Mustafvi Inqlab in Pakistan Updates

Mustafvi Inqlab in Pakistan Updates First Page on FB Keeping you Update since Long March Pakistan and will be untill Mustafvi Inqlab in Pakistan Inshallah. Live Updates on Facebook.

If you have FB Cell then like this page and get free updates on your cell about Live Programs.

10/12/2024

Due to busy schedule in life , sorry not getting time to make more new posts ...Admin.

10/12/2024
06/03/2024

نواز زرداری کا توڑ صرف قادری اور خان کے پاس ہے۔ جس دن خان اور قادری اکٹھے ہو گئے تبدیلی اور انقلاب آجائیگا

06/03/2024

اللہ کرئے کہ رمضان المبارک میں عمران خان صاحب جیل سے رہا ہو جائیں اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے ملکر پاکستان کا سوچیں

13/02/2024

انقلاب پسندوں نے ووٹ بلاول کو دیا اور بلاول کا ووٹ ن لیگ کو ۔ فیصلہ آپ کا

یہ ایک ثمرین کرپٹ ترین عورت ہے مریم نواز کی کاپی ہے۔
02/02/2024

یہ ایک ثمرین کرپٹ ترین عورت ہے مریم نواز کی کاپی ہے۔

02/02/2024
28/01/2024

2013 میں نے ووٹ فار نن کی تحریک چلائی

2018 میں میں نے تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دیا اور ووٹ فار نن کی تحریک چلائی
2024 فروری 8 کو بھی میرا ووٹ فار نن ہے۔ کیونکہ میں نے خدا کو جواب دینا ہے کسی انسان کو نہیں۔
پاکستان میں صدارتی نظام ہی قابل عمل ہے

