23/11/2025
بہت سے اسٹوڈنٹس آئے روز مجھے میسج کرتے کہ میں ان کو کسی پروفیسر سے پرسنل درخواست کر کے ایکسپٹینس لیٹر دلوا دوں اور یہ بھی کہتے کہ ان کے بہت سے دوستوں نے ایسے ہی ایکسپٹینس لیٹرز لیے۔ پہلی بات میں یہ کام اپنے بہن بھائی کےلیے بھی نہیں کروں گا، اور اسکی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ میں کسی کےلیے اپنا قائم کیا گیا ٹرسٹ داؤ پہ نہیں لگا سکتا۔ یقینا آپ کو یہ بات بری لگ رہی ہو گی لیکن اگر آپ خود پروفیشنل نہیں ہو سکتے تو آپ کو باہر ملک آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پاکستان نہیں جہاں آپ جب چاہیں اجازت کے بغیر کسی کے آفس میں گھس جائیں۔ مجھے تقریبا چائنہ میں چھ سال ہو گئے لیکن میں آج تک اپنے ذاتی سپروائزز کے علاوہ کسی دوسرے پروفیسر کے آفس ان کی اجازت کے بغیر نہیں گیا جسکی وجہ یہ کہ ان کا آفس کوئی پبلک آفس نہیں ہوتا کہ جو ہر کوئی اپنا مسئلہ یا درخواست لے کے اندر آجائے۔ بدقسمتی سے چائنہ میں موجود بہت سے پاکستانی اسٹوڈنٹس ایسا کرتے ہیں اور (اسکی وجہ صرف آپ لوگوں کا پریشر ہوتا ہے کہ ہماری لیے کچھ کریں) بغیر اجازت کے پروفیسرز کے آفسز آ جاتے ہیں اور ایسا ہی واقعہ کچھ دنوں پہلے میرے ادارے میں ہوا ہے۔ دو پاکستانی اسٹوڈنٹس کو بغیر اجازت ادارے اور پروفیسرز کے آفسز میں انٹر ہونے کی بنیاد پر اسکیورٹی نے اپنی تحویل میں لے لیا اور پو چھا آپ کس کی اجازت سے یہاں آئے ہیں اور کیا کرنے آئے ہیں۔ پھر وہ وہی پاکستانی باتیں کرنے لگے کہ دوست کو ملنے آئے ہیں۔ حالانکہ انکا اس ادارے میں کوئی دوست نہیں تھا اور انکی خوش قسمتی تھی کہ میرا ایک دوست اپنی لیب سے پانی لینے کےلیے باہر نکلا تو ان پاکستانیوں اسٹوڈنٹس نے اسے دیکھ لیا اور ریکوئسٹ کی ہمیں یہاں سے نکالو، خیر میرے دوست نے رحمدلی کے طور پر ایک فارم سائن کیا کہ میں نے انہیں بلایا تھا (جو کہ اس نے نہیں بلایا تھا) اور پھر انکو باہر نکالا۔ لیکن یہ سب ہو جانے بعد میرے دوست کو ادارے کے کوآرڈینٹر اور پروفیسر نے آفسز بلا کے کلاس لے کہ جب آپ نے کسی کو بلایا نہیں تو فارم کیوں سائن کیا؟ ہمارے پاکستانی اسٹوڈنٹس کی اس چھوٹی سے غلطی نے ہم گنتی کے چند طلبا کا امیج پورے ادارے میں خراب کر دیا۔ اب آپ خود سوچیں ایک ایسا ادارہ جہاں ہزراوں میں پیتھوجینک جراثیم رکھے گئے ہوں اور ان میں سے ایک بھی باہر آ جائے تو وہ کتنے لوگوں کو ایفیکٹ کرے گا؟ یہ حقیقت لکھنے کا مقصد آپ کو ایک بات سمجھانا ہے کہ ہر ایک چیز کا ایک فارمل پراسیس ہوتا ہے اگر آپ وہ طریقہ استعمال کریں گے تو آپ کی عزت و نفس بڑھے گے اور اسکے برعکس اگر آپ اپنے دوستوں یا رشتےداروں جو باہر ملک ہیں ان کو انفارمل طریقے کےلیے مجبور کریں گے تو یہ ان کےلیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔ اس لیے ایکسپٹینس لیٹر کبھی بھی انفارمل طریقے سے لینے کی کوشش نہ کریں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ ای میل کے ذریعے پروفیسرز سے رابطہ کریں اور ان سے درخواست کریں۔ اس طرح آپ نہ صرف ان کی پرائیویسی کا احترام کریں گے بلکہ ایک مناسب اور پروفیشنل انداز میں اپنا مسئلہ حل بھی کریں گے۔ باقی اگر آپ کو فارمل پراسیس میں کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہو۔ اللہ آپ سب کو کامیاب کرے۔۔۔!!