27/10/2025
تعلیم یا تجارت؟ — پاکستان کا المیہ
پاکستان دنیا کا شاید وہ واحد ملک ہے جہاں تعلیم کا مقصد سیکھنا نہیں، کمائی کرنا بن چکا ہے۔
یہاں تعلیم کو شعور، اخلاق یا سوچ کی وسعت کے لیے نہیں، بلکہ نوکری، ڈگری یا انگریزی بولنے کی قابلیت حاصل کرنے کے لیے اپنایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے علم کے مراکز کے بجائے سرٹیفکیٹ فیکٹریاں بن چکے ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم انسان کی شخصیت نکھارنے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔
لیکن پاکستان میں تعلیم کا مطلب ہے:
“کسی طرح ایک ڈگری مل جائے تاکہ نوکری لگ جائے، یا لوگ متاثر ہو جائیں کہ بچہ انگریزی بولتا ہے۔”
یہی سوچ ہمارے نظامِ تعلیم کو تباہ کر چکی ہے۔
اساتذہ علم دینے کے بجائے نصاب ختم کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں، اور طلبہ امتحان پاس کرنے کی۔
نتیجہ یہ ہے کہ ڈگریاں بڑھ گئیں، مگر علم کم ہو گیا۔
پاکستان میں انگریزی سیکھنا علم نہیں بلکہ اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے۔
اگر کوئی انگریزی بول لے تو اسے باشعور مانا جاتا ہے، چاہے کردار، اخلاق اور فہم سے خالی ہو۔
یہ سوچ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم آج بھی نوآبادیاتی دور کے ذہنی غلام ہیں۔
اپنی زبان، اپنے علم اور اپنی روایت پر شرمندگی — اور انگریزی پر فخر — یہی ہمارے تعلیمی زوال کی اصل جڑ ہے۔
پاکستان میں طالب علم تعلیم اس لیے حاصل کرتا ہے کہ "کسی طرح نوکری مل جائے"۔
اس سوچ نے تخلیقی صلاحیتوں کو مار دیا ہے۔
ہمارے نوجوان ملازمت ڈھونڈنے والے بن گئے ہیں، علم پیدا کرنے والے نہیں۔
تعلیم کا مقصد خود انحصاری اور جدت ہونا چاہیے، نہ کہ محض نوکری حاصل کرنا۔
پاکستان کو اس سوچ سے باہر نکلنا ہوگا کہ تعلیم صرف ڈگری یا روزگار کے لیے ہوتی ہے۔
جب تک ہم تعلیم کو شعور، تحقیق، اور معاشرتی اصلاح کا ذریعہ نہیں بنائیں گے،
تب تک ہمارے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں علم نہیں، صرف کاغذی اسناد پیدا کرنے والی فیکٹریاں رہیں گی۔
تحریر: ایڈمن پیج تلہ شریف