Omair Bolta Hai

Omair Bolta Hai کچھ کھٹی میٹھی کڑوی سچی باتیں

فوج کی تنخواہیں تک ۔۔۔ امریکا بھی چندے پر چلنے لگاامریکا شٹ ڈاؤن (shutdown) ہے۔ مطلب، معاشی طور پر بند ہے۔ معاشی طور پر...
03/11/2025

فوج کی تنخواہیں تک ۔۔۔ امریکا بھی چندے پر چلنے لگا

امریکا شٹ ڈاؤن (shutdown) ہے۔ مطلب، معاشی طور پر بند ہے۔ معاشی طور پر امریکا کے بند ہونے کا مطلب کیا ہے، اس کی وجہ کیا ہے، اس پر ایک تفصیلی ویڈیو میرے یو ٹیوب چینل پر US Shutdown Explained کے نام سے موجود ہے، فی الحال بس اتنا جان لیں کہ امریکا اس وقت اپنے وفاقی ملازمین کو تنخواہیں تک نہیں دے پا رہا۔ تو فوجیوں کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے پینٹاگون کو 13 کروڑ ڈالرز کا چندہ دیا گیا ہے۔
بتایا گیا کہ جس نے بھی امریکی فوجیوں کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے اتنی بھاری رقم کا چندہ دیا ہے وہ کوئی بڑا ہی محب وطن اور نیک آدمی ہے، وہ اپنا نام بھی سامنے نہیں لانا چاہتا۔ لیکن پھر امریکی میڈیا کی رپورٹس آئیں کہ چندہ دینے والے بندے کا نام ٹموتھی میلن ہے اور یہ ارب پتی شخص ہے۔
اسی طرح امریکی صدر وائٹ ہاؤس میں ایک ناچ گھر بنوا رہے ہیں۔ یعنی کہ بال روم۔ اس کے لیے وائٹ ہاؤس کی تاریخی عمارت کا ایک حصہ بھی تڑوا دیا ہے انہوں نے۔ اس ناچ گھر پر جو پیسہ لگ رہا ہے وہ بھی ادھر ادھر سے بطور ڈونیشن اکٹھا کیا گیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس مقصد کے لیے چندہ دینے والے افراد اور اداروں کی تعداد 37 ہے۔ ان 37 افراد اور اداروں نے لگ بھگ 30 کروڑ ڈالرز چندہ دیا ہے تاکہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں ناچ گھر بنوا سکیں۔ چندہ دینے والی کمپنیوں میں فیس بک کی کمپنی میٹا، ایپل، ایمازون اور گوگل بھی شامل ہیں۔ گوگل سے تو زبردستی چندہ لیا گیا ہے۔ جب جنوری 2021 میں ٹرمپ کے اکسانے پر ہجوم نے امریکا کے کیپٹل ہل پر حملہ کر دیا تھا تو گوگل نے ٹرمپ کا یو ٹیوب اکاؤنٹ بند کر دیا تھا۔ اب صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے گوگل پر کیس کر دیا کہ جی کیوں بند کیا تھا میرا اکاؤنٹ؟ گوگل نے یہ کیس سیٹل کرنے کے لیے تقریباً ڈھائی کروڑ ڈالرز دیے جنہیں ناچ گھر کی تعمیر میں استعمال کیا گیا۔
چندے سے مساجد، اسپتال اور اسکول بنتے دیکھے تھے، اب امریکا جیسی سپر پاور کی فوج کو چندے کی رقم سے تنخواہ لیتے بھی دیکھ لیا، اور امریکی صدر کو چندے کے پیسے سے ناچ گھر بناتے بھی دیکھ لیا۔

31/10/2025

Fauj Chanday Par!
America Chaand Par

لاہور چھاؤنی میں یہ درخت کاٹا گیا تو سوشل میڈیا کی حد تک اس سانحے پر خاصا افسوس دیکھنے میں آیا۔ ایک درخت برطانیہ میں بھی...
29/10/2025

