے میدان کی مٹی رھی گئی ہے اسی نسبت سے اس درگاہ کو کربلا گامے شاہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مزار کے اوپر والے حصہ میں گامے شاہ کا وہ تعزیہ بھی موجود ہے جس کو وہ اپنے سر پر رکھ کر لاہور شہر کے گلی کوچوں میں گریہ و ماتم کرتے تھے۔ بابا گامے شاہ کی وفات کے بعد نواب علی رضا قزلباش اور سرنوازش علی قزلباس وغیرہ نے مل کر یہ رقبہ خرید لیا اور یہاں گامے شاہ کے مقبرہ کے ساتھ کربلا قائم کی اور اس کا نام کربلا گامے شاہ رکھا جو آج لاہور کی تاریخ عزاداری میں بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے۔

اس امام بارگاہ کو خاص ترقی قزلباش خاندان کے باعث حاصل ہوئی۔ قزلباش خاندان کا شمار لاہور کے سرکردہ گھرانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انگریز عہد میں بہت عروج پایا۔ اس خاندان نے برطانوی راج کو تقویت پہنچانے میں اہم کردار اد کیا۔ بقول گریفن ”100 برس سے زائد عرصے سے علی رضا خاں اور اس کی اولاد سرکار انگریزی کی ایسی عقیدت مندی سے خدمت گزاری کرتی چلی آئی ہے جس کی بالکل بے لوث صداقت میں مطلق شبہ نہیں۔ اور جب تک 1857 ء کے مصائب و آلام اور فتح و نصرت، انگریزی گھرانوں میں روزانہ قصہ کے طور پر یاد رہیں گے تب تک علی رضا خاں اور اس کے بہادر خاندان کا نام تمام سچے انگریزوں کو احترام اور احسان مندی کے ساتھ یاد رہے گا۔ “

02/07/2025

....لاہور میں بھاٹی گیٹ کے قریب واقع کربلا گامے شاہ اپنے اندر ذکراہل بیت اورعزداروان حسین کی ایک تاریخ سموئے ہے۔ موچی دروازہ سے نکلنے والے شبیہہ ذوالجناح کے مرکزی جلوس کی منزل بھی یہی ہے۔ لاہور کی معروف امام بارگاہ کربلا گامے شاہ،، صوفی بزرگ حضرت بابا سید غلام علی شاہ سے منسوب ہے۔ گامے شاہ ان کا لقب تھا۔سکھ حکمران رنجیت سنگھ کے دور میں بابا گامے شاہ داتا دربار کے قریب اسی جگہ پر عبادات کرتے اور اہل بیت کا سوگ مناتے۔ وہ محرم الحرام میں ہر سال باقاعدگی سے لاہور شہر کے گرد تعزیے کا جلوس بھی نکالتے اور اہل بیت کی یاد میں آنسو بہاتے۔بابا گامے شاہ نے زندگی بھر سیاہ لباس پہنا، جب ان کا انتقال ہوا تو عقیدت مندوں نےانہیں یہیں سپرد خاک کر دیا۔قزلباش خاندان نے یہ جگہ خرید لی اور امام بارگاہ بنا کر بابا گامے شاہ کا مزار تعمیر کرایا، نثار حویلی، موچی دروازہ سے برآمد ہونے یوم عاشور کے مرکزی جلوس کی منزل، کربلا گامے شاہ کو ذکر اہل بیت اور عزاداری کے حوالے سے نمایاں مقام حاصل ہے۔

23/06/2025

امکانات بڑھ گئے ہیں ایسے میں امریکہ کا کردار بہت تھا اج ہم اپ کو بتاتے ہیں کہ امریکی فوج کو خطے میں کہاں کہاں موجود مسجد و سمیت ہزاروں میل دودھ امریکی پردی بحری اور فضائی افواج موجود ہیں سوال یہ بنتا ہے کہ اپ پر کیوں کیونکہ

امریکہ نے دنیا میں خود کو ایک عالمی پولیس میں نے کیا کردار شوق رکھا ہے اور ایک اہم زندہ ہے جہاں سے عالمی بحری تجارتی راستے کی دیکھ بھال کرتے ہیں دوسرا سب سے بڑا مقصد اسرائیل کا دیکھا امریکی بینک میں دفاع کے مطابق امریکہ کے 34 ہزار سے زیادہ فوجی مسجد واسطی کے مختلف ممالک میں تعینات ہیں اور وہاں 6 ہزار کا اضافہ بھی کر دیا گیا امریکہ نے 1945 میں سعودی شہر الزہراب میں اس خطے میں اپنا پہلا فضائی اڈاب بنا دیا مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا ایڈہ الحدید ایئر بیس قطر میں واقع ہے جو سن 1996 پہ بنایا گیا

قطربحرین
امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے (Fifth Fleet) کا ہیڈ کوارٹر بحرین میں ہے جو خلیج، بحیرۂ احمر، بحیرۂ عرب اور بحر ہند کے کچھ حصوں کے لیے ذمہ دار ہے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ کے باہر ریگستان میں 24 ہیکٹر پر مشتمل ’العدید ایئر بیس‘ امریکی سینٹرل کمانڈ کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے جو مغرب میں مصر سے مشرق میں قازقستان تک پھیلے ہوئے ایک بڑے علاقے میں امریکی فوجی کارروائیوں کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے اس سب سے بڑے امریکی اڈے میں تقریباً 10ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔

۔۔ قطر کے علاوہ جو بھی ا یئر بیسس ہے وہ بحرین کویت uae شام اردن مصر ترکی ہے قبرس اور عراق میں بھی امریکی فوجی موجود اس سلسلے کو اگر ہم مزید اگے بڑھاتے ہیں تو امریکی بحریہ 1940 کی د ہائی سے خلیج فارس میں موجود ہے بحیرا احمر ۔بحیرہ روم اور بحر ھند میں بھی میں بھی امریکی بحری بیڑے موجود یہ جو اپ کے پاس ویژولز ہیں یہ انڈین اوشن کے ریڈ سی یہ مشن کے ریڈ سی اور یہ اپ کا میڈیسن سامنے ا رہا ہے ہمارے جبکہ یو ایس اے کا منکر پہلے خانی جوان کے قریب موجود ہے کچھ ہی روز میں یو ایس ایس سٹوڈنٹ روم کے پانیوں میں اپنی پوزیشن سنبھانی ایران

تازہ ترین آج کا اخبار آج کے کالمز
مشرق وسطیٰ میں اہم امریکی فوجی اڈے کون سے ہیں؟
تازہ ترینخاص رپورٹ23 جون ، 2025
FacebookTwitterWhatsapp
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو
امریکا نے ایران کی 3 اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جس کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی دی ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں موجود امریکا کے فوجی اڈے اس کا ممکنہ ہدف ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں موجود امریکا کے اہم فوجی اڈے درج ذیل ہیں۔

کویت
کویت میں موجود ’کیمپ عارفجان‘ امریکی آرمی کے سینٹرل اور ’علی السلیم ایئر بیس‘ کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے جو 1999ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ عراق کی سرحد سے تقریباً 40 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے اور اپنے ماحول کی وجہ سے ’دی راک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ایران پر حملہ کرنے والے طیارے اِس وقت کہاں ہیں پتہ لگا لیا ہے، پاسداران انقلاب

اس کے علاوہ، کویت کے شمال مغربی علاقے میں 2003ء میں عراق جنگ کے دوران ایک اور امریک فوجی اڈہ بھی قائم کیا گیا تھا جو عراق اور شام میں تعینات امریکی فوج کے یونٹس کے لیے ایک اہم ہے۔

متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظبی کے جنوب میں واقع ’الظفرا ایئر بیس‘ امریکی فضائیہ کا ایک اہم مرکز ہے۔

امریکی فضائیہ کی سینٹرل کمانڈ کے مطابق، الظفرا ایئر بیس اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کلیدی مشن کے ساتھ ساتھ خطے میں جاسوسی سے متعلق تعیناتیوں کے لیے اہم ہے۔

علاوہ ازیں، دبئی میں جیبل علی بندرگاہ اگرچہ کوئی باقاعدہ امریکی فوجی اڈہ نہیں ہے مگر مشرق وسطیٰ میں امریکی بحریہ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جو امریکی بحری جہازوں کی باقاعدگی سے میزبانی کرتی ہے۔

عراق
وائٹ ہاؤس کے مطابق، امریکا اب بھی عراق کے مغربی صوبے الانبار میں ’عین الاسد ایئر بیس‘ پر موجود ہے جہاں وہ عراقی سیکیورٹی فورسز کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ نیٹو مشن میں حصہ ڈال رہا ہے۔

ایران نے 2020ء میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اس بیس کو نشانہ بھی بنایا تھا۔

دوسری جانب شمالی عراق کے نیم خودمختار کردستانی علاقے میں واقع ’اربیل ایئر بیس‘ امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے لیے تربیتی اور جنگی مشقیں کرنے کے لیے ایک مرکز ہے۔

سعودی عرب
وائٹ ہاؤس کے خط کے مطابق سعودی عرب میں 2 ہزار 321 امریکی فوجی سعودی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، یہ امریکی فوجی فضائی اور میزائل دفاعی صلاحیتیں فراہم کرتے ہیں۔

امریکا کو ایران پر حملے کے مقام کے بارے میں کیا معلوم تھا؟

ان امریکی فوجیوں میں سے کچھ ریاض سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب میں واقع ’پرنس سلطان ایئر بیس‘ پر تعینات ہیں اور وہاں امریکی فوج کے فضائی دفاعی اثاثوں کی نگرانی کرتے ہیں جس میں پیٹریاٹ میزائل بیٹریاں اور ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس سسٹم شامل ہیں۔

اردن
کانگریس کی لائبریری میں موجود 2024ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، اردن کے دارالحکومت عمّان سے 100 کلو میٹر شمال مشرق میں ازراق میں واقع ’مووفق السلطی ایئر بیس‘ امریکی فضائیہ کے سینٹرل کے 332ویں ایئر ایکسپیڈیشنری ونگ کی میزبانی کرتی ہے جو لیوانٹ بھر میں فوجی مشن میں مصروف ہے۔

22/06/2025

Geo News
صفحہ اول
غزہ جنگ
ایران اسرائیل جنگ
تازہ ترین
فیکٹ چیک
پاکستان
دنیا
کھیل
انٹرٹینمنٹ
کاروبار
صحت
دلچسپ و عجیب
جرائم
بلاگ
رابطہ کریں
menu
Geo News
دنیاآبنائے ہرمز کی کیا اہمیت ہے اور عالمی معیشت پر اس کی ممکنہ بندش سے کیا اثر پڑے گا؟
زرغون شاہ Time22 جون ، 2025
Facebook

Twitter

Whatsapp
آبنائے ہرمز کی کیا اہمیت ہے اور عالمی معیشت پر اس کی ممکنہ بندش سے کیا اثر پڑے گا؟
اس آبی گزرگاہ سے دنیا کے 20 فیصد تیل اور 30 فیصد گیس کی ترسیل ہوتی ہے، یہاں سے روزانہ تقریباً 90 اور سال بھر میں 33 ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں— فوٹو:فائل
آبنائے ہرمز سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران سے یومیہ تقریباً 21 ملین بیرل تیل دیگر ممالک کو پہنچایا جاتا ہے، ان ملکوں میں پاکستان، چین، جاپان، جنوبی کوری ، یورپ، شمالی امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔

آبنائے ہرمز مشرق وسطیٰ کے خام تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایشیا، یورپ، شمالی امریکا اور دیگر دنیا سے جوڑتی ہے، اس سمندری پٹی کے ایک طرف امریکا کے اتحادی عرب ممالک تو دوسری طرف ایران ہے۔

اس آبی گزرگاہ سے دنیا کے 20 فیصد تیل اور 30 فیصد گیس کی ترسیل ہوتی ہے، یہاں سے روزانہ تقریباً 90 اور سال بھر میں 33 ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں۔

33 کلو میٹر چوڑی اس سمندری پٹی سے دو شپنگ لینز جاتی ہیں، ہر لین کی چوڑائی تین کلو میٹر ہے جہاں سے بڑے آئل ٹینکرز گزرتے ہیں۔

جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ: ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہُرمز بند کرنے کی منظوری دیدی

مجموعی عالمی تیل کی رسد کا پانچواں حصہ یعنی 20 فیصد اسی راستے سے جاتا ہے۔ آبنائے ہرمز سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران سے یومیہ تقریباً 21 ملین بیرل تیل دیگر ممالک کو پہنچایا جاتا ہے ، دنیا میں سب سے زیادہ ایل این جی برآمد کرنے والا ملک قطر بھی اپنی برآمدات کے لیے اسی گزر گاہ پر انحصار کرتا ہے۔

آبنائے ہرمز کے ایک طرف خلیج فارس اور دوسری طرف خلیج عمان ہے، خلیج فارس کے اندر 8 ممالک ایران، عراق ، کویت، سعودی عرب بحرین، قطر، یو اے ای اور عمان موجود ہیں۔

دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین معیشت کی روانی کے لیے خلیج سے اپنی ضرورت کا آدھا تیل منگواتا ہے جبکہ جاپان یہاں سے 95 فیصد اور جنوبی کوریا 71 فیصد تیل اسی راستے سے درآمد کرتے ہیں۔ آبنائے ہرمز سے ہی یہ تینوں ممالک خلیجی ممالک کو گاڑیاں اور الیکٹرانک سامان کی ترسیل بھی کرتے ہیں۔

عالمی ماہرین کے مطابق اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ اور امریکی حملوں کی صورت میں ایران آبنائے ہرمز کو ایک ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرے گا، وہ بارودی سرنگیں بچھانے کے علاوہ آبدوزیں، اینٹی شپ میزائل اور جنگی کشتیاں تعینات کر سکتا ہے، نتیجہ یہ کہ تیل کا بحران پیدا ہو گا اور قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل تک اوپر جا سکتی ہیں۔

دفاعی ماہرین کے مطابق آبنائے ہرمز صرف ایران کے لیے ایک چوک پوائنٹ ہی نہیں بلکہ دنیا کی لائف لائن ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس آبی گرز گاہ کی بندش کے نتائج ایران کے لیے خوفناک ہوں گے۔

مزید خبریں :
ایران نے موساد کیلئے جاسوسی کے الزام میں ایک اور شخص کو سزائے موت دیدی
ایران نے موساد کیلئے جاسوسی کے الزام میں ایک اور شخص کو سزائے موت دیدی
Time 54 منٹ پہلے
ایران نے تھرڈ جنریشن خیبر شکن میزائلوں سے اسرائیل پر حملوں کی ویڈیو جاری کردی
ایران نے تھرڈ جنریشن خیبر شکن میزائلوں سے اسرائیل پر حملوں کی ویڈیو جاری کردی
Time 2 گھنٹے پہلے
جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ: ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہُرمز بند کرنے کی منظوری دیدی
جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ: ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہُرمز بند کرنے کی منظوری دیدی
Time 1 گھنٹے پہلے
’آپریشن مڈنائٹ ہیمر‘: امریکی فوج نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی تفصیلات جاری کردیں
’آپریشن مڈنائٹ ہیمر‘: امریکی فوج نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی تفصیلات جاری کردیں
Time 2 گھنٹے پہلے
امریکا نے ایران کو جوہری تنصیبات پر حملے کی پیشگی اطلاع دی تھی، ایرانی میڈیا کا دعویٰ
امریکا نے ایران کو جوہری تنصیبات پر حملے کی پیشگی اطلاع دی تھی، ایرانی میڈیا کا دعویٰ
Time 1 گھنٹے پہلے
روس اور چین کی ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کی مذمت
روس اور چین کی ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کی مذمت
Time 3 گھنٹے پہلے
امریکا نے ریڈلائن کراس کی ہے، ہمارے جواب کا انتظار کریں: ایرانی وزیر خارجہ
امریکا نے ریڈلائن کراس کی ہے، ہمارے جواب کا انتظار کریں: ایرانی وزیر خارجہ
Time 5 گھنٹے پہلے
تصاویر: امریکی حملےکے بعد ایران کا خیبر شکن میزائلوں سے اسرائیل پر حملہ
تصاویر: امریکی حملےکے بعد ایران کا خیبر شکن میزائلوں سے اسرائیل پر حملہ
Time 5 گھنٹے پہلے
بم کی جھوٹی اطلاع، حجاج کو لیجانے والی پرواز کی انڈونیشیا میں ہنگامی لینڈنگ
بم کی جھوٹی اطلاع، حجاج کو لیجانے والی پرواز کی انڈونیشیا میں ہنگامی لینڈنگ
Time 4 گھنٹے پہلے
اسرائیل پر ایرانی حملے میں پہلی بار تھرڈ جنریشن خیبر شکن میزائلوں کا استعمال
اسرائیل پر ایرانی حملے میں پہلی بار تھرڈ جنریشن خیبر شکن میزائلوں کا استعمال
Time 6 گھنٹے پہلے
بھارت میں لڑکی کی دوسری ذات میں شادی کرنے پر خاندان کے 40 افراد نے سر منڈوا دیے
بھارت میں لڑکی کی دوسری ذات میں شادی کرنے پر خاندان کے 40 افراد نے سر منڈوا دیے
Time 5 گھنٹے پہلے
سعودی عرب کا امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار
سعودی عرب کا امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار
Time 7 گھنٹے پہلے
تازہ ترینسب دیکھیں
جماعت اسلامی کا ایران پر امریکی حملے کےخلاف کل یوم احتجاج منانے کا اعلان
Time 7 منٹ پہلے
جماعت اسلامی کا ایران پر امریکی حملے کےخلاف کل یوم احتجاج منانے کا اعلان
خطے کی موجودہ صورتحال، وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب کر لیا
Time 24 منٹ پہلے
خطے کی موجودہ صورتحال، وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب کر لیا
آبنائے ہرمز کی کیا اہمیت ہے اور عالمی معیشت پر اس کی ممکنہ بندش سے کیا اثر پڑے گا؟
Time 42 منٹ پہلے
آبنائے ہرمز کی کیا اہمیت ہے اور عالمی معیشت پر اس کی ممکنہ بندش سے کیا اثر پڑے گا؟
ایران نے موساد کیلئے جاسوسی کے الزام میں ایک اور شخص کو سزائے موت دیدی
Time 54 منٹ پہلے
ایران نے موساد کیلئے جاسوسی کے الزام میں ایک اور شخص کو سزائے موت دیدی
ہماری جنگ ایران سے نہیں، اُسکے جوہری پروگرام سے ہے: نائب امریکی صدر
Time 54 منٹ پہلے
ہماری جنگ ایران سے نہیں، اُسکے جوہری پروگرام سے ہے: نائب امریکی صدر
امریکا نے ایران کو جوہری تنصیبات پر حملے کی پیشگی اطلاع دی تھی، ایرانی میڈیا کا دعویٰ
Time 1 گھنٹے پہلے
امریکا نے ایران کو جوہری تنصیبات پر حملے کی پیشگی اطلاع دی تھی، ایرانی میڈیا کا دعویٰ
7 سے 8 گھنٹے کی نیند سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
Time 1 گھنٹے پہلے
7 سے 8 گھنٹے کی نیند سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ: ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہُرمز بند کرنے کی منظوری دیدی
Time 1 گھنٹے پہلے
جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ: ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہُرمز بند کرنے کی منظوری دیدی

