
25/06/2025
"کرائے کا قاتل"
رات کے سائے جیسے شہر کی سڑکوں پر اتر آئے تھے۔ ہر طرف خاموشی تھی، مگر دل میں طوفان برپا تھا۔ وہ شخص، جسے سب "سائے" کے نام سے جانتے تھے، اس وقت شہر کے ایک مہنگے ہوٹل کے کمرے میں اپنی اگلی ہدف کی تفصیلات پڑھ رہا تھا۔ تصویر میں ایک لڑکی تھی… "نور"۔
خوبصورت چہرہ، آنکھوں میں معصومیت اور چپکے ہوئے لب جیسے کوئی راز چھپا ہو۔ "سائے" نے کئی چہرے دیکھے تھے، مگر یہ چہرہ اس کے دل میں کچھ ہلا گیا۔
اگلی شام، نور اپنے کتب خانے میں مصروف تھی۔ پرانی کتابیں، ٹوٹے خواب، اور تنہائی اس کی زندگی کے ساتھی تھے۔ وہ اپنے والدین کے قتل کے بعد خود کو دنیا سے کاٹ چکی تھی۔ تبھی ایک اجنبی نے آ کر ایک کتاب مانگی:
"کیا میرے لیے کچھ ایسا ہے جو دل کو چین دے؟"
نور نے مسکرا کر کہا:
"شاید یہ کتاب… 'محبت کا ہتھیار'۔"
وہ مسکرا دیا۔ یہ "سائے" تھا۔
دن گزرتے گئے۔ سائے روز آتا، کتاب لیتا، اور نور سے بات کرتا۔ دھیرے دھیرے، قاتل کے دل میں جذبات نے جنم لینا شروع کیا۔ جو ہاتھ جان لینے کے لیے اٹھتا تھا، اب دل رکھنے لگا تھا۔ نور کی سادگی، اس کی باتوں کی خوشبو، سائے کے اندر کی سیاہی کو دھو رہی تھی۔
ایک شام، نور نے پوچھا:
"تم کون ہو؟ تمھاری آنکھوں میں درد چھپا ہے، مگر زبان چپ ہے۔"
سائے نے نظریں جھکا لیں۔ وہ خاموش رہا۔
اسی رات، اس کے آقا نے فون کیا:
"کل رات، ٹارگٹ کا کام تمام ہو جانا چاہیے۔ تمھاری رقم ٹرانسفر ہو چکی ہے۔"
مگر… اب یہ ہدف صرف ایک ہدف نہیں تھا، وہ اس کے دل کی دھڑکن بن چکی تھی۔
وہ کشمکش میں مبتلا رہا۔ دل ایک طرف کھینچتا، پیشہ دوسری طرف۔ لیکن پہلی بار… دل جیت گیا۔
اگلے دن سائے نے سب کچھ نور کو بتا دیا۔ اس کا ماضی، اس کی شناخت، اور وہ سچ جو نور کو جان سے مارنے کے لیے دیا گیا تھا۔
نور نے اسے غور سے دیکھا۔
"تو تم مجھے مارنے آئے تھے؟"
"ہاں… مگر تم نے مجھے جینا سکھا دیا۔"
نور نے صرف ایک جملہ کہا:
"پھر آج سے قتل کرو، مگر ماضی کا… تاکہ تم زندہ رہ سکو۔"
سائے نے سب کچھ چھوڑ دیا۔ وہ اپنے جرموں کی سزا کاٹنے کے لیے قانون کے سامنے پیش ہوا۔ کئی سال قید کے بعد، جب وہ واپس آیا، تو نور اسی کتب خانے میں سائے کی منتظر تھی۔
بہشتِ گلزار سے اک اقتباس