لاہور چھاؤنی میں یہ درخت کاٹا گیا تو سوشل میڈیا کی حد تک اس سانحے پر خاصا افسوس دیکھنے میں آیا۔
ایک درخت برطانیہ میں بھی کاٹا گیا تھا، اس کے کٹنے پر برطانیہ میں جو کچھ ہوا وہ اپنے وی لاگ میں بیان کیا تھا۔ جب وہ وی لاگ بنایا، اس وقت لاہور کی نہر کنارے 1400 درخت کاٹنے کے ارادے سامنے آ رہے تھے۔ تو وی لاگ کا عنوان رکھا تھا
One Tree Saved, But 1400 in Lahore Face the Axe in Yellow Line Project
اگر کسی کو جاننے میں دل چسپی ہے کہ برطانیہ کے ایک درخت کو انصاف کیسے ملا، تو میرے یو ٹیوب چینل پر یہ وی لاگ دیکھیے۔
چینل ڈھونڈنا ہے تو یو ٹیوب پر جا کر @ کے ساتھ Omair.Mahmood لکھیں

26/10/2025

بور ہونا بہت ضروری ہے، لیکن کیوں؟

2014 میں امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں نفسیات پڑھانے والے استاد ڈینیئل گلبرٹ نے ایک بڑا دل چسپ تجربہ کیا۔ انہوں نے 18 مردوں کو ایک کمرے میں بٹھایا۔ انہوں نے 15 منٹ تک کمرے میں بس بیٹھنا تھا، سوچنا تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرنا تھا (یعنی بور ہونا تھا)۔ ہاں ان کے سامنے ایک بٹن رکھا گیا تھا، جسے دبانے سے بجلی کا جھٹکا لگنا تھا۔ اس تجربے میں شریک 18 مردوں کا کام یہ تھا کہ 15 منٹ تک یا تو بیٹھے بور ہوتے رہیں، یا خود کو بجلی کا جھٹکا دے لیں۔

اس تجربے کا نتیجہ کیا نکلا؟ 18 میں سے 12 مردوں نے بیٹھ کر بور ہونے اور سوچنے کے بجائے خود کو بجلی کے جھٹکے دینا پسند کیا۔ یعنی ہم میں سے زیادہ تر لوگ بور ہونے سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ صرف بوریت دور کرنے کے لیے خود کو بجلی کے جھٹکے دینے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔

اس قدر برا لگتا ہے ہمیں بور ہونا۔

لیکن ہارورڈ یونیورسٹی کے ہی ایک استاد ہیں آرتھر بروکس، وہ کہتے ہیں ہمارے لیے بور ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم بور نہیں ہوں گے تو اداس ہو جائیں گے، depress ہو جائیں گے۔

آرتھر بروکس کی یہ بات اس عمومی خیال کے برعکس ہے جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ کچھ نہ ہونے سے ہم بور ہو رہے ہیں، بور ہونے سے اداس ہو رہے ہیں، اور اداس ہونے سے بے چین ہو رہے ہیں، اضطراب کا شکار ہو رہے ہیں۔ تو ہم کوئی مصروفیت ڈھونڈتے ہیں جو ہماری بوریت کم کر سکے۔

آرتھر بروکس صاحب نے اس عمومی تاثر سے بالکل مختلف بات کی اور میری سوچ کو ایک نیا زاویہ دیا۔ ہارورڈ بزنس ریویو نامی یو ٹیوب چینل پر ان کی لگ بھگ چھ منٹ کی گفتگو ہے، جس میں وہ بتاتے ہیں کہ جب آپ بور نہیں ہوتے (یعنی خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھتے ہیں) تو آپ کی زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔

کیسی عجیب اور مختلف سی بات ہے۔

بوریت ہوتی کب ہے؟ جب ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ جب ہمارا دماغ کسی سرگرمی میں مصروف نہیں ہوتا۔ تب ہم بور ہوتے ہیں۔ آرتھر بروکس کہتے ہیں کہ اسی بوریت کے عالم میں ہمارے دماغ کا ایک حصہ متحرک ہو جاتا ہے، جسے کہتے ہیں "ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک"۔

یہ لفظ ذرا بھاری بھرکم سا ہے، لیکن سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ جب آپ کے پاس کرنے اور سوچنے کو کچھ نہ ہو، تو دماغ کے جو حصے متحرک (active) ہوں گے، وہ ہیں ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک۔

