Omair Bolta Hai

  • Home
  • Omair Bolta Hai

Omair Bolta Hai کچھ کھٹی میٹھی کڑوی سچی باتیں

جب میں نے لاہور میں اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی پہنیقصہ شاہد ملک صاحب کی دعوت سے شروع ہوتا ہے۔ ملک صاحب سینیئر صحافی ہیں...
14/07/2025

جب میں نے لاہور میں اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی پہنی

قصہ شاہد ملک صاحب کی دعوت سے شروع ہوتا ہے۔ ملک صاحب سینیئر صحافی ہیں اور میرے استاد بھی۔ ان کے دوست ڈاکٹر امیر جعفری لاہور آئے تو مال روڈ کے ایک ہوٹل میں ملاقات طے پائی۔ مجھے اور عاطف صاحب کو بھی مجلس میں مدعو کیا گیا۔

شاہد ملک صاحب کی شخصیت جیسی دل آویز ہے، ڈاکٹر امیر جعفری بھی اسی کا عکس نکلے۔ خوب صورت لہجے میں اردو بولنے والے، درمیان میں کہیں انگریزی یا پنجابی کا ٹانکا لگتا تو گفتگو میں مزید خوش نما رنگ بکھر جاتے۔

کیسی مزے مزے کی باتیں ہوئیں۔ امیر جعفری صاحب نے اشعار سنائے، بتایا کہ مختلف اشعار میں ایک ہی مضمون کو کیسے کیسے انداز سے برتا گیا، بظاہر سادہ سے لفظوں میں معنی کے کیا کیا سمندر چھپے ہیں ۔۔۔ میں تو ڈوبتا چلا گیا۔ گفتگو کے دوران اس چلن کا ذکر ہوا کہ دیار غیر سے چھٹی پر پاکستان آئے دوستوں کو بلا کر کسی بھی کانفرنس کو بین الاقوامی قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور کانفرنس کے بڑے بڑے پینافلیکس آویزاں کر دیے جاتے ہیں۔ (پینافلیکس، مطلب رنگین بینرز جن پر تصاویر اور معلومات چھپی ہوتی ہیں)

پینافلیکس کی بات ہوئی تو ڈاکٹر امیر جعفری صاحب کو پھل خریدنے کا واقعہ یاد آ گیا۔ پھل فروش نے پینافلیکس پر پھلوں کی تصاویر، دو الگ الگ نام اور فون نمبر چھپوا رکھے تھے۔ دائیں جانب پائندہ گل کا نام اور نمبر، بائیں جانب خیال خان کا نام اور نمبر۔

امیر جعفری صاحب نے آم خریدنے تھے۔ پھل فروش نے بتایا یہ آم کاٹ کے کھانے والا ہے اور یہ جوس بنانے والا۔ انہوں نے شرارت سے پوچھا، اگر میں جوس بنانے والے آم کو کاٹ کر کھا لوں تو؟ پھل فروش نے لاپروائی سے جواب دیا، کوئی حرج نہیں۔ وہیں سیب بھی رکھے تھے۔ ان کی خوبی یہ بتائی گئی کہ ایران سے آئے ہیں۔ جعفری صاحب نے پوچھا، کیا ضمانت ہے کہ ایران سے آیا سیب اچھا ہی ہو گا؟ سیب کے اچھا ہونے کے لیے پھل فروش کی دلیل سنیے، ”کیوں کہ ایران کھڑا ہو گیا تھا نا!“ اشارہ حالیہ اسرائیل ایران جنگ کی جانب تھا۔

جعفری صاحب نے پوچھا، بینر پر دو نام لکھے ہیں، آپ پائندہ گل ہو یا خیال خان؟ جواب میں دکان دار نے اپنا نام خیال خان بتایا، لیکن کچھ اس انداز سے، جیسے یہ سوچنا ہی گستاخی ہو کہ وہ پائندہ گل ہو سکتا ہے۔ پھر خیال خان نے جعفری صاحب سے ان کا نام پوچھا، انہوں نے جواب دیا، خام خیال۔

گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ امیر جعفری صاحب نے rhetoric میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ Rhetoric، مطلب خطابت کا علم۔ ہائیں! دنیا میں کیسے کیسے دل چسپ اور اچھوتے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ پھر جب معلوم ہوا کہ یہ پی ایچ ڈی انہوں نے امریکا کی اوکلاہوما یونیورسٹی سے کی ہے تو چند لمحوں کے لیے دل کی دھڑکن رکی۔ جب 2019 میں کچھ روز کے لیے امریکا گیا تھا تو پہلا ہفتہ اسی یونیورسٹی میں گزارا تھا۔ کیسی دل فریب یادیں وابستہ ہیں وہاں سے۔ جعفری صاحب کو بتایا، وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ اوکلاہوما یونیورسٹی کا نام آیا تو خیال کے پردے پر فلم سی چل پڑی۔ ہم نے یونیورسٹی کی اونچی چھت والی لائبریری اور وہاں کے در و دیوار کو یاد کیا۔ وہ اپنی تعلیم کے قصے سناتے رہے۔ میں اوکلاہوما یونیورسٹی میں بیتے محدود سے وقت کے بارے میں سوچتا رہا۔

امیر جعفری صاحب نے بتایا کہ انہیں امریکا سے واپس آئے ایک دہائی سے اوپر کا وقت ہو چکا ہے لیکن اب بھی ان کی گاڑی میں اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی ہمیشہ رکھی رہتی ہے، اور انہوں نے اپنی گاڑی پر یونیورسٹی کا سٹیکر بھی لگا رکھا تھا جو کسی نے اتار لیا۔ اس موقع پر انہوں نے اسٹیکر اتارنے والے کے لیے کچھ ناقابل اشاعت الفاظ بھی استعمال کیے۔