22/06/2025

BBC News, اردو
مواد پر جائیں
سیکشن
صفحۂ اولپاکستانآس پاسورلڈکھیلفن فنکارسائنسویڈیو
سیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایا
social media،تصویر کا ذریعہsocial media
مضمون کی تفصیل
مصنف,وقار مصطفیٰ
عہدہ,صحافی و محقق
20 جون 2025
مصر کی فضائیہ کو تباہ کرنے کے بعد پانچ جون 1967 کی گرم اور گرد آلود دوپہر، چار اسرائیلی طیارے یہ ہدف لیے اردن کے مَفرَق فضائی اڈے پر حملہ آور ہو رہے تھے کہ اس ملک کی چھوٹی سی ایئر فورس کو بھی ختم کر دیں گے۔

اس دن صرف آدھے گھنٹے میں اسرائیلی فضائیہ نے مصر کے دو سو سے زیادہ لڑاکا طیارے زمین پر ہی تباہ کر دیے تھے۔ لیکن اردن کے مَفرَق فضائی اڈے کو تباہ کرنے کا منصوبہ مکمل ہونے تک اسرائیلی فضائیہ دو طیارے کھو چکی تھی جن میں سے ایک کو مار گرانے والے پائلٹ کا تعلق پاکستانی فضائیہ سے تھا۔

یہ پائلٹ تھے پاکستان ایئر فورس کے فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم جنھوں نے پانچ جون کو اردن کی فضائیہ کا طیارہ اڑاتے ہوئے ایک اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا اور پھر صرف دو ہی دن بعد سات جون کو عراقی فضائیہ کا لڑاکا طیارہ اڑاتے ہوئے دو اور اسرائیلی طیارے مار گرائے۔

پاکستان ایئر فورس میں 1960 میں کمیشن حاصل کرنے والے سیف الاعظم، جو دو سال پہلے 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے دوران انڈین فضائیہ کا بھی ایک طیارہ گرا چکے تھے، بعد میں بنگلہ دیش کی فضائیہ کا حصہ بنے۔

لیکن سیف الاعظم اسرائیل کے خلاف اردن اور پھر عراق کی فضائیہ کی جانب سے کیسے لڑے؟

Skip سب سے زیادہ پڑھی جانے والی and continue reading
سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
trump
’امن قائم کرنے والے‘ صدر کا ڈرامائی قدم جس نے امریکہ کو اسرائیل ایران تنازع کے بیچ لا کھڑا کیا
A satellite image of Fordo, one of three Iranian nuclear sites hit by Trump
ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بارے میں اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟
ماپ بم
سب سے طاقتور بنکر شکن بم جو امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے لیے استعمال کیے
ایران
ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے کیا خطرات جنم لے سکتے ہیں؟
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
پاکستان سے اردن تک
’دی گولڈ برڈ: پاکستان اینڈ اٹس ایئرفورس، آبزرویشنز آف اے پائلٹ‘ میں منصور شاہ لکھتے ہیں کہ ’ہماری (پاکستان) فضائیہ کے 35 فیصد ٹیکنیشنز اور سیف الاعظم جیسے بہترین پائلٹس سمیت ایک چوتھائی پائلٹس مشرقی پاکستان سے تھے۔‘

