Tulla Sharif تلہ شریف

Tulla Sharif تلہ شریف Well come My page lovers

گجرات: ڈپٹی کمشنر آفس گجرات کے مراسلہ نمبر 1804 کے مطابق عوام الناس  کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ضلع گجرات میں تمام سرکاری و ...
03/09/2025

گجرات: ڈپٹی کمشنر آفس گجرات کے مراسلہ نمبر 1804 کے مطابق عوام الناس کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ضلع گجرات میں تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے مورخہ 04 ستمبر 2025 بروز جمعرات بند رہیں گے۔

یہ فیصلہ حالیہ غیر معمولی گزشتہ 24 گھنٹوں میں 500 ملی میٹر سے زائد مون سون بارشوں اور شہری سیلاب کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر طلبہ، اساتذہ اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت اور سہولت کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

02/09/2025

عنوان: میوزک چھوڑنے کا حیرت انگیز علاج — صرف تین دن میں!

آج کے جدید دور میں میوزک سننا ایک عام عادت بن چکی ہے۔ نوجوانوں سے لے کر بڑوں تک، سبھی اکثر فارغ وقت میں کوئی نہ کوئی گانا ضرور سن رہے ہوتے ہیں۔ کوئی رومینٹک گانے کا دیوانہ ہے، تو کوئی ریپ یا کلاسیکل کا۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اس عادت سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ میوزک سننا چھوڑ دیں، مگر یہ عادت پیچھا نہیں چھوڑتی۔

ایسے ہی افراد کے لیے آج ہم لائے ہیں ایک آزمودہ نسخہ — ایسا نسخہ جو اگر صحیح نیت سے استعمال کریں تو تین دن میں موسیقی سے مستقل نجات مل سکتی ہے۔

علاج کا طریقہ:
اس نسخے پر عمل کرنے کے لیے کسی دوائی، ڈاکٹر یا دم درود کی ضرورت نہیں۔ کرنا صرف یہ ہے کہ:

صبح، دوپہر اور شام

چاہت فتح علی خان کے گانے مکمل توجہ سے سنیں

یہ عمل مسلسل تین دن تک جاری رکھیں

جی ہاں، بس اتنا ہی! نہ کوئی خرچ، نہ کوئی پریشانی۔ بس آپ اور چاہت فتح علی خان کی "جادوئی" آواز۔

ممکنہ نتائج:
پہلے دن ہی دماغ ہلکا سا سن ہونے لگے گا۔

دوسرے دن آپ کو گانے کی ہر دُھن ایک عذاب محسوس ہونے لگے گی۔

تیسرے دن آپ خود ہاتھ اٹھا کر کہیں گے:

“یااللہ! مجھے معاف کر دے، میں دوبارہ کبھی موسیقی نہیں سنوں گا!”

چوتھے دن آپ کا دل قرآن پاک کی تلاوت، نعتیں، اور ذکر و اذکار کی طرف مائل ہو جائے گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ اتنی دیر تک جو میوزک سکون لگتا تھا، وہ دراصل ایک شور تھا — اور سکون تو صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔

یہ نسخہ کیوں مؤثر ہے؟
کیونکہ چاہت فتح علی خان کی موسیقی میں ایسی "خوبیاں" ہیں جو موسیقی سے ہمیشہ کے لیے دِل اُچاٹ کر دیتی ہیں۔ آواز ایسی، الفاظ ویسے، اور دھن کچھ ایسی بے جوڑ کہ انسان کا دل چیخ اُٹھے:

“بس بہت ہوا... اب توبہ!”