انتہائی خوش گوار ملاقات کے اختتام پر ہم انہیں ان کی گاڑی تک چھوڑنے گئے۔ وہیں سے انہوں نے اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی نکالی، مجھے پہنائی اور یہ تصویر لی گئی۔

یہ جو جنگ کے سنڈے میگزین کو ہاتھ میں لیے آپ کے بھائی کی دندیاں نکلی ہوئی ہیں، اس کی وجہ سرِورق پر جلوہ گر ماڈل نہیں … بل...
13/07/2025

یہ جو جنگ کے سنڈے میگزین کو ہاتھ میں لیے آپ کے بھائی کی دندیاں نکلی ہوئی ہیں، اس کی وجہ سرِورق پر جلوہ گر ماڈل نہیں … بلکہ خوشی اس بات کی پھوٹی پڑ رہی ہے کہ آپ کے بھائی کی تحریر اندرونی صفحات پر چھپی ہے۔ قدم ہیں کہ زمین پر پڑنے سے انکاری ہیں، دل ہے کہ جھومے جا رہا ہے، اور حالت ایسی ہے گویا ہوا میں تیر رہا ہوں۔
تحریر کے ساتھ تصویر بھی چھاپی گئی ہے، لیکن چہرہ اس قدر نورانی کر دیا گیا ہے کہ نسوانی نسوانی سا معلوم ہوتا ہے۔
جنگ جیسے معتبر ادارے میں شائع ہونا میرے لیے ایک اعزاز ہے، ایک خواب کی تعبیر ہے۔ اس کے لیے خصوصی شکریہ ایڈیٹر سنڈے میگزین، محترمہ نرجس ملک صاحبہ کا، جنہوں نے میری تحریر کو قابل اشاعت سمجھا۔
ایک لکھنے والے کے لیے اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے لفظ کسی معتبر اشاعت کا حصہ بنیں۔

11/07/2025

عمران خان اور مارک ٹوئین کا ایک جملہ ۔۔۔ دو کہانیاں

10/07/2025

کینٹ بورڈ، والٹن، لاہور، اپنی حدود میں رہنے والوں کے لیے، ہر بارش کے بعد ایک نہر کا بندوبست کرتا ہے۔ اس کے عوض کینٹ بورڈ، 10 مرلہ رقبے پر تعمیر گھر سے صرف 60 ہزار روپے سالانہ پراپرٹی ٹیکس ، کنزروینسی چارجز (معلوم نہیں یہ ہوتے کیا ہیں)، واٹر اور سیوریج چارجز وصول کرتا ہے۔

جب آصف زرداری نے بھارتی صحافی کو انٹرویو دیافرحت اللہ بابر کی کتاب *The Zardari Presidency (2008–2013): Now it Must Be T...
03/07/2025

جب آصف زرداری نے بھارتی صحافی کو انٹرویو دیا

فرحت اللہ بابر کی کتاب *The Zardari Presidency (2008–2013): Now it Must Be Told* زیرِ مطالعہ ہے۔
2008 تا 2013، جب آصف زرداری صدرِ پاکستان تھے، تو فرحت اللہ بابر ان کے ترجمان تھے۔

ایک باب میں وہ لکھتے ہیں کہ صدارت سنبھالنے کے کچھ ہی ہفتوں بعد ایک دن زرداری صاحب نے انہیں بلایا اور کہا کہ وہ بھارتی اینکر کرن تھاپر کو انٹرویو دینا چاہتے ہیں — اور ہدایت دی کہ انٹرویو سے متعلق تمام انتظامات دیکھ لیے جائیں۔

یہ فیصلہ نہایت غیر معمولی تھا۔

کیوں کہ جب کوئی سربراہِ مملکت کسی بین الاقوامی صحافی کو انٹرویو دیتا ہے، تو اس سے پہلے باقاعدہ تیاری کروائی جاتی ہے۔ جب بات صدرِ پاکستان کی ہو، اور انٹرویو لینے والا صحافی بھارت سے ہو، تو یہ تیاری اور بھی زیادہ احتیاط اور سنجیدگی سے کی جاتی ہے۔

ایسے مواقع پر وزارتِ خارجہ اور وزارتِ اطلاعات سے مشورہ لیا جاتا ہے (ہو سکتا ہے وزارت دفاع سے بھی مشورہ/اجازت/منظوری لی جاتی ہو)۔ کیا سوالات پوچھے جا سکتے ہیں — اس پر غور و فکر (brainstorming) ہوتا ہے۔ کون سے معاملات حساس ہیں؟ کس سوال کا کیا جواب دینا ہے؟ کس مؤقف کو کیسے پیش کرنا ہے؟ اس سب پر مشاورت ہوتی ہے۔

لیکن آصف زرداری نے نہ وزارتِ خارجہ سے پوچھا، نہ وزارتِ اطلاعات سے۔ نہ کسی ادارے سے رائے لی، نہ کوئی تیاری کی۔ یہاں تک کہ کرن تھاپر سے یہ بھی نہیں کہا گیا کہ وہ پہلے سے سوالات یا موضوعات بتا دیں۔

اور پھر 22 نومبر 2008 کو، کرن تھاپر کے ساتھ سیٹلائٹ انٹرویو میں صدر زرداری نے اعلان کیا:

Pakistan is ready to talk about no first use of nuclear weapons with India

یعنی پاکستان اس پر بات کے لیے تیار ہے کہ وہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں پہل نہیں کرے گا۔

آصف زرداری کا یہ بیان عالمی میڈیا کی سرخی بن گیا۔ یہ بیان بھارت اور پاکستان میں امن کا ایک نیا راستہ بنا سکتا تھا۔ لیکن اس انٹرویو کے چار دن بعد، 26 نومبر 2008 کو، ممبئی حملے ہو گئے۔

سمجھنے کی کوشش میں ہوں ۔۔۔مخصوص نشستوں پر عدالتی فیصلہ آئے کتنے ہی روز گزر چکے لیکن میں ابھی تک تمام معاملہ سمجھنے کی تگ...
30/06/2025

سمجھنے کی کوشش میں ہوں ۔۔۔

مخصوص نشستوں پر عدالتی فیصلہ آئے کتنے ہی روز گزر چکے لیکن میں ابھی تک تمام معاملہ سمجھنے کی تگ و دو میں ہوں۔

لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ایک ساتھ کئی tabs کھلی ہیں۔ کہیں impleadment کا مطلب تلاش کر رہا ہوں۔ کہیں الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 67 کھول رکھا ہے۔ کبھی دیکھتا ہوں کہ سیکشن 208 تا 215 میں کیا لکھا ہے۔ اس کے بعد الیکشن کا رول نمبر 94 سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں جو کہتا ہے: سیاسی جماعت اسے کہا جائے گا جسے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہو۔

پھر الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر 2023 والا فیصلہ پڑھتا ہوں جو بتا رہا ہے کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین کیوں نہیں رہے۔

اس کے ساتھ بیرسٹر گوہر کا تین جنوری 2024 والا بیان سامنے آتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اگر بلا بحال نہیں کرتی تو پی ٹی آئی کا ہر امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑے گا۔

تب یاد آتا ہے کہ ’پی ٹی آئی نظریاتی‘ کے نام سے بھی تو ایک جماعت سامنے آئی تھی۔ پی ٹی آئی کا نشان بلا تھا، تو پی ٹی آئی نظریاتی کا انتخابی نشان بلے باز تھا۔ تحریک انصاف کے کتنے ہی امیدواروں نے نظریاتی جماعت کے جاری کردہ ٹکٹ جمع کرا دیے تھے۔ پھر 13 جنوری 2024 کو ایک پریس کانفرنس ہوئی تھی اور ۔۔۔ سب کچھ بدل گیا تھا۔

کبھی سپریم کورٹ کا 13 جنوری 2024 والا فیصلہ کھولتا ہوں اور اس کا پیراگراف 10 اور 11 پڑھتا ہوں۔

کبھی سلمان اکرم راجا کی لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مندرجات پر غور کرتا ہوں۔

پھر سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ کھولتا ہوں جو 23 ستمبر 2024 کو اپ لوڈ کیا گیا۔ اس فیصلے کا پیراگراف نمبر 22 پڑھتے پڑھتے رک جاتا ہوں – جہاں عدالت ’وضاحت‘ کر رہی ہے کہ اس نے ان پہلوؤں پر غور کا فیصلہ کیوں کیا جو عدالت کے سامنے لائے ہی نہ گئے تھے۔

سامنے لیپ ٹاپ دھرا ہے تو ہاتھ میں کاغذ قلم بھی تھام رکھا ہے، کوئی نکتہ اہم لگے تو درج کر لیتا ہوں، پھر لیپ ٹاپ پر نظریں جما لیتا ہوں۔ لیپ ٹاپ پر کچھ دیکھنا ہو تو عینک پہننی پڑھتی ہے، نوٹ پیڈ پر لکھتے ہوئے اتارنی پڑتی ہے۔ دماغ اور آنکھوں کے ساتھ ساتھ بازو بھی اس مشق کا حصہ بن چکے ہیں۔

اس دوران چائے کے کتنے ہی کپ پی گیا ہوں۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے کمر اکڑ گئی ہے۔ سورج سفر کرتے کرتے کہاں سے کہاں چلا گیا ۔۔ کچھ معلوم نہیں پڑا۔

معاملہ سمجھ میں مکمل طور پر آتے شاید چند دن اور لگیں۔

اب اتنی کھوج، اتنی محنت اور تحقیق کے بعد میں کوئی رائے قائم کروں گا، اور پڑھنے والے اپنی اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر مجھے پٹواری یا انصافی کہہ دیں گے۔

امریکی صدر جو سرخ ٹوپی پہنتے ہیں اس پر بھی (فارم) 45 اور 47 کا ذکر ہے
21/06/2025

امریکی صدر جو سرخ ٹوپی پہنتے ہیں اس پر بھی (فارم) 45 اور 47 کا ذکر ہے

ایک اچھوتے اور کامیاب کاروبار کو شکست کیوں ہوئی؟کیسے کیسے عروج کو زوال آیا ہے۔ اخبار سامنے رکھا ہے اور میں دنیا کی بے ثب...
19/06/2025

ایک اچھوتے اور کامیاب کاروبار کو شکست کیوں ہوئی؟

کیسے کیسے عروج کو زوال آیا ہے۔ اخبار سامنے رکھا ہے اور میں دنیا کی بے ثباتی پر سوچ رہا ہوں، حیران ہو رہا ہوں، سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اوبر - شاید وہ پہلی کمپنی تھی جس نے آن لائن ٹیکسی سروس کا تصور دیا۔
کہاں پہلے گھر سے باہر نکل کر رکشہ ٹیکسی تلاش کرنا پڑتے تھے۔ کم آبادی والے علاقوں میں تو ان کے ملنے کا تصور ہی محال تھا۔ گلی گلی کی خاک چھاننا پڑتی تھی۔ مل جاتے تو کرایہ طے ہونے میں نہ آتا۔ پوچھنے پر کہا جاتا، ”جو جائز ہوا وہ دے دیجیے گا۔“ لیکن ڈرائیور حضرات کا ’جائز‘ کرایہ سواری کے لیے بہت ہی ’نا جائز‘ نکلتا۔ کرایہ اتنا زیادہ مانگ لیا جاتا، گویا زمین سے چاند تک لے کر آئے ہیں۔ اگر انہیں اندازہ ہو جاتا کہ سواری شہر کے راستوں سے ناواقف ہے تو 500 میٹر کے سفر کو پانچ کلومیٹر کا بنا دیتے اور اس حساب سے کرایہ طلب کرتے۔
پھر اوبر آئی، اور سب کچھ بدل گیا۔ کہیں جانا ہے تو موبائل فون پر ایپ کھولیں، گھر بیٹھے گاڑی منگوائیں، کرایہ پہلے سے معلوم ہو گا، کوئی بحث نہیں، تکرار نہیں۔ گاڑی میں بیٹھیے، سفر کیجیے، ڈرائیور کا رویہ پسند نہیں آیا تو شکایت کیجیے۔ یہ سہولت بھی دستیاب ہے کہ سفر کے دوران آپ کی لوکیشن کوئی دوست عزیز براہ راست دیکھ رہا ہو۔ کوئی جھنجھٹ نہیں، کوئی رولا نہیں۔
اوبر ایک disruption تھی۔ یعنی ایک ایسا تصور، جو پہلے سے موجود کسی نظام میں جوہری نوعیت کی تبدیلی لے آئے۔ پرانی روایات اور طریقہ کار کو غیر متعلق کر دے۔ اوبر وہ جدت تھی جس نے سفر کا تصور ہی بدل دیا۔
سواری اور ڈرائیور کو ایک ایپلی کیشن کے ذریعے منسلک کرنا، اور کرایہ میں سے اپنا کمیشن وصول کر لینا ۔۔۔ یہ خیال اوبر نے متعارف کرایا تھا لیکن جیسے ہی یہ ماڈل کامیاب ہوا، دنیا بھر میں اسی طرز پر نئی کمپنیاں بننے لگیں۔ انہی میں سے ایک کمپنی ’کریم‘ تھی۔ یہ کمپنی پاکستان میں آئی تو اوبر کو پچھاڑنے لگی۔ یعنی ایک نقل، اصل کو مات دینے لگی۔ اور پھر 2024 میں اوبر نے پاکستان سے کوچ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مطلب، پاکستان سے اوبر کا وجود ہی ختم ہو گیا۔
پھر، ان ڈرائیو منظر عام پر آئی۔
اوبر کے بنیادی تصور میں بس اتنا سا اضافہ کیا کہ سواری کو اپنی مرضی کا کرایہ طے کرنے کا اختیار دے دیا۔ اس چھوٹی سی innovation نے بہت بڑا فرق ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان ڈرائیو نے کریم کو پیچھے چھوڑ دیا۔
اور اب کریم پاکستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ رہی ہے۔ رخصت ہو رہی ہے۔
کسی اصل کو، نقل کے ہاتھوں ہارتے دیکھ کر میں حیران ہو رہا ہوں۔ سوچ رہا ہوں کہ ان کمپنیوں سے غلطی کہاں ہوئی؟ کہتے ہیں آج کی دنیا میں جیت آئیڈیا کی ہوتی ہے۔ ایک تخلیقی خیال ہی آگے لے کر جاتا ہے، فتح دلاتا ہے۔ لیکن یہاں تو ہم نے ایک تخلیقی، disruptive آئیڈیا کو ایک نقل، بلکہ دوسری اور تیسری نقل سے شکست کھاتے دیکھا۔
ایک یکسر اچھوتا آئیڈیا، disruptive آئیڈیا کیسے نقل شدہ آئیڈیا سے ہار گیا؟
ایسا ماضی میں نوکیا کے ساتھ ہوا تھا۔ ایک وقت میں نوکیا ہر ہاتھ میں ہوتا تھا۔ پھر اسمارٹ فونز آئے، دنیا بدلی، لیکن نوکیا نہ بدل سکا۔
نتیجہ؟ نوکیا مارکیٹ سے باہر ہو گیا۔ ایک زمانے میں موبائل فون سیٹ بنانے والا جائنٹ دوسری کمپنیوں سے شکست کھا گیا۔
لیکن اوبر کے معاملے میں تو یہ innovation نہ ہونے والا معاملہ بھی لاگو نہیں ہوتا۔ اوبر کے مقابلے پر تو کریم اور ان ڈرائیو نے کچھ زیادہ innovate بھی نہیں کیا۔
پھر یہ کمپنیاں اوبر کو شکست دینے میں کامیاب کیسے ہوئیں؟

Omair Mahmood

ڈی وی (بر وزن بیوی)یادوں کی پوٹلی سے ۔۔۔ قسط 31میری لکھنے کی میز کے پیچھے ایک الماری ہے۔ اس میں برسوں پرانا کاٹھ کباڑ بھ...
05/06/2025

ڈی وی (بر وزن بیوی)
یادوں کی پوٹلی سے ۔۔۔ قسط 31

میری لکھنے کی میز کے پیچھے ایک الماری ہے۔ اس میں برسوں پرانا کاٹھ کباڑ بھرا ہے۔ الجھی اشیاء، بے ترتیب یادیں، الم غلم چیزیں۔ سیاہ، سرخ اور نیلے رنگ کے بورڈ مارکر ہیں۔ لیپ ٹاپ کا چارجر ہے، سٹیپلر ہے، پینسل شارپنر ہے، کتنے ہی ایسے موبائل فون پڑے ہیں، ناکارہ ہونے پر جنہیں پھینکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہ ریڈیو ہے جو یونیورسٹی کے زمانے میں لاہور کی ہال روڈ سے خریدا تھا اور اس پر بی بی سی کی نشریات پکڑنے کے لیے ادھر اُدھر دوڑتا پھرا تھا۔ ایک ٹیپ ریکارڈر ہے، ڈیجیٹل دور آنے سے پہلے جس پر انٹرویوز ریکارڈ کیا کرتا تھا۔ وہ کیسیٹس بھی ہیں جن پر کتنی ہی آوازیں بھری ہیں، اور ایک ڈی وی بھی ہے۔ کیسیٹ پر اگر آواز ریکارڈ ہوتی تھی تو ڈی وی ویڈیو ریکارڈ کرنے کے کام آتی تھی۔ ڈی وی مخفف ہے ڈیجیٹل ویڈیو کیسیٹ کا، گرائمر کے اصول سے ڈی وی کا جمع ڈی ویز ہونا چاہیے تھا، لیکن ہماری زبانوں پر چڑھ کر وہ ڈی ویاں (بر وزن بیویاں) ہو گیا تھا۔ کہیں ریکاڈنگ پر جانے سے پہلے یہ آواز ضرور لگا کرتی، "ڈی ویاں لے آؤ۔"

آج کے دور کے لوگ شاید سمجھ ہی نہ پائیں کہ کیسیٹ یا ڈی وی ہوتی کیا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے آواز یا ویڈیو ریکارڈ کرنے کے لیے بڑے حجم والا میموری کارڈ ہے، جو جگہ تو زیادہ گھیرتا ہے لیکن ڈیٹا کم سنبھالتا ہے۔

اس روز الماری میں ڈی وی پر نظر پڑی تو برسوں پہلے فیصل آباد کا سفر یاد آیا۔ میں جس پروڈکشن ہاؤس میں کام کرتا تھا وہ پی ٹی وی کے لیے بھی ایک پروگرام تیار کیا کرتے تھے۔ نام اس پروگرام کا یاد نہیں، میگزین شو تھا، مطلب اس میں فیشن، پہناووں، ثقافتی تقریبات کی بات کی جاتی تھی۔ فیشن ڈیزائنرز اور فنکاروں کے انٹرویوز بھی کیے جاتے تھے۔ اس پروگرام کی ریکارڈنگ میں معاونت کرنا بھی میری ذمہ داریوں میں شامل تھا۔

فیصل آباد میں کوئی محفل موسیقی یا عرف عام میں کنسرٹ ہونے جا رہا تھا۔ اس میں اپنی آواز کا جادو جگانے بھارت سے گلوکار سکھبیر سنگھ آئے تھے۔ پاکستان سے عینی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ تقریب کی کمپیئرنگ عمر شریف کر رہے تھے۔

کنسرٹ منتظمین نے اس کی فلم بندی کے لیے ایک ٹیم کی ذمہ داری لگا رکھی تھی۔ مجھے بھی فیصل آباد بھیجا گیا تاکہ اپنے پروگرام کے لیے اس کی کوریج کر سکوں۔ تاہم، میرے ساتھ کوئی کیمرہ مین بھیجا گیا اور نہ ہی معاون عملہ۔ مجھ سے کہا گیا کہ فلم بندی کے لیے ٹیم پہلے سے موجود ہو گی، وہی میرے مطلب کی فوٹیج بھی شوٹ کر دے گی، اور الگ سے مجھے ایک ڈی وی پر کاپی کر دے گی۔ تو میرے ادارے والوں نے مجھے بس سونی یا پیناسونک کمپنی کی ایک ڈی وی دے کر فیصل آباد بھیج دیا۔

میرا کام یہ تھا کہ ایک تو کنسرٹ کی ریکارڈنگ کرنے والی ٹیم سے کہہ کر وہ شاٹس بنوا لوں جو مجھے اپنے پروگرام کے لیے درکار ہوں گے، دوسرا اس تقریب میں گانے کے لیے آئے گلوکاروں کے انٹرویو کر لوں۔

جب میں وہاں پہنچا اور ریکارڈنگ والی ٹیم سے ملا تو وہ ایک پریشانی سے دوچار تھے۔ وہ ریکارڈنگ کے لیے جو ڈی وی لے کر آئے تھے، کیمرہ اسے قبول کرنے سے انکار کر رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، آپ کے پاس کون سی ڈی وی ہے؟ میں نے بتایا یہ والی۔ کہنے لگے، ہمارے والی چل نہیں رہی، آپ اپنی ڈی وی ہمیں دے دیں۔

اس وقت مجھے کچھ زیادہ سمجھ بھی نہیں تھی، ان کا مطالبہ سن کر گھبرا گیا۔ میں نے کہا، یہ ڈی وی تو میرے دفتر کی امانت ہے، آپ کو نہیں دے سکتا، اس پر تو میں نے اپنے پروگرام کے لیے شاٹس وغیرہ کاپی کرانے ہیں۔ وہ کہنے لگے، آپ یہ ڈی وی ہمیں دے دیں، ہم آپ کو اس کی جگہ نئی دے دیں گے۔ میں دل میں ڈرا کہ اگر انہوں نے نہ دی تو، دفتر والے پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا، لہذا انکار کر دیا۔ وہ پہلے ہی خاصے پریشان تھے، میرے انکار پر تو بھنا ہی گئے۔ کہا، اس وقت ہمیں ڈی وی دے دیں، ہمارا کام چالو ہو جائے، ہم اسی وقت اپنا بندہ دوڑا کر نئی ڈی وی منگوا رہے ہیں، وہ آپ لے لیجئے گا۔

بے اعتباری اور خوف کی وجہ سے میں انہیں انکار کرتا رہا۔ اس وجہ سے ٹیم کے منتظم سے میرے تعلق میں سرد مہری سی آ گئی۔ دوسرا، ان کا کوئی اپنا پروڈکشن کا سلسلہ بھی تھا، تقریب میں آئے گلوکاروں سے وہ اس کی تشہیر کے لیے جملے بولنے کا کہہ رہے تھے۔ اور اپنی پروڈکشن کے لیے بھی ان گلوکاروں کے انٹرویوز کرنا چاہتے تھے۔ ٹیم کے منتظم غالباً انٹرویوز کے لیے سوال سوچ نہ پا رہے تھے اس لیے مجھ سے کہنے لگے، آپ جو سوال لکھ کر لائے ہیں وہ مجھے دے دیں۔ لیکن وہ سوال تو میں اپنے پروگرام کے لیے لکھ کر لایا تھا، انہیں کیوں دیتا؟ بہانا بنا دیا کہ میں نے سوال لکھے نہیں ہوئے، بس ذہن میں سوچے ہوئے ہیں۔ تو انہوں نے کاغذ قلم میری طرف بڑھا کر کہا، جو سوچے ہوئے ہیں وہ اس پر لکھ دیں۔ زچ آ کر میں نے کچھ سوال لکھ دیے اور انہوں نے وہی پوچھے بھی۔ پھر مجھے سوالات کی دعوت دی گئی تب میں نے وہ سوال کیے جو میں تیار کر کے لایا تھا۔

اُس وقت میری جو کیفیت ہو رہی تھی، معلوم نہیں اس کا ابلاغ کر پا رہا ہوں یا نہیں۔ ڈی وی نہ دینے والے معاملے پر اس ٹیم کے رویے میں سردمہری سی ہے، کام چل تو رہا ہے لیکن ماحول میں کشیدگی ہے۔ اوپر سے سوالات کے لیے میری مدد ’مانگی‘ نہیں جا رہی، بلکہ مجھے ’حکم‘ دیا جا رہا ہے کہ اپنے تیار کردہ سوالات ان کے حوالے کر دوں۔ یہ حکم دیتے ہوئے انداز بھی تکبرانہ سا ہے۔ یہ سب کچھ میرے لیے بے سکونی اور الجھن پیدا کر رہا تھا۔

جب کنسرٹ ختم ہوا تو ان سے کہا کہ میرے مطلوبہ حصے میری ڈی وی پر کاپی کر دیجیے۔ وہ کہنے لگے، لاہور جا کر دے دیں گے۔ یوں تمام وقت الجھن اور گھٹن میں گزارنے کے بعد میں خالی ڈی وی کے ساتھ ہی واپس آ گیا۔

29/05/2025

**📢 میڈیا مالکان کے نام میرا پیغام: خود سے سوال کیجیے! **

اس وقت پاکستان میں نیوز ٹیلی ویژن چینلز کی بہتات ہے۔ اور زیادہ تر چینلز اپنے اخراجات تک پورے نہیں کر پا رہے۔ اس وجہ سے کئی چینلز ایسے ہیں جنہیں اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔ کئی چینلز نے بڑے دھوم دھام سے اپنی نشریات کا آغاز کیا، اور کچھ ہی عرصے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ وہ مالی بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ تو کتنے ہی ملازمین جو دوسرے چینلز سے زیادہ تنخواہوں پر لائے گئے تھے، انہیں نکال دیا گیا۔

❗ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ میڈیا مالکان نے جب نیوز چینل کھولے تھے تو اس وقت وہ کسی شدید غلط فہمی کا شکار تھے۔ انہوں نے جو خواب دیکھے تھے (یا انہیں دکھائے گئے تھے) وہ غیر حقیقی تھے۔ غیر حقیقی خواب دیکھنے کی وجہ یہ تھی کہ چینل کھولتے وقت انہوں نے خود سے چند بنیادی سوال نہیں پوچھے تھے۔

⚠️ اگر آپ ایک نیوز ٹیلی ویژن چینل کے مالک ہیں تو یہ سوال آپ کو چینل کھولنے سے پہلے پوچھ لینے چاہیے تھے۔ اس وقت نہیں پوچھے تھے تو اب پوچھ لیں۔ جب آپ کو ان سوالوں کے جواب مل جائیں گے تو آپ کی سوچ کو بھی ایک سمت مل چکی ہو گی۔

🔹 **پہلا مرحلہ، پہلا سوال:** آپ نے چینل کھولا کیوں؟ بنیادی مقصد کیا تھا؟
کیا آپ؛

* الف۔ پیسے کمانا چاہتے تھے؟ اگر پیسے کمانا چاہتے تھے تو اس کے لیے میڈیا کا انتخاب ہی کیوں کیا؟
* ب۔ آپ کو میڈیا کا ٹہکا چاہیے تھا۔ آپ کے دیگر کئی کاروبار ہیں۔ چینل اس لیے کھولا کہ اگر آپ کے کاروباری مفاد کو کسی سرکاری اہل کار سے نقصان پہنچ رہا ہو تو اپنے چینل کو استعمال کر سکیں۔ اپنے غیر قانونی کام کے خلاف قانونی کارروائی کو میڈیا کی طاقت سے روک سکیں۔ اپنے رپورٹرز سے کہہ کر سرکاری دفاتر میں کام نکلوا سکیں۔
* پ۔ آپ صحافت کرنا چاہتے تھے، پاکستان کے عوام تک غیر جانبداری سے درست حقائق پہنچانا چاہتے تھے۔
* ت۔ آپ صحافت بھی کرنا چاہتے تھے اور پیسہ بھی کمانا چاہتے تھے۔
* ٹ۔ آپ میڈیا کو اپنے ناجائز کاموں کے لیے بطور ڈھال بھی استعمال کرنا چاہتے تھے اور پیسہ بھی کمانا چاہتے ہیں۔

📝 میرا خیال ہے ان پانچ کے علاوہ نیوز ٹیلی ویژن کھولنے کا اور کوئی مقصد نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر ہے تو اسے بھی واضح طور پر درج کریں۔

🔹 **دوسرا مرحلہ، دوسرا سوال:** جس مقصد سے چینل کھولا، وہ پورا کیسے ہوگا؟
آپ نے اپنا مقصد واضح طور پر لکھ لیا، تو خود سے دوسرا سوال یہ پوچھیں کہ آپ کا مقصد حل کیسے ہوگا؟ اس دوسرے سوال کے جواب تک پہنچنے کے لیے بھی آپ کو مزید سوال پوچھنا ہوں گے۔

---

# # # مقصد الف: پیسہ کمانا

❓ سوال ایک: آپ کے چینل کو ہر ماہ کتنی آمدن ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے اخراجات پورے کرے اور آپ کو منافع دے سکے؟
❓ سوال دو: یہ رقم کیسے آئے گی؟
❓ سوال تین: چینل لانچ ہونے کے کتنے عرصے بعد اتنی رقم آنے لگے گی کہ چینل کے اخراجات پورے ہو جایا کریں گے؟

💡 سوال ایک کا جواب سادہ ہے، سوال دو کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی ٹیلی وژن چینل صرف اشتہارات سے ہی کماتا ہے۔ تو آپ پوچھیں گے:

* سوال دو الف۔ آپ کا چینل ایسا کیا کرے گا جو اسے زیادہ اشتہارات ملیں گے؟
* سوال دو ب۔ زیادہ اشتہارات ملنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے چینل پر پیش کیا جانے والا مواد دوسرے چینلز سے بہتر اور منفرد ہو۔ یہ بہتری اور انفرادیت کیسے آئے گی؟

---

# # # مقصد ب: میڈیا کو بطور ایک ٹہکا اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا

❓ سوال: ہر ماہ اس پر کتنے اخراجات ہوں تو آپ کا مقصد پورا ہوتا رہے گا؟

⚙️ لائحہ عمل: جو طے کریں، اپنا چینل انہی اخراجات میں چلاتے رہیں اور اپنا مقصد پورا کرتے ہیں۔ بات ختم۔ پھر یہ پروا نہ کیجیے کہ ریٹنگ آ رہی ہے یا نہیں آ رہی۔ آپ کا چینل پیسے کما رہا ہے یا نہیں کما رہا۔

---

# # # مقصد پ: غیر جانبدارانہ صحافت کرنا

❓ سوال ایک: مالی وسائل کہاں سے آئیں گے؟
❓ سوال دو: میرے چینل کی ادارتی پالیسی اور ضابطہ اخلاق کیا ہو گا؟
❓ سوال تین: کیا میرے لیے سیاسی وابستگیوں، مذہبی رجحانات اور ریاستی بیانیے سے بالاتر ہو کر رپورٹنگ کرنا ممکن ہو گا؟
❓ سوال چار: اگر مجھے کسی قسم کے سیاسی، معاشی یا ریاستی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو کیا کروں گا؟

---

# # # مقصد ت: صحافت بھی کرنا اور پیسہ بھی کمانا

❓ سوال: میرے چینل پر کیا مواد پیش کیا جائے گا جو زیادہ تعداد میں لوگ دیکھنا پسند کریں؟
❓ سوال: میرے چینل کی ساکھ کیا ہو گی؟ کیسے بنے گی؟ اور کتنے عرصے میں بنے گی؟
❓ سوال: کیا میرے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ اس وقت تک انتظار کر سکوں؟
❓ سوال: میرے لیے چینل کی کامیابی کا کیا معیار ہو گا اور چینل کامیاب کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟
❓ سوال: کیا دوسرے ٹی وی چینلز کے مشہور اینکرز کو زیادہ تنخواہ دے کر اپنے چینل پر لانے سے چینل کامیاب ہو جاتا ہے؟
❓ سوال: کیا ماضی کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ چینل کسی اینکر کی وجہ سے کامیاب ہو گیا ہو؟
❓ سوال: کیا میں مشہور اور مہنگے اینکرز کا مالی بوجھ اٹھا سکتا ہوں؟
❓ سوال: ناظرین دوسرے چینل چھوڑ کر میرا چینل کیوں دیکھیں گے؟
❓ سوال: معیار اور مارکیٹ میں توازن کیسے قائم رکھا جائے گا؟

---

# # # مقصد ٹ: میڈیا کو اپنے ناجائز کاموں کے لیے بطور ڈھال استعمال کرنا اور پیسہ بھی کمانا

❓ سوال: پیسہ کمانے کے لیے ظاہر ہے مجھے ریٹنگ چاہیے ہو گی، وہ کیسے آئے گی؟
جو سوالات مقصد 'ت' کے لیے پوچھے گئے وہی یہاں بھی پوچھے جائیں گے۔

---

🛑 جب آپ ان سوالوں کے جواب طے کر لیں گے تو آگے کی حکمت عملی مرتب کر سکیں گے۔
ہر سوال کے جواب میں حکمت عملی بھی مختلف بنے گی۔ اپنے ارادے، مقاصد، اور وسائل کا بے رحمانہ جائزہ لیں۔
اگر صحافت کرنا چاہتے ہیں تو ادارتی آزادی، مالی شفافیت اور پیشہ ورانہ معیار کو اپنا ہتھیار بنائیں۔
اگر پیسہ کمانا چاہتے ہیں تو مارکیٹ کو سمجھ کر منفرد پروڈکٹ لائیں۔
اور اگر ذاتی مفاد ہی مقصد ہے تو اخراجات کم کریں اور خوابوں میں رہنا چھوڑ دیں۔
اگر آپ اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کر پا رہے تو جتنے ملازمین کی تنخواہیں آپ ماہانہ بنیادوں پر afford کر سکتے ہیں، بس انہیں رکھیے اور باقیوں کو نکال دیجیے۔
ملازمین کو نکالنے کا مشورہ سفاکانہ لگتا ہے لیکن اگر آپ ان سے کام لیتے ہیں اور کئی کئی ماہ تک ان کی تنخواہیں ادا نہیں کرتے تو یہ بھی سفاکیت ہی ہے۔

---

⚡️ اپنی سوچ کو واضح سمت دینے کے لیے خود سے سوال کیجیے، اور پھر کسی حقیقت پسندانہ فیصلے تک پہنچیے،
کیا آپ چینل چلا بھی سکتے ہیں یا نہیں؟

اس روز میں چائے کے سامنے شرمندہ ہو گیاچائے سے اپنے رشتے کو بھلا کیا نام دوں۔ عشق کہوں گا تو بات خاصی ڈرامائی سی لگے گی۔ ...
22/05/2025

اس روز میں چائے کے سامنے شرمندہ ہو گیا

چائے سے اپنے رشتے کو بھلا کیا نام دوں۔ عشق کہوں گا تو بات خاصی ڈرامائی سی لگے گی۔ اگر کہوں کہ چائے اور میں بس ”اچھے دوست“ ہیں، تو یہ ایسے ہو گا جیسے سورج کو موم بتی کہہ دیا جائے۔ مطلب چائے کے ساتھ میری وابستگی ”صرف دوستی“ سے کہیں آگے کی کیفیت ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ میں نے چائے کو صرف پیا نہیں، اسے جیا ہے۔ چائے کا ہاتھ تھام کر پہروں اس سے باتیں کی ہیں۔ چائے میرے دن کی پہلی خواہش اور رات کی آخری دعا ہے۔ میرے لیے چائے ہی روح افزا ہے، سپرائٹ، کولا اور فانٹا ہے۔ میں نے چائے سے اپنی چاہت کا اظہار برملا کیا ہے اور بار بار کیا ہے۔ اس کے قصیدے کہنے کو فیس بک پر کتنی ہی تحریریں لکھی ہیں۔

شدید بھوک لگی ہو، اس موقع پر بھی کھانے یا چائے میں سے کوئی ایک چیز چننے کا کہا جائے تو میرا انتخاب چائے ہی ہو گا۔ بلکہ کھانے کے دوران بھی جب پیٹ بھرنے لگے تو ہاتھ روک دیتا ہوں کہ چائے کے لیے کچھ جگہ باقی رہے۔

دفتر میں کام کرتے ہوئے تو چائے کی طلب اور سوا ہوتی ہے۔ یہاں چائے کی فراہمی کئی بار دشواریوں سے دوچار ہوئی۔ صرف چائے کی خاطر افسران بالا سے خصوصی منت ترلا تک کرایا۔ اس کے بعد یہ بندوبست بھِی کر لیا کہ بازار سے دودھ پتی خرید کر دفتر میں خصوصی چائے پکوا لیتے ہیں۔

اور پھر۔۔۔ وہ دن آیا!

دل میں چائے کی شدید طلب جاگی۔ بے اختیار ہو کر کرسی چھوڑی، دفتر سے نکلا۔ ارادہ یہ تھا کہ ڈھابے پر جاؤں گا اور چائے کو گلے لگاؤں گا۔ لیکن باہر نکلتے ہی گرمی مزاج پوچھنے لگی۔ اوپر سورج چمک رہا تھا، نیچے ہوا آگ کو بغل میں لیے گھومتی تھی۔ کڑکڑاتی گرمی سے گھبرا کر قدم لڑکھڑائے ضرور، مگر میں رکا نہیں – محبت جو تھی۔

ڈھابے تک پہنچ تو گیا لیکن تب تک گرمی میرے ارادوں کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو چکی تھی، حوصلے پگھل چکے تھے۔ چائے کے لیے کہنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ میں پلٹ پڑا، جیسے کوئی محبوب کو دیکھنے جائے اور گلی کے نکڑ پر اس کا ابا دیکھ کر لوٹ آئے۔

تھکے تھکے قدموں سے دفتر واپس پہنچا تو ایک ساتھی نے پوچھا، ”چائے پی کے آئے ہو؟“ سر جھکا کر بتایا، ”نہیں۔۔۔ گرمی کی وجہ سے ہمت نہ پڑی۔“ آگے سے جواب آیا، ”اے فیر چاء نال محبت تے نہ ہوئی!“ یعنی یہ پھر چائے سے محبت تو نہ ہوئی۔

بس، یہ جملہ دل پر ایسے لگا جیسے ذاتی کمائی سے خریدے پانچ رافیل طیارے گر گئے ہوں۔ اس دن سے خود کو چائے کے آگے مجرم مجرم سا محسوس کر رہا ہوں۔ بھلا یہ کیسی محبت تھی جو گرمی کے چند تھپیڑے برداشت نہ کر پائی۔

لیکن صاحبو! اس سے بھی بڑا جرم جو ہوا، اس کا بوجھ سینے پر لیے پھرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس روز میں نے چائے کی جگہ۔۔۔ کولا پی لی تھی۔

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Omair Bolta Hai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share