1965 کی جنگ میں، فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم نے ایک انڈین طیارہ مار گرایا اور حکومت پاکستان سے ستارہ جرأت پایا تھا۔

1966 کے اواخر میں انھیں اردن کی فضائیہ میں مشیر تعینات کیا گیا لیکن اس کے اگلے ہی سال جون میں انھیں ایک اور جنگ درپیش تھی جس میں ایک جانب اسرائیل جبکہ دوسری جانب اردن، مصر، شام اور عراق سمیت عرب ریاستوں کے اتحاد تھا۔

اس جنگ کا آغاز پانچ جون کو اسرائیلی حملے سے ہوا تھا جب مصری فضائیہ کو اچانک ہی ایک بڑا دھچکا ملنے کے بعد اردن کی فضائیہ کو خبردار کیا گیا۔

مورخ اور سابق ایئر کموڈور قیصر طفیل اپنی کتاب ’گریٹ ایئر بیٹلز آف پاکستان ایئرفورس‘ میں بتاتے ہیں کہ ’حکومت پاکستان سے فضائی دفاع تک محدود اجازت کے بعد اردن کی مفرق ایئر بیس سے سیف الاعظم ایک ہنٹر طیارے میں اپنے ونگ مین لیفٹیننٹ احسان شردم کے ساتھ فضا میں بلند ہوئے، ان کے پیچھے مزید ہنٹر طیارے روانہ ہوئے۔‘

اسرائیلی طیارے کی تباہی
getty،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشن1967 کی چھ روزہ جنگ میں ایک جانب اسرائیل جبکہ دوسری جانب اردن، مصر، شام اور عراق سمیت عرب ریاستوں کے اتحاد تھا
مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’صحرائی گرد و غبار اور گرمی کے باعث حدِ نظر ایک میل سے کم تھی، اور دشمن کا کوئی نشان دکھائی نہ دے رہا تھا۔ سیف نے ریڈار سے مفرق بیس کی طرف کسی اسرائیلی طیارے کی آمد کے بارے میں پوچھا تو جواب ہاں میں ملا۔ سیف نے فوری طور پر مفرق کی طرف رخ کیا۔‘

اردن کو خدشہ تھا کہ اسرائیلی فضائیہ مصر کے بعد ان کی جانب رخ کرے گی۔

قیصر طفیل لکھتے ہیں ’مفرق ایئر بیس سے چار میل کے فاصلے پر انھوں نے چار طیاروں کو کم بلندی پر جنگی فارمیشن میں اُڑتے دیکھا۔انھیں احساس ہوا کہ یہ اسرائیلی مسٹیئر طیارے ہیں۔‘

’سیف نے فوراً ایک طیارے کے پیچھے پوزیشن لی، جو حملے کے لیے مڑ رہا تھا۔ انھوں نے اپنے ہنٹر کی چار طاقتور 30 ملی میٹر توپوں سے نشانہ لیا۔ مسٹیئر آگ پکڑ گیا اور اس کے پرزے اُڑنے لگے؛ سیف کو ملبے سے بچنے کے لیے اوپر اٹھنا پڑا۔‘

’یہ اسرائیلی طیارہ مفرق ائیر بیس کی حدود کے قریب گر کر تباہ ہو گیا اور اسرائیلی پائلٹ لیفٹیننٹ ہنانیا بولے جہاز سے نکل نہ سکے۔‘

قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’فلائٹ لفیٹینٹ سیف الاعظم نے دیکھا کہ دو مسٹیئر مغرب کی طرف پوری رفتار سے فرار ہو رہے ہیں۔ جیسے ہی سیف نے ان کا پیچھا شروع کیا، احسان نے دائیں جانب ایک اور دشمن طیارے کی نشاندہی کی۔ سیف نے احسان کو حکم دیا کہ وہ الگ ہو کر اُس واحد دشمن طیارے کا پیچھا کریں، جبکہ وہ دو دشمن طیاروں کے پیچھے چلے گئے۔‘

’سیف پیچھے والے مسٹیئر کے پیچھے آ گئے، جو تیزی سے قلابازیاں کھا کر بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سیف نے چار بار گولیاں برسائیں، لیکن کوئی نشانہ ٹھیک نہ بیٹھا۔‘

قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’مایوسی کے عالم میں اچانک انھوں نے دیکھا کہ دشمن طیارہ سیدھا اُڑنے لگا ہے۔ سیف نے فاصلے کو کم کر کے پانچویں بار فائر کیا۔ مسٹیئر کی دائیں جانب سے دھواں نکلنے لگا، گولیاں نشانے پر لگ چکی تھیں۔ طیارہ نیچے جھکا، لیکن سیف اس کے مکمل تباہ ہونے کی تصدیق نہ کر سکے کیونکہ دوسرا اسرائیلی طیارہ ان پر حملہ کرنے کے لیے مڑ رہا تھا۔‘

قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں کہ ’ایندھن اور گولا بارود کی کمی کے باعث، سیف نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور مفرق کی طرف واپس ہو گئے۔انھیں اندیشہ تھا کہ مفرق کا رن وے ناکارہ ہو چکا ہے، چنانچہ انھوں نے تمام طیاروں کو ایئر فیلڈ کے شمال میں انتظار کا حکم دیا۔ حیرت انگیز طور پر رن وے پر لینڈنگ کی اجازت مل گئی۔‘