عام طور پر کیا ہوتا ہے۔۔۔ ہمارے پاس کوئی کام نہ ہو، ہم کسی جگہ بیٹھے ہوں، یا ٹریفک اشارے پر رکے سرخ بتی کے سبز ہونے کا ہی انتظار کر رہے ہوں، تو 45 سیکنڈ کے لیے بھی ہم سے فارغ نہیں بیٹھا جاتا، ہم فوراً سے اپنا موبائل فون اٹھا کر اس پر پیغامات دیکھنے لگتے ہیں یا اسکرولنگ کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے موبائل فون ہمارے پاس نہیں ہے، اور ہم نے صرف اور صرف بیٹھ کر انتظار کرنا ہے، کسی کے آنے کا، یا سرخ بتی کے سبز ہونے کا، اور ہمارے پاس کوئی بات کرنے والا بھی موجود نہیں ہے، تو ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک آن ہو جائے گا۔

آرتھر بروکس کہتے ہیں، بور ہونے سے جب ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک آن ہوتا ہے، تب ہم سوچنے لگتے ہیں۔ جب ذہن پر سوچوں کی یلغار ہوتی ہے تو اس طرح کے خیالات بھی آنے لگتے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ جو ہم کر رہے ہیں وہ ٹھیک کر رہے ہیں یا نہیں؟ اس طرح کے سوالات ہمیں پریشان کر دیتے ہیں اور ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہم فوراً سے کوئی سرگرمی تلاش کرنے لگتے ہیں۔ چاہے وہ سرگرمی موبائل فون پر بے مقصد اسکرولنگ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ سرگرمی ہمارے دماغ کا ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک آف کر دیتی ہے۔

اس کے برعکس، اگر آپ دماغ کے ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک کو آن رہنے دیں، اپنے بارے میں سوچیں، اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں، اس زندگی کے مقصد کے بارے میں سوچیں ۔۔۔ تو اپنی زندگی کا مطلب تلاش کر پائیں گے۔

لیکن اگر آپ بوریت سے گھبرا کر اپنا فون نکال لیں گے، اپنی زندگی کا مقصد سوچنے کے بجائے بے مقصد اسکرولنگ کریں گے، ریلز دیکھیں گے، ایسا کرتے ہوئے سوالات سے تو پیچھا چھوٹ جائے گا لیکن آپ کے اندر کا خالی پن بڑھ جائے گا۔ اور یہ خالی پن ہی بے چینی اور اداسی پیدا کرتا ہے۔

یہ کہنا ہے آرتھر بروکس کا، وہ یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ خود کو 15 منٹ سے زیادہ بور ہونے کی عادت ڈالیں، پھر دیکھیں آپ کی زندگی کیسے بدلتی ہے۔ خود آرتھر بروکس صاحب شام سات بجے کے بعد تفریح فراہم کرنے والی کوئی ڈیوائس استعمال نہیں کرتے۔ باقاعدگی کے ساتھ سوشل میڈیا اور اسکرین سے وقفے لیتے ہیں، اور خود کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کی زندگی ان آلات کے گرد نہیں گھومتی۔

میرا خیال ہے کہ آرتھر بروکس صاحب کی بات مان کر ہم نے بور ہونے کی عادت ڈال لی تو معمولی معمولی باتوں سے بھی خوش ہو جایا کریں گے۔ کیوں کہ یہ جو ہمیں موبائل فون استعمال کرنے کی عادت پڑ چکی، اس پر ہمیں طرح طرح کا ایک سے ایک دل چسپ مواد دستیاب ہوتا ہے، تو ہمیں معمول کی باتوں کا، دوستوں کی گپ شپ کا مزا ہی نہیں آتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب یار دوست کتنے کتنے عرصے بعد بھی ملتے ہیں تو آپس میں بات کرنے کے بجائے موبائل فونز میں سر دیے رہتے ہیں۔

ٹوئٹر پر کسی نے کیا ٹویٹ کیا، فیس بک پر کسی نے کیا اسٹیٹس ڈالا، کس نے کہاں جا کر تصویر لی اور انسٹا گرام پر اپ لوڈ کی، اگر آپ کو اس کا فوری طور پر معلوم نہیں ہو گا تو بھی کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ فون نیچے رکھ دیں گے تو زندگی زیادہ با معنی لگے گی۔

اگر آپ بور ہونا سیکھ جائیں، تو خوش ہونا بھی سیکھ جائیں گے۔

اس رات مریدکے میں کیا ہوا؟روزنامہ ڈان پر آصف چودھری صاحب کی خبر شائع ہوئی ہے، جس میں 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی رات تحر...
26/10/2025

