پیام جہاں

پیام جہاں Monthly Pyam-E-Jahan focused on Urdu Literature, (Poetry, Gazals, Novels)

04/11/2025

بشیر بدر جدید اردو غزل کے اہم ستونوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کی شاعری #کلاسیکی روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے ۔ ان کا منفرد لب و لہجہ اور عام فہم الفاظ کا استعمال انہیں عوام میں بے حد مقبول بناتا ہے

وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں نہ میں کہہ سکا، نہ لکھ سکاکہ زبان ملی تو کٹی ہوئی کہ قلم ملا تو بکا ہوا  !اقبال اشعر
30/10/2025

وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں نہ میں کہہ سکا، نہ لکھ سکا
کہ زبان ملی تو کٹی ہوئی کہ قلم ملا تو بکا ہوا !
اقبال اشعر

غزلآسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گاایک دن رات ڈھلے یوم حساب آئے گامطمئن ایسے کہ ہر گام یہی سوچتے ہیںاس سفر میں کوئی صحرا...
22/10/2025

غزل

آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا
ایک دن رات ڈھلے یوم حساب آئے گا
مطمئن ایسے کہ ہر گام یہی سوچتے ہیں
اس سفر میں کوئی صحرا نہ سراب آئے گا
یہ جوانی تو بڑھاپے کی طرح گزرے گی
جب کاٹ چکوں گا تو شباب آئے گا
کب مری آنکھوں میں خوں رنگ کرن اترے گی
رات کی شاخ پہ کب عکس گلاب آئے گا
زرد مٹی میں گھلی سبز توانائی نجیبؔ
اب ذرا آنکھ لگی ہے تو یہ خواب آئے گا
نجیب احمد

21/10/2025
21/10/2025

"عارفہ ملائکہ صاحبہ کی نظم "اے خاک نشینو"
عارفہ ملائکہ کی شاعری ہمیشہ انسانیت کے درد کو بیار کرتی ہے اور "اے خاک نشینو" اس کا بہترین ثبوت ہے۔

جگن ناتھ آزاد اور میانوالی : تحریر آصف حیات ناروجگن ناتھ آزاد  ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جسے ہندوستانی اور پاکستانی دونوں...
20/10/2025

جگن ناتھ آزاد اور میانوالی : تحریر آصف حیات نارو
جگن ناتھ آزاد ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جسے ہندوستانی اور پاکستانی دونوں کا پیار ملا ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ میری آخری خواہش ہوگی کہ میں دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لاؤں۔ ایک شاعر کی حیثیت سے، میں ایک 'امن کا گانا' لکھ کر عاجزانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہوں جو دونوں ممالک میں مشترک ہے، اسے لاکھوں ہندوستانی اور پاکستانی گائیں گے۔ میری خواہش ہے کہ ایک دن دونوں ممالک کے لوگ محبت کے لال ٹوپی کے گیت گائیں"

عیسیٰ خیل کے کھیتوں میں کھلنے والا پھول جب لاہور کے ادبی باغ میں مہکا تو پورے برصغیر میں اس کی خوشبو پھیل گئی۔ جگن ناتھ آزاد—نہ صرف ایک عظیم شاعر اور ادیب تھے بلکہ میانوالی کی اس مٹی کا اثاثہ تھے جس کی خوشبو ان کی شاعری کے ہر شعر سے محسوس کی جا سکتی ہے۔


5 دسمبر 1918ء کو عیسیٰ خیل میں پیدا ہونے والے جگن ناتھ آزاد کو ادبی ورثہ اپنے والد تلوک چند محروم سے ملا جو خود اردو کے صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ وہ کہتے تھے:

"میرے بچپن کی پہلی یادگار میرے والد ہیں جو شام ڈھلے دیا سلائی کے سامنے بیٹھ کر غزلیں پڑھا کرتے تھے".
تعلیمی سفر: میانوالی سے لاہور تک