اختتامیہ:
یہ تحریر اگرچہ طنزیہ انداز میں لکھی گئی ہے، لیکن اس کے پیچھے ایک سنجیدہ پیغام چھپا ہے۔ جب انسان دنیا کی بے مقصد آوازوں سے تنگ آ جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں اپنے کلام کی محبت ڈال دیتا ہے۔ قرآن وہ نور ہے جو اندھیرے دل کو روشن کر دیتا ہے، وہ آواز ہے جو روح کو سکون دیتی ہے۔

دعا:
اللہ تعالیٰ ہمیں موسیقی جیسی لغویات سے نجات دے اور اپنے پاک کلام سے دلوں کو روشن فرمائے۔ آمین۔

منجانب: ایڈمن تلہ شریف پیج

31/08/2025

انسان کی زندگی کا اصل حسن محنت اور جدوجہد میں چھپا ہوا ہے۔ جو لوگ محنت کرتے ہیں وہی معاشرے میں عزت پاتے ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بنتے ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مکمل صحت مند ہونے کے باوجود محنت کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ان کی اپنی زندگی کو تباہ کرتا ہے بلکہ معاشرے میں بھی ایک منفی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے۔

یہی منظر مجھے آج اس وقت دیکھنے کو ملا جب ایک مانگنے والا میری شاپ پر آیا۔ دیکھنے میں وہ بالکل صحت مند اور توانا لگ رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید یہ کسی مجبوری کی وجہ سے مانگ رہا ہو، اس لیے میں نے اسے سہولت دینے کی نیت سے کہا کہ قریب کے ایک سکول میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری ہے۔ اس کی تنخواہ بھی مناسب یعنی 18000 روپے ہے، اگر وہ چاہے تو وہاں کام کر سکتا ہے۔ لیکن میرے تعجب کی بات یہ تھی کہ اس نے فوراً ہی انکار کر دیا اور کہا کہ وہ یہ کام نہیں کر سکتا۔

میں نے سمجھا شاید یہ کام اسے مشکل لگ رہا ہو، تو میں نے دوسرا مشورہ دیا کہ ہمارے گھر مٹی ڈالنے کا ایک چھوٹا سا کام ہے، اگر وہ چاہے تو یہ کر سکتا ہے اور اس کے بدلے اسے اجرت بھی ملے گی۔ مگر اس نے پھر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر صاف انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ ہمارے ہمسائے ڈاکٹر عتیق صاحب کے بیٹے شاہ میر نے بھی کہا کہ ہمارے گھر گھاس ہے، وہ کاٹ دو، لیکن اس کام کے لیے بھی اس نے ہچکچاہٹ دکھائی اور صاف منع کر دیا۔

اس پورے واقعے سے ایک حقیقت بالکل واضح ہوتی ہے کہ یہ لوگ محنت کرنے سے جان بوجھ کر کتراتے ہیں۔ ایسے افراد کو نہ تو نوکری میں دلچسپی ہوتی ہے، نہ مزدوری میں، اور نہ ہی وہ کسی ہنر یا چھوٹے موٹے کام کو اپنانا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلایا جائے اور بغیر محنت کے پیسہ کمایا جائے۔ یہ سوچ انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ یہ انسان کی خودی، غیرت اور عزتِ نفس کو ختم کر دیتی ہے۔

ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ "محنت میں عظمت ہے"۔ واقعی ایک وقت کی روٹی اگر محنت سے کمائی جائے تو اس کا مزہ اور سکون بھیک مانگ کر کھانے میں کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن افسوس کہ آج کچھ لوگ یہ بھول گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب صحت مند جسم عطا کیا ہے تو اس کا شکر یہی ہے کہ انسان محنت کر کے اپنی روزی کمائے، نہ کہ ہاتھ پھیلا کر دوسروں پر بوجھ بنے۔

یہ واقعہ ہم سب کے لیے سبق ہے کہ ہمیں ایسے افراد کو سمجھانا اور شعور دینا چاہیے۔ ان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ عزت ہمیشہ محنت کرنے والے کو ملتی ہے۔ مزدوری چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی، بلکہ اصل عزت اس بات میں ہے کہ انسان اپنے پسینے کی کمائی کھائے۔ معاشرے کے افراد کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے مانگنے والوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں بلکہ انہیں محنت کی طرف راغب کریں۔

اگر آج ہم نے ان لوگوں کو سنجیدگی سے نہ سمجھایا تو کل یہ معاشرے کے لیے ایک بڑا بوجھ بن جائیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو بھی یہ تربیت دینی چاہیے کہ محنت سب سے بڑی دولت ہے اور بغیر محنت کے کمایا ہوا پیسہ کبھی دیرپا نہیں ہوتا۔

