پیام جہاں

پیام جہاں Monthly Pyam-E-Jahan focused on Urdu Literature, (Poetry, Gazals, Novels)

اندھا کباڑین م راشدشہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے پا شکستہ سر بریدہ خواب جن سے شہر والے بے خبر! گھومتا ہوں شہر کے گوشوں...
11/08/2025

اندھا کباڑی
ن م راشد

شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے
پا شکستہ سر بریدہ خواب
جن سے شہر والے بے خبر!
گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب
کہ ان کو جمع کر لوں
دل کی بھٹی میں تپاؤں
جس سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
جیسے نو آراستہ دولہوں کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمت رہ ملے!

''خواب لے لو خواب۔۔۔۔''
صبح ہوتے چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا
خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟''
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو!
خواب گر میں بھی نہیں
صورت گر ثانی ہوں بس
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!

شام ہو جاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا
مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب،،
''مفت'' سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ
''دیکھنا یہ ''مفت'' کہتا ہے
کوئی دھوکا نہ ہو؟
ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو؟
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب؟
بھک سے اڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب
جی نہیں کس کام کے؟
ایسے کباڑی کے یہ خواب
ایسے نا بینا کباڑی کے یہ خواب!''

رات ہو جاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں
رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
''یہ لے لو خواب۔۔۔۔''
''اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو، خواب
میرے خواب
خواب میرے خواب
خواب
ان کے دام بھی''

ڈاکٹر آصف مغل: ادب، ہنر اور انسانیت کا ایک خاموش رفیقمیانوالی کی دھرتی نے جن گہرِ نایاب کو اپنے سینے سے اُگایا، ڈاکٹر آص...
07/07/2025

ڈاکٹر آصف مغل: ادب، ہنر اور انسانیت کا ایک خاموش رفیق

میانوالی کی دھرتی نے جن گہرِ نایاب کو اپنے سینے سے اُگایا، ڈاکٹر آصف مغل اُن میں سے ایک تھے۔ وہ نہ صرف ایک شاعر، مصنف، اور محقق تھے بلکہ پروفیشنلزم اور انسانیت کا بھی ایک نادر نمونہ تھے۔ اُن کی زندگی کا ہر پہلو سادگی، مہربانی، اور علم کی پیاس سے عبارت تھا سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی اچانک رحلت کا سن کر یقین نہیں آیا لیکن موت برحق ہے۔ میری ڈاکٹر آصف مغل سے پہلی ملاقات 2009 میں میونسپل کمیٹی ہال میں مشاعرہ پر ہوئی ان کے ہمراہ مرحوم برادرم انوار حسین حقی، جناب مظہر نیازی، اور دیگر اہل قلم حضرات کے ساتھ نشست ہوئی میں ان کی شخصیت سے متاثر ہوا اس کے بعد 2014 تک ملاقاتوں کا سلسلہ رہا۔

ڈاکٹر آصف مغل نے اپنی تحریروں کے ذریعے میانوالی کی تہذیبی رگوں کو زندہ رکھا۔ اُن کی شاعری میں صوفیانہ رچاؤ اور جدید زندگی کے تضادات کا گہرا ادراک ملتا تھا۔ اُن کا مجموعہ کلام دشتِ وفا کے مسافر اور تحقیقی مقالات نے نہ صرف مقامی ادب کو بلکہ اردو زبان کو بھی مالا مال کیا۔

بطور ڈاکٹر، اُن کا پیشہ ورانہ انداز شفقت اور ذمہ داری کی مثالی تھا۔ وہ غریبوں کے لیے مفت علاج کو عبادت سمجھتے تھے۔ اُن کا کلینک صرف ایک ہسپتال نہیں بلکہ مید کی ایک روشن کرن تھا، جہاں مریضوں کو دوا کے ساتھ ساتھ مسکراہٹیں بھی ملتی تھیں۔
وہ ہنس مکھ غریبوں کے ہمدرد تھے۔ اُن کی زندگی کا فلسفہ تھا: اگر تمہارے پاس علم ہے تو اسے بانٹو، اگر پیسہ ہے تو غریبوں پر لٹاؤ، اور اگر وقت ہے تو دکھی دل سنو!
جب ایسے لوگ چلے جاتے ہیں تو الفاظ رو پڑتے ہیں
ڈاکٹر صاحب کی رحلت پر یہ چند اشعار اُن کی یاد میں:

> وہ جو تھے دشتِ وفا کے مسافر، اب راہوں میں کہیں گم ہو گئے،
>ہم نے دیکھا تھا جو چہرہ اُن کا، وہ اب تصویر بن کے رہ گئے۔

> کل تک جو ہمارے دکھ سنتے تھے، آج خود خاموش ہو گئے،
> کیسے مان لیں ہم یہ بات، کہ وہ سب کچھ چھوڑ کے چلے گئے؟

> کہتے تھے 'آصف' زندگی کوئی سفر ہے، بس ایک پل کی مہمانی ہے،
> مگر ہم تو سمجھے تھے یہ پل ہمیشہ قائم رہے گا، پر وہ بھی توڑ کر جا چکے!
ایک ورثہ جو زندہ رہے گا
ڈاکٹر آصف مغل نے الفاظ، علم، اور محبت کا جو چراغ جلایا تھا، وہ کبھی بجھنے والا نہیں۔ اُن کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ "انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے"۔ اُن کی کمی صرف میانوالی ہی نہیں بلکہ پورے ادبی دنیا میں محسوس کی جائے گی۔

خدا اُن کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ دے، اور ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!

