27/11/2023
سی ایس ایس سے موت تک کا سفر 😓
بلال پاشا جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقہ میں پیدا ہوا۔ والد دیہاڑی دار مزدور تھے۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں ہی قائم مکتب سے پرائمری پاس کی۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا عالم سب پر عیاں ہے لہذا بلال پاشا نے بھی چھٹی جماعت سے اے بی سی پڑھنا شروع کی۔ انٹر میڈیٹ ایمرسن کالج ملتان اور بیچلر زرعی یو یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسجد سے پانچ جماعتیں کرنے والا بچہ کل کو مقابلے کا امتحان پاس کرکے سی ایس پی بن جائے گا۔
بلال پاشا نے کیریئر کا آغاز ایک پرائیویٹ نوکری سے کیا۔ لیکن والد کی خواہش پر گورنمنٹ سروس میں آیا اور پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوگیا۔ بعد ازاں مختلف سرکاری اداروں میں سولہویں اور سترہویں سکیل کی ملازمت کرتے ہوئے 2018 ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوا۔
بلال پاشا نے اپنے بیک گرائونڈ کو چھپانے کی بجائے اپنے سفید داڑھی والے مزدور باپ کے ساتھ کھڑے ہوکر انٹرویو دیا اور پاکستان کے ان نوجوانوں میں امید کی شمع جلائی جو سی ایس ایس پاس کرنے کو صرف ایلیٹ کلاس سے منسوب کرتے تھے۔ سلسلہ چل نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں نوجوان سی ایس ایس کے خواب آنکھوں میں سجائے اس سفر پر گامزن ہونے لگے۔
لیکن عرفان خان نے کیا زبردست جملہ بولا تھا کہ "جب ہم جیسوں کےدن آتے ہیں موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے"۔ بلال پاشا کی زندگی کی شروعات ہوئی تھی اور موت نے آن دبوچ لیا۔
آج کی رات بلال کے باریش والد کے لئے بہت بھاری ہے۔ آج وہ اپنے ناتواں ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کے سونے جیسے جسم کو سپرد خاک کرے گا۔ آج کی رات بہت طویل ہے، بہت کٹھن، ہر طرف چیخ و پکار ہوگی، بلال کی میت کو روکا جائے گا، لیکن جانے والے کو کوئی روک پایا ہے؟
آج رات تو ہوگی لیکن اس کی سحر نہیں ہوگی۔ جب صبح کا سورج طلوع ہوگا تو اس کا باریش باپ گلیوں گلیوں صدائیں لگاتا ہوا اسی مسجد کے صحن میں جا پہنچے گا جہاں سے بلال نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا، لیکن۔۔۔اب کی بار وہ میسر نہیں ہوگا۔ اب کی بار مسجد کے درودیوار سے بس آہ و بکا سنائی دے گی، وحشت نظر آئے گی، لیکن بلال کہیں نظر نہیں آئے گا۔ وہ اس نیلی بتی، سبز نمبر پلیٹ اور اس سماج کے خودساختہ معیار سے بہت دور جاچکا ہوگا۔ اب کی بار وہ لوٹ کے نہیں آئے گا۔
۔۔۔اللہ حافظ بلال۔۔۔
خیال پارے ❤
محمــــد طـــاھــⷶــⷨـــر
(27 نومبر 2023ء)