وہ لکھتے ہیں ’لیکن احسان نے فوراً خطرہ محسوس کیا اور عربی میں ریڈیو پر کنٹرولر سے شناخت پوچھی اور اپنے کتے کا نام بھی پوچھا، جو ایک خفیہ شناختی کوڈ تھا۔ اسی وقت اردنی کنٹرولر نے اصل میں ریڈیو پر آ کر خبردار کیا کہ مفرق پر ہرگز لینڈ نہ کریں۔ احسان کی حاضر دماغی نے دونوں کو اسرائیلی فریب کاری سے بچا لیا، جو انھیں تباہ حال رن وے پر اتارنے کے لیے جعلی ریڈیو پیغام دے رہا تھا۔‘

’تمام طیارے عمان کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی طرف موڑ دیے گئے، جہاں ابھی اسرائیلی حملہ نہیں ہوا تھا۔ پائلٹس خوش قسمت تھے کہ وہ حملے سے چند لمحے قبل ہی لینڈ کر گئے۔ تاہم، ان کے طیارے محفوظ نہ رہ سکے۔ کچھ ہی دیر بعد، جدید سپر مسٹیئر طیاروں نے 'ڈِبر' بم استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا، جو رن وے کو گہرائی تک نقصان پہنچا گیا۔‘

سیف اور اردن کی فضائیہ کے احسان شردم،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA
،تصویر کا کیپشنسیف اور اردن کی فضائیہ کے احسان شردم
جب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا
26 اپريل 2024
1967 کی چھ روزہ جنگ: جب اسرائیل نے آدھے گھنٹے میں ’مصری فضائیہ کا وجود ختم کر دیا‘
5 جون 2025
جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیا
16 ستمبر 2024
پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانی
9 مئ 2025
اردن کے شاہ اور عراقی فضائیہ
قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں ’ایئرپورٹ کی سول تنصیبات کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور شدید نقصان پہنچا۔ اس حملے میں کئی ٹرانسپورٹ طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہو گئے۔ تمام پائلٹ عمان میں آپریشنز ہیڈکوارٹر پر جمع ہوئے تاکہ پیش آئے واقعات کے بارے میں تبادلہ خیال کریں۔ ‘

’تقریباً ایک گھنٹے بعد اردن کے بادشاہ حسین خود اُن کے درمیان موجود تھے۔ وہ اپنے پائلٹوں کو سراہنے آئے تھے، جو اردن کی پہلی بڑی فضائی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔‘

قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں کہ اس دوران اردن نے اپنے پائلٹس کی خدمات عراق کو پیش کیں اور جلد ہی ان کی عراق منتقلی کے احکامات جاری ہو گئے۔

’چھ جون کو یہ قافلہ رات نو بجے عراق میں حبانیہ ایئر بیس پہنچا جہاں تین ہنٹر سکواڈرن موجود تھے۔‘

قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں کہ ’سات جون کو فجر کے قریب ایک آہستہ دستک اور سرگوشی نے سیف کو جگایا۔ ایک نوجوان عراقی افسر نے بیس کمانڈر کا پیغام پہنچایا کہ 'وہ چاہتے ہیں کہ پہلی پرواز کے لیے چار پائلٹ رضاکار بنیں، اور آپ سے کہا گیا ہے کہ لیڈ کریں!‘

getty،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنقیصر طفیل لکھتے ہیں کہ اردن نے اپنے پائلٹس کی خدمات عراق کو پیش کیں
ایئر بیس ایچ تھری
کچھ ہی دیر بعد چار ہنٹر طیاروں کا دستہ عراق کے مغربی صحرا کے ایک دور افتادہ علاقے میں، بغداد سے تقریباً 435 کلومیٹر مغرب میں واقع ایئربیس ایچ تھری کی جانب پرواز کر رہا تھا۔

’پچیس ہزار فٹ کی بلندی پر کنٹرولر نے اعلان کیا: لیڈر، ایک بڑی فارمیشن ایچ تھری پر حملہ آور ہو رہی ہے، نیچے جا کر ان سے نمٹیں۔‘

قیصر لکھتے ہیں ’اسرائیلی فارمیشن چھ طیاروں پر مشتمل تھی۔ چار واؤتورز طیاروں کی قیادت ڈپٹی سکواڈرن کمانڈر کیپٹن شلومو کرن کر رہے تھے، جن کے ساتھ دو نشستوں والے طیارے میں نیویگیٹر کیپٹن الیگزینڈر انبار میلٹزر تھے۔‘

دیگر ارکان میں رامات ڈیوڈ ایئربیس کے بیس کمانڈر کرنل یزیکیل سومک، کیپٹن اسحاق گلینٹز-گولان، اور لیفٹیننٹ اووشالوم فریڈمین شامل تھے، جو سنگل سیٹر طیاروں میں تھے۔

قیصر کے مطابق ’دو میراج طیارے ان کی مسلح حفاظت کر رہے تھے، ہر ایک دو بم سے لیس تھا؛ اس حفاظتی فارمیشن کی قیادت کیپٹن عزرا ڈوٹان کر رہے تھے، جن کے وِنگ مین کیپٹن گیڈون ڈرور تھے۔‘

’جب سیف الاعظم کی قیادت میں عراقی ہنٹر طیارے ایچ تھری سے پانچ میل دور تھے، تو اُنھیں مغرب سے آتے دو واؤتور طیارے نظر آئے۔ جب سیف ایک واؤتورز کے پیچھے جانے کے لیے پوزیشن لے رہے تھے تو سمیر نے آواز دی، دو میراج طیارے آپ کے پیچھے ہیں۔‘

’لمحوں میں سیف نے اپنی فارمیشن کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ خود اور احسان میراج طیاروں سے نمٹیں گے، جبکہ سمیر اور غالب واؤتورز کا تعاقب کریں گے۔‘

قیصر طفیل کے مطابق ’سیف نے فاصلے کو تیزی سے کم کیا اور ایک میراج کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے ہنٹر طیارے کی مہلک کینن کا 'بسم اللہ' کہتے ہوئے ٹریگر دبایا۔ گولیاں سیدھا اسرائیلی طیارے کے پروں پر لگیں، اور چنگاریاں اڑنے لگیں۔‘