مختصر یہ کہ مانگنے والے کا انکار ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ انسان کی کامیابی اور عزت کا راز صرف اور صرف محنت میں ہے۔ بھیک مانگنا وقتی آسائش تو دے سکتا ہے لیکن یہ عزت اور وقار چھین لیتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ دوسروں کو بھی محنت کی ترغیب دیں اور خود بھی اپنی زندگی میں محنت کو شعار بنائیں، کیونکہ محنت کرنے والے ہی دراصل اس دنیا کے اصل کامیاب اور خوش نصیب انسان ہیں

منجانب ایڈمن پیج تلہ شریف

30/08/2025
30/08/2025

پاکستان یا رشوستان؟ ایک کڑوا سچ

1947 میں لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دیں، جانیں دیں، گھر بار چھوڑے تاکہ ایک آزاد ریاست ملے جہاں انصاف ہو، عزت ہو اور عوام سکون سے جی سکیں۔ لیکن آج پچھتر سال بعد اگر کوئی غیر جانبدار نظر ڈالے تو حقیقت یہ ہے کہ ہم آزاد نہیں ہیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں اور نام کے پاکستانی ہیں۔

یہ ریاست عوام کو کیا دے رہی ہے؟ نہ بجلی، نہ پانی، نہ گیس، نہ روزگار، نہ انصاف! ہر دروازے پر صرف ایک ہی چیز ہے: رشوت۔ کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ تھانے سے لے کر عدالت تک، دفتر سے لے کر ہسپتال تک، ہر جگہ رشوت کے بغیر عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

اگر یہ ملک رشوت کے نظام پر چل رہا ہے تو پھر اسے پاکستان کہنے کا کیا حق ہے؟ سچ یہ ہے کہ یہ اب پاکستان نہیں رہا، یہ "رشوستان" بن چکا ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں عوام غلام ہیں اور حکمران رشوت خور، جہاں ترقی نہیں بلکہ کرپشن ہی کرپشن ہے۔

لہٰذا جب تک انصاف قائم نہیں ہوتا، جب تک عوام کو سہولتیں نہیں ملتیں اور جب تک رشوت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک پاکستان کا اصل نام بدل کر "رشوستان" رکھ دینا چاہیے تاکہ دنیا کو بھی پتا چلے کہ یہاں کا اصل نظام کیا ہے۔

---

انقلابی پیغام

اے عوام! اب یہ تمہارے جاگنے کا وقت ہے۔ اب یہ کہنے کا وقت ہے کہ اگر یہ ملک ہمیں انصاف اور عزت نہیں دیتا تو پھر یہ پاکستان نہیں بلکہ رشوستان ہے۔ آزادی کے نام پر یہ دھوکہ اب مزید برداشت نہیں ہوگا۔

---

نعرہ

"یہ پاکستان نہیں — یہ رشوستان ہے!
ہمیں چاہیے اصل آزادی، ورنہ یہ صرف رشوستان ہے!"

منجانب ایڈمن تلہ شریف

27/08/2025

ماسٹر اعجاز صاحب کی طرف سے عوامی اپیل

ہمارے گاؤں تلہ شریف اور علی چک کے درمیان مرکزی راستہ ہر سال بارشوں کے موسم میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اب تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن اس راستے کی مکمل تعمیر یا پائیدار مرمت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہ صرف تلہ شریف اور علی چک کے لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جھنڈے والی، میانہ چک، باہر وال اور گلیانہ کی طرف سے آنے والے لوگ بھی یہی راستہ استعمال کرتے ہیں۔ یوں یہ راستہ کئی گاؤں کے لوگوں کے لیے بنیادی سہولت ہے۔

اس راستے پر ایک پلی بنی ہوئی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ پلی ہر سال بارشوں کی وجہ سے ٹوٹ جاتی ہے۔ مرمت کے نام پر وقتی حل نکال دیا جاتا ہے لیکن چند دن بعد پھر وہی حالت ہو جاتی ہے۔ عوام ہر سال اسی عذاب سے گزرتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ پلی صرف عارضی سہولت نہیں ہونی چاہیے، بلکہ یہاں ایک نئی، مضبوط اور پائیدار پلی تعمیر ہونی چاہیے تاکہ بارشوں یا سیلاب کے بعد بھی یہ راستہ محفوظ رہے اور عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہ پلی اس علاقے کے لوگوں کی زندگی اور آمدورفت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ طلبہ، مریض، بزرگ اور خواتین اسی راستے سے گزرتے ہیں۔ اگر پلی ٹوٹ جائے تو نہ صرف روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کو اسپتال لے جانا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ کسی ایک گاؤں کا مسئلہ نہیں بلکہ کئی گاؤں کے مشترکہ درد کی کہانی ہے۔