—✍️ آصف حیات

ہم پتھروں کے ہمنشیں برا نہ مانیےیہ سخت لہجہ اپنی ادا ہو گیا ہے اب پونم نورین
05/07/2025

ہم پتھروں کے ہمنشیں برا نہ مانیے
یہ سخت لہجہ اپنی ادا ہو گیا ہے اب
پونم نورین

جو شفق ہے کربلا رخ پر ترے پھیلی ہوئی اس نے پائی ہے رمق زینبؑ تری گفتار سےعلینا عترتAleena Itrat
05/07/2025

جو شفق ہے کربلا رخ پر ترے پھیلی ہوئی
اس نے پائی ہے رمق زینبؑ تری گفتار سے
علینا عترت
Aleena Itrat

محرم کے حوالے سےکلام علینا عترتحق کی آئی جب صدا زنجیر کی جھنکار سےکفر کا سر کٹ گیا ایمان کی تلوار سےسر بلندی ہےعبادت کو،...
04/07/2025

محرم کے حوالے سے
کلام علینا عترت
حق کی آئی جب صدا زنجیر کی جھنکار سے
کفر کا سر کٹ گیا ایمان کی تلوار
سے
سر بلندی ہےعبادت کو، خود اس کردار سے
زینت سجدہ بڑھی ہے عابد بیمار سے
جوشفق ہےکربلا رخ پر ترے پھیلی ہوئی
اس نے پائی ہے رمق سجاد کی گفتار سے
پھر حسین ابن علی جیسی شجاعت چاہئۓ
ظلم کے پھر حوصلے ہونے لگے بیدار سے
العجل مشکل کشا ! یہ وقت کی آواز ہے
قائدے علم و عمل کے ہو گۓمسمار سے
گر مرے اشعار مولا آپ کر لیں گےقبول
میری کشتی پار ہو جاۓگی اس پتوار سے
کربلا کی داستاں یوں ہی نہیں لکھی گئی
یہ علینا درج ہے صبر و رضا ایثار سے
طالب دعا
علینا عترت

اسلام کو عطا ہوئے جب کربلا کے پھولراه نجات بن گئے فرش عزا کے پھولشعلوں کی زد یہ کم کی آندھی کے درمیاںکس شان سے کھلے رہے ...
01/07/2025

اسلام کو عطا ہوئے جب کربلا کے پھول
راه نجات بن گئے فرش عزا کے پھول
شعلوں کی زد یہ کم کی آندھی کے درمیاں
کس شان سے کھلے رہے صبر و رضا کے پھول
علینا عترت
Aleena Itrat

ساغر صدیقی: درد کی شاعری کا آخری مسافر.ساغر صدیقی (1928-1974) اردو شاعری کا وہ انوکھا ستارہ تھا جس کی چمک نے لاہور کی وی...
27/06/2025

ساغر صدیقی: درد کی شاعری کا آخری مسافر.

ساغر صدیقی (1928-1974) اردو شاعری کا وہ انوکھا ستارہ تھا جس کی چمک نے لاہور کی ویران گلیوں کو روشن کر دیا۔ ان کی شاعری "درد، تنہائی اور محرومی"کا ایسا مرقع ہے جو دل کو چھو لے۔ وہ اپنے آپ کو **"شہرِ غم کا آخری مسافر"** کہتے تھے، اور یہی ان کی زندگی کا المیہ بھی تھا۔

ساغر کی غزلیں "سادہ لفظوں میں گہرے جذبات"کی حامل ہیں۔ ان کے ہاں روزمرہ کی باتیں بھی فلسفہ بن جاتی ہیں، جیسے:
"رات بھر چراغاں رہا شہرِ غم، ہم سے بھی کوئی پوچھتا تو اچھا تھا"


انہوں نے غربت، نفسیاتی امراض اور معاشرتی بے رخی کا سامنا کیا، مگر یہی تکالیف ان کی شاعری کا "سنہری خام مواد" بنیں۔ ان کا انتقال لاہور کے ایک پاگل خانے میں ہوا، جہاں وہ اپنے آخری دن گزار رہے تھے

ساغر آج بھی "ہجرت کرتے ہوئے محبوب" اور "ٹوٹے ہوئے خوابوں" کی علامت ہیں۔ ان کی شاعری جدید نسل کو یہ سبق دیتی ہے: "درد ہی سچی شاعری کی بنیاد ہے"