اس رات مریدکے میں کیا ہوا؟

روزنامہ ڈان پر آصف چودھری صاحب کی خبر شائع ہوئی ہے، جس میں 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی رات تحریک لبیک کے خلاف آپریشن کی تفصیل بتائی گئی ہے۔
خبر کے مطابق؛
آپریشن میں حصہ لینے والے اہل کاروں کی تعداد 10 ہزار کے آس پاس تھی۔
سڑکیں تو کھودی جا چکی تھیں، لہذا اتنی بڑی تعداد میں اہل کاروں کو خصوصی ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے لایا گیا۔
اس سے پہلے جب جھڑپیں ہوتی تھیں تو تحریک لبیک کے کارکن گلیوں اور بازاروں میں چھپ جاتے تھے اور وہاں سے جتھہ بند ہو کر دوبارہ حملے کرتے تھے۔ اس بار سینکڑوں اہل کار تعینات کر کے گلیوں اور بازاروں کے راستے بھی بند کیے گئے۔
آپریشن کے لیے تحصیل ہیڈکوارٹرز اسپتال مریدکے کو مرکز بنایا گیا، ایک وفاقی سیکیورٹی ادارے کے سربراہ، پنجاب پولیس کے سربراہ، اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے یہاں بیٹھ کر آپریشن کی نگرانی کی۔
صبح ساڑھے تین بجے آپریشن شروع کرنے سے پہلے قانون نافذ کرنے والوں نے 'آخری وارننگ' دی، جسے تحریک لبیک پاکستان نے نظر انداز کر دیا۔
تب پیش قدمی کا فیصلہ ہوا، چھ بکتر بند گاڑیاں اور ان کے پیچھے فساد مخالف دستے (anti-riot force) احتجاجی مرکز کی طرف بڑھنے لگے۔
جب پولیس اہلکاروں کو کیمپ کی طرف بڑھتے دیکھا گیا تو اوور ہیڈ پل پر موجود مظاہرین نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ جواب میں پولیس نے آنسو گیس فائر کی، اور جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
اس وقت زیادہ تر مظاہرین قریبی مساجد یا مقامی حامیوں کے گھروں میں آرام کے لیے جا چکے تھے، تقریباً 1,500 سے 2,000 افراد ہی جی ٹی روڈ پر موجود احتجاجی کیمپ میں رہ گئے تھے۔
جب قانون نافذ کرنے والے اہل کار کیمپ کے قریب پہنچنے لگے تو ٹی ایل پی کی قیادت نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ مقامی مساجد میں اعلان کریں پولیس آپریشن شروع ہونے والا ہے اور تمام کارکن فوراً واپس کیمپ میں پہنچ جائیں۔
کچھ ہی دیر بعد ایک ہجوم نے پولیس پر حملہ کر دیا۔ جھڑپ کے دوران ٹی ایل پی کے قافلے میں شامل ایک بھاری ٹریلر نے ایک بکتر بند گاڑی (APC) کو ٹکر مار دی۔ اسی دوران اطلاع ملی کہ کئی مظاہرین نے ایک پولیس انسپکٹر کو پکڑ کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے، جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔
پولیس کے مطابق اس وقت تحریک لبیک کے کارکنوں نے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی، اور قانون نافذ کرنے والے حیران رہ گئے کہ مظاہرین کے پاس اسلحہ بھی ہے۔
تب، موقع پر موجو پولیس کمان نے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے بکتر بند گاڑی میں پھنسے اہل کاروں کو نکالنے کا، اور پھر ٹی ایل پی کارکنوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا۔ احکامات ملنے پر گلیوں اور بازاروں میں تعینات پولیس اہل کار آگے بڑھنے لگے، دیگر دستے بھی احتجاجی کیمپ کی طرف پیش قدمی کرنے لگے۔
دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ تین گھنٹے تک جاری رہا۔
آپریشن صبح ساڑھے سات بجے ختم ہوا، تب پولیس نے لاؤڈ اسپیکروں پر اعلانات کیے کہ شہری اپنے گھروں کے اندر رہیں۔ کئی گھنٹے بعد جب شہریوں کو باہر نکلنے کی اجازت ملی تو سڑکوں اور گلیوں میں ہزاروں خ*ل اور کارتوس بکھرے پڑے تھے۔ احتجاجی کیمپ کے مقام پر خون کے دھبے صاف دکھائی دے رہے تھے، لیکن حیران کن طور پر تحریک لبیک کے کسی زخمی یا جاں بحق کارکن کا نام نشان تک نہ تھا۔