میں، ماسٹر اعجاز ، اپنی حیثیت میں ضلعی انتظامیہ، سرکاری اداروں اور سیاسی نمائندوں سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ اس مسئلے پر فوری توجہ دی جائے۔ صرف زبانی وعدے اور وقتی مرمت عوام کی تکلیف کا حل نہیں ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس کمزور اور ٹوٹنے والی پلی کی جگہ ایک نئی اور مضبوط پلی تعمیر کی جائے تاکہ آنے والے برسوں میں یہ عوام کے لیے سہولت کا باعث بنے۔

سیاسی جماعتوں سے بھی یہ سوال ہے کہ کیا عوام صرف ووٹ ڈالنے کے لیے ہیں؟ اگر عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں کیے جائیں گے تو پھر ان وعدوں اور دعوؤں کا کیا فائدہ؟ عوام اب عمل چاہتے ہیں، خالی باتیں نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق بات کہنے اور اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

---

منجانب: ماسٹر اعجاز صاحب (گاؤں تلہ شریف)

🌊 ایڈمن تلہ شریف پیج کی طرف سے پیغام 🌊یہ تصویر ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری کو ظاہر کر رہی ہے۔ حکومت بار بار وارننگ دی...
27/08/2025

🌊 ایڈمن تلہ شریف پیج کی طرف سے پیغام 🌊

یہ تصویر ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری کو ظاہر کر رہی ہے۔ حکومت بار بار وارننگ دیتی ہے کہ برساتی نالوں، دریاؤں اور پلوں کے قریب مت جائیں، کیونکہ اچانک پانی کے بہاؤ میں اضافہ کسی بھی وقت بڑے سانحے کا باعث بن سکتا ہے۔ مگر افسوس! عوام ان ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔

یہاں دیکھیں لوگ جوق در جوق پل پر جمع ہیں، نہ صرف اپنی جان کو بلکہ دوسروں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ کوئی موٹر سائیکل پر ہے، کوئی گاڑی میں، کوئی بچے ساتھ لے کر آیا ہوا ہے۔ اگر خدانخواستہ پانی کا دباؤ بڑھ گیا یا پل کو نقصان پہنچا تو اتنا بڑا حادثہ ہو سکتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہی لوگ حکومت کو الزام دیں گے کہ انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حکومت صرف وارننگ جاری کر سکتی ہے، سڑکیں بند کر سکتی ہے، میڈیا پر اعلانات کر سکتی ہے، لیکن اصل حفاظت عوام کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم خود لاپرواہی کریں گے تو پھر کسی کو الزام دینا بے معنی ہوگا۔

ایڈمن تلہ شریف پیج کی طرف سے تمام اہلِ گاؤں اور دوستوں سے گزارش ہے کہ:

دریاؤں، برساتی نالوں اور پلوں کے قریب ہرگز مت جائیں۔

اپنے بچوں اور گھریلو افراد کو بھی ان جگہوں سے دور رکھیں۔

ہنگامی صورتحال کو تماشہ بنانے کے بجائے احتیاط کو ترجیح دیں۔

اپنی اور دوسروں کی جان کی حفاظت کو اولین ترجیح دیں۔

یاد رکھیں زندگی اللہ کی دی ہوئی قیمتی امانت ہے، اور یہ کسی تماشے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ احتیاط کریں، محفوظ رہیں۔