ساغر صدیقی کی مانند شاعر کم ہی پیدا ہوتے ہیں جو "اپنے خونِ جگر سے الفاظ کو سینچیں"*وہ اردو ادب کا ایک ایسا "خونِ جگر لکھا ہوا باب"ہیں جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔
از سدرہ خان ( ایڈیٹر پیام جہاں)

خواب بکھرے درد لکھا پھر بھی لب خاموش ہیںکتنی بے بس ہے زباں اور کتنا گہرا ہے گلہسفینہ سلیم ایڈووکیٹ
27/06/2025

خواب بکھرے درد لکھا پھر بھی لب خاموش ہیں
کتنی بے بس ہے زباں اور کتنا گہرا ہے گلہ
سفینہ سلیم ایڈووکیٹ

تیری آنکھوں میں نقش ہونے کو میری آنکھوں کو غرق ہونا... پڑا                                                          ڈاکٹ...
25/05/2025

تیری آنکھوں میں نقش ہونے کو
میری آنکھوں کو غرق ہونا... پڑا
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور

مصنفہ نمرہ احمد کا ناول "مالا" ایک روحانی اور جذباتی کہانی ہے جو قارئین کو گہرائیوں تک متاثر کرتی ہے۔ یہ ناول محبت، ایما...
23/01/2025

مصنفہ نمرہ احمد کا ناول "مالا" ایک روحانی اور جذباتی کہانی ہے جو قارئین کو گہرائیوں تک متاثر کرتی ہے۔ یہ ناول محبت، ایمان، اور روحانی سفر کے موضوعات پر مبنی ہے۔

"مالا" کی کہانی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنے ایمان اور محبت کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ناول میں روحانی تعلیمات، اسلامی اقدار، اور انسانی جذبات کا گہرا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ نمرہ احمد کی تحریر میں ایک خاص قسم کی روانی اور گہرائی ہے جو قارئین کو کہانی میں کھو جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔

اگر آپ ناول "مالا" پڑھنا چاہتے ہیں، تو یہ آپ کو ایک یادگار اور فکر انگیز تجربہ فراہم کرے گا۔ اسے پڑھ کر آپ محبت، ایمان، اور زندگی کے معنی کے بارے میں نئے زاویوں سے آشنا ہوں گے۔

جب کوئی چیز ختم ہو جائے تو ہم اس کو زیادہ یاد کرتے ہیں جیسےسرد موسم میں دھوپ کا ایک لمحہاندھیروں کے سمندر میں روشنی کی ا...
13/01/2025

جب کوئی چیز ختم ہو جائے تو ہم اس کو زیادہ یاد کرتے ہیں جیسے
سرد موسم میں دھوپ کا ایک لمحہ
اندھیروں کے سمندر میں روشنی کی ایک کرن
جب کوئی پیار کھو جاتا ہے تو ہم اس کی یاد میں کھو جاتے ہیں
بہار ختم ہونے پر زیادہ خوب صورت لگتی ہے
ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اس کی تعریف کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے _
(میرے وطن ثانی میں گھر کی چاردیواری بھی حتی کہ پھولوں کی ہوتی ہے)
عارفہ ملائیکہ

عارفہ ملائکہ کی یوم ولادت کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد اور نیک خواہشات۔ ایک ممتاز شاعرہ اور باوقار شخصیت جو اپن...
12/01/2025

عارفہ ملائکہ کی یوم ولادت کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد اور نیک خواہشات۔ ایک ممتاز شاعرہ اور باوقار شخصیت جو اپنے کلام سے ادب کی دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری میں کشمیر کی محبت اور انسانی جذبات کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں۔ "کشمیر من" اور "نہیں رہنا" جیسے اشعار ان کی گہری سوچ اور تخلیقی ذہانت کی غماز ہیں۔

عارفہ ملائکہ نہ صرف ایک کامیاب شاعرہ ہیں بلکہ ایک عظیم انسان بھی ہیں جو سماجی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتی ہیں، خاص طور پر امن کے حوالے سے ان کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔ ان کی شاعری اور شخصیت سے ہم سب کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

یقیناً ان کی شاعری کی سرحدیں نہ صرف ادب تک محدود ہیں بلکہ دلوں میں بھی گہری جگہ بناتی ہیں۔ ان کی محنت اور جذبہ ہمیشہ ہمیں متاثر کرتا رہے گا۔

عارفہ ملائکہ کی زندگی اور کلام کا یہ حسین امتزاج ایک نیا شعور بیدار کرتا ہے۔ ہم ان کی کامیابیوں کے مزید دروازے کھلنے کی دعا گو ہیں اور ان کی شاعری کے وسیع اثرات کا انتظار کرتے ہیں

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when پیام جہاں posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to پیام جہاں:

Share

Category