24/10/2025

Itni Nafrat Hoti Hai Hamein Bore Honay Se

22/10/2025

طالبان سے مذاکرات، کیا عمران خان کا موقف درست ثابت ہو گیا؟

عمران خان کے جو حامی ہیں وہ افغانستان اور پاکستان میں مذاکرات کو عمران خان کے موقف کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، دیکھا! عمران خان بھی طالبان سے مذاکرات کا ہی کہتے تھے اور اب حکومت کو بھی طالبان سے مذاکرات ہی کرنے پڑے۔

ایسے لوگوں کی خدمت میں ایک مختلف موقف پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ جو افغانستان کے طالبان ہیں، اور جو پاکستان کے طالبان ہیں، ان کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ جو افغانستان کے طالبان ہیں، وہ افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ جو پاکستان کے طالبان ہیں، وہ پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں، وہ پاکستان کے علاقوں پر اپنی عمل داری چاہتے ہیں، وہاں اپنی سوچ اور اپنے قوانین کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں۔ جیسے، مثال کے طور پر، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانا ٹھیک نہیں ہے، تو وہ قطرے پلانے والے اہل کاروں کو قتل کر دیتے ہیں۔ فوجی چوکیوں پر، فوجی قافلوں پر حملے کر دیتے ہیں۔ عوامی مقامات کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان حجاموں کی دکانوں پر بھی دھاوا بول دیتے ہیں جہاں داڑھی تراشی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ وہ اپنی سوچ کو ہتھیار کی قوت سے نافذ کرتے ہیں۔

تو کوئی بھی ایسا فریق جو ریاست کے اندر اپنی ریاست بنائے، اور اس ریاست کے اندر اپنے قوانین نافذ کرے، اور ایسا کرتے ہوئے ہتھیار اٹھائے ۔۔۔ ایسے فریق سے کوئی مذاکرات اگر ہوں بھی، تو وہ یہی ہو سکتے ہیں کہ آپ ہتھیار پھینکیں اور ریاست کے کرنے والے کام خود نہ کریں۔ کسی علاقے میں خود کو مسلط نہ کریں۔ اس ایک شرط کے علاوہ، مذاکرات کی کوئی اور شرط ہو بھی کیا سکتی ہے؟ کہ اتنے نہیں بلکہ اتنے علاقے پر اپنی عمل داری قائم کر لیں، یا اتنے نہیں، بلکہ اس سے تھوڑے بندے مار لیں؟

مطلب یہ، کہ ریاست کے اندر کوئی فریق، اگر ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے، تو اس فریق کی شکست تک، یا ریاست کی شکست تک، اس سے جنگ ہی ہوتی ہے۔ مذاکرات اگر ہوتے بھی ہیں تو ریاست مخالف فریق سے یہ یقین دہانی لینے کے لیے ہوتے ہیں، کہ اب وہ ہتھیار پھینک دے گا اور اچھا بچہ بن کر رہے گا۔

ریاست کے اندر، ریاست سے لڑنے کے لیے، کوئی بھی فرد یا جتھہ، اگر ہتھیار اٹھائے گا تو جواب میں ریاست بھی ہتھیار ہی چلائے گی، صرف زبان نہیں چلائے گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آپ کے پلاٹ پر قبضہ کر لے - کیا آپ اس سے بھی مذاکرات کریں گے، کہ ٹھیک ہے 10 مرلے میں سے دو مرلے تم لے لو اور ہم امن سے رہتے ہیں؟ یا آپ اسے اپنے پلاٹ سے بے دخل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے؟

