11/06/2025
*زندہ انبیآۓ کرام بھی ما فوق الاسباب نھیں سنتے*
(قسط۔ دوم)
اس سے پہلے دو انبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا آپ تفصیلی ذکر پڑھ چکے ھیں۔کہ زندہ پیغمبر سامنے بیٹھے فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔تو وفات کے بعد جب انکی ارواح مبارکہ جنت میں اور اجساد مبارکہ کئی پردوں کے پیچھے سے کیسے سنتی ھیں۔
آج کی قسط میں امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کے واقعات بیان کیے جائیں گے ۔جن سے ثابت ھو گا کہ حضور ﷺ آھستہ آواز کو دنیاوی حیات کے ساتھ بھی نھیں سنتے۔
*واقعہ* ۔۔۔١
واقعہ "تَصَدَّقْنَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ" (صدقہ دو اے عورتوں کے گروہ) ایک مشہور حدیث میں آیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو خصوصاً صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ یہ واقعہ عام طور پر عید کے خطبے کے موقع پر پیش آیا۔ ذیل میں اس واقعے کو مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے:
*متنِ* *حدیث* :
یہ حدیث کئی کتبِ حدیث میں آئی ہے، ان میں سے ایک صحیح بخاری کی روایت ہے:
> عن ابن عباس، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوم أضحى أو فطر، فصلى، ثم خطب، ثم أتى النساء فوعظهن وذكرهن، وأمرهن بالصدقة، فجعلت المرأة تلقي القرط والسخاب.
(صحیح البخاری، حدیث: ٩٧٩)
*ترجمہ* :
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی یا عید الفطر کے دن (نماز کے لیے) نکلے، پھر نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا، پھر عورتوں کے پاس گئے، انہیں نصیحت کی، اور ذکر و وعظ فرمایا، اور انہیں صدقہ دینے کا حکم دیا۔ تو عورتوں نے اپنے زیورات جیسے بالیوں اور ہاروں کو نکال کر دینا شروع کر دیا۔
*تفصیلی* *واقعہ* :
صحیح مسلم کی روایت میں اس واقعہ کی مزید تفصیل آتی ہے:
> عن جابر رضي الله عنه قال: شهدت مع النبي ﷺ الصلاة يوم العيد، فبدأ بالصلاة قبل الخطبة، ثم خطب الناس، فلما فرغ نزل فأتى النساء فوعظهن وذكرهن، وقال: يا معشر النساء تصدقن، فإني رأيتكن أكثر أهل النار، فقالت امرأة منهن: ولم يا رسول الله؟ قال: تكثرن اللعن، وتكفرن العشير...
(صحیح مسلم، حدیث: ٨٨)
*ترجمہ* :
جابرؓ کہتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے پہلے نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا۔ جب آپ خطبہ دے چکے تو آپ عورتوں کے پاس تشریف لائے، انہیں نصیحت کی اور فرمایا:
"یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ"
(اے عورتوں کے گروہ! صدقہ دو، کیونکہ میں نے تمہیں دوزخ میں زیادہ دیکھا ہے۔)
ایک عورت نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! ایسا کیوں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
"تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ"
(تم بہت زیادہ لعنت بھیجتی ہو، اور شوہر کے احسانات کی ناقدری کرتی ہو۔)
پھر آپ ﷺ نے انہیں صدقہ کی ترغیب دی، تو عورتیں اپنے زیورات اتار کر صدقہ میں دینے لگیں۔
مفہوم و سبق:
1. عورتوں کی دینی ذمہ داری: رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو الگ خطاب کر کے ان کی دینی رہنمائی فرمائی۔
2. صدقہ کی اہمیت: صدقہ گناہوں کو مٹاتا ہے اور جہنم سے بچاتا ہے۔
3. لعنت اور ناشکری سے بچنا: عورتوں کو خصوصی طور پر لعنت کرنے اور شوہر کی ناقدری سے خبردار کیا گیا۔
4. نرمی و حکمت سے دعوت: نبی ﷺ نے سختی نہیں کی بلکہ نصیحت و شفقت سے اصلاح کی۔
5. عملی تربیت: عورتوں نے فوراً اپنے زیورات نکال کر صدقہ کیے، جو ان کی ایمانی تربیت کا ثبوت ہے۔
*عبرت* و *نصیحت* :
یہ حدیث مرد و عورت سب کے لیے ایک پیغام ہے کہ:
گناہوں سے بچیں، خاص طور پر زبان کے گناھوں سے۔
> حدیث:
"إن المسلم إذا أنفق على أهله نفقة وهو يحتسبها كانت له صدقة"
(صحیح بخاری، حدیث: ٥٣)
2. خاوند کا صدقے کا حق دار ہونا:
اگر شوہر خود فقیر و محتاج ہو تو بیوی اسے صدقہ دے سکتی ہے۔
3. عورت کا دینی مسئلہ پوچھنا:
عورت اگر کسی دینی مسئلے میں الجھن محسوس کرے، تو وہ خود یا کسی کے ذریعے مسئلہ پوچھ سکتی ہے، اور یہ شریعت میں پسندیدہ ہے۔
4. پردے ک
حضرت زینب نے براہِ راست نبی ﷺ سے سوال کرنے کے بجائے کسی اور اپنا نمائندہ بنایا، جو ان کے ادب، حیاء اور پردے کی
5. نبی ﷺ کی تعلیم کا اسلو نہایت نرمی، حکمت سے بیان فرمایا، اور شوہر کی بات کو سچ قرار دے کر اہلِ خانہ
حضرت زینب نے ن
حضرت زینب رضی اللہ عنہا (زوجہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے براہِ راست نبی کریم ﷺ سے مسئلہ نہیں پوچھا بلکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ذریعے مسئلہ پوچھوایا، اور ان سے یہ تاکید بھی کی کہ ہمارا نام نہ بتانا۔ یہ واقعہ نہایت ادب، شرم و حیا، اور دینی غیرت کا نمونہ ہے۔
ذیل میں یہ واقعہ صحیح مسلم کی اصل روایت اور مکمل تفصیل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:
**حدیث کا اصل متن (صحیح مسلم، حدیث: 1000)**
> عن زينب امرأة عبد الله، قالت:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تصدقن ولو من حليكن."