انہوں نے 1933ء میں میانوالی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ راولپنڈی کے ڈی․اے․بی کالج سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد گورڈن کالج راولپنڈی سے بی․اے کیا۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آئے جہاں انہیں اقبال، عابد علی عابد اور صوفی غلام مصطفٰی تبسم جیسے اساتذہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔

پاکستان میں قیام کے یادگار لمحات

جگن ناتھ آزاد تقسیمِ ہند تک لاہور ہی میں مقیم رہے۔ اس دور میں انہوں نے ریڈیو پاکستان کے ساتھ بحیثیت پروڈیوسر کام کیا
ادبی حلقوںمیں فعال شرکت کی
قومی ترانے کے خالق کے طور پر شہرت پائی—اگرچہ یہ بات تاریخی اعتبار سے متنازعہ ہے

ان کا کہنا تھا کہ 14 اگست 1947ء کی رات ریڈیو پاکستان لاہور سے ان کا لکھا ہوا ترانہ *"ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک، اے سر زمین پاک"* نشر ہوا۔
جگن ناتھ آزاد کی شاعری میں میانوالی کی یادیں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں۔ ان کی مشہور غزل کا یہ بند ملاحظہ ہو:
"اتنا بھی شور تو نہ غمِ سینہ چاک کر
دنیا تو سن لے گی، یہ فسانہ نہ پھیلانا
اک شخص تھا کہ ہجر میں مر جائے گا کسی دن
اس کو خبر نہ کر، یہ افسانہ نہ پھیلانا
انہوں نے اردو ادب کو 50 سے زائد کتابوں سے نوازا جن میں سے قابلِ ذکر ہیں: "کاروانِ زندگی" (شعری مجموعہ) "اقبال: ایک تعارف" (تنقید) "اردو ہیئت و ارتقا" (تحقیق)
"نئی نظم کے تقاضے" (تنقید) "ہندوستانی مسلمان" (تاریخ)
1947ء میں جب وہ لاہور سے دہلی ہجرت کر گئے تو زندگی بھر اپنی جنم بھومی کو یاد کرتے رہے۔ 1978ء میں وہ عیسیٰ خیل واپس آئے تو گورنمنٹ ہائی اسکول کے پروگرام میں شرکت کی۔ اپنے پرانے گھر کی ویران دیواریں دیکھ کر ان کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔
جگن ناتھ آزاد 24 جولائی 2004ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن اپنے پیچھے ایک شاندار ادبی ورثہ چھوڑ گئے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ وطن سے محبت مذہب یا عقیدے سے بالاتر ہوتی ہے۔
آج بھی اگر میانوالی کے کسی بزرگ سے پوچھیں تو وہ جگن ناتھ آزاد کے بچپن کے قصے فخر سے سناتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے رفقاء اور ہمدم بھی اب دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی یادیں عیسیٰ خیل کی مٹی میں آج بھی رچی بسی ہے۔ یہی تو ہے وہ لازوال رشتہ جو ایک انسان کو اس کی دھرتی سے جوڑتا ہے—چاہے وہ کتنی ہی دور کیوں نہ چلا جائے۔
آزاد اردو کے ایک مشہور شاعر تھے، اپنی زندگی کے دوران، جنہوں نے ہندو مسلم یکجہتی اور دونوں ممالک کے درمیان امن کے بارے میں مسلسل لکھا۔ آزاد علامہ اقبال کے قریبی ساتھی تھے۔ اقبال کے مطالعہ میں آزاد کی شراکت کو آج بھی سب سے بڑی سوانح نگاری میں شمار کیا جاتا ہے۔

آگ ٹھہرے ہوے پانی میں لگانے والےکیا ملا تجھ کو مجھے چھوڑ کے جانے والے              (یٰسین ثاقب بلوچ)
16/10/2025

آگ ٹھہرے ہوے پانی میں لگانے والے
کیا ملا تجھ کو مجھے چھوڑ کے جانے والے
(یٰسین ثاقب بلوچ)

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when پیام جہاں posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to پیام جہاں:

Share

Category