تو، جو صاحبان یہ سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان سے مذاکرات کر کے حکومت نے عمران خان کا موقف درست ثابت کر دیا ہے، وہ ایک بنیادی غلطی کر رہے ہیں؛ وہ افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبان کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان سے جو مذاکرات ہوئے، اس کے پیچھے بھی ایک طویل کہانی ہے۔ ریاست پاکستان کی شکایت یہ ہے کہ پاکستان پر حملے کرنے والے پاکستانی طالبان نے اپنے ٹھکانے افغانستان میں بنا رکھے ہیں۔ مطالبہ یہ ہے کہ وہ ٹھکانے ختم کر دیے جائیں اور ان طالبان کو پاکستان پر حملے سے روکا جائے۔ جب افغان طالبان نے یہ مطالبہ پورا نہ کیا تو پاکستان نے خود اُن پاکستانی طالبان کے افغانستان میں موجود ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے افغان طالبان نے بھی پاکستان پر حملہ کر دیا اور یوں دونوں ممالک کے بیچ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ جنگ میں اور جھڑپوں میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔

عام طور پر جب دو ریاستیں ایک دوسرے سے جنگ کرتی ہیں تو اس کا مقصد دوسری ریاست پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ ریاست وہ مقصد حاصل ہونے تک، یا اپنی شکست تک، جنگ کو جاری رکھتی ہے۔ دونوں فریق تگڑے ہوں اور جنگ ختم ہونے کا امکان نہ ہو، یا کسی بھی وجہ سے جنگ جاری رکھنا ممکن نہ ہو، تو پھر بھی مذاکرات ہوتے ہیں۔

لیکن افغانستان پاکستان جنگ میں نہ تو پاکستان کا یہ مقصد تھا کہ افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کیا جائے، اور نہ ہی افغانستان یہ چاہتا تھا کہ پاکستان کے کسی حصے پر قبضہ کیا جائے۔ ایسی دو طرفہ جھڑپیں روکنے کے لیے بھی آخرکار فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے: بات ہوتی ہے، ایک دوسرے کے تحفظات سنے جاتے ہیں اور کسی قابلِ عمل حل کی طرف بڑھا جاتا ہے۔

لہذا، ریاست کے اندر رہ کر ریاست سے لڑنے والے گروہ، اور کسی دوسری ریاست سے لڑنے میں فرق ہوتا ہے۔ اور لڑنے پر آمادہ کسی فریق کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے بھی جنگ ہی کرنا پڑتی ہے۔

22/10/2025

کیا ٹیپو سلطان کے فوجی بھی میڈیا کارکن تھے؟

بتایا جاتا ہے کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے سرنگا پٹم کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا تھا اور قلعے کی فصیلوں پر ٹیپو سلطان کی فوج ڈٹ کر مقابلہ کر رہی تھی، تو سازشیوں نے فوجیوں کو بتایا تنخواہیں مل رہی ہیں۔ تنخواہیں تقسیم ہونے کی خبر فصیلوں پر لڑتے فوجیوں تک پہنچی تو سب اپنی جگہیں چھوڑ کر تنخواہیں لینے بھاگ نکلے۔ یوں فصیلوں پر دفاع کے لیے کوئی باقی نہ رہا اور ایسٹ انڈیا کمپنی قلعے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
اگر تاریخ میں بیان کی گئی بات سچ ہے تو مجھے لگتا ہے ٹیپو سلطان کے فوجی بھی میڈیا کے ایسے کارکن تھے جنہیں کئی کئی مہینے کی تنخواہیں نہیں ملی تھیں۔ جس روز یہ واقعہ ہوا، شاید مہینہ ختم ہو رہا تھا اور ابھی پچھلے مہینے کی تنخواہ بھی واجب الادا تھی۔ تبھی، فوجیوں نے تنخواہیں تقسیم ہونے کی خبر سنی تو اتنا صبر بھی نہ کیا کہ پہلے قلعے پر حملہ آور فوج سے ہی نمٹ لیں۔ شاید انہیں یہ خدشہ تھا کہ جب تک وہ اکاؤنٹس آفس پہنچیں گے، اس وقت تک تنخواہ ختم ہو جائے گی اور انہیں مزید انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔

21/10/2025

جب کوئی ریاست کے اندر ہتھیار اٹھائے تو ریاست اس سے بات نہیں کرتی بلکہ اس کے خلاف ہتھیار ہی اٹھاتی ہے

19/10/2025

گلزار نے سنائی ۔۔۔ افسانے کی کہانی ۔۔۔

17/10/2025

ایسے آتا ہے امن۔۔۔

16/10/2025

تحریک لبیک بنانے کی اصل وجہ یہ تھی - روزنامہ جنگ میں حماد غزنوی کا کالم

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Omair Bolta Hai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share