قالت: فانطلقت إلى عبد الله فقلت: إنك رجل خفيف ذات اليد، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أمرنا بالصدقة، فأته فاسأله، فإن كان ذلك يجزئ عني، وإلا صرفتها إلى غيركم.
قال: بل ائتيه أنت.
قالت: فانطلقت، فإذا امرأة من الأنصار بباب رسول الله صلى الله عليه وسلم، حاجتي حاجتها.
وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ألقيت عليه المهابة، فخرج علينا بلال، فقلنا له:
ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخبره أن امرأتين بالباب تسألانك: أتجزئ الصدقة عنهما على أزواجهما وعلى أيتام في حجورهما؟ ولا تخبره من نحن.
فدخل بلال، فسأله، فقال له: "من هما؟"
قال: امرأة من الأنصار وزينب.
قال: "أي الزيانب؟"
قال: امرأة عبد الله.
فقال: "لهما أجران: أجر القرابة، وأجر الصدقة."
*ترجمہ:*
حضرت زینب رضی اللہ عنہا (عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی) کہتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"صدقہ دو، چاہے زیور ہی سے کیوں نہ ہو"
میں نے اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود سے کہا:
"آپ مالی لحاظ سے کمزور ہیں، اور رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا ہے۔ آپ نبی ﷺ کے پاس جا کر پوچھیں کہ اگر میں آپ پر خرچ کروں تو کیا وہ صدقہ شمار ہوگا؟ اگر ہاں تو ٹھیک، ورنہ کسی اور کو دوں گی۔"
عبداللہؓ نے کہا:
"نہیں، تم خود جاؤ اور جا کر پوچھو۔"
میں نبی ﷺ کے دروازے پر پہنچی تو وہاں ایک انصاری عورت بھی آئی ہوئی تھی، جس کا مسئلہ بھی وہی تھا۔
نبی کریم ﷺ پر بڑی ہیبت طاری رہتی تھی، (ہم براہ راست نہ جا سکیں) تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ باہر آئے، ہم نے ان سے کہا:
> "نبی ﷺ کے پاس جاؤ، اور بتاؤ کہ دو عورتیں باہر کھڑی ہیں، پوچھتی ہیں کہ کیا اگر ہم اپنے شوہروں اور اپنے زیر کفالت یتیم بچوں پر خرچ کریں تو کیا وہ صدقہ شمار ہوگا؟ اور خبردار! انہیں نہ بتانا کہ ہم کون ہیں۔"
حضرت بلالؓ اندر گئے اور نبی ﷺ سے پوچھا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"وہ کون ہیں؟"
بلالؓ نے عرض کیا:
"ایک انصاری عورت اور زینب۔"
آپ ﷺ نے پوچھا:
"کون سی زینب؟"
بلالؓ نے کہا:
"عبداللہ بن مسعود کی بیوی۔"
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ان دونوں کو دو اجر ملیں گے: ایک قرابت داری کا اور دوسرا صدقہ کا۔"
*اہم نکات و اسباق:*
1. *شرم و حیا اور احتیاط:*
حضرت زینبؓ نے نبی ﷺ سے براہ راست سوال کرنے کے بجائے حضرت بلالؓ کے ذریعے سوال کروایا اور تاکید کی کہ ہمارا نام نہ لیا جائے۔
2. *شوہر پر خرچ کرنا صدقہ ہے*:
اگر عورت شوہر یا اپنے زیر کفالت یتیم بچوں پر خرچ کرے تو اسے صدقے کا ثواب ملتا ہے۔
3. *دینی غیرت اور وقار:*
صحابیات رضی اللہ عنہن دین سیکھنے میں سنجیدہ تھیں، مگر ان کے دل میں شرم و حیاء اور رسول اللہ ﷺ کا ادب اتنا تھا کہ وہ پردے اور توسط سے سوال کرتی تھیں۔
4. *نبی ﷺ کی حوصلہ افزائی:*
آپ ﷺ نے ان کے اس عمل کو نہ صرف درست قرار دیا بلکہ دوہرا اجر کی بشارت دی۔
*نتیجہ* :
عورت اگر اپنے شوہر یا بچوں پر خرچ کرتی ہے تو یہ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔
دینی مسئلہ پوچھنا عورتوں کا حق ہے، اور اگر وہ پردے کی پابندی کے ساتھ کسی ذریعے سے پوچھیں تو یہ شرعاً بالکل درست اور قابلِ تحسین ہے۔
صحابہ و صحابیات کی زندگیوں میں ادب، حیاء، غیرت اور علم کا حسین امتزاج تھا۔
*مسئلہ توحید کا ثبوت*
اس پر اہلِ سنت والجماعت قرآن و سنت، صحابہ کرام اور ائمہ سلف کا عقیدہ
> "جب زندہ نبی ﷺ کو دروازے پر کھڑی عورتوں کا علم نہ ہوا — حتیٰ کہ پوچھا کہ کون سی زینب؟ — تو آپ ﷺ کی وفات کے بعد، جب روح جنت میں ہے اور جسم مبارک روضہ میں ہے، تو منوں مٹی کے نیچے آنے والوں کو کیسے پہچانتے ہیں؟"
1. *حدیثِ زینب* — دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ کو ظاہری طور پر ہر چیز کا علم نہیں تھا
، صحیح مسلم کی حدیث (اوپر بیان کی گئی) واضح طور پر بتاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بلالؓ سے پوچھا:
> "من هما؟" یعنی: وہ دونوں عورتیں کون ہیں؟
پھر فرمایا:
> "أَيُّ الزَّيَانِبِ؟" — کون سی زینب؟
یہ ثابت کرتا ہے کہ نبی ﷺ کو ہر حاضر و غائب کا علم نہیں تھا۔
آپ ﷺ کو جو علم دیا گیا، وہ وحی و الہام اور ظاہری علامات کے ذریعے تھا، نہ کہ ذاتی طور پر ہر ایک کی معرفت۔
2. وفات کے بعد نبی ﷺ کو دنیا کے تمام افراد کی حاضری کا علم ہونا — شریعت میں کوئی دلیل نہیں
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ روضہ مبارک پر آنے والے ہر شخص کو بنام و بشکل پہچانتے ہیں، سلام سنتے ہیں، اور جواب دیتے ہیں۔
لیکن:
*یہ عقیدہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں*
*نہ صحابہؓ کا یہ عقیدہ تھا*
*نہ تابعین کا*
*نہ ائمہ اربعہ کا*
3. *درور پہنچنے کا طریقہ*۔
درود دعا ھے ۔دعائیں سننے والا اللہ ھے۔اللہ سنکر پڑھنے والے کو بھی ثواب پہنچا دیتا ھے۔اور نبی پاک کے درجات بھی بلند کر دیتا ھے۔یھی درود کا پہنچنا ھے
*4* . *بعد الوفات* "ہر آنے والے کو پہچاننے" کا عقیدہ — غلو اور غیر شرعی ہے
نبی ﷺ کی ذات مبارکہ ہمارے ایمان کا مرکز ہے، لیکن غلو (حد سے بڑھ جانا) منع ہے:
> "لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم، إنما أنا عبد فقولوا: عبد الله ورسوله."
(بخاری)
*ترجمہ* :
"مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جیسا کہ عیسائیوں نے عیسیٰؑ کے ساتھ کیا، میں صرف اللہ کا بندہ ہوں، تو مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو۔"
5. *سلف صالحین کا موقف*:
*امام مالک رحمہ اللہ:*
جب کسی نے نبی ﷺ کے روضہ پر آ کر دعا میں رخ قبر کی طرف کیا تو فرمایا:
> "ويْحَك، إِلَى أَيْنَ تُوَجِّهُ؟ إِنَّمَا هُوَ قِبْلَةٌ يُسْتَقْبَلُ فِي الدُّعَاءِ، وَلَا يُسْتَقْبَلُ بِهِ."
(الشفا للقاضی عیاض)
*یعنی* : دعا صرف قبلہ کی طرف کی جاتی ہے، قبر کی طرف رخ کرنا بدعت ہے۔
*نتیجہ اور خلاصہ*:
1. نبی ﷺ کو زندگی میں بھی ہر غیب کا علم نہیں تھا، جیسے زینبؓ کا واقعہ۔
2. وفات کے بعد نبی ﷺ کا ہر آنے والے کو نام، صورت، یا نیت سے پہچاننا شریعت سے ثابت نہیں۔
3. سلام پہنچانے کا عمل فرشتے انجام دیتے ہیں۔
4. اس طرح کا عقیدہ رکھنا کہ نبی ﷺ ہر قبر پر آنے والے کو خود بخود جانتے ہیں — یہ غلو اور بدعت ہے۔
5. ہمیں رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھنی ہے، لیکن حدودِ شریعت میں۔۔۔۔۔۔