✍️ ایڈمن: تلہ شریف پیج

27/08/2025

تلہ شریف گاؤں کا آج بارش کے بعد کا منظر

27/08/2025

تلہ شریف گاؤں کا آج بارش سے پہلے کا منظر

23/08/2025

اپنے سوہنے ڈھولن پینڈ تلہ شریف گاؤں کا پیارا سے موسم کا نظارہ کر لیں

22/08/2025

انشاء اللہ بہت جلد میں تلہ شریف پیج پر اپنے گاؤں تلہ شریف کے لوگوں کے لیے ایک بڑی خوشخبری سنانے والا ہوں۔ یہ خوشخبری صرف ایک شخص یا ایک خاندان کے لیے نہیں بلکہ پورے گاؤں کے لیے ہوگی۔ میری دلی خواہش ہے کہ یہ خوشی ہمارے گاؤں کے ہر گھر تک پہنچے اور سب لوگ اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔

اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس گاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ آنے والی خوشخبری بھی اسی بھائی چارے کو مزید مضبوط کرے۔ آپ سب کو تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا، لیکن انشاء اللہ یہ انتظار ضائع نہیں جائے گا۔

دعا ہے کہ یہ خوشی ہمارے گاؤں کی ترقی، خوشحالی اور اتحاد کا ذریعہ بنے۔ آمین۔

---

منجانب: ایڈمن تلہ شریف

21/08/2025

منافقت اور زندہ انسان کی ناقدری

ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ زندہ انسان کی قدروقیمت نہیں کی جاتی۔ جب کوئی شخص زندگی کی تلخیوں سے لڑ رہا ہوتا ہے، غربت، بیماری یا پریشانی کے بوجھ تلے دب رہا ہوتا ہے تو اس کے اپنے رشتہ دار، دوست حتیٰ کہ بھائی بھی اس کے حال تک پوچھنا پسند نہیں کرتے۔ اس کی صلاحیتیں، اس کی قربانیاں اور اس کی جدوجہد کسی کی نظر میں اہم نہیں ہوتیں۔ لوگ اسے نظرانداز کرتے ہیں، اس کے نام کا ذکر تک کرنے سے کتراتے ہیں۔

لیکن جیسے ہی وہی انسان دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، تو منظر بالکل بدل جاتا ہے۔ وہی لوگ جو اس کی زندگی میں اس کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھے، اچانک اس کے مداح بن جاتے ہیں۔ دشمن بھی اس کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں، اور عزیز و اقارب اس کے اچھے کردار کے چرچے کرنے لگتے ہیں۔ جنازے پر بھیڑ لگتی ہے، مگر زندگی میں ایک کپ چائے پلانے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ یہ رویہ محض ایک افسوسناک حقیقت نہیں بلکہ معاشرتی منافقت کی واضح مثال ہے۔

اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی پوری زندگی برائیوں میں گزار دے، دوسروں کے حقوق چھینے، ظلم کرے اور بداعمالیوں میں مشہور ہو، تب بھی جب وہ مر جاتا ہے تو یہی معاشرہ اس کی تعریفیں کرنے لگتا ہے۔ اس کے برے اعمال کو چھپایا جاتا ہے اور اس کی شخصیت کو اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے، گویا حقیقت پر پردہ ڈالنا ہی نیکی بن گئی ہو۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ برے انسان کو برا اور اچھے انسان کو اچھا کہنا ہی انصاف اور ایمانداری ہے۔

اصل قدر تو تب ہے جب انسان زندہ ہو۔ زندہ شخص کی خدمت، اس کی حوصلہ افزائی اور اس کے دکھ درد میں شریک ہونا ہی اصل نیکی اور انسانیت ہے۔ مرنے کے بعد جھوٹی تعریفیں یا دکھاوے کے الفاظ نہ تو مرنے والے کے کسی کام آتے ہیں اور نہ ہی یہ ہمارے ضمیر کو مطمئن کر پاتے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ زندہ انسان کو عزت دیں، اس کے اچھے اعمال کو سراہیں اور برائیوں پر اس کی اصلاح کریں۔ کیونکہ بعد کی تعریفیں اور جھوٹے القابات دینا محض ایک منافقت ہے جو ہمارے معاشرتی کردار پر سوالیہ نشان ہے۔

منجانب: ایڈمن تلہ شریف پیج

Address

Tula
Lala Musa
50200

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tulla Sharif تلہ شریف posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Tulla Sharif تلہ شریف:

Share