28/01/2024

سال 1998 میں اسلام آباد کے سیکٹر جی 8 میں نوابزادہ نصراللہ خان کے صاحبزادے کی رہائش گا ہ پر ہونے والے اپوزیشن قائدین کے اجلاس کے جب فیصلہ جات کا اعلان ہوا تو بڑے بڑے نامور صحافیوں کی حیرت قابل دید تھی۔ نواز شریف کی دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کے خلاف پاکستان عوامی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا گیا جس میں بے نظیر بھٹو کی چیرمین شپ والی پاکستان پیپلز پارٹی سمیت درجن کے قریب دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں لیکن اس کی سربراہی کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے نام سنتے ہی تمام صحافی ہکے بکے رہ گئے۔ پاکستان عوامی تحریک کا قیام ڈاکٹر صاحب نے 1989 میں کیا ۔ 1990 میں ہونے والے انتخابات میں اس جماعت نے نو ماہ کی عمر میں حصہ لیا خاطر خواہ نتائج نے ملنے پر دو دن بعد ہونے والے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا گیا۔ 1990 میں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے تو ان کی حکومت کے خلاف بھی نوابزادہ نصر اللہ خان کی چیرمین شپ میں ایک اتحاد بنا تھا جس کے ڈاکٹر صاحب وائس چیرمین بنے تھے لیکن اس اتحاد میں پیپلز پارٹی شامل نہیں تھی اور یہ ذیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا۔
پاکستان عوامی تحریک نے 1993 کے انتخابات سے قبل مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکی نتیجتا انتخابات سے قبل عوامی تحریک نے انتخابات سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور چند ماہ بعد ڈاکٹر صاحب نے پاکستان عوامی تحریک کی انتخابی سیاست سی علیحدگی کا اعلان کر کے اس کے ذمہ عوامی تعلیمی مراکز کا قیام لگا دیا۔
یوں 1993 سے 1998 تک عوامی تحریک اور ڈاکٹر صاحب سیاسی منظر سے غائب تھے لہذا ان کی سیاسی میدان میں واپسی پر صحافیوں کا حیران ہونا کوئی قابل حیرت بات نہیں تھی اور اس پر مستزاد یہ بات بھی ناقابل یقین تھی کہ دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو کسی ایسے سیاسی اتحاد میں شامل ہو رہی تھیں جس کا سربراہ کوئی اور ہو۔
راقم چونکہ اس اتحاد سے قبل ہونے والے اجلاسوں کی کاروائی کا ذاتی شاہد رہا ہے۔ اس لئے اس بات سے باخبر ہے نظیر بھٹو نے یہ فیصلہ اس لئے کیا تھا ان کے لئے اس وقت کوئی اور آپشن نہیں تھا ۔1997 کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی ۔ پنجاب سرحد اور بلوچستان میں ن لیگ کی اتحادی حکومتیں قائم تھیں۔یہاں تک کہ سندھ میں بھی نواز شریف ایم کیو ایم سے ملکر اپنا وزیر اعلی لانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پر کرپشن کے مقدمات قائم تھے۔آصف زرداری جیل میں تھے۔ جیالے بددل اور گھروں میں بیٹھے تھے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا تھا۔ لہذا کسی تحریک کے لئے ان کے پاس کسی قسم کی کوئی سٹریٹ پاور موجود نہ تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خان، آغا مرتضی پویا اور میاں منظور وٹو کی کاوشوں سے محترمہ اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان خفیہ میٹنگز کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں پاکستان عوامی اتحاد کا منصوبے کو حتمی شکل دی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے دو شرائط رکھیں، پہلی یہ کہ اتحاد کی سربراہی ان کے پاس ہوگی اور دوسری یہ کہ یہ اتحاد صرف احتجاجی ہی نہیں ہوگا۔بلکہ ایک انتخابی اتحاد ہوگا اور اس میں شامل تمام جماعتیں ملکر کر ایک ہی نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لیں گیں۔ اور پھر اس اتحاد کے بینر تلے ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے ہوئے ۔ جن میں اندرونی سطح پر وزیر اعظم بے نظیر اور وزیر اعظم پروفیسر کے نعروں اور دونوں جماعتوں کے ترنگے جھنڈوں کا مقابلہ بھی جاری رہا ۔نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے لئے اس تحریک نے عوامی سطح پر وہ ماحول سازی کردی جس کا فائدہ جنرل مشرف نے اٹھا کہ ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ لیکن بے نظیر بھٹو عوامی اتحاد کے انتخابی تشخص سے مکر گئیں یہ اتحاد ٹوٹ بھی گیا اور بعد ازاں بے نظیر بھٹو نے اسی نواز شریف سے لندن میں بیٹھ کر میثاق جمہوریت کر لیا جس کی حکومت کے خلاف تحریک کے لئے انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری سے اتحاد کیا تھا۔
2002کے انتخابات میں جب پاکستان عوامی تحریک انتخابات میں حصہ لے رہی تھی ڈاکٹر صاحب حلقہ این اے 127 سے الیکشن لڑ رہے تھے ۔ بالکل اسی حلقے سے جہاں سے اس وقت بلاول بھٹو الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مقابلے میں ن لیگ کا نصیر بھٹہ اور ق لیگ کے علیم خان کھڑے تھے۔ پاکستان عوامی تحریک نے بڑی کوشش کی کہ پرانے تعلق کی لاج رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کم از کم اس حلقے سے اپنے امیدوار ( پروفيسر اعجاز الحسن )کو ڈاکٹر صاحب کے مقابلے میں کھڑا نہ کرے جس کے جیتنے کا ایک فیصد امکان بھی نہیں تھا۔ لیکن پیپلز پارٹی نے اس ایک سیٹ پر بھی عوامی تحریک کی حمایت کرنے سے صاف انکار کردیا۔
سیاست سے دلبرداشتہ ہو کر ڈاکٹر صاحب نے 2004 میں قومی اسمبلی سے استعفی دے دیا اور پاکستان عوامی تحریک نے ایک بار پھر اپنے آپ کو انتخابی سیاست سے الگ کر لیا ۔ اسی عرصے میں 2007 میں بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا اور 2008 کے انتخابات میں مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی۔ اس حکومت کے آخری دن تھے جب ڈاکٹر صاحب ایک طویل عرصے بعد ملک واپس تشریف لائے اور مینار پاکستان کے گراونڈ میں عوامی استقبال کے عنوان سے 23 ستمبر 2012 کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی اجتماع سے خطاب کرتے ہونے انہوں نے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کا اعلان کیا اور 14 جنوری 2013 کو اسلام آباد میں لاہور سے لانگ مارچ کرتے ہوئے پہنچنے کا اعلان کیا۔
اس مارچ کو ناکام بنانے کے لئے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت اور ن لیگ کی صوبائی حکومت نے ملکر تمام سرکاری وسائل کا اہتمام کیا لیکن بہرحال پنجاب کے حدودمیں کسی قسم کے تشدد یا گرفتاریوں سے کام نہیں لیا گیا۔ البتہ جب یہ مارچ اسلام آباد پہنچا تو پہلی صبح کی آصف علی زرادی کے حکم پر اسلام آباد پولیس نے ڈاکٹر صاحب کے کنٹینر پر براہ راست فائرنگ کروائی۔ اگر وہ کنٹینر بلٹ پروف نہ ہوتا تو اپنے طور پر انہوں نے تو ڈاکٹر صاحب پر جان لیوا حملہ ہی کیا تھا ۔پھرے اگلے دودن بھی انہوں نے دھرنے کے شرکاء کے لئے سخت ترین حالات بنائے رکھے۔
اس دھرنا کا اختتام ایک تحریری معاہدے کے نتیجے میں ہوئے جس پر پاکستان پيپلز پارٹی کے مذاکرات میں شریک وزراء کے علاوہ اس وقت کے وزیر اعظم پرویز اشرف نے بھی دستخط کیے۔ لیکن دھرنا کے اختتام کے بعد وزراء کے وفد نے دو ایک علامتی مذاکراتی دور تو کئے لیکن عملا اس معاہدے کی ایک شق پر بھی عمل نہ کیا۔اور یوں پیپلز پارٹی نے عوامی تحریک سے وعدہ خلافیوں کے سلسلے کو جاری رکھا۔
جاری ہے۔۔۔

28/01/2024

گزشتہ سے پیوستہ ۔۔
چند دن قبل اس موضوع کی پہلی قسط پوسٹ کی تھی اس کو دوسرا حصہ پیش خدمت ہے ۔
۔۔۔......مئی 2013 کے انتخابات میں مرکز اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومتیں قائم ہوگئیں۔ 2014 میں جب پاکستان عوامی تحریک کے مرکز پر پنجاب پولیس نے حملہ کر کے 14 معصوم لوگوں کو شہید کردیا تھا پیپلز پارٹی کی صوبائی قائدین ایک دو مرتبہ تعزیت کے لئے ضرور آئے لیکن آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے نہ تعزیت کے لئے آئے نہ ہی کوئی بیان دیا۔ بلکہ انہوں نے 27 جون 2014 کو ہونے والی سانحہ ماڈل ٹاون کی اے پی سی میں شرکت سے اپنے صوبائی قائدین کو بھی منع کردیا۔

گست 2014 کے دھرنے سے قبل جب اس کی پلاننگ ہورہی تھی تو اس وقت میرے پاس کوئی مرکزی ذمہ داری تو نہ تھی کیونکہ میں ستمبر 2013 سے برطانیہ میں مرکزی ذمہ داریوں سے ایک سال کی رخصت ہر تھا۔لیکن یہ بات میری ذاتی معلومات میں ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو یہ ضمانت دی گئی تھی کہ جب مارچ اسلام آباد پہنچے گا تو عین وقت پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی دھرنا کی حمایت کریں گے جس کے نتیجے میں ن لیگ کی حکومت کا خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔ لیکن وقت آنے پر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرادی کی جماعت نے دھرنے کی حمایت کرنا تو درکنار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ن لیگ کی حکومت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے دھرنا کے شرکاء کو خانہ بدوش کہہ کر ان کا تمسخر اڑایا اور بلاول بھٹو زرداری نے ایک ٹویٹ میں ڈاکٹر صاحب کوکارٹون تک کہہ دیا۔اور یوں 2014 کے دھرنے کی پیٹھ میں بھی چھرا گھونپنے والوں میں اصف زرداری اور بلاول بھٹو کے نام بھی شامل تھے۔

جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد 2017کے آخر میں ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں نے پاکستان عوامی تحریک نے ایک بار پھر بعد ن لیگ کے خلاف ایک فیصلہ کن وار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت سوائے مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں آن بورڈ لا چکی تھیں۔ آصف علی زرداری صاحب بنفس نفیس منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ تشریف لائے ۔ ڈاکٹر صاحب بھی لاہور بلاول ہاوس عشائیہ پر گئے۔ تحریک انصاف پہلے ہی آن بورڈ تھی۔ پلان یہ تھا کہ 18جنوری 2018 کو مال روڈ پر ہونے والے جلسے کو دھرنے کی شکل دے دی جائے گی۔ اور اسی دھرنے کی افتتاحی جلسے میں پہلے پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کرے گی۔ اسی طرح تحریک انصاف بھی استعفوں کا اعلان کرے گی اور يوں مسلم لیگ ن کے اقتدار کے قلعے پر فیصلہ کن وار کر کے ان کا اقتدار ختم کر دیا جائے گا۔ نواز شریف اور مریم نواز پہلے ہی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاون کا واضح مقدمہ موجود ہے اور یوں شریف خاندان کی سیاست کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے اور سانحہ ماڈل ٹاون کے ذمہ داروں اپنے انجام تک پہنچ جائیں گے۔

ان دنوں ن لیگ کے قائدین کی بے چینی قابل دید تھی ۔ ان کو اپنا انجام واضح نظر ارہا تھا لیکن عین موقع پر آصف علی زرداری نے استعفوں کا وعدہ پورا کرنے سے انکار کر کے سانحہ ماڈل ٹاون کے قاتلوں کو نئی ذندگی فراہم کردی ۔18جنوری 2018 کو مال روڈ پر ایک ناکام جلسہ ہوا جس میں رسمی تقریریں ہوئیں، سانحہ ماڈل ٹاون کے لئے ایک کاغذی کمیٹی کا اعلان کیا گیا جس کا ایک اجلاس بھی نہ ہوا اور یوں سانحہ ماڈل ٹاون کے قاتلوں کے خلاف احتجاجی تحریک اپنے ایسے انجام تک پہنچی کہ اس کے بعد اس عنوان سے کوئی آج تک کوئی قابل ذکر احتجاج تک نہ ہوا۔ اس ميں بھی اہم ترين کردار پیپلز پارٹی ہے۔

اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو سانحہ ماڈل ٹاون کے قاتل اعلی کو وزیر اعظم بنانے میں بھی اہم ترین کردار پیپلز پارٹی کا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر قائدین قاتل اعلی کی کابینہ میں 18 ماہ تک وزارت کے مزے لیتے رہے۔ ہر مشکل وقت میں مسلم لیگ ن کا دفاع کرتے رہے۔ حمزہ شہباز کی پنجاب میں حکومت بنانے اور بچانے کے لئے زرداری صاحب اپنے خزانہ کی تجوریوں کے منہ کھولے کتنا عرصہ لاہور میں خفیہ مزب رہے یہ کوئی پرانی بات تو نہیں۔ سوشل میڈیا ایسے کلپس سے بھرا پڑا ہے جن میں بلاول زرداری شہباز شریف کی تعریف میں رطب السان نظر آتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ شہباز شریف ن لیگ کے کم اور پیپلز پارٹی کے ذیادہ وزیر اعظم لگتے ہیں۔ کیا اس وقت بلاول بھٹو کسی میموری لاس کا شکار تھے کہ ان کو وہ سانحہ ماڈل ٹاون بھولا ہوا تھا جو اب کو گزشتہ دنوں منہاج القرآن کے دورے کے موقع پر یاد آگیا تھا۔؟

اس سارے مضمون میں جو واقعات درج کئے گئے ہیں ان کی صداقت کو کوئی ذی علم انسان چیلنج نہیں کر سکتا۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ وعدہ خلافیوں کی اس پرانی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے،کیا یہ سوال بے جا ہے کہ کس بنیاد پر موجودہ انتخابات میں حلقہ این اے 127 میں بلاول بھٹو اور گجرخان میں راجہ پرویز اشرف جیسے بدنام زمانہ کرپٹ شخص المعروف راجہ رینٹل کی حمایت کا اعلان کیا گیا اور ایسا فیصلہ کرنے والے کیا اس پیپلز پارٹی سے ايک دفعہ پھر وفا کی امید کس بنیاد پر رکھ بیٹھے ہیں؟ بقول میر تقی میر
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

یہ ایک بچے کو بھی علم ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اندر سے ایک ہیں ۔ ان کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات صرف نورا کشتی ہیں۔ انہوں نے ملکر کر عمران خان کی حکومت کو تختہ الٹایا ، اس کو جیل میں ڈلوایا،انتخابات کو موخر کروایا اور تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھینا اور اب جھرلو انتخابات کے ذریعے ایک دفعہ پھر اقتدار میں آنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں( جو اللہ کو منظور ہوا تو بری طرح ناکام ہوگا )

مانا کہ عمران خان نے سانحہ ماڈل ٹاون کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے بہت کچھ نہیں کیا لیکن آپ سمیت سب کو علم ہے کہ عمران خان کتنا با اختیار تھا۔ لیکن اب عمران خان کا مخالفت اتنی ذیادہ کیوں کر رہے ہیں کہ آپ کو اس کے مقابلے میں زرادی ذیادہ قابل بھروسہ لگنا شروع ہوگیا ہے جس کی ذندگی کا ہر باب دھوکہ بازی اور فراڈ پر قائم ہے؟
کیا آپ واقعی بلاول کو ایسی نوجوان قیادت سمجھتے ہیں جو اقتدار میں آ کر ملک میں انقلاب بپا کردے گا ؟
کیا بلاول زرداری جیسے مذہب بیزار شخص کو ووٹ ڈالنے کی تحریک چلانا مصطفوی انقلاب کے دعویداروں کو جچتا ہے؟
کیا بختاور زرادری کے جئے بھٹو کے نعروں کے جواب میں تحریک کے اس پرچم کو لہرانا مناسب ہے جس کی رنگوں کا تعین قرآن کی آیت سے کیا گیا ہو؟

ان سب سوالوں کو جواب نفی میں ہے تو پھر وہ کیا مجبوری تھی یا مفاد تھا جس نے آپ کو اپنی سیاسی تاریخ کے سب سے متنازعہ اور قابل نفرت فیصلے پر مجبور کیا ؟
جاننے والے سب جانتے ہیں۔ ہم بھی اس سے بے خبر نہیں۔ لیکن اس لئے مزید نہیں بولتے کے اس سے آگے بولنا حس ظن کے تمام بند توڑ کر بات کرنے کا متقاضی ہے۔
لیکن ایک بات موٹے مارکر سے لکھ کر رکھ لیں۔ کہ سانحہ ماڈل ٹاون پر بلاول اور زرداری نے نہ کچھ کرنا ہے نہ وہ کریں گے لیکن اس نے آپ سے جو بھی وعدہ کیا ہے اس پر اتنا ہی عرض کرتے ہیں کہ
نہ نو من تیل ہو گا ۔ نہ رادھا ناچے گی

اور اگر نو من تیل ہو بھی گیا تب بھی وہ نہیں ہوگا جس کا آپ سے وعدہ کیا گیا کہ ان تلوں سے وہ تیل نہیں ہے البتہ آپ نے تحریک کے ساتھ بقول میر وہی معاملہ کردیا کہ
پھرتے ہیں میر خار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
آپ نے جانے کس عاشقی میں عزت تحریک کا بھی سودا کر دیا!!
افسوس صد افسوس!


28/01/2024

پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹائون کے قاتلوں کا ساتھ دینے والوں کی حمایت کر دی۔ پیپلز پارٹی نہ کبھی سانحہ ماڈل ٹائون کے افسوس کے لئے تشریف لائے بلکہ وہ قاتل ن لیگ کی حکومت بچانے کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے ہر دھرنے کو ناکام بنانے کےلئے ن لیگ کے ساتھ ساتھ رہے

29/12/2023

Think before selfie from Haramain!!!

There are many tv channels and websites and apps giving 24/7 free live coverage from Mecca madina and others spiritual places .
Taking too much selfies and coming live from there and making v logs and TikTok’s was never part of umrah and hajj . We upload then watch comments and then reply … please trust me Allah is watching you and recording and will broadcast on Day of judgement just wait . If you upload and broadcast then what’s left for Akhtar ???
Think again please

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mustafvi Inqlab in Pakistan Updates posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share