’اچانک میراج آگ کے گولے میں لپٹ گیا اور اسرائیلی پائلٹ کیپٹن ڈرور نے گراؤنڈ پر موجود بیس کے عملے کی آنکھوں کے سامنے طیارہ چھوڑ کر ایجیکٹ کیا۔ میراج کو مار گرانے کے بعد سیف نے دائیں جانب رخ موڑا تو دیکھا کہ ایک واؤتور سامنے سے تقریباً دو ہزار فٹ نیچے آ رہا ہے۔‘

قیصر لکھتے ہیں کہ ’سیف نے اپنا طیارہ الٹا کر سپلٹ-ایس موومنٹ کی۔ یہ چال زمین سے کم فاصلہ ہونے کی صورت میں خطرناک ہو سکتی ہے، لیکن سیف نے اتنا زور سے سٹک کھینچا کہ وہ تقریباً بے ہوش ہونے لگے۔ جب طیارہ برابر سطح پر آیا تو وہ واؤتور کے پیچھے تھے اور بہت تیز رفتاری سے قریب جا رہے تھے، حالانکہ بریک کھلے اور تھروٹل بند تھا۔ اب فاصلہ صرف دو سو فٹ تھا۔‘

’سیف نے فائر کھولا، اور تین بار کینن چلائی۔ طیارے کے پرزے ہوا میں اڑنے لگے۔ ان کا اپنا طیارہ بھی جھٹکا کھا گیا جیسے کسی چیز سے ٹکرا گیا ہو۔‘

قیصر طفیل کے مطابق ’کیپٹن گولان نے طیارے کا قابو کھو دیا اور اپنے بکھرتے ہوئے واؤتور سے پیراشوٹ کے ذریعے باہر نکلے۔ ڈرور نے کچھ دیر پہلے اونچائی پر میراج سے چھلانگ لگائی تھی جبکہ گولان نے واؤتور سے نچلی سطح پر پیراشوٹ کھولا۔ دونوں اب ہوا میں ایک ساتھ پیراشوٹ کے ذریعے اتر رہے تھے۔‘

’ایندھن کم ہونے کے باعث سیف واپسی کا ارادہ کر رہے تھے کہ سمیر نے پرجوش آواز میں پکارا: لیڈر، میں نے واؤتور مار گرایا ہے!‘

وہ لکھتے ہیں ’اس ہنگامے میں احسان نے بھی اطلاع دی کہ اُنھوں نے بھی ایک واؤتور مار گرایا ہے۔ سیف جیسے ہی فارمیشن کو دوبارہ اکٹھا کرنے لگے، انھوں نے دیکھا کہ ایک میراج (کیپٹن ڈوٹان کا طیارہ) ایک ہنٹر کا پیچھا کر رہا ہے، جو کہ غالب کا طیارہ تھا اور دھواں چھوڑ رہا تھا۔ سب نے یکے بعد دیگرے ریڈیو پر اُنھیں ایجیکٹ کرنے کو کہا، مگر وہ خاموش رہے۔‘

’طیارہ ایک ہلکی ڈائیو میں چلا گیا اور ایئر فیلڈ کے قریب ترک شدہ آئل ٹینکس سے ٹکرا گیا۔‘

social media،تصویر کا ذریعہSocial Media
،تصویر کا کیپشنسیف بعد میں بنگلہ دیش کی فضائیہ کا حصہ بنے
اسرائیلی پائلٹس کی گرفتاری اور تنقید
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’سب طیاروں کا ایندھن نہایت کم رہ گیا تھا کیونکہ اضافی ٹینک وہ پہلے گرا چکے تھے۔ سیف اور احسان حبانیہ ایئر بیس پہنچ گئے، وہ بھی اونچائی پر پرواز جاری رکھ کر۔‘

’جہاز سے نکلتے ہی سیف کو لوگوں نے اٹھا لیا اور جشن مناتے ہوئے اردگرد گھمایا۔ سب نعرے لگا رہے تھے۔ سیف کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ وہ اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے اور نوجوان غالب کے لیے دُعا بھی، جن سے وہ مشن سے صرف آدھ گھنٹا قبل ملے تھے۔‘

اگرچہ اسرائیلی فضائیہ نے بے شمار کامیابیاں سمیٹیں، مگر ایچ تھری کے آپریشن کے بعد اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

کرنل ایلیعزر کوہن نے اپنی کتاب ’بیسٹ ڈیفنس آف اسرائیل‘ میں لکھا کہ ’ایچ تھری کو معمولی نقصان پہنچا، لیکن نقصانات بہت ہوئے۔ ایک پائلٹ اور نیویگیٹر کی ہلاکت، دو کی گرفتاری، اور تین طیاروں کا تباہ ہونا کسی بھی اور بیس سے زیادہ تھے۔‘

اردن کی حکومت نے سیفُ الاعظم کو سرکاری اعزاز ’وسام الاستقلال‘ سے نوازا، عراق نے ’نوط الشجاعۃ‘ دیا، اور پاکستان نے ’ستارۂ بسالت‘۔ اس سے قبل پاکستان انڈیا جنگ میں سیف ایک انڈین طیارہ گرا چکے تھے، جس پر اُنھیں ستارۂ جرات دیا گیا تھا۔

پاکستان سے بنگلہ دیش
1972 میں سیف بنگلا دیش منتقل ہو گئے اور ایک اور فضائیہ کی وردی زیب تن کی۔ 2001 میں انھیں ’لیوِنگ ایگل‘ کے طور پر انٹرنیشنل ہال آف فیم میں شامل کیا۔

