
07/04/2025
سورت توبہ بتاتی ہے کہ جب ایمان والوں پر کفر کی طرف سے مشکل گھڑی آتی ہے تو ان میں تین گروہ بن جاتے ہیں۔ پہلا گروہ اُن لوگوں کا ہے جو :
یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ
اپنے مال اور جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور اللہ (ایسے ) متقی لوگوں کو خوب جانتا ہے۔ (سورت توبہ: 44)
دوسرا گروہ اُن لوگوں کا ہے جو جہاد کرنا چاہتے ہیں لیکن اسباب نہیں ہیں، اپنے مسلمان بھائیوں سے کندھے ملا کر کفر کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں لیکن مجبور ہیں کہ لڑ نہیں سکتے، یہ وہ گروہ ہے جس کے جذبے جوان اور بلند ہیں، ہمت مضبوط ہے ، نیت صاف ہے ، دل اپنے مسلمانوں بھائیوں کی محبت سے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، ان کے بارے میں فرمایا:
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ۪ - تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ
ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں ہے جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ (اے نبی ﷺ !) تمہارے پاس اس غرض سے آئے کہ تم انہیں کوئی سواری مہیا کر دو اور تم نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر میں تمہیں سوار کر سکوں۔ تو وہ اس حالت میں واپس گئے کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسوؤں سے بہہ رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ (سورت توبہ: 92)
تیسرا گروہ وہ ہے جو مسلمانوں میں رہتا ہے ، لیکن ایمان و کفر کی جنگ میں اپنے آپ کو نیوٹرل سمجھتا ہے، اس کے دل اور ضمیر پر ہوا میں بچوں کی بکھرتی لاشیں، چیختی ماؤں کی صدائیں، آزردہ و زخمی نوجوان، ملبے میں بکھرے قرآن کے اوراق، خون میں لتھڑی زمین، نشانہ بنتی ہسپتالیں اور آگ کے شعلوں سے جلتی گلیاں کچھ بھی اثر نہیں کرتیں، اسے کٹتے مسلمانوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ گروہ مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی مسلمانوں کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا ہے، اِس کے پاس حق بات نہ کہنے کے ہزار عذر ہیں، یہ زمین کے ساتھ لگ کر زندہ رہنے کو ترجیح دیتا ہے، یہ گلی کے کتے کے مر جانے پر افسوس کرتا ہے لیکن مسلمانوں کو خون میں نہلا دینے کا افسوس نہیں کرتا، یہ بلیوں کے حق پر تو بولتا ہے لیکن معصوم بچوں کے اُدھڑتے جسموں پر زبان گنگ ہو جاتی ہے، یہ اس لیے کہ اس گروہ کے دل پر مہر لگ چکی ہے:
اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ وَ هُمْ اَغْنِیَآءُۚ-رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِۙ-وَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
الزام تو اُن لوگوں پر ہے جو مال دار ہونے کے باوجود تم سے اجازت مانگتے ہیں ، وہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ پیچھے رہنے والی عورتوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے انہیں حقیقت کا پتہ نہیں ہے۔ (سورت توبہ: 93)
یہ گروہ ائیر کنڈیشن روم میں بیٹھ کر دیوار پر لگی ایل سی ڈی سے نیوز سن کر کہتا ہے کہ ہم نے تو کہا تھا کہ جنگ کے میدان میں نہ جاؤ، اگر ہماری بات مانتے تو آج یہ حشر نہ ہوتا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَ مَا قُتِلُوْاۚ
اے ایمان والو! ان کافروں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا جب وہ سفر میں یا جہادمیں گئے کہ اگریہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے ۔ (سورت آل عمران: 156)
لیکن اصل بات یہ ہے کہ :
كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ
اللہ نے ان کا اٹھنا پسند ہی نہیں کیا، اس لیے انہیں سست پڑا رہنے دیا اور کہہ دیا گیا کہ جو (اپاہج ہونے کی وجہ سے) بیٹھے ہیں، ان کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو۔ (سورت توبہ: 46)
خدا ہمیں ایسی بے عقل "دانشمندی" سے بچائے اور جب تک جسم میں جان ہیں، اہل حق کے ساتھ کھڑا ہونے، ان کی مدد کرنے، ان کےلیے آواز بننے اور (بوقت مجبوری ) ان کے غم میں رونے کی توفیق بخشے ۔ آمین