
17/01/2025
رینٹ اے مولوی: دین کا کاروبار یا طاغوتی سازش؟
_ابو محمد_
پاکستان میں مذہب کے نام پر کاروبار کرنے کا رواج نیا نہیں، مگر حالیہ برسوں میں "رینٹ اے مولوی" کلچر نے دین کی تعلیمات کو مسخ کر کے ایک مکروہ روایت کو جنم دیا ہے۔ یہ کلچر صرف مذہبی اور عوامی حلقوں تک محدود نہیں، بلکہ سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنی طاغوتی خواہشات کی تکمیل کے لیے مذہب کو استعمال کیا۔ "رینٹ اے مولوی" کے مسلک پر گامزن یہ مولوی، پیر، اور صوفی حضرات اپنے مفادات کے عوض دین کی اصل روح کو دفن کر چکے ہیں اور عوام کو جہالت کی گہری کھائی میں دھکیل رہے ہیں۔ اقبال نے انہی کے بارے میں کیا خوب کہا تھا:
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
"رینٹ اے مولوی" کا یہ کلچر اُس وقت عروج پر پہنچا جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنی مرضی کے مطابق دین دشمن اور ریاست مخالف صیہونی شخصیات کو "مقدس" بنانے کی مہم شروع کی۔ عمران خان جیسے طاغوتی رہنما کو "ریاستِ مدینہ" کا خواہاں سیاسی راہنما بنا کر پیش کرنے کے لیے جھوٹے خوابوں، جعلی پیشین گوئیوں، اور مذہبی بیانیے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ پیر پنجر سرکار اور دیگر نامور مذہبی شخصیات؛ جن میں طارق جمیل، طاہر اشرفی، نور الحق قادری، صاحبزادہ حامد رضا، راجہ ناصر عباس جعفری، عبد الحبیب عطاری وغیرہ شامل ہیں، نے "رینٹ اے مولوی" کے کلچر پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے دین کو طاغوت کے سیاسی ایجنڈے کے لیے فروخت کر دیا۔ یہ افراد عوام کے سامنےدینی تعلیمات اور اپنے منصب کے تقدس کو پامال کر کے طاغوتی مفادات کی آبیاری کرتے رہے۔
لیکن اسٹیبلشمنٹ بدل گئی، ایک ظالم کی جگہ ایک اور ظالم نے لے لی اور آج قدرت کا بے آواز کوڑا اس عمران خان پر برس رہا ہے جسکو "رینٹ اے مولوی" کی منہج پر عمل پیرا اس مذہبی عفریت نے مسیحا بنایا تھا۔ حیرانگی اور افسوس اس بات پر ہے کہ عمران خان کی سیاسی زوال پذیری سے اس مذہبی عفریت نے کوئی عبرت نہیں پکڑی اور بدستور "رینٹ اے مولوی" کی منہج پر عمل پیرا رہ کر نئی اسٹیبلشمنٹ کی غلامی میں چاک و چوبند نظر آ رہے ہیں۔ ان کا عمل بتاتا ہے کہ ان کے دین کی منہج فقط طاغوت کی خدمت کرنا اور عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ اقبال نے ایسے ہی حالات پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا:
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
"رینٹ اے مولوی" کے اس کلچر کے پھلنے پھولنے میں غلطی صرف مذہبی پیشواؤں کی نہیں ہے، بلکہ عوام کی فرض علوم سے بیگانگی، لاعلمی اور جہالت پر مبنی جذباتیت بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے۔ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ مذہب کو کاروبار میں بدلنے والے نہ صرف دین کے دشمن ہیں بلکہ انسانیت کے بھی قاتل ہیں۔ "رینٹ اے مولوی" کی منہج پر گامزن یہ مولوی، پیر، اور صوفی اصل میں دین کے وہ دشمن ہیں جن کے بارے میں اقبال نے فرمایا تھا:
شریعتِ مولوی و مکتب کے پیچ و تاب میں ہے
کر بلہ کا مسافر، نہ کربلا پہنچا
لہٰذا! دین کا دفاع ناگزیر ہے لیکن یہ کیونکر ممکن ہو پائے گا؟
"رینٹ اے مولوی" کلچر کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ عوام باشعور ہوں اور ایسے عناصر کو مسترد کریں۔ علمائے حق اور دیانتدار مذہبی رہنماؤں کو آگے بڑھ کر ان مفاد پرستوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ دین اسلام کی اصل تعلیمات، جو عدل و انصاف کی بالادستی، ذریتِ آدم کی مشروع خود مختاری، انتخاب کے حق اور سیاسی کردار کو اجاگر کرتی ہیں، کو عوام کے سامنے واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک "رینٹ اے مولوی" کی منہج پر مذہب کی تجارت کا یہ کاروبار جاری رہے گا، اسلامی نظام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو ایسے جعلی مذہبی پیشواؤں سے پاک کریں، اور اس مذہبی عفریت کو ببانگ دہل "لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَ لِیَ دِیْنِ" کہیں جیسا کہ اقبال نے واضح موقف اپنایا:
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی