
14/07/2025
جب میں نے لاہور میں اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی پہنی
قصہ شاہد ملک صاحب کی دعوت سے شروع ہوتا ہے۔ ملک صاحب سینیئر صحافی ہیں اور میرے استاد بھی۔ ان کے دوست ڈاکٹر امیر جعفری لاہور آئے تو مال روڈ کے ایک ہوٹل میں ملاقات طے پائی۔ مجھے اور عاطف صاحب کو بھی مجلس میں مدعو کیا گیا۔
شاہد ملک صاحب کی شخصیت جیسی دل آویز ہے، ڈاکٹر امیر جعفری بھی اسی کا عکس نکلے۔ خوب صورت لہجے میں اردو بولنے والے، درمیان میں کہیں انگریزی یا پنجابی کا ٹانکا لگتا تو گفتگو میں مزید خوش نما رنگ بکھر جاتے۔
کیسی مزے مزے کی باتیں ہوئیں۔ امیر جعفری صاحب نے اشعار سنائے، بتایا کہ مختلف اشعار میں ایک ہی مضمون کو کیسے کیسے انداز سے برتا گیا، بظاہر سادہ سے لفظوں میں معنی کے کیا کیا سمندر چھپے ہیں ۔۔۔ میں تو ڈوبتا چلا گیا۔ گفتگو کے دوران اس چلن کا ذکر ہوا کہ دیار غیر سے چھٹی پر پاکستان آئے دوستوں کو بلا کر کسی بھی کانفرنس کو بین الاقوامی قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور کانفرنس کے بڑے بڑے پینافلیکس آویزاں کر دیے جاتے ہیں۔ (پینافلیکس، مطلب رنگین بینرز جن پر تصاویر اور معلومات چھپی ہوتی ہیں)
پینافلیکس کی بات ہوئی تو ڈاکٹر امیر جعفری صاحب کو پھل خریدنے کا واقعہ یاد آ گیا۔ پھل فروش نے پینافلیکس پر پھلوں کی تصاویر، دو الگ الگ نام اور فون نمبر چھپوا رکھے تھے۔ دائیں جانب پائندہ گل کا نام اور نمبر، بائیں جانب خیال خان کا نام اور نمبر۔
امیر جعفری صاحب نے آم خریدنے تھے۔ پھل فروش نے بتایا یہ آم کاٹ کے کھانے والا ہے اور یہ جوس بنانے والا۔ انہوں نے شرارت سے پوچھا، اگر میں جوس بنانے والے آم کو کاٹ کر کھا لوں تو؟ پھل فروش نے لاپروائی سے جواب دیا، کوئی حرج نہیں۔ وہیں سیب بھی رکھے تھے۔ ان کی خوبی یہ بتائی گئی کہ ایران سے آئے ہیں۔ جعفری صاحب نے پوچھا، کیا ضمانت ہے کہ ایران سے آیا سیب اچھا ہی ہو گا؟ سیب کے اچھا ہونے کے لیے پھل فروش کی دلیل سنیے، ”کیوں کہ ایران کھڑا ہو گیا تھا نا!“ اشارہ حالیہ اسرائیل ایران جنگ کی جانب تھا۔
جعفری صاحب نے پوچھا، بینر پر دو نام لکھے ہیں، آپ پائندہ گل ہو یا خیال خان؟ جواب میں دکان دار نے اپنا نام خیال خان بتایا، لیکن کچھ اس انداز سے، جیسے یہ سوچنا ہی گستاخی ہو کہ وہ پائندہ گل ہو سکتا ہے۔ پھر خیال خان نے جعفری صاحب سے ان کا نام پوچھا، انہوں نے جواب دیا، خام خیال۔
گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ امیر جعفری صاحب نے rhetoric میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ Rhetoric، مطلب خطابت کا علم۔ ہائیں! دنیا میں کیسے کیسے دل چسپ اور اچھوتے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ پھر جب معلوم ہوا کہ یہ پی ایچ ڈی انہوں نے امریکا کی اوکلاہوما یونیورسٹی سے کی ہے تو چند لمحوں کے لیے دل کی دھڑکن رکی۔ جب 2019 میں کچھ روز کے لیے امریکا گیا تھا تو پہلا ہفتہ اسی یونیورسٹی میں گزارا تھا۔ کیسی دل فریب یادیں وابستہ ہیں وہاں سے۔ جعفری صاحب کو بتایا، وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ اوکلاہوما یونیورسٹی کا نام آیا تو خیال کے پردے پر فلم سی چل پڑی۔ ہم نے یونیورسٹی کی اونچی چھت والی لائبریری اور وہاں کے در و دیوار کو یاد کیا۔ وہ اپنی تعلیم کے قصے سناتے رہے۔ میں اوکلاہوما یونیورسٹی میں بیتے محدود سے وقت کے بارے میں سوچتا رہا۔
امیر جعفری صاحب نے بتایا کہ انہیں امریکا سے واپس آئے ایک دہائی سے اوپر کا وقت ہو چکا ہے لیکن اب بھی ان کی گاڑی میں اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی ہمیشہ رکھی رہتی ہے، اور انہوں نے اپنی گاڑی پر یونیورسٹی کا سٹیکر بھی لگا رکھا تھا جو کسی نے اتار لیا۔ اس موقع پر انہوں نے اسٹیکر اتارنے والے کے لیے کچھ ناقابل اشاعت الفاظ بھی استعمال کیے۔
انتہائی خوش گوار ملاقات کے اختتام پر ہم انہیں ان کی گاڑی تک چھوڑنے گئے۔ وہیں سے انہوں نے اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی نکالی، مجھے پہنائی اور یہ تصویر لی گئی۔