
05/07/2025
زمانہ عقل کو سمجھا ہُوا ہے مشعلِ راہ
کسے خبر کہ جُنوں بھی ہے صاحبِ ادراک
اس شعر میں علامہ اقبال دورِ جدید کی اُس سوچ پر تنقید کر رہے ہیں جس میں صرف "عقل" کو ہی زندگی کے تمام مسائل کا حل اور ترقی کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
اقبال کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ عقل کو مشعلِ راہ یعنی روشنی کا ذریعہ، رہنمائی کا وسیلہ مانتا ہے، اور جذبات، عشق یا دیوانگی (جُنوں) کو بے وقوفی یا پاگل پن سمجھ کر رد کر دیتا ہے۔
لیکن اقبال اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ "جُنوں بھی صاحبِ ادراک ہے" یعنی جنون، جو کہ عشقِ حقیقی یا سچے جذبے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، وہ بھی شعور رکھتا ہے، وہ بھی ایک فہم و بصیرت کی شکل ہے۔یہاں "جُنوں" سے مراد وہ خالص جذبہ ہے جو کسی اعلیٰ مقصد، سچائی یا خدا کی تلاش میں انسان کو تمام دنیاوی رکاوٹوں سے بے نیاز کر دیتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت امام حسینؓ، اور دیگر اہلِ حق کی زندگیوں میں نظر آتا ہے۔
اقبال اس شعر میں عقل و عشق کی کشمکش میں عشق کو بھی ایک معتبر، باشعور قوت قرار دے رہے ہیں اور انسانی ترقی، قربانی اور حقیقت کی تلاش میں "جُنوں" کی اہمیت کو اُجاگر کر رہے ہیں۔ عقل راہ دِکھاتی ہے، لیکن جُنوں منزل تک پہنچاتا ہے۔
غزل: ہُوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
کتاب: بالِ جبریل