پی اے ایف میگزین ’سیکنڈ ٹو نن‘ میں ایک مضمون میں ایئر کموڈور محمد علی لکھتے ہیں کہ ’سیف‌الاعظم نے چار مختلف ممالک، پاکستان، اردن، عراق اور بنگلا دیش کی فضائی افواج میں خدمات انجام دیں، اور دو مختلف ملکوں کی فضائی افواج انڈیا اور اسرائیل کے طیارے مار گرائے۔‘

بنگلا دیشی فوجی افسر اور تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل شاہدالانعام خان نے ایک مضمون میں لکھا کہ ’اسرائیل میں بھی سیف الاعظم کی جرأت کو سراہا جاتا ہے، جس کا ذکر جون 2020 میں ان کی وفات پر بڑے اخبارات نے نمایاں طور پر کیا۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’1967 کی عرب-اسرائیل جنگ میں ایک موقع پر، جب ایک اسرائیلی طیارہ ان کے نشانے پر تھا، انھوں نے سیدھا حملہ کرنے کے بجائے پہلو سے نشانہ لیا اور صرف دم پر فائر کیا۔ اسرائیلی پائلٹ بچ گیا اور پیراشوٹ سے زمین پر اتر آیا۔‘

انھوں نے لکھا ’اس پائلٹ نے بعد میں بتایا کہ جب وہ نیچے آ رہا تھا، تو اعظم نے ایک رول اور لوپ لگا کر اسے ہاتھ ہلایا اور پھر ایک اور اسرائیلی طیارے کو مارنے روانہ ہو گئے۔ اگر اعظم چاہتے تو وہ پائلٹ زندہ نہ بچتا۔‘

یہ چھ روزہ جنگ اقوام متحدہ کی ثالثی سے جنگ بندی پر ختم ہوئی، مگر تب تک اسرائیل گولان کی پہاڑیاں، غزہ، جزیرہ نما سینا اور مغربی کنارہ (بشمول مشرقی یروشلم) پر قبضہ کر چکا تھا، جس سے مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ یکسر بدل گیا۔

لیکن یہ جنگ ایک ایسے ملک کے پائلٹ سیف الاعظم کے کارناموں کے لیے بھی یاد رکھی جاتی ہے جس کا اس تنازع سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ یعنی پاکستان۔

متعلقہ عنوانات
تاریخ
فوج
پاکستان
اسرائیل
جنگ
اسی بارے میں
ستار علوی
جب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا
26 اپريل 2024
HISTORY OF PAKISTAN ARMY AVIATION
جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیا
16 ستمبر 2024
bbc
1965 کی جنگ: جب پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کے دس جنگی طیارے تباہ کیے
7 ستمبر 2024
کرنل شیر خان
پاکستانی فوج کا وہ کپتان جس کی بہادری کا دشمن بھی قائل ہوا
24 جولائی 2019
یہ سیبر طیارے پاکستان کو امریکہ نے کچھ عرصہ پہلے دیے تھے
عید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایا
12 مئ 2025
فرانسیسی ساختہ رفال طیارے
پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانی
9 مئ 2025
اہم خبریں
لائیو,امریکہ ایران اسرائیل جنگ میں شامل: ہمارے پاس کئی آپشنز ہیں، امریکہ ہمارے جواب کا انتظار کرے، ایرانی وزیرِ خارجہ
’امن قائم کرنے والے‘ صدر کا ڈرامائی قدم جس نے امریکہ کو اسرائیل ایران تنازع کے بیچ لا کھڑا کیا
3 گھنٹے قبل
کیا ایران چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے والا تھا؟
16 منٹ قبل
فیچر اور تجزیے
ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ اور عاصم منیر کی ملاقات: کیا ایران، اسرائیل جنگ میں پاکستان کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟
19 جون 2025
social media
سیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایا
20 جون 2025
پاکستان ایران تعلقات
ایران اسرائیل تنازع: اسلام آباد کس حد تک تہران کی مدد کر سکتا ہے اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟
19 جون 2025
ایران
ایران سے آنے والے پاکستانی طلبا پر کیا بیتی: ’فضا میں ڈرونز کو پھٹتا دیکھ کر محسوس ہوا جیسے زندگی ختم ہونے والی ہے‘
19 جون 2025
مقبول خبریں
1
’امن قائم کرنے والے‘ صدر کا ڈرامائی قدم جس نے امریکہ کو اسرائیل ایران تنازع کے بیچ لا کھڑا کیا
2
ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بارے میں اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟
3
سب سے طاقتور بنکر شکن بم جو امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے لیے استعمال کیے
4
ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے کیا خطرات جنم لے سکتے ہیں؟
5
کچھ خواتین کو سپرم سے الرجی کیوں ہوتی ہے؟
6
پاکستان کی صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش: ایک ’شاندار چال‘ یا خطے کی صورتحال کے تناظر میں ’نامعقول‘ فیصلہ؟
7
برطانیہ کا جدید ترین لڑاکا ایف-35 بی طیارہ انڈین ایئرپورٹ پر ایک ہفتے سے کیوں کھڑا ہے؟
8
ایران پر امریکی حملے: پاکستان سمیت بیشتر ممالک کی مذمت، سوشل میڈیا پر ایک بار پھر’تیسری عالمی جنگ‘ کی باتیں
9
ایران میں یورینیم کی افزودگی: 3.67 فیصد کی حد کہاں سے آئی اور دنیا کے لیے 60 فیصد افزودہ یورینیم پریشانی کا باعث کیوں؟
10
کڑھائی والے پرس اور بُرج پر بے وفائی: فرانس کا شاہی سکینڈل جو انگلستان کے ساتھ سو سالہ جنگ کی وجہ بنا
BBC News, اردو

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Punjab Media Cell posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share